حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کی حضورؑسے غیرمعمولی محبت اور اخوت کا تعلق

خطبہ جمعہ 11؍ مئی 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرائطِ بیعت کی دسویں شرط میں اپنے سے تعلق اور محبت اور اخوت کو اُس معیار تک پہنچانا لازمی قرار دیا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی رشتے میں نہ ملتی ہو۔ یہ مقام آپ کی بیعت میں آنے کے بعد آپ کو دینا کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ آپ ہی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ عاشقِ صادق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ایمان کو ثریا سے زمین پر لے کے آئے۔ اسلامی تعلیم میں داخل ہونے والی بدعات کو دور فرما کر اسلام کی خالص اور چمکتی ہوئی تعلیم کو پھر سے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی مقام اور مرتبے کی پہچان ہمیں کروائی اور بندے کو خدا تعالیٰ سے ملایا۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔‘‘ (حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 64-65)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور عشق میں فنا ہونا آپ کا خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا اور پہنچانے کا باعث بنا۔ اور پھر خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کو بھی اپنے تک پہنچنے کے ذریعہ میں شامل فرما کر آپ علیہ السلام سے تعلق اور محبت کو اور اخوت کے رشتے کو ضروری قرار دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بھی محبت کے وہ نظارے دکھائے جس نے آخرین کو اولین سے ملا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے۔ تب زمین پر اُس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اُس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوتِ جذب اُس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک نور اُس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ (حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 65)

پس یہ مقام اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملا۔ اِس وقت میں آپ علیہ السلام سے سچی محبت کرنے والوں کے، آپ سے عشق کا تعلق رکھنے والوں کے کچھ واقعات پیش کروں گا۔

حضرت اللہ یار صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور کے ساتھ میری ملاقات بہت دفعہ ہمیشہ ہوتی رہی اور مجھے شوق تھا کہ حضور کو ہاتھوں سے دبایا کرتا تھا۔ الہام اور حضور کا کلام پاک سنا کرتا تھا (یعنی مجالس میں بیٹھ کے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض الہامات وغیرہ کا ذکر فرماتے تھے تو اُن کو سنا کرتا تھا)۔ اسی شوق میں مَیں قادیان ہجرت کر کے آیا (کہ ہمیشہ یہ باتیں سنتا رہوں) تو یہاں آکر لکڑی وغیرہ کا کام شروع کیا carpentary کا)۔ میرے پاس کافی روپیہ تھا جو کہ خرچ ہو گیا اور جو لے کے آیا تھا وہ بھی خرچ ہو گیا اور پاس کچھ نہ رہا۔ پھر کہتے ہیں میں نے ایک دن حلوہ بنا کر بیچنا شروع کیا اور حضور کے بیت الدعا کے نیچے پکارا کہ تازہ حلوہ۔ حضرت امّ المؤمنین نے میری آوازوں کو سن لیا اور جانتی بھی تھیں۔ تو کہتی ہیں یہ ٹھیکیدار نے کیا کام شروع کیا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ ’’پروانے شمع پر گرتے ہیں اور کیا کریں؟‘‘ یہ اسی کام کے لئے یہاں آیا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو انہوں نے گزارے کے لئے کرنا ہے۔ تو حضرت امّ المؤمنین نے فرمایا کہ ٹھیکیدار ہے۔ (شاید ان کے زمانے میں ٹھیکیداروں کے پاس گدھے تھے۔ جن سے سامان ادھر اُدھر لے جایا جاتا تھا کہ) گدھے لے کر باہر کیوں نہیں چلا جاتا؟ حضور نے فرمایا کہ وہ گدھے والا نہیں ہے۔ تو حضرت امّاں جان نے فرمایا کہ کسی کی نوکری کر لے۔ حضور نے فرمایا کہ یہ اتنا پڑھا لکھا بھی نہیں ہے۔ خیر یہ گفتگو ہوتی رہی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ لکڑی کا کام ہی جانتا ہے وہی کر سکتا ہے۔ اُس میں خدا برکت دے۔ کہتے ہیں: مَیں نیچے یہ ساری باتیں سُن رہا تھا۔ اس کے بعد حضور نے مجھے بلایا کہ آپ کے پاس کچھ لکڑی ہے؟ تو مَیں نے عرض کی بیری کی ہے۔ پیپل کی ہے۔ حضور نے فرمایا کہ مہمان خانے کے لئے چارپائیوں کے پائے چاہئیں۔ کیا پائے بن جاویں گے۔ تو وہ کہتے ہیں کہ اُسی وقت ایک مختار جو حضور کا تھا، اُس نے کہا کہ پیپل کے پائے زیادہ دیر نہیں چلتے۔ حضور نے فرمایا کہ جس کے لئے بنوانے ہیں وہ خود پیپل پیدا کرنے والا ہے۔ اس نے بیکار پیدا نہیں کیا اور مجھے بیس جوڑی کا حکم دیا۔ (یعنی کسی کارکن نے کہا کہ نہ بنوائیں۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ جو ہے بنا دو۔ یعنی دونوں طرف سے یہ تعلق قائم تھا۔) (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد5صفحہ 52-53روایت حضرت اللہ یار صاحبؓ)

پھر حضرت ملک خان صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ مَیں 1902ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قادیان دارالامان میں آیا۔ یہ مجھے یادنہیں پڑتا کہ جب ہم آئے، اُسی دن بیعت کی یا دوسرے دن۔ ہاں یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد ہم بیعت کے لئے پیش ہوئے۔ حضرت شہید مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے اور پھر دوسرے نمبر پر خاکسار نے ہاتھ رکھے۔ بیعت کرنے کے بعد اس خاکسار نے غالباً دو تین یوم قادیان دارالامان میں گزارے ہوں گے کہ شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ مَیں نے رؤیا دیکھی ہے کہ آپ کو خوست کے حاکم تکلیف دیں گے۔ اس لئے تم فوراً واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ میں دو تین یوم بعد واپس چلا گیا۔ میرے ساتھ ایک مُلّا سپین گل صاحب بھی واپس چلے گئے۔ شہید مرحوم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے (حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا یہ واقعہ ہے جو آپ سے عشق کا یہ بیان فرما رہے ہیں کہتے ہیں کہ فرمایا کرتے تھے) مَیں نے اپنے سے زیادہ عالم نہیں دیکھا۔ یہ محض خداوند تعالیٰ کا فضل ہے۔ یعنی صاحبزادہ صاحب اپنے آپ کو فرماتے ہیں کہ مَیں نے اپنے سے بڑا اس وقت تک کوئی عالم نہیں دیکھا ورنہ میں اُس کے پاؤں چومتا۔ چنانچہ کہتے ہیں جب یہاں آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تو کہتے ہیں۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے شہید مرحوم کو دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاؤں مبارک چومے۔ اس طرح جو فرمایا تھا اُس کی تصدیق فرمائی۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد5صفحہ 82روایت حضرت ملک خان صاحبؓ)

حضرت مولوی سکندر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن قادیان میں آ کر رہنے سے پہلے بندہ یہاں آیا ہوا تھا۔ (یہ مستقل رہائش سے پہلے ایک دن یہاں آئے تھے) صبح سیر کے لئے حضرت اقدس تشریف لے گئے تو بندہ بھی ساتھ ہو لیا۔ کہتے ہیں بھینی بھانگر کے مقابلے پر بسراواں والے راستے جا رہے تھے کہ راستے میں جناب نے فرمایا کہ جو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوڑ نہیں سکتے، جن کے چھوڑنے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا، جیسے حقہ نوشی، افیم، بھنگ، چرس وغیرہ تو ایسا آدمی بڑی باتوں کو کس طرح چھوڑ سکے گا جس کے چھوڑنے سے ماں باپ، بھائی برادر، دوست، آشنا ناراض ہوں۔ جیسے مذہب کی تبدیلی۔ (یعنی احمدیت قبول کرنا کس طرح برداشت کریں گے۔ اس کے بعد تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں) اگر ان چھوٹی تکلیفوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو بڑی تکلیفیں کس طرح برداشت کرو گے؟ کہتے ہیں کہ بندہ اُس وقت حُقّہ پیا کرتا تھا۔ اسی جگہ سنتے ہی قسم کھا لی کہ حُقّہ نہیں پیوں گا تو اس طرح حقہ چھوٹ گیا۔ پہلے مَیں زور لگا چکا تھا اور نہیں چھوٹا تھا۔ (تو یہ وہ تعلق اور محبت تھی جس نے مجبور کیا کہ اس برائی سے جان چھٹ گئی)۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ18-19روایت مولوی سکندر علی صاحبؓ)

حضرت شکر الٰہی صاحب احمدی بیان کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابھی بچہ تھا، عمر تقریباً بارہ یا تیرہ سال کی ہو گی۔ دین سے بالکل بے بہرہ تھا۔ غالباً پرائمری کی کسی جماعت میں گورداسپور ہائی سکول میں تعلیم پایا کرتا تھا۔ اُس وقت مولوی عبدالکریم مخالف پارٹی کا مقدمہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اصحاب کے ساتھ ہائی سکول کے شمال کی جانب بالکل متصل تالاب تحصیل والے کے رونق افروز ہوا کرتے تھے اور خاکسار مدرسہ چھوڑ کر آپ کی رہائش کے پاس کھڑا رہتا تھا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا رہتا تھا۔ ایک آپ کے عاشقِ صادق کا نام بچہ ہونے کے باعث مَیں نہیں جانتا، لیکن یہ کہتے ہیں اس بات پہ مجھے حیرت تھی کہ ایسے ایک عاشقِ صادق تھے آپ کے کہ اُن کے دائیں ہاتھ میں بڑا پنکھا پکڑا ہوا ہوتا تھا اور بڑے زور سے ہلاتے رہتے تھے۔ (دیر تک کھڑا رہتا، اُن کو دیکھتا رہتا اور پنکھا اسی ہاتھ میں رہتا اور وہ چلاتے رہتے۔ حیران ہوتا کہ ہاتھ تھکتے نہیں ہیں)۔ ہلاتے بھی آہستہ نہ تھے بلکہ بڑے زور سے جیسے بجلی کے کرنٹ زور سے ہلاتی ہے۔ کیونکہ موسم گرمیوں کا تھا۔ دوبارہ سہ بار آتا اور اُسی صاحب کو دیکھتا رہتا کہ کیا جادو ہے۔ پنکھا بڑا ہے اور سارا دن ایک ہی ہاتھ سے ہلا رہے ہیں۔ مگر اب معلوم ہوا ہے کہ وہ سچے عاشق تھے۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ 113روایت شکر الٰہی صاحب)

حضرت مدد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اپنے وطن میں رمضان المبارک کے مہینے میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دفعہ قادیان میں جا کر روزے رکھوں اور عید وہیں پڑھ کر پھر اپنی ملازمت پر جاؤں۔ اُن دنوں مَیں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا۔ (یہ فوج میں جونیئر کمیشن افسر کا ایک رینک ہوتا تھا) تو میری اس وقت ہر چند یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے میں قادیان جاؤں تا حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار حاصل کر سکوں اور دوبارہ آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں۔ کیونکہ میری پہلے بیعت 1895ء یا 96ء کی تھی۔ کہتے ہیں یہ بیعت جو تھی وہ ڈاک کے ذریعے ہوئی تھی۔ نیز میرا اُن دنوں قادیان میں آنے کا پہلا موقع تھااس لئے بھی میرے دل میں غالب خواہش پیدا ہوئی کہ ہو نہ ہو ضرور اس موقع پر حضور کا دیدار کیا جائے۔ اگر ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضور کو دیکھنے کا شایدموقع ملے یا نہ ملے۔ لہٰذا یہی ارادہ کیا کہ پہلے قادیان ہی چلا جاؤں اور حضور کو دیکھ آؤں اور بعدہٗ وہاں سے واپس آ کر اپنی ملازمت پر چلا جاؤں۔ مَیں قادیان کو جان کر یہاں آیا لیکن جونہی یہاں آ کر میں نے حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار کیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی مَیں آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہرگز نہ جاؤں۔ یہ محض آپ کی کشش تھی جو مجھے واپس نہ جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہو گیا۔ یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا۔ میرے دل میں بس یہی ایک خیال پیدا ہو گیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار روپیہ بھی ہو گئی تو کیا ہو گا؟ لیکن تیرے باہر چلے جانے پر پھر تجھ کو یہ نورانی اور مبارک چہرہ ہرگز نظر نہ آئے گا۔ مَیں نے اس خیال پر اپنے وطن کو جانا ترک کر دیا اور یہی خیال کیا کہ اگر آج یا کل تیری موت آ جائے تو حضور ضرور ہی تیرا جنازہ پڑھائیں گے جن سے تیرا بیڑا پار ہو جائے گا۔ اور اللہ بھی راضی ہو جائے گا۔ اور قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کر لیا۔ میرا یہاں پر ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ ہر روز ایک لفافہ دعا کے لئے حضور کی خدمت میں آپ کے در پرجا کر کسی کے ہاتھ بھجوا دیا کرتا مگر دل میں یہی خطرہ رہتا کہ کہیں حضور میرے اس عمل سے ناراض نہ ہو جائیں اور اپنے دل میں یہ محسوس نہ کریں کہ ہر وقت ہی تنگ کرتا رہتا ہے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا۔ وہ اس لئے کہ ایک روز حضور نے مجھے تحریراً جواب میں فرمایا کہ آپ نے بہت ہی اچھا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ مجھے یاد کراتے رہتے ہو جس پر میں بھی آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں۔ انشاء اللہ پھر بھی کرتا رہوں گا‘‘۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ95-96روایت مدد خان صاحب)

حضرت محمد اسماعیل صاحبؓ ولد مولوی جمال الدین صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مَیں قریباً بیس سال کا تھا کہ گورداسپور میں کرم دین جہلمی… کے مقدمے کا حکم سنایا جانا تھا۔ میں ایک دن پہلے اپنے گاؤں سے وہاں پہنچ گیا۔ وہاں پر ایک کوٹھی میں حضور علیہ السلام بھی اترے ہوئے تھے۔ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ادھر کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے اور وہاں پر میرے والد صاحب میاں جمال الدین صاحب، میاں امام الدین صاحب سیکھوانی اور چوہدری عبدالعزیز صاحب بھی موجود تھے۔ میں نے جا کر حضور کو پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ حضور نے میری طرف دیکھا اور میرے والد میاں جمال الدین صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا کر فرمایا کہ میاں اسماعیل نے بھی آ کر ثواب میں سے حصہ لے لیا۔ حضور کا معمولی اور ادنیٰ خدمت سے خوش ہو جانا اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو طبیعت میں سرور پیدا ہوتا ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ150روایت محمد اسماعیل صاحب)

حضرت شیخ اصغر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ عام طور پر حضرت اقدس علیہ السلام سے جب باہر سے آئے ہوئے دوست واپسی کی اجازت طلب کرتے تو بار بار آپ اُن کو جلدی جلدی آتے رہنے کی تاکید فرماتے اور بعض وقت فرمایا کرتے تھے کہ ابھی اور ٹھہرو۔ ایسے اصحاب کو جن کے متعلق حضور انور کو خیال ہوتا کہ وہ ابھی اور ٹھہرنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ (ہر ایک کو نہیں کہتے تھے، جن کے بارہ میں خیال تھا کہ یہ ٹھہر سکتے ہیں اُن کو فرماتے تھے کہ ابھی اور ٹھہرو۔) گویا دوستوں کو حضور انور سے جدا ہونا بہت شاق گزرتا تھا۔ ہر ایک دوست کو رخصت ہونے سے پہلے مصافحہ کرنے کی تاکید ہوتی تھی اور سب دوست مصافحہ کرکے اور اجازت حاصل کر کے واپس ہوا کرتے تھے۔ خواہ کتنی بھی دیر ہو جائے۔ مصافحہ کر کے اجازت حاصل کئے بغیر جانا جہاں تک مجھ کو علم ہے کبھی کسی کا نہیں ہوتا تھا۔ بعض دوستوں کے ساتھ ایسا واقعہ بھی ہوا کہ مصافحہ کی باری بہت دیر سے آئی اور جب روانہ ہوئے تو اُنہیں امیدنہ تھی کہ وہ اسٹیشن پر گاڑی کے وقت پہنچ سکیں گے لیکن الٰہی تصرف سے حضور انور کی دعاؤں کی برکت سے کئی دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ گاڑی دیر سے بٹالہ پہنچی اور گاڑی پر چڑھ گئے۔ پھر اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ خود میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا کہ ہم دیر سے چلے اور اس روز یکّہ بھی نہ ملا۔ ہم چند بھائی تھے سب پیدل روانہ ہوئے۔ شاید ان دنوں چھ بجے کے قریب گاڑی بٹالہ آیا کرتی تھی اس پر سوار ہونے کا خیال تھا مگر بہت کم وقت معلوم ہوتا تھا۔ دعائیں بھی کرتے رہے اور خوب تیز رفتار چلے حتّی کہ کچھ راستہ دوڑتے بھی کاٹا۔ اللہ تعالیٰ نے خوب ہمت دی اور جب ہم تحصیل کے قریب والے حصہ میں پہنچے اور پتہ کیا تو پتہ لگا کہ گاڑی ابھی نہیں آئی اور پھر تھوڑی دیر بعد جب آئی تو ہم آرام سے سوار ہوئے۔ یہ محض حضرت اقدس کی توجہ کی برکت تھی۔ (ماخوز ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4صفحہ171، 172روایت شیخ اصغر علی صاحب)

حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ ولد حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ فرماتے ہیں: خاکسار کی عادت تھی کہ جب کبھی بھی خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملتا یا حضور کا لیکچر سنتا تو خاکسار کاپی پینسل اپنے پاس رکھتا اور جب دیکھتا کہ حضور نے کوئی بات فرمائی ہے جو خاکسار کے نزدیک قابل عمل اور زندگی کے لئے مفید اور ضروری ہے تو خاکسار فوراً اُس کو اُس میں درج کر لیتا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 71روایت حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ)

حضرت اللہ دتہ صاحبؓ ہیڈ ماسٹر ولد میاں عبدالستار صاحب فرماتے ہیں کہ: غالباً 1901ء یا 1902ء میں ایک نواب صاحب مع اپنے خادمان کے علاج کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں قادیان آئے۔ ایک دن جبکہ مَیں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں حاضر تھا، نواب صاحب کے دو اہلکار ایک سکھ اور ایک مسلمان آئے اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقے میں وائسرائے آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات سے واقف ہیں۔ نواب صاحب کا منشاء ہے کہ چند روز کے لئے حضورؑ ان کے ہمراہ چلیں (یعنی خلیفہ اوّل کو کہا)۔ انہوں نے (حضرت مولانا نورالدین صاحب حضرت خلیفہ اوّلؓ نے) فرمایا کہ مَیں اپنی جان کا آپ مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے اُس سے پوچھو۔ چنانچہ ظہر کے وقت میں مسجد مبارک میں ان ملازمین نے حضرت نبی اللہؑ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں ڈالیں انکار نہیں کریں گے۔ پانی میں ڈبوئیں تو انکار نہیں کریں گے۔ لیکن اُن کے وجود سے یہاں ہزاروں انسانوں کو فیض پہنچتا ہے۔ ایک دنیا دار کی خاطر ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اتنے فیضان بند کر دیں۔ اگر ان کو (یعنی جو نواب صاحب تھے) زندگی کی ضرورت ہے تو یہاں رہ کر علاج کرائیں‘‘ اور یہ نہیں ہے کہ وائسرائے صاحب آ رہے ہیں تو ان کی طرف چلے جاؤ، کیونکہ یہاں غریبوں کا فائدہ ہو رہا ہے اس لئے اولیت غرباء کی ہے۔ (آگے یہ حضرت خلیفہ اوّل کا اس پر جو ردّ عمل، اظہار تھا وہ روایت کرتے ہیں۔ ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اظہار تھا کہ پانی میں ڈالوں، آگ میں ڈالوں تو کود جائیں گے۔ خلیفہ اوّل کے اظہار کے بارے میں یہ بیان کرتے ہیں کہ) اُسی دن بعدہٗ صلوٰۃ عصر حضرت خلیفہ اولؓ درس قرآن کے وقت فرمانے لگے (نمازِ عصر کے بعد جو درسِ قرآن تھا اُس میں فرمانے لگے) کہ آج مجھے اس قدر خوشی ہے کہ مجھ سے بولا تک نہیں جاتا۔ ایک میرا آقا ہے۔ مجھے ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ وہ مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ وہ میری نسبت ایسا خیال رکھتا ہے کہ اگر میں نور الدین کو آگ میں ڈالوں تو انکار نہیں کرے گا۔ پانی میں ڈبوؤں تو انکار نہیں کرے گا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 397-398روایت حضرت اللہ دتہ صاحبؓ ہیڈ ماسٹر)

حضرت ماسٹر ودھاوے خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ: ماسٹر اللہ دتہ صاحب ریٹائرڈ سکول ماسٹر حال قادیان محلہ دارالرحمت نے جبکہ وہ گوجرانوالہ میں قلعہ دیدار سنگھ(سکول) میں نائب مدرس تھے، مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ قادیان میں مَیں گیا ہوا تھا تو مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام احباب میں تشریف فرما تھے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی وہاں پر موجود تھے۔ حضور نے اُن کی طرف (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ حضرت حکیم مولانا نورالدین کی طرف) اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ شخص میرا سچا عاشق ہے۔ اس کے بعد جب مسجد سے باہر آئے تو مولوی صاحب نے چوک میں وعظ کے رنگ میں بیان کیا کہ جس شخص کو اُس کا معشوق یہ کہہ دے کہ میرا یہ عاشق ہے اس کو اور کیا چاہئے؟۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ26۔ روایت حضرت ماسٹر ودھاوے خاں صاحبؓ)

حضرت ماسٹر مولا بخش صاحبؓ ولد عمر بخش صاحب فرماتے ہیں: ایک دفعہ یہاں (قادیان) آیا ہوا تھا۔ تعطیلات کے دو تین دن باقی تھے۔ میں حضور سے اجازت لے کر روانہ ہو کر جب خاکروبوں کے محلے کے باہر بٹالہ کے راستے پر چلا گیا تو آگے جانے کو دل نہ چاہا۔ وہیں کھیت میں بیٹھ گیا اور چلّا چلّا کر زار و زار رویا اور واپس آ گیا۔ (جانے کو دل نہیں کر رہاتھا، ایک بے چینی تھی اور بہر حال بیٹھ کرروکے وہیں سے واپس آگیا) موسمی تعطیلات ختم کر کے پھر گیا۔ یہ حضور کی محبت کا اثر تھا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 147-146روایت حضرت ماسٹر مولا بخش صاحبؓ)

حضرت مولوی محب الرحمن صاحب بیان فرماتے ہیں کہ: مَیں حضرت والد صاحب کے ہمراہ ننانوے (1899ء میں) قادیان گیا۔ بٹالہ سے یکّے پر سوار ہو کر ہم قادیان پہنچے، جس وقت یکّہ مہمان خانے کے دروازے پر پہنچا تو والد صاحب یکّہ پر سے کود کر بھاگتے ہوئے چلے گئے۔ یکّے والے نے اسباب باہر نکالا (سامان نکالا) اور مَیں وہاں حیران کھڑا تھا کہ والد صاحب خلافِ عادت اس طرح کود کر بھاگ گئے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟ تھوڑے عرصے میں حافظ حامد علی صاحب باہر آئے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ اسباب میاں حبیب الرحمن صاحب کا ہے؟ مجھ سے ہاں میں جواب سن کر وہ اسباب مہمان خانے میں لے گئے اور مَیں بھی ساتھ چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد والد صاحب واپس تشریف لے آئے۔ اگلے روز صبح کو بعدنماز فجر والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکان پر لے گئے۔ کمرے کے دروازے پر پہنچنے پر حضرت صاحب نے دروازہ خود کھولا۔ ہم اندر کمرے میں داخل ہوئے جو بیت الفکر کے ساتھ والا کمرہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تخت پوش پر جس کے سامنے ایک میز رکھی تھی اور اس پر بہت ساری کتابیں تھیں، وہاں تشریف فرما ہوئے۔ ہم دونوں ایک چارپائی پر بیٹھ گئے جو قریب میں ہی تھی۔ والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کیں۔ اس کے بعد والد صاحب نے عرض کیا کہ میں محب الرحمن کو بیعت کے لئے لایا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا اس کی تو بیعت ہی ہے۔ (یعنی باپ نے کرلی تو اُس کے ساتھ ہی بچے بھی شامل ہو گئے، اس لئے بیعت تو پہلے ہی ہے) والد صاحب نے عرض کیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ بیعت کر لے تو دعاؤں میں شامل ہو جائے گا۔ فرمایا اچھا آج شام کو بیعت لے لیں گے۔ چنانچہ اُس دن شام کوبعدنماز مغرب خاکسار نے اور بھی بہت دوستوں کے ساتھ بیعت کی۔ بیعت کرنے کے بعد پھر ایک نیا احساس پیدا ہوا ہے۔ کہتے ہیں اُس وقت مَیں سمجھا کہ والد اُس روز جس دن ہم پہنچے تھے، یکّے سے والہانہ طریق پر اتر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے ہی گئے تھے۔ یہی وجہ تھی۔ یہ عشق و محبت تھا جس نے انہیں بے چین کیا اور اترتے ہی سیدھے حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ والدصاحب کا معمول تھا کہ قادیان پہنچتے ہی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور روزمرہ صبح کے وقت بھی علیحدگی میں حاضر خدمت ہوتے تھے۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 9صفحہ84-85 روایت مولوی محب الرحمٰن صاحبؓ)

حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ میرے لڑکے عبدالمجیدنے جس کی عمر اس وقت قریباً چار برس کی تھی۔ اس بات پر اصرار کیا کہ میں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر یعنی ’’جپھی‘‘ ڈال کر ملنا ہے۔ اُس نے مغرب کے وقت سے لے کر صبح تک یہ ضد جاری رکھی اور ہمیں رات کو بہت تنگ کیا۔ صبح اُٹھ کر پہلی گاڑی میں اُسے لے کر بٹالہ پہنچا اور وہاں سے ٹانگے پر ہم قادیان گئے اور جاتے ہی حضرت صاحب کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ عبدالمجید آپ کو ملنا چاہتا ہے۔ گلے ملنا چاہتا ہے یا ’’جپھی‘‘ ڈالنا چاہتا ہے۔ (چھوٹا سا بچہ ہی تھا۔ چار سال عمر تھی) حضورؑ اس موقع پر باہر تشریف لائے اور عبدالمجید آپ کی ٹانگوں کو چمٹ گیا اور اس طرح اُس نے ملاقات کی اور پھر وہ چار سال کا بچہ کہنے لگا کہ ’’ہن ٹھنڈ پے گئی اے‘‘۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ12 روایت حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ)

حضرت میاں عبدالغفار صاحب جرّاحؓ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت صاحب سیڑھیوں سے تشریف لائے اور احمدیہ چوک میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے یاد ہے کہ حضور نے اپنی سوٹی کمر کے ساتھ لگا کر اُس پر ٹیک لگائی۔ مَیں اُس وقت حضرت خلیفہ اول کے شفاخانے پر کھڑا تھا۔ مَیں نے حضور کو دیکھ کر اپنے والد صاحب کو کہا کہ بابا! حضرت صاحب آ گئے۔ والد صاحب نے کہا: اونچے مت بولو۔ لوگ آواز سن کر دوڑ آئیں گے اور جمگھٹا ہو جائے گا اور ہمیں حضور کی باتیں سننے کا لطف نہیں آئے گا۔ (یہ بھی عشق و محبت کی باتیں ہیں کہ ہمارے درمیان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان اور لوگ حائل نہ ہو جائیں یا زیادہ لوگ نہ آ جائیں، یا اتنے لوگ پہلے ہی اکٹھے ہو جائیں کہ ہم اُن تک پہنچ نہ سکیں)۔ چنانچہ کہتے ہیں وہ اٹھے۔ حضور سے مصافحہ کیا۔ حضرت صاحب نے میرے والد صاحب کو کہا کہ میاں غلام رسول! کوئی امرتسر کی باتیں بتائیے۔ والد صاحب نے کہا کہ حضور! لوگ درمیان میں اور باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ (جب مَیں غریب آدمی بولنا شروع کروں گاتو اَور لوگ آ جائیں گے۔ دوسری باتیں شروع کر دیں گے۔ میری باتیں بیچ میں رہ جائیں گی) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آج تمہاری ہی بات ہو گی اور کسی کی نہیں ہو گی۔ حضور اُس دن جس طرف محلہ دارالانوار ہے، سیر کے لئے تشریف لے گئے، جہاں اب حضرت صاحب کی کوٹھی بھی ہے۔ جب وہاں پہنچے تو خواجہ کمال الدین صاحب کے سسر خلیفہ رجب الدین صاحب نے کشمیری زبان میں کہا کہ اب خاموش ہو جاؤ۔ ہم نے بھی باتیں کرنی ہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آج میاں غلام رسول کی بات ہو گی اور کسی کی نہیں ہو گی۔ اُن کو بھی چپ کرا دیا اور باتیں مُلّانوں کے متعلق ہوتی رہی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے سنایا کہ میں حضور کے ساتھ امرتسر کے ایک مُلّاں کی بات کر رہا تھا کہ اُس نے مجھے کہا کہ تم مرزا صاحب کو چھوڑ دو۔ ہم تمہیں بہت سا روپیہ جمع کر دیں گے۔ مگر مَیں نے کہا (سوچ ہے ناں، انہوں نے جواب دیا) کہ فلاں سوداگر نے ایک عورت رکھی ہوئی ہے مگر وہ اُس عورت کو نہیں چھوڑ سکتا تو مَیں خدا کے نبی کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحا بہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ39-40۔ روایت حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح ؓ) (یعنی دنیا دار اپنے دنیاوی عشق کی خاطر دنیا بھی برباد کر رہا ہے اور آخرت بھی برباد کر رہا ہے۔ بدنامی بھی ہو رہی ہے تو مَیں تو خدا کی محبت کی خاطر خدا کے نبی کے تعلق اور عشق میں گرفتار ہوں، اس کو کس طرح چھوڑ دوں۔ اسی سے تو میری دنیا بھی سنورنی ہے اور میری آخرت بھی سنورنی ہے)۔

حضرت شیخ زین العابدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ: ایک میرے بھائی مہر علی صاحب آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ وہ بیمار ہو گئے۔ چھ ماہ تک دست آتے رہے۔ ہم علاج کرتے رہے۔ جب کوئی افاقہ نہ ہوا اور ہم بالکل نا امید ہو گئے تو اُس کو قادیان لے آئے۔ حضرت صاحب کو الہام ہو چکا تھا کہ مَیں اس جگہ ایک پیارے بچے کا جنازہ پڑھوں گا اور حضور اس الہام کو اپنے بچوں میں سے ہی کسی ایک کے متعلق سمجھا کرتے تھے۔ مگر مہر علی کو یہاں لایا گیا تو حضور نے اُس کا مہینہ ڈیڑھ مہینہ علاج کیا۔ کچھ ٹھیک ہوگیا مگر حضور کو الہام ہوا کہ یہ بچہ بچ نہیں سکے گا۔ اس پر آپ نے حافظ حامد علی کو کہا کہ اس بچے کو یعنی اپنے بھائی کو گھر لے جاؤ۔ یہ بچ نہیں سکے گا۔ اور اگر یہاں فوت ہوا تو تمہارے رشتہ داروں کو یہاں آنے کی تکلیف ہو گی۔ ہم نے ڈولی تیار کروائی۔ اُسے ڈولی میں بٹھایا اور بازار تک لے گئے۔ مگر اُس نے کہا کہ مَیں ہرگز واپس نہیں جاؤں گا۔ بارہ تیرہ سال کا بچہ تھا۔ اُس بچے نے کہا کہ مرنا ہے تو یہیں مرنا ہے۔ مَیں تو مرزا صاحب کی خدمت میں ہی رہوں گا۔ اور اگر تم نے واپس نہ کیا تو میں چھلانگ لگا دوں گا جو مجھے اُٹھا کے لے جا رہے ہو۔ چنانچہ ہم اُسے واپس لائے اور حضرت صاحب کو اطلاع بھجوائی۔ فرمایا اچھا رہنے دو۔ یہ یہاں ہی فوت ہو گا۔ مگر یہ خیال رکھنا کہ چلتا پھرتا مرے گا۔ یہ نہ سمجھنا کہ بیمار ہو گا، لیٹا ہوا۔ اچانک وفات ہو جانی ہے۔ لیٹا ہوا نہیں مرے گا۔ جس دن اُس نے مرنا تھا۔ بازار چلا گیا اور دودھ پیا اور شام کے قریب گھر آیا۔ ماں کو کہنے لگا کہ ماں اب دیا گُل ہو چلا ہے۔ والدہ سمجھی کہتاہے شام ہو گئی ہے۔ دیا جلاؤ۔ مگر اُس نے کہا کہ میرا مطلب یہ نہیں، یہ مطلب ہے۔ اُس کو بھی خبر پہنچ گئی تھی۔ والدہ نے اُسے کھڑے کھڑے چھاتی سے لگایا۔ مگر اُسی حالت میں اُس کی جان نکل گئی۔ حضرت صاحب نے جنازہ پڑھایا اور یہیں تدفین کی۔ کہتے ہیں جنازہ اس قدر لمبا پڑھایا کہ ہم لوگ تھک گئے۔ لوگ رو رہے تھے۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ66-67۔ روایت حضرت شیخ زین العابدین برادر حافظ حامد علی صاحبؓ)

حضرت میاں عبدالرزاق صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ مَیں بڑی خواہش سے (وہ) مقدمہ سننے کے لئے (جو جہلم کا مشہور مقدمہ ہے) حضور کی تشریف آوری سے ایک دن پہلے جہلم پہنچ گیا۔ گاڑی کے آنے سے دو گھنٹے پیشتر سٹیشن پر پہنچ گیا تھا۔ میں نے سٹیشن پر نظارہ دیکھا ہے کہ دس دس فٹ پر پولیس کے سپاہی کھڑے تھے۔ لوگوں دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کرتے تھے مگر پولیس اندر نہیں جانے دیتی تھی۔ گاڑی آنے کے وقت اس قدر ہجوم ہو گیا کہ آخر پولیس کامیاب نہ ہو سکی۔ تمام خلقت دیواریں پھاند کر اندر چلی گئی۔ جب حضرت صاحب گاڑی سے اترنے لگے تو ایک گلی باہر تک پولیس کی مدد سے احمدی دوستوں نے بنا دی۔ اس گلی میں سب سے پہلے چوہدری مولا بخش صاحب جو سیالکوٹ کے مشہور احمدی تھے گزرے اور گاڑی تک گئے۔ اُن کے بعد حضرت صاحب تشریف لے گئے اور ساتھ ہی مولوی عبداللطیف صاحب شہید کابل والے اور مولوی محمد احسن صاحب بھی تھے اور بند گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی کا چلنا ہجوم کے سبب سے بہت ہی مشکل ہوگیا۔ اُس وقت غلام حیدر تحصیلدار نے بہت ہی محبت کے ساتھ انتظام شروع کیا۔ ایک تو پولیس کو انتظام کرنے کے لئے زور دیااور دوسرے خلقت کو باز رکھنے کی کوشش کی۔ وہ ہنٹر ہاتھ میں لے کر جلال کے ساتھ چکر لگا رہا تھا۔ ہمارا دل تو اس وقت غمگین تھا کہ خدا کرے حضور خیریت سے کوٹھی پر پہنچ جائیں۔ اُس وقت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی جو گاڑی کے آگے آگے ایک بیگ بغل میں دبائے ہوئے چل رہے تھے کسی وقت جوش میں آ کر یہ بھی کہہ دیتے تھے۔ (کہتے ہیں مجھے واقعہ یاد ہے) کہ ’’کیڑی کے گھرنارائن آیا‘‘ حتی کہ حضرت صاحب کوٹھی پر پہنچ گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ158-159۔ روایت میاں عبدالرزاق صاحبؓ)

حضرت میاں وزیر محمد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ: مَیں جس روز آیا، ایک اور شخص بھی میرے ساتھ تھا جو یہاں آ کر بیمار ہو گیااور میں جو بیمار تھا تندرست ہو گیا۔ پہلے میری یہ حالت تھی کہ میں چند لقمے کھاتا تھا اور وہ بھی ہضم نہ ہوتے تھے مگر یہاں آ کر دو روٹی ایک رات میں کھا لیتا تھا۔ واپس امرتسر گیا۔ پھر وہی حالت ہو گئی۔ پہلی دفعہ جو حضرت صاحب کی زیارت ہوئی تو مسجد مبارک کے ساتھ کے چھوٹے کمرے میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت اقدس اندر سے تشریف لائے۔ جونہی حضور کا چہرہ دیکھا تو عقل حیران ہو گئی اور خدا کے سچے بندوں کی سی حالت دیکھ کر بے خود ہو گیا۔ جمعہ کے دن میں کچھ ایسی حالت میں تھا کہ حضرت صاحب کے نزدیک کھڑے ہو کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ اُس وقت حضرت صاحب کی ایک توجہ ہوئی۔ اُس کے بعد میں بہت سخت رویا۔ (یعنی ایک نظر سے دیکھا، توجہ سے دیکھا، اُس کا ایسا اثر ہوا کہ مَیں بہت سخت رویا، نماز میں بھی اور نماز سے پہلے بھی۔ ) کہتے ہیں کہ صوفیاء کے مذہب میں یہ غسل کہلاتا ہے۔ عصر کے وقت جب حضور سے پھر ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا حضور! اب اچھا ہو گیا ہوں۔ پہلے وقت جب ہم قادیان آئے تو اُس وقت کوئی لنگر خانہ نہیں تھا۔ (یعنی پہلی دفعہ جب آئے ہیں ) حضرت صاحب کے گھر سے روٹی اور اچار آیا، وہ کھایا۔ اُس وقت وہ کمرہ جس میں آجکل موٹر ہے اُس میں پریس تھا۔ مہمان بھی وہیں ٹھہر جاتے تھے۔ مَیں بھی وہیں ٹھہرا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 179-180۔ روایت میاں وزیر محمد خاں صاحبؓ)

حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میر مہدی حسین فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے برف لینے کے لئے امرتسر بھیجا۔ راستے میں ریل میں بیٹھے ہوئے میں نے سر جو باہر نکالا تو میری ٹوپی جو ململ کی تھی، سر نکالنے سے اُڑ گئی۔ امرتسر سے میں جب برف لے کر واپس آیا تو میر ناصر نواب صاحب نے کہا کہ کیا تم کو کسی نے مارا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر ننگے سر کیوں ہو؟ میں نے کہا میری ٹوپی رستے میں اُڑ گئی ہے۔ انہوں نے جا کر حضرت صاحب سے ذکر کر دیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ ہاں ہم ٹوپی دیں گے۔ مَیں نے پھر مطالبہ نہ کیا بلکہ ایک دو آنے کی ٹوپی خرید لی۔ (دوآنے میں ایک ٹوپی ملتی تھی وہ لے لی اور سر پر رکھ لی۔ ) کوئی چھ ماہ کے بعد حضرت صاحب نے ایک ٹوپی اور ایک الپاکا کا کوٹ اور ایک پاپوش عطا فرمائے۔ (الپاکا ایک جانور ہے ساؤتھ امریکہ میں ہوتا ہے جس کی اون سے بڑا نفیس عمدہ گرم کپڑا بنتا ہے تو اُس کا کوٹ اور ایک پاپوش، جوتی عطا فرمائی۔) کوٹ کو تو مَیں نے پہن لیا اور وہ جلدی پھٹ گیا اور ٹوپی میں نے سر پر رکھ لی۔ جوتی جو تھی مَیں نے اپنے والد صاحب کو پہنا دی۔ گھر جاتے ہوئے رستے میں ایک شخص ڈپٹی رینجر نے مجھے کہا کہ میر صاحب! آپ کے سر پر جو ٹوپی ہے وہ میلی ہو گئی ہے، میں آپ کو امرتسر سے نئی ٹوپی لا دیتا ہوں۔ میں نے کہا اس کے مرتبہ کی ٹوپی کہیں نہیں مل سکتی۔ نہ زمین میں نہ آسمان میں۔ کہنے لگا وہ کس طرح؟ میں نے کہا یہ مسیح پاک کے سر پر دو سال رہی ہے۔ اُس نے کہا اچھا۔ وہ نیک فطرت تھا۔ چنانچہ وہ بھی بعد میں پھر حضور کا مرید ہو گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 179-180۔ روایت میاں وزیر محمد خاں صاحبؓ)

حضرت مولوی عزیز دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جتنی دفعہ مجھے حضرت صاحب سے آ کر ملاقات کا موقع ملا، قریباً پچاس ساٹھ یا ستر دفعہ کا واقعہ ہو گا۔ آتے ہی حضرت صاحب کے پاس اپنی پگڑی اتار کر رکھ دیتا تھا اور حضرت صاحب کے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر ملتا تھا اور جب تک میں ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا حضرت صاحب نے کبھی ہاتھ کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میری عمر اکاسی سال کی ہے، میں کبھی بیمار نہیں ہوا۔ البتہ قادیان میں ہی ایک دو چوٹیں معمولی سی لگی ہیں۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 218-219۔ روایت مولوی عزیز دین صاحبؓ)

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب مسجد مبارک میں نماز سے فارغ ہو کر تشریف رکھتے تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہتی، کیونکہ ہم یہ جانتے تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نکات بیان فرما کر محبتِ الٰہی کے جام ہم پئیں گے اور ہمارے دلوں کے زنگ دور ہوں گے۔ سب چھوٹے بڑے ہمہ تن گوش ہو کر اپنے محبوب کے پیارے اور پاک منہ کی طرف شوق بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ آپ اپنے رُخ مبارک سے جو بیان فرمائیں گے اُسے اچھی طرح سُن لیں۔ یہ حال تھا آپ کے عشاق کا کہ آپ کی باتوں کو سننے سے کبھی ہم نہ تھکے اور حضرت اقدس کبھی اپنے دوستوں کی باتیں سننے سے نہ گھبراتے تھے اور نہ روکتے تھے۔ میں نے کبھی آپ کو سرگوشی سے باتیں کرتے نہیں دیکھا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ94روایت حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ)

بدرالدین احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کراچی۔ حضرت سراج بی بی صاحبہ دختر سید فقیر محمد صاحب افغان جو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے، اُن کی روایت بیان کرتے ہیں (چھوٹی بچیوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ محبت کیا تھی؟ اُس کا بیان ہو رہا ہے) کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود تنہا باغ میں اُس راستے پر چہل قدمی فرما رہے تھے جو آموں کے درختوں کے نیچے جنوباً شمالاً واقع ہے اور ایک کنویں کے متصل جو اَب متروک ہے ایک دروازے کے ذریعے جناب مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ میں کھلتا ہے۔ مَیں بھی حضور کے پیچھے پیچھے چلتی تھی۔ (باغ میں چہل قدمی ہو رہی تھی، سیر کر رہے تھے، ٹہل رہے تھے، میں بھی حضور کے پیچھے پیچھے چلتی تھی) اور جہاں جہاں حضور کا قدم پڑتا تھابوجہ محبت کے اُنہی نقشوں پر مَیں بھی قدم رکھتی جاتی تھی۔ مجھے یہ پتہ تھا کہ ایسا کرنے میں برکت حاصل ہوتی ہے۔ کہتی ہیں میری آہٹ سن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری طرف دیکھا اور پھر دوبارہ چلنا شروع کر دیا‘‘۔ (ما خوذازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ316-317 روایت حضرت سراج بی بی صاحبہؓ بزبان بدر الدین احمد صاحب)

حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ہم سب بھی قادیان شریف سے دوستوں کے جلسہ پر جانے سے دوسرے روز ہی اپنے گھر کو واپس آ گئے۔ غالباً تین چار ماہ بعد یکایک ہم لوگوں کو خبر لگی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لاہور میں وصال ہو گیاہے۔ میرے خسر قاضی زین العابدین صاحب اس خبر کو سن کر دیوانوں کی طرح ہو گئے۔ ہمیں کچھ نہ سوجھتا تھا۔ ہم اسی حالت میں سٹیشن سرہند پر پہنچے۔ وہاں ایک اسٹیشن کے بابو نور احمد صاحب سے قاضی صاحب نے کہا کہ آپ لاہور کو تار دے کر دریافت کریں کہ کیا واقعی وہ بات درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وصال ہو گیا ہے؟ ہماری ایسی حالت کو دیکھ کر بہت سے غیر احمدی ہمارے پیچھے ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ جو جس کے دل میں آتا تھا بکواس کرتا تھا۔ ہم غم کے مارے دیوانوں کی طرح پھر اپنے گھر کو آگئے اور غیر احمدی بہت دور تک ہنسی مذاق کرتے ہوئے ہمارے پیچھے آئے۔ آخر جَھک مار کر واپس چلے گئے۔ یہ واقعہ احمدی جماعت کے لئے بہت دردناک اور جان گھلا دینے والا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین حضرت خلیفۃ المسیح الاول مولانا نورالدین صاحب منتخب ہوئے۔ ہم سب نے اپنی اپنی بیعت کے خطوط روانہ کر دئیے۔ جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد پہلے جلسہ سالانہ پر گئے تو جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیٹھے یا کھڑے دیکھا تھا، اُن جگہوں کو خالی دیکھ کر دل قابو سے نکلا جاتا تھا۔ ہر وقت آنکھیں پُر نم رہتی تھیں۔ یہ جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ہوا تھا جو آجکل کے جلسوں کو دیکھتے ہوئے معمولی سا جلسہ تھا۔ اس میں خواجہ کمال الدین صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب، مولوی صدرالدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب پیش پیش نظر آتے تھے اور سب کی نظریں اُنہیں پر پڑتی تھیں۔ (یعنی جماعت کے افراد کی نظریں اُنہی پر پڑتی تھیں ) واقعی اُس وقت سوائے اُن لوگوں کے کوئی دوسرا قابل نظر ہی نہیں آتا تھا اور یہی لوگ منتظم تھے۔ شروع جلسے پر پہلے تلاوتِ قرآن ہوئی۔ پھر ایک نظم برادرم منشی سراج الدین صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں پڑھی۔ پھر ایک نظم ایک شخص نے پڑھی۔ اُس کے بعد حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے تقریر کی۔ خلیفہ اول کے زمانے کی بات ہے۔ (خلیفۃ المسیح الثانی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد پہلے جلسے میں تقریر کی) اُس میں آپ نے بیان فرمایا کہ فرعون کے ظلم و ستم کی وجہ سے جو بنی اسرائیل کے آنسو نکلے تھے ایک دن وہ آنسو دریا بن کر فرعون کو لے ڈوبے۔ (پس اضطراری حالت میں اور تکلیف کی حالت میں جو آنسو نکلتے ہیں، وہ پھر بڑے نتائج بھی نکالنے والے ہوتے ہیں۔ جماعت کو بھی خاص طور پر پاکستان کی جماعتوں کویہ یاد رکھنا چاہئے کہ آجکل ایسے ہی آنسو نکالنے کا وقت ہے) کہتے ہیں جو بنی اسرائیل کے آنسو نکلے تھے ایک دن وہ آنسو دریا بن کر فرعون کو لے ڈوبے۔ حضور عالی نے یہ تقریر ایسی عمدگی سے ادا کی کہ سامعین پر وجدانی کیفیت طاری تھی۔ جب آپ کی یہ تقریر ختم ہوئی تو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تقریر شروع کرنے سے قبل فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب نے تو ایسی تقریر کی کہ میرے ذہن میں بھی کبھی یہ مضمون نہیں آیا۔ پھر فرمایا دوستوں کو چاہئے کہ قدرتِ ثانی کے لئے دعا فرمائیں یعنی ہمیشہ یہ قدرتِ ثانی جاری رہے۔ چنانچہ اُسی وقت دعا کی گئی اور آپ نے اُس وقت یہ بھی فرمایا کہ میاں صاحب کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں نظر بد سے محفوظ رکھے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ367تا369۔ روایت میاں محمد ظہورالدین صاحب ڈولیؓ)

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں۔ مَیں جب مسجد مبارک میں جا کر نماز ادا کرتا ہوں تو نماز میں وہ حلاوت اور خشیت اللہ دل میں پیدا ہوتی ہے کہ دل محبتِ الٰہی سے سرشار ہو جاتا ہے۔ مگر میرے دوستو! جب اس نورِ الٰہی کے دیکھنے سے آنکھیں محروم رہتی ہیں تو مجھے کرب بے چین کر دیتا ہے اور وہ صحبت یاد آ کر دل درد سے بھی پُر ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ اُس نورِ الٰہی کو دیکھ کر دل کی تمام تکلیفیں دور ہو جاتی تھیں اور حضرت اقدس کے پاک اور منور چہرے کو دیکھ کر نہ کوئی غم ہی رہتا ہے اور نہ کسی کا گلہ شکوہ ہی رہتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اب ہم جنت میں ہیں اور آپ کو دیکھ کر ہماری آنکھیں اُکتاتی نہ تھیں۔ ایسا پاک اور منور رُخِ مبارک تھا کہ ہم نوجوان پانچوں نمازیں ایسے شوق سے پڑھتے تھے کہ ایک نماز کو پڑھ کر دوسری نماز کی تیاری میں لگ جاتے تھے تا کہ آپ کے بائیں پہلو میں ہمیں جگہ مل جاوے اور ہم نوجوانوں میں یہی کشمکش رہتی تھی کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ہی جگہ نصیب ہو اور آپ کے ساتھ ہی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔ پھر آپ لکھتے ہیں کہ اللہ اللہ! وہ کیسا مبارک اور پاک وجود تھا جس کی صحبت نے ہمیں مخلوق سے مستغنی کر دیا اور ایسا صبر دے دیا کہ غیروں کی محبت سے ہمیں نجات دلا دی اور ہمیں مولیٰ ہی کا آستانہ دکھا دیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ82-83و89روایت حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ)

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے کی توفیق دیتے ہوئے آپ کے ساتھ اخوت اور تعلق اور محبت کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس رشتے کی وجہ سے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والے بھی ہوں۔

اس وقت میں نماز جمعہ کے بعد دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا، دونوں قادیان کی دو بزرگ خواتین کے جنازے ہیں۔ پہلا جنازہ جو ہے مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مستری محمد دین صاحب درویش مرحوم قادیان کا ہے۔ 4؍مئی کو پچاسی سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ مستری ناظر الدین صاحب کی بیٹی اور حضرت میاں فتح دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نواسی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان میں حضرت امّاں عائشہ جو معروف ہیں۔ اماں جانؓ نے حضرت اماں عائشہ کو بیٹی بنایا ہوا تھا، اُن کی بھانجی تھیں۔ قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم صاحب کی بیگم صاحبہ سے بڑا خاص تعلق تھا اور انہوں نے بھی اپنے خاوند کے ساتھ، بڑی تکلیف کے ساتھ، لیکن خوشی سے اور بشاشت سے درویشی کا زمانہ گزارا ہے۔ مرحومہ نے 1944ء میں وصیت کرنے کی توفیق پائی تھی۔ آپ کو لمبا عرصہ لجنہ میں بطور سیکرٹری خدمت خلق کام کرنے کا موقعہ ملا۔ مرحومہ کے چار بیٹے تھے جن میں سے بڑے بیٹے حمید الدین صاحب شمس مرحوم مبلغ سلسلہ تھے جو سینتالیس سال کی عمر میں ان کی زندگی میں وفات پا گئے تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے وحیدالدین صاحب بھی واقفِ زندگی ہیں۔ اسی طرح ایک بیٹے رشید الدین صاحب بھی صدر عمومی کے طور پرکام کرتے رہے۔ اسی طرح نصیر الدین صاحب بھی ان کے ایک بیٹے ہیں وہ بھی وہیں کام کر رہے ہیں۔ ان کے دامادوں میں سید عبد اللہ صاحب بھاگلپورکے زون کے امیر ہیں۔ داماد عبدالنقی صاحب امورِ عامہ میں کام کرتے ہیں۔ مرحومہ صوم و صلوۃ اور نماز تہجد اور روزانہ تلاوت قرآنِ کریم کی بہت پابند تھیں۔ قادیان میں خالہ رشیدہ کے نام سے معروف یہ خاتون بیگم مرزا وسیم احمد کے ساتھ ہر جگہ ہر خوشی و غمی میں لوگوں کے گھروں میں جایا کرتی تھیں۔ میاں وسیم احمد صاحب کی چھوٹی بیٹی نے مجھے لکھا کہ بڑی سادگی سے انہوں نے تمام زندگی گزاری۔ ان کے خاوند کو جب انجمن سے ریٹائرمنٹ ہوئی تو اُس وقت ایک بڑی رقم جو پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ کی ہوتی ہے وہ ملی۔ انہوں نے سوچا کہ مَیں نے کبھی اپنی بیوی کو کچھ بنا کے نہیں دیا۔ زیور کچھ چوڑیاں بنا کے دیں یا سونے کے ٹاپس بنا کے دئیے اور اسی وقت چند ہفتوں بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ نے نئے مراکز کی تحریک کی تو آپ نے وہ لا کے دے دئیے اور حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی بیگم کو کہا کہ مَیں نے ساری عمر سونا نہیں پہنا تو اب پہن کے مَیں نے کیا کرنا ہے اور یہ رَکھ لیں۔ اس چندے کا جو انتظام تھا اور جو زیورات وغیرہ آ رہے تھے، وہ ان کے خاوند کے سپرد تھا۔ انہوں نے جب دیکھا یہ ٹاپس میری بیوی کی طرف سے آئے ہیں تو انہوں نے انتظامیہ سے کہہ کے خود قیمت ادا کر دی۔ کچھ رقم اُن کے پاس تھی کہ مَیں نے بیوی کو بنا کے دئیے تھے اور قیمت ادا کر کے پھر واپس اپنی بیوی کو دے دئیے۔ چند ہفتوں کے بعد دوبارہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے تحریک کی تو پھر انہوں نے وہی ٹاپس پیش کر دئیے۔ اُس وقت ان کے خاوند کے پاس بھی گنجائش نہیں تھی۔ تو بہرحال جو انہوں نے کہا تھا کہ ساری عمر مَیں نے کچھ سونا نہیں پہنا۔ کبھی نہیں پہنا تو اب بھی نہیں پہنوں گی۔ اللہ کی راہ میں دے دیا۔

دوسرا جنازہ مکرمہ نذر النساء صاحبہ اہلیہ مکرم محمد سیف خان صاحب انڈیا کا ہے۔ یہ 9مئی کو 75 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ انّاللّہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے خاوندنے 1962ء میں قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا۔ بڑے مخلص تھے۔ مخالفت کے باوجود یہ دونوں احمدیت پر قائم رہے۔ نمازوں کی پابند، ملنسار، غریب پرور خاتون تھیں۔ سادگی سے زندگی گزاری۔ ایک درجن سے زائد یتیم اور نادار بچوں کی کفالت اور پرورش کی۔ مرکزی نمائندگان کی بڑی خاطر مدارات کیا کرتی تھیں۔ موصیہ تھیں۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی ہے۔ آپ کے تین بیٹے سلسلہ کے خادم اور واقفِ زندگی ہیں۔ بڑے بیٹے نسیم خان صاحب قادیان میں ناظر امورِ عامہ ہیں۔ دوسرے بیٹے کلیم خان صاحب مبلغ ہیں۔ اسی طرح وسیم خان صاحب ہیں۔ یہ سب واقفینِ زندگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ہر دو مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ وفا کا تعلق اور اخلاص کا تعلق رہے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ مئی 2012ء شہ سرخیاں

    شرائط بیعت کی دسویں شرط کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقِ محبت و اخوت کو اس معیار تک پہنچانا لازمی ہے جس کی مثال دنیا کے کسی رشتے میں نہ ملتی ہو۔

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی حضور علیہ السلام سے غیرمعمولی محبت اور اخوت کے تعلق کی نہایت خوبصورت اور  روشن مثالوں کا روح پرور تذکرہ۔

    مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مستری محمددین صاحب درویش مرحوم قادیان اور  مکرمہ نذرالنساء صاحبہ اہلیہ مکرم محمد سیف خان صاحب انڈیا کی وفات، مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

    فرمودہ مورخہ 11؍مئی 2012ء بمطابق 11؍ہجرت 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور