ہمدردیٔ خلق اور بندوں کے حقوق

خطبہ جمعہ یکم جون 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمد للہ آج جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اس سال جلسے کی انتظامیہ نے گزشتہ سال کی کمیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں سب سے پہلے تو آواز تھی۔ آج پتہ لگے گا کہ اس میں کس حد تک بہتری ہوئی ہے؟ کیونکہ گزشتہ سال اس کالسروئے میں اس ہال میں پہلا جلسہ تھا۔ اس لئے ظاہر ہے کہ بعض مشکلات یا کمیاں جو کہ نئی جگہ میں پیدا ہوتی ہیں، ہوئیں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر انتظامیہ پر بہت زیادہ انگلیاں اُٹھائی جائیں یا اعتراض کیا جائے۔ ہاں ایک صورت میں انتظامیہ قابلِ اعتراض ہو سکتی تھی کہ اگر وہ اپنی غلطیوں اور کمیوں کی طرف توجہ نہ دیتی اور اصلاح کی کوشش نہ کرتی۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا انتظامیہ نے اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے بعض کمیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال بعض غلط اندازوں اور نئی جگہ کی وجہ سے جو زیادہ اخراجات ہو گئے تھے، اُن میں بھی کمی کی کوشش کی ہے۔ لیکن ابھی بھی یقینا اصلاح اور بہتری کی گنجائش موجود ہے جس پر انتظامیہ کو نظر رکھنی چاہئے کہ ترقی کرنے والی قومیں بعض دفعہ اپنے تجربات سے اور بعض دفعہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اُٹھا کر آگے بڑھتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں۔ اور ہر اچھا مشورہ اور ہر اچھی چیز اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور یہی بات ہمیں ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے کہ ہر اچھی اور حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ جہاں سے بھی یہ ملے، اسے لے لو۔ (سنن الترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ حدیث: 2687)

کہ اسی میں روحانی اور مادی ترقی کا راز مضمر ہے۔ گزشتہ سال جب مَیں جرمنی آیا تو مَیں نے یہی حدیث برلن کے لارڈ میئر یا جو بھی وہاں صوبے کے بڑے میئر ہیں، گورنر کا ہی درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے سامنے کی تو کہنے لگے کہ اگر تم لوگوں کی تعلیم اور تمہارا عمل یہی ہے تو تم بہت جلد دنیا کو اپنے ساتھ ملا لو گے یا دنیا جیت لوگے۔ کم و بیش اُن کے الفاظ کا یہی مضمون تھا اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ تو ہونا ہے۔

بہر حال اگر ہم ترقی کرنے والی قوم ہیں اور یقینا ہیں تو پھر ہمیں اپنی کمزوریوں پر آنکھیں بندنہیں کرلینی چاہئیں بلکہ نظر رکھنی چاہئے اور اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے اور پھر یہی نہیں کہ صرف دنیاوی نظر سے ہم نے دیکھنا ہے بلکہ ہم تو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے جو اس روئے زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشقِ صادق تھے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے آئے تھے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے آئے تھے۔ پس یہ سب چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ ہم نے ہر چیز کو ہر بات کو تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اور تقویٰ کی نظر سے دیکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اپنے دل میں پیدا کرنی ہے اور اُس عہدِ بیعت کو نبھانا ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر کیا ہے۔

پس ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے اپنی تمام تر کمزوریوں کو دور کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے۔ صرف انتظامی کمزوریاں نہیں بلکہ ذاتی کمزوریاں بھی (دُور کرنی ہیں )۔ اور جب اس سوچ کے ساتھ جلسے پر شامل ہونے والا ہر شخص جلسے پر آئے گا، شامل ہو گا، اور ہر مرد اور عورت اپنے خیالات کی، اپنی سوچوں کی یہ بلندی رکھے گی اور اسی طرح انتظامیہ بھی ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یا یوں کہہ لیں کہ تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے انتظامات کو چلائے گی تو پھر جلسے کی برکات سے شامل ہونے والے بھی اور کارکنان بھی فائدہ اُٹھائیں گے اور من حیث المجموع جماعت کا قدم بھی آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسہ کے مقاصد بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں عبادتوں، تبلیغ، تقویٰ اور بہت سے دوسرے مقاصد کی طرف توجہ دلائی ہے، وہاں خاص طور پر بندوں کے حقوق اور اُن میں سے پھر ہمدردیٔ خلق کی طرف خاص طور پر بہت کچھ کہا ہے۔ تو دراصل حقیقی رنگ میں ہمدردیٔ خَلق کا جذبہ انسان میں پیدا ہو جائے تو حقوق العباد کی ادائیگی خود بخود ہوتی چلی جاتی ہے۔ پس اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے بارے میں جب بھی اشتہار دیا اور اعلان فرمایا تو اس پہلو کو خاص طور پر بیان فرمایا۔ آپ نے جہاں خدا تعالیٰ کا خوف، تقویٰ، زہد وغیرہ کی طرف توجہ دلائی وہاں نرم دلی، آپس کی محبت، بھائی چارہ، عاجزی، انکساری کی طرف بھی اُسی شدت سے توجہ دلائی کہ صرف عبادتیں تقویٰ نہیں ہیں، صرف جماعت کی خدمت کر دینا تقویٰ نہیں، صرف اللہ اور رسول سے محبت کا اظہار کر دینا تقویٰ نہیں، صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافتِ احمدیہ سے تعلق تقویٰ نہیں بلکہ تقویٰ تب کامل ہوتا ہے جب ماں باپ کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب خاوندوں اور بچوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب عزیز رشتے داروں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب دوستوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب ہمسایوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب بہن بھائیوں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں، جب افرادِ جماعت کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ جب دشمنوں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں تب تقویٰ کامل ہوتا ہے۔ اور یہ سب تعلیم قرآنِ کریم میں موجود ہے۔

ہم جلسے میں شامل ہونے آئے ہیں تا کہ اپنی روحانی ترقی کے سامان کریں۔ پس جہاں پر شامل ہونے والا اپنی عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف نظر رکھے، وہاں یہ بھی دیکھے کہ جہاں عبادتوں، نمازوں، دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کی طرف آپ توجہ کریں گے، وہاں آپس کی محبت اور تعلق اور ہمدردی کی طرف توجہ کرتے ہوئے اپنے جائزے لیں، ورنہ آپ ایک ایسی جگہ تو آ گئے جہاں لوگوں کا اکٹھ ہے، اجتماع ہے۔ ایسی جگہ تو آپ آ گئے جہاں آپ کے عزیز رشتے دار اور بعض ہم مزاج لوگ آئے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی جگہ تو آپ آ گئے جہاں بعض علمی اور شاید تربیتی تقاریر سے آپ حظ بھی اُٹھا لیں۔ آپ اُس سے لطف اندوز بھی ہو جائیں گے لیکن جو مقصد ہے اُسے حاصل کرنے والے نہیں بن سکیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقوق العباد اور خاص طور پر اپنے بھائیوں سے ہمدردی کی طرف بہت توجہ دلائی ہے۔ (انتظامیہ مجھے یہ بھی بتا دے کہ آخر میں آواز کی جو گونج واپس آ رہی ہے تو کیا وہاں لوگوں کو آواز پہنچ بھی رہی ہے کہ نہیں؟ چیک کر کے بتائیں)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب ایک مرتبہ بعض حالات اور ایک حصہ جماعت کے رویے کی وجہ سے جلسہ سالانہ ملتوی فرمایا تو فرمایا:

’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہو کر اور اس عاجز سے بیعت کر کے اور عہدِ توبہ نصوح کر کے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں۔ وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کر سکتے۔ چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور اُنہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بنا پر لڑتے اور دوسرے سے دست بدامن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے۔ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ361 اشتہار’’التوائے جلسہ 27دسمبر1893ء‘‘ اشتہار نمبر117مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’مَیں حیران ہوتا ہوں کہ خدایا! یہ کیا حال ہے؟ یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے؟ نفسانی لالچوں پر کیوں ان کے دل گرے جاتے ہیں اور کیوں ایک بھائی دوسرے بھائی کو ستاتا اور اُس سے بلندی چاہتا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جبتک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تک خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ مادّہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور جفا کشی کا پیدا نہ کرے، تب تک یہ جلسہ قرینِ مصلحت معلوم نہیں ہوتا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ361-362 اشتہار’’التوائے جلسہ 27دسمبر1893ء‘‘ اشتہار نمبر117مطبوعہ ربوہ)

پس دیکھیں افرادِ جماعت کے آپس کے پیار، محبت اور ہمدردی اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کے جذبات اور احساسات نہ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس قدر دُکھ، رنج اور تکلیف کا اظہار فرما رہے ہیں اور سزا کے طور پر جلسہ بھی ملتوی فرما دیا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انتظامات کی کمی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے جلسہ نہ کروایا، حالانکہ اس کے پیچھے ہمدردی کی کمی اور بعض لوگوں کی طرف سے اپنے بھائیوں کے لئے تکبر کا وہ اظہار ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شدید تکلیف میں مبتلا کر دیا۔

مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے مَیں نے یہاں جرمنی میں ایک ہنگامی شوریٰ بلائی تھی تو وہاں جب جلسے کے معاملات پیش ہوئے تو ایک صاحب نے جو بات کی اُس سے مجھے تأثر ملا کہ شاید اُن کے خیال میں یا اور لوگوں کے خیال میں بھی ایک سال جلسہ کا التواء یا نہ ہونا وسائل کی کمی کی وجہ سے تھا حالانکہ یہ وسائل کی کمی ایک ضمنی چیز تھی، اصل چیز وہ دُکھ تھا جو ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کا جذبہ نہ رکھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہنچا تھا۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کے جذبات نہ رکھنا، ایک دوسرے کی عزت اور احترام نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہر احمدی کو جب وہ دوسرے کے حقوق ادا نہیں کر رہا ہوتا یا کسی سے ہمدردی کے جذبات نہیں رکھتا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فقرے کو سامنے رکھنا چاہئے کہ میں حیران ہوتا ہوں کہ خدایا یہ کیا حال ہے؟ یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے؟

جیسا کہ مَیں نے کہا تھا اس جلسے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا نہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی پاک تبدیلی پیدا کرنا ہے اور یہ ضروری ہے۔

آپ نے بڑے دُکھ سے فرمایا کہ: ’’نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شئے ہے؟ جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے، صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے‘‘۔ (فضول خواہش ہے، بات ہے)۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ364 اشتہار’’التوائے جلسہ 27دسمبر1893ء‘‘ اشتہار نمبر117مطبوعہ ربوہ)

پس نہ کسی کو اپنی نمازوں پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو اپنی جماعتی خدمات پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو کوئی خاص عہدہ ملنے پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو کسی مالی قربانی پر خوش ہونا چاہئے جبتک کہ عاجزی، انکساری اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی اُس میں نہ ہو۔ اور جب حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے جذبات ایک انسان میں موجزن ہوتے ہیں تو پھر وہ حقیقی تقویٰ پر قدم مار رہا ہوتا ہے اور حقیقی تقویٰ پر چلنے والا پھر کسی نیکی پر خوش نہیں ہوتا۔ اُس میں فخر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت اُس میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر نیکی کرنے کے بعد یہ فکر دامنگیر رہتی ہے کہ پتہ نہیں یہ نیکی خدا تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ بھی پاتی ہے کہ نہیں۔ پس حقیقی نیکیاں تقویٰ پیدا کرتی ہیں اور تقویٰ انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے۔ اور یہی چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس زمانے میں ہم میں پیدا کرنے آئے ہیں۔ دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھنے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ شرائطِ بیعت جو ایک احمدی کے حقیقی احمدی مسلمان کہلانے کے لئے بنیادی چیز ہے، اس کی چوتھی شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ کسی اور طرح سے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول 159 اشتہار’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر 51مطبوعہ ربوہ)

پس ایک احمدی مسلمان سے نہ صرف احمدی مسلمان بلکہ ہر مسلمان، ہر قسم کی ناجائز تکلیف سے محفوظ ہونا چاہئے اور نہ صرف مسلمان بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا محفوظ رہنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ تکلیف پہنچانے کی برائی سے وہ پاک ہوتے ہیں تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ پھر اُس نے بھی نیکی کے اعلیٰ معیار کو پا لیا۔ مومن کا تو ہر قدم آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور بڑھنا چاہئے، ورنہ تقویٰ اور ایمان میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرائطِ بیعت کی نویں شرط میں فرمایا کہ:

’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چلتا ہے، اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ160 اشتہار’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

پس حقیقی نیکی اُس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو گی اور اس رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں ایک شخص استعمال کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بڑھ کر انسان ہے جو اشرف المخلوقات ہے۔ پس حقیقی انسان اُس وقت بنتا ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف توجہ دے۔

مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ غیروں کو، غیر مسلموں کو جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو مَیں اُن کے سامنے اسلام کی یہ خوبی رکھتا ہوں کہ تمہارا جو دنیاوی نظام ہے، بعض حقوق کا تعین کر کے یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے حقوق ہیں اور یہ ہمیں دو ورنہ طاقت کا استعمال ہو گا۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اُن حقوق کو بیان فرما دیا جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے ادا کرنے چاہئیں۔ پس یہ فرق ہے دنیاوی نظاموں میں اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام میں۔ دنیاوی نظام اکثر اوقات حقوق حاصل کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ اس کے لئے بعض اوقات ناجائز طریق بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ مومنوں کو کہتا ہے کہ اگر حقیقی مومن ہو، اگر میری رضا کے طلبگار ہو تو نہ صرف یہ کہ کسی مطالبے پر حقوق ادا کرو بلکہ حقوق کی ادائیگی پر نظر رکھ کر حقوق ادا کرو۔ اور انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ حقوق ادا کرو۔ انسانی ہمدردی کے جذبے سے یہ حقوق اداکرو۔

اب دیکھیں اگریہ جذبہ ہمدردی ہر احمدی میں پیدا ہو جائے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جماعت میں جھگڑوں اور مسائل کا سامنا ہو۔ نظامِ جماعت کے سامنے مسائل پیدا کئے جائیں۔ خلیفۂ وقت کا بہت سا وقت جو ایسے مسائل کو نپٹانے، یا مہینہ میں کم از کم سینکڑوں خطوط اس نوعیت کے پڑھنے اور اُن کا جواب دینے یا اُنہیں متعلقہ شعبے کو مارک کرنے میں خرچ ہوتا ہے وہ کسی اور تعمیری کام میں خرچ ہو جائے جو جماعت کے لئے مفید بھی ہو۔ خلیفہ وقت کے پاس جب ایسے معاملات آتے ہیں تو اُس نے تو ایسے معاملات کو بہر حال دیکھنا ہی ہے۔ انتظامی بہتری کے لئے بھی دیکھنا ہے۔ اصلاح کے لئے بھی اور ہمدردی کے جذبے کے تحت بھی کہ کہیں کوئی احمدی خود غرضی میں پڑ کر اپنے حقوق کی فکر کر کے اور دوسرے کے حقوق مار کر ابتلاء میں نہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ بن جائے یا کسی ظلم اور زیادتی کا نشانہ کوئی مظلوم نہ بن جائے۔

بعض مرتبہ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں کہ لوگ فیصلہ کو مانتے نہیں۔ جماعتی فیصلہ یا خلیفہ وقت کے فیصلہ کو مانتے نہیں ہیں۔ مشورے کو مانتے نہیں ہیں۔ سمجھانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ہٹ دھرمی اور ضد دکھاتے ہیں۔ اُن کو پھر سختی سے جواب دینا پڑتا ہے۔ اور میں بعض اوقات ایسے لوگوں کو جواب دیتا ہوں کہ پھر ٹھیک ہے، اگر تم یہ فیصلہ ماننے کو تیار نہیں تو پھر جماعت بھی تمہارے معاملات سے کوئی تعلق نہیں رکھے گی یا بعض دفعہ سختی بھی کی جاتی ہے اور سزا بھی دی جاتی ہے لیکن جذبہ ہمدردی ایسے لوگوں کے لئے دعا پر بھی مجبور کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور یہ دنیاوی معاملات کی وجہ سے دین کو پس پشت ڈال کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جویہ فرمایا ہے کہ ’’ناجائز تکلیف نہیں دے گا‘‘ اس سے یہی مراد ہے کہ بعض اوقات معاملات میں دوسرے کوتکلیف تو پہنچ سکتی ہے اور وہ جائز ہوتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کا ایک تو مطلب یہی ہے کہ جان بوجھ کر اور ارادۃً کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ کبھی ارادۃً کسی کی تکلیف کا باعث نہ بنے اور کبھی بننابھی نہیں چاہئے۔ دوسرے یہ کہ بعض اوقات بامر مجبوری بعض ایسے اقدام جو نظامِ جماعت کو یا خلیفۂ وقت کو کرنے پڑتے ہیں جو دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں لیکن یہ تکلیف اصلاح کی غرض سے ہوتی ہے۔ یہ تکلیف اصلاح کی غرض سے دی جاتی ہے اور یہ ناجائز نہیں ہوتی۔ لیکن اس صورت میں بھی ہمدردی کے جذبہ کے تحت جس کو کسی سزا یا تکلیف سے گزرنا پڑ رہا ہو اُس کے لئے دعا ضرور کرنی چاہئے۔ اور خلیفہ وقت کو تو سب سے زیادہ ایسے حالات سے گزرنا پڑتا ہے جہاں وہ یہ دیکھتا ہے کہ کہیں مجھ سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی، کہیں میں جان بوجھ کر جتنی بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے صلاحیت دی ہے اُس کے مطابق کسی سے بے انصافی کا باعث تو نہیں بن رہا۔ میرے کسی عمل سے کسی کے گھر کا ناجائز طور پر سکون تو بربادنہیں ہورہا؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ ایسا طریق اختیار کیا جائے کہ اُس سے ہمدردی کا اظہار ہو، اُس کی بہتری کے سامان کئے جائیں، اس کی اصلاح کی صورت ہو۔ یہ انصاف اور ہمدردی کے تقاضے ہیں جو خلیفہ وقت نے پورے کرنے ہوتے ہیں اور ظاہری اسباب کو سامنے رکھتے ہوئے خلیفہ وقت کا کام ہے کہ یہ تقاضے پورے کرے۔ اور پھر جو نظامِ جماعت ہے، جو عہدیدار ہیں، جو خلیفہ ٔوقت کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہیں، اُن کا کام ہے کہ اس انصاف اور ہمدردی کے جذبے سے اپنے کام سرانجام دیں۔ جو ایسا نہیں کرتے، جان بوجھ کر اپنی ذمہ داری کا حق ادا نہیں کرتے، وہ امانت میں خیانت کرنے والے ہیں اور یقینا خدا تعالیٰ کے حضور پوچھے جائیں گے۔

پس عہدیداران کے لئے بھی بڑے خوف کا مقام ہے۔ جماعت کے عہدے دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے، بلکہ اس جذبے کے تحت ہونے چاہئیں کہ ہم نے ایک پوزیشن میں آ کر پہلے سے بڑھ کر افرادِ جماعت کی خدمت کرنی ہے اور اُن سے ہمدردی کرنی ہے اور اُن کی بہتری کی راہیں تلاش کرنی ہیں اور اُنہیں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے تا کہ جماعت کے مضبوط بندھن قائم ہوں اور جماعت کی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو۔ پس یہ ہمدردی کا جذبہ ہر عہدیدار میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہر جماعتی کارکن میں پیدا ہونا چاہئے۔ جب عہدیداران کے اپنے نمونے قائم ہوں گے تو پھر ہی عہدیدار بھی اپنی خدمات کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ362 اشتہار’’التوائے جلسہ 27دسمبر1893ء‘‘ اشتہار نمبر117مطبوعہ ربوہ)

یعنی قوم کے خادم بنیں گے توپھر بزرگی اور سرداری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ سَیّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ۔ (کنزالعمال فی سنن الاقوال وا لافعال الجزء السادس صفحہ 302 کتاب السفر من قسم الأقوال الفصل الثانی فی آداب السفر، الوداع حدیث: 17513مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت2004ء)

کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ حدیثیں پڑھنے، سنانے اور سننے کا فائدہ تبھی ہے جب اُن پر عمل کرنے کی بھی پوری کوشش ہو۔ عہدیداروں کو اپنا کردار بہر حال بہت بلند رکھنا چاہئے۔ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں لیکن ایک عہدیدار کا کام ہے کہ حوصلے سے کام لے اور کبھی ایسے شخص کے لئے بھی اپنے جذبۂ ہمدردی کو نہ مرنے دے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول 362 اشتہار’’التوائے جلسہ 27دسمبر1893ء‘‘ اشتہار نمبر117مطبوعہ ربوہ)

اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی بھی وضاحت ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے غصہ کو قابو میں رکھے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب حدیث: 6114)

غصہ قابو میں ہو تبھی انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور تبھی ہمدردی کے ساتھ فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ پس یہ معیار ہے جو ہمارے عہدیداران کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ باتیں جو مَیں کہہ رہا ہوں، صرف جرمنی کے عہدیداران کے لئے نہیں ہیں بلکہ میرے مخاطب تمام دنیا کے جماعتی عہدیداران ہیں۔ انگلستان کے بھی، پاکستان کے بھی، ہندوستان کے بھی اور امریکہ اور کینیڈا کے بھی اور آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے بھی اور افریقہ کے بھی۔ یہ وضاحت میں اس لئے کر رہا ہوں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں خطبہ دیا جا رہا ہے وہیں کے لوگوں کی ایسی حالت ہے۔ جبکہ جیسا عام خطبات میں جماعت کا ہر فرد مخاطب ہوتا ہے اسی طرح اگر کسی مخصوص طبقے کے بارے میں بات ہے تو وہ دنیا میں جہاں بھی ہیں وہ سب مخاطب ہیں۔ کیونکہ اب اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعے سے بھی خلیفہ وقت کو اپنی بات پہنچانے کا ایک آسان ذریعہ مہیا فرما دیا ہے اور یہ سہولت مہیا فرما دی ہے۔ اس لئے مختلف جگہوں پر مختلف باتیں ہوتی رہتی ہیں اور مخاطب تمام دنیا کی جماعتیں ہوتی ہیں۔ ہاں یہ یقینا اُس ملک کی سعادت ہے۔ اگر میں جرمنی میں مخاطب ہوں تو جرمنی والوں کی سعادت ہے یا اُن لوگوں کی سعادت ہے جو میرے سامنے بیٹھے ہوں اور براہ راست بات سُن رہے ہوں اور وہ اپنے آپ کو سب سے پہلا مخاطب سمجھیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو شرائطِ بیعت میں نے پڑھی ہیں وہ کسی خاص طبقے کے لئے نہیں یا کسی مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہر احمدی ان کا مخاطب ہے۔ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اپنے آپ کو نظامِ جماعت سے منسلک سمجھتا ہے۔ مَیں نے وضاحت کی خاطر عہدیداروں کے بارے میں بتایا ہے کیونکہ اُن کو جماعت کے سامنے نمونہ ہونا چاہئے۔ اس لئے ان کو اپنی حالتوں کا دوسروں سے بڑھ کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پس یہ کوئی محدود حکم یا شرط نہیں ہے بلکہ افرادِ جماعت کے لئے، سب کے لئے ضروری ہے۔ پس ہمیشہ ان شرائط کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے اس کا پابند رہنے کی کوشش کریں۔ اس کے کیا معیار ہونے چاہئیں؟اس کی مَیں مزید وضاحت کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ہے کہ چوتھی شرط میں ایک احمدی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ کبھی بھی کسی کو اپنے ہاتھ سے یا زبان سے تکلیف نہیں دینی۔ یہ معیار انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے پُر ہو۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں حسدنہ کرو۔ آپس میں نہ جھگڑو۔ آپس میں بُغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنیاں نہ رکھو۔ اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے۔ اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا۔ اُسے ذلیل نہیں کرتا اور اُسے حقیر نہیں جانتا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے‘‘۔ فرمایا ’’کسی آدمی کے شر کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب البروالصلۃوالٓاداب باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ…. حدیث: 6541)

آج آپ دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ جو ظلم ہو رہے ہیں، جو حقوق غصب کئے جا رہے ہیں، جو مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، جو ظلم و بربریت کے بازار ہمیں ہر طرف گرم ہوتے نظر آتے ہیں، اُن کی بنیاد یہی حسد ہے اور تقویٰ میں کمی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے اور انتہا پسندی سے بچے ہوئے ہیں۔ لیکن چھوٹے پیمانے پر ہمارے گھروں میں بھی، ہمارے ماحول میں بھی یہ بیماریاں موجود ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک حقیقت پسندی سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جائزے لے تو خود اُسے نظر آ جائے گا کہ میں آپ کو یہ غلط باتیں نہیں کہہ رہا۔ بھائیوں بھائیوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ افرادِ جماعت میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ عورتوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ اس بات پر حسد شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں کو فلاں خدمت کیوں سپرد ہو گئی ہے؟ میرے سپرد کیوں نہیں ہوئی؟ اگر ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ایک الٰہی جماعت ہے اور یقینا ہے تو پھر بجائے عہدہ کی خواہش رکھنے کے استغفار کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اگر کسی وقت بھی میرے سپرد یہ خدمت ہوئی تو میں اس کو احسن رنگ میں سرانجام دے سکوں۔ عہدہ کی خواہش رکھنے والے کے بارے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو پھر عہدہ ہی نہ دو۔ (صحیح بخاری کتاب الأحکام باب مایکرہ من الحرص علی الامارۃحدیث: 7149)

اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امانتوں کی حفاظت کرو تم اس بارے میں پوچھے جاؤ گے۔ عہدے اور جماعتی خدمت بھی امانتیں ہیں۔ اگر انسان کے دل میں تقویٰ ہو تو وہ ہر وقت خوفزدہ رہے کہ جو خدمت میرے سپرد ہے اُس کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے میری جواب طلبی ہو گی اور کسی بندے کے سامنے جواب طلبی نہیں ہو گی جس کو باتوں میں چَرا کر دھوکہ دیا جا سکتا ہو بلکہ اُس عالم الغیب، علیم و خبیر خدا کے سامنے جواب دہی ہو گی جس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں، جسے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔

پس اگر یہ بات سب عہدیدار بھی سامنے رکھیں اور عہدوں کی خواہش رکھنے والے بھی سامنے رکھیں تو نفسانی خواہشات کے بجائے تقویٰ کی طرف قدم آگے بڑھیں گے۔ پھر یہ تقویٰ کی کمی ہے جو معمولی باتوں پر رنجشوں کو بڑھاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ یہ منصوبہ بندی ہو رہی ہوتی ہے کہ فلاں کو دُکھ کس طرح پہنچایا جائے۔ فلاں کو نظامِ جماعت اور خلیفۂ وقت کے سامنے کس طرح گھٹیا اور ذلیل ثابت کیا جائے یا کم تر ثابت کیا جائے یا اُس کی کوئی کمزوری اُس کے سامنے لائی جائے۔ یہاں تک کہ مجالس میں اُس کے بیوی بچوں کو کس طرح ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ پوراخاندان بعض دفعہ اس میں involve ہو جاتا ہے۔

پس کجا تو اس شرط پر بیعت ہو رہی ہے کہ نہ صرف یہ کہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاؤں گا بلکہ ہمدردی کے راستے تلاش کروں گا۔ فائدہ پہنچانے کی ترکیبیں سوچوں گا اور کجا یہ عمل ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، اس معیار کو حاصل کرنے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ان دنوں میں اپنے یہ جائزے لیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ دن اس راہ کے لئے مہیا فرمائے ہیں۔ مَیں یہ سب باتیں کسی مفروضے پر بنیاد کر کے نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقت میں ایسے معاملے سامنے آتے ہیں جو میرے لئے پریشانی کا موجب ہوتے ہیں، شدید شرمندگی کا باعث بنتے ہیں کہ میں تو دنیا کو یہ بتاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ وہ جماعت ہے جو حقوق کی ادائیگی کی راہیں تلاش کرتی ہے۔ اُس مسیح موعود کو ماننے والی ہے جو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلانے کے لئے اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا اور ہمارے بعض افراد کی کیا حالت ہے۔ اُن کو دیکھ کر غیر کیا کہیں گے کہ تمہارے دعوے کیا ہیں اور تمہارے لوگوں کے عمل کیا ہیں؟

پس اگر ہم نے دنیا میں انقلاب کا ذریعہ بننا ہے تو پھر اپنی زندگیوں میں بھی، اپنی حالتوں میں بھی وہ انقلابی کیفیت طاری کرنی ہو گی جس کی زمانے کے امام نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں ہم سے توقع کی ہے۔

پھر اس حدیث میں ایک نصیحت (باقیوں کو میں چھوڑتا ہوں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ فرمائی ہے کہ ’’ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو‘‘۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ سودے کو خراب کرنے کے لئے، اپنے دلی بُغض اور کینے کا اظہار کرنے کے لئے سودا بگاڑنے کی کوشش نہ کرو۔ اپنے بہتر وسائل اور ذرائع کی وجہ سے سودا خراب کرنے کی نیت سے کسی چیز کی زیادہ قیمت نہ لگا لو۔ بلکہ اس ارشاد میں بڑی وسعت ہے۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مثلاً کسی نے ایک جگہ رشتہ کیا ہے۔ وہ بات چل رہی ہوتی ہے تو اُس پر اور رشتہ لے کر دوسرا فریق پہنچ جاتا ہے۔ ایک تو اگر علم میں ہو تو رشتے پر رشتہ کسی احمدی کو نہیں بھیجنا چاہئے، نہ لڑکی والے کو لے جانا چاہئے، نہ لڑکے والوں کو۔ دوسرے جس لڑکی اور لڑکے کے رشتے کی بات چل رہی ہے اُنہیں بھی اور اُن کے گھر والوں کو بھی پہلے آئے ہوئے رشتے کے بارے میں دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہئے اور بعد میں آنے والے رشتے کو سوچنا بھی نہیں چاہئے، سوائے اس کے کہ دعاؤں کے بعد پہلے رشتے کی دل میں تسلی نہ ہو۔ پھر بعض دفعہ یہ صورتحال بھی بنتی ہے کہ ایک لڑکی کا رشتہ کسی لڑکے سے آیا ہے اور لڑکے یا اُس لڑکی کے گھر والوں سے کسی تیسرے شخص کو رنجش ہے تو لڑکی کے گھر والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں کہ اُس میں فلاں فلاں نقص ہے اور اس سے بہتر رشتہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس کا انکار کر دو۔ اور وہ بہتر رشتہ کبھی پھر بتایا ہی نہیں جاتا۔ اور یوں حسد، کینے، بغض اور تقویٰ میں کمی کی وجہ سے دو گھروں کو برباد کیا جاتا ہے۔ پھر بعض دفعہ لڑکی والوں اور لڑکی کو بدنام کرنے کے لئے اس طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور بیچاری لڑکیوں کو بدنامی کے داغ لگائے جاتے ہیں اور یہ سب حسد کا نتیجہ ہے۔ گویا ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ لڑکیوں پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے رسول کے اس حکم پر عمل کریں کہ اپنے دلوں کو تقویٰ سے پُر کرو۔ ہر معاملے میں تقویٰ کا اظہار اور استعمال کرو اور تقویٰ کا معیار تمہارے لئے وہ اسوہ حسنہ ہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے تمہیں بتا دیا ہے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (سورۃ الاحزاب: 22)۔ یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں اسوہ حسنہ ہے۔ آپ نے صرف مومن کی یہی تعریف نہیں کی کہ اُس کے شر سے مسلمان محفوظ رہے بلکہ فرمایا مومن وہ ہے جس سے دوسرے تمام انسان امن میں رہیں۔ اور آپ وہ ہستی تھے جو ہمدردیٔ خلق میں بھی اپنے نمونے کے لحاظ سے انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ شفقت اور رأفت میں بھی آپ انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ اور کوئی خُلق ایسا نہ تھا جس کی انتہائی حدود کو بھی آپ نے نہ پا لیا ہو۔ پس آج جب ہم اپنے آپ میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو ان نمونوں کی جگالی کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن نصائح کو سننے کی ضرورت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نمونے اور آپ کے حوالے سے ہم تک پہنچیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ جب عرض کیا گیا کس کی خیر خواہی؟ تو آپؐ نے فرمایا اللہ، اُس کی کتاب، اُس کے رسول، مسلمان ائمہ اور اُن کے عوام الناس کی خیر خواہی‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان أن الدین النصیحۃ حدیث: 196)

پس ایک حقیقی مومن کے لئے کوئی راہِ فرار نہیں ہے۔ عوام الناس کی خیر خواہی کے مقام کو بھی اُس مقام تک پہنچا دیا جس کی ادائیگی کے بغیر نہ خدا تعالیٰ کا حق ادا ہو سکتا ہے، نہ اُس کی کتاب کا حق ادا ہو سکتا ہے، نہ اُس کے رسول کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ اس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بیان فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف ایک قسم کی نیکی سے حاصل نہیں ہوتا جبتک کہ تمام قسم کی نیکیوں کو بجا لانے کی کوشش نہ ہو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد2صفحہ680۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر دیکھیں ہمارے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لئے عاجزی کی انتہائی حدوں کو پہنچی ہوئی دعا۔ وہ نبی جو ہر وقت اپنی جان کو دشمنوں کے لئے بھی ہمدردی کے جذبے کے تحت ہلکان کر رہا تھا، جس کا رُواں رُواں اپنوں کے لئے سراپا رحمت و شفقت تھا، اپنے رب کے حضور عاجزی اور بیقراری سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے اللہ! مَیں بُرے اخلاق اور برے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات۔ باب دعاء امّ سلمۃؓ)

پس یہ وہ تقویٰ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ وہ یہاں ہے اور یہ وہ کامل اسوہ ہے جس کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے۔ پس ہمیں کس قدر اس دعا کی ضرورت ہے۔ کس قدر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ کس قدر ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے۔

پھر آپؐ فرماتے ہیں ’’جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی بے چینی اور تکلیفوں کو اُس سے دور کر دے گا اور جس نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اُس کے لئے آسانی مہیا کی، اللہ تعالیٰ آخرت میں اُس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ آخرت میں اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اُس بندے کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو‘‘۔ (مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر حدیث: 6853)

پس کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ میں قیامت کے دن تمام قسم کی بے چینیوں سے پاک رہوں گا۔ کون ہے جو اپنے عمل پر نازاں ہو کہ میں نے بہت نیک اعمال کو کما لیا ہے، بہت نیک عمل کر لئے ہیں۔ پس یہ دنیا تو بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہر دم، ہر لمحہ اس فکر میں ایک مومن کو رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے نیکیوں کی توفیق پاؤں۔ پتہ نہیں کونسی چیز مجھے خدا تعالیٰ کے قریب کر دے۔ میری بخشش کا سامان کر دے۔ کتنا پیارا ہمارا خدا ہے اور کتنا پیارا ہمارا رسول ہے جس نے ہر عمل کے بارے میں کھول کر بتا دیا۔ کسی عمل کو بھی کم اہمیت نہیں دی۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ جو اپنے خدا کو راضی کرنے اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ اُن کی بے چینیوں کو دور فرمائے، تا کہ اللہ تعالیٰ اُن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دوسرے سے ہمدردی اور شفقت کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر مَیں دیکھتاہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے‘‘۔ (ملفو ظات جلد4صفحہ 438-439۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ) (یہ تو بہت بڑی بات ہے کہ خبر گیری کی جائے، اُن کا تو مذاق اُڑایا جاتا ہے، ٹھٹھے کئے جاتے ہیں۔)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑدے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جبتک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ216-217۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی خوبی بیان کرتے ہوئے، مسلمانوں کی خوبی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’قرآنِ شریف نے جس قدر والدین اور اولاد اور دیگر اقارب اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں مَیں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اور کتاب میں لکھے گئے ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا (سورۃالنساء: 37) تم خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ، اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں۔ (اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتے دار آ گئے) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علمِ دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو، جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ208-209)

پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:

’’اُس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو۔ اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو وہ اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ … بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر۔ اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خودنمائی سے اُن کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ11-12)

پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کے افراد کے لئے تعلیم اور دلی کیفیت کا اظہار ہے تا کہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے سامنے ایک پاک نمونہ قائم کرنے والے ہوں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے والے بھی بن جائیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا۔ تم اہلِ زمین پر رحم کرو۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ (سنن الترمذی کتاب البر والصلۃباب ماجاء فی رحمۃ المسلمین حدیثـ: 1924)

پس جب ہم اللہ تعالیٰ کا رحم مانگتے ہیں، اُس سے اُس کی رحمت کے تمام چیزوں پر حاوی ہونے کا واسطہ دے کر اُس سے دعا مانگتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی ہمدردیٔ خلق کے جذبے کو بھی پہلے سے بڑھ کر دکھانا ہو گا، اُس میں بھی وسعت دینی ہو گی۔

پس ان دنوں میں جہاں احمدی اپنی عبادتوں اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے سے خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کرے، وہاں ہمدردیٔ خلق اور رنجشوں کو دور کرنے اور اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دلوں کی کدورتیں اور رنجشیں دور نہ ہوں۔ اصل ہمدردیٔ خلق کا جذبہ تو وہیں ظاہر ہوتا ہے جہاں ہر ایک سے بلا امتیاز اور بلا تخصیص ہمدردی کا جذبہ ہو اور یہی ہمدردی کا جذبہ پھر ایک دوسرے کے لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ اور پھر آپس کی دعاؤں سے تقویٰ کا قیام عمل میں آتا ہے۔ دلوں اور روحوں کی پاکیزگی کے سامان ہوتے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کے نئے معیار قائم ہوتے ہیں۔ پس جس بات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے عہدِ بیعت لیا ہے، یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ ہماری حالتوں میں انقلاب لانے کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بھی ضروری ہے اور معاشرے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانے اور انقلاب لانے کے لئے بھی ضروری ہے۔ پس ان دنوں میں اس جذبے کو بڑھانے اور بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کریں۔ اور دعائیں بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ ہم میں سے ہر ایک جلسہ کی برکات کو سمیٹنے والا ہو۔ ہماری نسلیں بھی احمدیت کے ساتھ مضبوطی سے جڑی رہیں اور ایک روحانی انقلاب اپنی حالتوں میں پیدا کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں اور آئندہ بھی ہمیشہ جماعت کو، جماعت کے افراد کو دشمنوں کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔

ہمدردی کے جذبے کے تحت یہ بھی دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ اُس تباہی سے دنیا کو بچا لے جس کی طرف یہ بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مسلم اُمّۃ کے اور مسلمان حکومتوں کے لئے بھی دعائیں کریں یہ بھی آجکل بڑے ابتلا میں آئی ہوئی ہیں اور اپنے جائزے لینے کی کوشش نہیں کرتیں کہ کس وجہ سے یہ ابتلا میں آئی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔

اسی طرح ایک دو اور باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ نمازوں کی طرف بھی خاص توجہ ان دنوں میں رکھیں۔ صبح فجر کی نماز میں مَیں نے دیکھا تھا لوگ یہاں ہال میں سوئے ہوئے تھے اور نماز بھی ہو گئی تو سوئے رہے تھے۔ حالانکہ تہجد بھی یہاں پڑھی گئی تھی، پھر نماز بھی پڑھی گئی لیکن اُن میں سے بعض جوان بھی تھے، سوئے ہوئے تھے۔ اگر کوئی بیمار بھی ہے تو نماز پڑھنا تو بہر حال ضروری ہے۔ اُٹھ کے نماز پڑھیں اور پھر سوئیں۔ لیکن یہ نمونہ آئندہ یہاں ہال میں قائم نہیں ہونا چاہئے۔ انتظامیہ کو بھی یہ دیکھنا چاہئے۔ شعبہ تربیت جو ہے اُن کو ہر ایک کو جگانا چاہئے۔

اسی طرح مَیں نے کل کارکنان کو کہا تھا، سب کو کہتا ہوں کہ سیکیورٹی پر نظر رکھنا۔ یہ نہ سمجھیں کہ ہم ایک ہال میں بند ہیں تو بڑے اچھے سیکیورٹی کے انتظامات ہیں۔ بیشک ہیں لیکن تب بھی ہر ایک کو اپنے ماحول پر دائیں بائیں نظر رکھنی چاہئے۔ کسی قسم کی شرارت سے اللہ تعالیٰ ہر ایک کو محفوظ رکھے۔

دوسرے اب جمعہ کے بعد، نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ سیدۃ امۃ اللہ بیگم صاحبہ کا ہے جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی بیٹی تھیں، جن کی کل بانوے سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت سیدۃ چھوٹی آپا ام متین صاحبہ سے چھوٹی تھیں۔ دوسرے نمبر پر تھیں اور میٹرک کی تعلیم کے بعد دینیات کلاس پاس کی۔ یہ مکرم پیر صلاح الدین صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں جو حکومت نے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر رہے یا بہر حال بڑے سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ 1943ء سے لے کر 44ء تک ملتان کی لجنہ کی صدر کے طور پر خدمات کی توفیق ملی۔ پارٹیشن کے فوراً بعد راولپنڈی میں سیکرٹری مال اور دیگر جماعتی عہدوں پر فائز رہیں۔ 1971ء میں آپ کو اپنے خاوند کے ساتھ حج کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اور ان کی یہ خوبی جو تھی جو ہر ایک نے ان کے بارے میں لکھی ہے، وہ یہ تھی کہ گو انہوں نے بعض حادثات بھی دیکھے۔ ایک جوان بیٹے کی موت بھی ہوئی۔ خاوند کی موت کے بعد جوان بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں کہ اچانک اُس کی وفات ہوگئی۔ لیکن ہمیشہ صبر سے کام لیا۔ انہوں نے کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بہت دعا گو اور عبادت گزار تھیں۔ بچوں کو اکثر یہ نصیحت کرتی تھیں کہ عبادت کی طرف توجہ کرو اور نماز کو نہ چھوڑو۔ صدقہ خیرات بہت کرتی تھیں۔ بعض خواتین کے باقاعدہ وظیفے لگائے ہوئے تھے۔ اسی طرح مطالعہ کا بھی بڑا شوق تھا۔ صلہ رحمی اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک میں بے مثال تھیں۔ اپنے خاندان کے ساتھ، سسرال کے ساتھ جن میں سے بہت سے غیر احمدی تھے، بہت عزت سے پیش آتی تھیں۔ سسرال والے بھی آپ کی نصائح اور باتوں کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ اسی طرح قرآنِ کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ جہاں بھی آپ رہی ہیں وہاں قرآنِ کریم بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔ قرآنِ کریم پڑھانے سے قبل پوری تیاری کیا کرتی تھیں۔ اُس کے نوٹس لیا کرتی تھیں اور اپنے بچوں کو اکثر تکبر سے بچنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ جو رشتے دار کم تعلیم یافتہ ہیں ان کے بارے میں کہا کرتی تھیں کہ ان کے ساتھ کبھی تکبر سے پیش نہ آؤ۔ اور فرماتی تھیں کہ بوریا نشینوں کے ساتھ بوریا نشین ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی خلافت سے وابستہ رکھے، جماعت سے وابستہ رکھے اور نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے۔

امیر صاحب کی رپورٹ کے مطابق تو آواز اچھی رہی۔ لجنہ میں بھی اچھی رہی اور مَردوں میں بھی بہت اچھی رہی لیکن پتہ نہیں echoکیوں واپس آ رہی تھی۔ دوبارہ میرے الفاظ واپس آ رہے تھے۔ بہرحال اگر اچھی رہی تو الحمد للہ اور اگر بہتری کی ضرورت ہے تو مزید بہتری کریں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • یکم جون 2012ء شہ سرخیاں

    ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسہ کے مقاصد بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں عبادتوں، تبلیغ، تقویٰ اور بہت سے دوسرے مقاصد کی طرف توجہ دلائی ہے، وہاں خاص طور پر بندوں کے حقوق اور اُن میں سے پھر ہمدردیٔ خلق کی طرف خاص طور پر بہت کچھ کہا ہے۔ پس اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    نہ کسی کو اپنی نمازوں پر خوش ہونا چاہئے، نہ کسی کو اپنی جماعتی خدمات پر خوش ہونا چاہئے، نہ کسی کو کوئی  خاص عہدہ ملنے پر خوش ہونا چاہئے، نہ کسی کو کسی مالی قربانی پر خوش ہونا چاہئے جبتک کہ عاجزی،  انکساری اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی اُس میں نہ ہو۔

    ایک احمدی مسلمان سے نہ صرف احمدی مسلمان بلکہ ہر مسلمان، ہر قسم کی ناجائز تکلیف سے محفوظ ہونا چاہئے  اور نہ صرف مسلمان بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا محفوظ رہنا ضروری ہے۔

    جماعت کے عہدے دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے، بلکہ اس جذبے کے تحت ہونے چاہئیں کہ ہم نے  ایک پوزیشن میں آ کر پہلے سے بڑھ کر افرادِ جماعت کی خدمت کرنی ہے اور اُن سے ہمدردی کرنی ہے  اور اُن کی بہتری کی راہیں تلاش کرنی ہیں، اور اُنہیں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے تا کہ جماعت کے مضبوط بندھن قائم ہوں اور جماعت کی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو۔

    یہ باتیں جو مَیں کہہ رہا ہوں، صرف جرمنی کے عہدیداران کے لئے نہیں ہیں بلکہ میرے مخاطب  تمام دنیا کے جماعتی عہدیداران ہیں۔ انگلستان کے بھی، پاکستان کے بھی، ہندوستان کے بھی  اور امریکہ اور کینیڈا کے بھی اور آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے بھی اور افریقہ کے بھی۔

    اگر ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ایک الٰہی جماعت ہے اور یقینا ہے  تو پھر بجائے عہدہ کی خواہش رکھنے کے استغفار کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

    اگر ہم نے دنیا میں انقلاب کا ذریعہ بننا ہے تو پھر اپنی زندگیوں میں بھی، اپنی حالتوں میں بھی وہ انقلابی کیفیت طاری کرنی ہو گی جس کی زمانے کے امام نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں ہم سے توقع کی ہے۔

    ان دنوں میں جہاں احمدی اپنی عبادتوں اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے سے خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے کی  کوشش کرے، وہاں ہمدردیٔ خلق اور رنجشوں کو دور کرنے اور اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی  توجہ کرنی چاہئے۔ خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی  کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دلوں کی کدورتیں اور رنجشیں دور نہ ہوں۔

    مکرمہ سیدۃ امۃ اللہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی وفات،  مرحومہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ یکم جون 2012ء بمطابق یکم احسان 1391 ہجری شمسی،  بمقام کالسروئے (Karlsruhe) جرمنی

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور