نمازوں کی ادائیگی اور تقویٰ

خطبہ جمعہ 18؍ مئی 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہالینڈ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر مجھے توفیق عطا فرمائی کہ یہاں ہالینڈ کے جلسے میں شامل ہوں۔ یہ جلسہ اصل پروگرام کے مطابق تو اگلے ہفتے ہونا تھا لیکن پھر میری شمولیت کی خواہش کی وجہ سے میرے پروگرام کو دیکھتے ہوئے ہالینڈ کی جماعت نے ایک ہفتہ پہلے کا پروگرام بنا لیا اور بڑے مختصر نوٹس (Notice) پر یہ پروگرام بنایا۔ بیشک ہالینڈ چھوٹا ملک ہے اور جماعت بھی چھوٹی ہے اور بڑی جلدی اطلاعیں بھی ہو سکتی ہیں لیکن پھر بھی اس پروگرام میں تبدیلی آپ لوگوں نے بڑی خوش دلی سے کی اور بڑی آسانی سے کر دی۔ جگہ کا مسئلہ تھا۔ یہ جگہ کافی تنگ ہے۔ ہال جو کرائے پر لئے ہوئے تھے وہ ان تاریخوں پر مل نہیں رہے تھے لیکن بہر حال اچھا انتظام ہو گیا ہے۔ لیکن بعض عملی دقّتیں اور مسائل بھی پیدا ہوئے ہوں گے یا ہو سکتا ہے کہ پیدا ہوں جس میں آپ لوگوں کو کسی معمولی تکلیف سے گزرناپڑے۔ تو اگر ایسی صورت ہو تو ان تکلیفوں کو برداشت کریں۔ اوّل تو مجھے امید ہے کہ ماشاء اللہ کام کرنے والے کارکنان ہر طرح آرام پہنچانے کی اپنی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور اب دنیا میں چاہے چھوٹی جماعتیں ہوں یا بڑی جماعتیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ اور بڑے اجتماعات کے تمام انتظامات سنبھالنے کے لئے ہر جگہ بے غرض اور بے نفس کارکنان کی ٹیمیں تیار ہو چکی ہیں جو خوشی سے مہمانوں کی ہر طرح خدمت کے لئے ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔ اور جو مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہوں آپ کے جاری نظام کے بلانے پر آنے والے مہمان ہوں، اُن کی خدمت تو خاص طور پر بڑے بے نفس ہو کر ہمارے کارکنان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو آئندہ بھی اور ہمیشہ اس بے نفس خدمت کی توفیق دیتا چلا جائے اور انہیں بہترین جزا دے اور اگر کہیں کوئی کمیاں رہ گئی ہیں تو اُن کی پردہ پوشی فرمائے اور مہمانوں کو، شاملین جلسہ کو بھی چاہئے کہ بجائے کمیوں اور کمزوریوں کو دیکھنے کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے اصل مقصد اور جلسہ سالانہ کی غرض کو سامنے رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بیان فرمائی ہے اور یہ غرض وہی ہے جو بیعت کی غرض ہے۔ بیعت کرنے کے بعد دنیاوی دھندوں میں پڑ کر انسان عموماً اپنے اصل مقصد کو بھول جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بار بار نصیحت کرنے کو ضروری قرار دیا ہے کہ اس سے ہر اُس شخص کو جس کے دل میں ایمان ہے، فائدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

فَاِنَّ الذِّکْرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الذاریٰت: 56) پس یقینا نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

پس یہ جلسہ بھی نصیحت کرنے، یاد دہانی کروانے کے لئے منعقد کیا جاتا ہے یا یہ جلسے دنیا میں ہر جگہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ یہ بتانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ اس زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر پھر اپنے عہد کو یاد کرو، اپنے عہد بیعت کو یاد کرو۔ اگر دنیاوی مصروفیات کی وجہ کچھ کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں تو اب نئے سرے سے نصائح سن کر علمی اور تربیتی وعظ و نصائح اور تقاریر سن کر پھر اپنی دینی حالتوں کی طرف توجہ کرو۔ اکٹھے مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی نیکیاں جذب کرنے کی کوشش کرو اور برائیوں کو دور کرو۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسے کے دوران اپنی ذاتی باتوں کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ تمام پروگرام، جتنے بھی ہیں، ان کو سننے کے دوران بھی اور ان کے بعد بھی زیادہ تر وقت دعاؤں اور ذکرِ الٰہی میں گزارنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ سوچ کر شامل ہونا چاہئے کہ ہم اس روحانی ماحول میں دو تین دن گزار کر اپنے عہدِ بیعت کی تجدید کر رہے ہیں تا کہ ہمارے ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں۔ تا کہ ہم تقویٰ میں ترقی کریں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ

تمام مخلصین داخلینِ سلسلۂ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالتِ انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔ (آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4صفحہ351)

پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جلسہ ہمارے لئے اس معیار کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ اس جلسہ میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی سوچ کو مزید صیقل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت اس صورت میں سب محبتوں پر غالب آ سکتی ہے جب ہمیں یہ پتہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ رسول ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اور اس کا صرف یہی مطلب نہیں کہ ہمیں پتہ ہو، ہمارے علم میں ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ بلکہ ان باتوں کو علم میں لا کر اُس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور پھر اس کے حصول کے لئے بھر پور کوشش ہونی چاہئے، مستقل کوشش ہونی چاہئے۔ اور جب ان باتوں پر عمل ہو گا تو تبھی وہ حالت پیدا ہو گی جب انسان کو سفرِ آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔ ایک نہ ایک دن ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے۔ خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔

پس اس بات کو ہم میں سے ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہئے کہ انسان میں نیکیوں پر چلنے اور برائیوں سے رُکنے کا خیال اُس وقت ہی شدت سے پیدا ہوتا ہے جب اُسے یہ یقین ہو کہ مَیں نے ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں مَیں اپنے اعمال کے بارے میں پوچھا جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تَّقُوااللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔ وَاتَّقُوْاللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ (الحشر: 19) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اور چاہئے کہ ہر جان اس بات پر نظر رکھے کہ اُس نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے؟ اور تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہواس سے خوب باخبر ہے۔

پس اللہ تعالیٰ نے یہاں کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ تمہارا ایمان تب کامل ہو گا جب تم خالص اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ گے اور اُس کا تقویٰ اختیار کرو گے۔ اور یہ تقویٰ اُس وقت ایک حقیقی مومن کہلانے والے کو حاصل ہوتا ہے جب وہ یہ دیکھے کہ اُس نے اگلے جہان کے لئے کیا بھیجا ہے۔ اُس حقیقی اور دائمی زندگی کے لئے کیا کوشش کی ہے؟ اس دنیا کے لئے تو انسان کوشش کرتا ہے۔ بڑے تردّد سے ملازمتوں کی تلاش کرتا ہے۔ کاروبار کے لئے محنت کرتا ہے۔ جائیدادیں بنانے کے لئے محنت اور کوشش کرتا ہے۔ اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے لئے فکر مندی کے ساتھ کوشش کرتا ہے اور بہت سے دنیاوی دھندوں کے لئے کوششیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ ان دنیاوی کاموں کے لئے ایک شخص جس کو خدا تعالیٰ پر یقین ہو اس کوشش کے ساتھ کچھ حد تک دعا بھی کرتا ہے یا دوسروں سے دعا کرواتا ہے۔ مجھے روزانہ بیشمار خطوط ان دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے دعا کے آتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جو خود تو صرف دنیا داری کے کاموں میں پڑے رہتے ہیں۔ نمازیں بھی پانچ پوری نہیں پڑھتے۔ اگر پڑھتے ہیں تو جلدی جلدی ٹکریں مار کر پڑھ لیتے ہیں لیکن دعا کے لئے بڑی دردناک حالت بنا کر خط لکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ بھی دنیاوی چیزوں کے لئے۔ بہر حال اس بارے میں آگے مَیں ذکر کروں گا کہ دعاؤں کی کیا اہمیت ہے؟ تو یہاں مَیں یہ بیان کر رہا تھا کہ انسان دنیاوی کاموں کے لئے تو بہت کچھ کرتا ہے۔ یہ ایک احمدی کا دعویٰ بھی ہے کہ مَیں نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جنہوں نے مجھے پھر اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروایا ہے لیکن تقویٰ کا وہ معیار حاصل نہیں کرتا یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا جو ایک احمدی مسلمان کا ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد تمہاری دنیاوی ترقیات کے بارے میں پوچھا جائے گا، بلکہ فرمایا کہ تقویٰ اختیار کرو اور یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے، اُس کل کے لئے، اُس آئندہ کی زندگی کے لئے جو تمہارے مرنے کے بعد شروع ہونی ہے، جو ہمیشہ کی زندگی ہے، اُس کے لئے تم نے کیا آگے بھیجا ہے؟ اس دنیا کی کمائی، اس دنیا کے بینک بیلنس، اس دنیا کی جائیداد، اولاداور عزیز رشتے دار سب یہیں رہ جانے ہیں۔ ان کے بارے میں خدا تعالیٰ کچھ نہیں پوچھے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو یہ کہ جن نیک اعمال کرنے کی مَیں نے تلقین کی تھی وہ تم نے کتنے کئے ہیں؟ اور جو بھی نیک عمل ہم نے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے ہوں گے، جو کام بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے ہم نے کیا ہو گا، جس حد تک بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی ہم نے کوشش کی ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور موجود ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ تک تمہارے یہ اموال نہیں پہنچیں گے بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھو کہ جو عمل بھی تم کر رہے ہو، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی سوچ کے ساتھ ہویا اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی سوچ کے ساتھ ہو۔ جو عمل خالص تقویٰ پر چلتے ہوئے ہو گا، وہی عمل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے۔ وہی عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ مدنظر رکھتے ہوئے ایک بندہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور اس کا بدلہ پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کی نیت اور ہر عمل سے باخبرہے اور وہ جانتا ہے کہ ہمارے عمل کیا ہیں؟ اور اُن اعمال کرنے کی ہماری نیت کیاہے؟ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ پس ہمارا وہی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے جس کے کرنے کی نیت نیک ہو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہو۔

حقوق اللہ کی ادائیگی میں سب سے اہم چیز نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پر ایمان لانے کے بعد دوسری اہم شرط جو ہے وہ نماز کا قیام رکھی ہے۔ لیکن دوسری جگہ نماز پڑھنے والوں کو بڑی سخت تنبیہ بھی کی، یہ انذار بھی کیا۔ فرماتا ہے فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (الماعون: 4) کہ نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے، یعنی اُن نمازیوں کے لئے جو نماز کا حق ادا نہیں کرتے، جو تقویٰ کے بغیر نمازیں پڑھنے والے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے، جو خبیر ہے، جو علیم ہے اُسے ہر چھپی ہوئی بات کی بھی خبر ہے، اُسے ہر بات کا بھی علم ہے۔ نیّتوں کو بھی جانتا ہے، نمازیں پڑھنے کی کیفیت کو بھی جانتا ہے۔ وہ ایسی نمازیں الٹا دیتا ہے جو تقویٰ سے عاری ہوں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو بڑے خوف سے اپنی نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ نمازیں ہماری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ نے قرار دی ہیں اور جو مقصد ہو، اُس کے حصول کے لئے کوشش بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) کہ اور مَیں نے جنّوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز عبادت کا مغز ہے۔ جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا کہ دنیا دار دنیا کمانے کے لئے کتنے ہاتھ پیر مارتا ہے، کتنی محنت کرتا ہے، کتنی تکلیفیں برداشت کرتا ہے، اتنی فکر کرتا ہے کہ اپنی صحت برباد کر لیتا ہے۔ بعض لوگوں کو دنیاوی مال کا، جائیداد کا نقصان ہو جائے تو دل کے دورے پڑنے لگ جاتے ہیں۔ بعض لوگ خاطر خواہ نتائج نہ دیکھ کر اس طرح ڈیپریشن میں چلے جاتے ہیں کہ اُن کو ساری عمر کا روگ لگ جاتا ہے۔ صرف اس دنیا کی زندگی کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ جو اگر دیکھیں تو ایک انسان کی فعال زندگی، ایک ایکٹو (Active) زندگی کی جوزیادہ سے زیادہ عمر ہے ساٹھ ستر سال تک کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد کی زندگی عموماً فعال نہیں ہوتی۔ پھر عموماً بچوں کے یا دوسروں کے رحم و کرم پر انسان پڑا ہوتا ہے۔ یہاں بھی ان ملکوں میں دیکھیں تو بچے بھی نہیں سنبھالتے۔ اکثر لوگ اولڈ پیپل ہاؤس (Old People House) میں بھیج دئیے جاتے ہیں۔ ہفتے کے بعد بچے مل آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا احسان کر لیا۔ اُس وقت کوئی نہیں پوچھتا۔ وہاں سب نرسوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ تو اس عمر کو پہنچ کر جن کو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہوتا ہے انہیں پھر خدا تعالیٰ کی یاد بھی آ جاتی ہے۔ اُس وقت بعض کو اخروی زندگی کی فکر بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ انجام بخیر ہونے کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں اور کرواتے بھی ہیں لیکن حقیقی مومن وہ ہے جو اس عمر پر پہنچنے سے بہت پہلے اپنے انجام بخیر ہونے کی فکر کرے اور اپنی زندگی کے اصل اور بنیادی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے۔ اپنی عبادت کا حق ادا کرے۔ دنیا کی دلچسپیاں، دنیا کی رنگینیاں اُسے عبادت سے غافل کرنے والی نہ ہوں۔ نمازوں سے غافل کرنے والی نہ ہوں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کااحمدی گھرانوں پر احسان ہے کہ عموماً خاوند یا بیوی میں سے ایک اگر عبادت کا حق ادا کرنے والا نہیں تو دوسرا توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی لوگ ملاقاتوں میں بھی اور خطوط کے ذریعے بھی مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے خاوند یا بیوی کے لئے دعا کریں، اُنہیں نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے۔ یہ توجہ پیدا ہو جائے۔ عموماً عورتیں زیادہ کہتی ہیں۔ یہ بات اس لحاظ سے جہاں خوشکُن بھی ہے کہ عورتوں کو نمازوں کی طرف توجہ زیادہ ہے اور امید کی جاتی ہے اُن کی اس توجہ کی وجہ سے بچوں کی توجہ بھی رہے گی اور صحیح تربیت کر سکیں گی۔ وہاں یہ امر قابلِ فکر بھی ہے کہ مرد جو قوام بنایا گیا ہے، جو گھر کا نگران بنایا گیا ہے، وہ نمازوں میں سست ہے۔ وہ گھر کاسربراہ جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر والوں کے لئے نمونہ بنے، بلکہ نمونہ بننا ضروری قرار دیا گیا ہے، وہ اگر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا جو اُس کی زندگی کا مقصد ہے تو اولاد کیا نمونہ لے گی؟ اور عملاً یہ ہوتا بھی ہے کہ بڑے بچے، لڑکے جب جوان ہوتے ہیں، جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو باپ اگر نمازیں نہیں پڑھ رہا ہوتا تو ماں کے توجہ دلانے کے باوجودکہہ دیتے ہیں کہ ہم کیوں پڑھیں۔ نماز جو عبادت کا مغز ہے، اُس کا حق ادا کرنے کا طریق تو یہ ہوناچاہئے تھا کہ اگر مسجد یا نماز سینٹر گھر سے دور ہے تو گھروں میں نماز باجماعت ادا کی جائے تا کہ نمازوں کی برکات سے گھر بھر جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل گھروں پر نازل ہوں۔ مردوں کو خاص طور پر قیامِ نماز کا حکم ہے اور قیامِ نماز کا مطلب ہی یہ ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے نمازیں باجماعت ادا کی جائیں۔ پس یہاں جلسہ کے دنوں میں جو تین دن ہیں جن میں ہماری روحانی، علمی، اخلاقی ترقی کے لئے پروگرام ترتیب دئیے گئے ہیں، اس میں اکثر لوگ تہجد کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں اور فرض نمازیں بھی باجماعت ادا کرتے ہیں اس کو اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنانے کا عہد کریں، تبھی تقویٰ کے سب سے اہم پہلو پر چلنے والے کہلا سکیں گے اور تبھی جلسے کے انعقاد کے مقصد کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔ جلسہ کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کی ترقی کی طرف توجہ اور اُس کے لئے کوشش کو ہی اہم قرار دیا ہے۔ آپ جلسے کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر‘‘ (یعنی شامل ہونے والوں کے اندر جو جلسے میں شامل ہو رہے ہیں) ’’خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو، اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں‘‘۔ (شہادۃالقرآن روحانی خزائن جلد6صفحہ394)

پس پہلی بات تو آپ نے یہی بیان فرمائی ہے کہ آخرت کی طرف مکمل جھک جاؤ۔ وہی قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے؟ اس دنیا کی فکر کی بجائے آخرت کی زیادہ فکر رکھو۔ اور یہ حالت اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب تقویٰ ہو۔ تقویٰ ہو گا تو یہی چیز خدا خوفی کی طرف بھی مائل رکھے گی۔ جہاں حقوق اللہ ادا ہوں گے، وہاں حقوق العباد بھی ادا ہوں گے یا اُن کے ادا کرنے کی طرف کوشش ہو گی اور اس کے لئے آپ نے ضروری قرار دیا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے آپس کی محبت اور بھائی چارہ دلوں میں پیدا کرو۔ پھرصرف آپس کی محبت اور بھائی چارہ ہی نہیں بلکہ معاشرے پر بھی اس کا نیک اثر قائم ہونا چاہئے۔ تمہاری عاجزی اور انکساری اور نیکی اور دوسروں کا خیال رکھنا ایسا ہو کہ دنیا کہے کہ یہ احمدی ہیں جو دنیا کے دوسرے لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اگر کسی نے نمونہ دیکھنا ہو تو ان احمدیوں میں دیکھو۔

پھر آپ نے فرمایا کہ دینی مہمّات کے لئے سرگرمی اختیار کرو۔ دینی مہمّات میں دین کی اشاعت کے لئے مالی قربانی بھی ہے۔ مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ اور کوشش بھی ہے۔ تبلیغ کی منصوبہ بندی بھی ہے اور اس منصوبہ بندی کے ساتھ ہر احمدی کا اپنا وقت اس مقصد کے لئے دینا بھی ہے۔

پس جلسے میں آ کر جب ہم مختلف موضوعات پر تقریریں سنتے ہیں، تو جو تقریریں یہاں کی جاتی ہیں، ان کو سن کر ہمیں جن مقاصد کے حصول کی طرف یہاں بیٹھے ہوئے توجہ پیدا ہوتی ہے، وہ مستقل ہماری زندگی کا حصہ ہونے چاہئیں۔ پس ہر احمدی جہاں جلسے میں شامل ہو کر اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرے اور خدا تعالیٰ کے دوسرے حق ادا کرے، وہاں بندوں کے بھی حق ادا کرے۔ معاشرے کے بھی حق ادا کرنے کی طرف توجہ کرے۔ آپس میں اگر کوئی رنجشیں ہیں تو جلسے کی برکات سے اُنہیں بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔ گویا اس جلسے میں شامل ہونے کے مقصد کو تبھی حاصل کیا جاسکتا ہے جب ہر قسم کی برائیوں کو دور کرنے کا عہد کریں اور اس کے لئے کوشش کریں۔ اس معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں ایک بہت بڑی تعداد خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکاری ہے اور دنیا کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اس معاشرے میں رہتے ہوئے دین پر قائم رہنا، دین کی خاطر قربانی کے لئے تیار رہنا، تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرنا، بہت بڑا کام ہے۔ اور اس لئے یہ مومن کے لئے بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ ہم دیکھتے ہیں یہاں آ کر یہاں کی رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت کے عمل جو حقیقت میں شیطانی عمل ہیں وہ یہاں نئے آنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث بن جاتے ہیں۔ نئے آنے والے لوگ یا جن کو کسی قسم کا کمپلیکس (Complex) ہوتا ہے، احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں سمجھتے ہیں کہ شاید ہماری ترقی کا راز اسی میں ہے کہ ان لوگوں کے پیچھے چلا جائے اور دین کو پیچھے کر دیا جائے اور دنیا کو مقدم رکھا جائے۔ حالانکہ اس میں ترقی نہیں ہے بلکہ اس میں تباہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُُوْلِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (المائدہ: 101) کہ پس اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اے عقل والو! تا کہ تم فلاح پاؤ۔

اب یہاں کامیاب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قرار دیا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں بلکہ عقل والے بھی یہی لوگ ہیں جنہوں نے عارضی خواہشات کو سب کچھ نہیں سمجھا، اس دنیا کی خواہشات کو کچھ نہیں سمجھا اور ان کو سمجھ کر اپنی ہمیشہ کی زندگی کو بربادنہیں کر لیا۔ ایسے لوگ عقل والے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں، جنہوں نے اس دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیاانہوں نے تو اپنی ہمیشہ کی زندگی کو برباد کر لیا اور جو ہمیشہ کی زندگی کو برباد کرنے والا ہو، اُسے عقل مند تو نہیں کہا جا سکتا۔ عقلمند وہی کہلاتا ہے جو چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لئے قربان کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دنیا کو قربان کرنا یہی عقلمندی ہے۔ پس انسان کو ایک صحیح مؤمن کو، حقیقی مؤمن کو اسے ہی اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہئے اور یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَہٰـذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (سورۃالانعام: 156) اور یہ کتاب یعنی قرآنِ کریم ایسی کتاب ہے جسے ہم نے اتاراہے۔ یہ برکت والی ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

پس اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو قرآن کریم کے احکامات کی پیروی کرنی ہو گی جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ اور یہ پیروی ہی تقویٰ کے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم پر اللہ تعالیٰ رحم فرماتا رہے گا۔ یہ رحم ختم نہیں ہو جاتا بلکہ فرماتا چلا جائے گا۔ کیونکہ یہاں ’’مُبَارَکٌ‘‘ جو لکھا ہوا ہے، بَرَکَ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر اچھی چیز جو نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے بلکہ اُس میں ہر آن اور ہر لمحہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا رحم ہے کہ اگر اُس کی رضا حاصل کرنے کے لئے انسان ایک نیکی کرتا ہے، اس کی رحمانیت ہی ہے نہ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں اُسے دس گنا کر دیتا ہوں، بلکہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہوں اور یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ فرمایا کہ میں اس سے بھی زیادہ بڑھا سکتا ہوں اور بڑھا دیتا ہوں۔ پس تقویٰ پر چلنے والا جو ہے وہ دیکھے کیسے کیسے پھل کھا رہا ہے اور پھر ایک عمل کے کئی گنا کر کے کھا رہا ہے، بے حد و حساب کھا رہا ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ قرآنِ کریم کے احکامات کی پیروی کی کوشش کریں تبھی حقیقی تقویٰ پر چلنے والے ہم کہلا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تقویٰ کی وضاحت بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ 209-210)

یہ ہے اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی۔ جو امانتیں اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، عہد جو اللہ تعالیٰ سے کئے ہیں، اُن کو ہر وقت پورا کرنے کی کوشش کرنا۔ تمام اعضاء سے اُن کی ادائیگی کرنا۔ ہاتھ ہے تو وہ کام کرے، جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، تمام بُرے کاموں سے بچنا۔ پاؤں ہیں تو اُن نیکیوں کی طرف جانے والے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے ناں ہر قدم جو مسجد کی طرف اُٹھتا ہے اُس کا ثواب دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب المساجدومواضع الصلاۃباب المشی الی الصلاۃتمحی بہ الخطایا……حدیث: 1521)

پس ہر قدم جو دنیا کے دھندوں کو چھوڑ کے مسجد کی طرف، نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اسی طرح انسان کے اندرچھپی ہوئی جتنی صلاحیتیں ہیں اُن کا بھی حق ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی خاطر اُن کا استعمال کرنا اور پھر شیطان جو حملے کرتا ہے اُن سے بھی بچنے کی کوشش کرنا۔ فرمایا کہ پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا، اُن سے ہوشیار رہنا ہے کہ شیطان کس طرح کے حملے کر سکتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ اس کے مقابل پر حقوقِ عباد کا بھی لحاظ رکھنا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہو گئے۔

پھر بندوں کے جو حقوق ہیں اُن کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اور ’’یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰی (سورۃ الاعراف 27) قرآنِ شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہدوں اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہوجائے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ 210)

یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تمام ذمہ داریاں جو باریک سے باریک ہیں، اُن کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ کاروباری لوگ ہیں، زندگی کے روزمرہ کے معاملات ہیں وہاں جو وعدے وعید ہوتے ہیں، جو بھی عہد کئے جاتے ہیں، جو بھی معاہدے کئے جاتے ہیں، اُن کو پورا کرنا ہے۔ اپنا کام ہے تو اُس کو انصاف کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ طالبعلم ہیں تو علاوہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق کے، وہ اپنی پڑھائی کا حق ادا کریں۔ ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی جو ہے وہی تقویٰ پر چلنے والی کہلا سکتی ہے۔

پھر آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:۔ ’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق، رِیا، عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہوتو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کرکے‘‘۔

یہ بڑی بڑی باتیں، چوری، زنا وغیرہ جو ہیں ان سے تو انسان بچتا ہے۔ پھر یہ جو بناوٹ ہے، کنجوسی جو ہے، تکبر جو ہے، دکھاوہ جو ہے یہ بھی بڑی باتیں ہیں۔ یہ سب چیزیں جو ہیں انسان نے ان کو چھوڑنا ہے۔ اور پھر جو گھٹیا قسم کے اخلاق ہیں اُن سے بھی بچنا ہے اور پھر صرف بچنا نہیں ہے بلکہ ’’ان کے بالمقابل اخلاقِ فاضلہ میں ترقی کرے‘‘۔ جو اچھے اخلاق ہیں اُن میں ترقی کرو۔ اچھے اخلاق کیا ہیں؟ کہ ’’لوگوں سے مروت، خوشی خلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے، دین کی خدمت کے لئے بھی وہ کوشش کرے جو انتہائی اونچے مقام ہوتے ہیں، یا جو تعریف کے قابل ہوں) ’’ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں‘‘ (یعنی اُن میں وہ سب موجود ہوتی ہیں) ’’وہی اصل متقی ہوتے ہیں۔ (یعنی اگر ایک ایک خُلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے‘‘۔ (بہت سارے اخلاق ہیں، بہت ساری نیکیاں ہیں، بہت سارے اعمالِ صالحہ ہیں، اگر کسی میں ایک ایک دو دو، تین تین ہیں تو وہ کامل متقی نہیں کہلا سکتا۔ فرمایا کہ متقی وہی ہو گا جس میں یہ سب اخلاق موجود ہوں۔ گھٹیا قسم کی جو باتیں ہیں اُن کو ختم کیا جائے اور اعلیٰ قسم کے جو اخلاق ہیں اُن کو اختیار کیا جائے۔ اور ہر خلق جو ہے اُس کو اپنایا جائے، تبھی اُس کو متقی کہیں گے۔ فرمایا کہ اگر فرداً فرداً کسی میں اخلاق ہیں اُس کو متقی نہیں کہیں گے) ’’جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں۔ اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرۃ: 62) ہے۔ اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے‘‘ (یعنی جب انسان ایسے مقام کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو کوئی خوف نہیں رہتا اور نہ وہ غمگین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر اُن کے ساتھ ہو جاتا ہے) جیسے کہ وہ فرماتا ہے۔ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف: 197)حدیث شریف میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے مَیں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خد اکے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ680-681۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس یہ تقویٰ کا مقام ہے جس کو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلے اقتباس میں جس میں جلسے کی غرض لکھی تھی، مَیں نے پڑھا تھا، آپ نے توجہ دلائی ہے کہ جلسے میں آ کر اپنی دینی مہمات کی طرف بھی توجہ کرو۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے جیسا کہ مختصر پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ دینی مہمات، دین کی تبلیغ اور اس کے لئے قربانیاں دینا ہے۔ آپ میں سے اکثریت وہ ہے جو پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں اس لئے آئے ہیں کہ آپ کو پاکستان میں دین کی اشاعت اور تبلیغ کا کام تو ایک طرف رہا، دین پر عمل کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ نماز ہم وہاں سرِ عام کھلے طور پر پڑھ نہیں سکتے۔ کلمہ لکھنے سے ہمیں روکا جاتا ہے۔ آئے روز ہماری مساجد سے کلمہ مٹانے کے لئے حکومتی کارندے اور پولیس والے مولویوں کے کہنے پر آ جاتے ہیں اور اب تو بڑے شہروں میں بھی بڑی مساجد کی طرف بھی ان کی نظر ہے۔ تو بہرحال دین کے معاملے میں احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جا رہی ہے۔ اس لئے آپ میں سے اکثریت یہاں آئی ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں تھائی لینڈ سے بھی کافی پاکستانی فیملیاں یہاں آئی ہیں۔ جو پاکستانی وہاں پھنسے ہوئے تھے، اُن کے کیس یو این او (UNO) کے ذریعے سے وہاں پاس کئے گئے، اور وہ یہاں بھیج دئیے گئے۔ بعض جو آنے والے ہیں ان میں سے براہِ راست پاکستان میں تنگیوں سے گزر رہے تھے۔ بعض ماحول کی وجہ سے پریشان تھے۔ بہر حال یہاں آپ آئے ہیں اور آزاد ہیں۔ اس لئے ایک تو پاکستانی احمدی بھائیوں کے لئے باہر رہنے والے احمدیوں کو بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جلد اُن کے بھی دن پھیرے اور اُنہیں مذہبی آزادی حاصل ہو۔ دوسرے پاکستان سے باہر رہنے والے احمدیوں پر جو بہت بڑی ذمہ داری پڑتی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دینی مہمات کے لئے آگے آئیں۔ ہالینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے یہاں کے ایک سیاستدان نے اسلام کو بدنام کرنے کی بڑی کوشش کی۔ یہاں اگر احمدی ایک مہم کی صورت میں مستقل مزاجی سے تبلیغ کے کام کو وسعت دیتے تو بہت حد تک اسلام کے بارے میں منفی رویے کو زائل کر سکتے تھے، بلکہ اسلام کی خوبیاں اجاگر کرنے کا موقع بھی مل سکتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا ایک مقصد بلکہ بہت بڑا مقصد اُس ہدایت اور شریعت کی اشاعت کا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور جو قرآنِ کریم کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اس پیغام کو دنیا تک پہنچانے کا کام بھی ہمارا ہے، اس بارے میں بھی بھر پور کوشش ہونی چاہئے۔ یہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف قوموں کے لوگ آباد ہیں اور ان میں احمدی بھی ہیں، ان قوموں میں تبلیغی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں بھی دنیا میں جماعتوں نے اس اہمیت کو سمجھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سلطانِ نصیر بنتے ہوئے خلافت کا دست و بازو بنتے ہوئے تبلیغ کے کام کو وسعت دی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جماعت کا تعارف وسیع ہو رہا ہے وہاں سعید فطرت لوگوں کو بھی جماعت کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے اور بڑی کثرت سے ہو رہی ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہاں کی اکثریت کو دین سے دلچسپی نہیں ہے تو یہ تو یورپ میں اکثر ملکوں میں یہی حال ہے بلکہ مغربی ممالک میں یہی حال ہے، بلکہ کہنا چاہئے تمام عیسائی دنیا میں یہی حال ہے اور یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی، نام نہاد مسلمان ہیں، مذہب سے دلچسپی کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ پر وہ یقین نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا تو جو ظلموں کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں، علماء نے بھی اور اُن کے پیچھے چلنے والوں نے بھی، وہ کبھی نہ ہوتے۔ تو بہر حال یہ کہتے ہیں جی ان کو مذہب سے دلچسپی نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں ہے، تو یہ بھی ہمارا کام ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین پیدا کروائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اگر ہم حقیقت میں اپنے ہر عمل سے اس کامل اور مکمل کتاب کی پیروی کرنے والے بن جائیں گے، متقی کی اُس تعریف کے نیچے آ جائیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے، تو ہمارے نمونے جو ہیں یہی ہماری تبلیغ کے راستے کھولنے کا باعث بن جائیں گے۔ بہر حال یہ توجہ کی بات ہے، اگر توجہ ہو گی تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ بھی حالات بدلے گا۔

پس تبلیغ کے راستوں کو تلاش کرنے کے لئے بھی تقویٰ ہی شرط ہے جس پر چلنے کی ہر احمدی کو ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیداکرنے کا جو عہد کیا ہے اُس کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے عمل، ہماری کوششیں، ہماری دعائیں ہی دنیا کو راستہ دکھانے کا باعث بن سکتی ہیں ورنہ آج اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں ہے جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔

پس اس جلسے میں آ کر ہر احمدی کو اپنے ان تین دنوں میں جائزے لینے کی طرف جہاں توجہ کی ضرورت ہے وہاں اس عہد کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے آئندہ سے خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے، اپنے بھائیوں کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے اور معاشرے کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے اور اس ملک کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے جنہوں نے ہمیں آزادی سے رہنے کے مواقع مہیا فرمائے۔ اور یہ حق تبلیغ کے ذریعے سے ادا ہو سکتا ہے۔ یہ حق اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچانے کے ذریعے سے ادا ہو سکتا ہے۔ یہ حق اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں دور کر کے ادا کیا جا سکتا ہے۔ پس تمام مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کریں، تبھی اس طرف توجہ پیدا ہو گی اور تبھی انقلاب آئے گا۔ دعاؤں میں لگیں، اللہ تعالیٰ دعاؤں کی وجہ سے نشانات دکھاتا ہے۔ بہت سے کام جو انسان نہیں کر سکتا، جو عمومی تبلیغ کا طریق ہے، اُس سے نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکیں، ایک ہو کر دعائیں کریں تو اللہ تعالیٰ خودنشانات بھی دکھاتا ہے اور وہ نشانات ہی انقلاب کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ان دنوں میں خدا تعالیٰ جلسہ میں شامل ہونے والے ہر شخص کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی زندگی، اپنے یہ دن، اپنا وقت دعاؤں میں گزارنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ سب کو پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جمعہ کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے بہت پرانے اور مخلص کارکن مکرم ناصر احمد صاحب جو سابق محاسب اور افسر پراویڈنٹ فنڈ تھے، صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ہے۔ ۔ 13؍مئی 2012ء کو بڑی لمبی بیماری کے بعد 74سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مہروں کی تکلیف کی وجہ سے کچھ عرصہ یہ صاحبِ فراش تھے۔ آپ کے خاندان کا تعلق سیکھواں ضلع گورداسپور انڈیا سے ہے۔ مرحوم کے دادا میاں الٰہی بخش صاحب سیکھوانی رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے۔ آپ کے والد مکرم میاں چراغ دین صاحب نے 1908ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور بعد ازاں سیکھواں سے منتقل ہو کر قادیان آ گئے تھے۔ ناصر صاحب قادیان میں اگست 1938ء میں پیدا ہوئے۔ کچھ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی، پھر پاکستان ہجرت کے بعد ٹی آئی سکول چنیوٹ میں میٹرک پاس کیا۔ پھر بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ جون 1956ء سے صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں مختلف حیثیتوں سے، کارکن کی حیثیت سے کام کیا اور دفتر خزانہ میں، پھر وصیت کے دفتر میں، پھر اسسٹنٹ سیکرٹری مجلس کارپرداز بھی رہے، پھر 1990ء میں نائب ایڈیٹر کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ 1993ء سے 2008ء تک بطور محاسب افسر پراویڈنٹ فنڈ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ لمبا عرصہ ناظم تنقیح حسابات دفتر جلسہ سالانہ بھی خدمت کی توفیق ملی۔

آپ بہت سی خوبیوں کے اور اوصاف کے مالک تھے۔ بڑی باقاعدگی سے نمازوں پر جانے والے، بیماری میں بھی مَیں نے دیکھا ہے مسجد میں ضرور آتے تھے۔ تہجد گزار، دعا گو، بہت منکسر المزاج، ہنس مکھ، وفا شعار، مہمان نواز، اپنے مہمانوں اور ساتھیوں سے بڑے پیار اور شفقت سے پیش آنے والے۔ یادداشت اور حافظہ بھی بڑا اچھا تھا۔ محلے کے بہت سارے بچوں کو قرآنِ کریم پڑھایا۔ خلافت سے بھی بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔ موصی تھے اور اپنی زندگی میں ہی تمام جائیداد کا حصہ بھی ادا کر دیا تھا۔ اہلیہ کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں یادگارہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام دے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 18؍ مئی 2012ء شہ سرخیاں

    ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسے کے دوران اپنی ذاتی باتوں کی طرف توجہ نہ ہو بلکہ تمام پروگرام، جتنے بھی ہیں، ان کو سننے کے دوران بھی اور ان کے بعد بھی زیادہ تر وقت دعاؤں اور ذکرِ الٰہی میں گزارنے کی کوشش ہونی چاہئے۔

    حقوق اللہ کی ادائیگی میں سب سے اہم چیز نماز ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو بڑے خوف سے اپنی نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے۔

    جلسہ کے دنوں میں جو تین دن ہیں جن میں ہماری روحانی، علمی، اخلاقی ترقی کے لئے پروگرام ترتیب دئیے گئے ہیں، اس میں اکثر لوگ تہجد کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں اور فرض نمازیں بھی باجماعت ادا کرتے ہیں اس کو اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنانے کا عہد کریں، تبھی تقویٰ کے سب سے اہم پہلو پر چلنے والے کہلا سکیں گے  اور تبھی جلسے کے انعقاد کے مقصد کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔

    پاکستانی احمدی بھائیوں کے لئے باہر رہنے والے احمدیوں کو بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جلد اُن کے بھی دن پھیرے اور اُنہیں مذہبی آزادی حاصل ہو۔ دوسرے جو بہت بڑی ذمہ داری پاکستان سے باہر رہنے والے احمدیوں پر پڑتی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دینی مہمات کے لئے آگے آئیں۔ تبلیغ کے راستوں کو تلاش کرنے کے لئے بھی تقویٰ ہی شرط ہے جس پر چلنے کی ہر احمدی کو ضرورت ہے۔

    مکرم ناصر احمد صاحب سابق محاسب و افسر پراویڈنٹ فنڈ صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی وفات پر  مرحوم کا ذکرخیر اور نماز جناز ہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 18؍مئی 2012ء بمطابق 18؍ہجرت 1391 ہجری شمسی،  بمقام ننسپیٹ۔ ہالینڈ

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور