قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات

خطبہ جمعہ 15؍ جون 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ بھی لازم ہے کہ (ایک انسان) جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے،‘‘ ویسے ہی خد اکی راہ میں بھی کرے پنجابی میں ایک مثل ہے ’جومنگے سو مر رہے مرے سو منگن جا‘۔ فرمایا: ’’لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو۔ دعا کرنا مرنا ہوتا ہے۔ اس پنجابی مصرعہ کے یہی معنی ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ دعا کرتا ہے۔ دعا میں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مر جاتا ہے۔ مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعویٰ کرے کہ میری پیاس بجھ گئی ہے یا یہ کہ اسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے۔ ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس بات کی تصدیق ہوگی۔ پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ جب دعا کی جاتی ہے حتیٰ کہ روح گداز ہو کر آستانہ الٰہی پر گر جاتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے اور الٰہی سنّت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خدا وند تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا اسے جواب دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 2 صفحہ 630۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یعنی اس دعا کی قبولیت ہو گی یا پھر اللہ تعالیٰ بتا دیتا ہے کہ نہیں، یہ دعا اس رنگ میں قبول نہیں ہوگی۔

پس یہ دعا کی حقیقت ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو صرف سطحی دعا نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے، یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے اور پھر اس ایمان کے ساتھ مکمل طور پر ڈوب کر دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں مدد اور رہنمائی چاہنی ہو، یا اپنی پریشانیوں کا حل کروانا ہو، یا خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہو تو یہ سب باتیں اُسی وقت ہوتی ہیں جب اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آگے جھکا جائے، اُس کے حضور دعائیں کی جائیں۔ آج تک ہمارا یہی تجربہ ہے کہ پھر  خدا تعالیٰ ایسی دعاؤں کو سنتا ہے، یا ایسی رہنمائی فرما دیتا ہے جو اگر دعا مانگنے والے کی خواہش کے مطابق نہ بھی ہوتب بھی تسلی اور تسکین کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔

پھر آدابِ دعا کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے۔ بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں مگر ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آدابِ دعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں‘‘۔ (یعنی دعا کے آداب نہیں آتے اور جب دعا کے آداب نہیں آتے تو دعائیں قبول نہیں ہوتیں، لیکن فرمایا کہ اصل تو یہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ جو دعا کے اصل معنی ہیں اُس طرح دعا کی نہیں جاتی۔) فرمایا ’’اس لئے وہ منکرین دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں۔ ان کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے۔ دعا کے لئے سب سے اوّل اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اﷲ تعالیٰ پر یہ سُوء ظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں ہونی چاہئے کہ بہت لمبا عرصہ مَیں نے دعا کر لی اب کچھ نہیں ہوگا)۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ 692-693مطبوعہ ربوہ)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کی حقیقت و آداب کا یہ ادراک ہمیں عطا فرمایا اور سب سے بڑھ کر اپنے اُن صحابہ کو عطا فرمایا جن کی براہِ راست تربیت آپ نے فرمائی۔ بلکہ آپ کی آمد سے جو دنیا میں ایک ہلچل مچی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی جو تحریک چلی، اُس نے بھی بہت سے ایسے لوگوں کو جن کی اللہ تعالیٰ اصلاح کرنا چاہتا تھا، اُن میں بھی دعا کی حقیقت اور آداب کا ادراک پیدا فرما دیا۔ اور یوں اُن لوگوں کا آپؑ پر ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا۔ اس وقت مَیں آپ کے زمانے کے اور آپ سے فیض پانے والے چند صحابہ کا ذکر کروں گا جنہوں نے دعا کی حقیقت کو جانا اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُن کی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دکھائے جس سے اُن کے ایمان بھی مضبوط ہوئے اور وہ لوگ دوسروں کی ہدایت کا بھی باعث بنے۔

حضرت میاں محمدنواز خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’1906ء میں یہاں سیالکوٹ میں طاعون کا از حد زور و شور تھا۔ رسالہ بند ہو گیا۔ ہر طرف مردے ہی مردے نظر آتے تھے۔ مولوی مبارک صاحب صدر میں مولا بخش صاحب کے مکان پر درس دے رہے تھے۔ مَیں لیٹا ہوا تھا۔ مجھے بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے دعا کی کہ یا مولا! میں نے تو تیرے مامور کو مان لیا ہے اور مجھے بھی گلٹی نکل آئی ہے۔ پس اب مَیں تو گیا۔ مگر خدا کی قدرت کہ صبح تک وہ گلٹی غائب ہو گئی اور میرا ایک ساتھی محمد شاہ ہوا کرتا تھا، اُسے میں نے دیکھا کہ مرا پڑا ہے۔ محمدشاہ اور میں دونوں ایک کمرے میں رہتے تھے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر10صفحہ نمبر143روایت حضرت میاں محمدنواز خان صاحبؓ)

پھر حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں فرماتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ جموں سے پیدل براہ گجرات کشمیر گیا۔ راستہ میں گجرات کے قریب ایک جنگل میں نماز پڑھ کر اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ والی دعا نہایت زاری اور انتہائی اضطراب سے پڑھی۔ اللہ تعالیٰ میرے حالات ٹھیک کر دے۔ کہتے ہیں اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا سامان کچھ ایسا کر دیا کہ مجھے کبھی تنگی نہیں ہوئی اور باوجود کوئی خاص کاروبار نہ کرنے کے غیب سے ہزاروں روپے میرے پاس آئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر12صفحہ نمبر68روایت حضرت خلیفہ نورالدین صاحبؓ)

حضرت امیر خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 1915ء کو میرے بچے عبداللہ خان کو جبکہ میں بمع عیال قادیان میں تھا طاعون نکلی اور دو دن کے بخار نے اس شدت سے زور پکڑا کہ جب میں دفتر سے چار بجے شام کے قریب گھر میں آیا تو اُس کی نہایت خطرناک اور نازک حالت تھی۔ اُس وقت میرے یہی ایک بچہ تھا۔ والدہ یعنی بچے کی ماں جو کئی دنوں سے اُس کی تکلیف کو دیکھ دیکھ کر جاں بہ لب ہو رہی تھی، مجھے دیکھتے ہی زار زار رو دی اور بچے کو میرے پاس دے دیا۔ سخت گرمی کا موسم اور مکان کی تنگی اور تنہائی اور بھی گھبراہٹ کو دوبالا بنا رہی تھی۔ (مکان بھی تنگ، گرمی کا بھی موسم، اکیلے اور اس پر یہ کہ بچہ بھی بہت زیادہ بیمار، تو گھبراہٹ اور بھی زیادہ بڑھ رہی تھی) کہتے ہیں مَیں نے بچے کو اُٹھا کر اپنے کندھے سے لگا لیا۔ بچے کی نازک حالت اور اپنی بے کسی، بے بسی کے تصور سے بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس اضطراری حالت میں بار بار اُن دعائیہ الفاظ کا اعادہ کیا کہ اے خدا! اے میرے پیارے خدا! اس نازک وقت میں تیرے سوا اور کوئی غمگسار اور حکیم نہیں، صرف ایک تیری ہی ذات ہے جو شفا بخش ہے۔ غرضیکہ میں اس خیال میں ایسا مستغرق ہوا کہ یکا یک دل میں خیال ڈالا گیا کہ تو قرآنِ کریم کی دعا قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ پڑھ کر بچے کے سر پر سے اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے کی طرف لا اور بار بار ایسا کر۔ چنانچہ مَیں نے بچشم تر (روتے ہوئے) اسی طرح عمل شروع کیا۔ یہاں تک کہ چند منٹوں میں بچے کا بخار اُتر گیا۔ صرف گلٹی باقی رہ گئی جو دوسرے دن آپریشن کرانے سے پھوٹ گئی اور چار پانچ روز میں بچے کو بالکل شفا ہو گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ نمبر 150-151روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحبؓ)

حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب مجھے شفا خانہ ہوشیار پور میں علاج کراتے ایک عرصہ گزر گیا اور باوجود تین دفعہ پاؤں کے آپریشن کرنے کے پھر بھی پاؤں اچھا نہ ہوا تو ایک دن مس صاحبہ نے (یعنی انگریز نرس تھی) جو بہت رحمدل تھی اور خلیق تھی، مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو پاؤں کو ٹخنے سے کاٹ دیا جائے کیونکہ اب یہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ کیونکہ گینگرین کی طرح کی صورت پیدا ہو رہی ہے تاکہ مرض ٹخنے سے اوپر سرایت نہ کر جائے۔ میں نے گھر والوں سے مشورہ کر کے اجازت دے دی۔ اُس پر مس صاحبہ بیوی کو دوسرے کمرے میں لے گئی جس کمرے میں پاؤں کاٹنا تھا۔ (یہ آپریشن بیوی کا ہونا تھا) مَیں نے ساتھ جانے کے لئے مِس صاحبہ سے اجازت چاہی مگر اُس نے کہا کہ آپ یہیں رہیں۔ لہٰذا میں وہیں وضو کر کے نفلوں کی نیت کر کے دعا میں مصروف ہو گیا۔ (بیوی کا آپریشن کرنے کے لئے وہ لے گئی)۔ مَیں وہیں نفلوں میں دعا میں مصروف ہو گیا اور دل اس خیال کی طرف چلا گیا کہ اے خدا! تیری ذات قادر ہے تُو جو چاہے سو کر سکتا ہے۔ پس تو اس وقت پاؤں کو کاٹنے سے بچا لے۔ کیونکہ اگر پاؤں کٹ گیا تو عمر بھر کا عیب لگ جائے گا۔ تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ اور اسی خیال میں سجدہ کے اندر سر رکھ کر دعا میں انتہائی سوز و گداز کے ساتھ مستغرق ہوا کہ عالمِ محویت میں ہی ندا آئی، یہ آواز آئی کہ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اور جب اس آواز کے ساتھ ہی مَیں نے سجدہ سے سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مس صاحبہ (وہ نرس جو تھی) میری طرف دوڑی آ رہی ہے اور آتے ہی یہ کہا کہ سول سرجن صاحب فرماتے ہیں کہ اس دفعہ مَیں خود زخم کو صاف کرتا ہوں اور پاؤں نہیں کاٹتا، اس لئے کہ پاؤں کو ہر دفعہ کاٹا جا سکتا ہے (یعنی کہ پاؤں کو تو پھر بھی کاٹا جا سکتا ہے) مگر کاٹا ہوا پاؤں ملنا محال ہے۔ میں خدا کی اس قدرت نمائی اور ذرہ نوازی کے سو جان سے قربان جاؤں جس نے کرمِ خاکی پر ایسے نازک وقت میں لَا تَقْنَطُوْا کی بشارت سے معجز نمائی فرمائی۔ اور وہ پاؤں کٹنے سے بچ گیا۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر6صفحہ نمبر121-122روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحبؓ)

حضرت امیر خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ 1925ء میں جبکہ بوجہ زیادتی اخراجات کے انجمن میں تخفیف ہوئی اور مَیں بھی تخفیف میں آ گیا اور اخراجات خانگی نے مجھے از حد پریشان کیا تو میں نے اس تنگی میں سوائے خدا کے آستانے کے اور کوئی چارہ ٔ کار نہ دیکھا۔ لہٰذا مَیں اُس کی جناب میں جھک گیا۔ یہاں تک کہ رمضان المبارک آ گیا اور اس میں مزید دعاؤں کی توفیق ملی اور پھر جب اعتکاف میں اور بھی سوزوگداز کے ساتھ دعاؤں کا موقع میسر آیا تب پنجابی میں اُن کو الہام ہوا کہ ’’دَم وَٹ زمانہ کٹ، بھلے دن آون گے‘‘۔ لیکن جب اس بشارت پر بھی عرصہ گزر گیا اور تنگی نے بہت ستایا تو فارسی میں بشارت ہوئی۔ ’’غم مخور زا نکہ در ایں تشویش خور می وصل یارمی بینم‘‘۔ چنانچہ اس بشارت کے چند دن بعد خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکا عطا کیا جس کا نام محمود احمد ہے۔ اور اس کے بعد مَیں اگست 1926ء کو محکمہ اشتمال اراضیات میں بمشاہرہ (تنخواہ) نوّے روپے ماہوار سب انسپکٹر ہو گیا۔ یعنی خدا تعالیٰ نے تیس روپیہ ماہوار کی بجائے نوّے روپیہ ماہوار عطا فرمادیئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر6صفحہ نمبر152-151روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحبؓ)

حضرت بابو عبدالرحمن صاحبؓ، حضرت چوہدری رستم علی صاحبؓ کے ساتھ اپنے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں اور چوہدری صاحب اور دو تین اور احمدی ایک تانگے میں بیٹھ کے قادیان پہنچ گئے۔ یہ سڑک اوّل دفعہ دیکھی تھی۔ اتنے دھکے لگتے تھے کہ بس الامان۔ بدن چُور ہو جاتا تھا۔ سارے رستے میں گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ سڑک کیا مثل ایک کچی گوہر کے تھی۔ پھر اس کے بعد تو جب تک ریل تیار ہوئی اسی راستے سے کبھی تانگے میں اور کبھی پا پیادہ قادیان آتے رہے۔ ہاں تو قادیان پہنچ کر مہمان خانے میں ہم ٹھہرے۔ بعدہٗ میں اور چوہدری صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت صاحب مسجد مبارک کی چھت پر جو موجودہ مسجد مبارک کی شمال کی طرف مختصر سی جگہ بشکل مسجد تھی، تشریف فرما تھے اور تقریباً دس بارہ دوسرے احباب حاضر تھے جن میں مولوی حکیم نور الدین صاحبؓ اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ بھی تھے۔ بعد مصافحہ چوہدری صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ مَیں نے حقیر سی رقم جو ایک رومال میں بند تھی حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ حضور نے رومال لے کر رکھ لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میری درخواست پر حضور نے بیعت لی اور بعد بیعت ہونے کے سب حاضرین نے دعا کی۔ پھر حضرت صاحب سے رخصت ہو کر ہم کچے رستے سے بٹالہ پہنچے۔ پھر بٹالہ سے بذریعہ ریل اپنے گھر پر بٹالہ شہر میں پہنچ گئے۔ چونکہ تعمیر مکان کے دوران میں ہم اس کام کو بیچ میں چھوڑ کر قادیان چلے گئے تھے، (یعنی اُن دنوں میں وہ اپنا مکان بنا رہے تھے) اس لئے واپس آ کر پھر یہ تعمیر مکان کا کام شروع کیا۔ جب نیچے کی منزل تیار ہو چکی اور اوپر کی منزل تعمیر ہونا شروع ہوئی تو میں دفعۃً بیمار ہو گیا۔ بخار کی حرارت 104 درجہ تک پہنچ جاتی۔ اس طرح کئی روز گزر گئے۔ چوہدری رستم علی صاحب روزمرہ دریافت حال کے لئے تشریف لاتے اور تسلی دیتے اور فرماتے کہ میں حضرت صاحب کو روز مرہ دعا کے لئے لکھتا رہتا ہوں۔ ایک روز دن کا وقت تھا مجھے خواب میں معلوم ہوا کہ میری ہمشیرہ مرحومہ کہہ رہی ہیں کہ دعا قبول ہو گئی۔ آنکھ کھلنے پر میں نے اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور لڑکوں سے کہا کہ ہمشیرہ ابھی یہاں پر کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ ’’دعا قبول ہو گئی‘‘۔ لیکن ہوا کیا؟ اُس کے بعد بخار کی حرارت زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی اور میں کئی روز تک بیہوش رہا۔ سب گھر والوں کو مایوسی ہو گئی۔ بالخصوص چوہدری رستم علی صاحب مرحوم کو بہت تشویش ہوئی کہ خدانخواستہ اگر اس وقت وفات کا واقعہ ہو گیا تو سب کہیں گے کہ یہ بیعت کرنے کا نتیجہ ہے اور بہت خراب اثر گھر والوں پڑے گا اور دوستوں پر بھی جنہوں نے اس کے ساتھ بیعت کی ہے۔ چوہدری صاحب مرحوم دعا میں لگے رہے اور صحت کے لئے روز مرہ حضرت صاحب کی خدمت میں لکھتے رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے آرام ہونا شروع ہو گیا اور ایک مہینے کے اندر بالکل آرام ہو گیا۔ ہم نے عید کی نماز دکانوں میں پڑھی۔ الحمدللہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خواب میں دکھلایا تھا دعا قبول ہو گئی۔ وہ بات پوری ہو گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر12صفحہ نمبر249تا251روایت حضرت بابو عبدالرحمن صاحبؓ)

حضرت حافظ مبارک احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ مولوی صاحب، (مولوی خان ملک صاحب) کی خاص عزت کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ مولوی خان ملک صاحب خود فرمایاکرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب مجھ سے طالب علمی کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آپ دعا کریں کہ میں بہت بڑا آدمی بن جاؤں۔ (بڑا آدمی ہونے سے مراد دین میں ترقی کرنا تھا)۔ فرماتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول کی یہ باتیں سن کے میں اُن کے لئے بہت دعا کیا کرتا تھا۔ تو میں نے حضرت مولوی صاحب کے لئے دعا کی اور قبولیت کے آثار دیکھ کر اُن کو بتا بھی دیا کہ آپ بڑے دینی عالم بن جائیں گے۔ (اور یہی مراد تھی اُن کی دعا کرنے سے کہ دین کا بڑا رُتبہ مجھے حاصل ہو جائے)۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر169روایت حضرت حافظ مبارک احمد صاحبؓ)

حضرت عبدالستار صاحبؓ ولد عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ حضور کی پیشگوئی عَفَتِ الدِّیَارُ مَحِلُّھَا وَ مَقَامُھَا (یعنی عارضی رہائش کے مکانات بھی مٹ جائیں گے اور مستقل رہائش کے بھی۔ یہ الہام تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا)۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد زلزلہ سے تین دن پہلے مجھے خواب آئی کہ حضور ہمارے گھر ہماری چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُس پر میں نے عرض کیا کہ ہمارے گاؤں والے مجھے سخت تکلیف دے رہے ہیں، آپ میرے لئے دعا فرمائیں۔ اس پر حضور نے پنجابی میں ہی فرمایا۔ ’’میں تے ایہو ای کم کرناں ہونا‘‘۔ (یعنی مَیں تو یہی کام کرتا ہوں۔ یہ خواب میں ان کو بتایا گیا۔) اس پر دوبارہ مَیں نے عرض کی۔ میرے واسطے علیحدہ دعا کی جائے تو حضور نے (خواب میں) میرے بائیں بازو کو پکڑ کر ایک ہاتھ سے ہی دعا کرنی شروع کر دی۔ مَیں نے دونوں ہاتھ سے دعا کرنی شروع کر دی۔ دعا کر ہی رہے تھے کہ بہت سخت زلزلہ آ گیا۔ مَیں گرنے کو ہوا ہی تھا کہ حضور کو مَیں نے زور سے پکڑ لیا، بغل گیر ہو گیا اور کہتے ہیں جپھی پڑے پڑے ہی مجھے جاگ آ گئی۔ صبح سویرے میں قادیان آیا تو حضور نے بڑے باغ میں خیمہ لگایا ہوا تھا۔ جب مَیں خیمہ کی طرف گیا تو حضور باہر ٹہل رہے تھے۔ مَیں نے سلام و آداب کیا اور مصافحہ کیا۔ مَیں نے عرض کی کہ حضور میں ایک خواب سنانا چاہتا ہوں۔ اس پر حضور نے اجازت دی اور یہی خواب میں نے حضور کو سنائی کہ حضور نے یہ لفظ ’’تم بچائے جاؤ گے‘‘ قریباً تین دفعہ دہرائے۔ کہتے ہیں۔ اُس کے بعد کیا ہوا کہ طاعون آ گیا۔ میری بیوی اور لڑکی دونوں کو طاعون ہو گئی تو لوگوں نے کہا کہ یہاں دس دس بارہ بارہ آدمی روز مرتے ہیں، اگر تم مر گئے تو تمہاری قبر کون کھودے گا؟ (کیونکہ احمدیوں کے قریب کوئی نہیں آئے گا۔) تمہاری میت کوکون اُٹھائے گا اور غسل دے گا؟ اس پر مَیں نے جواب دیا کہ ہم کو خدا کو سونپو۔ میری بیوی قریب المرگ ہو گئی۔ مَیں نے خدا کے حضور وضو کر کے یہی دعا کی کہ اے مولیٰ! ہماری قبر بھی کوئی کھودنے والا نہیں ہے اور اُٹھانے والا اور غسل دینے والا بھی کوئی نہیں۔ اُس وقت میرے پاس سنگترے تھے تو وہ مَیں چھیل کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا رہا۔ جب اُس نے کھا لئے تو میری بیوی کو دست آئے اور ساتھ ہی بخار بھی ٹوٹ گیا۔ میری لڑکی کے پھوڑے پر آک کا دودھ (آک ایک پودہ ہوتا ہے اُس کا دودھ) لگایا تو اُس کو بھی آرام آ گیا۔ اور پھر خدا کے آگے مَیں دعا کرنے لگا اور پنجابی میں ہی دعا کی کہ میں اَلْحَمْد پڑھتا تھا تو یہ لفظ خود بخود میری زبان سے رواں تھے کہ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ۔ کَیْفَ کَانَ حَافِظٌ عَلَیْہِ۔ اس پر میری بیوی اور لڑکی بچ گئی۔ اُس وقت مجھے حضور کی بات یاد آئی کہ ’’تم بچائے جاؤ گے‘‘۔ (تین دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاتھا کہ تم بچائے جاؤ گے۔ تم بچائے جاؤ گے۔ اور اللہ کے فضل سے وہ بچائے گئے)۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر6صفحہ نمبر183-184روایت حضرت عبدالستار صاحبؓ)

حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز کا ذکر ہے کہ مَیں صبح کی نماز پڑھ کر مسجد مبارک سے پیر سراج الحق صاحب کے ساتھ اُن کے مکان کے زینے پر کھڑا ہو گیا۔ پیر صاحب کوئی لمبا قصہ کسی کا ذکر کر رہے تھے۔ مجھے ایک غیبی تار کے ذریعے معلوم ہوا کہ میری جان خطرے میں ہے(یعنی ایک احساس ہوا)۔ میں ان ایام میں حضرت صاحب کے دروازے پر دربان تھا۔ مَیں وہاں سے بھاگا۔ میرے سے پیش پیش محمد اکبر خان سنوری کچھ سودا بازار سے لے کر ڈیوڑھی میں داخل ہوئے۔ آگے سے حضرت اقدس اوپر سے نیچے تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ میاں مہدی حسین ہے؟ اکبر خان نے کہا کہ نہیں، دکانوں پر کھڑا ہو گا۔ مَیں نے معاً آواز دی کہ حضور مَیں حاضر ہوں۔ اکبر خان صاحب نے کہا کہ اب کہیں سے آ گیا ہو گا۔ اس پر حضور نے مجھے حکم دیا کہ یہ قرآن شریف لے جاؤ اور فلاں مضمون کی آیت دریافت کر کے اُس پر نشان کر کے لے آؤ۔ کہتے ہیں اس وقت مَیں ایسی حالت میں غرق ہوا کہ مَیں چاہتا تھا کہ مَیں خود ہی وہ آیت نکال کر پیش کر دوں، جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تلاش تھی۔ لیکن یہ ممکن معلوم نہ ہوتا تھا۔ مَیں نے جنابِ الٰہی میں دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے فوری دعا کس طرح قبول کی۔ کہتے ہیں وہیں میں نے کھڑے کھڑے جنابِ الٰہی میں دعا کی کہ وہ آیت مجھے ہی بتلا دی جائے۔ یہ دعا کر کے میں نے قرآن شریف کھولا تو میری پہلی نظر ہی اُس آیت پر پڑی جو حضرت اقدس کو مطلوب تھی۔ مَیں نے عرض کی کہ حضور! آیت یہ موجود ہے۔ فرمایا ہاں حکیم فضل دین صاحب سے پوچھ کر آؤ۔ یعنی حکیم فضل دین صاحب کے پاس بھیجا تھا کہ اُن سے نکلوا لاؤ۔ تو مَیں نے عرض کی حضور! آیت یہ موجود ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہاں حکیم فضل دین صاحب سے پوچھ کے آؤ۔ مَیں نے پھر عرض کیا کہ حضور! آیت تو یہ موجود ہے حکیم فضل دین صاحب سے کیا پوچھنا ہے۔ حضور نے پھر میرے ہاتھ سے قرآن شریف لے کر اس آیت کو دیکھا اور فرمایا کہ ہاں یہی ہے۔ پھر آپ اوپر تشریف لے گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر274-275روایت حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ)

حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی بیان کرتے ہیں کہ مجھے مسلسل اور منظم طور پر یادنہیں، متفرق طور پر یہ بات یاد آئی ہے کہ گزشتہ مذکور مباحثے کے بعد ایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے نکلا، یہ جلسہ مہوتسو کے متعلق تھا، اُس میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے بارے میں حضرت صاحب کا یہ الہام درج تھا کہ ’’میرا مضمون بالا رہا‘‘۔ کہتے ہیں اس وقت کسی وجہ سے مَیں کچھ بیمار تھا۔ اور بیماری بھی ایسی تھی کہ بہت زیادہ کمزوری تھی۔ دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بڑا بھاری تھا کہ ’’میرا مضمون سب پر بالا رہے گا‘‘۔ بجز تائید الٰہی یہ بات کون کہہ سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں ایک اپنے اہلحدیث مولوی کو جو لاہور میں تھا، افتاں و خیزاں (بڑی مشکل سے گرتے پڑتے) اُس کو ساتھ لے کر جلسہ گاہ میں پہنچا۔ مولوی ثناء اللہ اور مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے لیکچر بھی سنے مگر سب پھیکے اور بے اثر۔ لیکن جب حضرت مرزا صاحب کا مضمون شروع ہوا تو تِل رکھنے کی جگہ نہ تھی اور سامعین پر ایسا سکوت تھا کہ ذرا بھنک نہیں آتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض اور لوگوں نے بھی اپنے اوقات حضرت مرزا صاحب کا مضمون سننے کے لئے وقف کر دئیے۔ اور دو دن ایامِ مقررہ سے زائد کئے گئے۔ جب یہ مضمون آخر میں پہنچا تو میں نے اُسی وقت اسی جگہ ہاتھ اُٹھا کر جنابِ الٰہی میں دعا کی (یہ دیکھیں اللہ تعالیٰ پھر سعید فطرت لوگوں کی رہنمائی کس طرح فرماتا ہے) کہ یا اللہ! اگر یہ تیرا وہی بندہ ہے جس کی نسبت تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے تو اُس کی برکت سے مجھے اس بیماری سے شفا بخش دے۔ الغرض جلسہ ختم ہونے کے بعد جب مَیں جلسہ گاہ کے بڑے دروازے سے باہر نکلا تو اللہ کی قسم! مجھے ایسا معلوم ہوا کہ مجھے کوئی بیماری نہ تھی۔ اُس دن سے آج تک پھر اس بیماری نے عَودنہیں کیا۔ (دوبارہ نہیں آئی)۔ اور چنانچہ یہ احمدی بھی ہوئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر247-248روایت حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ)

حضرت اللہ بخش صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ کرم دین کے مقدمے میں پہلے چندُو لال آریہ منصف تھا۔ کہتے ہیں میرا ایک آریہ دوست تھا، گردھاری لال، اکاؤنٹنٹ تھا، اُس نے آ کر مجھے یہ خبر دی کہ ہماری کمیٹی میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کو سخت سزا دی جائے۔ میں نے خبر سن کر حضرت صاحب کی خدمت میں بیان کی۔ آپ نے فرمایا کہ دعا کرو۔ (کہتے ہیں ) خیر مَیں واپس آ گیا۔ جب امرتسر گیا تو صبح کی نماز کا وقت تھا۔ مَیں مسجد گیا اور مسجد کی ڈاٹ میں بیٹھا ہوا تھا اور غالباً درود شریف پڑھ رہا تھا کہ میرے دائیں کان میں جو قریباً بند ہے، (ان کا دایاں کان بند تھا اور کہتے ہیں) اُس وقت بھی بند تھا زور سے آواز آئی کہ چندو لال فیصلہ سنانے سے پہلے مر جائے گا۔ پھر مَیں حضرت صاحب کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ حضرت! یہ آواز مجھے اس کان میں بہت زور سے پڑی ہے کہ چندو لال فیصلہ سنانے سے پہلے مارا جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ مبشر خواب ہے اور دعا کرو…۔ اس کے بعد مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک مسلمان مجسٹریٹ ہے جس نے آتما رام کو سفید گلاس میں پانی پلایا ہے۔ جو شکل مجھے آتما رام کی خواب میں دکھائی گئی اُس میں وہ ٹانگ سے کچھ معذور تھا۔ اس کے بعد مقدمے کی تاریخ جب آئی تو میں گورداسپور میں تھا۔ کوئی شخص رخصت پر جا رہا تھا یا تبدیل ہو کر جا رہا تھا، اُس کو گاڑی پر سوار کرنے کے لئے چند اور لوگوں کے ساتھ آتما رام بھی آیا ہوا تھا۔ مَیں نے اس خواب والے حلیہ کے مطابق اُس کو دیکھا اور پھرمَیں وہاں گیا جہاں حضرت صاحب تشریف رکھتے تھے۔ دری بچھی ہوئی تھی اور احباب بیٹھے تھے۔ مَیں بھی بیٹھ گیا۔ اس وقت پھر آتما رام سٹیشن سے واپس عدالت میں آیا تو جہاں ہم بیٹھے تھے، عدالت کے کمرے کا وہی راستہ تھا۔ مَیں نے کسی دوست سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے۔ اُس نے کہا کہ اس کے پاس حضرت صاحب کا مقدمہ ہے۔ مَیں نے کہا مجھ کو اس کی شکل پہلے ہی دکھائی گئی ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر145تا147روایت حضرت اللہ بخش صاحبؓ)

اور چندو لال کے بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پائی تھی۔ ایک دفعہ جب کسی نے کہا کہ چندو لال مجسٹریٹ کا ارادہ ہے کہ آپ کو قید کر دے تو آپ دری پر لیٹے تھے، اُٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ میں چندو لال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا۔ چنانچہ آخر اس عہدہ سے اُس کی تنزلی ہو گئی (نیچے چلا گیا) اور ملتان میں اُس کی تبدیلی ہو گئی۔ پھر پنشن پا کے لدھیانہ آ گیا اور آخر انجام بھی اُس کا بڑا بھیانک ہوا کہ پھر پاگل ہو کر وہ مرا۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 286مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جب ایسے موقع آتے تھے خود بھی دعا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی بھی ہوتی تھی، لیکن پھر بھی اپنے صحابہ کو یہ کہا کرتے تھے کہ دعا کرو اور پھر اگر کوئی خواب وغیرہ آئے تو وہ سن کے اُس پر اپنا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔

حضرت مرزا غلام نبی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں نے بیعت کی تو حضرت صاحب کے الہامات پڑھنے کا مجھے بہت شوق تھا۔ اُن دنوں اخبار زمیندار اور کئی اخباروں میں حضرت اقدس کے الہامات کے خلاف تحریریں نکلا کرتی تھیں اور مَیں بھی اکثر اُن کو پڑھا کرتا تھا۔ اُن کے پڑھنے کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ الہامات کی کیفیت کے بارے میں مجھے پریشانی پیدا ہوئی۔ کیونکہ جب الہامات کا ذکر ہوتا تھا یا مخالفین کے جو اخبارات تھے یہ اپنے اخباروں میں الہامات کا ذکر کرتے تھے اور پھر اس پر اوٹ پٹانگ تبصرے ہوتے تھے۔ تو کہتے ہیں اس سے مجھے پریشانی پیدا ہوتی تھی۔ کہتے ہیں ایک دن مَیں نے خدا کے حضور دعا کی کہ اے خدا! مَیں اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا، مجھے اپنے فضل سے سمجھا۔ اس کے بعد اچانک دوپہر کے وقت مجھ پر ایک نئی حالت غنودگی کی طاری ہوئی اور اس حالت میں آسمان سے ایک نیلگوں رنگ کا گھوڑا اترتا ہوا معلوم ہوا۔ جوں جوں وہ زمین کے نزدیک آتا تھا اُس کا رنگ شوخ ہوتا جاتا تھا۔ اُس کی گردن سے بجلی کی طرح ایک شعلہ نکلتا تھا۔ میرے دل پر یہ القاء ہوا کہ یہ تمہارے مرشد کا نشان ہے۔ عنقریب یہ روشنی زمین تک پہنچے گی اور دشمنوں کا رنگ زرد کر دے گی۔ اس کے چند ماہ بعد حضرت صاحب کا روشن ستارے والا نشان جو حقیقۃ الوحی میں درج ہے، وہ نمودار ہوا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر225روایت حضرت مرزا غلام بنی صاحبؓ)

اس نشان کے بارے میں تھوڑا سا مختصر ذکر مَیں بتا دوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’اس کے بعد جس رنگ میں یہ پیشگوئی ظہور میں آئی‘‘ (یہ روشن ستارے والی) ’’وہ یہ ہے کہ ٹھیک 31 مارچ 1907ء کو جس پر 7مارچ سے 25دن ختم ہوتے ہیں ایک بڑا شعلہ آگ کا جس سے دل کانپ اٹھے، آسمان پر ظاہر ہوا اور ایک ہولناک چمک کے ساتھ قریباً سات سو میل کے فاصلہ تک جو اب تک معلوم ہو چکا ہے(جب یہ لکھا گیا تھا) یا اس سے بھی زیادہ جا بجا زمین پر گرتا دیکھا گیا اور ایسے ہولناک طور پر گرا کہ ہزارہا مخلوقِ خدا اس کے نظارہ سے حیران ہوگئی اور بعض بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے اور جب ان کے منہ میں پانی ڈالا گیا تب ان کو ہوش آئی۔ اکثر لوگوں کا یہی بیان ہے کہ وہ آگ کا ایک آتشی گولہ تھا جو نہایت مہیب اور غیر معمولی صورت میں نمودار ہوا اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ زمین پر گرا اور پھر دھواں ہو کر آسمان پر چڑھ گیا۔ بعض کا یہ بھی بیان ہے کہ دُم کی طرح اس کے ایک حصہ میں دُھواں تھا۔ اور اکثر لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ایک ہولناک آگ تھی جو شمال کی طرف سے آئی اور جنوب کو گئی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جنوب کی طرف سے آئی اور شمال کو گئی۔ اور قریباً ساڑھے پانچ بجے شام کے اس وقوعہ کا وقت تھا۔‘‘ (یعنی یہ وقوعہ ہوا)۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 518)

تو اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو دعا کے بعدنشانات کی طرف اشارہ کرتا تھا اور پھر وہ نشانات ظاہر بھی ہوئے اور اس طرح یہ اُن کے ایمان میں ترقی کا باعث بنتے تھے۔ پس دعاؤں کی قبولیت اور روشن نشانوں سے اللہ تعالیٰ نے اُن صحابہ کے ایمانوں کو مزید مضبوط اور صیقل کیاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دعاؤں کی حقیقت اور آداب کا جوادراک صحابہ کو حاصل ہوا، یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہ ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں بھی روشن نشانوں کے ذریعہ قبولیت دعا کے نشان دکھائے۔ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان میں مضبوط ہو اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے والا ہو۔

پس آجکل بھی ہر احمدی کو یہ دعا کرنی چاہئے۔ یہ الہام جو میں نے بتایا کہ نہ کوئی عارضی رہائش باقی رہے گی نہ مستقل۔ دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں اور جس طرح جنگِ عظیم کا خطرہ ہے، اس بارے میں بھی دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے محفوظ رکھے بلکہ انسانیت کو اس سے محفوظ رکھے۔ اور یہ بلائیں جو آنے والی ہیں وہ ٹل جائیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ مَیں چند ہفتوں کے لئے پھر سفر پر جا رہا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ امریکہ اور کینیڈا کے جلسے ہر لحاظ سے بابرکت ہوں۔ دنیاکے بعض ممالک میں پاکستان کے علاوہ بھی احمدیوں پر زندگی تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان شر پیدا کرنے والوں کو جن میں حکومتیں بھی شامل ہیں اپنی قدرت کا نشان دکھاتے ہوئے ان کے شر دور فرمائے اور احمدیت کی سچائی ظاہر فرمائے اور احمدیوں کو ہر جگہ ہر قسم کے شرور سے محفوظ فرمائے۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 15؍ جون 2012ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں مدد اور رہنمائی چاہنی ہو، یا اپنی پریشانیوں کا حل کروانا ہو، یا خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہو تو یہ سب باتیں اُسی وقت ہوتی ہیں جب اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آگے جھکا جائے، اُس کے حضور دعائیں کی جائیں۔ آج تک ہمارا یہی تجربہ ہے کہ پھر خدا تعالیٰ ایسی دعاؤں  کو سنتا ہے، یا ایسی رہنمائی فرما دیتا ہے جو اگر دعا مانگنے والے کی خواہش کے مطابق نہ بھی ہوتب بھی تسلی  اور تسکین کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کی حقیقت و آداب کا ادراک ہمیں عطا فرمایا اور  سب سے بڑھ کر اپنے اُن صحابہ کو عطا فرمایا جن کی براہِ راست تربیت آپ نے فرمائی۔

    حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابہ کے قبولیت دعا کے حوالہ سے ایمان افروز واقعات کاتذکرہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دعاؤں کی حقیقت اور آداب کا جوادراک صحابہ کو حاصل ہوا،  یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہ ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں بھی  روشن نشانوں کے ذریعہ قبولیت دعا کے نشان دکھائے۔ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود  علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان میں مضبوط ہو اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے والا ہو۔  یہ دعا ہے جو آجکل بھی ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ یہ الہام جو میں نے بتایا کہ نہ کوئی عارضی رہائش باقی رہے گی   نہ مستقل۔ دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں اور جس طرح جنگِ عظیم کا خطرہ ہے، اس بارے میں بھی دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے محفوظ رکھے بلکہ انسانیت سے اس کو محفوظ رکھے۔

    فرمودہ مورخہ 15؍ جون 2012ء بمطابق 15؍ا حسان 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور