مشکلات و مصائب اور ابتلاؤں کے دوران صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کا صبرو استقامت اور ثباتِ قدم

خطبہ جمعہ 20؍ اپریل 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج بھی میں صحابہ کے کچھ واقعات پیش کروں گا۔ جن میں سے سب سے پہلے تو وہ واقعات ہیں جن میں اُن کی ثابت قدمی کا اظہار ہوتا ہے۔

حضرت میاں عبداللہ خان صاحبؓ جنہوں نے بیعت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں کر لی تھی لیکن آپ کو دیکھا نہیں تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ جس سال تحصیل ظفر وال طاعون پڑی ہے، اُس سال میں پلیگ کلرک مقرر ہو کر سیالکوٹ سے ظفر وال گیا۔ صبح کے وقت چوہدری محمد حسین صاحب ساکن تلونڈی عنایت خان نے مجھے کہا کہ کیا تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتے ہو۔ میں نے سائنس کے لحاظ سے کہا کہ نہیں۔ میرے دل میں کوئی تعصب کسی قسم کا نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مسیح آنے والا مَیں ہوں اور مسیح بنی اسرائیل فوت ہو گیا ہے۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حضور کو نبی تسلیم کر کے بیعت کا خط اُسی وقت لکھ دیا۔ پھر مَیں ملازمت کے سلسلے میں کراچی اور پھر افریقہ چلا گیا۔ میرے والد غیر احمدی تھے۔ وہ بیعت کے وقت بالکل مخالف نہیں تھے لیکن علاقے کے وہابیوں میں سرکردہ آدمی تھے۔ لوگوں نے اُنہیں اکسایا کہ آپ کا لڑکا مرزائی ہو گیاہے۔ 1911ء میں آپ نے مجھے افریقہ میں خط لکھ دیا کہ حضرت صاحب کو میرے الفاظ میں کہو (یعنی جو کچھ انہوں نے لکھوایا تھا) اگر نہیں کہوگے تو میں تم کو اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا۔ کہتے ہیں اُس وقت مَیں کینیا میں سلطان حمود سٹیشن پر سٹیشن ماسٹر تھا۔ مَیں نے آٹھ دس دن خط اپنے پاس رکھا۔ ایک رات کو اپنی بیوی سے عشاء کی نماز کے وقت اس کا ذکر کیا۔ بیوی بالکل اَن پڑھ تھی۔ اُس نے کہا کہ جب یہ لوگ حضرت صاحب کو مہدی ماننے کے لئے تیار نہیں تو ہم کو برا کہنے کے لئے کیوں کہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہمارا انتظام پہلے ہی کر دیا ہے (یعنی روزی کا بندوبست کر دیا ہے) اس لحاظ سے بھی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ آپ لکھ دیں کہ ہم ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ بیشک ہمیں جائیداد سے عاق کر دیں۔ کہتے ہیں مَیں نے ایسا ہی لکھ دیا۔ میرے والد صاحب نے جواب دیا کہ تم میرے اکلوتے بیٹے ہو۔ تم ہی میرے وارث ہو۔ میں نے لوگوں کے اکسانے سے ایسا لکھ دیا تھا۔ میں نے دوبارہ بھی لکھا مگر اُن کا یہی جواب آیا۔ میں جب رخصت پر آیا تو کوئی نو بجے کا وقت تھا۔ میں اور بھائی محمد حسین صاحب اور بھائی محمد عالم صاحب مرحوم والد صاحب کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے تھے اور بحث گرما گرم تھی۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ میں مرزا صاحب کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب آپ سیالکوٹ میں ملازم تھے۔ میں آپ کو ملا کر تا تھا۔ آپ بہت نیک آدمی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے رو برو ایک مسلمان زمیندار سیالکوٹ کے مشرق کی طرف سے کسی گاؤں کا رہنے والا آپ کے پاس آیا اور مرزا صاحب کو کہنے لگا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کہ مرزا جی! میں خیال کرتا ہوں کہ آپ وہ مہدی معلوم ہوتے ہیں جو آنے والا ہے۔ اُس وقت مرزا صاحب کی عمر بیس بائیس سال کی تھی اور میری عمر بھی قریباً اتنی ہی تھی۔ کہتے ہیں جب میرے والد صاحب کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا کہ آپ کے رو برو اس زمیندار کی زبان سے حضرت صاحب کی نسبت ایسے الفاظ نکلنے، یہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حجت قائم کی ہے۔ مگر والد صاحب فرمانے لگے کہ خواہ مرزا صاحب سچے ہوں۔ میں نہیں مانوں گا۔ اس پر ہم لوگوں نے استغفار پڑھا اور اُٹھ کر چلے گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 9صفحہ 65-66)

پھر ایک روایت ہے حضرت شیخ عبدالرشید صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مولوی محمد علی بوپڑی بٹالہ آیا ہوا تھا اور ہمارے مکان میں ہی اُس کی رہائش تھی اور میرے والدین نے مجھے گھر سے نکالا ہوا تھا۔ ایک دن مہررلدو جو میرے والد کا دوست تھا، مجھے ملا اور کہا کہ میرے ساتھ چلو۔ مولوی محمد علی سے بات کرتے ہیں تا کہ ہمیں بھی سمجھ آ جائے کہ آپ کیا کہتے ہیں اور وہ کیا کہتے ہیں؟۔ (یعنی مولوی محمد علی جو غیر احمدی تھا اُس کا اور ان کا مقابلہ کرانے لگا۔) چنانچہ ان دنوں میں مجھے بہت جوش تھا۔ میں فوراً اُس کے ساتھ مولوی محمد علی کے پاس چلا گیا اور جب اُن کے سامنے ہوا تو مولوی صاحب کہنے لگے۔ مہررلدو! اس کافر کو میرے سامنے کیوں لائے ہو؟ مہر رلدو کو یہ بات ناگوار گزری اور مجھے بھی مگر میں چاہتا تھا کہ اس پر اتمامِ حجت کر دوں اور مہر رلدو نے بھی میری بات کی تائید کی کہ مولوی صاحب اس بچے کو نہیں سمجھا سکتے تو کسی اور مرزائی کو کیا سمجھائیں گے۔ (اگر یہ بچہ ہی نہیں آپ سے سمجھ سکتا تو اور کون سمجھے گا۔ ) چنانچہ اس بات کے کہنے سے اُس نے کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ والی حدیث پڑھنی شروع کردی اور خود ہی واعظانہ طور پر اس کی تشریح شروع کر دی۔ جب وہ بہت سا وقت لے چکا تو میں نے کہا کہ میری بات بھی سن لو کہ اس حدیث کے الفاظ سے ثابت ہے کہ یہ تاویل طلب ہے اور پھر میں نے اس پر جرح کرنی شروع کر دی۔ میری جرح سے وہ تنگ پڑا۔ (جو حدیث ہے وہ بخاری کی حدیث بھی ہے، مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں بھی ہے۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔ اور بعض روایات میں فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ ہے۔ یعنی تمہاری کیسی نازک حالت ہو گی جب ابن مریم یعنی مثیل مسیح مبعوث ہو گا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہو گا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے تمہاری امامت کے فرائض انجام دے گا۔ اسی حدیث کو اُس مولوی نے پیش کیا لیکن میں نے اُس سے کہا کہ تم تشریح غلط کر رہے ہو) اور میں نے آیات مَاالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ، اور پھر اس کے بعد وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ والی آیات پیش کیں اور پھر فَاَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُالصَّالِح والی حدیث پڑھی۔ (یہ بھی ایک لمبی حدیث ہے) اور اس کی تفسیر ذرا وضاحت سے بیان کی تو وہ بہت پریشان ہوا اور غیظ و غضب میں بھر گیا اور مہر رلدو کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ اس نے سیدھا نہیں ہونا۔ یہ مرزائی بڑے سخت اور بے ادب ہوتے ہیں اور میں کوئی بات اور بیان نہیں کروں گا۔ چنانچہ مہر رلدو بھی بہت شرمندہ سا ہوا اور اُس کے چہرہ سے شرمندگی کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ کیونکہ اس مولوی سے کوئی معقول جواب اور مجھے پوری تبلیغ نہ پہنچی۔ خیر ہم اُٹھ کر چلے آئے اور میرے والد صاحب کے سامنے مہر رلدو نے بیان کیا کہ مولوی محمد علی، عبدالرشید کو پورے طور پر سمجھا نہیں سکا اور مولوی صاحب غصے میں بھر گئے تھے۔ بچہ ہے۔ سمجھ جائے گا۔ (لیکن ان کا تو آج تک یہی حال ہے کہ مولویوں کے پاس جو علم ہے اس سے تو ہمارے جو بچے اللہ کے فضل سے علم رکھتے ہیں، اُن کا علم بھی ان مولویوں کے علم سے زیادہ ہے۔ اور ان بچوں کا بھی منہ بندنہیں کر سکتے۔ لیکن ڈھٹائی کا تو کوئی علاج نہیں ہے۔) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 12صفحہ 32-33)

ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا۔ مکرم ثاقب زیروی صاحب نے لکھا ہے۔ چند دہائیاں پہلے عطاء اللہ شاہ بخاری ایک مولوی ہوتے تھے۔ وہ ایک جگہ تقریر کر رہے تھے، کہتے ہیں کہ مجھے بھی کان میں آواز پڑ گئی کیونکہ اتفاق سے میں اُس علاقے میں تھا۔ اور مولوی صاحب فرمانے لگے۔ یہ عطاء اللہ شاہ بخاری بڑے عالم تھے، کہ اگر خدا تعالیٰ بھی مجھے آکر کہے کہ مرزا صاحب سچے ہیں تب بھی میں نہیں مانوں گا۔ تو یہ تو ان کے ایمان کی حالت ہے۔

پھر ایک روایت ہے۔ علی محمد صاحب حضرت مولانا ابوالحسن صاحب کے حالات اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’آپ بڑے پائے کے عالم تھے۔ حضرت اقدس کا نام اور پیغام تمام ڈیرہ غازی خان کے ضلع میں آپ کے ذریعے پہنچا۔ مخالفوں نے آپ کو بہت تکالیف دیں مگر آپ نہایت ثابت قدم رہے‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 12صفحہ 126)۔ اور مخالفت کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ ہمیشہ تبلیغ کرتے رہے اور تکلیفیں اُٹھاتے رہے۔

حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ میں بہت گھبرایا ہوا مخالفت کا ستایا ہوا قادیان پہنچا تو حضور نے فرمایا حافظ صاحب! آپ کیوں گھبرائے ہوئے ہیں؟ اُس وقت حضور کے لہجہ کلام سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ حضور کچھ میری مالی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ مگر میں اس خیال پر نہیں آیا تھا، (یعنی کہ میں اس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا تھا، ) مقصد تو یہ تھا کہ میرا قلب مطمئن ہو جائے۔ دل مطمئن ہو جائے اور مخالفوں کی مخالفت سے دل نہ گھبرائے۔ (کیونکہ نبی کی صحبت سے بہرحال انسان ایک قوت پاتا ہے۔ اُس کی قوت قدسی سے اللہ تعالیٰ اس وقت سے قوت عطا فرماتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں میں تو اپنے دل کو مضبوط کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر ہوا تھا۔ ) کہتے ہیں اور نہ مامورین کے پاس اس لئے جانا چاہئے کہ اُن سے مال لیا جائے بلکہ حسبِ توفیق اُن کی خدمت میں کچھ نہ کچھ بطور ہدیہ پیش کیا جائے۔ حضور نے میرے لئے بہت دعا فرمائی اور بڑے تسلی بخش نصائح سے مطمئن کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دل میں حضور کی نسبت ایک منٹ بھی شک و شبہ صداقت کے متعلق پیدا نہیں ہوا۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 12صفحہ 166-167)

حضرت بابو عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ میری انکساری اور غریب مزاجی کی وجہ سے میرے سب رشتہ دار اور دوست اور محلے والے اور شہر والے میرے سے خوش تھے اور تعریف کیا کرتے تھے مگر اب ایک دَم بیعت کی خبر سن کر سب رشتے دار (علاوہ جدّی رشتہ داروں کے، کیونکہ جدی رشتہ دار بفضلِ خدا سب میرے ساتھ بیعت میں شامل تھے،) اور دوست اور محلہ دار اور رشتے دار درہم برہم ہو گئے اور دشمن ہو گئے۔ (اور یہی انبیاء کی جماعتوں سے سلوک ہوتا ہے۔ جب نبیوں کے ساتھ سلوک ہوتا ہے تو اُن کے ماننے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔ سارے دشمن ہو جاتے ہیں۔ وہی لوگ جو تعریفیں کیا کرتے ہیں بلکہ اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ یہ نیک ہے، بڑا نیک ہے وہی دشمن ہوتے ہیں۔ مَیں پہلے بھی ایک دفعہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے بارے میں سنا چکا ہوں۔ ایک دفعہ میں فیصل آباد کے ایک گاؤں میں گیا تو وہاں غیر احمدی بیٹھے تھے۔ اُن کی بڑی تعریف کرنے لگے کہ ایسا نیک اور پارسا اور تقویٰ شعار اور صحیح کیس لینے والا اور سچ بولنے والا وکیل ہم نے نہیں دیکھا۔ لیکن ایک نقص اُس میں ہے کہ وہ قادیانی ہے۔ تو یہی پھر انہیں سب سے بڑا نقص نظر آتا ہے۔ بہرحال یہ کہتے ہیں سب میرے دشمن ہوگئے) اور طرح طرح کی تکلیف اور ایذا دہی کے درپے ہوئے۔ کبھی پنچائت کرتے اور حقہ پانی بند کرتے اور کبھی مولویوں کو بلا بلا کر ہمارے خلاف وعظ کراتے اور رشتہ داروں اور دوستوں اور پبلک کو ہمارے خلاف برانگیختہ کرتے۔ ایک دوکاندار شیر فروش ہمارے ساتھ تھا۔ (یعنی دودھ بیچنے والا۔) اُس سے دودھ لینا بند کرا دیا۔ مزدوروں سے مزدوری کرانی بند کرا دی اور ناطہ رشتہ بند کر دئیے اور لوگوں کو نصیحت کرتے کہ اگر کوئی احمدی کے مکان کے نیچے سے گزرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ قدرت خدا کی، (اللہ تعالیٰ بھی کس طرح بدلے لیتا ہے۔ کہتے ہیں ) جو مولوی نصیحت کرتے تھے، وہی میرے گھر پہ آ کر کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ (یعنی عمل کچھ اَور اور نصائح کچھ اَور۔ جب مولوی کا یہ عمل دیکھا تو لوگ ان باتوں کو دیکھ کر بہت پشیمان ہوئے۔ پھر کہتے ہیں کہ) بیعت کرنے کے بعد ہم نے نماز باجماعت چونکہ غیر احمدی امام کے پیچھے پڑھنی ترک کر دی تھی، یا تو علیحدہ علیحدہ نماز پڑھ لیتے یا اپنے میں سے کسی کو امام بنا لیتے۔ اس پر محلے والے تنازعہ اور جھگڑے کرنے لگے۔ ہم نے رفعِ شر کے لئے نماز باجماعت مسجد میں اپنے امام کے پیچھے بھی پڑھنی ترک کر دی۔ بلکہ اپنے مکان پر نماز باجماعت پڑھ لیتے۔ کہتے ہیں جو میں نے کرائے پر لیا ہوا تھا۔ یہ مکان بھی (اس بات پر کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں ) مالک مکان نے خالی کرا لیا۔ پھر جب میں نے کرائے پر دوسرا مکان لے لیا اور نماز باجماعت وہاں پڑھنی شروع کر دی تو اس عرصہ میں کہتے ہیں کہ ہم نے تعمیرمسجد کے لئے ایک شخص مسمیٰ رمضان سے جو احمدی تھا، تین دوکانات مع کچھ زمین کے خرید لیں اور اس دوران میں ڈاکٹر بشارت صاحب جو ایک احمدی تھے، وہ بھی وہاں پر بطور پروبیشنل اسسٹنٹ سرجن ہو کر آ گئے۔ جماعت کو ڈاکٹر صاحب موصوف کے آنے سے بڑی تقویت ہو گئی۔ وہ بڑے جوشیلے تھے۔ مغرب، عشاء، فجر کی نماز باجماعت دوکان میں پڑھ لیتے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنا امام بنا لیتے۔ دوکانات لبِ سڑک تھیں۔ بلا خوف و خطر دوکان میں آتے اور نماز کی جماعت کراتے۔ ڈاکٹر صاحب ہر وقت تبلیغ میں مصروف رہتے۔ اور جوش میں فرمایا کرتے تھے کہ میرا دل تو یوں چاہتا ہے کہ ایک کپڑے پر موٹے موٹے حروف میں یہ لکھ کر کہ ’’عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں‘‘ اور اپنے سینے پر کوٹ میں لگا کر منادی کرتا پھروں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 12صفحہ 246-248)

حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قادیان سے بیعت کی منظوری بذریعہ خطوط پہنچی اور ساتھ ہی کچھ لٹریچر سلسلے کا جن میں اخبار الحکم بھی تھا ہم لوگوں کو بھیجا گیا۔ (یہ اخبار بھی منظوری کے ساتھ بھیجا گیا) جس کی ہم نے اشاعت کی۔ لوگوں میں چرچا ہوا اور چرچے کے بعد مخالفت کا بازار شدید طور پر گرم ہو گیا۔ جابجا جلسے ہونے لگے جن میں ہم لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جبراً کھینچ گھسیٹ کر لے جایا جاتا اور توبہ پر مجبور کیا جاتا۔ (توبہ کرو کہ مرزا صاحب سچے نہیں۔ ہم اب مریدنہیں رہے۔ خیر کہتے ہیں کہ) بعض کمزور لوگ جو تھے پھسلنے لگے، (سختی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اُن میں استقامت نہیں تھی) اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت حافظ صوفی تصور حسین صاحبؓ اور شیخ سعد اللہ صاحبؓ جو کہ براہِ راست صوفی صاحب کے مرید تھے اور یہ عاجز باقی رہ گئے اور دوسرے سبھی لوگ دشمنوں کے دباؤ کی برداشت کرنے سے خائف ہو کر پھر گئے۔ (اب تین آدمیوں کے علاوہ باقی سب احمدیت چھوڑ گئے۔ سختیاں برداشت نہ کر سکے۔ لیکن ان لوگوں نے سختیاں برداشت کیں۔ استقامت دکھائی۔ لکھتے ہیں کہ) صوفی صاحب کو اللہ تعالیٰ استقامت بخشے۔ وہ قادیان پہنچ کر نورِ نبوت سے حصہ پاچکے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص حکمت اور مصلحت نے میرے دل کو غیب سے منور فرمایا۔ (صوفی صاحب تو قادیان جا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ آئے تھے۔ اُن کا ایمان مضبوط تھا، لیکن میں ابھی تک نہیں گیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی فضل فرمایا اور میرے دل کو روشن رکھا۔ ) اپنی قدرت نمائی سے منور فرمایا۔ مجھ پر مخالفت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ نہ میں اُن کے دباؤ سے دبا۔ بلکہ جتنا وہ دباتے اور ڈراتے، میرا ایمان خدا کے فضل اور رحم سے زیادہ مستحکم ہوتا۔ اُن کے مطالبۂ توبہ کو مَیں یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کرتا کہ توبہ کس بات سے آپ کرواتے ہیں؟‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 12صفحہ 312-313)

پھر ایک روایت حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ مخالفوں نے ایک بھاری جلسہ کر کے بہت شور مچایا اور ہنگامہ برپا کیا۔ جس میں نشانہ عداوت و بغض صرف یہ عاجز تھا۔ (یعنی حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب۔ اُن کو ساری دشمنی کا نشانہ بنایا۔ ) انہوں نے میرے خلاف بہت سی تجاویز کیں۔ بائیکاٹ کا خوف دلایا۔ پولیس تک کو میرے خلاف بھڑکایا اور مجھے ایک فسادی اور باغی کے نام سے یاد کر کے جاہل لوگوں کو میرے خلاف اس رنگ میں بھڑکایا کہ میری جان کے لالے پڑ گئے۔ اُن حالات سے متاثر ہوکر (اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک بیان کرتے ہیں کہ کیا تھا؟) کہ میں ایک رات جنگل میں نکل گیا۔ قبلہ رُخ ہو کر دست بستہ کھڑا ہو گیا اور اپنے طریق سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عالمِ خیال میں مخاطب کرکے عرض کیا کہ حضور اس خطرناک موقع میں دست گیری اور رہنمائی کا کوئی سامان فرمائیں۔ اور میں نے یہ التجا اور دعا اس الحاح اور سوز و گداز سے کی اور رو رو کر عرض حال اور مشکل پیش آمدہ کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا۔ (یہاں میں وضاحت کر دوں کہ یہ کوئی شرک والی حالت نہیں تھی جس طرح پیر وں فقیروں پہ جا کے مانگا جاتا ہے، سجدے کئے جاتے ہیں یا اُن کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔ بہر حال ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ذہن میں لائے کہ ظلم سے اللہ تعالیٰ بچائے۔ اس بات کی وضاحت کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نہیں مانگا جا رہا تھا، اللہ تعالیٰ سے ہی مانگا جا رہا تھا، اُن کا یہ فقرہ ہے جو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا۔ حضرت مسیح موعود کا حوالہ دیا تو یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعودنے سنا۔ جس طرح ہمارے ہاں عام طورپر لوگ پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں پیر صاحب نے ہماری بات سن لی اور ہمیں فلاں چیز عنایت کر دی۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا۔ خیر) رات اُسی حالت میں اور فکر میں سو گیا۔ (خواب میں) کیا دیکھتا ہوں کہ مخالفوں نے میرے مکان کا گھیرا کر لیا ہے۔ اور چاروں طرف سے آوازیں کَس رہے ہیں کہ اس شخص کو اب جان ہی سے مار ڈالو۔ اسی اثناء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھ پر نمودار ہوئے اور میرے بازؤوں کو اپنے دستہائے مبارک سے پکڑ کر میرا منہ آسمان کی طرف کرایا اور فرمایا کہ آسمان کی طرف اُڑ جاؤ۔ چنانچہ حضور کی قوتِ قدسیہ ہی کے سہارے میرے جیسا بے پر انسان زمین سے اُڑ کر آسمان کی طرف چلا گیا۔ مخالفین اپنے ارادے میں ناکام حیران کھڑے دیکھتے رہے۔ اُس وقت خواب کے بعد میری آنکھ خوشی کے مارے کھل گئی اور مجھے یقینِ کامل ہو گیا کہ واقعی سیدنا حضرت اقدس خدا کے ایک راستباز اور صادق فرستادے ہیں۔ چنانچہ دوسرے روز صبح کو جب پھر مخالف لوگ میرے گرد جمع ہوئے تو میں نے اُن سے صاف کہہ دیا کہ خدا نے اپنی قدرت نمائی سے اب مجھے وہ طاقت بخش دی ہے کہ اگر تم لوگ آروں سے بھی میرے جسم کو چیر دو تو یہ دل اور یہ منہ اس صداقت سے اب پھر نہیں سکتے۔ (کہتے ہیں) دوسری رات کو پھر خواب میں دیکھتا ہوں کہ پولیس نے میرے مکان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (یہ دشمنی تو ختم نہیں ہو رہی تھی۔ روز اُن کے خلاف جلسے جلوس ہو رہے تھے۔ ) اور پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ پبلک سے تو یہ شخص بچ گیا مگر چونکہ اس نے ایک قسم کا فساد اور بدامنی پھیلا رکھی ہے، اب حکومت اُس کو اپنے انتظام سے دبائے گی اور اگر یہ باز نہ آیا تو اُس کو جان سے مار دیا جائے گا۔ پولیس کے اس حملے اور گھیرے سے میں (خواب میں) سخت پریشان ہوا۔ (کہتے ہیں) مگر اچانک پھر کل رات کی طرح میرے آقا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھ پر ظاہر ہوئے اور اسی طرح میرے دونوں بازو اپنی شفقت سے پکڑے۔ میرا منہ آسمان کی طرف کیا اور فرمایا کہ آسمان کی طرف اُڑ جاؤ۔ چنانچہ میں پھر کل کی طرح زمین سے آسمان کو اُڑنے لگا اور پولیس وغیرہ کے حملے سے نجات پاگیا۔ الحمدللہ۔ چنانچہ دونوں رؤیا میں میرا ایمان میخ آہن کی طرح مضبوط اور پہاڑ کی چٹان کی طرح راسخ ہو گیا۔ اور حضور پُر نور کی صداقت ایسے رنگ سے دل میں گَڑ گئی کہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے۔ (اب اس کو کوئی نہ توڑ سکتا ہے نہ کاٹ سکتا ہے۔) الحمد للہ۔ الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ۔ (کہتے ہیں کہ) اب دل میں ایک جوش اور اُمنگ پیدا ہوئی کہ اس فرستادہ الٰہی کی زیارت سے بھی مشرف ہو سکوں۔ (اُس وقت تک آپ نے دیکھا نہیں تھا) چنانچہ میں نے حضرت کے حضور خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے رقم فرمایا کہ میاں عبدالمجید آپ فوراً قادیان چلے آئیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے اور یہ کیفیت آج بھی بہت سارے لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن میں پیدا کرتا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 12صفحہ 278-279)

حضرت امیر خان صاحب کی روایت ہے۔ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ ’’جب میں بیعت کر کے دارالامان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اہرانہ آیا تو مسمٰی مہتاب خان جو ایک کھڑپینچ تھا (اور کچھ بڑا اپنے آپ کو سمجھتا تھا) اور کچھ معمولی نوشت و خواند کی وجہ سے پرلے درجے کا مغرور تھا (یعنی معمولی پڑھا لکھا آدمی تھا۔) اور ہمہ دانی کا مدعی تھا۔ (یعنی بہت کچھ اب اُس کو آتا ہے۔ ہر چیز میں اپنے آپ کو ماہر سمجھتا تھا) میری مخالفت پر تل گیا اور زبان درازی میں حد سے گزر گیا۔ مگر میں صبر سے کام لیتا رہا۔ آخرکار اُس کے کنبے میں طاعون پھوٹ پڑی اور اس قدر تباہی ہوئی کہ بہو اور بھابھی اور جوان لڑکا جو ایک ہی تھا وہ سب کے سب چند دنوں میں پلیگ کا شکار ہو گئے اور کوئی روٹی پکانے والا بھی نہ رہا۔ اُس کی ایک لڑکی جو نزدیک ہی دوسرے گاؤں میں بیاہی ہوئی تھی، اُس کے جاکر وہ روزانہ روٹی کھاتا مگر شریکوں کی روٹی کھانا، (یعنی بیٹی کے سسرال میں جا کر روٹی کھانا) اُس کے لئے موت سے بدتر تھا۔ مہتاب خان مذکور کی عمر اُس وقت ساٹھ سال سے کچھ اوپر ہو گی اور جائیداد غیر منقولہ صرف ڈیڑھ گھماؤں کے قریب باقی ہو گی۔ (یہ ڈیڑھ گھماؤں ایکڑ سے بھی کم ہوتا ہے) ایک دن صبح کے وقت نماز فجر کے بعد میں ایک مسجد میں قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہا تھا کہ وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ دیکھ میری حالت کیا ہے؟ اور کعبے کی طرف ہاتھ کر کے کہنے لگا کہ مجھے کوئی مرزا صاحب سے عنادنہیں ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 6 صفحہ126-127)۔ (کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ حالت ہوئی تو تب اُس کو خیال بھی پیدا ہوا۔)

صحابہ کی استقامت کے یہ چند واقعات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسی جماعت عطا فرمائی ہے جو ثابت قدمی اور استقامت میں آج بھی غیر معمولی نمونے دکھانے والی ہے۔ کئی خطوط مجھے آتے ہیں، کئی لوگ مجھے ملتے ہیں اور اپنے واقعات سناتے ہیں۔ یہ نمونے دکھانے والے جہاں مرد ہیں، وہاں عورتیں بھی ہیں۔ پس جو جاگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوتِ قدسی کی وجہ سے صحابہ میں لگی تھی اللہ تعالیٰ نے اب تک اُسے جاری فرمایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن صحابہ کے بھی درجات بلند فرمائے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول فرمایا اور استقامت سے ثابت قدمی دکھائی اور اُن کی اولادوں کو بھی استقامت بخشے۔ اور اب شامل ہونے والوں، جو ہم میں موجود ہیں اور آئندہ شامل ہونے والوں کے ایمانوں کو بھی قوت اور طاقت بخشے اور استقامت بخشے۔

استقامت کے علاوہ بھی کچھ واقعات ہیں جو میں پیش کرتا ہوں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جو معجزانہ حفاظت فرمائی اور اللہ تعالیٰ کا اُن سے جو خاص سلوک تھا، اُس کا ذکر ہے جو یقینا ہمارے لئے ازدیادِ ایمان کا باعث بنتا ہے۔

حضرت مرزا برکت علی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’بندہ 4؍ اپریل 1905ء کے زلزلہ عظیم میں بھاگسو ضلع کانگڑہ بمقام ایردھرم سالہ ایک مکان کے نیچے دب گیا اور بصد مشکل باہر نکالا گیا تھا۔ اُس موقع کے چشم دید گواہ بابو گلاب دین صاحب اوورسیئر پنشر جو اُن ایام میں وہاں پر بطور سب ڈویژنل آفیسر تعینات تھے، آج سیالکوٹ میں زندہ موجود ہیں۔ اس واقعہ کے ایک دو ماہ قبل جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس زلزلہ عظیم کی پیشگوئی شائع فرمائی تھی۔ (اُس سے چند ماہ پہلے اس زلزلہ کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی تھی) کہتے ہیں۔ بندہ خود بھی قادیان دارالامان موجود تھا (جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے) اور حضور کے شائع فرمودہ اشتہارات ہمراہ لے کر دھرم سالہ چھاؤنی پہنچا اور وہ اشتہارات متعدد اشخاص کو تقسیم بھی کئے تھے۔ چونکہ بندہ وہاں بطور کلرک کام کرتا تھا اور عارضی ملازمت میں مجھے فرصت حاصل تھی۔ اس لئے بندہ وہاں وقتاً فوقتاً مرزا رحیم بیگ صاحب احمدی صحابی کو بھی ملنے جایا کرتا تھا۔ مرزا صاحب موصوف مغلیہ برادری کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کے دوسرے بھائی احمدی نہ تھے۔ صرف اُن کی اپنی بیوی بچے اُن کے ساتھ احمدی ہوئے اور باقی تمام لوگ اُن کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ اور جو احمدی ہوئے یہ سب لوگ جو تھے وہ محفوظ رہے اور بعض اور احمدی بھی جو مختلف اطراف سے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے وہاں رہتے تھے۔ یہ کہتے ہیں وہ بھی سب کے سب اس زلزلے کی تباہی میں بچ گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حالانکہ میرے خیال میں جو اموات کا اندازہ تھا نوّے فیصد جانوں کا نقصان تھا۔ اور ایسے شدید زلزلے میں ہم سب احمدیوں کا بچ جانا ایک عظیم الشان نشان تھا۔ اس کی تفصیل اگر پوری تشریح سے لکھوں تو یقینا ہر طالبِ حق خدا تعالیٰ کی نصرت کو احمدیوں کے ساتھ دیکھے گا۔ (یعنی جو حق کو جاننا چاہتا ہے وہ اس زلزلے کے واقعات کو سن کر ہی یقینا یہ محسوس کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت احمدیوں کے ساتھ ہے۔) کہتے ہیں کہ کیونکہ میرے اہل و عیال بلکہ خانصاحب گلاب خان صاحب کے اہل و عیال اور مستری اللہ بخش صاحب سیالکوٹی اور اُن کے ہمراہ غلام محمد مستری اور دوسرے احمدی احباب کے اس زلزلے کی لپیٹ سے محفوظ رہنے کے متعلق جو قدرتی اسباب ظہور میں آئے اُن میں ایک ایک فرد کے متعلق جدا جدا نشان نظر آتا ہے۔ خصوصاً مستری الٰہی بخش صاحب کی وہاں سے ایک دن قبل اتفاقی روانگی اور ہمارے اہل و عیال کا کچھ عرصہ قبل وہاں سے وطن کی طرف مراجعت کرنا (واپس آنا) اور زلزلے سے پیشتر بعض احباب کا دوکان سے باہر نکل جانا اور زلزلے میں دَب کر عجیب و غریب اسباب سے باہر نکلنا، یعنی جو دب گئے وہ سب باتیں بھی بطور نشان تھیں۔ اور میرا ارادہ ہے کہ اُس پر تفصیل سے ایک مضمون لکھ کر ارسالِ خدمت کروں۔ (پتہ نہیں بعد میں انہوں نے لکھا کہ نہیں لیکن بہر حال کہتے ہیں) فی الحال مختصراً ان مقامات کا تذکرہ کیا گیا ہے (جب انہوں نے روایت درج کروائی ہے) جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کے سلسلے میں پیش آیا۔ کہتے ہیں اس زلزلے کے کچھ دن بعد جب خاکسار قادیان میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور اُن ایام میں آم کے درختوں کے سائے میں مقبرہ بہشتی کے ملحقہ باغ میں خیمہ زن تھے۔ (خیمہ میں رہا کرتے تھے۔) جب بندہ نے حضور سے ملاقات کی تو حضور نے میرے متعلق کئی سوال کئے کہ آپ مکان کے نیچے دَب کر کس طرح زندہ نکل آئے۔ تو بندہ نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے مستری اللہ بخش صاحب احمدی کی چارپائی نے بچایا جو ایک بڑی دیوار کو اپنے اوپر اُٹھائے رکھے، (جس نے بڑی دیوار کو اپنے اوپر اُٹھائے رکھا) اور مجھے زیادہ بوجھ میں نہ دبنا پڑا۔ ایسے ہی حضور نے اور احمدیوں کے متعلق سوالات کئے اور بندہ نے سب دوستوں کے محفوظ رہنے کے متعلق شہادت دی۔ حالانکہ حضور اس سے قبل اشتہار میں شائع فرما چکے تھے کہ زلزلے میں ہماری جماعت کا ایک آدمی بھی ضائع نہیں ہوا۔ اور مجھے یقین ہے کہ حضور کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا علم ہو چکا تھا۔ ورنہ مجھ سے قبل دھرم سالے سے کوئی احمدی حضور کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا تھا۔ (دھرم سالے سے کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں نہیں آیا تھا۔ یہ پہلے آدمی آئے تھے اور ان سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ساری تفصیلات معلوم کیں۔ لیکن جو اشتہار تھا کہ اس زلزلے میں کسی بھی احمدی کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، اس بارے میں آپ نے اشتہار فرما دیا تھا۔) تو کہتے ہیں پس حضور سے بندہ کی ملاقات جو زلزلہ کانگڑہ کے بعد ہوئی، اس میں احمدیوں کے بچ جانے کو حضور نے ایک نشان قرار دیا ہے اور خصوصاً میرا اپنا زلزلہ میں دب کر بچ جانا نشان ہے جس کا بذریعہ تحریر اعلان کر دیا گیا ہے۔ مبارک وہ جو اس چشم دیدنشان سے عبرت پکڑیں اور خدا کے فرستادے پر ایمان لائیں۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 3 صفحہ 1-3)

حضرت چوہدری عبدالحکیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ اتفاقاً میری ملاقات مولوی بدرالدین احمدی سے ہوئی جو شہر کے اندر ایک پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ انہوں نے مجھے اخبار الحکم پڑھنے کو دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار الحکم کے پہلے صفحے پر خدا تعالیٰ کی ’’تازہ وحی‘‘ اور ’’کلماتِ طیبات امام الزمان‘‘ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ (دو ہیڈنگ ہوتے تھے کہ تازہ وحی اور کلماتِ طیبات امام الزمان۔ پہلے صفحہ پر یہ دو عنوان ہوتے تھے۔) کہتے ہیں میں ان کو پڑھتا تھا اور میرے دل کو ایک ایسی کشش آور محبت ہوتی تھی کہ فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں پہنچوں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور باوجود اہلِ حدیث کے مولویوں کے بہکانے اور ورغلانے کے میں نے تھوڑے ہی عرصے میں قبول کر لیا۔ مولوی بدرالدین صاحب نے مجھے قادیان فوراً جانے کا مشورہ دیا اور میرے ساتھ ایک اور اہلِ حدیث مولوی بھی تیار ہو گئے۔ وہ مولوی سلطان محمود صاحب اہلِ حدیث کے شاگردِ خاص تھے۔ لکھتے ہیں کہ میری تنخواہ اُس وقت پندرہ روپے تھی اور غربت کی حالت تھی۔ میں نے رخصت لے لی۔ چونکہ ریلوے پاس کا ابھی حق نہ تھا۔ میں نے بمع دوسرے دوست کے امرتسر کا ٹکٹ لیا۔ کیونکہ ہمارے پاس قادیان کا کرایہ پورا نہ تھا۔ امرتسر پہنچ کر ہمارا ٹکٹ ختم ہو گیا اور ہم نے بٹالے والی گاڑی میں سوار ہونا تھا مگر ہمارے پاس صرف آٹھ آنے کے پیسے تھے۔ اس لئے ہم نے دو دو آنے کا ویرکے کا ٹکٹ لے لیا اور گاڑی میں سوار ہو گئے۔ ویرکہ سٹیشن پر جب گاڑی پہنچی تو ہمارا ٹکٹ ختم ہو چکا تھا مگر ہم نہ اُترے اور گاڑی روانہ ہو گئی۔ جب دوسرے سٹیشن کے درمیان گاڑی جا رہی تھی کہ ریلوے کا ایک ملازم ٹکٹ پڑتال کرنے آیا اور سب مسافروں سے ٹکٹ دیکھنا شروع کیا۔ چونکہ ہمارا ٹکٹ پچھلے سٹیشن کا تھا اور ہمارے پاس رقم بھی نہ تھی۔ ہم دونوں اپنی بے عزتی ہونے کی وجہ سے بہت پریشان اور ہراساں ہوئے اور سوائے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ہم دونوں نے مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہم تیرے سچے مسیح کی خدمت میں جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اپنے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خاطر جو تیرا پیارا ہے ہماری پردہ پوشی فرما اور ہم کو بے عزتی اور رسوائی سے بچا۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا قبول فرمائی۔ جب ریلوے ملازم نے ہم سے ٹکٹ طلب کیا تو ہم نے وہی ٹکٹ جو پچھلے سٹیشن کے تھے اُس کو دے دئیے اور مجھے خوب یاد ہے کہ اُس نے وہ ٹکٹ اچھی طرح دیکھ کر ہم کو واپس دے دئیے اور ہمیں کچھ بھی نہ کہا اور دوسرے کمرے میں چلاگیا۔ یہ ہمارے لئے ایک معجزہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے اور پاک مسیح کی خاطر ہماری پردہ پوشی فرمائی اور ہم کو رسوائی سے بچا لیا اور یہ واقعہ ہمارے لئے تقویتِ ایمان کا باعث ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی ہمارے لئے اظہر من الشمس ہو گئی۔ بٹالہ سے اُتر کر ہم پیدل قادیان کے لئے روانہ ہوئے اور ظہر کے وقت دارالامان پہنچے۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 3صفحہ121-123)

حضرت اللہ دتہ صاحبؓ ہیڈ ماسٹر فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ہزاروں موتوں اور آفات سے غیرمعمولی فضل سے بچایا۔ میں نے سانپوں کو پکڑا۔ سانپوں پر چڑھ گیا اور سانپ مجھ پر چڑھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر جگہ سے بال بال بچایا۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 7 صفحہ121)

حضرت ماسٹر ودھاوے خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’امرتسر کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہاں پر طاعون بہت زوروں پر تھی۔ میں ایک دن سکول سے گھر آیا تو میری اہلیہ صاحبہ دروازے پر کھڑی تھیں۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے اندر چوہے مرے پڑے ہیں اور گھبراہٹ کا اظہار کیا۔ میں نے بڑے یقین سے کہا کہ فکر نہ کرو۔ ہماری جماعت طاعون سے محفوظ رہے گی اور کوئی اندیشہ نہیں۔ اس کے بعد میں نے جھاڑو دے کر مکان کو صاف کر دیا۔ دوسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ ہوا اور چوہوں کے ساتھ کیڑے بھی بہت سے تھے۔ میں نے پھر اُن کو صاف کر دیا اور اہلیہ کو تسلی دی کہ کوئی فکر نہیں۔ ہماری جماعت اس سے محفوظ رہے گی۔ تیسرے چوتھے دن کے بعد رات کے بارہ بجے مجھے میری اہلیہ نے کہا کہ مجھے تو گلٹی نکل آئی ہے۔ (یعنی طاعون کی گلٹی)۔ میں نے بڑی تسلی اور یقین کے ساتھ کہا کہ گھبرائیں نہیں۔ میں صبح ہی حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کا خط لکھ دوں گا۔ چنانچہ میں نے صبح ہی خط لکھ دیا اور میرا خیال ہے کہ وہ خط ابھی قادیان نہیں پہنچا ہو گا کہ وہ گلٹی ناپید ہو گئی (ختم ہو گئی) اور میری اہلیہ بالکل تندرست ہو گئی۔ اسی طرح پھر دوسرے تیسرے دن میرے لڑکے عبدالکریم کو جو ایک سال کا ہو گا اُسے گلٹی نکل آئی۔ میں نے پھر حضور کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھ دیا اور گھر والوں کو بہت تسلی دی۔ چنانچہ وہ گلٹی بھی خود بخود ختم ہو گئی۔ اُس وقت پلیگ کا اس قدر زور تھا کہ روزانہ دو اڑھائی صد آدمی بیماری سے مرتا تھا اور اس شرح موت کا ذکر کمیٹی کی طرف سے روزانہ ہوتا تھا۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 11 صفحہ26-27)

اس بارے میں یہ وضاحت کر دوں کہ جب طاعون پھیلی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض ہدایات بھی جاری فرمائی تھیں، شاید اُن تک پہنچی نہ ہوں یا انہوں نے اُس کو صحیح طرح سمجھا نہیں ورنہ صحابہ تو جو بھی صورتحال ہو فوراً عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے جو بھی ارشاد آئے، وہ ارشاد یا آگے پیچھے ہو گیا ہو یا یہ واقعہ بعد کا ہے یا پہلے کا۔ بہرحال یہ ان کی ایمان کی مضبوطی تو ہے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کے ایمان کو مضبوط کیا بلکہ ان کے بیوی بچوں کو بھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس وقت جب ہر محلے میں ہر جگہ یہ طاعون پھیل گئی ہے جو ہدایات فرمائی تھیں، وہ یہ تھیں۔ آپ نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ ’’یہ ہمارا حکم ہے۔ بہتر ہے کہ لاہور کے دوست اشتہار دے دیں کہ جس گھر میں چوہے مریں اور جس کے قریب بیماری ہو، فوراً وہ مکان چھوڑ دینا چاہئے‘‘ (یا لوگ سمجھے کہ یہ صرف لاہور کے لئے ہے۔ لیکن بہرحال ایک عمومی حکم ہے کہ بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو وبائیں ہوں اُن کا بہرحال تدارک کرنا چاہئے۔ ) فرمایا کہ ’’فوراً وہ مکان چھوڑ دینا چاہئے اور شہر کے باہر کسی کھلے مکان میں چلا جانا چاہئے۔ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ ظاہری اسباب کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے۔ گندے اور تنگ و تاریک مکانوں میں رہنا تو ویسے بھی منع ہے خواہ طاعون ہو یا نہ ہو۔ …… ہر ایک پلیدی سے پرہیز رکھنا چاہئے۔ کپڑے صاف ہوں۔ جگہ ستھری ہو۔ بدن پاک رکھا جائے۔ یہ ضروری باتیں ہیں اور دعا اور استغفار میں مصروف رہنا چاہئے‘‘۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی۔ ایک جگہ مسلمانوں کی فوج گئی ہوئی تھی۔ وہاں سخت طاعون پڑی۔ جب مدینہ شریف میں امیر المومنین کے پاس خبر پہنچی تو آپ نے حکم لکھ بھیجا کہ فوراً اس جگہ کو چھوڑ دو اور کسی اونچے پہاڑ پر چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ فوج اُس سے محفوظ ہو گئی۔ اُس وقت ایک شخص نے اعتراض بھی کیا کہ کیا آپ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟ فرمایا میں ایک تقدیرِ خداوندی سے دوسری تقدیرِ خداوندی کی طرف بھاگتا ہوں اور وہ کونسا امر ہے جو خدا تعالیٰ کی تقدیر سے باہر ہے۔‘‘ (ملفوظات جلدنہم۔ صفحہ 248)

تو یہ عمومی ہدایت ہے۔ یہ بھی نہیں کہ جان بوجھ کے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا جائے۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے دو وعدے اپنی وحی کے ذریعے سے کئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس گھر کے رہنے والوں کو طاعون سے بچائے گا جیسا کہ اُس نے فرمایا ہے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ دوسرا وعدہ اُس کا ہماری جماعت کے متعلق ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمِھِمْ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مَھْتَدُوْنَ۔ (ترجمہ) جن لوگوں نے مان لیا ہے اور اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کو نہ ملایا۔ ایسے لوگوں کے واسطے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ جماعت کے وہ لوگ بچائے جائیں گے جو پوری طرح سے ہماری ہدایتوں پر عمل کریں اور اپنے اندرونی عیوب اور اپنی غلطیوں کی میل کو دور کر دیں گے۔ اور اپنے نفس کی بدی کی طرف نہ جھکیں گے۔ بہت سے لوگ بیعت کر کے جاتے ہیں مگر اپنے اعمال درست نہیں کرتے۔ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کیا بنتا ہے؟ خدا تعالیٰ تو دلوں کے حالات سے واقف ہے۔‘‘ (بدر۔ جلد 6نمبر 14 صفحہ 7۔ مؤرخہ 4؍اپریل 1907ء)

پس یہ دو باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وعدے ہیں۔ ہر مشکل، ہر مصیبت، ہر وبا سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے ایمانوں کی طرف دیکھنے کی ہر وقت ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اپنے ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں؟

حضرت مولوی صوفی عطا محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اب ملنا میرے لئے مشکل تھا (یعنی جن حالات میں وہ تھے ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنا مشکل تھا) کیونکہ رخصت تو ملتی نہیں تھی۔ اتفاق سے اخبار میں یہ پڑھا کہ حضرت اقدس جہلم تشریف لا رہے ہیں اور مجھے تو جہلم جانے کی بھی اجازت نہ مل سکتی تھی مگر میں بہت بیقرار تھا۔ گھر والوں کو میں نے کہا کہ کل اتوار ہے اور حضرت اقدس جہلم تشریف لائے ہیں۔ آپ کسی کو بتائیں نہیں، میں جاتا ہوں۔ وقت گاڑی کا بالکل تنگ تھا اور تین میل پر سٹیشن تھا۔ رستہ پہاڑی، رات کا وقت، دن کو بھی لوگوں کو اُس طرف پر چلنا مشکل تھا۔ میں نے خدا پر توکل کیا اور چل پڑا۔ اتفاق سے کوئی بتّی تمام راستہ میرے آگے چلتی گئی۔ شاید کوئی اور آدمی بھی جا رہا ہو گا۔ خدا خدا کر کے پہاڑی رستہ دوڑتے ہوئے طے کیا۔ جب سٹیشن پر پہنچا تو گاڑی بالکل تیار تھی۔ ٹکٹ لیا اور جہلم پہنچا اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 11 صفحہ209-210)

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت بالکل نوجوان تھا۔ کپورتھلے میں ایک رات مجھے ایک خواب آیا کہ ایک ہاتھی ہے۔ میں اُس کے نیچے آ گیا ہوں اور اس کا پیٹ میرے اوپر ہے۔ جب صبح ہوئی تو خانصاحب عبدالمجید خان صاحب نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب! آج دریائے بیاس میں طغیانی آئی ہوئی ہے اور ہم ہاتھیوں پر بغرضِ سیر و تفریح وہاں دریا کا نظارہ دیکھنے کے لئے جانے کے لئے تیار ہیں۔ آپ بھی ضرور تشریف لے چلیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں نہیں جا سکتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج رات میں نے ایک سخت منذر خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں ہاتھی کے نیچے آ گیا ہوں۔ لیکن وہ یہ خواب سن کر بھی برابر اصرار ہی کرتے رہے اور میں بار بار انکار کرتا کیونکہ میرے قلب پر اس خواب کا بہت برا مہیب اثر مستولی ہو رہا تھا۔ اور جب میں نے خانصاحب سے یہ فقرہ سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ دریا پر جانے کے لئے ہاتھیوں پر سوار ہو کر جانا ہے تو ہاتھیوں کا نام سن کر اور بھی میرے دل پر اس خواب کا شدید اثر محسوس ہوا۔ پھر تو میں نے شدت کے ساتھ انکار کیا اور ساتھ جانے سے اعراض کیا۔ پھر خانصاحب کے ساتھ اور کئی دوست بھی جانے کے لئے مصر ہوئے (اصرار کرنے لگے۔) اُن دوستوں کے بے حد اصرار کی وجہ سے آخر میں نے سمجھا کہ قضا و قدر یہی مقدر معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ وقوع میں آنا ہے وہ ہو کر رہے۔ تب میں با دل نخواستہ اُن کے ساتھ تیار ہو گیا اور دوستوں نے کئی ہاتھی تیار کئے اور تین ہاتھی تھے یا چار جن پر دوست سوار ہوئے۔ مجھے بھی خانصاحب موصوف نے اپنی معیت میں ایک ہاتھی پر سوار کیا۔ جب دریا پر گئے تو قضاء و قدر نے ظاہری ہاتھیوں کی صورت میں تو اس منذر خواب کی حقیقت ظاہر نہ ہونے دی بلکہ اس کے لئے ایک دوسرا پیرایہ اختیار کیا کہ جب ہم ہاتھیوں سے اُتر کر بر لبِ دریا کھڑے ہو کر نظارہ کرنے لگے تو ایک نوجوان کو دیکھا کہ اس طغیانی کے موقع پر دریا کا پل جو اپنے نیچے کئی درے رکھتا تھا، وہ اس کے قریب کے دَر سے پل کے اوپر سے چھلانگ لگا کر کود پڑتا، پھر پل کے نیچے سے قریب کے دَر سے گزر کر دوسری طرف نکل آتا۔ میں بھی کچھ کچھ تیراکی جانتا تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ بھائی! آپ قریب کے دَر سے گزرتے ہیں، بات تب ہو کہ آپ کسی دور کے دَر سے گزریں۔ اُس نے کہا دریا زوروں پر ہے کیونکہ طغیانی کا موقع ہے۔ اس لئے کسی دور کے در سے پُل کے نیچے سے گزرنا اس وقت بہت مشکل ہے۔ میں نے کہا تیراکی آتی ہے تو پھر کس بات کا خوف ہے؟ اُس نے کہا کہ آپ تیراکی جانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ! کچھ جانتا ہوں۔ اُس نے کہا پھر آپ ہی گزر کے دکھائیں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میں نے لنگوٹ پہن کر دور کے دَر سے گزرنے کی غرض سے پل کے اوپر سے چھلانگ لگائی۔ پہلی دفعہ تو میں درے کے پل کے نیچے سے صاف گزر گیا لیکن دوسری دفعہ پھر اَور دُور کے دَر سے گزرنے کے لئے چھلانگ لگانے لگا۔ جب پل کے اوپر سے میں نے چھلانگ لگائی تو اتفاق سے جہاں میں نے چھلانگ لگائی اور گرا وہ سخت بھنور اور گرداب کی جگہ تھی۔ (یعنی اُس جگہ میں بہت زیادہ بھنور تھا۔) جہاں پانی چکی کی طرح بہت ہی بڑے زور سے چکر کھا رہا تھا۔ میں گرتے ہی اس گرداب میں پھنس گیا اور ہر چند کوشش کی کہ وہاں سے نکل سکوں لیکن میری کوشش عبث ثابت ہوئی۔ آخر میں اسی گرداب میں کچھ وقت تک پانی کی زبردست طاقت کے نیچے دب گیا اور میرے لئے بظاہر اس گرداب سے نکلنا محال ہو گیا۔ اور میری مقابلہ کی قوتیں سب کی سب بیکار ہونے لگیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ دو تین منٹ کے اندر اندر اب میری زندگی کا نظام درہم برہم ہو کر میرا کام تمام کر دیا جائیگا۔ اُس وقت سب احباب جو پل کے اوپر سے میری اس حالت کا نظارہ کر رہے تھے وہ شور کرنے لگے کہ ہائے افسوس! مولوی صاحب گرداب میں پھنس کر اپنی زندگی کے آخری دم توڑنے کو ہیں۔ اُس وقت عجیب بات قضاء و قدر کے تصرف کی یہ تھی کہ احباب باوجود واویلا کرنے اور شور مچانے کے کہ میں ڈوب رہا ہوں، اُنہیں یہ بات نہ سوجھ سکی کہ وہ سر سے پگڑی اتار کے ہی میری طرف پھینک دیتے، تا میں اس پگڑی کا ایک سرا پکڑ کر کچھ بچاؤ کی صورت اختیار کر سکتا۔ مگر یہ خیال کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ اب میری حالت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ عالمِ اسباب کے لحاظ سے بالکل مایوس کن حالت ہو رہی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میری زندگی کا سلسلہ اب صرف چند لمحوں تک ختم ہو جانے والا ہے اور مَیں آخری سانس لے رہا ہوں۔ اتنے میں قضاء و قدر نے ایک دوسرا سین بدلا اور حضرت خالق الاسباب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طفیل برکت، جن کی اجازت اور ارشاد کے تحت خاکسار نے کپور تھلے کا سفر اختیار کیا تھا، میری حفاظت اور بچاؤ کے لئے بالکل ایک نئی تجلی قدرت کی نمایاں فرمائی اور وہ اس طرح کہ میں جس گرداب میں غوطے کھا رہا تھا اور کبھی نیچے اور کبھی اوپر اور کبھی پانی کے اندر اور کبھی پانی سے باہر سر نکالتا تھا اور جو کچھ یہ ہو رہا تھا میری طاقت اور اختیار سے باہر کی بات تھی، اُس وقت پانی اپنی طغیانی اور طاقت کے ساتھ مجھ پر پورے طور پر متصرف نظر آتا تھا کہ ناگاہ کسی زبردست ہاتھ نے مجھے اُس گرداب کے چکر سے باہر پھینکا اور زور کے ساتھ اتنا دور پھینکا کہ میں کنارے کی طرف ایک ببول کا بہت بڑا درخت جو دریا کے کنارے سے دریا کے اندر دور تک گھرا پڑا تھااُس کی شاخ میرے ہاتھ میں محض قدرت کے تصرف سے آ گئی اور میں سنبھل گیا اور شاخوں کا سہارا لے کر دیر تک آرام کی خاطر وہاں خاموش کھڑا رہا۔ پھر خدا کے، ہاں محض حضرت خیر الراحمین کے فضل و کرم سے میں باہر سلامتی کے کنارے تک پہنچ گیا۔ اُس وقت مجھے وہ خواب اور اُس کی یہ تعبیر آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ اور مجھے اُس وقت یہ بھی معلوم ہوا کہ قضاء و قدر رؤیا میں ہاتھی کے نیچے آنے کی تعبیر میں کبھی ہاتھی کی جگہ کوئی دوسری آفت بھی ظاہر کر دیتی ہے۔ حالانکہ اس سفر میں ہاتھی پر ہی ہم سوار ہو کر دریا پر پہنچے لیکن رؤیا کا انذاری پہلو ہاتھی کی جگہ دریا کے حادثہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ دوسرے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ گرداب سے میرا بچ جانا بطفیل برکات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوا تھا اور آپ کی اجازت اور ارشاد کے ماتحت میرا کپور تھلے میں آنا اور خدمتِ سلسلہ میں تبلیغ کا کام کرنا، اس کی وجہ سے میں ہلاکت سے بچایا گیا ورنہ اسباب کے لحاظ سے حالات بالکل مایوس کن نظر آتے تھے۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 10 صفحہ19, 25, 28)

تو یہ واقعات بھی صحابہ کی ایمانی حالت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یقین کا اظہار کرتے ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے جس طرح بیان فرمایا ہے اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو اس کو اتفاقی بات قرار دیتا کہ اتفاق ایسا ہوا کہ دریا نے مجھے پھینک دیا۔ لیکن حضرت مولوی صاحب نے دین کی خاطر سفر کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کو اس کی وجہ قرار دیا۔ تو یہ ہے جو ایمانی حالت ہے جو ہم سب میں پیدا ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 20؍ اپریل 2012ء شہ سرخیاں

    مشکلات و مصائب اور ابتلاؤں کے دوران صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صبرواستقامت اور ثباتِ قدم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مستحکم اور غیرمتزلزل ایمان اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و حفاظت اور تائیدات غیبی کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔

    فرمودہ مورخہ 20؍اپریل 2012ء بمطابق 20؍شہادت 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور