قولِ سدید

خطبہ جمعہ 21؍ جون 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْداً۔ یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً۔ (الاحزاب: 71۔ 72)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، یقینا اس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا۔

ان آیات میں خدا تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ قول سدید اختیار کرو۔ صاف اور سیدھی بات کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ قول سدید یہ ہے کہ ’’وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو۔ اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرِ مُو دخل نہ ہو۔‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1صفحہ209-210حاشیہ نمبر11)

پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ’’اے وے لوگو! جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور وہ باتیں کیا کرو جو سچی اور راست اور حق اور حکمت پر مبنی ہوں۔‘‘ (ست بچن روحانی خزائن جلد10صفحہ231)

پھر فرماتے ہیں کہ: ’’لغو باتیں مت کیا کرو۔ محل اور موقع کی بات کیا کرو۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10صفحہ337)

ان تمام ارشادات میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ کا حصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اُس وقت ممکن ہے جب ہر حالت میں، مشکل میں بھی اور آسانی میں بھی، فیصلہ کرتے ہوئے بھی، یعنی کسی کے ذمہ اگر کوئی فیصلہ لگایا گیا ہے اُس وقت فیصلہ کرتے ہوئے بھی اور گواہی دیتے ہوئے بھی، گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بات چیت اور معاملات میں بھی اور رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ معاملات میں بھی، کاروبار میں کوئی چیز خریدتے ہوئے بھی اور بیچتے ہوئے بھی، ملازمت میں اگر کوئی ملازم ہے کسی جگہ وہاں کام کرتے ہوئے، اپنی سچائی کو ہمیشہ قائم رکھو اور جس کے پاس ملازم ہو اُس کے ساتھ معاملات میں بھی سچائی کو قائم رکھو۔ غرض کہ روزمرہ کے ہر کام میں اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے منہ پر ایسی بات آئے جو بالکل سچ ہو۔ اُس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ یعنی ایسا ابہام جس سے ہر ایک اپنی مرضی کا مطلب نکال سکے۔ ایسی سچائی ہو کہ اگر اس سچائی سے اپنا نقصان بھی ہوتا ہو تو برداشت کر لو لیکن اپنی راستگوئی اور سچائی پر حرف نہ آنے دو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ روز مرہ کے معاملات میں اگر ذرا سی غلط بیانی ہو بھی جائے تو فرق نہیں پڑتا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرق پڑتا ہے، تمہارے تقویٰ کا معیار کم ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ تقویٰ کا معیار کم ہوتے ہوئے ایک وقت میں غلط بیانی اور جھوٹ کے قریب تک تمہیں لے جائے۔ یا سچائی سے انسان بالکل دور ہو جائے اور جھوٹ میں ڈوب جائے اور پھر خدا تعالیٰ سے دور ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وجہ سے کہ سچائی پر قائم نہیں ایک انسان ردّ کر دیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مومن ہو تو تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ قولِ سدید پر قائم رہو۔

فرمایا کہ قولِ سدید کا یہ بھی معیار ہے کہ جو الفاظ منہ پر آئیں وہ معقولیت بھی رکھتے ہوں۔ یہ نہیں کہ جو اُول شلول ہم نے سچ بولنا ہے، ہم نے بول دینا ہے۔ بعض دفعہ بعض باتیں سچی بھی ہوتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کہی بھی جائیں۔ وہ معقولیت کا درجہ نہیں رکھتیں۔ فتنہ اور فساد کا موجب بن جاتی ہیں۔ کسی کا راز دوسروں کو بتانے سے رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ تعلقات میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ایک بات ایک موقع پر ایک جگہ پر معقول نہیں، لیکن دوسرے موقع اور جگہ پر یہ کرنی ضروری ہو جاتی ہے۔ مثلاً خلیفۂ وقت کے پاس بعض باتیں لائی جاتی ہیں جو اصلاح کے لئے ہوں۔ پس اگر ایسی بات ہو تو گو ہر جگہ کرنے والی یہ نہیں ہوتی لیکن یہاں آ کر وہ معقولیت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ پس ایک ہی بات ایک جگہ فساد کا موجب ہے اور دوسری جگہ اصلاح کا موجب ہے۔

پھر معقولیت کی مزید وضاحت بھی فرما دی کہ کسی قسم کی لغو اور فضول بات قولِ سدید کے نام پر نہ ہو۔ بعض لوگ بات تو صحیح کر دیتے ہیں، اپنے زُعم میں اصلاح کے نام پر بات پہنچاتے ہیں لیکن اُس میں اپنی طرف سے وضاحت کے نام پر حاشیہ آرائی بھی کر دیتے ہیں۔ یہ پھر قولِ سدیدنہیں رہتا بلکہ بعض حالات میں قولِ سدید کا خون ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک صحیح بات ایک آدھ لفظ کی حاشیہ آرائی سے اصلاح کرنے والوں کے سامنے، یا بعض دفعہ اگر میرے سامنے بھی آ رہی ہو تو حقیقت سے دُور لے جاتی ہے اور نتیجۃً اصلاح کا صحیح طریق اپنانے کے بجائے غلط طریق اپنایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں اصلاح کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً بعض دفعہ اصلاح نرمی سے سمجھانے یا صَرفِ نظر کرنے یا پھر معمولی سرزنش کرنے سے بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک غلط لفظ فیصلہ کرنے والے کو سخت فیصلہ کرنے کی طرف لے جاتا ہے جس سے بجائے اصلاح کے نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ حق کے ساتھ، سچائی کے ساتھ حکمت بھی مدّنظر رہنی چاہئے۔ اگر حکمت ہو گی تو تبھی قولِ سدید بھی ہو گا۔ اور حکمت یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور امن کا قیام ہر سطح پر ہو، یہ مقصود ہو نہ کہ فساد۔

پس اس حکمت کو مدّنظر رکھتے ہوئے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، موقع اور محل کی مناسبت سے بات ہونی چاہئے۔ یعنی ہر سچی بات حکمت کے بغیر اور موقع اور محل کو سامنے رکھے بغیر کرنا قولِ سدیدنہیں ہے۔ یہ پھر لغویات اور فضولیات میں شمار ہو جائے گا۔ اور یہ صورتِ حال بجائے ایک انسان کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنا سکتی ہے۔ پس ایک مومن کو تقویٰ پر چلتے ہوئے قولِ سدید کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر باریکی سے اس بات پر نظر ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے انسان پر پڑتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے۔‘‘ یعنی جو باریکیاں ہیں تقویٰ کی اُن کو سامنے رکھنا چاہئے۔ ’’سلامتی اسی میں ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنا دیں گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہوکر‘‘ پھر ایسا انسان ’’ہلاک ہو جائے گا‘‘۔ فرمایا: ’’تم اپنے زیرِ نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لئے دقائقِ تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 442 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ’’سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے‘‘ بہت مشکل کام ہے۔ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے بعض دفعہ سچی بات کہنا بھی انسان کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ فرمایا کہ: ’’متقی کے لئے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ (الطلاق: 3۔ 4) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے۔ لیکن حصولِ تقویٰ کے لئے نہیں چاہئے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے، ملے گا۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ تقویٰ اختیار کرو، جو چاہو گے وہ دے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ90۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

بہر حال تقویٰ مدّنظر ہو تو پھر آگے ہر کام انسان کا چلتا ہے، چاہے وہ سچائی ہے یا دوسرے اعمال ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اور یہ قولِ سدید کا حکم تو ایسا ہے کہ اس پر معاشرے کے امن کی بنیاد ہے۔ معاشرے کی اصلاح کی بنیاد اس پر ہے۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح جو مرد اور عورت کے بندھن کا اسلامی اعلان ہے اور آئندہ نسل کے جاری ہونے کا ایک سلسلہ ہے، اس میں ان آیات کو شامل فرمایا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب خطبۃ النکاح حدیث1892)۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اس کا دائرہ صرف گھر تک محدودنہیں ہے بلکہ پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس سے معاشرے میں فساد بھی پیدا کیا جا سکتا ہے اور امن اور سلامتی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پس اس پر جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے اُس طرح عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ پھر اگلی آیت میں فرماتا ہے کہ تمہاری تقویٰ کی باریک راہوں کی تلاش کی کوشش، اور قولِ سدید کی جزئیات پر قائم رہنے کی کوشش تمہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائے گی۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا۔ سچائی کے اختیار کرنے سے تمہارے سے پھر نیک اعمال ہی سرزد ہوں گے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، قولِ سدید کی وجہ سے تم لغو باتوں سے بھی پرہیز کرنے والے بن جاؤ گے۔ لغو بات سے پرہیز بذاتِ خود پھر نیک اعمال کی طرف لے جاتا ہے۔ برائیوں سے دور کرتا ہے۔ ایک بڑی مشہور حدیث ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں۔ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کہ ’’آج تم یہ عہد کر لو کہ تم نے ہمیشہ سچائی پر قائم رہنا ہے، جھوٹ کبھی نہیں بولنا‘‘ اگر اس پر عمل کرتے رہے تو فائدہ ہو گا۔ تمہاری برائیاں چھٹ جائیں گی۔ تو اس نے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی تمام چھوٹی بڑی برائیوں اور گناہوں سے چھٹکارا پا لیا۔ (التفسیرالکبیر لامام رازیؒ جزء16صفحہ176تفسیر سورۃ التوبۃ زیر آیت نمبر119دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

اور جب انسان برائیوں اور گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ اور فعل اُس کو اعمال کے اصلاح کی توفیق دیتا ہے۔ اور یوں وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے جو اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں کہ جو نیک اعمال اب سرزد ہو رہے ہیں اُنہی کا اجر ہے، بلکہ تقویٰ پر چلنے والے، سچائی پر قائم ہونے والے اپنے گزشتہ گناہوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش کروا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف تمہارے اعمال کی اصلاح نہیں ہو گی بلکہ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُم۔ تمہارے گزشتہ گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے رہے، تقویٰ پر قائم رہے، نیکیاں کرنے کی توفیق پاتے رہے، فتنہ و فساد سے بچے رہے، اُن تمام احکام پر عمل کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے مومن کو حقیقی مومن بننے کے لئے دئیے ہیں، جن کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تاکیداً اس طرح توجہ دلائی ہے کہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل کرو گے تو حقیقی مومن کہلاؤ گے۔ (ماخوذ ازکشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ26)۔ اور حقیقی مومن بننے کے نتیجہ میں آئندہ یہ گناہ بھی پھر معاف ہو جائیں گے۔ یہ نہیں کہ آئندہ گناہ انسان کرتا جائے اور خدا تعالیٰ معاف کرتا جائے گا، بلکہ نیک اعمال کی وجہ سے، اصلاحِ نفس کی وجہ سے گناہوں سے دُوری ہوتی چلی جائے گی۔ استغفار کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے گناہوں کے خلاف انسان کو طاقت ملتی ہے۔

پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُم‘‘ تو اس کا یہی مطلب ہے کہ گزشتہ گناہوں سے بخشش اور آئندہ گناہوں کے خلاف طاقت ملتی ہے جس سے پھر اعمالِ صالحہ کا ایک جاری اور مسلسل عمل جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ فوزِ عظیم ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے۔

پس فوزِ عظیم کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی کامل اطاعت ضروری ہے۔ اپنی زندگی کو اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔ اس پر عمل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے طاقت مانگنا ضروری ہے۔ اور یہ طاقت استغفار سے ملتی ہے۔ جب یہ طاقت ملے گی تو پھر نیک اعمال بھی سرزد ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نیک اعمال کی طرف رہنمائی بھی فرماتا رہے گا۔ اور پھر ایسے انسان کا اُن حقیقی مومنوں میں شمار ہو گا جو سچائی پر قائم رہنے والے اور سچائی کو پھیلانے والے ہوں گے۔ اُن لوگوں میں شمار ہو گا جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والے مومنین ہیں۔ پس تقویٰ فوزِ عظیم تک لے جاتا ہے اور فوزِ عظیم حاصل کرنے والے متقی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! اپنی زندگی کا یہ مقصد بناؤ اگر حقیقی مومن بننا ہے۔ پس یہ چیزیں ہیں جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اور اقتباسات پیش کروں گا جو سچائی کے اظہار کے بارے میں ہیں کہ کس طرح ہونا چاہئے، کیسے موقعوں پر ہونا چاہئے، اس کی مختلف حالتیں کیا ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اصل بات یہ ہے کہ فراست اچھی چیز ہے۔ انسان اندر ہی اندر سمجھ جاتاہے کہ یہ سچا ہے،‘‘۔ کسی کی بات کوئی کر رہا ہو، اگر فراست ہو تو سمجھ جاتا ہے۔ فرمایا کہ: ’’سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے۔ وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے، وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاکدامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اُس کے حاسدنہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔‘‘ شیطان تو ساتھ لگا ہوا ہے، لیکن اگر انسان کے اندر سچائی ہے، اپنا معاملہ اللہ سے صاف ہے تو پھر کوئی فکر نہیں۔ فرمایا کہ ’’خدا کو راضی کرے، پھر کسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے۔‘‘ فرمایا کہ’’ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی موردِ عذاب ہو جاوے۔‘‘ خود انسان غلطیوں میں پڑے تو تبھی عذاب آتا ہے، تبھی سزا ملتی ہے۔ اگر انسان سچائی پر قائم رہے، نیکیوں پر قائم رہے، اعمالِ صالحہ بجا لانے والا ہو، برائیوں سے بچنے والا ہو تو پھر یہ چیزیں نہیں آتیں۔ لیکن یہ سب کچھ خودنہیں حاصل ہوتا۔ فرمایا: ’’مگر یہ سب کچھ بھی تائیدِ غیبی اور توفیقِ الٰہی کے سوا نہیں ہو سکتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی تائید ہو گی، اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو تبھی ہو گا۔ اور پھر اُس کے لئے وہی استغفار اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھکنا ہے۔ فرمایا کہ ’’صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو۔‘‘ انسان بہت کچھ کرتا ہے کہ مَیں یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا اور دینی معاملات میں تو بالکل ہی انسانی کوشش نہیں بنا سکتی۔ اللہ کا فضل ہو تو دین کی خدمت کی بھی توفیق ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے۔ پھر فرمایا: ’’صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً۔ (النساء: 29) انسان ناتواں ہے، غلطیوں سے پُر ہے، مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیداتِ غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے۔‘‘ (ملفوظات جلد5 صفحہ543۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ دین میں بھی، دنیا میں بھی مشکلات آتی ہیں۔ ہر جگہ اگر سچائی پر قائم ہو گے، تقویٰ پر قائم ہو گے، اپنے اعمال پر نظر ہو گی تو یہ مشکلات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ سچ کا اظہار مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔ بعض دفعہ عملاً یہ بھی ہوتا ہے لیکن اگر اپنا ظاہر و باطن ایک ہو تو پھر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ مشکلات بھی غائب ہو جاتی ہیں اور یہ صرف دشمنوں کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ اپنوں سے بھی سچ کا اظہار مشکلات میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اپنوں میں بھی کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ تقویٰ کی کمی ہوتی ہے۔ اس لئے انسان بعض دفعہ اپنوں سے بھی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً دنیا میں آجکل انتخابات ہو رہے ہیں۔ مجھے بعض شکایات آتی ہیں کہ ہم نے فلاں کو ووٹ دیا یا فلاں عہدیدار نے پوچھا کہ تم نے فلاں کو کیوں اپنی رائے دی، اُس کو ووٹ کیوں دیا؟ اب جماعتی انتخابات تو ایسے ہیں کہ ہر ایک آزاد ہے، کسی کو پوچھنے کا حق نہیں۔ اگر کسی نے سچائی سے اپنے خیال میں کسی کو بہتر سمجھتے ہوئے ووٹ دیا تو کسی عہدیدار کا حق نہیں بنتا کہ جا کے اُسے پوچھا جائے کہ تم نے کیوں فلاں کو دیا، فلاں کو کیوں دیا؟ یہی اگر انسان میں کمزوری ہو، اپنی بعض غلطیاں ہوں تو ایک دفعہ یہ سچائی کا اظہار ہو جائے تو اگلی دفعہ پھر سچائی کا اظہار نہیں کرتا، کہیں میری غلطیاں اور کمزوریاں نہ پکڑی جائیں۔ یا تقویٰ کی کمی ہو، جیسے بعض لوگ اظہار کر دیتے ہیں کہ ہمیں فکر ہے کہ یہ عہدیدار پھر ہمارے خلاف اپنے دلوں میں رنجشیں نہ رکھیں۔ یہ تقویٰ کی کمی ہے، سچائی کی کمی ہے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر حق سمجھتے ہوئے کسی نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو پھر سچائی یہی ہے، تقویٰ یہی ہے کہ بے فکر رہے۔ ہاں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ سے اُس کا فضل مانگتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گا تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی چل رہی ہوتی ہے اور ایسی رنجشیں رکھنے والوں کو خود بھی اللہ تعالیٰ بعض دفعہ پکڑتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ جماعتی نظام کوئی ایسا ہے جس میں جس کا جو دل چاہے، کرتا چلا جائے۔ کہیں نہ کہیں کسی پکڑ میں انسان آ جاتا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اگرچہ عام نظر میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے بھی قائل ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زبان سے تصدیق کرتے ہیں۔ بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ روحانیت بالکل نہیں رہی۔ اور دوسری طرف اُن اعمالِ صالحہ کے مخالف کام کرنا ہی شہادت دیتا ہے کہ وہ اعمال، اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں کئے جاتے بلکہ رسم اور عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں کیو نکہ ان میں اخلاص اور روحانیت کا شمّہ بھی نہیں ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ان اعمالِ صالحہ کے برکات اور انوار ساتھ نہیں ہیں۔ خوب یادرکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہو گا اور یہ اعمال کام نہ آئیں گے۔ اعمال صالحہ اُسی وقت اعمال صالحہ کہلاتے ہیں جب ان میں کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ صلاح کی ضد فساد ہے۔ صالح وہ ہے جو فساد سے مبرّا منزہ ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ499۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جواب طلبیاں شروع ہو جائیں، لوگوں کو خوفزدہ کیا جانے لگے تو یہ بھی فساد کے زُمرہ میں آتا ہے۔ پس یہ انسان کو ہر وقت اپنے مدّنظر رکھنا چاہئے، اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اعمالِ صالحہ انہوں نے بجا لانے ہیں۔ اور اعمالِ صالحہ یا اپنے اعمال کی اصلاح اُس وقت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے متقیوں کی یہ نشانی رکھی ہے، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والوں کی یہ نشانی رکھی ہے کہ ہر عمل، چاہے وہ نیک عمل ہو، عملِ صالح نہیں بن جاتا جبتک کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ عملِ صالح نہ ہو۔ اور اس کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں عملِ صالح بنانے کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی ضرورت ہے، اُس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے، استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کا فی ہے یا نرا اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ کہہ دینا ہی کافی ہے۔ مگر یادرکھو زبانی لا ف وگزاف کا فی نہیں ہے۔ خواہ انسان زبان سے ہزار مر تبہاَسْتَغْفِرُ اللّٰہ کہے یا سو مرتبہ تسبیح پڑھے اس کا کو ئی فائدہ نہیں ہو گا کیو نکہ خدا نے انسان کو انسان بنا یا ہے، طوطا نہیں بنا یا۔ یہ طوطے کا کام ہے کہ وہ زبان سے تکرار کرتا رہے اور سمجھے خاک بھی نہیں۔ انسان کا کام تو یہ ہے کہ جو کچھ منہ سے کہتا ہے اس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عملدرآمد بھی کرے۔ لیکن اگر طوطے کی طرح بولتا جاتا ہے تو یادرکھو نری زبان سے کو ئی برکت نہیں ہے۔ جب تک دل سے اس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں وہ نری باتیں سمجھی جائیں گی جن میں کو ئی خوبی اور برکت نہیں کیو نکہ وہ نرا قول ہے خواہ قرآنِ شریف اور استغفار ہی کیو ں نہ پڑھتا ہو۔ خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے۔ اس لیے بار بار یہی حکم دیا ہے کہ اعمالِ صالحہ کرو۔ جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جا سکتے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا ہے۔ لیکن کو ئی ان سے پو چھے کہ اس سے کیا فائد ہ ہوا؟ نِری زبان سے تم نے کا م لیا مگر باقی اعضاء کو بالکل چھوڑدیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اعضاء اس لیے بنا ئے ہیں کہ ان سے کام لیا جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے کیو نکہ ان کی تلاوت نراقول ہی قول ہوتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ611۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس اعمال کی اصلاح صرف ظاہری طور پر علم سے نہیں ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ اُس وقت اپنے وعدے کے مطابق اصلاح کرتا ہے جب سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا خوف سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش ہو۔ جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شامل ہونے کے لئے یا اپنی جماعت میں شامل ہونے والوں کی جو نشانی بتائی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل کرتے ہیں۔ کسی علم اور کسی خاص مقام کے ہونے کا آپ نے ذکر نہیں فرمایا۔ پس ہمیں، ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے موافق اپنا چال چلن نہیں بنا تا ہے وہ ہنسی کرتا ہے کیو نکہ پڑھ لینا ہی اللہ تعالیٰ کا منشاء نہیں۔ وہ تو عمل چاہتا ہے۔ اگر کو ئی ہرروز تعزیراتِ ہند کی تلاوت تو کرتا رہے مگر ان قوانین کی پابندی نہ کرے بلکہ ان جرائم کو کرتا رہے اور رشوت وغیرہ لیتا رہے توایسا شخص جس وقت پکڑا جاوے گا تو کیا اس کا یہ عذر قابل سماعت ہو گا کہ مَیں ہر روز تعزیرات کو پڑھا کرتا ہوں؟ یا اس کو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جرم کیا ہے۔‘‘جو قانون جانتا ہے، جو ملکی قانون کو پڑھتا رہتا ہے، صرف قانون پڑھنے سے سزا معاف نہیں ہو جاتی۔ اگر قانون پڑھ رہا ہے اور جرم کر رہا ہے تو فرمایا کہ اُس کو تو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جرم کیا ہے۔ ’’اس لیے ایک سال کی بجائے چار سال کی سزا ہو نی چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ611۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’غرض نری باتیں کام نہ آئیں گی۔ پس چاہئے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو دکھ پہنچائے تا خدا تعالیٰ کو راضی کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تواللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا۔ اس نے جو وعدہ فر مایا ہے کہ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الْاَرْضِ۔ (الرعد: 18)‘‘ یعنی جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہو وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ ’’یہ بالکل سچ ہے۔ عام طور پر بھی قاعدہ ہے کہ جو چیز نفع رساں ہو اس کو کو ئی ضائع نہیں کرتا۔ یہانتک کہ کو ئی گھوڑا بیل یا گائے، بکری اگر مفید ہواور اس سے فائدہ پہنچتا ہو، کون ہے جو اس کو ذبح کر ڈالے لیکن جب وہ ناکارہ ہو جاتا ہے اور کسی کام نہیں آسکتا تو پھر اس کا آخری علاج ہی ذبح ہے۔‘‘ پس یہ غور کرنے والے فقرات ہیں۔ فرمایا کہ ایسا ذبح ہی ہو جاتا ہے اور پھر جو ذبح کرنے والا سمجھ لیتا ہے، مالک سمجھ لیتا ہے کہ اور نہیں تو دو چار روپے کی کھال ہی بِک جائے گی اور گوشت کام آجائے گا۔ ’’اسی طرح پر جب انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں کسی کام کا نہیں رہتا اور اس کے وجود سے کو ئی فائدہ دوسرے لوگوں کو نہیں ہو تا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ خس کم جہاں پاک کے موافق اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ612-611۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ہر ایک کو، ہر احمدی کو، ہر عہدیدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں نے زیادہ سے زیادہ دوسرے کو کس طرح فائدہ پہنچانا ہے اور فائدہ پہنچانا ہی ہر ایک کے پیشِ نظر ہونا چاہئے۔ یہ اعزاز، یہ عہدہ، یہ خدمت کافائدہ تبھی ہے جب دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی سوچ ہو، نیک نیتی ہو، اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ ہو اور سچائی پر قائم رہنے والا انسان ہو، تقویٰ پر چلنے والا ہو۔

فرمایا: ’’غرض یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ نری لاف وگزاف اور زبانی قیل وقال کو ئی فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو اور ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء سے نیک عمل نہ کئے جاویں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف بھیج کر صحابہؓ سے خد مت لی۔ کیا انہوں نے صرف اسی قدر کا فی سمجھا تھا کہ قرآن کو زبان سے پڑھ لیا یا اس پر عمل کر نا ضروری سمجھا تھا؟ انہوں نے تو یہاں تک اطاعت و وفا داری دکھا ئی کہ بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے اور پھر انہوں نے جو کچھ پایا اور خدا تعالیٰ نے ان کی جس قدر قدر کی وہ پوشیدہ بات نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ612۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ اللہ تعالیٰ کی قدر ہے جس کی ہمیں تلاش کرنی چاہئے۔

آپ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھا ؤ ورنہ نکمّی شئے کی طرح تم پھینک دئیے جاؤ گے۔ کو ئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھا ل سنبھال کر رکھتے ہو۔ لیکن اگر گھرمیں کو ئی چوہا مرا ہوا دکھا ئی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دوگے۔ اسی طرح پر خدا تعا لیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ عزیزر کھتا ہے۔ ان کی عمر دراز کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک بر کت رکھ دیتا ہے۔ وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بے عزتی کی موت نہیں مارتا۔ لیکن جو خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کی بے حرمتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کرے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن جاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہرو۔ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ اُن میں اور اُن کے غیروں کے درمیان ایک فر قان رکھ دیتا ہے۔ یہی راز انسان کے برکت پا نے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بچتا ر ہے۔ ایسا شخص جہاں رہے وہ قابل قدر ہو تا ہے کیو نکہ اس سے نیکی پہنچتی ہے۔ وہ غریبوں سے سلوک کرتا ہے، ہمسایوں پر رحم کرتا ہے، شرارت نہیں کرتا، جھوٹے مقدمات نہیں بناتا، جھوٹی گو اہیاں نہیں دیتا، بلکہ دل کو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہو تا ہے اور خدا کا ولی کہلاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ612۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے سچائی پر قائم رہنے والا بنائے۔ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کی کامل اطاعت کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے۔ ہمیشہ ہمارے سے وہ اعمال سرزد ہوں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم جذب کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے، ہم حقیقت میں اُس مقصد کو حاصل کرنے والے بھی ہوں اور آپ کے مددگار بھی ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ہمیشہ ہم پر رہے۔

آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے۔ لاہور پاکستان میں، ہمارے ایک احمدی بھائی کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے کچھ کوائف پیش کرتا ہوں پھر نمازِ جنازہ بھی انشاء اللہ جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا۔ ان شہید بھائی کا نام مکرم جواد کریم صاحب ہے جو مکرم کریم احمد دہلوی صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ گرین ٹاؤن ضلع لاہور میں رہتے تھے۔ 17؍جون کو چار نا معلوم افرادنے مکرم جواد کریم صاحب ابن مکرم کریم احمد صاحب کے گھر کے اندر گھس کر فائرنگ کر کے ان کو شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جو تفصیلات ہیں ان کے مطابق یہ گرین ٹاؤن لاہور میں اپنے مکان کی اوپر کی منزل میں رہائش پذیر تھے اور نچلی منزل میں ان کے بڑے بھائی امتیاز عدنان صاحب رہتے تھے اور والدہ بھی رہتی تھیں۔ کہتے ہیں رات تقریباً پونے آٹھ بجے کے قریب چار نامعلوم افراد گھر میں آئے۔ دوباہر کھڑے رہے اور دو اندر گیراج میں چلے گئے اور وہاں شاید انہوں نے کریم صاحب کو بلایا۔ بہر حال گیراج والوں کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ اسی اثناء میں ایک حملہ آور نے ان پر فائر کیا اور گولی دل پر لگی اور آر پار ہو گئی۔ شور سن کے ان کے بھائی بھی جو نچلی منزل میں تھے، باہر نکلے تو حملہ آوروں نے ہوائی فائر کیا اور یہ کہتے ہوئے کہ اب تمہاری باری ہے وہاں سے چلے گئے، فرار ہو گئے۔ ہسپتال لے جایا گیا لیکن اس سے پہلے راستے میں ہی انہوں نے جامِ شہادت نوش فرما لیا۔

شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑنانا حضرت حکیم محمد حسین صاحب آف بلوگڑ دہلی بھارت کی بیعت سے ہوا تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے۔ ان کے پڑدادا اعجاز حسین صاحب مرحوم نے خط کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی لیکن دستی بیعت کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس طرح ان کے جو پڑنانا تھے وہ صحابی تھے۔ ان کے دادا مکرم بابو نذیر احمد صاحب دہلی میں لمبا عرصہ امیر جماعت رہے ہیں۔ شہید مرحوم کی عمر تینتیس سال تھی۔ وصیت کے بابرکت نظام میں شامل تھے۔ اپنا کاروبار کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہیں، ان کا اپنا کلینک ہے۔ کلینک کے انتظامی معاملات بھی شہید مرحوم کے ہی سپرد تھے۔ انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے۔ چھوٹوں بڑوں کا ادب کرنے کا ان میں خاص امتیاز تھا۔ مخلص انسان تھے۔ ہر کسی سے تعاون کرتے تھے۔ ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ان کا گھر لمبے عرصے تک نماز سینٹر بھی رہا۔ چھوٹی عمر سے ہی زعیم حلقہ تھے، پھر مقامی طور پر بھی اور ضلع کی حیثیت میں بھی خدام الاحمدیہ کے کام کرتے رہے۔ والدہ مرحومہ نے شہادت کے دن ذکر کیا کہ جواد کریم نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا تھا کہ چند لوگ مجھے مار رہے ہیں اور بڑا بھائی میرے پاس کھڑا ہے، مجھے نہیں بچاتا۔ تو موقع پر بھی اس طرح ہی ہوا کہ جب ان پر فائرنگ ہو رہی تھی بڑا بھائی باہر نکلا اور بچا نہیں سکا۔ ایک لحاظ سے اس طرح بھی خواب پوری ہو گئی۔

چندہ کے معاملے میں بھی بہت کھلے دل کے تھے اور دوسروں کو بھی تحریک کیا کرتے تھے۔ اپنے بھائی کو شہادت سے ایک دن قبل کہا کہ یاد رکھو کہ اگر مَیں فوت ہو جاؤں تو میرا حساب کتاب صاف ہے اور میں بقایا دار نہیں ہوں۔ میں نے سارا حساب صاف کر دیا ہے۔ صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ ہمارے حلقے کے ایک ممبر جو چندے کی ادائیگی میں ذرا سست تھے، شہید مرحوم نے مسلسل ان سے رابطہ رکھا اور نہ صرف ان کو چندے کے معاملے میں چست کیا بلکہ نظامِ وصیت میں بھی شامل کروایا۔ شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ ہیں اور تین چھوٹے بچے ہیں، جن کی عمریں یہ ہیں، بیٹی ہے ھبۃ الجواد، چھ سال کی ہے۔ اور طلحہ جواد تین سال، اور صفوان جواد چار ماہ۔ ان کے ایک بھائی ہیں۔ شہادت کے وقت ان کی والدہ زندہ تھیں لیکن تدفین کے لئے جب ان کا جنازہ ربوہ لے جایا گیا تو پیچھے سے والدہ کو بھی ہارٹ اٹیک ہوا۔ اُن کی بھی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ رضیہ کریم دہلوی صاحبہ جو حکیم محمد احمد دہلوی صاحب مرحوم کی صاحبزادی تھیں، شہید مرحوم بیٹے کی شہادت کے کچھ دیر بعد، جب ربوہ جنازہ پر گئے ہوئے تھے، ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی بھی وفات ہو گئی۔ رضیہ کریم صاحبہ کے والدین دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پہلے خانیوال میں رہے، پھر شادی ہوئی تو یہ لاہور آ گئیں۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں۔ سکول میں ہیڈ مسٹرس تھیں۔ ریٹائر تھیں۔ 1947ء میں ان کی پیدائش ہوئی تھی اور یہ اپنے حلقے کی سیکرٹری اصلاح و ارشا د بھی تھیں۔ اور اپنے بچوں کو بھی جماعتی کاموں میں آگے لانے میں ان کا بہت ہاتھ تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے۔ اور شہید مرحوم اور ان کی والدہ کی جو اولاد ہے اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور جماعت سے ان کا پختہ تعلق قائم کرے۔ میں نے تعزیت کا پیغام جب بھیجا تھا تو شہید مرحوم کے جو ایک بھائی ہیں، انہوں نے کہا کہ جماعت کے لئے تو ہماری جان ہر وقت حاضر ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے میں کوئی کسی قسم کی بھی بزدلی پیدا نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت بھی رکھے اور جہاں جرأت عطا فرمائے وہاں اپنے فضل سے ہی اپنی حفاظت کے حصار میں ان سب کو رکھے۔

جیساکہ میں نے کہا جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ جنازہ غائب ادا کروں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 21؍ جون 2013ء شہ سرخیاں

    اگر مومن ہو تو تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ قولِ سدید پر قائم رہو۔ کسی قسم کی لغو اور فضول بات قولِ سدید کے نام پر نہ ہو۔ اگر حکمت ہو گی تو تبھی قولِ سدید بھی ہو گا۔ ہر سچی بات حکمت کے بغیر اور موقع اور محل کو سامنے رکھے بغیر کرنا قولِ سدیدنہیں ہے۔

    ایک مومن کو تقویٰ پر چلتے ہوئے قولِ سدید کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

    قولِ سدید کا حکم تو ایسا ہے کہ اس پر معاشرے کے امن کی بنیاد ہے۔ معاشرے کی اصلاح کی بنیاد اس پر ہے۔

    اگر سچائی پر قائم ہو گے، تقویٰ پر قائم ہو گے، اپنے اعمال پر نظر ہو گی تو یہ مشکلات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔

    مکرم جواد کریم صاحب ابن مکرم کریم احمد دہلوی صاحب آف لاہور کی شہادت۔ شہید مرحوم کی والدہ مکرمہ رضیہ کریم صاحبہ کی وفات۔ ہر دو مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 21جون 2013ء بمطابق 21احسان 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور