صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صبر و استقامت اور دینی غیرت کی ایمان افروز روایات

خطبہ جمعہ 13؍ اپریل 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’جب تک استقامت نہ ہو بیعت بھی ناتمام ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلاؤں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک اُن میں سے انسان گزر نہ لے منزل مقصود کو پہنچ نہیں سکتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’امن کی حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بننے کو تیار ہے۔ مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 515۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ نے ایک جگہ یہ تلقین فرماتے ہوئے کہ استقامت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے فرمایا کہ:

’’درود شریف جو حصولِ استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔ مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اور احسان کو مدِّ نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیتِ دُعا کا شیریں اور لذیذ پھل تُم کو ملے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 38۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر ایک موقع پر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

’’دل کی استقامت کے لئے بہت استغفار پڑھتے رہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 183۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کی کچھ روایات جن میں اُن کے صبر و استقامت پر روشنی پڑتی ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اُن کے ساتھ کیا پیار کا سلوک ہوتا تھا؟ کس طرح اُن کی دعائیں بھی قبول ہوتی تھیں؟ اُس کے بارے میں بیان کروں گا۔

حضرت نور محمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ 7؍جنوری 1906ء کو میں مع عیال خود بلوچستان چلا گیا۔ (بلوچستان میں تھے) وہاں پہنچ کر جب میرے استاد مولوی محمد صاحب امام مسجد اہلحدیث نے سنا تو مجھ کو طلب کیا۔ (یعنی قادیان آئے تھے وہاں سے بیعت کر کے واپس گئے) اور کہا کہ مرزا صاحب کتابوں میں تو اچھا لکھتے ہیں مگر درپردہ تلقین کچھ اور کرتے ہیں۔ (یعنی لکھتے کچھ اور ہیں اور کہتے اپنے مریدوں کو کچھ اور ہیں۔) کہتے ہیں چنانچہ حضرت اقدس کے حضور خط لکھ کے عرض کیا گیا تو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قلم سے جواب ملا کہ ہماری تلقین دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل پر کمی یا زیادتی کرنے والا لعنتی ہے۔ یہ جواب جب مولوی صاحب کو دکھایا گیا تو اُس نے اور تو کچھ نہ کہا، صرف یہ کہا کہ سناؤ تم کو بھی الہام ہوا ہے یا نہیں۔ (یعنی مذاق اُڑانا شروع کیا) تو مَیں نے کہا کہ ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اخبار میں یہ پڑھ کر کہ لوگوں کو ہمارے متعلق خدا سے پوچھنا چاہئے، تو مَیں نے دعا کی تھی اور مجھے الہام ہوا تھا کہ ’’صادق ہے، قبول کر لو‘‘۔ اس کے بعد کہتے ہیں مَیں جدھر جاتا، بازار میں چلتا، بلکہ دفتر کے اندر باہر مجھے چڑانے کے لئے لوگ آوازیں کستے اور مجھے چھیڑنے کے لئے کہ مَیں مسیح موعود کی بیعت کر کے آیا ہوں تو چپڑاسی کو کوئی افسر کہہ رہا ہے کہ حقہ موعود لے کر آؤ، بلی موعود کو مارو، کاغذ موعود لاؤ۔ اس قسم کی بیہودہ قسم کی باتیں شروع کر دیں، وغیرہ وغیرہ۔ تو کہتے ہیں کہ میری اُس وقت کی دعائیں یہ ہوتی تھیں کہ اے مولیٰ کریم! حضرت مسیح موعود کے طفیل میری فلانی دعا قبول فرما۔ اور ہر اتوار کو حضرت اقدس کے حضور عریضہ لکھ دیا کرتا۔ چنانچہ ایک دعا میری یہ تھی کہ بطفیل حضرت صاحب کوئٹہ سے ترقی پر میری تبدیلی فرما کیونکہ میرا افسر خان بہادر محمد جلال الدین سی آئی ای پولیٹیکل ایڈوائزر قلاّت تھا اور وہ بھی احمدیت کا سخت مخالف تھا تو مَیں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے دفتر سے تبدیل فرما دے اور تبدیلی بھی ترقی کے ساتھ ہو۔ کہتے ہیں تین روز نہیں گزرے تھے کہ میں مستوفی صاحب لاڑی کا سرشتہ دار ہو کر تبدیل ہو گیا۔ وہاں پہنچتے ہی جب مَیں نے دیکھا کہ مَیں تنہا ہوں تو حضرت صاحب کے حضور روزانہ دعا کے لئے ایک کارڈ لکھنا شروع کیا۔ پھر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُس کے نتیجے میں وہاں بارہ آدمی ایک سال کے اندر اندر احمدی بنائے اور اس کثرت سے مجھ پر الہامات کا دروازہ کھلا کہ کوئی رات نہ جاتی تھی کہ کوئی نہ کوئی الہام نہ ہوتا ہو۔

روایت کے رجسٹر میں یہاں لکھنے والے نے کچھ آگے پیچھے لکھا ہوا ہے بہر حال پھر آگے روایت یہ چلتی ہے کہ شادی خان نامی ایک قصاب تھا جو احمدی ہو گیا اور وہاں ایک میاں گل صاحب بھی تھے جو بلوچوں کے سردار تھے اور اُن کو بھی جب پتہ لگا کہ شادی خان احمدی ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنے لوگوں کو کہا کہ شادی خان کا گوشت جو قصائی کی دکان سے خریدتے تھے وہ پھینک دو اور یہ احمدی ہے اس کو مارو۔ چنانچہ وحشی مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔ اُس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور مقدمہ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر سبّی بلوچستان کے حضور داد رسی کی درخواست دی گئی تو مقدمہ دائر کرنے کے بعد کہتے ہیں مجھ کو الہام ہوا کہ شادی خان کا مکان بچایا جاوے گا۔ مَیں نے سب دوستوں کو اس سے اطلاع دی کہ سب مع بال بچوں کے جو تعداد میں چھتیس کَس تھے سب شادی خان کے مکان میں چلے جاؤ۔ چنانچہ سب چلے گئے۔ نتیجہ کا انتظار تھا کہ شادی خان نے آدھی رات کے وقت کہا۔ شادی خان صاحب نے بھی خواب دیکھی کہ مَیں ایک بڑے دربار میں طلب کیا گیا۔ وہاں ایک شخص بڑی شان و شوکت سے خیمہ لگائے تخت پر بیٹھاہے۔ اُس کے گرد اِس اُمّت کے اولیاء بیٹھے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دروازے پر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ مَیں نے جب پوچھا تو اُس وقت میرے سر سے خون بہہ رہا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ہاتھ میری ٹھوڑی پر رکھا اور دوسرے سے سر کو پکڑ کر اُس تخت کے پاس لے گئے (یہ خواب اپنی بتا رہے ہیں ) اور عرض کی کہ جب میرے مریدوں کا یہ حال ہو تو مَیں کیا کروں؟تخت والے نے آواز دی کہ کوئی ہے۔ ایک بڑا جرنیل کہ تمغے اُس کے لگے ہوئے تھے حاضر ہوا۔ اُس کو حکم ہوا کہ شادی خان کے ساتھ جاؤ۔ چنانچہ مَیں آگے ہوا۔ میرے پیچھے جرنیل اور اُس کے پیچھے فوج ہے اس شہر میں داخل ہو گئی۔ (یہ انہوں نے خواب دیکھی) اس کے بعد انہوں نے کہا اب میں مقدمہ نہیں کرنا چاہتا۔ میرا بدلہ خود خدا لے گا۔ چنانچہ اس کے بعد پانی کا ایک طوفانِ عظیم آیا اور شہر کے بیرونی حصے کو غرق کر دیا صرف شادی خان کا مکان بچ گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 5 صفحہ 77 تا 79۔ روایات از حضرت نور محمدصاحبؓ)

حضرت جان محمد صاحبؓ ولد عبدالغفار صاحب ڈسکوی فرماتے ہیں کہ ’’1903ء میں ہم احمدیوں کی سخت مخالفت ہوئی اور خاص کر میری کیونکہ میں ڈسکہ میں پہلا احمدی تھا اور مجھے زیادہ تکلیف دیتے تھے۔ سقّہ اور خاکروب کو بھی روکا گیا۔‘‘ یعنی پانی ڈالنے والے کو اور صفائی کرنے والے کو روکا گیا۔ سقّہ نے یہ کہہ کر کہ مجھے تحصیلدار صاحب کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کو پانی دیا کرو، ان کو کہا کہ اگرتم نے مجھے روکا تو مَیں تحصیلدار صاحب سے کہوں گا کیونکہ مجھے اُن کا حکم ہے کہ ان کا پانی نہیں روکنا۔ خیر اُس سے تو وہ رک گئے۔ اور خاکروب کو جب کہا (خاکروب وہاں ہمارے پاکستان میں عموماً عیسائی یا ایسی castکے ہوتے ہیں جس کو عموماً لوگ پسندنہیں کرتے، حالانکہ کسی قسم کاکوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے) تو بہر حال کہتے ہیں اُس نے یہ کہا کہ نہ مولوی صاحب تمہارے ساتھ کھاتے ہیں نہ تم لوگ۔ (یعنی کھانا تو اکٹھے تم لوگ کھاتے نہیں۔ نہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں نہ تم کھاؤ) پھر انہوں نے اس میں یہ شرط رکھی کہ اگر تم ہمارے ساتھ کھا لو تو پھر مولوی صاحب کو چھوڑ دیں گے۔ وہ شرمندہ ہوئے لیکن مخالفت کرتے رہے۔ خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں لکھا کہ لوگ میرا پانی بند کرتے ہیں اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں۔ اگر مولوی فیروز دین اور چوہدری نصراللہ خان صاحب پلیڈر احمدی ہو جائیں تو جماعت میں ترقی ہو جائے گی۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے جواباً لکھا کہ آپ یہ خیال مت کریں کہ فلاں احمدی ہو جائے گا تو جماعت بڑھے گی۔ آپ صبر کریں اور نمازوں میں دعائیں کریں۔ یہ سلسلہ آسمانی ہے انشاء اللہ بڑھے گا اور زمین کے کناروں تک پہنچے گا اور سب سعید روحیں اس میں داخل ہوں گی۔ مسجدیں احمدیوں کی ہوں گی، آپ گھبرائیں نہیں‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7صفحہ41روایات حضرت جان محمد صاحبؓ ڈسکوی)

اور اللہ کے فضل سے جماعت وہاں پھیلی بھی۔ پس یہ مسجدیں احمدیوں ہی کی ہونی ہیں جتنی چاہے پابندیاں لگاتے رہیں یا وہاں آپ کی مخالفتیں کرتے رہیں۔ حضرت عبداللہ صاحبؓ ولد اللہ بخش صاحب فرماتے ہیں کہ ’’حضور انور کا وصال ہو گیا۔ مَیں وہیں موجود تھا۔ غیر احمدی وغیرہ مخالفین بطور تماشا بلڈنگ کے باہر تماشا دیکھ رہے تھے۔ ہم باہر دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دوست کی چیخیں نکلنے لگیں۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میرا ایمان جیسا کہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ حضرت مرزا صاحب اپنا کام کر کے چلے گئے۔ یہ استقلال دکھانے کا موقع ہے نہ کہ رونے کا‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 148روایات حضرت عبد اللہ صاحبؓ)

پھر ایک روایت ہے حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب کی۔ فرماتے ہیں کہ میرے استاد صاحب جن کا نام مولوی اللہ دتّا صاحب تھا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے معتقد تھے۔ جس زمانے میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے رسالہ اشاعۃ السنۃ لکھا تو انہوں نے وہ رسالہ پڑھا۔ پوچھا کہ وہ کون شخص ہیں جن کی آپ نے یہ تعریف لکھی ہے۔ کہاں رہتے ہیں؟ میرا دل چاہتا ہے کہ اُن کی زیارت کروں۔ چنانچہ وہ جناب حضرت اقدس کی زیارت کے لئے قادیان آئے۔ جب وہ آئے تو حضور لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے آکر حضور کو دبانا شروع کر دیا۔ دباتے دباتے حضرت اقدس کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی کہ حضور جو حدیثوں میں امام مہدی کا حلیہ بیان ہوا ہے وہ آپ پر چسپاں ہوتا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیعت لینے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضور مسکرا کر خاموش رہے۔ پھر مولوی اللہ دتّا صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ حضور! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی بیعت کر لوں۔ حضور نے فرمایا مجھے ابھی حکم نہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور نے جو کچھ بننا تھا، بن چکے تھے، صرف حکم کی انتظار تھی۔ کہتے ہیں میرے استاد صاحب حضرت اقدس کی محبت سے بھر گئے اور اپنے گاؤں واپس چلے گئے۔ جب حضور نے بیعت کا اشتہار دیا، اُسی وقت انہوں نے بیعت کر لی۔ مَیں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے ساتھ کوئی مخالفت نہیں کی اور اُن کے ساتھ ہی رہا۔ لوگوں نے اُنہیں بہت دکھ دیا تھا اور تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ میں خوش اعتقاد تو رہا مگر صرف سُستی سے 1906ء کا وقت آ گیا۔ 1906ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے آ کر دستی بیعت کی۔ ظہر کی اذان ہو چکی تھی۔ حضور مسجد مبارک کے محراب میں رونق افروز ہوگئے اور فرمایا کہ کوئی بیعت کرنے والا ہے تو بیعت کر لے۔ مَیں وضو کر کے نماز کے لئے آ رہا تھا۔ جب سیڑھیوں کے قریب آیا تو کسی شخص نے آواز دی کہ حضور فرماتے ہیں جس نے بیعت کرنی ہو جلدی سے آ کر کر لے۔ چنانچہ خاکسار نے فوراً خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کر لی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 153-154روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)

پھر حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’قریباً ستائیس برس ملازمت سرکار کی کی اور پندرہ روپے ماہوار سے دو سو‘‘ روپے ماہوار ’’تک تنخواہ ملی بلکہ زیادہ بھی۔ ہر مشکل اور تکلیف میں جہاں کوئی دوست کام نہ آ سکا وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی کام آتا رہا اور میرے سب کام اُس کے فضل و کرم سے ہوئے۔ بڑے بڑے ابتلا آئے اور آسانی سے گزر گئے۔ بیگانوں نے تو کرنا ہی تھا خود اپنوں نے میرے ساتھ سالہا سال برادرانِ یوسف کا سا سلوک روا رکھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے ہر معاند و حاسد کو اُس کے حسد و عناد میں ناکام رکھا۔ خدا تعالیٰ نے ہمیشہ میری دعائیں سنیں۔ اللہ ہی کے حق میں میرا خیر مدّنظر تھا۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’اہلِ لاہور نے توہینِ رسول کا ایک بہتان میرے ذمہ باندھا اور احرارِسرحدنے میرے قتل کے واسطے ایک بے گناہ شخص کو میرے سرِ بازار قتل پر آمادہ کیا۔ خدا تعالیٰ نے میری بریت کے واسطے پستول میں گولی ٹیڑھی کر دی اور پستول چل نہ سکا۔ قاتل کو ارباب محمدنجیب خان صاحب احمدی نے گرفتار کیا اور حوالہ پولیس ہوا اور گورنمنٹ سرحدنے اُس کو نو سال کے واسطے جیل میں بند کر دیا۔ دشمن ناکام ہوئے۔ خدا ہمارے ساتھ تھا اور اب بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام پورا ہوا کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ، آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ199-200روایات حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ)

پھر حضرت میاں نظام الدین صاحبؓ ٹیلر ماسٹر فرماتے ہیں کہ ’’1902ء مارچ میں ہم جہلم سے انجمن حمایتِ اسلام کا جلسہ دیکھنے کے لئے لاہور آئے۔ ہم تین آدمی تھے۔ جلسہ گاہ کے باہر ایک مولوی کو دیکھا۔ وہ قرآنِ مجید ہاتھ میں لے کر کھڑا تھا اور کہتا تھا کہ میں قرآن اُٹھا کر کہتا ہوں کہ مرزا نعوذ باللہ کوہڑا ہو گیا ہے۔‘‘ (یعنی اُن کو کوڑھ ہو گیا ہے)۔ ’’وہ نبیوں کی ہتک کرتا تھا اور ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا اشتہاربھی بانٹ رہا تھا جس کا یہی مضمون تھا۔ میں نے اس سے اشتہار بھی لیا اور ساتھیوں سے کہا کہ چلو قادیان چل کر مرزا صاحب کی حالت دیکھ آویں تا کہ چشم دید واقعہ ہو جائے۔ ہم تینوں قادیان آئے تو مغرب کی نماز میں حضرت صاحب کو دیکھا تو وہ بالکل تندرست تھے۔ میرے ساتھی اور میں حیران ہوئے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ہمارے مولوی نے جھوٹ بولا ہے یا یہ آدمی جو ہمیں بتایا گیا ہے، مرزا صاحب نہیں کوئی اور ہے؟ رات گزر گئی۔ صبح ہم نے مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ ) سے جا کر دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ’’یہی مرزا ہے جس کو تم نے دیکھا ہے اور اشتہار بھی‘‘ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ’’اپنی جیب سے نکال کر ہم کو دکھلایا کہ یہ ہمارے پاس بھی پہنچا ہے۔ اب تم جس کو چاہو سچا کہہ سکتے ہو، خواہ اپنے مولوی کو جس نے اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے‘‘ قرآن اُٹھا کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ مرزا کوڑھی ہو گیا ’’خواہ مرزا کو جو تمہارے سامنے تندرست نظر آ رہا ہے۔ ظہر کی نماز کے وقت جب حضرت صاحب نماز کے لئے تشریف لائے تو مَیں نے حضور کو سارا حال بیان کیا تو حضور نے ہنس کر فرمایا کہ میری مخالفت میں مولوی لوگ جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔ حدیثوں میں ایسا لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت علماء بدترین خلائق ہوں گے۔ مجھ کو حضور کی باتیں سن کر راحت ہوئی اور مَیں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں تو بیعت کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھی بھی اتنا جھوٹ دیکھ کرہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ ہمیں اسی وقت بیعت میں داخل فرما کر ممنون فرماویں۔ حضور نے فرمایا کہ اتنی جلد بیعت کرنا ٹھیک نہیں۔ ابھی تم نے ہماری باتیں نہیں سنیں۔ کچھ دن صحبت میں رہیں۔ باتیں سنیں۔ پھر اگر پورا یقین ہو تو بیعت کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ بیعت کر جائیں اور مولوی لوگوں کے اعتراض سن کر پھر جائیں تو گنہگار ہوں گے۔ (اگر بیعت کر لی اور پھر اگر پھِر گئے تو تم بہت زیادہ گنہگار ہوگے) اس لئے پہلے کم از کم ایک ہفتہ ضرور ہماری صحبت میں رہیں۔ ہم خاموش ہو گئے، وہاں رہے۔ حضور نماز سے فارغ ہو کر اندر چلے گئے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد کہتے ہیں کہ مَیں چونکہ درزی تھا۔ کسی کے پاس بارہ روپے ماہوار پر ملازم تھا۔ اُس نے مجھے میرے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھ کو جواب دے دیا، نوکری سے فارغ کر دیا۔ اپنے اور بیگانے سب دشمن ہو گئے۔ ایک شخص جو ہمارا ساتھی تھا، وہ حلوائی کا کام کرتا تھا، سب مسلمانوں نے اتفاق کر لیا کہ اس کی دکان کا سودا کھانا حرام ہے۔ (آج بھی پاکستان میں بعض احمدی دکانداروں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے اور تو اور لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلاء نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ شیزان کیونکہ احمدیوں کا ہے اس کو پینا حرام ہے)۔ بہر حال دوکان کا سودا اُس نے کہا حرام ہے۔ اس سے مٹھائی نہیں کھانی۔ آٹھ دن تک برابر وہ بائیکاٹ کی تکلیف برداشت کرتا رہا، مگر آٹھویں روز اُس سے برداشت نہ ہوا اور اس نے بیعت چھوڑ دی اور مرتد ہو گیا۔ کہتے ہیں اب ہم دو رہ گئے۔ ہم دونوں درزی تھے۔ ہم سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ان دنوں مجھے کئی کئی دن فاقے کرنے پڑے۔ کئی دن کے بعد مَیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور حالات بیان کئے۔ حضور نے نہایت تسلی بخش الفاظ میں فرمایا اگر آپ نے استقلال دکھلایا تو اللہ تعالیٰ بہت جلد یہ دن آپ سے دور کر دے گا اور اچھے دن لے آئے گا۔ تو کہتے ہیں کہ پھر ایک سال تک بڑی مشکلات میں گزرتے رہے۔ پورا سال انہی مشکلات میں گزر گیا۔ روزی کی تکلیف کی وجہ سے کوئی کام نہیں تھا۔ اس تکلیف کی وجہ سے مَیں چند ماہ کے بعد پھر قادیان آیا اور حضور کی خدمت میں رو پڑا اور اپنی تکلیف بیان کی اور عرض کیا کہ حضور! اجازت دیں تو افریقہ چلا جاؤں۔ شاید اللہ تعالیٰ رحم فرما دے۔ اس پر حضورؑ نے اول تو فرمایا کہ اس راستے میں مومن کو ابتلا آتے ہیں اور بعض دفعہ وہ سخت بھی ہوتے ہیں۔ میں ڈرتا ہوں تم وہاں جا کر کسی سخت ابتلاء میں نہ پڑ جاؤ۔ پھر میرے اصرار پر فرمایا۔ کل بتلاؤں گا دعا کرنے کے بعد۔ چنانچہ دوسرے روز شاید ظہر کی نماز کے وقت فرمایا۔ توکّل الٰہی پر چلے جاؤ (افریقہ چلے جاؤ)۔ مگر خیال رکھنا کہ سلسلہ کی خبر جہاں تک ہو سکے لوگوں کو پہنچاتے رہنا۔ (جہاں بھی جاؤ تبلیغ کا کام نہیں چھوڑنا۔ ) میں چونکہ اَن پڑھ ہوں مگر سلسلہ کے عشق میں مجھ کو اس قدر تبلیغ کا شوق تھا کہ ہر وقت، ہر آن تبلیغ کا خیال رہتا تھا۔ (وہاں بھی پھر تبلیغ کرتے رہے۔) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 410تا418روایات حضرت میاں نظام الدین صاحب ہیڈماسٹر)

پھر حضرت غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لاہورکے سفر کا حال بیان کرتے ہیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لاہور میں تشریف لائے تھے تو ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لیکچر ہو رہا تھا۔ لیکچر لاہور ہوتا تھا۔ اشتہارات چسپاں کئے جاتے تھے۔ چوہدری اللہ دتّا صاحب مرحوم جو نمبردار تھے موضع میانوالی خانہ والی تحصیل نارووال کے، وہ لئی کی دیگچی سر پر اُٹھائے ہوئے شہر میں ہر جگہ اشتہار چسپاں کرتے تھے اور اس کو دیکھ کر مخالفین نے اُن کو کئی دفعہ مارا پیٹا، زدوکوب کیا۔ چوہدری صاحب مرحوم اشتہار چسپاں کرتے تھے۔ مخالفین اُس کو پھاڑ دیتے تھے۔ گالیاں نکالتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اُن دنوں کا واقعہ ہے۔ جن مکانات میں حضور علیہ السلام قیام فرما تھے اس کے پاس گول سڑک پر درخت لگے ہوتے تھے ٹاہلیوں کے، شیشم کے۔ ایک مولوی مخالف جسے مولوی ٹاہلی کے نام سے پکارتے تھے، صرف پاجامہ ہی اُس نے پہنا ہوا تھا، نہ گلے میں اور نہ سر پر کوئی کپڑا ہوتا تھا۔ بدحواس گالیاں دیتا رہتا تھا اور درختوں پر چڑھ کر یہ بیہودہ بکواس کرتا رہتا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ171روایات غلام محمد صاحب)

پھر حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی کی روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مَیں قادیان پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اپنے مقدمات کا ذکر کیا کہ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کر کے اور جھوٹیاں قسمیں کھا کھا کر میرا مکان چھین لیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب! لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنہ پر مکان برباد کر دیتے ہیں۔ آپ کا مکان اگر خدا کے لئے گیا ہے تو جانے دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دے دے گا۔‘‘کہتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! یہ پاک الفاظ سنتے ہی میرے دل سے وہ خیال ہی جاتا رہا بلکہ میرے دل میں وہ زلیخا کا شعر یاد آیا

جمادے چند دادم جان خریدم

بحمدا للہ عجب ارزاں خریدم

یہ مشہور ہے کہ زلیخا نے مصر کے خزانے دے کر یوسف علیہ السلام کو خریدا تھا۔ اُس وقت کہا تھا کہ چند پتھر دئیے ہیں اور جان خرید لی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ بہت ہی سستا سودا خریدا ہے۔ کہتے ہیں مَیں بھی اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس مقدس بستی قادیان میں جگہ دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہیں آ گئے اور مکان اُس سے کئی درجہ بہتر دیا۔ بیوی بھی دی اور اولاد بھی دی۔ کہتے ہیں اسی ضمن میں ایک اور بات بھی یاد آئی ہے۔ لکھ دیتا ہوں کہ شاید کوئی سعیدالفطرت فائدہ اُٹھائے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک دن مسجد مبارک میں خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا کہ مدرسہ احمدیہ میں جو لوگ پڑھتے ہیں وہ مُلّاں بنیں گے، وہ کیا کرسکتے ہیں۔ تبلیغ کرنا ہمارا کام ہے۔ مدرسہ احمدیہ اُٹھا دینا چاہئے، ختم کر دینا چاہئے۔ اُس وقت حضرت محمود اولوالعزم (یعنی حضرت مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیٹھے تھے) وہ کھڑے ہو گئے اور اپنی اس اولوالعزمی کا اظہار فرمایا اس سکول کو یعنی مدرسہ احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قائم فرمایا ہے یہ جاری رہے گا اور انشاء اللہ اس میں علماء پیدا ہوں گے اور تبلیغِ حق کریں گے۔ یہ سنتے ہی خواجہ صاحب تو مبہوت ہو گئے اور میں اُس وقت یہ خیال کرتا تھا کہ خواجہ صاحب کو یقین ہو گیا ہے کہ ہم اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور دیکھنے والے اب جانتے ہیں کہ اسی سکول کے تعلیم یافتہ فضلاء دنیا میں تبلیغِ احمدیت کر رہے ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ132-133روایات حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی)

حضرت شیخ عبدالوہاب صاحبؓ نومسلم کے بارے میں حبیب احمد صاحب تحریر کرتے ہیں۔ حضرت شیخ صاحب دینی معاملے میں بڑے غیور واقع ہوئے ہیں۔ وہ اَلسِّنُّ بِالسِّنِّ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقابلہ کی خاص سپرٹ (spirit) خدا تعالیٰ نے اُن میں رکھ دی ہے۔ مخالفین کے مقابلہ پر سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ہاں جب کوئی گالیاں دینے لگ جاتا ہے تو خاموش ہو جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں۔ ؎گالیاں سن کر دعا دو پاکے دکھ آرام دو۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 266 روایات حضرت شیخ عبد الوہاب صاحبؓ نو مسلم)

حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ ہماری بیعت لے کر اندر تشریف لے گئے جب وہ بیعت کرنے آئے تھے۔ ہم پہلی مرتبہ قادیان صرف ایک ہی دن ٹھہرے کیونکہ برادرم منشی عبدالغفور صاحب کی وجہ سے جلدی آنا پڑا کیونکہ وہ ڈرتے ڈرتے ہی گئے تھے کہ لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے اُن کے گاؤں میں کہ قادیان گئے ہیں۔ کہتے ہیں لیکن بفضلِ خدا مجھے کسی کا ڈر نہ تھا۔ چاہے کتنے دن اور رہ کر آتا۔ اب جبکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی ملاقات کا وقت یاد آتا ہے تو بے حد رنج و افسوس ہوتا ہے کہ میں کیوں جلدی چلا آیا… جب لوگوں کو میرے احمدی ہونے کا پورا یقین ہو گیا تو مجھے بھی تکلیفیں پہنچنے لگیں اور میرا پانی بند کر دیا گیا اور دوکانداروں سے لین دین بند کر دیا گیا اور بھنگی کو بھی منع کر دیا گیا یہاں تک کہ ہمیں دو دو تین تین دن کے فاقے ہونے لگے لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے اُس نے ثابت قدم رکھا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ362۔ روایات میاں محمد ظہورالدین صاحب ڈولیؓ)

پھر حضرت میاں غلام محمد صاحبؓ آرائیں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے والد صاحب نے جبکہ میں بھی ایک مجلس میں اُن کے ساتھ بیٹھا تھا اور یہ بات آج سے (جب انہوں نے یہ لکھوایا ہے، تحریر دی ہے) قریباً ساٹھ سال قبل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ عنوانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی پیدا ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ جب بھی وہ ظاہر ہو تو فوراً اُن کو قبول کر لینا۔ کیونکہ انکار کا نتیجہ دنیا میں تباہی و بربادی ہوتی ہے۔ اور آخرت میں بھی اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ تمام حاضرین کو بار بار یہ نصیحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر مجھے وہ وقت ملا تو میں سب سے پہلے اُن پر ایمان لاؤں گا۔ مگر خدا کی مصلحت کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ اُس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا اور میرے بھانجے رحمت علی نے بیعت کی تو میں نے اُس کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ وہ تو سیّدوں کے گھرانوں میں سے ہو گا۔ جو نشانیاں عام زبان زدِ خلائق تھیں، بتائیں اور کہا کہ تُو تو مرزے کی بیعت کر آیا ہے۔ اس پر اُس نے مجھے کہا کہ اگر اس وقت آپ نے بیعت نہ کی تو بعد میں پچھتاؤ گے۔ ایک دفعہ جا کر اُنہیں دیکھو تو۔ اُن کے بار بار کہنے پر میں قادیان اس خیال سے گیا کہ ہو سکتا ہے یہ سچے ہوں اور میں رہ جاؤں۔ بلکہ میں خود حضرت مسیح موعود سے دریافت کروں گا۔ اگر تسلی ہو گئی تو بیعت کر لوں گا۔ ازاں بعد میں حضرت صاحب کے پاس گیا تو محمد حسن اوجلہ والے نے میراحضرت صاحب سے تعارف کروایا۔ اس وقت میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور مسجد مبارک میں مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ اُس وقت مسجد اس قدر چھوٹی تھی کہ اُس کی ایک صف میں صرف چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بیٹھ گیااور آپ کے پاؤں دبانے لگا اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دیا کہ میں نے امام مہدی کے متعلق علماء سے سنا ہوا ہے کہ وہ قرعہ شہر یمن میں (یہ آگے مکّہ لکھا ہوا ہے۔ شاید روایت میں غلط لکھا ہوا ہے) مکّہ کے منارے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور امام مہدی جو سیّدوں کے گھر پیدا ہوں گے نیچے اُن کو ملیں گے۔ اور آپ تو مغلوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔ یہ کس طرح آپ امام مہدی ہو سکتے ہیں۔ آپ سمجھا دیں تو بیعت کر لوں گا۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری پشت پر ہاتھ رکھا اور مفتی صاحب و مولوی محمد حسن صاحب کو کہا کہ ان کو سمجھائیں۔ مولوی صاحب مجھے لے کر چھاپے خانے (پریس میں) چلے گئے۔ (وہاں جا کے باتیں ہوئیں اور مجھے ساری باتیں سمجھ آ گئیں) تو مَیں نے سمجھ آنے پر مولوی صاحب کو کہا کہ فوراً میری بیعت کروا دیں۔ وہ ظہر کا وقت تھا تو حضرت نے کہاکہ اور سمجھ لو۔ پھر حضور نے میری اور ایک اور شخص کی جو سکھ تھے اور دھرم کوٹ کے رہنے والے تھے، بیعت لی اور اُسی وقت مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ سے دریافت کیا کہ میری لڑکی جوان ہے اور اس کی منگنی اپنی ہمشیرہ کے لڑکے سے کی ہوئی ہے۔ (یہاں ایک اور بھی مسئلہ کا حل انہوں نے بتایا ہے جس کے بارہ میں عموماً سوال اٹھتے ہیں کہ ہمشیرہ کے لڑکے سے اُس کی منگنی پہلے ہی کی ہوئی ہے اور وہ غیر احمدی ہے تو اس کے متعلق کیا کروں؟) تو حضور نے فرمایا کہ ایک پاک وجود کا ٹکڑا غیروں کو دینا اچھا نہیں۔ کیونکہ وہ میرے مخالف ہیں اور جو نسل بھی اس سے پیدا ہو گی وہ میری مخالف ہو گی۔ اس پر میں نے کہا کہ حضور منگنی کو ہوئے تو قریباً اٹھارہ سال ہو گئے تو یہ کس طرح ہو گا؟ اس پر حضور نے فرمایا کہ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ اب تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔ اُسی وقت حضور نے حکم دیا کہ اب تمہاری نماز بھی غیروں کے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد میں اپنے گھر آیا اور دوسرے دن اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر اپنے سسرال راچک گیا اور نماز علیحدہ پڑھنی شروع کی تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیا مرزائی ہو گیاہے؟ تو اس پر میں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں احمدی ہو گیا ہوں۔ اس پر میرے سسر نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ کچھ عالم لاہور سے یہاں آئے ہیں۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ تیری لڑکی کا نکاح فسخ ہو گیا ہے۔ اس پر سسر نے اُس عالم کو کہا کہ میری لڑکی کا نکاح کیوں فسخ ہوا، تیری لڑکی کا ہو جائے۔ یہ لڑکا تو نیک ہے۔ کئی فرقے مسلمانوں میں ہیں اور سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر لے گئے کہ کہیں لوگ زیادتی نہ کریں اور میرے سالوں نے یعنی بیوی کے بھائیوں نے میری سخت مخالفت کی۔ مَیں نے یہ سمجھ کر کہ کہیں لڑائی نہ ہو جائے، اپنی بیوی کو بتایا کہ مجھے نہ ڈھونڈیں مَیں اپنے گاؤں جا رہا ہوں۔ جب میرے سسر صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے ایک آدمی بھیج کر مجھے واپس بلا لیا۔ میری بیوی نے کہا کہ تو کیوں چلا گیا؟ تو مَیں نے کہا کہ معلوم نہیں کہ تیرا کیا ارادہ ہے اور فتنہ کے ڈر سے چلا گیاتھا۔ اُس وقت میری بیوی نے اپنے بھائیوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر احمدیت کا جھگڑا ہے تو مَیں پہلے احمدی اور وہ یعنی خاوند جو ہے بعد میں احمدی ہے۔ جو تم میری امداد کرتے ہو مجھے اس پر کچھ پرواہ نہیں۔ ہمیں رزق خدا دیتا ہے اس کے ساتھ جاؤں گی۔ میرا خدا رازق ہے۔ وہ اُٹھ کر میرے ساتھ چل دی۔ اس کے باپ نے پکڑ لیا اور کہا کہ جب تک مَیں زندہ ہوں، اُس وقت تک تو مَیں دوں گا یعنی اپنے گھر رکھوں گا، جب بھائیوں سے مانگنا پڑے گا اُس وقت تُو جانے یا وہ۔ پھر انہوں نے غلّے کے دو گدھے لدوائے اور کپڑے وغیرہ دئیے اور ہمیں یہاں پہنچایا۔ اُس وقت میرے دو لڑکے ابراہیم، جان محمد اور ایک لڑکی برکت بی بی تھی۔ کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جس لڑکی کے متعلق دریافت کرنے پر کہا تھا کہ غیروں سے نکاح کرنا درست نہیں، مَیں نے آتے ہی ایک رات میں سب بندوبست کر کے اُس کا نکاح اپنے گاؤں میں میاں سلطان علی صاحب سیکرٹری سے کر دیا۔ اُس کی وجہ سے میری بیوی کو میری ہمشیرہ کی طرف سے تکلیف پہنچنے کا خیال تھا مگر حضور کے حکم کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کام کی رضا مندی کا اظہار کر دیا اور اُس کو بھیج دیا۔ یعنی احمدی گھر نکاح کر دیا۔ صبح ہوتے ہی لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ غلام محمد بے ایمان ہو گیا ہے اور میرے چند رشتہ داروں نے جو غیر احمدی تھے مجھے سخت ایذائیں دیں، بڑی تکلیفیں دیں اور بہت زیادہ مارا پیٹا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ82تا84 روایت میاں غلام محمد صاحبؓ آرائیں)

حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میرا بڑا لڑکا عبدالرحمن جو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا، 1907ء میں سکول میں ہی فوت ہو گیا۔ اُس کی سخت بیماری کی خبر سن کر میں باہر سے آیا۔ حضرت مولوی نورالدین اعظمؓ اس کا علاج فرما رہے تھے۔ میں حضرت صاحب کے پاس گیا۔ حضور نے اپنے پاس سے کچھ گولیاں دیں کہ دودھ میں گھس کر دو۔ (گھول کر دے دو۔) ابھی یہ گولیاں نہ کھلائی تھیں کہ وہ فوت ہو گیا۔ میں نے نعش کو فیض اللہ چک لے جانے کی اجازت طلب کی جو دے دی گئی۔ دوسرے جمعہ پر میں جب پھر قادیان گیا تو مجھے دور سے دیکھ کر فرمایا میاں نبی بخش آ جاؤ۔ اُس وقت بڑے بڑے آدمی حضور کے پاس بیٹھے تھے لیکن حضور نے مجھ حقیر ناچیز کو اپنی دائیں طرف بٹھایا اور فرمایا میاں نبی بخش معلوم ہوتا ہے آپ نے بڑا صبر کیا ہے۔ میری کمر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ہم نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور کرتا رہوں گا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا۔ (چنانچہ پھر اُن کی اولاد بھی ہوئی۔) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 303-304 روایات حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ)

وقت ہے تو کچھ دینی غیرت کے واقعات بھی ہیں جو پیش کرتا ہوں۔ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ شان تھی کہ جس کسی نے بھی حضور کی ذلت و رسوائی چاہی وہ سزا سے نہ بچ سکا۔ ایک مولوی غوث محمد صاحب ساکن بھیرہ مشن سکول بٹالہ میں عربک ٹیچر تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنے مدرسے کے مسلم سٹاف کے رو برو سیدنا حضرت صاحب کی شان میں سخت گستاخانہ کلمات منہ سے نکالے۔ مجھے اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری۔ میں اُن کی اس نازیبا حرکت کی شکایت کے لئے مسٹر بی ایم سرکار ہیڈ ماسٹر کے پاس گیا۔ لیکن وہاں پہنچنے پر برق کی طرح (جب دروازے پر پہنچا تو کہتے ہیں بجلی کی طرح) میرے دل میں خیال آیا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب تو مسیحی ہیں، عیسائی ہیں۔ باعتبار مذہب اُن کو مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ دوسرے لوگوں سے بہر حال اُن کو زیادہ ہمدردی ہے کیونکہ اُن کے وجود سے اُن کے مذہب کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس لئے وہ قصور میری طرف ہی منسوب کریں گے۔ مَیں رُک گیا لیکن اُسی وقت میرا دل اللہ کریم سے دعا کی طرف مائل ہو گیا اور میں نے دعا کی کہ مولیٰ کریم! اس شخص نے گو حضور کے … پیارے مرسل (یعنی اللہ تعالیٰ کو کہا کہ تیرے پیارے مرسل) کے متعلق سخت گستاخی کے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ جہالت اور عدمِ علمی کی وجہ سے اُس کے منہ سے ایسے الفاظ نکل گئے ہوں اور حقیقت کے معلوم ہونے پر تائب ہو جائے۔ اس لئے اللہ کو درخواست کی کہ تیرے حضور، تیری درگاہ سے یہ چاہتا ہوں کہ حضور اُن کو کوئی ایسا نشان دکھائیں جو ان کے لئے عبرت کا تو باعث ہو لیکن اس میں اُن کے لئے کوئی سزا مقدر نہ رکھی جائے۔ (عبرت بھی ہو لیکن سزا بھی نہ ہو یہ شرط رکھی۔) تو خدا تعالیٰ نے اُس کو یہ نشان دکھایا کہ ریل میں سفر کرتے اُن کا ڈیڑھ دو ماہ کا بچہ کئی دفعہ اپنی ماں کی گود سے گرا اور گر کر اُچھلا اور گاڑی کے فرش پر بھی گرا لیکن چوٹ سے محفوظ رہا۔ جب انہوں نے اس حادثے کا اپنے سفر سے واپسی پر احباب میں ذکر کیا تو میں نے اُن کو بتایا کہ آپ کے اُس دن کے واقعہ کے بعد میں نے دعا کی تھی کہ آپ کو کوئی ایسا نشان دکھایا جائے جس میں آپ مضرت سے محفوظ رہیں۔ یعنی کہ اُس کے نقصان سے محفوظ رہیں۔ اس دعا کے مطابق خدائے کریم نے آپ کو نشان دکھا تو دیا ہے اس کی قدر فرمائیں۔ لیکن انہوں نے شوخی سے جواب دیا کہ یہ اتفاق ہے۔ میں کسی نشان کا قائل نہیں ہوں۔ چونکہ اس نشان سے انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا۔ خدا نے اُن کو پھر اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ بخار میں اچانک مبتلا ہو گئے اور اسی بخار سے مر گئے لیکن مرنے سے پہلے اُن کو واضح ہو گیا کہ یہ سزا اُن کو اُن کی بد زبانی کی وجہ سے ملی ہے۔ اس لئے اپنی خطر ناک حالت میں انہوں نے مجھے بار بار بلایا اور میرے جانے پر وہ کہنے لگے کہ آخر آپ نے میری شکایت کر دی۔ حالانکہ آپ نے کہا تھا کہ میں شکایت نہیں کروں گا۔ لیکن مجھے اپنی غلطی کا پتہ لگ گیا ہے اور اب مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ ہی سچے تھے اور مَیں جھوٹا تھا‘‘۔ (کم از کم یہ شرافت تو مرتے مرتے انہوں نے دکھائی۔) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ156د۔ روایات ڈاکٹر محمد طفیل خاں صاحبؓ)

حضرت حافظ مبارک احمد صاحب لیکچرر جامعہ احمدیہ قادیان حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے الفاظ میں روایت بیان کرتے ہیں کہ مولوی خان ملک صاحب اپنی شہرت کے لحاظ سے تمام پنجاب بلکہ ہندوستان میں بھی مشہور تھے اور اکثر علماء اُن کے شاگرد تھے لیکن باوجود اس عزت اور شہرت کے نہایت سادہ مزاج اور صوفی منش تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کوئی سخت لفظ نہیں سن سکتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جلال پور شریف والے پیر مظفر شاہ صاحب نے اُن کو اپنے صاحبزادوں کی تعلیم کے لئے بلایا لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں ایک سخت کلمہ کہا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مَیں آپ کے بچوں کو پڑھانے کے لئے تیار نہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ169۔ روایات مولوی خاں ملک صاحبؓ)

حضرت منشی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے نیچے دیوار کھینچ کر راستہ بند کر دیا تو احمدیوں کو اس سے بہت تکلیف پیدا ہو گئی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عدالت میں چارہ جوئی کا ارشاد فرمایا۔ اس موقع پر مجھے اور اخویم منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی کو بھی ارشاد فرمایا کہ تم اپنے حلقوں میں سے ایسے ذی عزت لوگوں کی شہادت دلواؤ جو دیوار کے گزرنے سے پہلے اس راستہ سے گزرتے ہوں۔ چنانچہ میں اپنے حلقہ سے فقیر نمبر دار لوہ چپ کو قادیان لایا کیونکہ یہاں ہی جیوری آئی ہوئی تھی۔ چنانچہ اُس نے شہادت دی کہ بندوبست کے دنوں میں ہم یہاں آتے رہے ہیں اور اس راستہ سے گزرتے رہے ہیں۔ بعض دفعہ گھوڑوں پر سوار ہوا کرتے تھے۔ مرزا نظام الدین نے اس سے شہادت سے پہلے دریافت کیا کہ تم شہادت کے لئے آئے ہو۔ فقیر نمبر دار نے جواب دیا ہاں۔ اس پرمرزا نظام الدین نے اُس سے سخت کلامی کی جس کے جواب میں فقیر نے کہا کہ مرزا صاحب اگر آپ مجھے گالیاں دیں گے تو جب آپ ہمارے علاقہ میں شکار کے لئے نکلیں گے تو ہم اس سے بھی زیادہ سختی آپ پر کریں گے جس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اُس واقعہ کے بعد مرزا نظام الدین جو کہ میرے پہلے سے واقف تھے بوجہ ناراضگی ایک سال تک نہ بولے۔ (ان سے بات نہیں کی) ایک سال کے بعد میں اتفاقاً گورداسپور گیا ہوا تھا اور عدالت کے باہر ایک عرضی نویس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں مرزا نظام الدین بھی آ گئے اور کہنے لگے۔ منشی صاحب! آپ مجھ سے ناراض کیوں ہیں اور بولتے کیوں نہیں؟ مَیں نے کہا میں آپ کے ساتھ اگر بات کروں اور آپ ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں سخت کلامی کریں تو مجھے تکلیف ہو گی۔ کہنے لگے مَیں اُن کو بزرگ سمجھتا ہوں۔ اُن کی وجہ سے مجھے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ مَیں نے اپنے باغ کی لکڑی ہزاروں روپے میں فروخت کی ہے اور اب سبزی سے ہزاروں روپے کی آمد ہوتی ہے۔ اُن کے یہ بھی الفاظ تھے کہ اب مجھے ولایت کی طرح آمد ہوتی ہے۔ (یعنی بہت زیادہ آمد ہوتی ہے۔ تو پھر) مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر آپ کے یہ خیالات ہیں تو مَیں صلح کرتا ہوں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ319تا 321۔ روایات منشی امام الدین صاحبؓ)

خلیفہ نور الدین صاحب سکنہ جمّوں فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی احمدیت سے بہت پہلے کے میرے دوست تھے۔ ایک دفعہ وہ چینیاں والی مسجد لاہور میں نماز پڑھا رہے تھے کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور اپنی علیحدہ نماز ادا کی۔ مولوی صاحب نماز سے فارغ ہو کر مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر سمجھے کہ شاید میں نے اُن کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ اور بہت خوش ہوئے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو بھی مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ آپ ہی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی غیر احمدی میرے پیچھے نماز پڑھے۔ مولوی صاحب یہ سن کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے کہ دوسرے احمدیوں کا تو یہ عقیدہ نہیں اور وہ تو اپنے پیچھے کسی غیر احمدی کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتے۔ (ہر ایک کا اپنا اپنا مزاج اور سوچ ہوتی ہے۔ اچھا واقعہ ہے۔) میں نے کہا مولوی صاحب خدا فرماتا ہے مَاکَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْآ اُوْلِی قُرْبٰی (التوبۃ: 113) کہ نبی اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت نہ طلب کیا کریں، اگرچہ وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا آپ کے عقائد مشرکانہ نہیں؟ مجھے تو آپ کے عقائد مشرکانہ لگتے ہیں اور یوں بھی مَیں بحیثیت امام اپنے غیر احمدی مقتدی کے لئے کیا دعا کروں گا کہ یا اللہ مجھے بخش اور اس کو بھی بخش دے جو تیرے مسیح کا منکر ہے اور اُسے گالیاں دیتا ہے۔ میں نے اس واقعہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تو حضور ہنس پڑے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ81-82 روایات حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں)

محمدنذیر فاروقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کئی سال گزرنے کے بعد 1908ء میں خود اپنے گاؤں اور گرد و نواح میں حکیم صاحب کی مخالفت نے زور پکڑا اور ایسی تکالیف رونما ہوئی کہ جن کی تفصیل کے لئے ایک اچھے خاصے وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس امر کا اظہار موجب خوشی ہے کہ ہر ایسی تکلیف میں وہ ثابت قدم رہے اور اپنی خود داری اور غیرت کو کبھی بھی ملیا میٹ نہ ہونے دیا جس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے حکیم صاحب کی مالی حالت کو بہتر سے بہتر بنا دیا اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ 236 روایات حکیم نواب علی صاحب فاروقی)

حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں قریب البلوغ تھا کہ حضرت صاحب کے پاس قادیان آیا۔ ابھی نیا نیا نوجوان تھا۔ بلوغت کی عمر کو پہنچ رہا تھا۔ حضور نے فرمایا میاں زین العابدین! کیا ابھی تک آپ کی شادی کا کوئی انتظام ہوا ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! منگنی ہوئی تھی مگر میرے احمدیت کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہے۔ مسکراکے فرمایا کہ تم نے تو ابھی تک بیعت نہیں کی پھر احمدیت کی وجہ سے کیسے رشتہ نہ ہو سکا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو کافر کہو اور مَیں یہ کہہ نہیں سکتا۔ مَیں نے اُنہیں جواب دیا تھا کہ اگر تم ایک لڑکی کی بجائے دس لڑکیاں دو تو بھی مَیں مرزا صاحب کو ولی اللہ ہی کہوں گا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ جو کچھ کرے گا بہتر کرے گا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ-60 59۔ روایات حضرت شیخ زین العابدینؓ)

اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی صبر اور استقامت اور ثباتِ قدمی جاری فرمائے اور احمدیت اور خلافت سے ہمیشہ ان کا پختہ تعلق رہے۔

آج ابھی نمازِ جمعہ کے بعد میں ایک دو جنازے پڑھاؤں گا جن میں سے ایک جنازہ حاضر ہے جو مکرمہ امۃ الحفیظ خانم صاحبہ اہلیہ مکرم شمس الحق خان صاحب مرحوم کا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا وہ رہنے کے لئے یہاں آئی تھیں۔ اور ان کا کیس وغیرہ بھی پاس ہوگیا تھا، لیکن بہر حال 8؍اپریل کو اُن کی اکاسی سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ لمبا عرصہ کوئٹہ کی صدر لجنہ رہی ہیں۔ ان کو بڑی لمبی توفیق ملی ہے۔ پھر اُس کے بعد لاہور آئی ہیں تو وہاں اپنے حلقے کی صدر رہی ہیں۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ یہاں بھی جب آئی ہیں تواس عمر میں بھی کوشش یہ تھی کہ انگریزی کے چند فقرے سیکھ لیں تا کہ تبلیغ کر سکیں۔ بڑی نیک، دعا گو، نمازوں کی پابند، نوافل کی پابند، خدمتِ خلق کرنے والی اور اس کے جذبے سے سرشار خاتون تھیں۔ غریبوں کی ہمدرد تھیں۔ خلافت سے بھی غیر معمولی اور والہانہ محبت تھی۔ بڑی اخلاص اور وفا سے پُر تھیں۔ بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتی تھیں اور اُنہیں ہمیشہ خلافت اور نظامِ جماعت کی تلقین کرتی تھیں۔ ایک بٹا آٹھ (1/8) حصہ کی موصیہ تھیں۔ ان کی حالت تو مَیں نے دیکھی ہے جماعت سے اور خلافت سے جو وابستگی ہے اس میں یہ بہتوں کے لئے نمونہ تھیں۔ پسماندگان میں ان کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ ڈاکٹر مجیب الحق خان صاحب جو ہمارے یہاں لندن ریجن کے زعیم اعلیٰ ہیں ان کی یہ بڑی ہمشیرہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تربیت کی ہی وجہ ہے کہ ان کی اولاد کا بھی جماعت اور خلافت سے بے انتہا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تعلق کو بھی بڑھاتا چلا جائے اور اُن کی نسلوں میں بھی جاری رکھے تا کہ یہ جو تعلق ہے اور جماعت سے وابستگی ہے یہ اس وجہ سے مرحومہ کی روح کے لئے بھی تسکین کا باعث بنتا رہے۔ ان کا ابھی نمازِ جنازہ جمعہ کے بعد ہو گا۔ مَیں باہر جا کر پڑھاؤں گا۔ احباب یہیں صفیں درست کر لیں۔

دوسرا جنازہ مکرم سید محمد احمد صاحب کا ہے جو سید محمد افضل صاحب رضی اللہ عنہ صحابی کے بیٹے تھے اور ان کی والدہ استانی سردار بیگم صاحبہ نے بھی لمبا عرصہ سکول میں جماعت کی خدمت کی ہے۔ صحابیہ تو نہیں تھیں۔ بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں کر لی لیکن دیکھا نہیں تھا، بلکہ شاید اپنے خاوند سے پہلے بیعت کی تھی۔ سید محمد احمد صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے صاحبزادے مرزا خلیل احمد صاحب کے رضاعی بھائی بھی تھے اور حضرت ام طاہر کی بیٹی صاحبزادی امۃ الباسط ان کے دوسرے بھائی کی رضاعی بہن تھیں۔ ان کے ایک بیٹے منور احمد صاحب ہیں جو صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کے داماد ہیں اور ایک بیٹے ڈاکٹر سید مظفر احمد صاحب یہیں اسکنتھورپ میں ڈاکٹر ہیں۔ ایک امریکہ میں ہیں۔ اسی طرح ان کے باقی بچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی جماعت سے وابستہ رکھے اور نسلوں کو بھی خدمت کی توفیق دے۔ خود بھی یہ بائیس سال اپنے حلقہ ڈیفنس لاہور میں صدر رہے ہیں۔ انہوں نے جماعت کی خدمت کی ہے اور بڑی محنت سے انہوں نے وہاں گیسٹ ہاؤس کا ایک کمپلیکس خودنگرانی میں اور کم خرچ میں تعمیر کروایا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے۔ ان کا جنازہ غائب ہے جو حاضر جنازے کے ساتھ ہی پڑھا جائے گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 13؍ اپریل 2012ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’جب تک استقامت  نہ ہو، بیعت بھی ناتمام ہے‘‘۔ ’’مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے‘‘۔ ’’درود شریف جو حصولِ استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو‘‘۔ ’’دل کی استقامت کے لئے بہت استغفار پڑھتے رہیں۔‘‘

    حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی نہایت درجہ ایمان افروز روایات کا تذکرہ جن سے ان کے صبر و استقامت اور دینی غیرت پرروشنی پڑتی ہے۔

    مکرمہ امتہ الحفیظ خانم صاحبہ اہلیہ مکرم شمس الحق خان صاحب کی نماز جنازہ حاضر اور  مکرم سید محمد احمد صاحب ابن مکرم سید محمد افضل صاحبؓ کی نماز جنازہ غائب۔ مرحومین کا ذکرخیر۔

    فرمودہ مورخہ 13؍اپریل 2012ء بمطابق 13؍شہادت 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور