ہالینڈ اور جرمنی کا کامیاب دورہ

خطبہ جمعہ 8؍ جون 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آپ کی جماعت کی ترقی کے جو وعدے ہیں وہ ہر احمدی بلکہ مخالفین احمدیت بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں وہاں احمدی نظر آتے ہیں۔ چاہے چند ایک ہی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے لئے وعدہ فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 454 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

’’اس حصہ آیت کا آپ کا اور الہام بھی تھا۔ آپ نے اس کی وضاحت براہین احمدیہ میں یوں فرمائی ہے کہ ’’اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں، یعنی حقیقی طور پر اللہ اور رسول کے متبعین میں شامل ہو جائیں، اُن کو اُن کے مخالفین پر کہ جو انکاری ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ یعنی وہ لوگ حجت اور دلیل کے رو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 620-621بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

یہ پہلا حصہ جومَیں نے پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے وعدہ فرمایا ہے یہ بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اور خدا کے وعدے سچے ہیں۔ ابھی تو تخم ریزی ہو رہی ہے‘‘۔ (یہ ارشاد آپ کا اکتوبر 1902ء کا ہے، جب آپ نے فرمایا کہ ابھی تو تخم ریزی ہو رہی ہے) فرمایا ’’ہمارے مخالف کیا چاہتے ہیں؟ اور خدا تعالیٰ کا کیا منشاء ہے۔ یہ تو اُن کو ابھی معلوم ہو سکتا ہے اگر وہ غور کریں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے منشاء کو معلوم کرنا چاہتے ہیں تو غور کریں تو فوری طور پر ہر ایک کومعلوم ہو سکتا ہے۔ فرمایا ’’اگر وہ غور کریں کہ وہ اپنے ہر قسم کے منصوبوں اور چالوں میں ناکام و نامراد رہتے ہیں‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں۔ ’’اگر یہ مخالف نہ ہوتے تو ایسی اعجازی ترقی یہاں بھی نہ ہوتی۔ یعنی اس ترقی میں اعجازی رنگ نہ رہتا۔ کیونکہ اعجاز تو مقابلہ اور مخالفت سے ہی چمکتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’ایک طرف تو ہمارے مخالفوں کی یہ کوششیں ہیں کہ وہ ہم کو نابود کر دیں۔ ہمارا سلام تک نہیں لیتے اور غائبانہ ذکر بھی نفرت سے کرتے ہیں‘‘۔ بلکہ اب تو ان نفرتوں کی انتہا ہو چکی ہے۔ اور دریدہ دہنی اور مغلظات کی کھلے عام یہ تمام حدود پھلانگ چکے ہیں۔ بہر حال یہ مخالفین کا کام ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’دوسری طرف اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طریق پر اس جماعت کو بڑھا رہا ہے۔ یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’کیا یہ ہمارا فعل ہے یا ہماری جماعت کا؟ نہیں، یہ خدا تعالیٰ کا ایک فعل ہے جس کی تہ اور سِرّ کوکوئی نہیں جان سکتا‘‘۔ فرمایا ’’یہ خدا کا کام ہے اور اُس کی باتیں عجیب ہوتی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ نمبر 454۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس خدا تعالیٰ کی اس عجیب تائید و نصرت کے نظارے ہم روز دیکھتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ سعید فطرت لوگ جماعت میں داخل ہو رہے ہیں، روزانہ جماعت کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جماعت کے نفوس میں بھی برکت پڑ رہی ہے اور اموال میں بھی برکت پڑ رہی ہے۔ اور یہ چیز مخالفینِ احمدیت کو حسد کی آگ میں اور زیادہ جلاتی چلی جا رہی ہے۔ ہر روز پاکستان سے یہی خبریں آتی ہیں۔ نفرتوں اور کینوں اور بغضوں اور حسدنے اس حد تک اندھا کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصاویر کو بگاڑ کر پیش کیاجاتا ہے۔ گالیاں اُس پر لکھی جاتی ہیں۔ پاؤں کے نیچے روندا جاتا ہے۔ ایک بدبخت نے اپنی دکان کے دروازے پر پائیدان پر یہ تصویر رکھ دی کہ جوآئے وہ پاؤں رکھ کر آئے۔ بہر حال یہ تو ان کے کام ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ انتظامیہ میں سے بھی بعض شریف النفس لوگ ایسے ہیں جن کو کھڑا کر دیتا ہے اور اُن میں سے اس موقع پر بھی ایک شخص نے، انتظامی افسر نے سختی کی اور آپ کی تصویر وہاں سے اُٹھوائی۔ لیکن ان مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کی تائید و نصرت فرماتا ہے اور اُس کی غیرت بھی رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت اپنے پیارے کے ساتھ خبیث فطرتوں کے اس سلوک کا بدلہ لے گی اور ضرور لے گی۔ یقینا یہ لوگ بھی اور ان کے سردار بھی عبرت کا سامان بنیں گے اور یہ لوگ ایک وقت آئے گا نہ صرف تصویریں بلکہ یہ لوگ خود اس سے بڑھ کر روندھے جائیں گے۔ احمدی تو صبر اور دعا سے کام لے رہے ہیں اور یہی ہماری تعلیم ہے۔ جو بھی انہوں نے کرنا ہے، اپنے زعم میں ہمارے دلوں کو چھلنی کرنے کے لئے جو بھی طریقے استعمال کرنے ہیں یہ کر لیں، ہم تو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے، نہ لیتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا، صبر اور دعا سے کام لیتے ہیں۔ اور لیتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور یہی ایک احمدی کی شان ہے۔ پس اس شان کو دنیا کے ہر احمدی کو اور خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو نکھارتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔ اپنی دعاؤں میں بہت زیادہ شدت پیداکریں کہ یہی ہمارے ہتھیار ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور ہتھیار ہمارے کام نہیں آ سکتا۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بھی کیا جائے وہ بھی کیا جائے۔ اپنی دعاؤں کی تو پہلے انتہا کریں۔ بہر حال مَیں جماعت کی ترقی کے بارے میں بات کر رہا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ تائید و نصرت فرماتا ہے اور کس طرح سعید فطرت لوگوں میں ایک انقلاب آ رہا ہے۔ جن کو اسلام سے ذرا بھی محبت ہے، جن کو دین سے ذرا بھی لگاؤ ہے وہ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی رہنمائی فرماتا ہے۔ لیکن دنیا دار جن کو مذہب سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے، جن میں سے بعض خدا کے وجود پر بھی یقین نہیں کرتے وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ ایسی جماعت ہے جن کے قدم ہر آن ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ تم جو اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہو، یہ تعلیم تو لگتا ہے ایک دن دنیا پر غالب آ جائے گی۔

پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ خدا کا فعل ہے اور یہ اُس کا کام ہے کہ عجیب عجیب باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ افرادِ جماعت اللہ تعالیٰ کی خاطر جماعت کے کام میں انگلی لگاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہزاروں ہاتھوں کے کام جتنے اُس کے نتائج پیدا فرما دیتا ہے۔ اور یہی چیز ہے جو دشمن کو حسد کی آگ میں اور زیادہ جلاتی ہے۔ پس ان لوگوں کو یہ حسد ہمارے سے نہیں، یہ خدا تعالیٰ کے فعل سے ہے جو ایسے نتائج فرماتا ہے جو جماعت کی تائیدات کے لئے واضح اور بین ثبوت ہیں۔ پس ان دشمنوں کو، مخالفین کوبھی مَیں کہتا ہوں، کہ تمہارا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے خوف کرو اور خدا سے ڈرو۔ پھر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرنے والوں کی خاک کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ ہم تو اس حسد کے نتیجے میں جو دشمنوں کا، مخالفین کا ہمارے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہر آن نازل ہوتی دیکھتے ہیں۔ اور یہ لوگ جو ہیں مسلمان کہلانے کے باوجود یہ سوچتے نہیں کہ جماعت احمدیہ کے ہر کام کا نتیجہ تو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے غیروں پر ظاہر ہونے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ پس یہ نام نہاد علماء اسلام سے محبت کرنے والے نہیں۔ صرف اپنے بندوں سے محبت کرنے والے ہیں اور اپنے مفادات کو چاہنے والے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ غیروں پر بھی ہماری باتوں کا اللہ تعالیٰ نیک اثر ظاہر فرماتا ہے جس کا اظہار یہ لوگ برملا ہمارے پروگراموں میں شامل ہو کر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی مَیں مختلف ممالک کے دوروں پر گیا ہوں اور جماعتوں کے دوروں پر جاتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کے ذریعے اسلام کی نئی شان غیروں پر ظاہر ہوتے دیکھتا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں بھی مَیں ہالینڈ اور جرمنی کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے گیا ہوا تھا، جن میں شامل ہو کر جہاں افرادِ جماعت سے ملنے اور اُنہیں کچھ کہنے کا موقع ملا وہاں غیروں کے ساتھ بھی کچھ پروگرام ہوئے، اور ان پروگراموں کا اُن غیروں پر بھی نیک اثر قائم ہوا۔ پھر وہ غیر جو جلسہ دیکھنے کے لئے اپنے دوستوں کے کہنے سے شامل ہو جاتے ہیں، اُن پر بھی جماعت کی تعلیم اور نظام کا بہت اثر ہوتا ہے۔ عموماً اپنی روایت کے مطابق سفر کے بعد میں مختصراً سفر کے حالات سناتا ہوں اور جلسوں کے انتظامی معاملات کے بارے میں بھی کچھ کہتا ہوں۔ سو آج پہلے مَیں اپنی بات غیروں کے پروگرام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہے، یہ اُس کی چند جھلکیاں ہیں جن کو مَیں نے اس سفر میں دیکھا۔

جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ہالینڈکے جلسے میں بھی شمولیت کی۔ کافی سالوں کے بعد ان کے جلسے میں میں نے شمولیت کی ہے۔ یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے، سفر پر روانہ ہونے سے پہلے امیر صاحب ہالینڈ کا، اُن کے جلسے میں شمولیت کے لئے خط آیا تھا کہ آپ آ رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہاں کے مقامی ڈچ لوگوں کے ساتھ بھی ایک تقریب ہو جائے۔ پہلے تو مَیں نے انکار کر دیا۔ اس کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مجھے خیال تھا کہ جماعت کے افراد کے پڑھے لکھے اور سنجیدہ طبقے سے اتنے زیادہ رابطے نہیں ہیں۔ پھر چند دن کے بعد مجھے خود ہی خیال آیا کہ یہ علاقہ جہاں ہمارا سینٹر ہے اور جہاں جلسہ منعقد ہونا ہے، یہ اُس دشمنِ اسلام کے علاقے میں ہے جو آئے دن اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیہودہ گوئی کرتا رہتا ہے۔ اور یہ بڑا اچھا موقع ہے اگر اس علاقے میں سے کچھ سیاستدان اور پڑھے لکھے لوگ، اخباری نمائندے ہمارے فنکشن میں شامل ہو جائیں۔ میرا خیال تھا کہ جماعت چھوٹی سی ہے اس لحاظ سے پندرہ بیس لوگوں کو تو یہ شامل کر ہی لیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سوا سو سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوئے جن میں علاقے کے ممبر آف پارلیمنٹ بھی تھے، شہر کے میئر بھی تھے، سیاستدان بھی تھے، پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور حیران کن طور پر علاوہ چھوٹے اخباروں کے نیشنل اخبار کے نمائندے بھی تھے۔ ان کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے چند پہلو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور قرآن کریم کی تعلیم کے حوالے سے پیش کئے۔ کیونکہ یہ جو وہاں کا اعتراض کرنے والا سیاستدان ہے ان چیزوں پر ہی وہ اعتراض کرتا ہے۔ وہاں کے میئر نے اور ایم پی نے بھی مختصر خطاب کیا اور مذہبی روا داری اور برداشت کی باتیں کیں۔ بعد میں جیسا کہ میں نے کہا، جب میں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ پیش کیا تو ایم پی نے جو بعد میں مجھ سے باتیں کیں، اُس نے اسلام کی خوبصورت تعلیم سے کافی متاثر ہو کر اس کا ذکر کیا۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ میرے خیال میں ہالینڈ جماعت کے سیاستدانوں سے رابطے نہیں۔ ایم پی کی باتوں سے اس بات کا بھی اظہار ہوا اور تصدیق ہو گئی۔ کہنے لگے آپ لوگ سیاستدانوں اور پڑھے لکھے طبقے سے زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہیں۔ اُن کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں اور پھر اخباروں اور ویب سائٹس پر بھی اس کا ذکر کریں۔ اس طرح انہوں نے نام لئے بغیر یہ اشارہ کیا کہ اگر یہ کارروائی آپ لوگ کریں گے تو وِلڈر (Wilder) جیسے اسلام دشمن لوگوں کے بھی منہ بند ہو جائیں گے اور عوام الناس کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پتہ چلے گا۔

پس دیکھیں یہاں بھی کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ پورے ہو رہے ہیں کہ خدا کے کام بھی عجیب ہیں۔ یہ خدا کا فعل ہے کہ ایک شخص جو عیسائی ہے، اسلام کی خوبصورت تعلیم اپنے ہم وطنوں کو بتانے کے طریقے بتا رہا ہے۔

پھر اس شریف النفس ایم پی نے جو بڑے پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، بہت لمبے عرصے سے ممبر آف پارلیمنٹ چلے آ رہے ہیں، اپنی ویب سائٹ پر بھی میری اور اپنی تصویر کے ساتھ اس فنکشن اور میٹنگ کی تفصیل بیان کی، جو بعد میں ان سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی اُس کی بھی تفصیل انہوں نے لکھی اور اس بارے میں مجھے کہہ کر گئے تھے کہ مَیں یہ سب دوں گا تا کہ اسلام کے بارے میں ہمارے ہم وطنوں کی غلط فہمیاں دور ہوں اور جو بعض مفاد پرست لوگ اور سیاستدان اور اسلام دشمن ملک میں یہ نفرتیں پھیلا رہے ہیں، وہ دور ہوں۔ پھر اخبارات نے بھی بڑے اچھے انداز میں اس فنکشن کی تفصیلات اور جو کچھ میں نے کہا تھا، وہ لکھیں۔ وہاں ملک کے دو بڑے نیشنل اخبارات کے نمائندے آئے ہوئے تھے۔ ایک نے تو میرے سے چند منٹ کا انٹرویو بھی لیا۔ وہاں جب وہ نمائندہ اخبار کا اپنے سوال ختم کر چکا، تو مَیں نے اُسے کہا کہ میرے پاس بھی ایک سوال ہے۔ یا میرے سوال یہ ہیں کہ یہ علاقہ جس میں نن سپیٹ ہے، ہمارا سینٹر، مرکز ہے۔ ہالینڈ میں یہ علاقہ بائبل بیلٹ کہلاتا ہے۔ دین کا علم رکھنے والے یہ لوگ ہیں۔ باقی ہالینڈ کی نسبت زیادہ تعداد چرچ جانے والوں کی ہے۔ حضرت عیسیٰ کی آمد اور آمدِ ثانی کے بھی تم لوگ منتظر ہو، اُس کی نشانیاں بھی تم لوگوں کے مطابق کچھ نہ کچھ ہیں اور تمہارے مطابق یہ وقت آ چکا ہے بلکہ گزر گیا ہے۔ تو حضرت عیسیٰ تو نہیں آئے، جو آیا ہے جس کو ہم مسیح موعود مانتے ہیں، اب اس کی آمد پر غور کرو۔ میری اس بات پر اُس کے چہرے پر ذرا سرخی آئی لیکن مسکرا کر چپ ہو گیا۔ اُس نے کچھ کہا نہیں۔ اس بات کے بعد میرا خیال تھا کہ وہ شاید ہمارے فنکشن کے بارے میں خبر نہ لگائے اور اگر لگائے گا بھی تو شاید صحیح حقائق پیش نہ کرے۔ لیکن اگلے دن میرے لئے بھی اور وہاں کی جماعت کے لئے بھی یہ بات حیران کن تھی کہ نہ صرف اُس نے خبر لگائی بلکہ اخبار کے پہلے صفحے پر، پورے پہلے صفحے پر میری تصویر بھی دے دی اور اندر بھی تقریباً ڈیڑھ صفحہ کی اس فنکشن کی خبر، تصویروں کے ساتھ شائع کی۔ اور جلسے کے حوالے سے بڑی تفصیلی باتیں کیں۔ اسلام کی تعلیم کے حوالے سے خبر دی۔ یہ اخبار وہاں کا نیشنل اخبار ہے جو لاکھوں کی تعداد میں پڑھا جاتا ہے۔ پس اس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم اس ملک کے لوگوں میں بھی پہنچی۔

اس طرح جیسا کہ مَیں نے کہا ایک اور نیشنل اخبار ہے اُس نے بھی خبر دی۔ لوکل اخباروں نے بھی کوریج دی۔ ان کے چند حصے میں پیش کر دیتا ہوں۔ جو پہلا اخبار ہے ہالینڈ کا نیشنل اخبارداگ بلاد Dagblad اس کا نام ہے، اُس نے پہلے تو یہ خبر شائع کی کہ ’’امن لانے والا خلیفہ‘‘۔ اور اس کے بعد پھر میرے حوالے سے لکھا کہ حضرت عیسیٰ کی واپسی کے متعلق جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ وفات پا چکے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے۔ حضرت مرزا غلام احمد کی آمد ہی عیسیٰ کی آمدِ ثانی ہے۔ پھر کافی لمبی تفصیل، مختصر چند فقرے میں پڑھ دیتا ہوں۔ پھر اُس نے لکھا کہ جماعت دنیا میں اپنی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں پھیل رہی ہے۔ احمدیوں کے بیانات میں کبھی بھی شدت آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ مغربی ممالک میں جماعت کے قیام کی وجہ صرف مشنریز کے ذریعے ہی نہیں بلکہ اپنے آبائی وطنوں میں پیش آنے والے مسائل بھی ہیں۔ اور پھر اُس نے پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے احمدیوں کا ذکر کیا۔ پھر لکھتا ہے کہ افرادِ جماعت کا جماعت کے ساتھ اور آپس میں ایک بہت گہرا تعلق ہے۔ پھر اُس نے جلسہ کی بڑی تفصیلی خبریں دیں۔ پھر یہ میرے حوالے سے لکھتا ہے کہ مَیں نے کیا کہا۔ ’’انہوں نے حاضرین کا دلی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس بات کے باوجود کہ ہالینڈ میں ایک گروہ ہے جو اسلام کے بارے میں بہت ہی نازیبا باتیں کرتا ہے اور پراپیگنڈہ کرتا ہے لیکن پھر بھی آپ لوگوں نے خود یہاں آکر اسلام کے بارے میں جاننے کا فیصلہ کیا۔ اصل حقیقت عزت کرنا اور امن قائم کرنا ہے‘‘۔ پھر یہ لکھتا ہے انہوں نے کہا (میرے حوالے سے) کہ ’’مَیں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم کبھی بھی بدلہ لینے کا رجحان نہیں رکھتے۔ ہاں کچھ مسلمان گروہ ایسے ہیں جو اس قسم کے شدت آمیز خیالات رکھتے ہیں‘‘۔ خلیفہ کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے اور ان مسلمانوں کا یہ عمل مکمل طور پر غلط ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بالکل برخلاف ہے۔ پھر لکھتا ہے خلیفہ نے بتایا کہ ’’ان کو ہالینڈ میں ایک دوسرے کے لئے کم ہوتی respect پر تشویش ہے۔ خاص طور پر اگر ایسے لوگ حکومت میں آ جائیں جو دوسروں کے لئے عزت نہ رکھتے ہوں توپھر مسائل اَور کھڑے ہوں گے‘‘۔ یہ ایک اخبار کی رپورٹ تھی۔

وہاں دوسرا نیشنل اخبار ہے، تراؤ (Trouw)۔ اُس نے بھی یہی سرخی جمائی کہ خلیفہ آئے اور انتہا پسندی کی مذمت کی۔ پھر میرے حوالے سے لکھتا ہے اور بڑا موٹا اُس نے لکھا کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الزام نہ دیں‘‘ (اس دہشتگردی اور شدت پسندی کا)۔ پھر لکھا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کی رو سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود ہیں۔ اُن کے پیروکار اُنہیں عیسیٰ کی آمد ثانی کے مظہر مانتے ہیں۔ احمدی کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد عیسیٰ کی خصوصیات لئے ہوئے ہیں۔ اس طرح اسلام کا پیغام بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بھی ان لوگوں کے سامنے بڑے کھلے طور پر، واضح طور پر بیان ہو گیا۔ یہ تفصیلی خبریں ہیں۔ پس یہ دیکھیں خدا تعالیٰ کے کام۔ ایک طرف تو وِلڈر جو اسلام دشمنی میں بڑھا ہوا ہے، دنیا میں اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنی کتاب کی رونمائی کرتا پھر رہا ہے اور اس کے ملک میں اور نہ صرف ملک میں بلکہ اس کے اپنے علاقے میں، جہاں سے یہ ایم پی بنا ہوا ہے، جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت امن پسند تعلیم کے بیان سے غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں۔ جہاں تک میری اطلاع ہے اُس کی کتاب کو تو کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن اُس کے اپنے ملک میں اخبارات اور ایم پی کی ویب سائٹ کے ذریعے سے لاکھوں لوگوں تک اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم پہنچی ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہالینڈ کی جماعت کو بھی اس قدر کوریج کی امیدنہ تھی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن شکرانے کے طور پر ہمارا بھی کام ہے۔ اب ہالینڈ کی جماعت کو اپنے رابطوں کو مزید بڑھانا چاہئے، ان کو وسعت دینی چاہئے۔ اور جو بھی غلط فہمیاں اسلام کے خلاف پیدا کی گئی ہیں، اُنہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور وِلڈر کے جھوٹ اور کینہ کو کھول کر اُس کے ہم وطنوں کے سامنے رکھنا چاہئے۔

آج اسلام کا دفاع اور غیروں پر دلائل کے ساتھ بھر پور حملہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ کر سکتی ہے۔

اس فنکشن میں شامل ہونے والے مہمانوں کے عمومی تاثرات بھی بہت اچھے تھے۔ ہمارے ایک مبلغ جو ناروے سے وہاں گئے ہوئے تھے، اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اسلام کی یہ باتیں تو ہم اور بھی سننا چاہتے ہیں، آپ کے خلیفہ نے تو جلدی اپنا خطاب ختم کر دیا۔ ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ جو تعلیم آپ دے رہے ہیں، عیسائیت کو تو یہ تعلیم دینے کا بہت دیر سے خیال آیا تھا۔ بلکہ کہنے لگا کہ دو ہزار سال کے بعد خیال آیا تھا۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ عیسائی بھی ایک لمبا عرصہ مختلف فرقے آپس میں لڑتے رہے ہیں اور جنگیں بھی ہوتی رہیں، فساد بھی ہوتے رہے۔ اب آ کر مختلف فرقوں میں اور ملکوں میں امن قائم ہوا ہے۔ لیکن آپ نے تو امن کے لئے بہت جلد یہ کوششیں شروع کر دی ہیں اور دنیا کو بتانا شروع کر دیا ہے۔ بہر حال اُس نے اپنی نظر سے دیکھا۔ اُس کو یہ تو پتہ ہی نہیں کہ ہم نے آج سے نہیں شروع کیا بلکہ یہ تعلیم تو چودہ سو سال پہلے سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے، اُس وقت ہی اس کی بنیادیں قائم ہو چکی ہیں۔ بہر حال اسلام کی غلط تصویر جو ان لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اس فنکشن سے اُس کا اثر زائل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ آگے بھی اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے اور یہ قوم اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آ جائے۔ لیکن اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا افراد جماعت کو بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

ہالینڈ کے بعد پھر جرمنی کا بھی جلسہ ہوا۔ یہ بھی آپ لوگوں نے ایم ٹی اے پر دیکھ لیا۔ جرمنی میں جہاں جلسہ کی مصروفیات ہوتی ہیں وہاں جماعت ہر دورے پر مسجدوں کے افتتاح یا سنگِ بنیاد میں بھی مصروف رکھتی ہے۔ اس دورے میں بھی ایک مسجد کا افتتاح ہوا اور تین کا سنگِ بنیا د رکھا گیا۔ عموماً بنیاد رکھنے کے بعد ایک سال کے اندر مسجد کی تعمیر ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جرمنی کی جماعت کی یہ توفیق بھی بڑھاتا چلا جائے۔ اب جو مسجدوں کے افتتاح اور سنگِ بنیاد کے موقع پر وہاں جماعت میں ایک اچھی چیز پیدا ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر فنکشن میں مقامی لوگ، جن میں پڑھا لکھا طبقہ بھی ہوتا ہے، اسی طرح میئر یا ڈپٹی میئر یا سیاستدان اور افسران وغیرہ اُن کو بھی بلاتے ہیں۔ پہلے یہ چیز وہاں نہیں تھی، یہاں تو خیر جو بھی مسجدیں بنتی ہیں ہوتا ہی ہے۔ لیکن جرمنی میں پہلے اس طرح نہیں تھا۔ بہر حال اب ان کو یہ توجہ پیدا ہوئی ہے، اور یہ جماعت احمدیہ کے تعارف کے لئے اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے کے لئے اور تبلیغ کے لئے بڑی اہم چیز ہے۔ ہمارا اصلی کام اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ دنیا کو حق کی طرف آواز دینا ہے۔ پس مساجد کی تعمیر کے ساتھ تبلیغ میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے اور میں ہمیشہ افرادِ جماعت کو یہ کہا کرتا ہوں کہ اس تعارف اور تبلیغ کی وسعت کے ساتھ اُن کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اپنی حالتوں کو اسلامی نمونے کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

اس دفعہ جماعت کے تعارف کی وجہ سے وہاں جو مزید تعلقات پیدا ہو رہے ہیں، ایک ادارہ جس میں فوجی افسران کی خاص طور پر اخلاقی، سیاسی اور قانونی بنیادوں پر تشکیل اور تربیت کے پروگرام بنائے جاتے ہیں، اُس میں بھی جانے کا موقع ملا۔ اسی طرح ان لوگوں کا جو کام ہے، جرمن معاشرے میں ان کا کیا کردار ہونا چاہئے، پھر یہ لوگ دنیا کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کرتے ہیں، بین الاقوامی ثقافت اور مذہب کے بارے میں بھی وہاں معلومات ہوتی ہیں، اُس کے لئے وہاں لیکچر دئیے جاتے ہیں سیمینارز ہوتے ہیں۔ اسی طرح سول انتظامیہ بھی، افسران وغیرہ پروگراموں میں ان کے ساتھ شامل ہوتی ہے۔ تو اس میں بھی وہاں پروگرام ترتیب دیا گیا تھا، جس میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ ان پروگراموں میں لیکچروں کے لئے بیرونی شخصیات کو بلایا جاتا ہے۔ قانون دان بھی آتے ہیں، مختلف مذاہب کے لوگ بھی آتے ہیں، اور مختلف قسم کے مضامین کے ماہرین بھی آتے ہیں۔ جرمنی کی مسلمانوں کی مرکزی تنظیم کے سربراہ ایمان مازک صاحب ان کو بھی یہاں بلایا گیا تھا انہوں نے وہاں لیکچر دیا تھا۔ تو جب مجھے بھی انہوں نے لیکچر دینے کا کہا، کچھ تھوڑا سا مختصر خطاب کرنے کا کہا، تو مَیں نے وہاں ملک سے وفاداری کی اسلامی تعلیم پر ایک مختصر تقریر کی، اس کے بعد دس پندرہ منٹ کے لئے سوال جواب بھی ہوئے۔ یہاں علاوہ اعلیٰ فوجی افسروں کے شہر کے میئر اور پڑھا لکھا طبقہ عیسائی پادری اور یہودی وغیرہ بھی شامل تھے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لیکچر کا اچھا اثر ہوا۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم اُن لوگوں تک پہنچی۔ جرمنی کے ہماری جماعت کے سیکرٹری خارجہ داؤد مجوکہ صاحب، انہوں نے مجھے بعد میں ایک دو تبصرے بھجوائے کہ ایک شخص نے کہا کہ مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ کوئی شخص دنیا کو درپیش مسائل کا حل اس طرح آسان طریق پر سمجھا سکتا ہے۔ تو یہ تو اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے جس کو صحیح طرح بیان کیا جائے تو ہر ایک کو سمجھ آ جاتی ہے۔ پھر ایک نے کہا کہ آپ کے خلیفہ کی تقریر نے کئی باتیں واضح کر دیں۔ آپ کا اسلام کے متعلق جو تصور ہے اُس کے پیشِ نظر مسلمانوں کی انٹیگریشن ضرور ممکن ہے۔ (یہ سوال آجکل یورپ میں ہر جگہ اُٹھتا ہے کہ مسلمان ہمارے درمیان انٹیگریٹ نہیں ہو سکتے۔ ہمارے اندر، ان کی ایک علیحدگی ہے) تو یہ سننے کے بعد کہتا ہے، یہ تو بالکل غلط تصور ہے جو لوگوں میں، مغربی معاشرے میں پیدا ہو گیا ہے۔ اسی طرح بعض نے اسلام کی خوبصورت تعلیم پر حیرت کا اظہار کیا۔

پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ماننے والوں کا ہی کام ہے کہ اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کرائیں۔ اکثر افسران نے مجھے بھی اور ہمارے ساتھیوں کو بھی کہا کہ اس تقریر کو تحریری صورت میں ہمیں مہیا کرو۔ جرمن جماعت اس کا جرمن زبان میں ترجمہ کر رہی ہے، پھر اُن کو بھیج دے گی۔

پھر جرمنی کے جلسہ میں ایک جو اُن کی مستقل روایت بن چکی ہے، جرمن یا غیر احمدی، غیر مسلم مہمانوں کے ساتھ ایک پروگرام ہوتا ہے۔ اس میں بھی پانچ چھ سو افراد عورتیں مرد اکٹھے ہو جاتے ہیں، جمع ہو جاتے ہیں۔ یہاں مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع ملتا ہے۔ اس دفعہ بھی اسلام کی تعلیم، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد، حالاتِ حاضرہ اور دنیا جو خدا کو بھولنے لگی ہے، اور اس وجہ سے تباہی کی طرف جا رہی ہے، اُس کے بارے میں بتانے اور اُس سے ہوشیار کرنے کی توفیق ملی۔ اور پھر ہر شخص کا اس تباہی کے بچنے کے لئے کیاکردار ہونا چاہئے؟ اس بارے میں بھی بتایا۔ یہ تقریر براہِ راست ایم ٹی اے پر آ چکی ہے۔ آپ نے سن لی ہو گی۔ اس پروگرام میں بھی جیسا کہ مَیں نے کہا پانچ سو سے اوپر جرمن اور دوسرے غیر مسلم، غیر از جماعت افراد شامل ہوئے جن پر اس کا کافی اچھا اور نیک اثر ہوا۔

پھر مختلف ممالک سے آئے ہوئے غیر از جماعت احباب سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ اُن میں سب سے بڑا وفد بلغاریہ سے آیا تھا، جہاں سے تقریباً اسّی (80) احباب و خواتین آئے تھے، جن میں صرف تیرہ یا چودہ احمدی تھے باقی اکثریت دوسرے مسلمانوں کی تھی۔ چند ایک اُن میں سے عیسائی تھے۔ تمام لوگ جلسہ کی کارروائی، تقاریر، ڈسپلن وغیرہ سے بہت متاثر تھے۔ ہر سال کافی تعداد میں نئے لوگ مختلف ملکوں سے آتے ہیں۔ اور بلغاریہ سے بھی آتے ہیں اور عموماً جلسہ دیکھ کر متاثر ہو کر جاتے ہیں۔ اور بعض کے لئے یہ جلسہ سینے کھولنے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ بلغاریہ سے آئے ہوئے وفد سے جو باتیں ہو رہی تھیں تو اُن میں سے ایک نوجوان نے مجھے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کا خوف رکھو اور اس خوف کے تحت ہم کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنا چاہئے اور اس کے لئے ہم کام کرتے ہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے۔ تو مَیں نے کہا باقی باتیں تو ایک طرف ہیں، افریقہ میں ہم مختلف علاقوں میں اور دور دراز دیہاتوں میں جا کر بلا تخصیص مذہب اور قوم کے وہاں کے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور اس کی معلومات دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں، اگر تم چاہو تو تمہیں مل سکتی ہیں۔ یہی کافی ثبوت ہے۔ ہم نے ان لوگوں سے کچھ لینا تو نہیں۔ ہاں ایک کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ خدائے واحد کے حقیقی عبادت گزار بن جائیں۔ تو ہماری تو یہی کوشش ہے جس کے لئے ہم کام کر رہے ہیں۔ بلغاریہ وہ ملک ہے جہاں چند سال سے جماعتی تبلیغ اور ہر قسم کی ایکٹویٹیز (Activities) پر پابندی ہے، وہاں جماعت رجسٹرڈ بھی نہیں۔ حکومت مُلّاں کے زیرِ اثر ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اندرونی فتنے کو ختم کرنے کے لئے اور فسادوں کو ختم کرنے کے لئے ہم ایسا کرتے ہیں کہ ایک ہی خطبہ پڑھا جائے اور سارے ایک فرقے کے لوگ ہوں۔ حالانکہ وہاں اس پر عملاً ایسی صورتحال نہیں ہے۔ اصل میں یہی ہے کہ بعض عرب ملکوں سے جو امداد یہ لیتے ہیں، اُس کی وجہ سے اُن کو برداشت نہیں کہ احمدیوں کو تبلیغ کا موقع دیں اور اس سے ان کی چوہدراہٹ ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہاں ہر سال بیعتیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح مالٹا، سپین، ترکی، بوسنیا وغیرہ کے آئے ہوئے احمدیوں اور غیراز جماعت افراد سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب پر جلسہ کا بہت اچھا، گہرا اور نیک اثر تھا۔

اس مرتبہ مَیں نے نو مبائعین کی بیعت بڑے ہال میں کروائی تھی۔ ہر سال وہاں نو مبائعین آتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں لیکن عموماً جب اُن سے علیحدہ میٹنگ ہوتی تھی تو وہاں بیعت ہوا کرتی تھی۔ اس دفعہ مَیں نے کہا کہ بڑے ہال میں بیعت کر لیں تا کہ دوسرے بھی شامل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بیعت کا نظارہ بھی بڑا ایمان افروز ہوتا ہے۔ ایک صاحب جن کا کافی عرصے سے جماعت سے رابطہ تھا، غالباً ایران کے ہیں، وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ سب میٹنگوں میں شامل ہوئے۔ بیعت کا ان کا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن جب بیعت شروع ہوئی تو کہتے ہیں کہ کسی قوت نے میرا ہاتھ آگے بڑھا دیا اور مَیں نے بھی آگے بڑھ کے ہاتھ رکھ دیا اور بیعت کر لی۔ اُس کے بعد کہنے لگے کہ یہ وقتی جذبہ نہیں تھا۔ اب مَیں پکّااحمدی ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ اپنے عہدِ بیعت پر قائم رہوں گا اور اس کو نبھاؤں گا۔ کہتے ہیں ایک نیا جوش اور ولولہ میرے اندر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان وایقان میں ترقی دے اور جو برکات جلسہ کی ہر ایک نے حاصل کی ہیں، وہ دائمی برکات ہوں۔ بہر حال جرمنی کا جلسہ عمومی طور پر بہت اچھا رہا۔ جہاں تک مَیں نے بیچ بیچ میں سے بعض دفعہ ایم ٹی اے پر تقریریں سنی ہیں، تقریروں کا معیار بھی بہت اچھا تھا۔ بڑی برکتوں کو سمیٹنے والا اور سمیٹ کرپھر بکھیرنے والا یہ جلسہ تھا۔ جلسہ کی تیاری کے لئے سارا سال انتظامیہ مصروف رہتی ہے اور باوجود اس کے کہ جرمنی کا جلسہ جو ہے اُس کے تمام انتظامات تقریباً ایک چھت کے نیچے ہی ہوتے ہیں پھر بھی وقارِ عمل اور کام کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اس سال پاکستان سے آئے ہوئے نئے اسائلم سیکرز (Assylum Seakers) نے بھی بڑے جوش سے کام کیا۔ انتظامیہ نے بتایا کہ اگر انہیں دو سو کی ضرورت ہوتی تھی، بلواتے تھے تو چار سو والنٹیئر کام کرنے کے لئے آجاتے تھے۔ اللہ کرے کہ کیس پاس ہو جانے کے بعد بھی اُن کا یہ جوش و جذبہ اس طرح ہی قائم رہے۔ ابھی تو پاکستان کے حالات اور ایک عرصے سے محرومی کا بھی اثر ہے۔ لیکن کیس پاس ہونے کے بعد بھی حقیقی شکر گزاری خدا تعالیٰ کی یہی ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل نہ ہوں اور دوسرے دنیا کی خاطر جماعت کے کام کو پسِ پشت نہ ڈالیں۔ خلافت سے وفا اور محبت کا تعلق رکھیں۔ اس کا بھی تجربہ ہر سال نیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تعلق کو بھی بڑھاتا چلا جائے۔

انتظامات کے تعلق سے بھی بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں کیونکہ مجھے بعد میں وہاں ان کو بیان کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کا فائدہ باقی دنیا کو بھی ہو جاتا ہے۔

انتظامی لحاظ سے عموماً تو تمام انتظامات اچھے ہی رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ بڑے انتظامات میں ہوتا ہے، بعض شکایات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے جرمنی میں بھی اپنے اس جلسہ کے پہلے خطبہ میں بھی اس کا ذکر کیا تھا۔ شکایات بعض شعبہ جات کے متعلق زیادہ ہیں جن میں سے ایک ضیافت کا شعبہ ہے اور یہ بہت اہم شعبہ ہے۔ کھانے میں یا تو کمی رہی ہے یا کھانا کھلانے کا انتظام صحیح نہیں تھا۔ لوگوں کو لمبا انتظار کرنا پڑا اور بعض تنگ آکر، بجائے اس کے کہ لمبی لائنوں میں لگیں بازار سے ہی کچھ کھا لیتے تھے۔ عورتوں میں بھی یہی صورتحال تھی۔ بچوں کو بھی اس وجہ سے پریشانی ہوئی۔ کارکنان اور کارکنات کو بھی بعض دفعہ کھانا نہیں ملتا رہا۔ اکثر عورتوں میں بھی خاص طور پر اپنے طور پر انتظام کرنا پڑا۔ جب پہلے دن یا ایک وقت میں یہ صورت پیدا ہوئی تھی تو افسر جلسہ سالانہ کا اور اُن کی انتظامیہ کا کام تھا کہ فوری اقدام کرتے۔ وجہ معلوم کرتے کہ کیا وجہ ہو رہی ہے؟ شاید انہوں نے اس بارے میں کوشش کی بھی ہو لیکن اس کے بہتر نتائج بہر حال نہیں نکلے اور آخری دن تک یہی کمی محسوس ہوتی رہی۔ انتظامیہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور یہ پاکستان میں بھی ہمیشہ طریق رہا ہے اس طرح ہی ہوتا تھا کہ روزانہ رات کو افسر جلسہ سالانہ تمام نائب افسران اور ناظمین کے ساتھ میٹنگ کرتا ہے، جس میں ہر شعبہ کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کہاں کہاں کمیاں رہ گئی ہیں۔ اُن کو کس طرح اگلے دن پورا کرنا ہے۔ لنگر خانے کا جائزہ ہوتا ہے کہ کتنا کھانا پکا اور کتنے مہمانوں نے کھایا؟کمی ہوئی یا زائد پکانا پڑا یا زائد بچ گیا؟ اس کے مطابق پھر اگلے دن کا حساب ہوتا ہے۔ شعبہ مہمان نوازی کا کام ہے کہ بجائے باتوں کو ٹالنے کے افسر جلسہ سالانہ کے علم میں لائے کہ آج اتنے لوگوں اور مہمانوں نے یا کارکنوں نے کھانا کھایا اور اتنوں کو کھانا نہیں مل سکا۔ وجوہات کیا ہوئیں؟ یہ تو پھر انہوں نے، بعض دوسرے شعبوں نے طے کرنی ہیں۔ باقاعدہ اس کا ریکارڈ رکھنا چاہئے۔ اس جائزے سے پھر اگلے دن یا اگلے وقت کھانے میں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ باقاعدہ میٹنگ اور اگلے دن کی پلاننگ ہوتی تو فوری طور پر بہتر صورت پیدا ہو سکتی تھی۔

اسی طرح ایک شعبہ معائنہ بھی ہوتا ہے اور افسر جلسہ سالانہ کا اپنا بھی شعبہ ہوتا ہے اور معاونین ہوتے ہیں، جو مختلف جگہوں میں جا کر معائنہ کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ صحیح کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ اگر ہنگامی نوعیت کا معاملہ ہو تو اُسی وقت اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے۔ تو بہر حال اس شعبہ کو زیادہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح جلسہ گاہ میں غسل خانوں، ٹائلٹس وغیرہ کی کمی کو بھی محسوس کیا گیا حالانکہ اس کمپلیکس (Complex) میں بیشمار غسل خانے اندر بنے ہوئے ہیں لیکن شاید کسی وجہ سے کھولے نہیں گئے۔ بعض بوڑھی عورتوں اور مردوں کو بھی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ بیماروں اور معذوروں کے لئے علیحدہ اور بہتر انتظام ہو سکتا تھا اور ہونا چاہئے تھا اور ان ملکوں میں تو ہوتا ہے۔ ڈیوٹی والوں اور ڈیوٹی والیوں کو بھی چاہئے کہ ان جگہوں پر خاص طور پر اصولوں کی اتنی سختی نہ کیا کریں۔ آپ کا کام ہر ایک کو سہولت مہیا کرنا ہے۔ انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ اگر پہلے غسل خانے کھولنے کی اجازت نہیں لی تھی تو حالات کے پیشِ نظر فوری طور پر اجازت لے لیتے۔ اگر کرائے کا مسئلہ تھا، پیسہ بچانا تھا تو پیسہ بچانا بہت اچھی چیز ہے لیکن ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی کی کمی کی قیمت پر ہم پیسہ نہیں بچا سکتے۔ یہ نہیں ہے کہ مہمان نوازی میں کمی کر کے پیسہ بچایا جائے۔ مہمانوں کی مہمان نوازی بہر حال ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔ اگر افسر جلسہ سالانہ کی ایک خاص ٹیم جائزے لیتی رہتی تو یہ جو کمی یہاں پیدا ہوئی ہے یا بعضوں کومشکلات سامنے آئیں، وہ نہ آتیں۔ اسی طرح بعض غیر ملکی مہمانوں کی طرف سے بھی شکایت ہے۔ بعض غیر ملکی یورپ کے دوسرے ملکوں سے نو مبائع آئے، اُن کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا جس کی وجہ سے ایک آدھ تو ناراض ہو کر واپس بھی چلے گئے۔ اول تو جس ملک سے آئے تھے، اُن کے امیر اور مربی کا یا نگران کا کام تھا کہ ساتھ لائے تھے تو پوری مدد کرنی چاہئے تھی۔ اور اگر ساتھ نہیں آئے تھے تو پھر ملنے کی جگہ اور انتظامات کی مکمل معلومات اُنہیں فراہم کرنی چاہئیں تھیں۔ پھر شعبہ استقبال اور مہمان نوازی کا بھی کام ہے۔ رہائش کے شعبہ کا بھی کام ہے کہ پارکنگ وغیرہ میں مکمل رابطہ ہوتا اور رہنمائی کا انتظام ہوتا۔ اسی طرح نومبائعین یا مہمان جو لائے گئے اُن کی جلسہ کے بعدواپسی کا ٹرانسپورٹ کا بھی باقاعدہ انتظام نہیں تھا۔ بعض کو رات دس بجے تک انتظار کرنا پڑا۔ حالانکہ شعبہ استقبال کو واپسی کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا چاہئے تھا۔ بہر حال اگر چند ایک کو بھی ان انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف سے گزرنا پڑا تو یہ قابلِ توجہ ہے۔ اس کی اصلاح کی آئندہ کوشش ہونی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مہمانوں کی مہمان نوازی کا واقعہ تو ہم سناتے ہیں کہ کس طرح منی پور سے مہمان آئے، لنگر خانے میں آ کر اُترے اور وہاں خدمتگاروں نے اُن کا سامان نہیں اُتارا۔ کہہ دیا کہ خود ہی سامان اُتارو یا ااور کچھ باتیں ہوئیں۔ وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں جب آیا تو آپ بڑی تیزی سے اُن کے پیچھے پیچھے گئے اور بڑے فاصلے پر جا کر، کہتے ہیں نہر کے قریب جا کر، ٹانگے میں جا رہے تھے اُن کو روکا اور وہاں جاکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام واپس لے کر آئے، اور وہاں آ کے خود ہی اُن کا سامان اُتارنے لگے۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ نمبر 56-57 روایت نمبر1069)

تو یہ نمونے ہیں مہمان نوازی کے جو ہمارے سامنے ہیں۔ اس کو ہمیشہ جماعتی شعبوں کو جماعتی نظام کو اور ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ پس ہمیں اپنے معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ مَیں نے شروع میں بھی پہلے خطبہ میں وہاں جرمنی میں ان باتوں کی طرف مختصراًتوجہ دلائی تھی۔ اگر کچھ نہ کچھ اُس پر غور کیا ہوتا تو بعض جگہ جو کمیاں ہوئی ہیں یا بعضوں کو جو تکلیف پہنچی ہے، یہ نہ ہوتی۔ ان چیزوں سے انتظامیہ کے جو دوسرے اچھے کام ہوتے ہیں، اُن کا بھی اثر زائل ہو جاتا ہے۔

تمام دنیامیں جلسے ہوتے ہیں۔ یہاں یوکے میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ ہو گا جواب تقریباً مرکزی جلسہ کہلاتا ہے۔ تو اسی طرح ان کو بھی اور تمام ملکوں کی جو جلسہ کی انتظامیہ ہے، اُن کو بھی گہرائی میں جا کر ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ایک ملک میں یہ واقعہ ہو گیا اور ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ہر جگہ جہاں جہاں جس جس شعبہ میں کمزوریاں اور کمیاں ہیں، وہاں پوری ہونی چاہئیں تا کہ جلسہ کے نیک اثرات جو ہیں وہ ہر جگہ قائم رہیں۔ خواتین کے ضمن میں بھی بتا دوں کہ عمومی طور پر مین ہال (Main Hall) میں تو خاموشی تھی لیکن بچوں کے ہال میں یہی رپورٹ ملتی رہی جس کا مَیں نے وہاں ذکر بھی کیا تھا کہ بچوں کے شور کے بہانے عورتیں خود بھی زیادہ بولنے لگ جاتی ہیں جو نہیں ہونا چاہئے۔ آئندہ سے اس کی احتیاط ہونی چاہئے۔ بہر حال ان سب کے باوجود جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ جلسہ عمومی طور بہت اچھا تھا۔ پروگرام بھی بڑے اچھے ہوئے۔ تقریریں بھی اچھی ہوئیں۔ لوگوں کا جوش و جذبہ بھی اچھا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کی برکات بھی ہمیشہ قائم رکھے۔ سب شامل ہونے والوں کو اُن کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے اُن کی خاطر ڈیوٹیاں دیں، وقت دیا، محنت کی۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کو جزا دے اور کارکنان اور کارکنات کو بھی خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا موقع دیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہمیشہ اور ہر احمدی کو ہمیشہ ایک دوسرے کی ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے سرشار رکھے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ جون 2012ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی مَیں مختلف ممالک کے دوروں پر گیا ہوں اور جماعتوں کے دوروں پر جاتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کے ذریعے اسلام کی نئی شان غیروں پر ظاہر ہوتے دیکھتا ہوں۔ ہالینڈ میں غیر مسلم مہمانوں کے ساتھ منعقدہ تقریب کا غیروں پر غیر معمولی اثر اور ملکی اخبارات میں اس کی شاندار کوریج۔

    ہالینڈ کی جماعت کو بھی اس قدر کوریج کی امیدنہ تھی۔ اب ہالینڈ کی جماعت کو اپنے رابطوں کو مزید بڑھانا چاہئے، ان کو وسعت دینی چاہئے اور جو بھی غلط فہمیاں اسلام کے خلاف پیدا کی گئی ہیں، اُنہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

    آج اسلام کا دفاع اور غیروں پر دلائل کے ساتھ بھر پور حملہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ کر سکتی ہے۔

    جرمنی میں اس دور ہ میں بھی ایک مسجد کا افتتاح ہوا اور تین کا سنگ بنیاد رکھاگیا۔

    مساجد کی تعمیر کے ساتھ تبلیغ میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ اور مَیں ہمیشہ افرادِ جماعت کو  یہ کہاکرتاہوں کہ اس تعارف اور تبلیغ کی وسعت کے ساتھ ان کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ جرمنی میں فوجی افسران کی تربیت کے ایک اہم ادارہ میں ملک سے وفاداری کی اسلامی تعلیم کے موضوع پر خطاب اور سوال وجواب کی مجلس۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لیکچر کا بھی غیروں پربہت اچھا اثر ہوا۔ جلسہ سالانہ جرمنی کے کامیاب انعقاد اور اس کے نیک اثرات کا تذکرہ۔ بعض انتظامات میں پیش آمدہ کمیوں کو دور کرنے کے لئے انتظامیہ کو اہم نصائح۔ تمام ملکوں کی جلسہ کی انتظامیہ کو بھی گہرائی میں جا کر ان امور کا خیال رکھنے کی تاکید۔

    فرمودہ مورخہ 8؍ جون 2012ء بمطابق 8؍ا حسان 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور