محرم الحرام، حضرت امام حسینؓ اور صحابہ ٔ رسول کا مقام و مرتبہ

خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کل ہم جس اسلامی مہینہ سے گزر رہے ہیں اس مہینہ کا نام محرم الحرام ہے۔ یہ ماہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ عام طور پر جب سال کا پہلا مہینہ آتا ہے، نیا سال شروع ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ محرم بعض جگہوں پر جمعہ کو شروع ہوا ہے یا پھر جمعرات کو شروع ہوا ہے۔ بہرحال جب مَیں گزشتہ جمعہ پر آنے لگا تو ایک صاحب باہر کھڑے تھے، انہوں نے مبارکباد دی۔ لیکن مبارکباد کس چیز کی؟کیونکہ اُسی دن عراق میں دھماکے ہوئے، شیعوں پر حملے کئے گئے اور درجنوں شہید کر دئیے گئے۔ سو ہم نئے سال کے شروع میں عموماً ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں لیکن جب قمری سال کا یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو مسلمان شرفاء کی اکثریت جن کو اُمّت کا درد ہے، اس مہینہ کے آنے پر فکر اور خوف کا اظہار شروع کر دیتی ہے۔ یہ کیوں ہے؟ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ دھماکے ہوتے ہیں، قتل و غارت ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ ان دنوں میں باوجود حکومتوں کے اعلانوں کے، باوجود مختلف فرقوں کے علماء کے مشترکہ بیانات کے، اعلانات کے یا تو شیعہ سُنّی فساد شروع ہو جاتے ہیں یا کہیں نہ کہیں کسی تعزیہ پر یا امام باڑے پر دوسرے فرقوں کی طرف سے یا شرارتی عنصر کی طرف سے حملہ ہو جاتا ہے اور اب تو مفاد پرست اور دہشتگرد دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر شیعوں کی مجالس یا مجمع پر حملہ کر کے درجنوں معصوموں کی جان لے لیتے ہیں۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے مذہبی مقاصدنہیں ہیں یا مذہبی اختلاف نہیں ہے بلکہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں، حکومتوں کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ عام طور پر دس محرم کو زیادہ خطرے کا دن ہوتا ہے جو مغربی ممالک میں تو کل ہے۔ یہاں تو کوئی ایسا خطرہ نہیں لیکن مشرقی ممالک میں آج ہے شاید پاکستان میں اور کچھ اَور ملکوں میں بھی ہو۔ اس دن ظلموں کی بعض دفعہ انتہا کر دی جاتی ہے بلکہ اس دفعہ تو شیعوں کے مختلف اکٹھ پر یہ حملے شروع ہو چکے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ پہلی تاریخ کو ہی عراق میں شیعوں پر حملہ کیا گیا۔ پاکستان میں راولپنڈی، کراچی، کوئٹہ، سوات میں یہ حملے کئے گئے۔ کل اخبار میں تھا کہ دھماکے ہوئے اور کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ بلکہ راولپنڈی میں تو پرسوں بھی حملے ہوئے اور کل بھی ہوئے۔ کل بھی ان حملوں کی وجہ سے جو شیعوں پر کئے گئے تیئس لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ شیعوں کو موقع ملتا ہے تو وہ اس طرح بدلہ لیتے ہیں۔ اُمّتِ مسلمہ کی اب عجیب قابل رحم حالت ہے۔ یہی مذہبی اختلافات یا کسی بھی قسم کے اختلافات ہیں جو مسلمانوں یا مسلمان حکومتوں میں بھی ایک دوسرے میں خلیج پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یا بعض ملک ایسے ہیں جن میں ملک کے اندر ہی اقلیتی فرقے کی حکومت ہے تو اکثریتی فرقہ شدید ردّعمل دکھا رہا ہے جو گولہ بارود کے استعمال پر منتج ہے۔ اقلیتی فرقے کو موقع ملتا ہے تو وہ اکثریت پر حملہ کر دیتا ہے اور اسی بنیاد پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر یا باغیوں کو کچلنے کے نام پر حکومت بھی معصوم جانیں ضائع کر رہی ہے۔ بلا سوچے سمجھے بمباری ہورہی ہے، فائرنگ ہو رہی ہے، گھروں کو تباہ و برباد کیا جا رہاہے۔ اپنے ہی ملک کے ہزاروں مردوں عورتوں کو موت کے منہ میں اتار دیا جاتا ہے۔ شام میں آجکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کا حملہ مسلمانوں کے اس اختلاف اور ایک نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ کوئی اسلامی ملک نہیں ہے جہاں مذہبی اختلاف یا سیاسی اختلاف کی بنا پر تمام اخلاقی قدروں کو پامال نہ کیا جا رہا ہو۔ یا جہاں ایک دوسرے کے خلاف ظلم کی بھیانک داستانیں رقم نہ کی جا رہی ہوں۔ نتیجۃً کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کی طرف سے ظلم ہوتا ہوا تو ہمیں نظر آ ہی رہا ہے، بیرونی اسلامی قوتیں بھی اس کے نتیجہ میں اپنے دائرے اسلامی ممالک پر تنگ کرتی چلی جا رہی ہیں۔ کاش کہ مسلمانوں کو عقل آ جائے اور یہ ایک ہو جائیں۔ اپنے اسلاف سے کچھ سبق سیکھیں، تاریخ ہمیں ان کے متعلق کیا کہتی ہے۔ جب ایک اسلام مخالف بڑی طاقت نے، روم کی حکومت نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے اختلاف کی وجہ سے اسلامی طاقت کو کمزور سمجھتے ہوئے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہؓ کے علم میں جب بات آئی تو اُس بادشاہ کو یہ پیغام بھیجا کہ ہمارے آپس کے اختلافات سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اگر حملہ کیا تو مَیں حضرت علیؓ کی طرف سے پہلا جرنیل ہوں گا جو تمہارے خلاف لڑے گا۔ (البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر جلد 8صفحہ 126سنۃ 60وھذہ ترجمۃ معاویۃ رضی اللہ عنہ وذکر شیء من ایامہ و دولتہ و ما ورد فی مناقبہ و فضائلہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

تو یہ ردّ عمل تھا اُن صحابہ کا جن کی طرف ہم اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ اور آج یہ لوگ مخالفین کے ساتھ مل کر اسلامی حکومتوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر مسلمان بھی ہیں۔ ہاں ایک بات پر ان علماء کا یا نام نہاد علماء کا یا اُس طبقہ کا جو شر پھیلانے والا ہے، اتفاق ہوتا ہے اور وہ مسیح محمدی کی قائم کردہ جماعت کے خلاف منصوبہ بندی یا احمدیوں کو جو لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پر دل و جان سے ایمان اور یقین رکھتے ہیں، زبردستی دائرہ اسلام سے خارج کرنا ہے۔ ان لوگوں کو ذرا بھی یہ خوف نہیں کہ جس نبی کا کلمہ یہ پڑھتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں، جس کے لئے جان و آبرو قربان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اُس کے اس ارشاد پر بھی ذرا غور کریں۔ اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا۔ یہ ایک اصولی حکم ہے اور صرف ایک صحابی کے لئے نہیں تھا کہ کیا تم نے لوگوں کے دل چیر کے دیکھے ہیں کہ یہ دل سے کلمہ پڑھتے ہیں یا اوپر سے اور کسی خوف کی وجہ سے؟ کاش کہ یہ لوگ سمجھ جائیں۔ علماء کہلانے والے اپنے نام نہاد علم کے دعویٰ کے خول سے باہر آئیں۔ عوام الناس کو گمراہ کرنے کے بجائے اُنہیں انصاف اور حق بتانے کی کوشش کریں اور اُس جری اللہ کے ساتھ منسلک ہو کر تمام فرقہ بندیوں کا خاتمہ کر کے ظلم و تعدّی کو ختم کریں۔ اور مذہبی جنگوں کے تصور کو ختم کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مسیح الزمان کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق پھیلا کر دشمن کی طاقت کو ختم کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والے بن جائیں۔ محرّم کے حوالے سے مَیں نے بات شروع کی تھی تو اِس وقت مَیں اُس مسیح الزمان اور مہدی دوران کے چند حوالے آپ کے سامنے پیش کروں گا تا کہ لاکھوں کی تعداد میں اُن احمدیوں کے سامنے یہ بات آجائے، وہ احمدی بھی سن لیں جو نئے شامل ہونے والے ہیں اور وہ بھی جو نوجوان ہیں اور علم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس طرح بزرگوں کی عزت کو قائم کیا، کس طرح صحابہ کے مقام کو پہچانا، کس طرح شیعہ سنّی کے فرق کو مٹایا اور کس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تمام مسلمانوں کو جو روئے زمین پر بستے ہیں ایک ہاتھ پر جمع کر کے اُمّتِ واحدہ بنانے کے طریق سکھائے۔ اسی طرح غیر ازجماعت جو بعض دفعہ ہمارے خطبات سنتے ہیں، باتیں سنتے ہیں، اُن کو بھی پتہ چلے کہ اس زمانہ میں رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی حقیقی تصویر بننے کے لئے سچی تعلیم کیا ہے۔ کچھ غور کریں کہ کب تک مسلمانوں کی کمزور حالت کا رونا رو کر، صرف ظاہری جلسے جلوس کر کے یا پھر دہشت گردی کر کے اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کا فرض اور حق ادا کرنے والا سمجھتے رہیں گے۔ کب تک دشمن کو اپنی بے نتیجہ اور ظالمانہ کارروائیاں کر کے اسلام پر حملے کرنے کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔

پس چاہے مسلمان ممالک کی بد امنی اور بے سکونی اپنے ملکوں میں ایک دوسرے پر ظلم کی وجہ سے ہو یا اسلام دشمن طاقتوں کے مسلمانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہو، اس کا حل اور قیامِ امن کا علاج اور مسلمانوں کے رعب کو دوبارہ قائم کرنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے اُس فرستادہ کے پاس ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقِ صادق اور آپؐ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے مشن کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آپؐ کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو تمام صحابہ کے مقام پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں نے اگر اپنی اکائی منوانی ہے، اپنی ساخت کو قائم کرنا ہے، اسلام کو غیروں کے حملوں سے بچانا ہے، دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے تو پھر شیعہ سنّی کے فرق کو مٹانا ہو گا۔ آپس کے، فرقوں کے، گروہ بندیوں کے فرق کو مٹانا ہو گا۔ اُس اسلام کی تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے جس میں کوئی فرقہ نہیں تھا۔ جس میں ہر صحابی قربانی کی ایک مثال تھا۔ نیکی اور تقویٰ کا نمونہ تھا۔ ایسا ستارہ تھا جس سے روشنی اور رہنمائی ملتی تھی۔ لیکن بعض کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک دوسروں سے بلند بھی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو اللہ تعالیٰ نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بلندی دی ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کا مقام ہے۔ حضرت عثمانؓ کا اور حضرت علیؓ کا مقام ہے۔ حضرت امام حسینؓ اور حسنؓ کا مقام ہے۔ یہ درجہ بدرجہ اسی طرح آتا ہے۔

پس حفظ مراتب کے لحاظ سے صحابہ کے مقام کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہو گا تو ہر قسم کے فساد مٹ جائیں گے اور یہ سب فرق مٹانے کے لئے آخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے اور ہر صحابی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قرابت دار کا مقام ہمیں بتا کر اُن کی عزت و تکریم قائم فرمائی۔

آپؑ ’’سر الخلافۃ‘‘ میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔ یہ عربی میں ہے۔ اس کا ترجمہ اردو میں یہ ہے کہ: ’’مجھے علم دیا گیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ میں بلند ترین شان اور اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور بلا شبہ پہلے خلیفہ تھے اور آپ کے بارہ میں خلافت کی آیات نازل ہوئیں‘‘۔ (سرالخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 337)

پھر سر الخلافۃ کا ہی حوالہ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ: ’’بخدا آپ اسلام کے آدم ثانی اور خیر الانام کے مظہر اول تھے اور گو آپ نبی تو نہ تھے مگر آپ میں نبیوں اور رسولوں کی قوتیں موجود تھیں‘‘۔ (سرالخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 336)

پھر سر الخلافۃ میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ میں سے سب سے زیادہ بہادر اور متقی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ پیارے ہیں اور فتحمند جرنیل ہیں اور سید الکائنات کی محبت میں فنا اور شروع سے ہی آپ کے غمگسار اور آپ کے کاموں میں آپؐ کے مددگار۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تنگی کے زمانے میں ان کے ذریعہ تسلّی دی اور اُنہیں صدّیق کے نام سے مخصوص کیا گیا۔ وہ نبی ٔدوجہان کے مقرب بنے اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ثَانِیَ اثْنَیْنِ کی خلعت سے نوازا اور اپنے خاص بندوں میں شامل کیا۔ (سرالخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 339)

پھر ایک جگہ آپ ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں خلیفۂ اوّل نے جو بڑے ملک التجار تھے مسلمان ہوکر لانظیر مدد کی اور آپ کو یہ مرتبہ ملا کہ صدّیق کہلائے اور پہلے رفیق اور خلیفۂ اوّل ہوئے۔ لکھا ہے کہ جب آپ تجارت سے واپس آئے تھے اور ابھی مکّہ میں نہ پہنچے تھے کہ راستہ میں ہی ایک شخص ملا۔ اس سے پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔ اس نے کہا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تمہارے دوست نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔ ابوبکرؓ نے وہیں کھڑے ہوکر کہا کہ اگر اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو سچا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ 365 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال و متاع خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اور آپ کمبل پہن لیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر اُنہیں کیا دیا۔ تمام عرب کا اُنہیں بادشاہ بنا دیا اور اُسی کے ہاتھ سے اسلام کو نئے سرے زندہ کیا اور مرتد عرب کو پھر فتح کر کے دکھا دیا۔ اور وہ کچھ دیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 286 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے؟ یہاں تک کہ بعض اوقات اُن کی رائے کے موافق قرآنِ شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور اُن کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی اُمّتوں میں محدّث ہوتے رہے ہیں اگر اس امّت میں کوئی محدّث ہے تو وہ عمرؓ ہے‘‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 219)

پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’عمر رضی اللہ عنہ کو بھی الہام ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھا‘‘ (الہام ہوتا تھاکہ مَیں کچھ بن گیا ہوں تو پھر بھی اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھا) ’’اور امامتِ حقّہ جو آسمان کے خدا نے زمین پر قائم کی تھی، اُس کا شریک بننا نہ چاہا۔‘‘ (یعنی کہ جو مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گیا تھا، یہ نہیں کہ الہام ہو گیا تو اُن کا شریک بننے لگ گئے) ’’بلکہ ادنیٰ چاکر اور غلام اپنے تئیں قرار دیا۔ اس لئے خدا کے فضل نے اُن کو نائبِ امامت حقّہ بنا دیا‘‘۔ (یعنی خلافت کی خلعت سے نوازا۔) (ضرورۃ الامام۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 473-474)

پھر’حجۃ اللہ‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں۔ عربی کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسایہ میں دو ایسے آدمی دفن کئے گئے ہیں جو نیک تھے، پاک تھے، مقرب تھے، طیّب تھے اور خدا نے اُن کو زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد اپنے رسول کے رفقاء ٹھہرایا‘‘۔ (یعنی وفات کے بعد بھی ساتھ ہی، قریب ہی دفن ہوئے) ’’پس رفاقت یہی رفاقت ہے جو اخیر تک نبھی اور اس کی نظیر کم پاؤ گے۔ پس اُن کو مبارک ہو جو اُنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ زندگی بسر کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شہر میں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ خلیفے مقرر کئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کنارِ روضہ میں دفن کئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مزار کے بہشت سے نزدیک کئے گئے اور قیامت کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے‘‘۔ (حجۃ اللہ۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 183)

پھر’سرّ الخلافۃ‘ کا ایک حوالہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’میرے ربّ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نیک اور ایمان والے تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور اپنی عنایات کے لئے مخصوص کر لیا۔ … خدا کی قسم اُس نے ابوبکر، عمر اور عثمان ذوالنورین کو اسلام کے دروازے اور خدائی فوج کے ہراول دستے بنا دیاہے‘‘۔ (سرالخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 326-327)

پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’آپ بڑے متقی اور پاک صاف تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے سب سے پیارے اور اچھے خاندان والے تھے اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ غالب خدا کے شیر اور مہربان خدا کے نوجوان تھے۔ بہت سخی اور صاف دل تھے۔ آپ وہ منفرد بہادر تھے جو میدانِ حرب میں اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے تھے خواہ آپ کے مقابل دشمنوں کی ایک فوج ہی کیوں نہ ہوتی۔ آپ نے کسمپرسی کی زندگی بسر کی اور پرہیزگاری میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ آپ مال و دولت عطا کرنے والے، ہمّ و غم دور کرنے والے اور یتیموں، مسکینوں اور پڑوسیوں کی دیکھ بھال کرنے والے پہلے شخص تھے اور مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے‘‘۔ (یہ نہیں کہ صرف یہی پہلے شخص تھے مطلب یہ کہ اُن کا بہت اچھا بڑا مقام تھا) ’’مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے اور آپ تلوار اور نیزہ کی جنگ میں عجائب باتوں کے مظہر تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ شیریں بیان اور فصیح اللسان تھے‘‘۔ (یعنی تقریر میں ایسی فصاحت و بلاغت تھی کہ جس کی کوئی مثال عام آدمیوں میں نہیں )۔ ’’اور آپ کا کلام دلوں کی تہ تک اتر جاتا تھا۔ آپ اپنے کلام کے ذریعہ سے ذہنوں کے زنگ دور کرتے اور اُسے دلیل کے نور سے منور کر دیتے تھے۔ آپ ہر قسم کے اسلوب سے واقف تھے اور جو کوئی کسی معاملے میں صاحب فضیلت ہوتا تھا وہ بھی آپ کی طرف مغلوب کی طرح معذرت کرتا ہوا آتا تھا۔ آپ ہر خوبی اور فصاحت و بلاغت کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو وہ گویا بے حیائی کے رستے پر چل پڑا۔ آپ مجبور کی ہمدردی پر ترغیب دلاتے تھے اور ہر قناعت کرنے والے اور پیچھے پڑ کر مانگنے والے کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے۔ (یعنی قناعت کرنے والے کا خیال بھی رکھتے تھے، جو نہیں بھی مانگنے والا اور جو مانگنے والا ہے چاہے وہ ضدی مانگنے والا ہی ہو اُس کا خیال بھی رکھتے تھے۔ ) آپ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ اسی طرح آپ کاسئہ فرقان سے دودھ پینے میں سبقت لے جانے والوں میں سے تھے۔ آپ کو قرآنِ کریم کے دقیق نکات کی معرفت کا عجیب فہم حاصل ہوا تھا‘‘۔ (جو قرآنِ کریم ہے، اُس کا جو علم ہے وہ علم کا ایک روحانی دودھ ہے، اُس میں آپ بہت بڑا فہم و ادراک رکھنے والے تھے)۔ (سرالخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 358-359)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جب مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی ہے تو اُس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت علیؓ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا، جانبازی کے طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بستر پر باشارئہ نبوی اس غرض سے منہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اُسی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں‘‘۔

فارسی میں آپ فرماتے ہیں کہ ؎

’’کس بہرے کسے سر ندہدجا نفشاند

عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند

(سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 65بقیہ حاشیہ)

یعنی کوئی کسی کے لئے سر نہیں کٹواتا، نہ جان دیتا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جو یہ کام بہت شوق اور خلوص سے کرواتا ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ سے اپنی مشابہت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے علیؓ اور حسینؓ سے ایک لطیف مشابہت ہے اور اس بھید کو مشرق اور مغرب کے ربّ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور یقینا مَیں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت رکھتا ہوں اور اُس سے دشمنی کرتا ہوں جو ان دونوں سے دشمنی رکھتا ہے‘‘۔ (سرالخلافۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 359)

پھر آپ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے بارے میں کہ دونوں کے اپنے اپنے کارنامے تھے، کام تھے اور اپنا ایک مقام تھا، اُن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیاکہ خلافت سے الگ ہو گئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسندنہ کیا کہ اَور خون ہوں اس لیے معاویہ سے گزارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لیے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے‘‘۔ (اگر شیعہ حضرت علی کی اولاد ہی کے بارے میں کہتے ہیں تو حضرت حسن کے بارے میں اتنا زیادہ غلو سے کام نہیں لیا جاتا جتنا حضرت حسین کے بارے میں لیا جاتا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اُس سے خوش نہیں ہوئے) فرمایا ’’ہم تو دونوں کے ثناخواں ہیں‘‘۔ (ہم تو دونوں کی تعریف کرتے ہیں ) ’’اصلی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدّ نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونو کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی۔ یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے۔ وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ سے بھی ترقی ہو جاتی ہے۔ یزید کا بیٹا نیک بخت تھا‘‘۔ (یعنی نیک آدمی تھا۔) (ملفوظات جلد 4صفحہ 579-580ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام اور ایسا ہی اَور جو خدا تعالیٰ کے راستباز اور صادق بندے ہوتے ہیں وہ دنیا میں ایک نمونہ ہو کر آتے ہیں۔ جو شخص اس نمونہ کے موافق چلنے کی کوشش نہیں کرتا لیکن اُن کو سجدہ کرنے اور حاجت روا ماننے کو تیار ہو جاتا ہے‘‘۔ (یعنی غلُوسے کام لیتا ہے۔ اُن کا نمونہ تو نہیں اپناتا ہے لیکن مبالغہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اُن کو سجدہ کرنے لگ جائے اور اپنی حاجتیں پوری کرنے والا سمجھ لے) ’’وہ کبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قدر نہیں ہے بلکہ وہ دیکھ لے گا کہ مرنے کے بعد وہ امام اُس سے بیزار ہو گا۔ ایسا ہی جو لوگ حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یا حضرت امام حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے درجہ کو بہت بڑھاتے ہیں گویا اُن کی پرستش کرتے ہیں وہ امام حسین کے متّبعین میں نہیں ہیں اور اس سے امام حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خوش نہیں ہو سکتے۔ انبیا ء علیہم السلام ہمیشہ پیروی کے لیے نمونہ ہو کرآتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ بدُوں پیروی کچھ بھی نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 535 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) یعنی اصل چیز یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کے اور خاص طور پر انبیاء کے طریق پر چلا جائے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کیونکہ کسی احمدی نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں کوئی بات کی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں آئی، اس پر آپ سخت ناراض ہوئے اور احمدیوں کو فرمایا کہ: ’’واضح ہو کہ کسی شخص کے کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اُس نے خلیفۂ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی، باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔‘‘ فرمایا: ’’مجھے امیدنہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں۔ مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے وِرد تبرّے اور لعن طعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے‘‘ (یعنی مجھے گالیاں نکالتے رہتے ہیں ) ’’اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو۔ جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔ بہر حال مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع، دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا۔ اور جن معنوں کی رُو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے، وہ معنی اُس میں موجودنہ تھے۔ مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے۔ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۔ قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا (الحجرات: 15) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں … جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اُس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اُس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو، سب سے اپنے تئیں دُور تر لے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں۔ دنیا کی محبت نے اُس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اُس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زُہد اور عبادت ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔ اور ہم اُس معصوم کی ہدایت کے اقتدا کرنے والے ہیں جو اُس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اُس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اُس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اُس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے اُن کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ اس دنیا کی آنکھ اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دُور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہّرین میں سے ہے، تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اُس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ اُس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اُس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔ جو شخص مجھے برا کہتا ہے یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الٰہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت ہے۔ ایسے موقع پر درگزر کرنا اور نادان دشمن کے حق میں دعا کرنا بہتر ہے کیونکہ اگر وہ لوگ مجھے جانتے کہ میں کس کی طرف سے ہوں تو ہرگز برا نہ کہتے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 548 تا 550 اشتہار نمبر 263مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیۃ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا کے پیاروں اور مقبولوں کے لئے روحانی آل کا لقب نہایت موزوں ہے۔‘‘ (درود شریف میں پڑھتے ہیں ناں اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ فرمایا کہ روحانی آل کا جو لفظ ہے خدا کے پیاروں اور مقبولوں کے لئے ہے اور وہ اپنے روحانی آل یا اہل بیت کا یعنی حضرت امام حسنؓ حسینؓ کا ذکر کر رہے ہیں کہ) ’’اور وہ روحانی آل اپنے روحانی نانا سے وہ روحانی وراثت پاتے ہیں جس کو کسی غاصب کا ہاتھ غصب نہیں کر سکتا اور وہ اُن باغوں کے وارث ٹھہرتے ہیں جن پر کوئی دوسرا قبضہ ناجائز کر ہی نہیں سکتا۔ پس یہ سفلی خیال بعض اسلامی فرقوں میں اُس وقت آ گئے ہیں جبکہ اُن کی روح مردہ ہو گئی اور اُس کو روحانی طور پر آل ہونے کا کچھ بھی حصہ نہ ملا۔ اس لئے روحانی مال سے لاوارث ہونے کی وجہ سے اُن کی عقلیں موٹی ہو گئیں اور اُن کے دل مکدّر اور کوتَہ بِین ہوگئے۔ اِس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفّت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے‘‘(یعنی ہدایت کے امام تھے)’’اور وہ بلا شبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے…۔ سو اہلِ معرفت اور حقیقت کا یہ مذہب ہے کہ اگر حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفلی رشتہ کے لحاظ سے آل بھی نہ ہوتے تب بھی بوجہ اِس کے کہ وہ روحانی رشتہ کے لحاظ سے آسمان پر آل ٹھہر گئے تھے وہ بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مال کے وارث ہوتے۔ جبکہ فانی جسم کا ایک رشتہ ہوتا ہے تو کیا روح کا کوئی بھی رشتہ نہیں؟ بلکہ حدیث صحیح سے اور خود قرآنِ شریف سے بھی ثابت ہے کہ روحوں میں بھی رشتے ہوتے ہیں اور ازل سے دوستی اور دشمنی بھی ہوتی ہے۔ اب ایک عقلمند انسان سوچ سکتا ہے کہ کیا لا زوال اور ابدی طور پر آلِ رسول ہونا جائے فخر ہے یا جسمانی طور پر آلِ رسول ہونا جو بغیر تقویٰ اور طہارت اور ایمان کے کچھ بھی چیز نہیں۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اہلِ بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرِ شان کرتے ہیں‘‘۔ (یعنی آپ فرما رہے ہیں کہ روحانی آل ہونے کا مقام اُس سے بہت بڑھ کر ہے جتنا کہ جسمانی آل ہونے کا یا اولاد ہونے کا۔) فرمایا: ’’کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرِ شان کرتے ہیں بلکہ اس تحریر سے ہمارا مُدّعا یہ ہے کہ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق صرف جسمانی طور پر آلِ رسول ہونانہیں کیونکہ وہ بغیر روحانی تعلق کے ہیچ ہے‘‘۔ (یعنی یہ اُن کی شان نہیں ہے کہ جسمانی طور پر وہ آل رسول تھے۔ اصل چیز روحانی تعلق ہے۔ پھر فرمایا) ’’اور حقیقی تعلق اُن ہی عزیزوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جو روحانی طور پر اُس کی آل میں داخل ہیں۔ رسولوں کے معارف اور انوار روحانی رسولوں کے لئے بجائے اولاد ہیں جو اُن کے پاک وجود سے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ (یعنی کہ اصل چیز اُن کی تعلیم اور معارف اور اُن کا جو روحانی نور منتشر ہوتا ہے وہ ہے اور وہی اُن کے ماننے والوں میں اصل چیز ہے) ’’اور جو لوگ اُن معارف اور انوار سے نئی زندگی حاصل کرتے ہیں اور ایک پیدائشِ جدید اُن انوار کے ذریعہ سے پاتے ہیں وہی ہیں جو روحانی طور پر آل محمدؐ کہلاتے ہیں‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 364تا366حاشیہ)

پس ہر احمدی، ہر مسلمان اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہے، آپ کے نور سے فیضیاب ہونے والا ہے، آپ کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے و الا ہے تو آلِ محمدؐ میں اُس کا شمار ہو جائے گا۔

پس یہ وہ حقیقی طریق ہے جس پر ہر مسلمان کے لئے چلنا ضروری ہے کہ ہر بزرگ کے مقام کو پہچان کر اُس کی عزت کریں، اُس کا احترام کریں۔ آپس کے جھگڑوں اور فسادوں اور قتل و غارت گری کو ختم کریں۔ بعیدنہیں کہ یہ سب قتل و غارت گری اور فساد جو ہو رہے ہیں، مسلمان مسلمان کو جو قتل کر رہا ہے اس میں اسلام مخالف طاقتوں کا ہاتھ ہو جو مسلمانوں میں گروہ بندیاں کر کے، پیسہ دے کر، رقم خرچ کر کے فساد کروا رہے ہیں یا خود بیچ میں شامل ہو کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اب جو شیعوں پر حملے ہو رہے ہیں یا مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں، ان میں اُن تنظیموں کا ہاتھ ہے جنہیں حکومت دہشتگرد کہتی ہے اور دہشتگردوں کے بارے میں یہ بھی حکومتوں کی رپورٹیں ہیں اور پاکستان میں بھی ہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بعض مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ فساد پیدا کرنے کے لئے باہر سے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُمّت پر رحم کرے اور ان کو ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

احمدیوں کو بھی مَیں کہنا چاہوں گا کہ دوسرے مسلمان فرقے تو ایک دوسرے سے بدلے لیتے ہیں کہ اگر ایک نے حملہ کیا تو دوسرے نے بھی کر دیا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر باوجود تمام تر ظلموں کے جو یہ تمام فرقے اکٹھے ہو کر ہم پر کر رہے ہیں، ہمارے ذہنوں میں کبھی بھی بدلے کا خیال نہیں آنا چاہئے۔ ہاں کسی بات کی اگر ضرورت ہے تو یہ کہ ہم میں سے ہر ایک ہر ظلم کے بعدنیکی اور تقویٰ میں ترقی کرے اور پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے دعاؤں میں لگ جائے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قربانی کا جو عملی نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایا ہے وہ ہمارے لئے رہنما ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ایک شعر میں جماعت کو اس طرح نصیحت فرمائی ہے کہ ؎

وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں

یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو

(کلام محمود۔ مجموعہ منظوم کلام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نظم94صفحہ218)

پس حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہیں، ہمیں صبر و استقامت کا سبق دے کر ہمیں جنت کے راستے دکھا دئیے۔ ان دنوں میں یعنی محرم کے مہینہ میں خاص طور پر جہاں اپنے لئے صبر و استقامت کی ہر احمدی دعا کرے، وہاں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں یہ دعا محفوظ رہنے کے لئے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ درود شریف پڑھنے کے لئے میں نے گزشتہ جمعہ میں بھی کہا تھا پہلے بھی کہتا رہتا ہوں کہ اس طرف بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ دشمن جو ہمارے خلاف منصوبہ بندیاں کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی خاص تائید و نصرت فرمائے اور ہم پر رحم کرتے ہوئے دشمنانِ احمدیت کے ہر شر سے ہر فردِ جماعت کو اور جماعت کو محفوظ رکھے۔ ان کا ہر شر اور منصوبہ جو جماعت کے خلاف یہ بناتے رہتے ہیں یا بنا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہی پر الٹائے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی آل میں شامل فرمائے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اصل مقام روحانی آل کا ہے۔ اگر جسمانی رشتہ بھی قائم رہے تو یہ تو ایک انعام ہے۔ لیکن اگر جسمانی آل تو ہو لیکن روحانی آل کا مقام حاصل کرنے کی یہ جسمانی آل اولاد کوشش نہ کرے تو کبھی اُن برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے منسلک ہونے سے اللہ تعالیٰ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

پس ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی درود شریف پڑھیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس درود سے فیضیاب ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ کس حد تک زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر قرآنِ کریم کی حکومت اپنے سر پر قبول کرنے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ بزرگوں کے مقام کے یہ ذکر اور مخالفینِ احمدیت کی ہم پر سختیاں اور ظلم اور بعض حکومتوں کا ہم پر ان ظلموں کا حصہ بننا ہمیں پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو۔ ہماری قربانیاں سعید فطرت لوگوں کو احمدیت کی آغوش میں لانے والی ہوں اور ہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتوحات کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے اس کا مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا، اس کے لئے بھی بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ معصوم جانوں کو ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔ اسرائیل کے بارے میں اُن کے یہ بیان آ رہے ہیں کہ ہم خوف کی حالت میں نہیں رہ سکتے اس لئے ہم نے فلسطینیوں پر حملہ کیا۔ خود ہی پہلے حملہ کیا، خود ہی اُن کے لوگ مارے، جب انہوں نے جواب دیا تو کہہ دیا یہ ہمارے لئے خوف پیدا کر رہے ہیں۔ یہ عجیب دھونس ہے اور یہ عجیب طریق ہے جو دنیا والے اپنا رہے ہیں، صرف اس لئے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، کہ مسلمانوں کی کوئی اِکائی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان معصوم فلسطینیوں پر بھی رحم کرے اور ان کو ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 23؍ نومبر 2012ء شہ سرخیاں

    آج کل ہم جس اسلامی مہینہ سے گزر رہے ہیں اس مہینہ کا نام محرم الحرام ہے۔ یہ ماہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ عام طور پر جب سال کا پہلا مہینہ آتا ہے، نیا سال شروع ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ لیکن جب قمری سال کا یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو مسلمان شرفاء کی اکثریت جن کو اُمّت کا درد ہے، اس مہینہ کے آنے پر فکر اور خوف کا اظہار شروع کر دیتی ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ ان دنوں میں باوجود حکومتوں کے اعلانوں کے، باوجود مختلف فرقوں کے علماء کے مشترکہ بیانات کے، اعلانات کے یا تو شیعہ سُنّی فساد شروع ہو جاتے ہیں یا کہیں نہ کہیں کسی تعزیہ پر یا امام باڑے پر دوسرے فرقوں کی طرف سے یا شرارتی عنصر کی طرف سے حملہ ہو جاتا ہے۔

    کوئی اسلامی ملک نہیں ہے جہاں مذہبی اختلاف یا سیاسی اختلاف کی بنا پر تمام اخلاقی قدروں کو پامال نہ کیا جا رہا ہو۔ یا جہاں ایک دوسرے کے خلاف ظلم کی بھیانک داستانیں رقم نہ کی جا رہی ہوں۔ نتیجۃً کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کی طرف سے ظلم ہوتا ہوا تو ہمیں نظر آ ہی رہا ہے، بیرونی اسلامی قوتیں بھی اس کے نتیجہ میں اپنے دائرے اسلامی ممالک پر تنگ کرتی چلی جا رہی ہیں۔ کاش کہ مسلمانوں کو عقل آ جائے اور یہ ایک ہو جائیں۔ مسلمان ممالک کی بد امنی اور بے سکونی اپنے ملکوں میں ایک دوسرے پر ظلم کی وجہ سے ہو یا اسلام دشمن طاقتوں کے مسلمانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہو، اس کا حل اور قیامِ امن کا علاج اور مسلمانوں کے رعب کو دوبارہ قائم کرنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے اُس فرستادہ کے پاس ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقِ صادق اور آپؐ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے مشن کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔

    صحابہ ٔ رسول کے مقام و مرتبہ اور ان کی عزت و تکریم سے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پُر حکمت اور بصیرت افروز ارشادات کا تذکرہ۔

    یہ وہ حقیقی طریق ہے جس پر ہر مسلمان کے لئے چلنا ضروری ہے کہ ہر بزرگ کے مقام کو پہچان کر اُس کی عزت کرے، اُس کا احترام کرے۔ آپس کے جھگڑوں اور فسادوں اور قتل و غارت گری کو ختم کریں۔ دوسرے مسلمان فرقے تو ایک دوسرے سے بدلے لیتے ہیں کہ اگر ایک نے حملہ کیا تو دوسرے نے بھی کر دیا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر باوجود تمام تر ظلموں کے جو یہ تمام فرقے اکٹھے ہو کر ہم پر کر رہے ہیں، ہمارے ذہنوں میں کبھی بھی بدلے کا خیال نہیں آنا چاہئے۔

    حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قربانی کا جو عملی نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایا ہے وہ ہمارے لئے رہنما ہے۔

    ان دنوں میں یعنی محرم کے مہینہ میں خاص طور پر جہاں اپنے لئے صبر و استقامت کی ہر احمدی دعا کرے، وہاں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ درود شریف پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دیں۔ جب بھی درود شریف پڑھیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس درود سے فیضیاب ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔

    اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے، اس کے لئے بھی بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ معصوم جانوں کو ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔

    فرمودہ مورخہ 23؍نومبر 2012ء بمطابق 23؍ نبوت 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور