مستقل استغفار کی ضرورت

خطبہ جمعہ 13؍ جنوری 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا اللّٰہَ إِنَّنِیْ لَکُم مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَبَشِیْرٌ۔ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا إِلَیْْہِ یُمَتِّعْکُم مَّتَاعاً حَسَناً إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّیَ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ۔ (ھود: 3-4)

یہ سورۃ ہود کی آیات تین اور چار ہیں۔ ان کا ترجمہ ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مَیں یقینا تمہارے لئے اُس کی طرف سے ایک نذیر اور بشیر ہوں۔ نیز یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو۔ پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تو تمہیں وہ ایک مقررہ مدت تک بہترین سامانِ معیشت عطا کرے گا۔ اور وہ ہر صاحبِ فضیلت کو اُس کے شایانِ شان فضل عطا کرے گا۔ اور اگر تم پھر جاؤ تو یقینا مَیں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ دنیا میں آجکل کسی نہ کسی رنگ میں تقریباً ہر جگہ ہی فساد برپا ہے اور یہ انسان کا اپنی پیدائش کے اصل مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کو بھولنے کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب عبادت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور عبادت کیا ہے؟ صرف پانچ فرض پورا کرنے کے لئے پانچ وقت نمازیں ادا کرنا یا پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے۔ ان نمازوں کو بھی سنوار کر پڑھنے کی ضرورت ہے اور پھر صرف نمازوں کے ظاہری سنوار سے ہی عبادت کا حق ادا نہیں ہو جاتا بلکہ اپنے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی ہر معاملے میں پیروی کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ان صفات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی طرف سے بھر پور کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ جب یہ حالت ہو گی تو ایک انسان عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والا بن سکتا ہے، ایک مومن بن سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے یعنی اس قدرتفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں۔ ان کا خُلاصہ اور مغز کیا ہے؟‘‘ (بے انتہا تفاسیر بیان کی گئی ہیں، تفصیلیں بیان کی گئی ہیں، قرآن شریف میں احکامات ہیں، اُن کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ فرمایا کہ) ’’أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا اللّٰہَ  (ہود: 3) خداتعالیٰ کے سوا ہرگز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علّت غائی یہی عبادت ہے‘‘۔ (یہی اُس کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہے۔ ) ’’جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّاریات: 57) عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کجی کو دُور کرکے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے، جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے‘‘۔ (فصل لگانے سے پہلے) ’’عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مُعَبَّدٌ۔ جیسے سُرمہ کو باریک کرکے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنالیتے ہیں۔ اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا رُوح ہی رُوح ہو اس کا نام عبادت ہے۔ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے‘‘ (فرمایا کہ اگر یہ درستی اور صفائی شیشے کی کی جاوے) ’’تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے۔ اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پید اہوجاتے ہیں۔ پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 346-347۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہے عبادت کہ اپنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی خاطر کر لو۔ اس طرح زمین ہموار کرو جس طرح ایک زمیندار فصل لگانے سے پہلے کرتا ہے۔ اس طرح اپنے دل کو چمکاؤ جس طرح ایک صاف شفاف شیشہ چمک رہا ہوتا ہے جس میں اپنا چہرہ نظر آتا ہے۔ جب ایسی صورت ہو گی تو جس طرح زمیندار کی اچھی طرح تیار کی گئی زمین میں پھل لگتے ہیں اور اچھے پھل لگتے ہیں، اُسی طرح دل میں بھی، انسان کی روح میں بھی اچھے پھل لگیں گے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’جب تک ما سوائے اللہ کے کنکر اور سنگریزے زمینِ دل سے دور نہ کر لو اور اُسے آئینے کی طرح مصفّٰی اور سرمہ کی طرح باریک نہ بنا لو، صبر نہ کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 348۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ چیز ہے کہ مسلسل کوشش کرتے چلے جاؤ اور اُس وقت تک ایک مومن کو نہیں بیٹھنا چاہئے، صبر نہیں کرنا چاہئے جب تک اپنی یہ حالت نہ کر لے۔ پس آجکل کے فساد سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان براہِ راست کسی فساد میں یا شَرّ میں ملوث نہیں بھی ہوتا لیکن پھر بھی ماحول کے زیرِ اثر وہ فساد اور شر اُس پر بھی اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ اُن کا حصہ بن رہا ہوتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اُس میں ملوث ہو جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے نہ صرف حقوق کی ادائیگی نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ انسان لا شعوری طور پر ظلم میں بھی حصہ دار بن جاتا ہے۔ اس کی موٹی مثال تو آجکل احمدیوں کے ساتھ جو بعض ملکوں میں ہو رہا ہے اُس کی ہے۔ بعض لوگ جو احمدیت کے بارے میں کچھ جانتے بھی نہیں وہ بھی مخالفینِ احمدیت کی وجہ سے اور خاص طور پر پاکستان میں ملکی قانون کی وجہ سے بے شمار جگہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جہاں نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہاں دستخط کرتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کی عبادتیں لاشعوری طور پر خدا تعالیٰ کے بجائے ان دنیا داروں کے قرب حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ بظاہر وہ نمازیں ادا کر رہے ہیں لیکن دل میں نہ سہی لیکن لا شعوری طور پر وہ اُن نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ اور یہ چیز کہ جب دین کو دنیا کے ساتھ ملا لیا جائے اور دین میں جب بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جائے تو پھر حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی پامالی ہوتی ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں ہمیشہ اسی طرح سے ہوتا آیا ہے کہ ایک وقت میں آ کے دین میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے قوموں میں انبیاء کا سلسلہ جاری رکھا ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب دین اپنی اَصل سے ہٹ جائے، اُس کی روح ختم ہونی شروع ہو جائے تو پھر قوموں کو وارننگ کے لئے، اُن کو صحیح دین کی طرف واپس لانے کے لئے، عبادت کی روح قائم کرنے کے لئے، انبیاء براہِ راست خدا تعالیٰ سے رہنمائی پا کر اپنا کردار ادا کریں۔ اور جب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو جہاں آپؐ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حقیقی اسلوب اور طریقے مسلمانوں کو سکھائے گئے، ماننے والوں کو سکھائے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانِ کامل تھے جن میں خدا تعالیٰ کی صفات جس حد تک ایک بشر میں کاملیت کے ساتھ پیدا ہو سکتی ہیں، پیدا ہو گئیں تو پھر ہمیں حکم فرمایا کہ یہ رسول تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اس کی پیروی کرو گے تو مجھ تک پہنچو گے۔ یہ وہ رسول ہے جس کی نمازیں اور نوافل ہی عبادت نہیں تھے بلکہ ہر قول و فعل عبادت تھا۔ پس یہ عبادت کے معیار حاصل کرو۔ گو دین اب تا قیامت اس پیارے نبی کی لائی ہوئی شریعت سے مکمل ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے خود بھی فرما دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہلوایا کہ جس طرح ہمیشہ سے یہ طریق چلا آیا ہے کہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد دین میں اپنی بنیاد سے دوری پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح مسلمانوں میں بھی حالتِ فساد اور دین سے دوری پیدا ہوگی۔ باوجود اس کے کہ آپ آخری نبی ہیں۔ کوئی نبی آپ کے بعد شریعت لے کر نہیں آسکتا۔ آپ کی کتاب آخری شرعی کتاب ہے۔ اُس کے باوجود فرمایا کہ یہ حالت پیدا ہو گی کہ دین سے دوری پیدا ہو جائے گی اور جب یہ دوری اپنی انتہا کو پہنچے گی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ کا عاشقِ صادق دین کو دنیا پر قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گا اور عبادت کی حقیقت بیان کرے گا۔ اور وہ یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلامِ صادق ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہی کرے گا۔ لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک مسلمانوں کی اکثریت اس بات کو نہیں سمجھ رہی۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی حقیقی عبادت کی طرف بلا رہا ہے اُس سے دور رہ کر اپنے اپنے طریق پر مسلمانوں کا ہر فرقہ جو ہے وہ اپنا اپنا طریق اپنائے ہوئے ہے۔ جس سے دنیا میں، خاص طور پر مسلمان دنیا میں، سوائے فساد کے اَور کچھ پیدا نہیں ہو رہا۔ اور یہی نہیں بلکہ ایسے لوگ اسلام کی بدنامی کا بھی موجب بن رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے نذیر تھے، آج بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت کے آخر میں فرمایا کہ: اِنَّنِیْ لَکُمْ مِنْہُ نَذِیْرٌ وَ بَشِیْرٌ۔ میں تمہارے لئے اُس کی طرف سے ایک نذیر اور بشیر ہوں۔ پس آپؐ کا زمانہ تاقیامت ہے۔ آپ تاقیامت نذیر و بشیر ہیں۔ اور آج بھی اپنوں کو بھی اور غیروں کو بھی ہوشیار کرنے والے ہیں۔ نذیر کا مطلب صرف خوف دلانا نہیں ہے بلکہ اکثر خوف دلانا نذیر کا مطلب نہیں ہوتا بلکہ ہوشیار کرنا ہے تاکہ ہوشیار ہو جاؤ۔ ان خرابیوں سے بچو۔ برائیوں سے بچو۔ آپ یہی فرماتے ہیں کہ میں نذیر ہوں۔ اسلامی تعلیم کی حقیقت سے دور ہٹ کر دین و دنیا کے نقصانات کا مورد بنو گے۔ قطع نظر اس کے کہ تم کلمہ پڑھنے والے ہو، مجھ پر ایمان لانے والے ہو لیکن اگر دین پر پوری طرح کاربندنہیں تو پھر جو نقصانات ممکن ہو سکتے ہیں وہ تمہیں بھی ہوں گے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ اگر اس حقیقت کو سمجھ لوگے کہ آخرین میں مبعوث ہونے والا بھی قرآنی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے آیا ہے، عبادت کے طریقے سکھانے کے لئے آیا ہے تو پھر تمہیں دنیا و آخرت کی بشارتوں کی خوشخبری ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذریعے کے بارے میں بیان فرماتے ہیں۔ ’’ہاں یہ سچ ہے کہ انسان کسی مزکّی النفس کی امداد کے بغیر اس سلوک کی منزل کو طَے نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اس کے انتظام و انصرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے کامل نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا اور پھر ہمیشہ کے لئے آپؐ کے سچے جانشینوں کا سلسلہ جاری فرمایا‘‘۔ فرماتے ہیں ’’جیسے یہ امر ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ جو کسان کا بچہ نہیں ہے۔ نلائی (گوڈی دینے) کے وقت اصل درخت کو کاٹ دے گا‘‘ (پودوں کو کاٹ دے گا)۔ ’’اسی طرح پر یہ زمینداری جو رُوحانی زمینداری ہے کامل طور پر کوئی نہیں کرسکتا جب تک کسی کامل انسان کے ماتحت نہ ہو جو تخمریزی، آبپاشی، نلائی کے تمام مَرحلے طے کرچکاہو۔ اسی طرح سے معلوم ہوتاہے کہ مُرشد کامل کی ضرورت انسان کو ہے۔ مُرشدِ کامل کے بغیر انسان کا عبادت کرنا اسی رنگ کا ہے جیسے ایک نادان و ناواقف بچہ ایک کھیت میں بیٹھا ہوا اصل پودوں کو کاٹ رہا ہے اور اپنے خیال میں سمجھتا ہے کہ وہ گوڈی کررہا ہے۔ یہ گمان ہر گز نہ کرو کہ عبادت خود ہی آجائے گی۔ نہیں۔ جب تک رسول نہ سکھلائے انقطاع الی اللہ اور تبتّلِ تام کی راہیں حاصل نہیں ہوسکتیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف پوری توجہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ اُس کے آگے اُس کی پہچان نہیں ہو سکتی)۔ فرمایا کہ ’’پھر طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکل کام کیونکر حل ہو۔ اس کا علاج خود ہی بتلایا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 348۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اور اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے کیا بتلایا؟ علاج اس کااستغفار بتایا کہ استغفار کرو۔ خالص ہو کر استغفار کرو گے، اللہ تعالیٰ کے رسول کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے معافی مانگو گے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے دور رہنے کا عزم اور کوشش کرو گے تو وہ حقیقی استغفار ہو گا۔ لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سچے جانشینوں کو بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور پھر اس کے بعد اس زمانے میں بلکہ آئندہ زمانوں تک کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جانشین ہیں، جو خاتم الخلفاء ہیں۔ پس حقیقی استغفار کرنے والے اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کی یقینا خدا تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا اگر وہ سچے جانشین کی حقیقی اِتّباع بھی کرنے والا ہو اور اُس کے حکموں پر چلنے والا بھی ہو۔ وہ اُس کے بھیجے ہوئے فرستادے کو قبول کرے پھر اُس تعلیم پر عمل کرے جو دی جا رہی ہے۔ بہر حال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج استغفار بتایا ہے۔

دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں استغفار کا طریق سکھایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ استغفار کس طرح کرنی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: نیز یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تو تمہیں وہ ایک مقررہ مدت تک بہترین سامانِ معیشت عطا کرے گا اور وہ ہر صاحبِ فضیلت کو اُس کے شایانِ شان فضل عطا کرے گا۔ اور اگر تم پِھر جاؤ تو یقینا مَیں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ حقیقی استغفار کرنے والے کی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتاہے۔ اس آیت کے شروع میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو۔ اُس سے اُس کی مدد کے طالب ہو، اُس سے دعائیں کرو کہ وہ تمہارے دلوں کے زَنگ دھو کر خالص بندہ بنا دے۔ تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے وعدے کے مطابق مدد فرماتا ہے۔ لیکن اگر ایک شخص آج ایک راستہ اختیار کرتا ہے، کل دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے، استغفار میں مستقل مزاجی نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ استغفار نہیں ہے۔

پس حقیقی استغفار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُن جذبات و خیالات سے بچنے کی دعا مانگی جائے جو خدا تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے میں روک ہیں اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا، یہ جذبات دبانے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو پھر تُوْبُوْا اِلَیْہ کی حالت پیدا ہو گی۔ وہ حالت پیدا ہو گی جب انسان پھر مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جب یہ حالت ہو تو بندہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی استغفار اور توبہ صرف الفاظ دہرا لینا یا منہ سے اَسْتَغْفِرُاللّٰہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی اپنی حالت کی تبدیلی کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے۔ جب انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرتا ہے تو پھر انسان کے لئے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے دینی اور دنیاوی فائدے ملتے ہیں۔ دنیا و آخرت کے فائدے اسی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد انسان بنتا ہے۔

اس آیت کی روشنی میں استغفار کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’وَأَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا إِلَیْْہِ (ھود: 4) یادرکھو کہ یہ دوچیزیں اس اُمّت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے۔ دوسری حاصل کردہ قوت کوعملی طور پر دکھانے کے لئے‘‘۔ (ایک چیز جو ہے وہ قوت اور طاقت حاصل کرنے کے لئے ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جس سے انسان برائیوں اور گناہوں سے بچے۔ اور دوسری چیز یہ کہ جو قوت حاصل ہو گئی، جو طاقت حاصل ہو گئی پھر اُس کا عملی اظہار بھی ہو۔ پھر انسان کا ہر قول و فعل اُس کے مطابق ہو جو اللہ تعالیٰ نے احکامات دئیے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں ) فرمایا: ’’قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا۔ استغفار جو ہے اُس کا دوسرے لفظوں میں نام اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا ہے) ’’صُوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔ اسی طرح پر رُوحانی مگدر استغفار ہے‘‘۔ (مسلسل استغفار کرنے سے انسان کی روحانی حالت بہتر ہوتی ہے، طاقت آتی ہے) فرمایا کہ ’’اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوّت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے‘‘۔ (جو چاہتا ہے کہ اپنی روحانی طاقت میں اضافہ کرے اُس کو زیادہ سے زیادہ استغفار کرنی چاہئے) ’’غَفَر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ اِستغفار سے انسان اُن جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے جو خداتعالیٰ سے روکتے ہیں‘‘۔ (استغفار کرتے رہو تو ان جذبات اور خیالات کو انسان دبائے گا جو اس بات سے روکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی کی جائے۔ جو نیکیوں سے روکتے ہیں۔ اس کی تفصیل قرآنِ کریم میں سینکڑوں احکامات کی صورت میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر ایک آدھ حکم کو بھی اور نیکی کو بھی تم اہمیت نہیں دیتے تو اس کا مطلب ہے تم پوری کوشش نہیں کر رہے) فرمایا ’’پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ اُن پر غالب آوے‘‘۔ (اب زہریلے مواد کیا ہیں؟ شیطان کے مختلف حملے ہیں۔ دنیا کی چکا چوند ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں جن کے بارے میں نہ کرنے کا حکم ہے، اُن سے بچنا۔ یہ سب زہریلے مواد ہیں۔ تو جب استغفار کرے گا تو ان زہریلے مواد سے، ان بری باتوں سے، ان بدیوں سے انسان بچے گا اور نیکیاں جو ہیں ان برائیوں پر غالب آ جائیں گی) پھر فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔ یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں۔ ایک سمّی مادہ ہے جس کا مؤکل شیطان ہے‘‘ (یعنی ایک زہریلا مادہ ہے جس کی ترغیب دینے والا، جس کی طرف توجہ دلانے والا، جس سے کام لینے والا شیطان ہے، یہ زہریلا مادہ ہے) ’’اور دُوسراتریاقی مادہ ہے‘‘۔ (علاج کرنے کا مادہ ہے، برائیوں کا علاج کس طرح کیا جائے اور یہ دونوں چیزیں انسان کے اپنے اندر موجود ہیں، زہریلا مادہ بھی اور تریاقی مادہ بھی۔ برائیاں بھی انسان کے اندر موجود ہیں اور اچھائیاں بھی انسان کے اندر موجود ہیں۔ اگر اچھائیوں سے برائیوں کو نہیں دباؤ گے، نیکیوں سے برائیوں کو نہیں دباؤ گے، اللہ تعالیٰ کے غفران کے نیچے اُس کی مدد مانگتے ہوئے نہیں آؤ گے تو وہ برائیاں قبضہ جما لیں گی۔ )فرمایا کہ ’’جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مددنہیں لیتا تو سمّی قوت غالب آجاتی ہے‘‘ (پس جب استغفار نہیں ہوگا تو دلوں پر قبضہ کرنے والی جو چیز ہے وہ تکبر ہے جو استغفار سے بھی روکتی ہے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور جو تریاقی چشمہ ہے، جو استغفار ہے، اُس سے اگر مددنہیں لیتا تو زہریلی قوت جو ہے وہ پھر انسان پر غالب آ جاتی ہے)۔ فرمایا: ’’لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہہ نکلتی ہے۔ اور یہی استغفار کے معنی ہیں‘‘۔

پس حقیقی استغفار کیا ہے؟ ایسی استغفار جس سے روح گداز ہو کر بہہ نکلے۔ اور یہ روح گداز ہونا زبانی منہ سے استغفار کرنا نہیں ہے بلکہ وہ استغفار ہے کہ دل سے ایک جوش کی صورت میں استغفار نکلنی چاہئے۔ اور جب یہ نکلتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے آنکھ کے پانی کی صورت میں بہتی ہے تو پھر یہ ایک انسان میں انقلاب پیدا کرتی ہے اور تبدیلی لاتی ہے۔

فرمایا: ’’یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے‘‘۔ (جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ استغفار سے طاقت آتی ہے۔ اور وہ طاقت اُس استغفار سے آتی ہے جو دلی جوش سے نکل رہا ہو جیسا کہ بیان ہواہے اور آنکھ کے پانی کی صورت میں اُس کا اظہار ہو رہا ہو۔ وہ استغفار حقیقی استغفار ہے جو انسان میں ایک تبدیلی پیدا کرتا ہے)۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو۔ اوّل رسول کی اطاعت کرو۔ دوسرے ہر وقت خدا سے مدد چاہو‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہاں پہلے اپنے ربّ سے مدد چاہو۔ جب قوت مل گئی تو تُوْبُوْا اِلَیْہِ یعنی خدا کی طرف رجوع کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 348-349۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق رسول کی اطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا ہے۔ پس اوّل رسول کی اطاعت ہے۔ پھر مسلسل اللہ تعالیٰ کی طرف اگر انسان جھکا رہے گا، اُس سے مدد مانگتا رہے گا تو تب وہ حالت پیدا ہو گی جو تُوْبُوْا اِلَیْہِ کی حالت ہے تاکہ اللہ تعالیٰ پھر توبہ قبول کر کے اُس کو برائیوں سے روکے۔

تُوْبُوْا اِلَیْہِ کو مزید کھولتے ہوئے ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدّم ہے‘‘۔ (یعنی استغفار توبہ سے پہلے ہے اور اہم ہے) ’’کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خداسے حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے‘‘۔ (استغفار پہلے ہے کہ اس سے مدد اور قوّت ملتی ہے، طاقت ملتی ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے آنسو بہائے جاتے ہیں۔ دل ہر قسم کی ملونی سے صاف کیا جاتا ہے۔ تو یہ اس لئے پہلے ہے کہ جب یہ استغفار ہو گی اور اللہ تعالیٰ سے مانگو گے اور جب یہ ہو جائے گا تو پھر انسان کا دوسرا قدم جو ہے وہ توبہ ہے جو اپنے پاؤں پر مستقل مزاجی سے کھڑا ہونا ہے۔ توبہ کے لئے بھی پھر مستقل مزاجی سے استغفار کرتے ہوئے توبہ کی حفاظت کرنی ہو گی۔ صرف کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرنا جس طرح آجکل بعض جگہوں پر رواج ہے یہ توبہ نہیں ہے بلکہ پہلے استغفار سے قوت حاصل کرو۔ پھر اُس مقام پر پہنچو جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے، نیکیوں کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو جائے۔ یہ توبہ ہو گی اور جب یہ حاصل ہو گی تو پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے استغفار ضروری ہے) فرماتے ہیں کہ ’’عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوّت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوْبُوْا اِلَیْہِ ہے۔ اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے۔ غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے۔ سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوّت نہ پائے گا، کیا کر سکے گا۔ توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے۔ اگر استغفار نہ ہوتو یقینا یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مر جاتی ہے۔ پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر توبہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا۔ یُمَتِّعْکُم مَّتَاعاً حَسَناً إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی (ھود: 4)‘‘ (کہ ایک مقررہ میعاد تک اللہ تعالیٰ اچھی طرح والا سامان عطا کرے گا)۔ فرمایا کہ ’’سنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے۔ ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے‘‘۔ (یعنی ہر ایک چیز کو حاصل کرنے کی جو قوت ہے، کسی چیز کو دریافت کرنے کی قوت، حاصل کرنے کی جو قوت ہے، پانے کی قوت ہے، طاقت ہے، اُس کے لئے ایک دائرہ ہے) ’’جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے‘‘۔ (اپنی اپنی استعداد کے مطابق ایک دائرہ ہے جس میں ہر انسان اپنی ترقی کے جو درجے جو ہیں وہ حاصل کرتا ہے) فرمایا کہ ’’ہر ایک آدمی نبی، رسول، صدیق، شہیدنہیں ہو سکتا‘‘۔ (یہ بالکل ٹھیک ہے لیکن فرماتے ہیں کہ) ’’غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضلِ درجات امر حق ہے‘‘۔ (یہ بالکل ٹھیک ہے کہ ہر ایک ہر مقام پر نہیں پہنچ سکتااور جو درجوں میں فضیلت ہے وہ قائم ہے۔ فرمایا کہ) ’’اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواظبت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پا لے گا‘‘۔ (مواظبت کا مطلب ہے کوشش کرتے چلے جانا اور مستقل مزاجی سے کام پر لگے رہنا، ان کاموں میں جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اگر مستقل مزاجی سے لگا رہے گا، کوشش کرتا رہے گا تو ہر انسان جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پانے کی جو بھی اپنی کوشش کر رہا ہے، اپنی استعداد کے مطابق جو بھی اُس کی استعداد ہے، وہ اپنے درجے اور مرتبے کو پا لے گا) ’’یہی مطلب ہے اس آیت کا وَیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ (ھود: 4)‘‘ (کہ ہر ایک فضیلت والے شخص کو اپنا فضل عطا فرمائے گا۔ اور جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ اس فضیلت کی وجہ سے، دینی برکات روحانی برکات ہر ایک کو اس زمانے میں بھی ملتی ہیں، اور اگلے جہان میں بھی ملتی ہیں )۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہے توخدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا‘‘ (یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کس کو کتنا دینا ہے۔ وہ فضل بھی ساتھ چل رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بے انتہا بڑھا کر دینا چاہتا ہے تو اس توبہ اور استغفار کی وجہ سے پھر اُس کو اللہ تعالیٰ بڑھا کر بھی دے دے گا لیکن پہلی شرط یہی ہے کہ مجاہدہ ہو اور استغفار ہو اور توبہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بڑھائے گا) فرمایا کہ ’’اور اپنے فضل کو پا لے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے۔ ذِی الْفَضل کی اضافت مَلکی ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کیونکہ مالک ہے، طاقتور ہے، اُس کی اپنی وجہ سے یہ اضافہ ہے۔ صرف محنت کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ مالک ہونے کی وجہ سے اپنے فضل کو بڑھا کر جتنا مرضی چاہے دے سکتا ہے اور یہ بہر حال ہے کہ اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والوں اور اپنی طرف بڑھنے والوں اور کوشش کرنے والوں کو اپنے فضل سے نوازتا ہے)فرمایا کہ ’’ذِی الْفضل کی اضافت مَلکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ محروم نہ رکھے گا‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ میاں ہم نے کوئی ولی بنناہے؟ جو ایساکہتے ہیں وہ دنی الطبع کافر ہیں‘‘۔ (یعنی گناہگار ہیں، کافر ہیں ) ’’انسان کو مناسب ہے کہ قانون قدرت کو ہاتھ میں لے کر کام کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 349-350۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنایا ہوا ہے، استغفار توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے، اُس کو استعمال کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی پوری کوشش کرو۔ باقی اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں۔ وہ ہر ایک کواُس کے درجے کے مطابق، اُس کی استطاعت کے مطابق نوازتا ہے۔

اس علمی اور روحانی باتوں کی جو بحث تھی اس کے ساتھ اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجالس کی کچھ باتیں بیان کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس میں لوگ سوال کرتے تھے، ایک ایسی مجلس میں آپ نے استغفار کی اہمیت آپ نے کس طرح واضح فرمائی، اس بارے میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ میں کیا وظیفہ پڑھا کروں؟۔ اُس زمانے میں بھی رواج تھا، لوگوں کو وظیفہ پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ اب بھی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ:

’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں یا تو وہ گناہ نہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بدانجام سے بچا لے‘‘۔ (دو انسان کی حالتیں ہیں یا گناہ نہ کرو اور اگر گناہ ہو گیا ہے اور غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس گناہ کے بد انجام سے انسان کو بچائے)۔ فرمایا کہ ’’سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے‘‘۔ (جب استغفار پڑھ رہے ہو تو دونوں معنوں کا لحاظ رکھو۔ یہ بہت بڑا وظیفہ ہے کہ ایک تو انسان گناہ نہ کرے، گناہ سے بچنے کی دعا مانگے اور پھر یہ کہ اگر ہو گیا ہے تو اُس کا بد انجام ظاہر نہ ہو۔ فرمایا) ’’ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہئے۔ اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچائے۔ مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل سے چاہئے۔ نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو۔ یہ ضروری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 525۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہے استغفار کا مقصد کہ گناہ کی معافی اور گناہ سے بچنا۔ ا ور گناہوں کی تفصیل جاننے کے لئے قرآنِ کریم کے احکامات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر ایک مجلس میں ایک شخص آیا۔ مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اُس مجلس میں بیٹھے تھے، اُن کا واقف تھا۔ جب اُن کو آ کے ملا، تو انہوں نے اُس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا کہ یہ شخص کئی پیروں، فقیروں اور گدیوں میں پھرا ہے، بڑے مشائخ کے پاس سے ہو کے آیا ہے۔ اب یہ یہاں آیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس سے فرمایا کہ کیا کہتے ہو؟ بتاؤ۔ تو کہنے لگا: ’’حضور! میں بہت سے پیروں کے پاس گیاہوں۔ مجھ میں بعض عیب ہیں۔ اول میں جس بزرگ کے پاس جاتا ہوں، تھوڑے دن رہ کر پھر چلا آتا ہوں اور طبیعت اُس سے بد اعتقاد ہو جاتی ہے۔ دوم مجھ میں غیبت کرنے کا عیب ہے۔ سوم عبادت میں دل نہیں لگتا۔ اَور بھی بہت سے عیب ہیں۔ حضرت اقدس (نے فرمایا کہ): مَیں نے سمجھ لیا ہے، اصل مرض تمہارا بے صبری کا ہے۔ باقی جو کچھ ہے اس کے عوارض ہیں‘‘۔ (اصل مرض، بیماری جو ہے وہ تمہاری بے صبری ہے۔ باقی تو اُس کی ذیلی مرضیں ہیں )۔ ’’دیکھو انسان اپنے دنیا کے معاملات میں جبکہ بے صبر نہیں ہوتا اور صبر و استقلال سے انجام کا انتظار کرتا ہے پھر خدا کے حضور بے صبری لے کر کیوں جاتا ہے۔ کیا ایک زمیندار ایک ہی دن میں کھیت میں بیج ڈال کر اُس کے پھل کاٹنے کی فکر میں ہو جاتا ہے؟ یا ایک بچہ کے پیدا ہوتے ہی کہتا ہے کہ یہ اسی وقت جوان ہو کر میری مدد کرے۔ خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں اس قسم کی عجلت اور جلد بازی کی نظیریں اور نمونے نہیں ہیں۔ وہ سخت نادان ہے جو اس قسم کی جلد بازی سے کام لینا چاہتا ہے۔ اُس شخص کو بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا چاہئے جس کو اپنے عیب، عیب کی شکل میں نظر آ جاویں‘‘۔ وہ شخص بڑا خوش قسمت ہے جس کو اپنے اندر کی برائیاں اور عیب نظر آ جائیں ’’ورنہ شیطان بدکاریوں اور بد اعمالیوں کو خوش رنگ اور خوبصورت بنا کر دکھاتا ہے‘‘۔ (یہ تو بہت بڑی خوبی ہے کہ اگر انسان کو احساس ہو جائے کہ میرے اندر یہ یہ برائیاں ہیں۔ کیونکہ شیطان تو اپنا کام کر رہا ہے وہ تو برائیوں کو بھی اچھا کر کے دکھاتا ہے)۔ فرمایا کہ ’’پس تم اپنی بے صبری کو چھوڑ کر صبر اور استقلال کے ساتھ خدا تعالیٰ سے توفیق چاہو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ بغیر اس کے کچھ نہیں ہے۔ جو شخص اہل اللہ کے پاس اس غرض سے آتا ہے کہ وہ پھونک مار کر اصلاح کر دیں وہ خدا پر حکومت کرنی چاہتا ہے۔ یہاں تو محکوم ہو کر آنا چاہئے۔ ساری حکومتوں کو جب تک چھوڑتا نہیں، کچھ بھی نہیں بنتا۔ جب بیمار طبیب کے پاس جاتا ہے تو وہ اپنی بہت سی شکایتیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (ڈاکٹر کے پاس انسان جاتا ہے تو اپنے مرض بیان کرتا ہے)۔ ’’مگر طبیب شناخت اور تشخیص کے بعد معلوم کر لیتا ہے کہ اصل میں فلاں مرض ہے۔ وہ اس کا علاج شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح سے تمہاری بیماری بے صبری کی ہے۔ اگر تم اس کا علاج کرو تو دوسری بیماریاں بھی خدا چاہے تو رفع ہو جائیں گی۔ ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہ ہو اور اُس وقت تک طلب میں لگا رہے جب تک کہ غر غرہ شروع ہو جاوے‘‘۔ (آخری سانس تک لگا رہے۔ ) ’’جب تک اپنی طلب اور صبر کو اس حد تک نہیں پہنچاتا، انسان بامرادنہیں ہو سکتا‘‘۔ (پس یہ مقام ہے صبر کا کہ آخری سانس تک انسان کوشش کرتا رہے۔ ) فرمایا کہ ’’اور یوں خدا تعالیٰ قادر ہے۔ وہ چاہے تو ایک دم میں بامراد کر دے‘‘۔ (یہ ضروری بھی نہیں کہ آخری سانس تک ہو۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ ایک دم، پہلی دفعہ، ایک دعا سے ہی، ایک سجدے سے ہی دعا قبول کر لیتا ہے۔ ) ’’مگر عشقِ صادق کا یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ راہِ طلب میں پویاں رہے‘‘۔ (یعنی مستقل مزاجی سے دوڑتا رہے، چلتا رہے۔ ) ’’سعدی نے کہا ہے‘‘۔ (ایک فارسی شعر ہے):

’’گر نباید بدوست راہ بردن

شرطِ عشق ہست در طلب مُردن‘‘

(کہ اگر دوست تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو عشق کی بنیادی شرط اُس کی طلب میں، خواہش میں مرنا ہے۔ اُس کو پانے کے لئے، اُس کی طلب میں، خواہش میں مرنا یہ بنیادی شرط ہے۔ ) فرماتے ہیں کہ ’’مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مرض مستوی اور ایک مرض مختلف‘‘۔ (دو قسم کے مرض ہیں ایک بیماری کا نام مستوی اور ایک مختلف۔ یہ نام نہیں بلکہ قسم ہے۔ بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک مرض مستوی کہلاتا ہے، ایک مختلف)۔ ’’مرض مستوی وہ ہوتا ہے جس کا درد وغیرہ محسوس ہوتا ہے۔ اُس کے علاج کا تو انسان فکر کرتا ہے اور مرض مختلف کی چنداں پرواہ نہیں کرتا‘‘۔ (بعض چھپے ہوئے مرض ہوتے ہیں جن کا احساس نہیں ہوتا اُن کی پرواہ نہیں کرتا۔ ) ’’اسی طرح سے بعض گناہ تو محسوس ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اُن کو محسوس بھی نہیں کرتا۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہر وقت انسان خدا تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے۔ … خدا تعالیٰ نے تو اصلاح کے لئے قرآنِ شریف بھیجا ہے۔ اگر پھونک مار کر اصلاح کر دینا خدا تعالیٰ کا قانون ہوتا تو پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک مکّہ میں کیوں تکلیفیں اُٹھاتے۔ ابوجہل وغیرہ پر اثر کیوں نہ ڈال دیتے؟‘‘ (دعا سے فوراً اثر ہو جاتا)۔ ’’ابو جہل کو جانے دو۔ ابوطالب کو تو آپؐ سے بھی محبت تھی‘‘ (یعنی ابو طالب سے آپ کو محبت تھی لیکن اُس کے باوجود مسلمان نہیں ہوئے۔ ) ’’غرض بے صبری اچھی نہیں ہوتی، اس کا نتیجہ ہلاکت تک پہنچاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 528-529۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں ایک شخص نے قرض کے متعلق دعا کی درخواست کی کہ میرا قرض بہت چڑھ گیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے‘‘ (غموں سے بچنے کے لئے، اُن کو دُور کرنے کے لئے یہ طریق ہے کہ استغفار پڑھو۔ یعنی غموں کو ہلکا اور کم کرنے کے لئے استغفار کرنا چاہئے۔ پھر فرمایا) ’’استغفار کلیدِ ترقیات ہے‘‘۔ یعنی تمہاری ترقیات کی چابی استغفار میں ہے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 442۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ استغفار ترقیات کے دروازے تب کھولے گی، وہ تالے تب کھلیں گے جب ویسی استغفار ہو جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ کس طرح انسان کو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے۔

ایک شخص کے یہ کہنے پر کہ میرے لئے دعا کریں میرے اولاد ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’استغفار بہت کیا کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتاہے۔ یاد رکھو یقین بڑی چیز ہے‘‘۔ (یعنی جب استغفار کر رہے ہو تو خدا تعالیٰ پر کامل یقین بھی ہونا چاہئے۔ ) ’’جو شخص یقین میں کامل ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 444۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ انسان کو کمزوریوں سے بچنے کے لئے استغفار بہت پڑھنا چاہئے۔ ’’گناہ کے عذاب سے بچنے کے لئے استغفار ایسا ہے جیسا کہ ایک قیدی جرمانہ دے کر اپنے تئیں قید سے آزاد کرا لیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 507۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ’’بعض لوگوں پر دکھ کی مار ہوتی ہے اور وہ ان کی اپنی ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔مَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ (الزلزال: 9) پس آدمی کو لازم ہے کہ توبہ و استغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے کہ ایسا نہ ہو، بد اعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں۔ جب خدا تعالیٰ کسی پر فضل کے ساتھ نگاہ کرتا ہے تو عام طور پر دلوں میں اس کی محبت کا القاء کر دیتا ہے‘‘ (جب اللہ تعالیٰ کا فضل کسی پر ہوتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں بھی اُس کے لئے محبت پیدا کر دیتا ہے) ’’لیکن جس وقت انسان کا شر حد سے گزر جاتا ہے، اس وقت آسمان پر اس کی مخالفت کا ارادہ ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے منشا ء کے موافق لوگوں کے دل سخت ہوجاتے ہیں‘‘، (جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ اس پر فضل کی نظر نہیں کرنی تو پھر لوگوں کے دل بھی اُس کے لئے سخت ہو جاتے ہیں ) ’’مگر جونہی وہ توبہ و استغفار کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گر کر پناہ لیتا ہے تو اندر ہی اندر ایک رحم پیدا ہو جاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ اس کی محبت کا بیج لوگوں کے دلوں میں بو دیا جاتا ہے‘‘۔ (ہاں جب انسان سخت دل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہ بنے، اللہ تعالیٰ کا اُس سے اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے پھر اظہار ہو رہا ہو تو لوگوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ استغفار کرتا ہے، توبہ کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ استغفار قبول کر لیتا ہے، توبہ قبول کر لیتا ہے اور پھر اُس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں اُس کے لئے رحم پیدا ہو جاتا ہے، محبت پیدا ہو جاتی ہے) فرمایا ’’اس کی محبت کا بیج لوگوں کے دلوں میں بو دیا جاتا ہے۔ غرض توبہ و استغفار ایسا مجرب نسخہ ہے کہ خطا نہیں جاتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 196-197۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

آج مختلف ملکوں میں ان دنیا داروں کی بد اعمالیاں ہی ہیں جنہوں نے ایک فتنہ اور فساد برپا کیا ہوا ہے۔ وہی لیڈر جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو عوام کا محبوب سمجھتے تھے، عوام کی نظر میں بد ترین مخلوق ہو چکے ہیں اور جو اپنے خیال میں اپنے مقام کو قائم کئے ہوئے ہیں۔ ابھی بھی اُن کی نظر میں یہ ہے کہ ہم عوام کے بہت محبوب ہیں، پسندیدہ ہیں۔ آثار ایسے ظاہر ہو رہے ہیں کہ اُن کی بھی باری آنے والی لگتی ہے۔ غرض کہ دنیا میں یہ ایک فساد پیدا ہوا ہوا ہے۔ اُس کے نتیجے میں جو حکومتیں بدلی ہیں اُس نے مزید فساد پیدا کر دیا ہے اور آئندہ مزید کتنے فساد پیدا ہونے ہیں یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اس لئے ہمیں بہت دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو فسادوں سے بچائے۔

پس استغفار جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مقصد کو پورا کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور زمانے کے فسادوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے انسان کو بچاتا ہے۔ اُن راستوں پر چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے راستے ہیں جن سے دنیا و آخرت سنورتی ہے، وہاں انسان کی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مشکلات سے نکالنے کا بھی ذریعہ بنتا ہے جیسا کہ بہت سارے واقعات میں نے پڑھے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت فرمائی۔ انسان استغفار سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کا بھی وارث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر فضل فرمایا کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جس نے ہمیں عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور اُس کے فضلوں کو سمیٹنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ لیکن اس سے حقیقی فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں مستقل استغفار کرتے چلے جانے کی بھی ضرورت ہے جسے ہر احمدی کو حرزِ جان بنانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 13؍ جنوری 2012ء شہ سرخیاں

    استغفار جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مقصد کو پورا کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور زمانے کے فسادوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے انسان کو بچاتا ہے۔ اُن راستوں پر چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے راستے ہیں جن سے دنیا و آخرت سنورتی ہے، وہاں انسان کی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مشکلات سے نکالنے کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر فضل فرمایا کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہےجس نے ہمیں عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور اُس کے فضلوں کو سمیٹنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ لیکن اس سے حقیقی فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں مستقل استغفار کرتے چلے جانے کی بھی ضرورت ہے جسے ہر احمدی کو حرزِ جان بنانا چاہئے۔  اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

    فرمودہ مورخہ 13؍جنوری 2012ء بمطابق 13؍صلح 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور