انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں اور تفویض کردہ کاموں کو سر انجام دو

خطبہ جمعہ 12؍ اپریل 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْاالْاَمٰنٰتِ اِلَی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ۔ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا۔ (سورۃ النساء59: )

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقینا بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔

یہ سال جیسا کہ تمام جماعتیں جانتی ہیں، جماعت میں انتخابات کا سال ہے۔ ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔ امراء، صدران اور دوسرے مختلف عہدیداران کے انتخابات کئے جاتے ہیں۔ بعض جماعتوں میں یہ انتخابات شروع بھی ہو چکے ہیں۔ بڑی جماعتوں میں جو مجالسِ انتخابات منتخب ہوتی ہیں، اُن کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ مجالسِ انتخاب پھر اپنے عہدیداران کا انتخاب کرتی ہیں۔ بہرحال جماعت کے انتظامی ڈھانچے کو صحیح رنگ میں چلانے کے لئے جہاں یہ انتخابات ضروری ہیں، وہاں اس کام کو احسن رنگ میں آگے بڑھانے کے لئے، عُہدوں کا حق ادا کرنے کے لئے صحیح افراد کا انتخاب بھی بہت ضروری ہے۔ اور یہ ایسا اہم امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس امر کی طرف مومنین کو توجہ دلائی ہے اور تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ تمہیں کس قسم کے عہدیداران منتخب کرنے چاہئیں اور عہدیداروں کو توجہ دلائی کہ صرف عہدے لینا کافی نہیں بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بنتے ہو۔

یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے، اس میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ اس آیت میں پہلی ذمہ داری رائے دہی کا حق ادا کرنے والوں کی ہے کہ عُہدہ ایک امانت ہے اس لئے تمہاری نظر میں جو بہترین شخص ہے اُس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرو۔ ووٹ دینے سے پہلے یہ جائزہ لو کہ آیا یہ اس عہدہ کا اہل بھی ہے کہ نہیں۔ جس کے حق میں تم ووٹ دے رہے ہو یا ووٹ دینا چاہتے ہووہ اس عہدہ کا حق ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں؟ جتنی بڑی ذمہ داری کسی کے سپرد کرنے کے لئے آپ خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں، اُتنی زیادہ سوچ بچار اور دعا کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ یہ شخص مجھے پسند ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا عزیز ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا برادری میں سے ہے، شیخ ہے، جٹ ہے، چوہدری ہے، سیّد ہے، پٹھان ہے، راجپوت ہے، اس لئے اُس کو ووٹ دیا جائے۔ کوئی ذات پات عہدیدار منتخب کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جواب طلبی صرف عہدیدار کی نہیں کرتا کہ کیوں تم نے صحیح کام نہیں کیا۔ بلکہ ووٹ دینے والے بھی پوچھے جائیں گے کہ کیوں تم نے رائے دہی کا اپنا حق صحیح طور پر استعمال نہیں کیا۔

اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں یہ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا۔ کہ اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔ یہ ووٹ ڈالنے والوں کے لئے بھی ہے کہ اگر تمہیں کسی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا! تیری نظر میں جو بہترین ہے، اُسے ووٹ ڈالنے کی مجھے توفیق عطا فرما۔ اور نیک نیتی سے کی گئی اس دعا کو خدا تعالیٰ جو سمیع و بصیر ہے، وہ سنتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بصیر بھی ہے۔ اُس کی تمہارے عملوں پر گہری نظر ہے۔ خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ دلوں کی پاتال تک سے واقف ہے۔ پس جب مومنین کی جماعت خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے عہدیدار منتخب کرتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ مومنین کا مددگار بھی ہو جاتا ہے۔ جماعتی نظام میں تو ہماری یہ روایت ہے کہ ہر کام سے پہلے ہم دعا کرتے ہیں، دعا سے کام شروع کرتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے بھی دعا کروائی جاتی ہے۔ اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے رہنمائی لیتے ہوئے انتخابات کی کارروائی کی جائے تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے فضلوں اور برکتوں سے نوازتا ہے۔

پس ہر ووٹ دینے والا اپنے ووٹ کی، اپنے رائے دہی کے حق کی اہمیت کو سمجھے۔ ہر قسم کے ذاتی رجحانات یا ذاتی پسندوں اور ذاتی تعلقات سے بالا ہو کر جس کام کے لئے کسی کو منتخب کرنا چاہتے ہیں، اُس کے حق میں اپنی رائے دیں۔ پرانے احمدی تو جانتے ہیں، نئے آنے والوں پر بھی واضح ہونا چاہئے، نوجوانوں پر بھی واضح ہونا چاہئے کہ انتخابات میں رائے دی جاتی ہے۔ حتمی فیصلہ خلیفۂ وقت کی طرف سے ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کسی کے حق میں کثرت کے باوجود بعض وجوہات کی بِنا پر دوسرے کو (عہدیدار) بنا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی واضح ہو کہ بعض مقامی عہدیداروں کے انتخابات کی حتمی منظوری اگر ملکی امیر دیتا ہے تو اُسے قواعد اس کی اجازت دیتے ہیں۔ کثرتِ رائے سے اختلاف کا وہ حق رکھتا ہے لیکن امراء کو کثرتِ رائے کا عموماً احترام کرنا چاہئے اور یہ بات نوٹ کر لیں، خاص طور پر انگلستان اور یورپ کے ممالک اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا کے ممالک کہ مقامی انتخابات میں قواعدنیشنل امیر کو اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ تبدیلی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ لیکن جن ملکوں کے میں نے نام لئے ہیں، اِس دفعہ کے الیکشن کیلئے اگر کوئی تبدیلی کرنی ہو گی تو اس کے لئے بھی مجھ سے پہلے پوچھنا ہو گا۔ یہاں سے منظوری لیں گے۔ امراء خود تبدیلی نہیں کریں گے۔ باقی پاکستان یا بھارت یا جو دیگر ممالک ہیں، وہ حسبِ قواعد مقامی انتخابات کے لئے منظوری کی کارروائی کر سکتے ہیں اور ہر ملک کی جو نیشنل عاملہ ہے اور بعض اور عہدیداران جو ہیں، اُن کی بہرحال یہیں مرکز سے منظوری لی جاتی ہے۔ خلیفۂ وقت سے منظوری لی جاتی ہے۔

اس آیت میں تُؤَدُّوْاالْاَمٰنٰتِ اِلَی اَھْلِھَا(سورۃ النساء59: ) کہا گیا ہے۔ یہ عہدیداران کے لئے بھی ہے۔ بعض عہدے یا بعض کام ایسے ہیں جو بغیر انتخاب کے نامزد کر کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ مثلاً سیکرٹری رشتہ ناطہ ہے، اس کا عہدہ ہے یا خدمت ہے یا بعض شعبوں میں بعض لوگوں کو کام تفویض کئے جاتے ہیں تو امیر جماعت یا صدر جماعت یا متعلقہ سیکرٹری اگر کسی کو ایسے کام دیتے ہیں تو صرف ذاتی پسند اور تعلق پر نہ دیا کریں بلکہ افرادِ جماعت کا تفصیلی جائزہ لیں اور یہ جائزہ لے کر پھر اُن میں سے جو بہترین نظر آئے اُسے کام سپرد کرنا چاہئے ورنہ یہ خویش پروری ہے اور اسلام میں ناپسند ہے۔ لیکن اگر کوئی اپنے کسی دوست یا عزیز کو کوئی کام سپرد کرتا ہے اور اُس کی بظاہر اُس کام کے لئے لیاقت بھی ہے تو پھر بعض لوگ جن کو اعتراض کرنے کی عادت ہے وہ بلا وجہ یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اس نے اپنے قریبی کو فلاں عہدہ دے دیا۔ اُن کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ کسی عہدیدار کا، کسی امیر کا عزیز ہونا یا قریبی ہونا کوئی گناہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اُس شخص کو خدمت سے محروم کر دیا جائے۔ یہ بات مَیں نے اس لئے واضح کر دی کہ بعض لوگوں کی طرف سے اس طرح کے اعتراض آ جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عہدیداروں کو فرمایا ہے کہ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ۔ کہ انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں اور تفویض کردہ کاموں کو سرانجام دو۔ اگر عدل نہیں ہو گا، انصاف نہیں ہو گا، خویش پروری ہو گی یا قرابت داری کا لحاظ رکھا جائے گایا ایک کارکن سے ضرورت سے زیادہ بازپرس اور دوسرے سے بلا ضرورت صَرفِ نظر ہو گی تو انصاف قائم نہیں رہ سکتا۔ اور جب انصاف قائم نہ ہو تو پھر کام میں برکت نہیں پڑتی، پھر اچھے نتائج کے بجائے بدنتائج نکلتے ہیں۔ اسی طرح صرف کام کرنے والوں کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر فردِ جماعت کے ساتھ انصاف پر مبنی تعلقات ہونے چاہئیں اور فیصلے اُس کے مطابق ہونے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ فلاں شخص فلاں کا دوست ہے یا فلاں کا عزیز ہے یا فلاں خاندان کا ہے تو اُس سے اَور سلوک اور دوسرے سے اَور سلوک۔ اگر یہ باتیں ہوں تو یہ چیزیں پھر جماعت میں بے چینی پیدا کرتی ہیں۔ اسی طرح جب خلیفۂ وقت کی طرف سے رپورٹ کے لئے کہا جائے تو پھررپورٹ بھی صحیح ہونی چاہئے کہ حکم توتَحْکُمُوْا بِالْعَدْل کا ہے۔ لیکن خلیفۂ وقت کو اگر غلط رپورٹ ہو گی تو خلیفۂ وقت سے بھی غلط فیصلہ ہو جائے گا اور غلط فیصلہ کروا کر اُسے بھی اپنے ساتھ گنہگار بنا رہے ہوں گے اور خود تو خیر بن ہی رہے ہوں گے۔ پس ہمیشہ جماعتی کاموں میں ان چیزوں کو مدّنظر رکھنا چاہئے۔ ہر کام، ہر خدمت جو دی جائے، اُس کو انتہائی سوچ بچار کر اور ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پس عُہدے کوئی بڑائی نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ دعاؤں کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ سمیع ہے، وہ تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے، خاص طور پر جب خدا تعالیٰ کے حکموں پر پورا اترنے کی دعائیں کی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور شاملِ حال ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح رائے دینے والے پر، ووٹ دینے والے پر گہری نظر رکھنے والا ہے، اُسی طرح عہدیدار پر بھی اُس کی گہری نظر ہے۔ اگر اپنی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے، اگر عدل اور انصاف سے فیصلے نہیں کریں گے، اگر اپنے کاموں کو اُن کا حق ادا کرتے ہوئے نہیں بجا لائیں گے تو پھر خدا تعالیٰ جو ہر چیز کو دیکھ رہا ہے، وہ فرماتا ہے پھر تم پوچھے بھی جاؤ گے۔ تمہاری جواب طلبی ہو گی۔ پس یہ ہر اُس شخص کے لئے بہت خوف کا مقام ہے جس کے سپرد کوئی نہ کوئی خدمت کی جاتی ہے۔ لوگوں کو عُہدوں کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن اگر اُن کو پتہ ہو کہ یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کا حق ادا نہ کرنے پر خدا تعالیٰ کی ناراضگی بھی ہو سکتی ہے اور اُس کی گرفت بھی ہو سکتی ہے تو ہر عہدیدار سب سے بڑھ کر، دوسروں سے بڑھ کر دن اور رات استغفار کرنے والا ہو۔

ہر عہدیدار کو یاد رکھنا چاہئے کہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد یا عہدہ کی منظوری آ جانے کے بعد وہ آزادنہیں ہو گیا۔ بلکہ ایسے بندھن میں بندھ گیا ہے جس کو نہ نبھانے کی صورت میں یا اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق نہ بجا لانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا بھی ہو سکتا ہے۔ ہر عہدیدار نے ہر فردِ جماعت کا حق بھی ادا کرنا ہے اور جماعت کا مجموعی طور پر بحیثیت جماعت بھی حق ادا کرنا ہے۔ کیونکہ ہر عہدیدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ مَیں ایک جماعتی عہدیدار ہوں اور کسی بھی قسم کی میری کمزوری جماعت کو متاثر کر سکتی ہے یا جماعت کے نام کو بدنام کرنے والی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اُسے یہ حق بھی ادا کرنے والا ہونا چاہئے اور پھر اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے دینی حقوق کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کی بھی مثال قائم کرنی چاہئے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، مَیں اس میں جو مرضی کروں۔ جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس لئے مجھے آزادی ہے جو چاہوں مَیں کروں۔ ہر عہدیدار کویہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کی ذات بھی اب ہر معاملے میں جماعتی مفادات کے تابع ہے۔

پس یہ سوچ ہے جو ہر عہدیدار کو پیدا کرنی چاہئے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کو ہی حقِّ رائے دینے والوں کو یا ووٹ دینے والوں کو منتخب کرنا چاہئے۔ یا دوسرے لفظوں میں جن کا تقویٰ کا معیار بلند ہو اُنہیں عہدیدار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہمارا دعویٰ اس زمانے کے امام کو مان کر تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرنے کا ہے، اپنے ذمہ کی گئی امانتوں کا دوسروں سے بڑھ کر حق ادا کرنے کا یہ دعویٰ ہے تو ہمیں بہت فکر سے اپنی جماعتی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ (المؤمنون: 9) ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے سپرد کی گئی امانتوں کو سرسری طور پر ادا نہیں کرنا بلکہ گہرائی میں جا کر تمام باریکیوں کو سامنے رکھ کر اپنے کام سرانجام دینے ہیں۔ پس منتخب کرنے والوں کو بھی ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہئے جو اپنے کاموں میں سنجیدہ ہوں اور منتخب شدہ لوگوں کو بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا ہے سب سے زیادہ اُس کی پابندی عہدیداران کو کرنی چاہئے، چاہے وہ کسی بھی سطح کے عہدیدار ہوں۔ عہدے یا خدمت کرنے کی خواہش کا جذبہ تو جیسا کہ مَیں نے کہا بہت رکھتے ہیں حالانکہ عہدے کی خواہش تو ہونی بھی نہیں چاہئے۔ یہ تو ویسے ہی اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اگر خدمت کا جذبہ ہے اور اس کی خواہش ہے تو پھر جو خدمت سپرد کی جائے یا کوئی عہدہ سپرد کیا جائے تو پھر خدمت کرنے والوں کو، عہدیداروں کو یادرکھنا چاہئے کہ اپنے تمام عہدپورے کئے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ اور عہد کس طرح پورے ہوں گے؟ اور کس معیار سے پورے ہوں گے؟ اور کیا معیار اس کا ہونا چاہئے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں ذکر فرمایا ہے۔ (یعنی آیتِ کریمہ) وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ … جو صرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جو نفسِ امّارہ کی شہوات پر غالب آ گئے ہیں اور اس کے جذبات پر اُن کو فتح عظیم حاصل ہو گئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اور اُس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں تک طاقت ہے اُس راہ پر چلتے ہیں‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 207)

فرمایا: ’’لفظ’’رَاعُوْن‘‘ جو اس آیت میں آیا ہے جس کے معنی ہیں رعایت رکھنے والے۔ یہ لفظ عرب کے محاورہ کے موافق اُس جگہ بولا جاتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کسی امر کی باریک راہ پر چلنا اختیار کرتا ہے اور اس امر کے تمام دقائق بجا لانا چاہتا ہے‘‘۔ (یعنی باریک ترین پہلو بجا لانا چاہتا ہے)۔ ’’اور کوئی پہلو اُس کا چھوڑنا نہیں چاہتا۔ پس اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ وہ مومن جو … حتی الوسع اپنی موجودہ طاقت کے موافق تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارتے ہیں اور کوئی پہلو تقویٰ کا جو امانتوں یا عہد کے متعلق ہے، خالی چھوڑنا نہیں چاہتے اور سب کی رعایت رکھنا اُن کا ملحوظِ نظر ہوتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طور پر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دے دیں‘‘۔ (اپنے آپ کو امین سمجھیں یا وعدے پورے کرنے والا قرار دے دیں ) ’’بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ در پردہ اُن سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو۔ پس طاقت کے موافق اپنے تمام معاملات میں توجہ سے غور کرتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اندرونی طورپر اُن میں کوئی نقص اور خرابی ہو اور اسی رعایت کا نام دوسرے لفظوں میں تقویٰ ہے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 207-208)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’خلاصہ مطلب یہ کہ وہ مومن جو … اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہیں، خواہ مخلوق کے ساتھ بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آ جاویں اپنی امانتوں اور عَہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقویٰ کی دُور بین سے اُس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ در پردہ اُن کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو۔ اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی اُن کے پاس ہیں جیسے تمام قویٰ اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اُس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی اُن کے پاس ہوں یا ایسی چیزیں جو امانتوں کے حکم میں ہوں، اُن سب میں تا بمقدور تقویٰ کی پابندی سے کاربند ہوتے ہیں۔ اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مدّ نظر رکھ کر اُس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ گو اس فیصلہ میں نقصان اُٹھا لیں …‘‘۔

فرمایا: ’’…انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوش نما خط وخال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں، جن میں ظاہری طورپر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محلِّ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا، یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآنِ شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتّی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کاربند ہو جائے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 208 تا 210)

پس جب تک تقویٰ کے معیار اونچے نہیں ہوں گے، اُس وقت تک اپنی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ یہ امانتیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، خدا تعالیٰ کی بھی ہیں اور بندوں کی بھی۔ اور ایک عہدیدار خاص طورپر دونوں طرح کی امانتوں کا امین متصور ہوتا ہے اور ہے۔

پس مَیں پھر افرادِ جماعت کو، جنہوں نے اپنے عہدیدار منتخب کرنے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے، اُن کے حق میں رائے دیں جو دونوں طرح کی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر طرح جماعت کا تقویٰ کا معیار بھی بلند ہو۔ جب ہر ووٹ دینے والے کا تقویٰ کا معیار بلند ہو گا تبھی یہ حالت ہو گی۔ پس جماعت کے ہر فرد کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

عہدیدار جیسا کہ مَیں نے کہا، افرادِ جماعت نے منتخب کرنے ہیں اور افرادِ جماعت میں سے منتخب ہونے ہیں، اس لئے وہ چند خوبیاں جو ہم میں سے ہر ایک میں بحیثیت مومن ہونی چاہئیں اور خاص طور پر عہدیداروں میں ہونی چاہئیں، اُن کا مَیں ذکر کر دیتا ہوں۔ عَہدوں کی پابندی کی بات ہے تو سب سے پہلے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر جماعت میں عَہدوں کی پابندی کا معیار بلند ہو گا تو عہدیداروں کا عَہدوں کی پابندی کا معیار بھی بلند ہو گا۔ بندوں کے حقوق میں سے جن کی ادائیگی میں کمزوری ہے، وہ اپنے معاہدوں کو پورا نہ کرنا ہے یعنی معاہدوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے حقوق ادا نہیں ہوتے۔ اس کے لئے اگر اپنے پر سختی بھی برداشت کرنی پڑے تو برداشت کر لینی چاہئے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے اور حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بہت سے کاروباری معاہدے ہوتے ہیں، اعتراض کرنے والے دوسرے پر تو فوراً اعتراض کر دیتے ہیں لیکن اپنے معاملات صاف نہیں ہوتے جس سے معاشرے میں فساد کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسلام ایک امن پسند دین ہے، ایک امن پسند مذہب ہے۔ جتنا زیادہ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے، اتنا ہی مسلمانوں میں بد عہدی اور فتنہ و فساد کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اور معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اس کا اثر ہم احمدیوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

عہد صرف باہر کے کاروباری عہدنہیں ہیں، بلکہ ہر جگہ کے عہد ہیں، باہر بھی اور اندر بھی۔ گھریلو سطح پر بھی۔ میاں بیوی کی شادی کا بندھن ہے، یہ بھی ایک معاہدہ ہے۔ اس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ جماعتی کاموں کو بڑے احسن رنگ میں انجام دیتے ہیں، کئی دفعہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، لیکن گھروں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ بھی اپنے، عَہدوں سے روگردانی ہے، یا اُن کی پابندی سے روگردانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ گرفت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا (سورۃ بنی اسرآئیل: 35) یعنی ہر عہد کی نسبت یقینا ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے نیک آدمی کی یہ نشانی بتائی ہے، صحیح مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا (سورۃ البقرۃ: 178) جب وہ عہد کریں تو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ پس ہر احمدی نے اگر اپنے نیک عہدیدار منتخب کرنے ہیں تو ہر سطح پر اپنے بھی جائزے لینے ہوں گے کہ کس حد تک وہ خود اپنے عَہدوں کو پورا کرنے والے ہیں۔ کس حد تک وہ خود اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک خوبصورت معاشرے کے لئے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ وَلَا تَلْمِزُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ  (الحجرات: 12) تم ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارو۔

اب یہ صرف طعن ہی تَلْمِزُوْا کا مطلب نہیں ہے۔ اس کے وسیع معنے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عہدیدار اپنے جذبات پر بھی کنٹرول نہیں رکھتے۔ بعض دفعہ کام کے لئے آنے والوں کو یا اپنے ساتھیوں کو بھی ایسی باتیں سناتے ہیں جو اُن کو جذباتی ٹھیس پہنچانے والی ہیں۔ اور پھر بعض دفعہ کمزور ایمان والے نہ صرف یہ کہ عہدیدار کے خلاف ہو جاتے ہیں بلکہ نظامِ جماعت سے بھی بددل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’تَلْمِزُوْا‘‘۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کے مختلف معنی ہیں۔ مثلاً دھکے دینا، کسی کو مجبور کرنا، مارنا یا کسی پر الزام لگانا، غلط قسم کی تنقید کرنا، کسی کی کمزوریاں اور کمیاں تلاش کرنا۔ غلط قسم کی باتیں کسی کو کہنا یا کسی سے اس طرح بات کرنا جو اُسے بری لگے۔ پس اگر عہدیدار اِن باتوں کا خیال نہ رکھیں گے تو سوائے اس کے کہ جس شخص سے یہ سلوک کیا جا رہا ہو، اُس کے دل میں اُس عہدے دار اور نظامِ جماعت کے خلاف جذبات پیدا ہوں اور کیا ہو گا۔

اسی طرح ’’تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ‘‘ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ بجائے اس کے کہ تم کسی کو ایسے ناموں سے پکارو جو اُسے پسندنہیں ہیں، ہر ایک سے عزت و احترام سے پیش آؤ۔ پس یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جو ایک عہدیدار میں ہونی چاہئے۔ ویسے تو یہ عموم کا حکم ہے۔ ہر مومن کو اس بات کا پابند ہونا چاہئے کہ اُس کا کردار معاشرے میں محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنے والا ہو لیکن عہدیداروں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔

پھر عہدیدار کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ جماعتی اموال کو خاص طور پر بہت احتیاط سے خرچ کریں۔ کسی بھی صورت میں اسراف نہیں ہونا چاہئے۔ اسی لئے خاص طور پر وہ شعبے جن پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کے بجٹ بھی بڑے ہیں، اُنہیں صرف اپنے بجٹ ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ کوشش ہو کہ کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ضیافت کا شعبہ ہے، لنگر کا شعبہ ہے یا جلسہ سالانہ کے شعبہ جات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لنگر اب دنیا میں تقریباً ہر جگہ پھیل چکا ہے۔ اور جلسہ سالانہ کا نظام بھی دنیا میں پھیل چکا ہے۔ ہر دو شعبوں کے نگرانوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر بجٹ میں گنجائش بھی ہو تو جائزہ لے کر کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہی امانت کے حق ادا کرنے کا صحیح طریق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مال کے آنے کی یا اُس کی فراوانی کی کوئی فکر نہیں تھی، صحیح خرچ کرنے والوں کی فکر تھی۔ پس امراء اور متعلقہ عہدیداران اس بات کا خاص خیال رکھیں۔ پھر ایک عہدیدار کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہئے، گو کہ ہر مومن کی یہ نشانی ہے لیکن جن کے سپرد جماعتی ذمہ داریاں کی جاتی ہیں اُن کا سب سے بڑھ کر یہ کام ہے کہ لغویات سے پرہیز کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المؤمنون: 4) یعنی مومن وہ ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ اور مومنین میں سے جو بہترین ہیں اُن کا معیار تو بہت بلند ہونا چاہئے کہ وہ ہر طرح کی لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں۔ نہ فضول گفتگو ہو، نہ ایسی مجلسیں ہوں جن میں بیٹھ کر ہنسی ٹھٹھا کیا جا رہا ہو۔ بعض عہدیداران بھی ہوتے ہیں جو آپس میں بیٹھتے ہیں اور دوسروں کے متعلق باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ہنسی ٹھٹھا کیا جا رہا ہوتا ہے۔ پس ان سے بچنا چاہئے۔ اور نہ ہی ایسی مجلسوں میں عہدیداروں کو شامل ہونا چاہئے جہاں دینی روایات کا خیال نہ رکھا جا رہا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اس کے یہی معنی ہیں کہ مومن وہی ہیں جو لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرتے ہیں۔ اور لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خدا تعالیٰ کے تعلق کا موجب ہے۔ گویا لغو باتوں سے دل کو چھڑانا خدا سے دل کو لگا لینا ہے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 199-200)

پس تقویٰ کا معیار بھی تبھی بلند ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخل بھی ایک ایسا اظہار ہے جو کسی مومن کو زیب نہیں دیتا۔ عہدیدار اسراف سے تو بچیں، خرچوں میں اعتدال تو رکھیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بخیل اور کنجوس ہو جائیں۔ جہاں ضرورت ہو اور جائز ضرورت ہو، وہاں خرچ کرنا بھی چاہئے۔ لیکن یہ نہ ہو کہ کسی کے لئے تو بہت کھلا ہاتھ رکھ لیا اور کسی کے لئے ہاتھ بالکل بند ہو جاتے ہیں۔ عہدیدار کی خاص طور پر ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہئے کہ کَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ (آل عمران: 135) غصّہ پر قابو ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خاص حکم دیا ہے کہ بیشک بعض دفعہ بعض حالات میں غصہ کا اظہار ہو جاتا ہے لیکن غصہ کو دبانے والے ہوں۔ جہاں جماعتی مفاد ہو گا، وہاں بعض دفعہ اصلاح کی غرض سے غصہ دکھانا بھی پڑتا ہے۔ لیکن ذرا ذرا سی بات پر غصہ میں آنا اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی عزت کا خیال نہ رکھنا یہ ایک عہدیدار کے لئے کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے، نہ ہونا چاہئے۔ بلکہ ایک اچھے عہدیدار کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہئے کہ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(سورۃ البقرۃ: 84)۔ کہ لوگوں سے نرمی سے، ملاطفت سے، بشاشت سے ملو۔ اگر عہدیداروں کے ایسے رویے ہوں تو بعض جگہوں سے عہدیداروں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں وہ خود بخود ختم ہو جائیں۔ پھر ایک عہدیدار کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اُس کا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ حسنِ سلوک ہو۔ جماعت کے عہدے کوئی دنیاوی عہدے تو نہیں ہیں کہ افسران اور ماتحت کا سلوک ہو۔ ہر شخص جو جماعت کی خدمت کرتا ہے چاہے وہ ماتحت ہو، ایک جذبے کے تحت جماعت کے کام کرتا ہے۔ پس افسران کو اور عہدیداران کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنا چاہئے۔ اگر غلطی ہو تو پیار سے سمجھائیں، نہ کہ دنیاوی افسروں کی طرح سختی سے باز پرس ہو۔ ہاں اگر کوئی اس قدر ڈھٹائی دکھا رہا ہے کہ جماعتی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو پھر اُس کو مناسب طریق سے جو بھی تنبیہ ہے وہ کریں یا باز نہیں آتا تو پھر اُس سے کام نہ لیں۔ بالا افسران کو اطلاع دیں۔ بیشک فارغ کر دیں۔ لیکن ایسی فضا پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ بلا وجہ دفتروں میں یا کام کرنے والی جگہوں پر گروہ بندی کی صورتحال پیدا ہو جائے۔

عہدیداروں میں اعلیٰ اخلاق کے اوصاف میں سے مہمان کی عزت کا وصف بھی ہونا چاہئے۔ یہ بھی ایک اعلیٰ خلق ہے۔ ہر شخص جو عہدیدار کو ملنے آتا ہے، اُس کے دفتر میں آتا ہے، اُس سے عزت و احترام سے ملنا چاہئے اور عزت و احترام سے بٹھانا چاہئے۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔ اگر دفتر میں آیا ہے تو کھڑے ہو کر ملنا چاہئے۔ یہ اخلاق منتخب عہدیداران کے لئے بھی ہیں اور مستقل جماعت کے کارکنان کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اس سے عزت بڑھتی ہے، کم نہیں ہوتی۔

پھر عہدیداروں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تواضع اور عاجزی بھی ہے۔ اور یہ عاجزی ایک احمدی کو بھی، عموماً عام آدمی کو بھی اپنی فطرت کا خاصہ بنانی چاہئے۔ لیکن ایک عہدیدار کو تو خاص طور پر اپنے اندر تواضع اور عاجزی پیدا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْاَرْضِ مَرَحًا(سورۃ بنی اسرآئیل: 38)۔ کہ اور تم زمین میں تکبر سے مت چلو۔ ایک عام انسان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کو تکبر پسندنہیں۔ تو جو لوگ خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی خدمات پیش کر رہے ہوں اُن کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کو تکبر پسندنہیں ہو سکتا۔ پس اس خصوصیت کو ہمارے تمام عہدیداروں کو زیادہ سے زیادہ اپنانا چاہئے اور ہر ملنے والے سے انتہائی عاجزی سے ملنا چاہئے۔

پھر یہ بھی خاص طورپر وہ عہدیدار جن کے سپرد فیصلوں کا کام ہے، لوگوں کے درمیان صلح صفائی کروانے کا کام ہے، اصلاحی کمیٹیاں ہیں یا قضاء ہے یاد رکھیں کہ یہ جواللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَی (المائدۃ: 9)۔ انصاف کرویہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اس کو یاد رکھنا چاہئے۔ پس ہر فیصلہ انصاف پر ہونا چاہئے۔ بعض دفعہ بعض فیصلے میرے سامنے آتے ہیں، مَیں نے دیکھا ہے کہ گہرائی میں جا کر اُس پر غور نہیں ہوا ہوتا۔ اس طرح جن کے متعلق فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے اُن میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ جو فیصلہ کیا گیا ہے اگر اُس کے بارے میں شریعت کا کوئی واضح حکم ہے جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے تو پھر وہ واضح طور پر لکھا جانا چاہئے کہ شریعت کا کیونکہ یہ حکم ہے اس لئے اس کی رُو سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر قاضیوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جن علاقوں میں خاص طور پر ضرورتمند اور غرباء ہیں اُن کا خیال رکھا جائے اور اپنے وسائل کے مطابق اُن کی دیکھ بھال کرنا بھی متعلقہ امراء اور عہدیداران کا کام ہے۔ اس بارے میں یہ ضروری نہیں کہ درخواستیں ہی آئیں۔ خود بھی جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ یہ امراء اور صدران کے فرائض میں داخل ہے۔

ایک بہت بڑی ذمہ داری ہر امیر کی، ہر صدر جماعت کی، ہر عہدیدار کی تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(سورۃ آل عمرآن: 111) ہے کہ نیکی کی ہدایت کرنا اور بدی سے روکنا۔ پس تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر کو ہمیشہ ہر عہدیدار کو یاد رکھنا چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہر عہدیدار خود اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنے قول و فعل کو ایک نہیں کرتا۔ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں کرتا۔ تقویٰ کے اُن راستوں کی تلاش نہیں کرتا جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ اور تقویٰ کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ صرف چندنیکیاں بجا لانا یا چند برائیوں سے رکنا، یہ تقویٰ نہیں ہے۔ بلکہ تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی سے رکنا، یہ تقویٰ ہے۔

پس یہ معیار ہیں جو حاصل کر کے ہم نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے بن سکتے ہیں اور امانت کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ افرادِ جماعت کو بھی، تمام عہدیداران کو بھی، جو منتخب ہو چکے ہیں یا منتخب ہونے والے ہیں، اور منتخب ہو کر آئیں گے اور مجھے بھی اپنی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 12؍ اپریل 2013ء شہ سرخیاں

    یہ سال جماعت میں انتخابات کا سال ہے۔ امراء، صدران اور دوسرے مختلف عہدیداران کے انتخابات کئے جاتے ہیں۔ بعض جماعتوں میں یہ انتخابات شروع بھی ہو چکے ہیں۔ جماعت کے انتظامی ڈھانچے کو صحیح رنگ میں چلانے کے لئے جہاں یہ انتخابات ضروری ہیں، وہاں اس کام کو احسن رنگ میں آگے بڑھانے کے لئے عُہدوں کا حق ادا کرنے کے لئے صحیح افراد کا انتخاب بھی بہت ضروری ہے۔

    اگر تمہیں کسی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا تیری نظر میں جو بہترین ہے، اُسے ووٹ ڈالنے کی مجھے توفیق عطا فرما۔ جب مومنین کی جماعت خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے عہدیدار منتخب کرتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ مومنین کا مددگار بھی ہو جاتا ہے۔

    ہر ووٹ دینے والا اپنے ووٹ کی، اپنے رائے دہی کے حق کی اہمیت کو سمجھے۔ ہر قسم کے ذاتی رجحانات یا ذاتی پسندوں اور ذاتی تعلقات سے بالا ہو کر جس کام کے لئے کسی کو منتخب کرنا چاہتے ہیں، اُس کے حق میں اپنی رائے دیں۔ بعض مقامی عہدیداروں کے انتخابات کی حتمی منظوری اگر ملکی امیر دیتا ہے تو اُسے قواعد اس کی اجازت دیتے ہیں۔ کثرتِ رائے سے اختلاف کا وہ حق رکھتا ہے لیکن امراء کو کثرتِ رائے کا عموماً احترام کرنا چاہئے۔ تاہم اس دفعہ کے الیکشن کے لئے انگلستان اور یورپ کے ممالک اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا کے ممالک کے مقامی انتخابات میں بھی اگر کوئی تبدیلی کرنی ہو گی تو اس کے لئے بھی مجھ سے پہلے پوچھنا ہو گا۔ امراء خود تبدیلی نہیں کریں گے۔

    امیر جماعت یا صدر جماعت یا متعلقہ سیکرٹری اگر کسی کو ایسے کام دیتے ہیں تو صرف ذاتی پسند اور تعلق پر نہ دیا کریں۔ بلکہ افرادِ جماعت کا تفصیلی جائزہ لیں اور یہ جائزہ لے کر پھر اُن میں سے جو بہترین نظر آئے اُسے کام سپرد کرنا چاہئے۔

    انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں اور تفویض کردہ کاموں کو سر انجام دو۔ جب انصاف قائم نہ ہو تو پھر کام میں برکت نہیں پڑتی، پھر اچھے نتائج کے بجائے بدنتائج نکلتے ہیں۔ ہر فردِ جماعت کے ساتھ انصاف پر مبنی تعلقات ہونے چاہئیں اور فیصلے اس کے مطابق ہونے چاہئیں۔ ہر عہدیدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ مَیں ایک جماعتی عہدیدار ہوں اور کسی بھی قسم کی میری کمزوری جماعت کو متاثر کر سکتی ہے یا جماعت کے نام کو بدنام کرنے والی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اُسے یہ حق بھی ادا کرنے والا ہونا چاہئے اور پھر اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے دینی حقوق کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کی بھی مثال قائم کرنی چاہئے۔ ہر عہدیدار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کی ذات بھی اب ہر معاملے میں جماعتی مفادات کے تابع ہے۔

    منتخب کرنے والوں کو بھی ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہئے جو اپنے کاموں میں سنجیدہ ہوں اور منتخب شدہ لوگوں کو بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا ہے سب سے زیادہ اُس کی پابندی عہدیداران کو کرنی چاہئے، چاہے وہ کسی بھی سطح کے عہدیدار ہوں۔ جب تک تقویٰ کے معیار اونچے نہیں ہوں گے اُس وقت تک اپنی امانتوں اور عُہدوں کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔

    یہ امانتیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، خدا تعالیٰ کی بھی ہیں اور بندوں کی بھی۔ اور ایک عہدیدار ان دونوں طرح کی امانتوں کا امین ہے۔

    تمام احمدیوں اور بالخصوص عہدیداروں میں جن خوبیوں کا ہونا نہایت اہم اور ضروری ہے ان سے متعلق قرآن کریم اور حضرت اقد س مسیح موعو د علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں نہایت اہم تاکیدی نصائح۔

    فرمودہ مورخہ 12اپریل 2013ء بمطابق 12 شہادت 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور