عدل، انصاف اور تقویٰ

خطبہ جمعہ 9؍ اگست 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کا خطبہ بھی گزشتہ خطبات کے تسلسل میں ہے۔ آج اُن دو اہم باتوں کا ذکر ہو گا جو معاشرے کے حقوق ادا کرنے، معاشرے سے فتنہ و فساد ختم کرنے، معاشرے میں امن و سلامتی پھیلانے، معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے اور اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرنے اور اپنے عَہدوں کو پورا کرنے کے بارے میں روشنی ڈالتی ہیں یا ان میں اس بارے میں اسلامی تعلیم بیان ہوئی ہے جس کو مَیں نے ابھی بیان کیا ہے۔

آج اسلام پر اعتراض ہوتے ہیں کہ نعوذ باللہ اس کی تعلیم میں سختی ہے۔ دہشتگردی اور فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے ایک امریکن لکھنے والے نے لکھا کہ اسلام میں جمعہ کا دن نعوذ باللہ فساد کا دن ہے، اور کافی کچھ اسلام کے خلاف لکھا۔ جماعت نے اُس اخبار یا جہاں بھی لکھا گیا تھا اُن سے رابطہ کیا اور اسلام کی خوبصورتی کے بارے میں ہمارے ایک نوجوان نے بڑا اچھا مضمون لکھا۔ اور اس کے بارے میں مزید بھی میں نے اُن کو کہا ہے کہ وہاں مزید رابطے کر کے اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے، اسلام کے جو مقاصد ہیں، جمعہ کے جو مقاصد ہیں، ان پر اس طرح کے مضامین لکھیں، articalلکھیں کہ لوگوں کو پتہ لگے۔

آج یہ جماعت احمدیہ کا ہی کام ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف اسلام پر کئے گئے حملوں کا دفاع کریں بلکہ دلائل و براہین سے دشمن کا منہ بھی بند کریں۔ یہ ہمارا کام تو بہرحال ہے لیکن خدا تعالیٰ نے خود بھی ایسے انتظام کئے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے انصاف پسند غیرمسلموں کو بھی کھڑا کر دیتا ہے جو اسلام کی خوبیوں کو بتانے لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک کیتھولک عیسائی ہیں، پروفیسر ہیں، سکالر ہیں۔ انہوں نے ڈیلی ٹیلیگراف (Daily Telegraph) میں گزشتہ دنوں مضمون لکھا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی تعریف کی اور ایتھی ازم (Atheism) کے خلاف اور یہاں جو قومیت پسند تنظیمیں ہیں اُن کے خلاف باتیں کیں اور یہ لکھا کہ مسلمانوں کی جو اعلیٰ روایات ہیں، اعلیٰ تعلیمات ہیں ان کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

آجکل مذہب اور اسلام پر اعتراض کرنے والے زیادہ تر یہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا یہ کام تو آج ہمارا ہے کہ دین کی ضرورت اور زندہ خدا کے وجود کو دنیا پر ثابت کریں۔ کیونکہ ایک حقیقی مسلمان ہی اس کام کو سرانجام دے سکتا ہے اور زمانے کے امام سے جڑ کر احمدی ہی اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھنے والے اور اُسے دنیا میں پھیلانے والے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ اور یہ کام قرآنِ کریم کی تعلیم اور احکامات پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ آج اُن دو احکامات کے بارے میں کچھ کہوں گا جن کا اُس فہرست میں ذکر ہے جو سورۃ انعام کی آیات 152 اور 153 میں بیان ہوئی ہیں، اور جو مَیں گزشتہ چند خطبوں سے ذکر کر رہا ہوں۔ ان میں سے آج بیان ہونے والی باتوں میں پہلی بات عدل و انصاف سے متعلق ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی (الانعام: 153)اور جب تم کوئی بات کرو تو انصاف کی بات کرو۔ چاہے وہ شخص کتنا ہی قریبی ہو جس کے متعلق بات کی جا رہی ہے۔

عدل کی مختلف صورتیں ہیں اور اس بارے میں قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر تفصیلی احکامات بھی ہیں۔ اس گواہی کو جو قریبیوں کے بارے میں دی جانی ہے، اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ مزید کھول کر بیان فرمایا ہے جس میں قریبی ہی نہیں بلکہ خود گواہی دینے والے کو بھی شامل فرمایا ہے۔ اور والدین کو بھی شامل فرمایا ہے۔ سورۃ نساء کی آیت136 ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَٓاءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ۔ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا۔ فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا۔ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(النساء: 136)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب، دونوں کا اللہ ہی بہتر نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ یہ نہ ہو کہ عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو، اُس سے بہت باخبر ہے۔

یہاں گواہیوں کے بارے میں ایک اصولی بات بیان ہو گئی کہ تمہاری گواہیاں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہونی چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہونی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 361)

پس دنیا میں عدل اور انصاف قائم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ اس کے علاوہ کبھی وہ اعلیٰ معیار قائم ہو ہی نہیں سکتا جو دنیا سے نا انصافی اور ذاتی غرضوں کے حصول کو ختم کر سکے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور جگہ فرمایا کہ:

’’تمام قویٰ کا بادشاہ انصاف ہے۔ اگر یہ قوت انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 24۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس عدل و انصاف کا وصف انسان میں ہونا اُس کی خوبیوں کو روشن تر کر دیتا ہے۔ اس آیت میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے، اگر اس پر عمل ہو یعنی انصاف قائم کرنے کے لئے انسان اپنے خلاف گواہی دینے سے بھی گریز نہ کرے، اپنے والدین کے خلاف گواہی دینے سے بھی گریز نہ کرے اور قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینے سے نہ رُکے تو ایک حسین معاشرہ قائم ہو جاتا ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ جب فریقین میں مسئلہ پیدا ہو تو گواہیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسی صورت میں یا خود فریقین سے اپنے اپنے بیان دینے کے لئے کہا جاتا ہے یا بعض گواہوں کو پیش کیا جاتا ہے تا کہ مسئلہ کی حقیقت واضح ہو اور فیصلہ کرنے اور عدل و انصاف کرنے میں آسانی پیدا ہو۔ اگر گواہیاں ہی جھوٹی ہوں، اپنے بیانوں کو توڑ مروڑ کر ناجائز حق لینے کے لئے پیش کیا جا رہا ہو تو پھر ہو سکتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے کا فیصلہ بھی صحیح نہ ہو۔ صرف یہ نہیں کہ صحیح نہ ہو بلکہ بہت زیادہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں پھر گناہ گواہیاں دینے والوں کے سر ہے، فیصلہ کرنے والے کے سر نہیں ہے۔

بعض گواہ اپنے ذاتی فائدے کے لئے نہیں تو اپنے عزیزوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے غلط گواہی دے جاتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والے ادارے کو غلط راستہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور پھر نتیجۃً گناہگار بنتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی غلط بیان دے کر میرے سے بھی غلط فیصلہ کرواتا ہے تو ایسا ہی ہے جیسا میں اُسے آگ کا ٹکڑا دلوا رہا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 642-643 حدیث اُمّ سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 27253 عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس جھوٹے بیان اور جھوٹی گواہیاں دے کر آگ کے ٹکڑے حاصل کرنے سے ہر ایک کو بچنا چاہئے۔ حقیقی مومن وہی ہے جو اس سے بچے۔

سورۃ نساء کی یہ آیت جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں آگے پیچھے عائلی معاملات کے احکامات بھی آتے ہیں۔ پس وہ لوگ جوخاوند ہو یا بیوی ہو خاص طور پر اپنے ناجائز حقوق لینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح طلاق کی صورت میں، خلع کی صورت میں مرد یا عورت کے عزیز یا رشتہ دار غلط گواہی دے کر بعض ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ عدل کا خون کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ اس سے دنیاوی عارضی فائدہ تو اُٹھا لیتے ہیں لیکن جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگ کا ٹکڑا ہے جو وہ لے رہے ہوتے ہیں جو قیامت کے دن پھر بد انجام کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح فریقین بھی اور گواہان بھی اپنی خواہشات کی پیروی کر کے عدل سے دُور جا رہے ہیں۔ پس خواہشات کی پیروی نہ کرو، بلکہ عدل قائم کرنے کی کوشش کرو، انصاف قائم کرنے کی کوشش کرو۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(النساء: 136)

اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اُس سے باخبر ہے۔ پس یہ جھوٹی گواہیاں فیصلہ کرنے والے انسان کو تو دھوکہ دے سکتی ہیں۔ جس کے پاس معاملہ ہے اُس کو دھوکہ دے سکتی ہیں۔ اُس سے اپنے حق میں اور دوسرے کے خلاف یا خلافِ انصاف فیصلہ کروا سکتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو باخبر ہے اُسے ہم دھوکہ نہیں دے سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طورپر صاف اور سیدھی بات کہنے کی طرف، جو قرآنی حکم ہے، اسی لئے توجہ دلوائی ہے کہ رشتے طے کرتے وقت بھی، آپس میں زندگی گزارتے وقت بھی اور اگر کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اُس وقت بھی قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (الاحزاب: 71) سے کام لو اور اس کو کبھی نہ چھوڑو۔ اس کا چھوڑنا تمہیں تقویٰ سے دُور لے جائے گا۔ یہ تمہیں عدل اور انصاف سے دُور لے جائے گا۔ یہ معاشرے میں فساد کا ذریعہ اور باعث بنے گا۔

ہمارے قضاء میں بھی جب خلع اور طلاق کے معاملات آتے ہیں تو بعض میں خود بھی دیکھتا ہوں کہ انصاف پر مبنی اور حقائق پر مبنی نہ بیان دئیے جاتے ہیں، نہ ہی گواہان اپنی گواہیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح لین دین کے معاملات ہیں، ان میں بھی بعض لوگ عارضی اور ذاتی فائدے کے لئے تقویٰ سے دُور ہٹ کر آگ کا گولہ لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ آگ کا گولہ لینے والی جو حدیث ہے اس میں بھی دو بھائیوں کی جائیداد کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو یہی فرمایا کہ اگر کوئی چرب زبان ہے تو میرے سے فیصلہ کروا لے گا۔ لیکن یہ آگ کا گولہ ہے جو میں تمہیں دوں گا۔ اور قیامت کے دن یہی پھندا بنے گا۔ اس پر دونوں بھائیوں نے چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا اور یہ کہا کہ ہم کچھ نہیں لیتے۔ اپنا حق چھوڑتے ہیں اور دوسرے کو دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حق چھوڑنا بھی غلط ہے۔ تم لوگوں کا حق ہے تو ضرور لو اور اگر فیصلہ نہیں کر رہے، کوئی ایسے کاغذات نہیں ہیں جو ثبوت ہوں، کوئی گواہیاں ایسی نہیں جو ثبوت کے طور پر پیش ہو سکیں تو قرعہ اندازی کر لو، جو جس کے حصہ میں آئے وہ اُس پر راضی ہو جائے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 642-643 حدیث اُمّ سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 27253 عالم الکتب بیروت 1998ء)۔ تو یہ ہے فیصلے نپٹانے کا طریقہ۔ اور یہ ہے تقویٰ کا وہ معیار جو ایک مومن میں ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے اور عقل دے جو انصاف کرنے میں روک بن رہے ہوتے ہیں۔ اگر گھریلو سطح پر بھی اور کاروباری معاملات میں بھی سچائی پر مبنی گواہیاں ہوں، عدل قائم کرنے کے لئے گواہیاں ہوں تو ہمارا معاشرہ جنت کا نمونہ اس دنیا میں بھی پیش کر سکتاہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا، قرآنِ کریم میں عدل کے بارے میں بھی تفصیلی احکامات ہیں۔ اس بارے میں ایک دو اور آیات مَیں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ نساء میں ہی فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ۔ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا (النساء59: ) کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں اُن کے حق داروں کے سپرد کیا کرو۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقینا بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔

اس آیت میں پہلی بات تو امانتوں کو حق داروں کے سپرد کرنے کی بیان فرمائی۔ اس بارے میں کچھ عرصہ پہلے مَیں ایک تفصیلی خطبہ دے چکا ہوں کہ یہ سال عہدیداران کے انتخاب کا سال ہے۔ اس لئے ذاتی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں، خاندانی تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں، بلکہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، امانت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی نظر میں ایسے عہدیدار منتخب کریں جو اپنے کام سے انصاف کر سکیں۔ بہرحال انتخاب تو ہو گئے۔ بعض جگہ خود منتخب کرنے والوں نے اپنی نظر میں بہتر عہدے داران منتخب کئے۔ بعض جگہ میں نے خود بعض تبدیلیاں کیں یا مشورے دینے والوں کے مشورے نہیں مانے اور اگر کوئی اچھا کام کر رہا تھا تو اُسی کو رہنے دیا۔ ہر ایک کام کرنے کا ایک لیول ہے۔ جب اس تک کوئی انسان پہنچ جاتا ہے، اُس کی صلاحیتیں پہنچ جاتی ہیں تو پھر مزید اُس شعبہ میں ترقی نہیں ہوتی اور ہو سکتا ہے کہ وہی شخص جو ایک جگہ زیادہ بہتر کام نہ کر رہا ہو، دوسری جگہ بہتر کام کر دے۔ اس لئے بھی بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض تبدیلیاں ناراضگی کی وجہ سے کی گئی ہیں۔ ناراضگی سے زیادہ جماعتی مفاد کو دیکھا گیا ہے۔ جہاں میں نے سمجھا کہ جماعتی مفاد اس میں ہے کہ تبدیلیاں کی جائیں، وہاں انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ ایسے شعبوں میں تبدیلیاں کی جائیں۔ دلوں کا حال تو خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ ہم تو مشورے اور فیصلے ظاہری حالت کے مطابق ہی کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ لیکن بعض مقامی جماعتوں میں، بعض ممالک میں ابھی بھی ذاتی پسند اور قرابت داری کو ترجیح دیتے ہوئے عہدیدار منتخب کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل دے اور اُن پر بھی رحم فرمائے جو ذاتی ترجیحات کو انصاف پر مقدم سمجھتے ہیں۔ بہرحال یہ انتخاب تو ہو گئے، اب جو عہدیدار منتخب ہوئے ہیں اُن کا فرض بنتا ہے کہ اپنی کمزوریوں کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہوئے اُس سے مغفرت اور مدد کے طالب ہوں اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ عہدہ بھی ایک خدمت ہے، اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے، ایک انعام ہے۔ اُس کی قدر کرنی چاہئے۔ احبابِ جماعت سے سلوک میں، اُن کے معاملات کو حل کرنے میں، اُن کی تربیت پر توجہ دینے میں جماعت کے مقاصد کے حصول کے لئے پروگرام بنانے میں، ان سب باتوں میں انصاف سے کام لیں اور محنت کریں۔ محنت سے کام کرنے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْل (النساء: 59)۔ کہ انصاف سے حکومت کرو، اس کے تقاضے تبھی پورے ہوں گے جب اپنی تمام تر استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ دین کی خدمت کا جو کام ملا ہے، اُسے سرانجام دیں گے۔ اس میں ہر عہدیدار شامل ہے۔ مقامی سطح پر بھی اور نیشنل لیول پر بھی ان باتوں کا اُسے خیال کرنا چاہئے۔ جماعت کا مفاد ہر ذاتی مفاد سے بالا ہونا چاہئے، اُس پر حاوی ہونا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ گہری نظر رکھتا ہے۔ ہمارے ایک ایک پل کا جو بھی عمل ہے اُس کے علم میں ہے اور وہ شمار ہو رہا ہے۔ پس خدمتِ دین کا جو موقع ملا ہے اُسے فضلِ الٰہی سمجھ کر بجا لانے کی کوشش اب ہر منتخب یا مقرر کئے جانے والے عہدیدار کو کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تو دنیاوی حاکموں سے بھی پوچھے گا اور حساب لے گا اور جو خدا تعالیٰ کے نام پر کسی کام کے لئے مقرر کئے جائیں اگر وہ اپنی امانتوں کے حق ادا نہیں کر رہے اور انصاف کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں گے تو دنیا داروں سے بڑھ کر پوچھے جائیں گے۔ پس ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ استغفار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے، عاجزی دکھاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ تمام عہدیداروں کو، تمام خدمت کرنے والوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ گھریلو ماحول، کاروباری معاملات، عہدیداروں کے معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد انصاف قائم کرنے کے لئے اسلام مزید کیا حکم دیتا ہے؟ تو ہمیں ایک ایسا حکم نظر آتا ہے جو معاشرے بلکہ پوری دنیا میں انصاف اور امن قائم کرنے کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ مائدہ کی آیت 9 میں فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَٓاءَ بِالْقِسْط۔ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْن(المائدۃ آیت 9)۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو۔ یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

دیکھیں ! دنیا سے فتنہ و فساد ختم کرنے کی یہ کتنی خوبصورت تعلیم ہے۔ اسلام پر اعتراض کرنے والے نہ اپنی دنیاوی تعلیم میں، قوانین میں، اور نہ ہی کسی دینی تعلیم میں ایسی خوبصورت تعلیم کی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے۔ کُوْنُوْا قَوَّٓامِیْنَ لِلّٰہِ کہ اللہ کی خاطر قوّام بن جاؤ۔ اور قوّام کا مطلب ہے کہ جو اپنا کام انتہائی احسن طریق پر بغیر نقص کے اور مستقل مزاجی سے کرتا چلا جائے۔ پس حقیقی مومن جو کام کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاطر کرتا ہے اور پھر اُس میں نہ کبھی جھول آنے دیتا ہے، یا جھول نہ آنے دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور نہ ہی کبھی سست ہوتا ہے، نہ ہی ذاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ فرمایا کہ مومن کا کام ہے کہ انصاف کی تائید میں گواہی دے۔ انصاف کا معیار کیا ہے؟ انصاف کا معیار صرف بیوی اور رشتہ داروں سے انصاف کرنا نہیں ہے۔ اپنے ساتھ کاروبار کرنے والوں سے انصاف کرنا نہیں ہے۔ اپنے افسروں اور ماتحتوں کے لئے نیک خیالات اور اُن سے حسنِ سلوک کرنا اور انصاف کرنا نہیں ہے۔ بلکہ انصاف کا معیار اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ انصاف کرنا رکھا ہے۔ کیونکہ حقیقی تقویٰ اُسی وقت حاصل ہوتا ہے جب دشمن سے بھی عدل اور انصاف کا سلوک کیا جائے۔ تبھی ایک حقیقی مسلمان ہونے کا معیار حاصل ہو گا۔ تبھی تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔ تبھی اسلام کی حقیقی تعلیم غیروں پر واضح ہو گی۔ یہاں بھی آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ اگر تمہارے یہ معیار نہیں تو پھر تم تقویٰ پر چلنے والے نہیں کہلا سکتے۔ قوّام کہہ کر مستقل انصاف پر قائم رہنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی، فرمایا ہے لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی  (المائدۃ: 9) یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دُکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں، جیسا کہ مکّہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی۔‘‘ جس سے مخاطب ہیں اُس کو فرماتے ہیں کہ ’’مگر آپ تو تعصب کے گڑھے میں گرے ہیں ان پاک باتوں کو کیونکر سمجھیں۔ انجیل میں اگرچہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو۔ مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا، یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے۔ اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر اُن کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردے میں دھوکا دے کر اُس کے حقوق دبا لیتا ہے۔ مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اُس کا نام کاغذاتِ بندوبست میں نہیں لکھواتا۔‘‘ (وہ کاغذات جو سرکاری ریکارڈ میں ہوتے ہیں، اُس میں نہیں لکھواتا) ’’اور یوں اتنی محبت کہ اُس پر قربان ہوا جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیارِ محبت کا ذکر کیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ محبت کرو، بلکہ اُس معیار کا ذکر کیا جو محبت کا معیار ہونا چاہئے اور وہ کیا ہے؟ انصاف۔ فرمایا: ’’کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے‘‘۔ (نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 409-410)

پس یہ وہ معیار ہے جس کے حصول کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔

عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد مَیں نے مختلف موقعوں پہ، معاشرے کے مختلف طبقوں کے بارے میں جو باتیں کیں، اب اللہ تعالیٰ جو حکم ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ وَبِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا (الانعام: 153) کہ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو۔

اسلام کی ایک اور خوبصورت تعلیم اور خداتعالیٰ کے ایک اہم حکم کی طرف یہاں توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تمام احکامات پر عمل انسان کی اخلاقی اور دینی خوبصورتی کے لئے ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر احکامات کو مختلف مواقع کے لحاظ سے جو کھول کر بیان فرمایا ہے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر یا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ کام ہونے چاہئیں۔ یہاں یہ حکم دیا کہ یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب تمہارے دل صاف ہوں، جب تمہارے دل اس جذبے سے بھرے ہوئے ہوں کہ میں نے ہر عمل جو کرنا ہے وہ اس سوچ کے ساتھ کرنا ہے، ہر حکم پر عمل کی طرف اس لئے توجہ کرنی ہے کہ میں نے اپنے خدا سے کئے گئے عہد کو پورا کرنا ہے اور سب سے بڑا عہد جو اللہ تعالیٰ سے ایک مومن کا ہے، ایک احمدی کا ہے وہ عہدِ بیعت ہے۔ اگر اس عہد کی حقیقت کو ہم سمجھ لیں تو خود بخود تمام احکام پر عمل اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرائطِ بیعت میں جو عہد لیا ہے اُس میں اس طرح جامع طور پر ہمیں پابند کیا ہے کہ اگر ہم انہیں وقتاً فوقتاً دہراتے رہیں تو احمدی معاشرہ تمام برائیوں سے پاک ہو سکتا ہے۔

مختصراً مَیں یہ بیان کرتا ہوں کہ شرائطِ بیعت میں ہم کیا عہد کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ زندگی کے آخری لمحے تک شرک نہیں کرنا اور شرک کی مختلف قسمیں ہیں جن کا رمضان کے مہینے میں شروع کے خطبات میں پہلے بڑی تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔ پھر یہ کہ جھوٹ، زنا، بدنظری، فسق و فجور، خیانت، بغاوت، فساد سے بچنا ہے۔ ان میں بھی فحشاء کے ضمن میں ان کا بیان ہو چکا ہے۔ اور کبھی ان کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دینا۔ پھر یہ کہ نمازوں کی پابندی، درود اور استغفار پر زور اور باقاعدگی ہو۔ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرنا اور اس بات پر اُس کی حمد کرنا۔ یہاں آئے ہوئے بہت سارے لوگ جو پاکستان میں حالات کی وجہ سے یہاں آئے ہیں اُن پر تو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا احسان کیا ہے۔ آزادی بھی دی اور مالی طور پر بہت بہتر کر دیا۔ پس اس بات پر بجائے کسی فخر اور تکبر اور غرور کے اللہ تعالیٰ کی حمد ہونی چاہئے، اُس کے احسانوں کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ پھر فرمایا کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا۔ پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کا تعلق اور کبھی شکوہ نہ کرنا۔ جب اللہ تعالیٰ انعامات دیتا ہے تو اُس کا شکر گزار ہونا اور اگر بعض امتحانات میں سے گزرنا پڑتا ہے تب بھی شکوہ نہیں کرنا۔ دنیا کی رسوم سے اپنے آپ کو آزاد کروا کر، ہر قسم کی ہوا و ہوس سے اپنے آپ کو بچا کر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا۔ تکبر اور بڑائی چھوڑ کر عاجزی اور انکساری کو اختیار کرنا۔ اسلام کی عزت کو اپنی جان، مال اور اولاد سے بڑھ کر عزیز رکھنا۔ مخلوق کی ہمدردی اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنا۔ خدمتِ خلق کا یہ جذبہ بہت زیادہ ہونا چاہئے۔ اور پھر یہ فرمایا کہ آپ سے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت اور آپ کی اطاعت کا غیر معمولی نمونہ قائم کرنا اور کسی چیز کو اس کے مقابلے پر اہمیت نہ دینا۔

پس یہ عہد ہے جو ہم نے احمدیت میں داخل ہو کر کیا ہے۔ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اس عہد کو پورا کر رہے ہیں۔ رمضان میں بہت ساری نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ یہ بھی جائزہ لینا چاہئے تھا اور لینا چاہئے۔ آج بھی آخری دن ہے بلکہ سارا سال ہمیں لیتے رہنا چاہئے۔ اس میں نیکیوں کی طرف جو توجہ پیداہوئی ہے اُس کو جاری رکھنا چاہئے کہ کس حد تک ہم ان پر عمل کر رہے ہیں یا کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ سے عہدِ وفا کو نبھا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ عہد کرو گے تو تمہیں اجرِ عظیم ملے گا۔ ایسا اجر ملے گا جس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس عہد پر قائم رہنے کا عہد کرو اور اُس پر عمل کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی وعدہ فرماتا ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہدوں کو پورا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو بھی صاف کر کے ہر قسم کی میل کچیل سے پاک کر کے اُن متقیوں میں شامل کرے گا، اُن لوگوں میں شامل کرے گا جو اُس کے مقرب ہوں گے، جن سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ اور یہ نہ سمجھو کہ اگر عہد پورے نہ کئے تو صرف انعامات کے مستحق نہیں ٹھہرو گے، بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے سے تمہارے عہدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس میں ہر قسم کے عہد شامل ہیں۔ جو خدا تعالیٰ سے عہد کئے گئے ہیں اُن کو بھی پورا نہ کرنے پر جواب طلبی ہو گی اور جو بندوں سے عہد کرتے ہو، جو قرآنِ شریف کے حکم کے مطابق عہد ہوں، انہیں بھی تم اگر پورا نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اُس کی بھی جواب طلبی ہو گی۔ مثلاً گزشتہ خطبہ میں یتامیٰ کی پرورش کے بارے میں حکم گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو سنبھالنے کی ذمہ داری لینے کو بھی ایک عہد قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ اگر تم اس ذمہ داری کو نہیں نبھا رہے تو عہد توڑ رہے ہو جس کے بارے میں خدا تعالیٰ باز پرس فرمائے گا۔ اسی طرح حُکّام ہیں، اگر وہ اپنی حکومت کے کاروبار کو صحیح طرح نہیں سنبھال رہے تو وہ بھی جواب دہ ہیں۔ اگر عوام کا حق ادا نہیں کر رہے تو وہ بھی پوچھے جائیں گے۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک میں جتنے بھی لیڈر ہیں، اُن کا یہی حال ہے کہ نہ وہ اپنے فرائض عدل اور انصاف سے بجا لا رہے ہیں اور نہ ہی عوام کے حقوق ادا کر رہے ہیں اور بے خوف بیٹھے ہیں کہ شاید پوچھے نہیں جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ضرور پوچھے جاؤ گے۔ عہدیداروں کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ وہ انصاف سے کام لیں۔ وہ بھی اگر اپنا حق ادا نہیں کررہے، جماعت کے کام کے لئے جتنا وقت دینا چاہئے اُتنا وقت نہیں دے رہے، غور کر کے فیصلے نہیں کر رہے، افرادِ جماعت کے ساتھ معاملات میں انصاف نہیں کر رہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ اور ایک عام احمدی کے عہد پورا کرنے کے بارے میں جو اُس پر ذمہ داری ہے اور جس کو اُس نے نبھانا ہے اُس کا بھی ذکر مَیں کر آیا ہوں کہ شرائطِ بیعت کا عہد اگر پورا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تو خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

پھر ایک اور اہم عہد ہے جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں جو ہر ملک کا شہری خدا کو گواہ بنا کر یا قرآن کو گواہ بنا کر ملک سے کر رہا ہوتا ہے یا بعض دفعہ اگر صرف ملک کے بادشاہ کے نام پر عہد لے رہا ہو تب بھی یہ ایک ایسا عہد ہے جس کو پورا کرنا اور اس کو نبھانا ایک مسلمان پر فرض ہے اور نہ پورا کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس کی باریکیوں پر بھی احمدیوں کو غور کرنا چاہئے۔

مجھے یہ اطلاع ہے کہ بعض جگہ بعض لوگ جو اپنے کاروبار کرتے ہیں، اُن کاروباروں میں ملازم رکھتے ہیں تو اُسے کم تنخواہ دیتے ہیں یا کم تنخواہ ظاہر کرتے ہیں کہ باقی benefitکونسل سے claim کر لو۔ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم تمہارے فائدے کے لئے کام کر رہے ہیں لیکن خود بھی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور اُس سے بھی جھوٹ بلوا رہے ہوتے ہیں۔ خود بھی بدعہدی کر رہے ہوتے ہیں اور اُس سے بھی بدعہدی کروا رہے ہوتے ہیں۔ عملاً یہ ہے کہ اپنا فائدہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر ایسے بچائے ہوئے پیسے کی جو کمائی کرتے ہیں تو اُس پر ٹیکس بھی بچاتے ہیں جو حکومت کا نقصان ہے۔ حکومت سے کئے گئے عہد کی بدعہدی ہے اور اُن ملازمین کو کم تنخواہ دے کر اور پورا کام لے کر یا کچھ حد تک اس تنخواہ سے زیادہ کام لے کر کونسل سے اُن کے الاؤنس دلوا کر پھر قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب باتیں جو ہیں، یہ سراسر ظلم ہیں اور عہد کو توڑنا ہے جو یہاں کی شہریت لیتے ہوئے ایک شخص کرتا ہے۔ یہ عہدِ بیعت کو بھی توڑنا ہے کیونکہ وہاں بھی یہی ہے کہ میں ہمیشہ سچائی سے کام لوں گا۔ پس ایسے لوگ حکومت کا عہد بھی توڑ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کا عہد بھی توڑ رہے ہیں اور گناہگار بھی بن رہے ہیں۔ پس ایک احمدی کو ہر معاملے میں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ عہد پورا نہ کرنے کی وجہ سے ایک اور برائی کا بھی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں جو گھر سے نکل کر دو گھروں بلکہ خاندانوں کے سکون برباد کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ پہلے بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے اور وہ خلع اور طلاق کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کرنا ہے اور اپنے عہد کو توڑنا ہے۔ ان رشتوں میں انصاف اور قولِ سدید کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، جس پر اگر عمل ہو تو مسائل آرام سے سلجھ جائیں یا پیدا ہی نہ ہوں۔ لیکن مسائل کے پیدا ہونے پر، میاں بیوی کے تعلق میں اختلاف ہونے پر اللہ تعالیٰ نے جو نصیحت ہمیں فرمائی ہے وہ خاص طور پر خاوند کو سامنے رکھنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا۔ اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا۔ وَکَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ وَّاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیْثَاقًا غَلِیْظًا (النساء: 22-21) اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بیوی کی جگہ تبدیل کرنے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا تم اسے بہتان تراشی کرتے ہوئے اور کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے لوگے؟ اور تم کیسے وہ لے لو گے جبکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور وہ تم سے وفا کا پختہ عہد لے چکی ہے۔

ہمارے ہاں خلع طلاق کے مسائل میں اگر اس حکم پر عمل کی کوشش ہو تو جو جھگڑے قضاء میں لمبا عرصہ چلتے چلے جاتے ہیں، وہ نہ ہوں۔ بعض طلاق دے کر عملاً بہتان تراشی بھی کرتے ہیں۔ یہ تو کھلا کھلا گناہ ہے۔ اگر کوئی حقیقت بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا چاہئے۔ اور اُس کے لئے بھی گواہیوں کی بہت ساری شرائط ہیں۔ دوسری اہم بات کہ شادی ایک معاہدہ ہے۔ مرد اور عورت کے عہد و پیمان ہوتے ہیں۔ خاوند بیوی میں عہد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ علیحدگی میں جو یہ عہد و پیمان ہیں، بیشک اس کا کوئی ظاہری گواہ نہیں ہے لیکن اس عہد کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ خدا تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے۔ پس اگر کسی وجہ سے اس عہد کو، رشتے کو ختم بھی کر رہے ہو تب بھی اُن باتوں کا پاس کرو جو تمہاری علیحدگی میں باتیں ہو چکی ہیں۔ تب بھی جو تحفے تحائف دے چکے ہو اُن کا مطالبہ نہیں کرنا۔ اور سوائے اس کے کہ قاضی بعض کھلی غلطیوں کو لڑکی کی طرف دیکھے اور فیصلہ دے، مرد کو ہر صورت میں مقررہ حق مہر ادا کرنا چاہئے۔ یہ بہانے کہ جی خلع ہے تو حق مہر نہیں دینا، اس کا حق مہر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کے بہانے نہیں ہونے چاہئیں۔ اس کی اَور بھی تفصیلات ہیں۔ اس وقت میں صرف اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مرد اور عورت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شادی ایک معاہدہ ہے جس کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور اگر کہیں بد قسمتی سے اس معاہدے کو ختم بھی کرنا ہے تو پھر بھی بعض باتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کے راز رکھنے چاہئیں۔ یہاں اگر عورت کو برابری کا حق ملا ہے، خدا تعالیٰ نے عورت کے لئے قائم کیا ہے تو عورت کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے، عدل سے کام لیتے ہوئے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھائے اور اگر کوئی ایسی صورت ہو تو بلا وجہ مردوں پر بھی بہتان تراشی نہ کرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس معیار کے متعلق، جو ایک مومن کا ہونا چاہئے فرماتے ہیں کہ: ’’وہ مومن جو … اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہیں، خواہ مخلوق کے ساتھ، بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آ جاویں اپنی اَمانتوں اور عہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقوی کی دُوربین سے اس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ درپردہ ان کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو۔ اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی ان کے پاس ہیں جیسے تمام قویٰ اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ، ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی ان کے پاس ہوں یا ایسی چیزیں جو امانتوں کے حکم میں ہوں ان سب میں تابمقدور تقویٰ کی پابندی سے کاربند ہوتے ہیں۔ اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مدنظر رکھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں گو اس فیصلہ میں نقصان اٹھالیں …‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 208-210) (تمام اعمال میں تقویٰ کی باریک راہوں سے کام لینا پڑتا ہے)۔

فرمایا: ’’انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصو رتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عَہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں، ان کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور اُن کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوقِ عباد کا بھی لحاظ رکھنا، یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآنِ شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے، یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کاربند ہو جائے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 208-210)

خدا کرے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ہم خدا تعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل کرنے والے ہوں اور اپنے تمام عَہدوں کو بھی نبھانے والے ہوں۔ اور اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو ہم نے کوششیں کی ہیں، اُن پر مستقل مزاجی سے قائم رہنے والے ہوں۔ آج کا جمعہ ہم جمعۃ الوداع سمجھ کر، پڑھ کر اور رمضان کے روزے رکھ کر، رمضان کے مہینے میں نیکیاں کر کے اور یہ سمجھ کر کہ بس کافی ہو گیا، چھوڑ نہ دیں، بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن وہی ہے جو مستقل مزاجی سے ان نیکیوں پر عمل کرتا اور اپنے عہدوں کو پورا کرتا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ رمضان ہمیں بے شمار برکات کا حامل بنا کر جائے اور قرآنِ کریم میں دئیے گئے خدا تعالیٰ کے جو احکامات ہیں اُن کا پہلے سے بڑھ کر ہم میں اِدراک پیدا ہو۔ یہ چند احکامات کی مثالیں میں نے دی ہیں اس لئے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی تلاش کرنی چاہئے تبھی ہم حقیقی رنگ میں اُن لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے رمضان کا فائدہ اُٹھایا۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے اکثریت ایسی ہو جس نے یہ فائدہ اُٹھایا ہو اور آئندہ اُٹھاتی چلی جائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 9؍ اگست 2013ء شہ سرخیاں

    آج یہ جماعت احمدیہ کا ہی کام ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف اسلام پر کئے گئے حملوں کا دفاع کریں بلکہ دلائل و براہین سے دشمن کا منہ بھی بند کریں۔ اگر گھریلو سطح پر بھی اور کاروباری معاملات میں بھی سچائی پر مبنی گواہیاں ہوں، عدل قائم کرنے کے لئے گواہیاں ہوں تو ہمارا معاشرہ اس دنیا میں بھی جنت کا نمونہ پیش کر سکتاہے۔

    جو عہدیدار منتخب ہوئے ہیں اُن کا فرض بنتا ہے کہ اپنی کمزوریوں کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہوئے اُس سے مغفرت اور مدد کے طالب ہوں اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ انصاف کا معیار اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ انصاف کرنا رکھا ہے۔ کیونکہ حقیقی تقویٰ اُسی وقت حاصل ہوتا ہے جب دشمن سے بھی عدل اور انصاف کا سلوک کیا جائے۔ تبھی ایک حقیقی مسلمان ہونے کا معیار حاصل ہو گا۔ تبھی تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔ تبھی اسلام کی حقیقی تعلیم غیروں پر واضح ہو گی۔

    عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ جو ہمیں حکم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ (الانعام: 153) کہ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو۔

    سب سے بڑا عہد جو اللہ تعالیٰ سے ایک مومن کا ہے، ایک احمدی کا ہے وہ عہدِ بیعت ہے۔ اگر اس عہد کی حقیقت کو ہم سمجھ لیں تو خود بخود تمام احکام پر عمل اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی۔

    پھر ایک اور اہم عہد ہے جو ہر ملک کا شہری خدا کو گواہ بنا کر یا قرآن کو گواہ بنا کر ملک سے کر رہا ہوتا ہے یا اگر صرف بعض دفعہ ملک کے بادشاہ کے نام پر عہد لے رہا ہو تب بھی ایک ایسا عہد ہے جس کو پورا کرنا اور اس کو نبھانا ایک مسلمان پر فرض ہے اور نہ پورا کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔

    دوسری اہم بات کہ شادی ایک معاہدہ ہے۔ مرد اور عورت کے عہد و پیمان ہوتے ہیں۔ خاوند بیوی میں عہد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ علیحدگی میں جو عہد و پیمان ہیں، بیشک اس کا کوئی ظاہری گواہ نہیں ہے لیکن اس عہد کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔

    مومن وہی ہے جو مستقل مزاجی سے ان نیکیوں پر عمل کرتا اور اپنے عہدوں کو پورا کرتا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ رمضان ہمیں بے شمار برکات کا حامل بنا کر جائے اور قرآنِ کریم میں دئیے گئے خدا تعالیٰ کے جو احکامات ہیں اُن کا پہلے سے بڑھ کر ہم میں اِدراک پیدا ہو۔

    فرمودہ مورخہ 09اگست 2013ء بمطابق09 ظہور 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور