جلسہ سالانہ کے مقاصد عالیہ اور احباب جماعت کو اہم نصائح

خطبہ جمعہ 28؍ جون 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کو آج سے اپنے جلسہ سالانہ کے انعقاد کی توفیق مل رہی ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ تین دن تک جاری رہے گا۔ دنیا کے بعض اور ممالک خاص طور پر امریکہ اور کبابیر وغیرہ کے بھی جلسے ان دنوں میں ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے امراء نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہی دنوں میں ہمارا بھی جلسہ ہو رہا ہے، اس لئے ہمارا بھی ذکر کر دیا جائے۔ اس وقت امریکہ میں تو بہت صبح ہو گی۔ کبابیر میں بھی جمعہ کا وقت شاید گزر چکا ہو۔ امریکہ کا جمعہ تو اس وقت شایدپانچ یا چھ گھنٹے کے بعد شروع ہو گا۔ تاہم آخری دن یعنی اتوار کو اُن کا اختتام کا وقت بھی تقریباً یہی ہے جب یہاں انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ کا اختتام ہو رہا ہو گا۔ تو اس لحاظ سے وہ بھی جلسہ کے اختتامی خطاب اور دعا میں شامل ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ایک ہی دنوں میں مختلف ممالک کے جلسوں کا انعقاد اس لحاظ سے فائدہ مند بھی ہو جاتا ہے کہ لائیو (Live) خطبات سے مختلف ممالک کے لوگ جو اپنے ملکوں کے جلسوں کے لئے جمع ہوتے ہیں، استفادہ کر لیتے ہیں، ان میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور جماعت کی ایک بڑی تعداد تک خلیفۂ وقت کی بات پہنچ جاتی ہے۔ بیشک دنیا میں جماعت کا ایک خاصہ حصہ جلسوں کے لائیو پروگرام کو سنتاہے۔ لیکن پھر بھی میرے اندازے کے مطابق ایک بہت بڑی تعداد ہے جو نہیں سن رہی ہوتی۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا امریکہ والے یا بعض اور جگہوں کے احمدی جن کے ہاں ان دنوں میں جلسے ہو رہے ہیں، آخری دن کے جلسے میں شامل ہو جائیں گے، لیکن آج جمعہ پر بھی بہت سوں کی توجہ ہو گی۔ بیشک اُن ممالک کے وقت سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن کیونکہ جلسہ کی نیت سے اکثر لوگ آئے ہوتے ہیں، بلکہ جلسہ میں شامل ہی جلسے کی نیت سے ہوتے ہیں، اس لئے اپنے اپنے وقتوں کے مطابق جہاں بھی ہوں، خطبہ یا تقریریں سن لیتے ہیں۔ یعنی عام حالات کی نسبت زیادہ بڑی تعداد یہ سن لیتی ہے۔

آج کے خطبہ میں مَیں جلسہ سالانہ کے حوالے سے جلسہ کے مقاصد کے بارے میں یاددہانی کروانا چاہتا ہوں۔ یعنی وہ مقاصد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے بیان فرمائے ہیں۔ یاددہانی کی ضرورت رہتی ہے تا کہ جلسے کے دنوں میں خاص توجہ رہے اور بعد میں بھی ان باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت کے مطابق ان کا اظہار ہر احمدی کے عمل سے ہوتا رہے۔ اس بات کا انحصار بھی انسان کی اپنی توجہ پر ہے کہ کتنی دیر توجہ قائم رہتی ہے۔ آجکل کیونکہ دنیا کے دوسرے کاموں اور بکھیڑوں میں بھی انسان پڑا ہوا ہے اس لئے اکثر دنیا داری غالب آ جاتی ہے جس سے فرائض اور نوافل کی ادائیگی میں سستی پیدا ہو جاتی ہے۔ جلسوں میں شامل ہونے کے بعد بعض احمدی مجھے لکھتے ہیں کہ جلسے کے تین دنوں میں ہماری کایا پلٹ گئی ہے۔ یہ تین دن تو یوں گزرے جیسے ہم کسی اَور ہی دنیا میں تھے۔ ایک خاص روحانی ماحول تھا۔ دعا کریں کہ بعد میں بھی یہ حالت قائم رہے۔ تو بہر حال یہ حالت ہے جو جلسے کے دنوں میں غالب ہوتی ہے اور اس کا اثر ہر شامل ہونے والے پر ہوتا ہے۔ اور ہر ایک کی ایمانی حالت کے مطابق یہ اثر رہتا ہے۔ بعض تو جلسہ کے فوراً بعد یہ بھول جائیں گے اور بھول جاتے ہیں کہ جلسے کی تقریریں سننے کے دوران ہم نے اپنے آپ سے کیا کیا عہد کئے تھے۔ اپنے خدا سے عہد کئے تھے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں گے۔ بعض چند دن اس اثر کو قائم رکھیں گے۔ بعض چند ہفتے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو چند مہینے تک یہ اثر قائم رکھیں گے۔ یہ حقائق ہیں جن سے ہم آنکھیں نہیں پھیر سکتے۔ اور چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اس نیک ماحول کا اثر سالوں رہتا ہے۔ پس اکثریت کیونکہ تھوڑا عرصہ اثر رکھتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بار بار نصیحت کرنے کا بھی فرمایا ہے۔ بار بار ایسے ماحول کے پیدا کرنے کا کہاہے جو مومنوں کو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ اُن کو اپنے عملوں کی خودنگرانی کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسوں کا اجراء فرما کر ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ جس سے ہمیں اپنی اصلاح کا اور روحانی غذا کے حصول کاایک اجتماعی موقع مل جاتا ہے۔ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا، اب مَیں اس وقت جلسہ کے مقاصد اور اس کی غرض و غایت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں ہی کچھ کہوں گا۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ جلسہ پر آنے والوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک احمدی کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ مَیں شروع کروں انتظامیہ مجھے رپورٹ دے کہ آخر تک آواز صحیح جا رہی ہے؟ یا آخر میں جو بیٹھے ہوئے ہیں کوئی ہاتھ کھڑا کر کے بتا دیں کہ آواز ٹھیک ہے؟اچھا ٹھیک ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی اُن میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 394)

ان چند فقرات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک حقیقی احمدی کے لئے زندگی کا پورا لائحہ عمل بیان فرما دیا ہے۔ فرمایا کہ جلسہ میں شامل ہونے والوں میں ایسی تبدیلی ہو کہ وہ زُہدمیں ایک نمونہ ہوں۔ انسان اگر غور کرے تو اس ایک لفظ میں ہی اتنی بڑی نصیحت ہے کہ برائیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو دنیاوی تسکین کے سامان سے روکنا، دنیاوی خواہشات سے روکنا، اپنے جذبات کو، غلط جذبات کو ابھرنے سے روکنا۔ اس طرح روکنا کہ تمام دروازے ان خواہشات کے بند ہو جائیں تا کہ خواہش پیدا ہی نہ ہو۔

اب اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جو خدا تعالیٰ نے چیزیں پیدا کی ہیں ان سے انسان مکمل طور پر قطع تعلق تو نہیں کر سکتا۔ تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس طرح روک لو کہ دنیا سے کٹ جاؤ۔ زُہد یہ ہے کہ دنیا کی ان چیزوں کی جو ناجائز خواہشات ہیں، اُن سے اپنے آپ کو روک لو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی تحدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ان سے فائدہ نہ اُٹھانا بھی خدا تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ نے یہ عہد کیا کہ ہم روزے ہی رکھتے رہیں گے۔ روزانہ روزے رکھیں گے۔ شادی نہیں کریں گے۔ عورت کے قریب نہیں جائیں گے۔ ساری ساری رات نمازیں ہی پڑھتے رہیں گے۔ جب آپ کے علم میں یہ بات آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں روزے بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ دوسرے دنیاوی کام اور گھر کے کام کاج بھی کر لیتا ہوں۔ عورتوں سے نکاح بھی کیا ہے۔ پس جو شخص مجھ سے منہ موڑے گا، وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ فرمایا کہ یاد رکھو کہ میں تم لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہوں اور اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع رکھتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح حدیث نمبر5063)

پس اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی زُہد یہ ہے کہ صرف دنیاوی خواہشات اور ان کی تسکین مطمح نظر نہ ہو بلکہ جو اُن میں سے بہترین ہے وہ لو اور اعتدال کے اندر رہتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ان دنیاوی چیزوں سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو یہ زُہد ہے۔ اگر یہاں آ کر ان مغربی ممالک کی آزادی کی وجہ سے یہاں کی ہر چیز میں خواہشات کی تسکین کا لالچ تمہیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے تو پھر تمہارا جلسوں پر آنا بے فائدہ ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا بھی بے فائدہ ہے۔ پس فرمایا اپنے اندر زُہد پیدا کرو کیونکہ یہ پیدا کرو گے تو تقویٰ کی حقیقی روح کی بھی پہچان ہو گی۔ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہی ہے کہ ہر وقت یہ خوف دل میں رکھنا کہ میرے سے کوئی ایسا کام سرزدنہ ہو جائے جس سے خدا تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف سزا کے ڈر سے نہ ہو بلکہ اس طرح ہو جس طرح ایک بہت قریبی دوست کی یا قریبی عزیز کی ناراضگی کا خوف ہوتا ہے۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر حاوی ہو جائے اور ایسی محبت کی حالت بھی اُس وقت طاری ہو سکتی ہے جب خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہو اور اس کا عرفان ہو۔ جب محور خدا تعالیٰ کی ذات ہو۔ پس یہ وہ معیار ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس معیارِ تقویٰ کو ہم میں پیدا کرنے کے لئے بارہا مختلف رنگ میں ہمیں نصائح فرمائی ہیں۔ آپ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں کہ

’’اپنی جماعت کی خیرخواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ  (النحل: 129)۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 7۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس جب جماعت کے افراد کو بار بار اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ زمانے کے مامور کی بیعت میں آکر جب ہم یہ دعویٰ اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جن سے اس بیعت کی وجہ سے خدا راضی ہوا ہے یا ہم نے اس لئے بیعت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کریں۔ اگر اس پر عمل نہیں تو یہ دعویٰ محض دعویٰ ہو گا۔ اگر ہمارے قدم تقویٰ کی طرف نہیں بڑھ رہے تو یہ صرف دعویٰ ہے۔

یہ آیت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے یہ تقویٰ کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ تقویٰ اُن لوگوں کا ہے جو محسنوں میں سے ہیں اور محسن کے معنی ہیں کہ جو دوسروں سے اچھائی کا سلوک کرتے ہیں۔ جو اُن کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہیں۔ جو علم رکھنے والے ہیں اور یہ علم اُنہیں تقویٰ کی راہوں پر چلانے والا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی بھی خوبصورتی دیکھیں۔ پہلے زُہد کی طرف توجہ دلائی کہ اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع کرو۔ پھر تقویٰ اختیار کرنے کا فرماتے ہوئے اللہ کے کلام سے وہ مثال پیش فرمائی جس میں یہ تلقین ہے کہ اپنے جذبات کو دوسروں کے جذبات کے لئے قربان کر کے اُنہیں فیض پہنچاؤ۔ تو متقی بن کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والے بن جاؤ گے۔

پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے۔ تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے، یا کیسے ہی رُو بدنیا تھے، تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 7۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیعت کے اعلان کے متعلق فرمایا کہ بیعت کا اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں ہے، فرمایا، تم جواعلان کرتے ہو، تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کیونکہ میرا دعویٰ مامور ہونے کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کام کے لئے بھیجے جانے کا ہے کہ میرے ذریعہ سے دنیا کی اصلاح ہو گی۔ میرے ذریعہ سے اب بندے کو خدا تعالیٰ کی پہچان ہو گی اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو گا۔ میرے ذریعہ سے اور میرے ماننے والوں کے ذریعہ سے اُن اعلیٰ اخلاق کا اظہار اور ترویج ہو گی جن کے کرنے کی خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترنے والی آخری شرعی کتاب میں تلقین فرمائی ہے۔ قرآنِ کریم میں تلقین فرمائی ہے۔

پس حقوق العباد کے لئے ہر قسم کے بغضوں اور کینوں سے اپنے آپ کو نکالنا ہو گا۔ یا ہر قسم کے بغض اور کینے اپنے دلوں سے نکالنے ہوں گے۔ اپنے دلوں کو آئینے کی طرح صاف کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہر قسم کے شرکوں سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہوگا۔ دنیا کا خوف یا دنیاداروں کا خوف، یا دنیاداری کی طرف رجحان، جس سے انسان خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، جس سے اُس کی عبادت کے معیار میں کمی آتی ہے، ان سب سے بچو گے تو تبھی بیعت کے حقدار کہلاؤ گے۔ اور یہ بجز تقویٰ کے ممکن نہیں۔ اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو یہ پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر کے اپنی اصلاح کرو۔ یہ پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو، اس کا نتیجہ کیا ہو گا کہ تم بہت سی آفات سے نجات پا جاؤ گے۔ اس بارے میں آپ علیہ السلام نے بڑے سخت الفاظ میں اور بڑی سختی سے تنبیہ بھی فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ ویسا ہی قہّار اور منتقم بھی ہے۔ ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ اُن کا دعویٰ اور لاف وگزاف تو بہت کچھ ہے اور اُن کی عملی حالت ایسی نہیں تو اُس کا غیظ و غضب بڑھ جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 7۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ نہ کرے کہ ہم کبھی خدا تعالیٰ کے غیظ و غضب کو دیکھنے والے ہوں بلکہ ہم ہمیشہ تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اُس کا رحم اور فضل مانگنے والے ہوں اور اُس کے رحم اور کرم کو ہی حاصل کرنے والے ہوں۔ یہ معیار حاصل کرنے کے لئے ہماری کیا حالت ہونی چاہئے اور کیاہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’انسان جس قدر نیکیاں کرتا ہے، اس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک فرائض، دوسرے نوافل۔ فرائض یعنی جو انسان پر فرض کیا گیا ہو جیسے قرضہ کا اتارنا یا نیکی کے مقابل نیکی۔‘‘ اب یہ بعض لوگ قرضے تولے لیتے ہیں اُن کے اتارنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ فرمایا یہ قرضے کا اتارنا یا نیکی کوئی تمہارے سے کرے تو اُس کے مقابل پر نیکی تو تمہارے فرائض میں داخل ہے۔ ’’ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں۔ فرمایا ’’ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں۔ یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو۔ جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اور احسان کرنا۔ یہ نوافل ہیں … مثلاً زکوۃ کے علاوہ وہ اور صدقات دیتے ہیں۔ ا للہ تعالیٰ ایسوں کا وَلی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ میں اُس کے ہاتھ، پاؤں حتی کے اُس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 9۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہمارا خدا ہے جو نہ صرف ہر عمل کو نوازتا ہے بلکہ ایسے بندے کا ولی ہو جاتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی دوستی اور حفاظت کے ایسے راستے کھلتے ہیں کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔

لیکن یہ مقام کب ملتا ہے؟ فرمایا ایسی حالت میں کہ تم احسان کے بدلے احسان کرو۔ تمہارے سے کوئی نیکی کرے تو اس بات کی تلاش میں رہو کہ اب اس نیکی کا بدلہ کس طرح اُتار سکتا ہوں۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فرمایا کہ برابر کا احسان تو ایک بدلہ ہے، ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ احسان سے بڑھ کر احسان کر کے بدلہ اُتارے۔ اب دیکھیں جس معاشرے میں یہ صورتحال پید اہو جائے کہ ایک نیکی کے بدلے میں دوسرا بڑھ کر نیکی کر رہا ہو اور ہر ایک اس بات پر توجہ دینے والا ہو اور اس عمل کو بجا لا رہا ہو کہ ایک نے نیکی کی، اس کے جواب میں پہلا پھر بڑھ کر احسان اُتارنے کی فکر میں ہو تو ایسا معاشرہ جو ہے کبھی خود غرضوں کا معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ امن، پیار اور محبت کا معاشرہ بن جائے گا۔ اور جب یہ سب کچھ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کیا جا رہا ہو تو پھر خدا جو دلوں کا حال جاننے والا ہے اور سب سے بڑھ کر بدلہ دینے والا ہے، اُس کی عنایتوں اور نوازشوں کا تو کوئی حساب و شمار نہیں ہے۔ پس وہ پھر اس طرح نوازتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔

پس یہ وہ روح ہے جو ہم میں پیدا ہونے کی ضرورت ہے کہ نیکیاں کرنی ہیں، بے غرض ہو کر کرنی ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنی ہیں۔ ہماری عبادتوں میں بھی فرائض کے ساتھ نوافل ہوں، اس لئے کہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکیں اور ہمارے دوسرے اعمال کے ساتھ بھی نوافل ہوں اور کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہ ہوں۔ احسان کا بدلہ احسان کسی بندے سے مفاد حاصل کرنے کیلئے نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو تو یہ حقیقی تقویٰ ہے۔ پھر یہ وہ مغز ہے جس کی قدر خداتعالیٰ فرماتا ہے، ورنہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری ظاہری عبادتوں اور ظاہری قربانیوں سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے۔ اگر ہم نماز پڑھتے ہیں جس کے پڑھنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے بلکہ فرائض میں داخل ہے اور عبادت کی معراج بھی نماز ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ  (الذاریات: 57)کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور پھر نماز کے قائم کرنے کا، مردوں کے لئے باجماعت پڑھنے کا، باقاعدہ پڑھنے کا، وقت پر پڑھنے کا قرآنِ کریم میں کئی جگہ پر حکم آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی نمازیں ہیں، بعض لوگوں کے لئے ہلاکت بن جاتی ہیں۔ (الماعون: 5)

پس یہ یقینا ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ کیوں ایک نیکی انسان کے لئے ہلاکت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کے کرنے کا حکم تقویٰ کی بنیاد پر رکھا ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ اُس مغز کو چاہتا ہے جو چھلکے اور شیل (Shell) کے اندر ہے نہ کہ ظاہری خول کو۔ اگر ہماری نمازوں سے ہمارے اندر دوسروں کے لئے ہمدری کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم نے ایک ظاہری عمل تو کر لیا لیکن اس کی جو روح ہونی چاہئے وہ ہماری نماز میں نہیں تھی۔ بعض دفعہ ہم خول والے پھلوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ اوپر سے وہ بڑا اچھا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن کھولو تو اندر سے جو اس کا مغز ہوتا ہے، وہ یا پوری طرح بنا ہی نہیں ہوتا یا کیڑوں نے اُسے کھا لیا ہوتا ہے، یا مثلاً بادام ہے، ایسے بادام بھی ہوتے ہیں جن کو بڑے شوق سے آدمی کھولتا ہے اور اندر سے کڑوے نکلتے ہیں۔ پس ہم نے اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس مغز یا پھل کو بچانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول بھی ہو اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں ہمارے اندر خدا تعالیٰ سے تعلق کے علاوہ بنی نوع سے ہمدردی کے جذبات بھی پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی ہر سال چار پانچ مساجد بنا رہی ہے اور مجھے ان کے افتتاح کا موقع بھی ملتا ہے اور تقریباً ہر جگہ میں یہی کہتا ہوں کہ اس مسجد کے بننے کے بعد اس مسجد کے علاقے میں رہنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ صرف مسجد بنا کر اُس میں نمازیں پڑھنے کے لئے آ جانا کوئی کمال نہیں ہے، چاہے پانچ نمازوں پر ہی آپ مسجد میں آ رہے ہوں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس مسجد سے آپس کے تعلقات میں بھی مضبوطی پیدا ہو اور ان علاقوں کے لوگوں میں بھی اسلام کی خوبصورت تصویر ہر احمدی کے عمل سے ظاہر ہو رہی ہو۔ اپنوں غیروں، ہر ایک پر اُس روح کا اثر ہو جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اپنے ماحول میں پیدا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تعلیم اور خواہش کا اظہار ہر احمدی سے ہو جس میں آپ نے فرمایا کہ: ’’نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔‘‘ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد6صفحہ394)

پس یہ محبت، پیار اور بھائی چارے کا نمونہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے بھی ہے اور غیروں کے لئے بھی ہے۔ آپس کے نمونے جہاں اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرتے ہوئے، تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے والے ہوں گے، وہاں غیروں کے لئے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کی طرف توجہ دلانے والے ہوں گے۔ اور یوں تبلیغ کے مزید میدان کھلیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت کے لئے ایک دعا میں فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے اُن کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے اُن کے دلوں سے اُٹھاوے اور باہمی سچی محبت عطا کرے۔‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 398)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس دعا کا وارث بنائے۔

پھر آپ نے اپنی اُس تحریر میں جو میں نے شروع میں پڑھی ہے، انکسار اور عاجزی کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ یہ بھی وہ عمل ہے جو آپس کی محبت بڑھاتا ہے۔ جو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور غیروں کی توجہ بھی کھینچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْناً  (الفرقان: 64) کہ وہ زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ پس یہ عاجزی انسان میں وہ روح پیدا کرتی ہے جو بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور معاشرے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ آپس کے تعلقات کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ آپس کی رنجشوں کو بھی دور کرتی ہے۔ اور محبت بھی بڑھاتی ہے۔

پھر آپ نے راستبازی اور سچائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے۔ کہ تقویٰ پر چلنے والا تمام نیکیاں بجا لانے والا ہی ہوتا ہے، تقویٰ کی تعریف ہی یہی ہے اور جو تقویٰ کی حقیقت جان لے گویا کہ اُس نے ہر چیز کو پا لیا۔ لیکن بعض جزئیات پر زور دینا بھی ضروری ہوتا ہے اور بعض عمل تقویٰ کے معیار کو بڑھاتے ہیں۔ اس لئے راستبازی اور قولِ سدید پر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر زور دیا ہے۔ فرمایا کہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْداً (الاحزاب: 71) اے مومنو! اللہ کاتقویٰ اختیار کرو اور ایسی بات کرو جو صاف اور سیدھی ہو۔

اس آیت کی وضاحت میں دو تین ہفتے قبل مَیں نے خطبہ میں تفصیل سے بیان کیا تھا۔ بہر حال یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کا خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے ذکر فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنی روحانی ترقی کے لئے جلسہ پر آتے ہیں کہ اپنے تقویٰ کے معیار بلند کریں، اپنی اصلاح کریں۔ اگر یہ ہو گا تو تبھی آپ جلسے پر آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں گے اور اس کے لئے راستبازی، سچائی اور صاف گوئی کے وصف کو اپنائیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ ایک بنیادی عنصر ہے۔ پس اپنی سچائیوں کے معیاروں کو بلند کرو تا کہ جس مقصد کے لئے تم جمع ہوئے ہو اُس کو حاصل کر سکو۔ اور جب ہر احمدی کے راستبازی کے معیار بلند ہوں گے تو بات میں بھی اثر ہو گا اور جب باتوں میں اثر ہو گا تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصد اور مشن کو آگے بڑھانے والوں میں شامل ہو سکیں گے۔

اور جو مشن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے۔ وہ دو اہم کام ہیں۔ ایک تو بندے کو خدا کی پہچان کروا کر خدا تعالیٰ سے ملانا، اور دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کرنا۔ اور یہ دونوں کام ایسے ہیں جو ہمارے سے تقویٰ اور قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہماری عملی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دنیا کو ہم خدا تعالیٰ سے اُس وقت تک نہیں ملا سکتے جب تک ہمارا اپنا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم نہ ہو۔ دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی ہے، تو یہ ہم اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ہم عاجزی، انکساری، سچائی، محبت، اخوت اور قربانی کا جذبہ اپنے اندر نہ رکھتے ہوں۔ پس ان تین دنوں میں ہم نے اپنے اس تعلق اور جذبے کا جائزہ لینا ہے اور بڑھانا ہے انشاء اللہ تعالیٰ، تا کہ جلسہ پر آنے کے مقصد کو بھی حاصل کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔ پس ان تین دنوں میں اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے اور عملی حالتوں کو درست کرنے کی ہر احمدی کو، ہر شامل ہونے والے کو کوشش کرنی چاہئے۔ اور دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ ہم حقیقت میں اس جلسے کے مقصد کو پانے والے ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 28؍ جون 2013ء شہ سرخیاں

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے مقاصد عالیہ کا تذکرہ اور احباب جماعت کو اہم نصائح۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی ہر سال چارپانچ مساجد بنا رہی ہے اور مجھے ان کے افتتاح کا موقع بھی ملتا ہے اور تقریباً ہر جگہ میں یہی کہتا ہوں کہ اس مسجد کے بننے کے بعد اس مسجد کے علاقے میں رہنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ صرف مسجد بنا کر اُس میں نمازیں پڑھنے کے لئے آ جانا کوئی کمال نہیں ہے، چاہے پانچ نمازوں پر ہی آپ مسجد میں آ رہے ہوں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس مسجد سے آپس کے تعلقات میں بھی مضبوطی پیدا ہو اور ان علاقوں کے لوگوں میں بھی اسلام کی خوبصورت تصویر ہر احمدی کے عمل سے ظاہر ہو رہی ہو۔

    (خطبہ جمعہ سے جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کا افتتاح۔ جماعت احمدیہ امریکہ اور کبابیر کے جلسوں کا آغاز بھی آج سے ہی ہو رہا ہے۔)

    فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء بمطابق 28 احسان 1392 ہجری شمسی،  بمقام جلسہ گاہ۔ کالسروئے، جرمنی

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور