احمدیت کی روح

خطبہ جمعہ 16؍ اگست 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

کچھ دن ہوئے، دینی تربیتی امور کا ایک جائزہ اتفاق سے ایک عہدیدار کے ساتھ باتوں باتوں میں میرے سامنے آیا۔ اُس کے بعد پھر مَیں نے اُن سے تحریری رپورٹ بھی منگوائی۔ اس کو دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ بعض امور ایسے ہیں جن پر مجھے کچھ کہنا چاہئے۔ جماعت کا ایک طبقہ جو ہے، اُس کو اس کی ضرورت ہے اور اسی طرح کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی عہدیداروں کو بھی ضرورت ہے۔ یہ امور جس طرح یہاں کی جماعت کے لئے اہم ہیں اسی طرح دنیا کی دوسری جماعتوں کے لئے بھی اہم ہیں۔ یا نئی نسل اور اُن افراد کے لئے بھی ان کا جاننا ضروری ہے جو زیادہ ایکٹو (active)نہیں ہیں، زیادہ تر جماعتی کاموں میں involve نہیں ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں کہ جن کو عموماً کھول کر بیان نہیں کیا جاتا۔ یا مربیان اور عہدیداران افرادِ جماعت کے سامنے اس طرح احسن رنگ میں ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے۔ جس کی وجہ سے بعض ذہنوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں سوال اُٹھتے ہیں لیکن وہ سوال کرتے نہیں۔ اس لئے کہ جماعتی ماحول یا اُن کا عزیز رشتے دار یا والدین ان سوالوں کو برا سمجھیں گے یا وہ کسی مشکل میں پڑ جائیں گے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ مربیان اور مبلغین سے سوال کر کے یا عہدیداروں سے جو علم رکھتے ہیں اُن سے سوال کر کے، یا اپنی ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں سے سوال کر کے پوچھیں۔ خدام الاحمدیہ اور لجنہ سے تعلق رکھنے والوں اور تعلق رکھنے والیوں کا اپنی اپنی متعلقہ ذیلی تنظیموں سے اس طرح تعلق ہونا چاہئے کہ آسانی سے سوال کر سکیں تا کہ معلومات میں بھی اضافہ کریں اور کوئی شکوک و شبہات ہیں تو وہ بھی دُور کریں یا مجھے بھی لکھ سکتے ہیں۔ بعض لوگ مجھے دوسرے ملکوں سے بھی اور بعض دفعہ یہاں سے بھی لکھتے ہیں اور انتہائی ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے لکھتے ہیں تو اُن کے سوالوں کے جواب دئیے بھی جاتے ہیں۔ بہر حال یہ بات بھی سامنے آئی کہ بعض عہدیدار بھی اپنے فرائض اور دائرہ کار کے بارے میں تفصیل نہیں جانتے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کرتے۔

جو باتیں مَیں بیان کرنے لگا ہوں اس میں ایک پہلو تو عقیدے اور اُس کے بارے میں علم سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ ہم کیوں کسی عقیدے پر قائم ہیں اور اسی طرح بعض باتیں جو ہمیں کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اُن کے بارے میں بھی علم ہو کہ کیوں ہمیں کہا جاتا ہے اور کیوں یہ ایک احمدی مسلمان کے لئے ضروری ہے؟ اس میں مالی قربانی ہے، اس بارے میں لوگ تفصیل جاننا چاہتے ہیں۔ دوسرے اس تعلق میں عہدیداران کی بعض انتظامی ذمہ داریاں ہیں اُن کو کس طرح نبھانا ہے اور کس حد تک اختیارات ہیں۔ بہرحال اس تعلق میں ان دوباتوں کی طرف مَیں مختصراً توجہ دلاؤں گا۔

پہلی بات تو یہ ہے جو عقیدے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک احمدی کے لئے اس کا جاننا ضروری ہے۔ عموماً اس کا بیان تو ہوتا بھی رہتا ہے لیکن اُس توجہ سے نہیں ہوتا یا اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے نہیں ہوتا کہ ہمارے اپنے لوگوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ایک پیدائشی احمدی ہے، اُسے علم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ نئے آنے والوں کو تو اس کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔ پڑھ کر تحقیق کر کے آتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہاجو اتنے زیادہ ایکٹو (active) نہیں ہیں، اجتماعات پر نہیں آتے، بعض جلسوں پر بھی نہیں آتے اور ہر ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں، چاہے تھوڑی تعداد ہو، ایک تعداد ہے جس کی طرف ہمیں فکر سے توجہ دینی چاہئے اور اس کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنا کر اس پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی طرح جماعتی نظام بھی ایسے لوگوں کو دھتکارنے کے بجائے یا یہ کہنے کے بجائے کہ ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی اُنہیں قریب لانے کی کوشش کرے۔ سوائے اُن کے جو کھل کر کہہ دیتے ہیں کہ میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کے بارے میں بھی جو جماعت کا main جماعتی نظام، main stream ہے، اُس کو چاہئے کہ ذیلی تنظیموں کو ان لوگوں کی معلومات دے دیں، کیونکہ بعض بڑی عمر کے عہدیداران کے سخت رویے کی وجہ سے بھی لوگ ایسے جواب دے دیتے ہیں۔ ذیلی تنظیمیں ان کے ہم عمر یا کچھ حد تک ہم مزاج لوگوں کے ذریعہ سے اُن کی اصلاح کی طرف توجہ دے سکتی ہیں۔ اور جہاں یہ طریق اپنایا گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی بھی ہوئی ہے۔ بعض جگہ بعض سیکرٹریانِ تربیت ایسے بھی ہیں جنہوں نے تربیت کے لئے ایسے لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے پروگرام بنائے اور اس کا اچھا اور بڑا خاطر خواہ اثر ہوا۔ بڑی اچھی response ان لوگوں سے ملی۔ بہرحال کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے حتی الوسع ہر احمدی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ یہ ہر عہدیدار کی ذمہ داری ہے، ہر مربی کی ذمہ داری ہے اور ہر سطح پر ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کی ذمہ داری ہے۔

اس اصولی بات کے بعد جو پہلی بات مَیں کرنا چاہتا ہوں، وہ جیسا کہ مَیں نے کہا، ہر احمدی کو پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے؟ اور یہ کہ آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ اس کے لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی مَیں بیان کروں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآنِ شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کا م ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹّی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسِلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اس قدر ہو کہ ُروئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے‘‘۔ فرمایا کہ: ’’اِس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کر نابھی آسان نہیں۔ چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی تو ہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ9۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اور یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کی بات نہیں ہے بلکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں اور قرآنِ شریف کی سچائی کو دنیا میں قائم کرنے کے بارے میں اپنے لٹریچر میں، اپنی کتب میں، اپنے ارشادات میں جس طرح روشنی ڈال گئے ہیں، وہ آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور قرآنِ شریف کی سچائی کو دشمنوں پر ثابت کر رہا ہے۔

مَیں نے مختلف موقعوں پر مختلف مثالیں دی ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پہلوؤں کو غیروں کے سامنے بیان کیا جائے تو کس طرح وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر یہی سیرت ہے، یہی تعلیم ہے تو ہم غلطی پر تھے۔ کچھ عرصہ ہوا اپنی کسی تقریر میں کینیڈا کے ایک مخالفِ اسلام کی مَیں نے مثال دی تھی جس نے ڈینش اخباروں کے کارٹون بھی اپنے رسالے میں، اپنے اخبار میں شائع کئے تھے۔ اُس نے جب اس دفعہ دورے میں وہاں میری بات سنی ہے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں اُسے علم ہوا تو وہ اپنے اخبار میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ امام جماعت احمدیہ کی بات سن کر مجھے حقیقت کا علم ہوا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ اسی طرح گزشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک بڑے سیاستدان نے جمعہ کے حوالے سے غلط قسم کا پروگرام اپنے ریڈیو میں دیا یا باتیں کیں۔ اس پروگرام کو سننے والوں کی تعداد بھی بہت بڑی ہے، لاکھوں میں ہے۔ اس پر جمعہ کی اہمیت اور حقیقت قرآنِ کریم کی رُو سے کیا ہے؟ اس بارہ میں ہمارے ایک احمدی نوجوان نے اپنا آرٹیکل لکھا، ویب سائٹ پر دیا۔ پھر اس شخص کو لکھا گیا۔ یہ وہاں کا بڑا پولیٹیکل لیڈر ہے، مشہور آدمی ہے کہ تم نے غلط کہا ہے، اب ہمیں بھی ریڈیو پر وقت دو۔ چنانچہ اُس نے وقت دیا۔ یہ بہر حال اُس کی شرافت تھی اور ہمارے ایک احمدی نوجوان نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ریڈیو پر جمعہ اور اُس کے حوالے سے قرآن کے تقدس کے بارے میں بات کی تو اُس نے یہ تسلیم کیا کہ میری غلطی تھی اور اس پروگرام کو بھی لاکھوں افرادنے سنا۔ اور یہ سب بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہی ہمیں حقیقی اسلامی تعلیم کا پتہ چلتا ہے۔ پس یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو ہمیں بتایا، ہمیں حقیقت سے آشکار کیا، اسی وجہ سے ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دنیا پر روشن کریں، قرآنِ کریم کی تعلیم کو، حقیقت کو آشکار کریں۔ پس اس وجہ سے جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اسلام کی عظمت اور قرآنِ کریم کی عظمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور وقار دنیا میں دوبارہ آپ کے ذریعہ سے قائم ہو رہا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم کسی بھی وجہ سے کسی احساسِ کمتری کا شکار ہوں اور نوجوانوں کو اس بارے میں حوصلہ رکھنا چاہئے۔ جہاں جہاں بھی نوجوان ایکٹو (active) ہیں اللہ کے فضل سے مخالفین کا منہ بند کر رہے ہیں۔ پھر ہم میں سے ہر ایک کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننا کیوں ضروری ہے۔ تیرہ چودہ سال کے بچے بھی یہ سوال کرتے ہیں اور والدین اُن کو صحیح طرح جواب نہیں دیتے۔ اس بارے میں مَیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کر دیتا ہوں۔ یہ تفصیلی ایک ارشاد ہے۔ اس کو ذیلی تنظیمیں بعد میں اس کے حصے بنا کر سمجھانے کے لئے استعمال کر سکتی ہیں اور اس سے مزید رہنمائی بھی لے سکتی ہیں۔ ایک موقع پر بعض مولویوں نے آپ سے سوال کیا کہ ہم اب نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی لاتے ہیں تو پھر ہمیں آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ:

’’دیکھو جس طرح جو شخص اللہ اور اُس کے رسول اور کتاب کو ماننے کا دعویٰ کر کے اُن کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تقویٰ طہارت کو بجا نہ لاوے اور اُن احکام کو جو تزکیۂ نفس، ترکِ شر اور حصول خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے‘‘۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے لیکن یہ ساری نیکیاں نہ بجا لائے، برائیوں کو نہ چھوڑے، نیکیوں کو اختیار نہ کرے تو فرمایا کہ وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ ’’اور اُس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آسکتا۔ اسی طرح سے جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقتِ اسلام اور غایتِ نبوت اور غرضِ رسالت سے بے خبر محض ہے‘‘۔ یعنی کہ اُس کو پتہ ہی نہیں کہ نبوت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اغراض ہیں؟ ’’اور وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اُس کو سچا مسلمان، خدا اور اُس کے رسول کا سچا تابعدار اور فرمانبردار کہہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآنِ شریف میں احکام دئیے ہیں اسی طرح سے آخری زمانہ میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اُس کے نہ ماننے والے اور اُس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے۔ قرآن اور حدیث کے الفاظ میں فرق (جو کہ فرق نہیں بلکہ بالفاظِ دیگر قرآنِ شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے) صرف یہ ہے کہ قرآنِ شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفہ آخری کو مسیح موعودؑ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس قرآنِ شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اس شخص کی بعثت کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اُس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘

فرمایا کہ: ’’خلفاء کے آنے کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک لمبا کیا ہے اور اسلام میں یہ ایک شرف اور خصوصیت ہے کہ اُس کی تائید اور تجدید کے واسطے ہر صدی پر مجدد آتے رہے اور آتے رہیں گے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے‘‘۔

یہاں مجدد کے بارے میں پھر بعض دفعہ لوگ غلطی کھا جاتے ہیں کہ اگر آتے رہیں گے تو کون ہوں گے؟ اس بارے میں ایک تفصیلی خطبہ مَیں پہلے دے چکاہوں۔ اُس سے بھی نوٹس لئے جا سکتے ہیں کہ خلفاء ہی مجدد ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑی وضاحت سے بیان بھی فرما چکے ہیں۔ جماعت کے لٹریچر میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے۔ فرمایا: ’’دیکھو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے جیسا کہکَمَا کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے۔ شریعتِ موسوی کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ تھے جیسا کہ خود وہ فرماتے ہیں کہ مَیں آخری اینٹ ہوں۔ اسی طرح شریعتِ محمدی میں بھی اس کی خدمت اور تجدید کے واسطے ہمیشہ خلفاء آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے۔ اور اس طرح سے آخری خلیفہ کا نام بلحاظ مشابہت اور بلحاظ مفوضہ خدمت کے مسیح موعود رکھا گیا۔ اور پھر یہی نہیں کہ معمولی طور سے اس کا ذکر ہی کر دیا ہو بلکہ اُس کے آنے کے نشانات تفصیلاً کُل کتبِ سماوی میں بیان فرما دئیے ہیں۔ بائبل میں، انجیل میں، احادیث میں اور خود قرآنِ شریف میں اس کی آمد کی نشانیاں دی گئی ہیں اور ساری قومیں، یہودی، عیسائی اور مسلمان متفق طور سے اس کی آمد کے قائل اور منتظر ہیں۔ اس کا انکار کر دینا کس طرح سے اسلام ہو سکتا ہے۔ اور پھر جبکہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ اُس کے واسطے آسمان پر بھی اللہ تعالیٰ نے اُس کی تائید میں نشان ظاہر کئے اور زمین پر بھی معجزات دکھائے۔ اُس کی تائید کے واسطے طاعون آیا اور کسوف و خسوف اپنے مقررہ وقت پر بموجب پیشگوئی عین وقت پر ظاہر ہو گیا۔ تو کیا ایسا شخص جس کی تائید کے واسطے آسمان نشان ظاہر کرے اور زمین اَلْوَقْت کہے وہ کوئی معمولی شخص ہو سکتا ہے کہ اُس کا ماننا اور نہ ماننا برابر ہو اور لوگ اُسے نہ مان کر بھی مسلمان اور خدا کے پیارے بندے بنے رہیں؟ ہرگز نہیں۔‘‘

فرمایا: ’’یاد رکھو کہ موعود کے آنے کی کُل علامات پوری ہو گئی ہیں۔ طرح طرح کے مفاسدنے دنیا کو گندہ کر دیا ہے۔ خود مسلمان علماء اور اکثر اولیاء نے مسیح موعود کے آنے کا یہی زمانہ لکھا ہے کہ وہ چودھویں صدی میں آئے گا…‘‘۔ فرمایا: ’’اس قدر متفقہ شہادت کے بعد بھی جو کہ اولیاء اور اکثر علماء نے بیان کی۔ اگر کوئی شبہ رکھتا ہو تو اُسے چاہئے کہ قرآنِ شریف میں تدبر کرے اور سورۃ النُّور کو غور سے مطالعہ کرے۔ دیکھو جس طرح حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد حضرت عیسیٰ آئے تھے اسی طرح یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی ہی میں مسیح موعود آیا ہے۔ اور جس طرح حضرت عیسیٰؑ سلسلہ موسوی کے خاتَم الخلفاء تھے اسی طرح اِدھر بھی مسیح موعود خاتم الخلفاء ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد5صفحہ551، 552 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)۔ یعنی آپ نے فرمایا کہ میں آئندہ ہزار سال کا خلیفہ ہوں اور جو بھی اب آئے گا آپ کی متابعت میں ہی آئے گا۔

پس جن پیشگوئیوں کے مطابق جو قرآنِ کریم اور حدیث میں واضح ہیں، مسیح موعودنے چودھویں صدی میں آنا تھا، وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی ہیں۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آپ کی کتب کو پڑھے۔ انگریزی دان جو ہیں یا جن کو اردو زبان نہیں آتی ان کے لئے دوسرے ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں اتنا لٹریچر موجود ہے کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے اس بارے میں وضاحت سے موجود ہے۔ اپنے عقیدے کو مضبوط اور پختہ کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ اعتراض کرنے والوں کے اعتراضوں کے جواب دیں۔ خود تیاری کریں گے تو علم بھی حاصل ہو گا اور اعتراضوں کے جواب بھی تیار ہوں گے۔

اس کے لئے بھی علاوہ اس کے کہ ہر شخص خود کرے، جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنانے چاہئیں کہ کس طرح ہم اس بارے میں ہر فرد تک یہ تعلیم پہنچا دیں کہ آپ کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ یہ تو عقیدے کی بات ہو گئی جو میں نے کر دی ہے۔

دوسری بات تربیت کی ہے اور وہ افرادِ جماعت کا خلافت کے ساتھ تعلق ہے۔ خلافت کے ساتھ تعلق میں آج کل اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ دیا ہوا ہے۔ اسی طرح alislam ویب سائٹ ہے۔ پس ان سے بھی جوڑنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو، نوجوان کو، مرد ہو عورت ہو جوڑنے کی کوشش کریں اور نظامِ جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے۔ مخلصین اور باوفا مخلصین کی بہت بڑی تعداد ہے جو بڑی کوشش سے آتے ہیں اور یہاں مسجد میں آ کر بھی خطبہ سنتے ہیں اور دنیا میں مختلف جگہوں پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی سنتے ہیں اور باقاعدگی سے سنتے ہیں، بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ دو تین دفعہ سنتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی تعداد ہے جو نہیں سنتی۔ یہاں یوکے (UK) میں ہی ایسے لوگ ہیں جو خطبات نہیں سنتے اور نہ ہی دوسرے پروگرام دیکھتے ہیں بلکہ وہ بعض پروگراموں میں شامل بھی نہیں ہوتے۔ ایک جماعت میں کافی تعداد میں لوگوں نے خلافِ تعلیمِ سلسلہ بعض حرکتیں کیں جس کی وجہ سے مجبوراً اُن پر کچھ پابندیاں عائد کی گئیں۔ جب مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اُن میں سے اکثریت ایسی ہے جو خطبات نہیں سنتے، یا جن کا جماعت میں زیادہ تر actively آنا جانا نہیں ہے، نہ جماعتی پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں لیکن جماعت کے ساتھ تعلق کیونکہ اُن کے خون میں تھا اس لئے جب اُن پر پابندیاں لگیں، اُن کو تھوڑی سی سزا دی گئی تو پریشان بھی ہو گئے اور انتہائی فکر اور درد سے مجھے معافی کے خط بھی لکھنے لگ گئے۔ بعض مجھے ملے بھی تو اُس وقت بھی روتے تھے۔ اگر وہ صرف دنیادار ہی ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ پس ایسے بھی ہیں جو دنیا کے کاروباروں کی وجہ سے لاپرواہ ہو جاتے ہیں اور جب اُنہیں توجہ دلائی جاتی ہے تو پھر اُنہیں شرمندگی کا احساس بھی ہوتا ہے اور توبہ و استغفار بھی کرتے ہیں اور آئندہ سے جماعت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ پس یہ یاددہانی کروانا اور نگرانی بھی رکھنا یہ جو جماعتی نظام ہے، سیکرٹریان، مبلغین اور ذیلی تنظیمیں ہیں، ان سب کا کام ہے کہ خلافت سے ہر فرد کا ذاتی تعلق پیدا کروانے کی کوشش کریں۔ دلوں میں خلافت سے تعلق اور وفا کو جو پہلے ہی ہے اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ جب اُن کو سمجھایا جائے تو یہ لوگ مزیدنکھر کے سامنے آتے ہیں۔ اگر کوئی گرد پڑ بھی گئی ہو تو وہ جھڑ جاتی ہے۔ کیونکہ جب کوئی تعزیر کی جاتی ہے تو اُس وقت اس وفا کا شدت سے اظہار ہوتا ہے۔

اگر تربیت کا شعبہ مستقل خلیفہ وقت سے رابطے کی تلقین کرتا رہے اور خطبات اور جلسوں اور سارے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں تو جہاں خلافت سے مزید تعلق مضبوط ہو گا، وہاں تربیت کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

پھر اگلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ افرادِ جماعت پر چندوں کی اہمیت واضح کرنا ہے۔ یاد رکھیں اور یہ بات عموماً میں سیکرٹریانِ مال سے کہا بھی کرتا ہوں کہ لوگوں کو یہ بتایا کریں کہ چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ اُن فرائض میں داخل ہے جن کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں متعدد جگہ حکم فرمایا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاتَّقُوْااللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَ نْفُسِکُمْ۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ، وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ (التغابن: 17۔ 18) پس اللہ کا تقوی اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اگر تم اللہ کو قرضہِ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا۔ اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُم وہ اُسے تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدر شناس اور بردبار ہے۔

پس ان آیات سے واضح ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور فرمایا کہ تمہارا خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ہے اور اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جو بندے کو اُس کی قربانی کے بدلے میں کئی گنا بڑھا کر لوٹاتی ہے۔ اور لوگ ایسے متعدد واقعات مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی راہ میں چندہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا۔ اس بارے میں کئی دفعہ مَیں مختلف واقعات بھی بیان کر چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اور بے نیاز ہے، اُس کو ہمارے پیسے کی ضرورت نہیں۔ اصل میں تو ہمیں پاک کرنے کے لئے ہمارے اطاعت کے معیار دیکھنے کے لئے، ہمیں تقویٰ کی راہوں کی تلاش کرتا دیکھنے کے لئے، ہمارے مال کی قربانی کے دعویٰ کے معیار کو دیکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اُس کی راہ میں خرچ کرو، اُس کے دین کے پھیلانے کے لئے، بڑھانے کے لئے خرچ کرو۔

پس ہر احمدی کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم چندہ کیوں دیتے ہیں؟ اگر کسی سیکرٹری مال یا صدر جماعت کو خوش کرنے کے لئے، یا اُس سے جان چھڑانے کے لئے چندہ دیتے ہیں تو ایسے چندے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہتر ہے نہ دیا کریں۔ اگر دوسرے کے مقابل پر آ کر صرف مقابلے کی غرض سے بڑھ کر چندہ دیتے ہیں تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ غرض کہ کوئی بھی ایسی وجہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ چندہ دینے کی ہو، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں ردّ ہو سکتی ہے۔ پس چندہ دینے والے یہ سوچیں کہ خدا تعالیٰ کا اُن پر احسان ہے کہ اُن کو چندہ دینے کی توفیق دے رہا ہے، نہ کہ یہ احسان کسی شخص پر، اللہ تعالیٰ پر یا اللہ تعالیٰ کی جماعت پر ہے کہ وہ اُسے چندہ دے رہے ہیں۔ پس ہر چندہ دینے والے کو یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ وہ چندے دے کر خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ الٰہی جماعتوں کے لئے مالی قربانی انتہائی اہم چیز ہے۔ اس لئے مَیں نے تمام جماعتوں کو یہ کہا ہے کہ نومبائعین اور بچوں کو وقفِ جدید اور تحریکِ جدید میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کریں، چاہے ایک پیسہ دے کر کوئی شامل ہوتا ہو، تا کہ اُنہیں عادت پڑے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں۔ چندوں کی اہمیت کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے، اسی واسطے علم تعبیر الرّؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اُس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اُس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتّقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا: لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران: 93)حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جبتک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت میں لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں للّٰہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور کُل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ367، 368 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس سیکرٹریانِ مال کو اس طریق پر افرادِ جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے کہ جب مالی قربانی ہو تو تقویٰ اور ایمان پختہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مربیان کو بھی اس بارے میں جب بھی موقع ملے نصیحت کرنی چاہئے۔ اس کے لئے مسلسل توجہ کی ضرورت ہے۔ پس ہر سطح پر سیکرٹریانِ مال کو فعّال ہونے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹریانِ مال کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور ہر فرد تک اُن کی ذاتی approach ہو۔ یہ نہیں کہ ذیلی تنظیموں کے سپرد کر دیا جائے کہ ذیلی تنظیمیں اس میں مدد کریں۔ ذیلی تنظیمیں صرف اس حد تک مدد کریں گی کہ وہ اپنے ممبران کو تلقین کریں۔ اس سے زیادہ سیکرٹریانِ مال کی مدد ذیلی تنظیم کا کام نہیں ہے۔ ذیلی تنظیمیں اپنے ممبران کو توجہ دلا سکتی ہیں کہ سیکرٹریانِ مال سے تعاون کریں اور چندے کی روح کو سمجھیں۔ بہرحال چندے کی روح کو سمجھانا تو ذیلی تنظیموں کا کام ہے۔ لیکن سیکرٹریانِ مال اس بات سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے کہ ہم نے ذیلی تنظیموں کو کہاتو انہوں نے ہماری مددنہیں کی۔ یہ ذمہ داری اُن کی ہے اور اُنہی کو نبھانی پڑے گی۔ سیکرٹریانِ مال کا کام ہے کہ ہر مقامی سطح پر، ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اب تو فون ہیں، دوسرے ذریعے ہیں، سواریاں ہیں۔ یہاں یورپ میں تو اور بھی زیادہ بڑے وسائل ہیں۔ پاکستان میں ایسے سیکرٹریانِ مال بھی تھے جو دن کو اپنا کام کرتے تھے اور پھر شام کے وقت کام ختم کرکے رات کو گھروں میں پھرتے تھے۔ بڑے شہر ہیں، کراچی ہے لاہور ہے سائیکل پر سوار ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہیں اور نصیحت کر رہے ہیں، اس طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ تو یہاں تو اب بہت ساری سہولتیں آپ کو میسر ہیں اور پھر بھی کام نہیں کرتے۔ بلکہ بعض سیکرٹریانِ مال کی یہاں بھی مجھے شکایات پہنچی ہیں کہ اُن کے اپنے چندے معیاری نہیں ہیں۔ اگر اپنے چندے معیاری نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیا تلقین کر سکتے ہیں۔ اور پیار اور نرمی سے یہ کام کرنے والا ہے۔ مالی قربانی کی اہمیت واضح کریں۔ بعض سخت ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کوئی انکار کرتا ہے تو دوسری دفعہ جائیں، تیسری دفعہ جائیں، چوتھی دفعہ جائیں لیکن ماتھے پر بل نہیں آنا چاہئے۔ دینے والے بھی یہ یاد رکھیں کہ کسی شخص کو یہ زُعم نہیں ہونا چاہئے کہ شاید اُس کے چندے سے نظامِ جماعت چل رہا ہے اور اس لئے سیکرٹری مال بار بار اُس کے پاس آتا ہے۔

یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کبھی مالی تنگی نہیں آئے گی اور کام چلتے رہیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہاں آپ کو فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ مال کا خرچ جو ہے وہ صحیح رنگ میں ہوتا ہے کہ نہیں؟ (ماخوذ از رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ 319) اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خرچ حتی الوسع صحیح طریقے پر ہو۔ بعض جگہ خرچ میں لاپرواہی ہو تو توجہ بھی دلائی جاتی ہے۔ جماعت میں آڈٹ کا نظام بھی اس لئے قائم ہے۔ اور پھر یہ امیر جماعت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اخراجات پر گہری نظر رکھے۔ یہ نہیں کہ جو بِل آیا اُس کو ضرورپاس کر دینا ہے۔ آڈٹ کے نظام کو فعال کرے اور اس طرح فعال کرے کہ آڈیٹر کو آزادی ہو کہ جس طرح وہ کام کرنا چاہتا ہے اپنی مرضی سے کرے۔ اُس کو پورے اختیار دئیے جائیں۔ خرچ کے بارے میں مَیں بتا دوں کہ ایم ٹی اے کا ایک بہت بڑا خرچ ہے اور ایم ٹی اے کے لئے مدّتربیت کے لحاظ سے علیحدہ تحریک بھی کی جاتی ہے۔ گو کہ اب اخراجات اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ صرف اُتنی رقم سے تو ایم ٹی اے کے خرچ نہیں چل سکتے۔ تو جو جماعت کا باقی مجموعی بجٹ ہے اُس میں سے بھی رقم خرچ کی جاتی ہے کیونکہ ساری دنیا میں ایم ٹی اے کے لئے ہمارے چار پانچ سیٹلائٹ کام کررہے ہیں۔ تو اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ اگر جلسے کے دوسرے دن کی تقریر کو غور سے سنیں، جو یہاں یوکے(UK) میں مَیں کرتا ہوں تو ہر ایک کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے پیسے میں کتنی برکت ڈالی ہوئی ہے اور کس طرح کام کی وسعت ہو رہی ہے اور کس طرح کام کا پھیلاؤ ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر سال اس پیسے کو کتنے پھل لگا رہا ہے اور کس طرح لگا رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سب اخراجات احبابِ جماعت کی مالی قربانیوں سے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض انتظامی باتوں کی طرف بھی میں آج توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا ہے کہ خلیفۂ وقت کے خطبات کا سننا بھی بہت ضروری ہے۔ یا دوسری باتیں جو مختلف وقتوں میں کی جاتی ہیں اُن پر غور کرنا اور نوٹ کرنا بڑا ضروری ہے۔ عہدیدار جہاں احبابِ جماعت کو یہ توجہ دلائیں وہاں عہدیداران خود بھی اس طرف توجہ دیں۔ امیر جماعت کا خاص طور پر یہ کام ہے کہ خطبات میں اگر کوئی ہدایت دی گئی ہے اور اگر کوئی تربیت کا پہلو ہے تو فوراً اُسے نوٹ کریں اور صدرانِ جماعت کو سرکلر کریں۔ اور پھر باقاعدگی سے اس کی نگرانی ہو کہ کس حد تک اُس پر عمل ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض اور جماعتیں بھی یہ کرتی ہوں لیکن رپورٹ کا جہاں تک تعلق ہے ابھی تک صرف امریکہ کی جماعت کے امیر ہیں جو باقاعدگی سے یہ نوٹ کرتے ہیں اور پھر سرکلر بھی کرتے ہیں اور کوئی بھی بات جب دیکھیں کہ خطبہ میں کی گئی ہے، کوئی ہدایت دی گئی ہے تو آگے پہنچاتے ہیں۔ اور باقیوں کو بھی چاہئے کہ اس پر عمل کریں۔ یوکے (UK) تو ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اگر اس بارے میں یہاں صحیح رنگ میں کام کیا جائے تو سب جماعتوں سے بڑھ کر یہاں بہترین نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرکز سے یا میری طرف سے مختلف ہدایات جو جاتی ہیں وہ بھی آپ کا کام ہے کہ فوری طور پر جماعتوں کو پہنچائی جائیں اور پھر اُس کا follow up بھی کیا جائے، feedback بھی لی جائے۔

اسی طرح نیشنل امیر جماعت ریجنل امیر بنا کر صرف اس بات پر نہ بیٹھ جائیں کہ ریجنل امیر کام کر رہے ہیں اور تمام کام کا انحصار انہی پر ہو، یہ نہیں ہونا چاہئے، صحیح طریق نہیں ہے۔ اس سے جو بات اَب تک میری نظر میں آئی ہے یہ ہے کہ ملکی مرکز اور جماعتوں میں دُوری پیدا ہو رہی ہے، بلکہ یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہم مرکز تک یعنی ملکی مرکز تک براہِ راست نہیں پہنچ سکتے۔ یہ احساس بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے یہاں بھی اور دوسری جگہ بھی امیر جماعت اس بات کی پابندی کریں کہ سال میں کم از کم دو مرتبہ صدران کے ساتھ میٹنگ ہو اور کام اور ترقی کی رفتار کا جائزہ لیا جائے اور جو صدران باوجود توجہ دلانے کے کام نہیں کرتے اُن کی رپورٹ مجھے بھجوائیں۔ اسی طرح سیکرٹریانِ مال، سیکرٹریانِ تربیت، سیکرٹریانِ تبلیغ بھی ہیں۔ اگر دو نہیں تو سال میں کم از کم ایک میٹنگ ان کے ساتھ ضروری ہونی چاہئے اور ان کے کاموں کا جائزہ لیں۔ اگر یہ سیکرٹریان فعال ہو جائیں تو باقی شعبوں کے سیکرٹریان ہیں، یا باقی شعبوں کے جو بہت سارے مسائل ہیں وہ بھی خود بخود حل ہو جائیں گے۔

پس آج سے نیشنل امیر اپنے پروگرام بنائیں کہ ہر جماعت تک انہوں نے کس طرح پہنچ کر جماعتی نظام کو فعّال کرنا ہے۔ یوکے (UK) اور چھوٹے ممالک جو ہیں اُن میں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مرکز میں اور کسی بھی ریجن میں میٹنگ کے لئے جمع کیا جا سکتا ہے۔ جو بڑے ممالک ہیں، امریکہ کینیڈا وغیرہ ہے، وہ اس سلسلہ میں اپنا کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ کس طرح وہ ذاتی رابطہ ہر سطح کی جماعت کو فعال بنانے کے لئے کر سکتے ہیں۔ ایک اور اہم بات جو پہلے بھی مَیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں یہ ہے کہ افرادِ جماعت سے پیار اور نرمی کا سلوک کریں۔ یوکے (UK) شوریٰ پر جو مَیں نے باتیں کی تھیں، یوکے شوریٰ کا مختصر سا خطاب تھا، وہ ہر عہدیدار تک پہنچنا چاہئے۔ تبشیر اس بارے میں انتظام کرے اور ہر جگہ یہ پہنچا دیں۔ انتظامی امور میں ایک اور بات یہ کہنی چاہتا ہوں کہ عہدیدار اپنے اپنے شعبہ کے قواعد کے بارے میں ضرور پڑھیں۔ قواعد میں ہر ایک شعبہ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اُس کے کیا فرائض ہیں؟ کیا اختیارات ہیں؟

ایک ہدایت نیشنل امیر کے لئے ہے کہ وہ ریجنل امیر کو جو کام اور اختیارات دیں اُس کے بارے میں مرکز کو بھی لکھیں اور بتائیں۔ اس پر کم از کم میرا خیال ہے کہ کہیں بھی عمل نہیں ہو رہا۔ کیونکہ کبھی ایسا خط مجھے نہیں آیا کہ ہم نے فلاں ریجن میں امیر مقرر کئے ہیں اور اُن کے یہ یہ اختیارات ہیں۔ اس پر قاعدہ نمبر 177 لکھا ہوا ہے اور بڑا واضح ہے۔ اب اس بارے میں توجہ کی ضرورت ہے۔ امراء خاص طور پر قواعد کی کتاب میں سے 215 سے 220 تک جو قواعد ہیں وہ ضرور پڑھیں اور خاص طور پر جب کسی معاملہ میں فیصلہ کرنا ہو تو ان کو ذہن میں رکھیں اور ان پر عمل کریں۔ ۱؎

۱؎ قواعد تحریک جدید کے Revised Edition 2008 کے مطابق یہ قواعد 259 تا 264 درج ہیں۔

اسی تعلق میں مبلغین کو بھی میں یاددہانی کروانا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور ایک ذمہ داری اُن کی یہ بھی ہے کہ جماعتوں میں قرآنِ کریم پڑھانے کا انتظام کریں۔ خود اگر کبھی دورے پر ہوں تو ایسے استاد تیار کریں جو بچوں اور قرآنِ کریم ناظرہ نہ جاننے والوں کو قرآنِ کریم پڑھا سکیں اور یہ کلاسیں باقاعدگی سے ہونی چاہئیں۔ یہ نہیں کہ ہفتہ میں ایک دن ہو گئی یا ہفتہ میں دو دن ہو گئی۔ مغرب یا عشاء کے وقت جب بھی وقت ہو پڑھائیں۔ اگر مربیان اور مبلغین دورے پر نہ ہوں اور خود موجود ہوں تو جو جو اُن کے سینٹر ہیں وہاں یہ کلاسیں لیں۔ کئی شکایات آ رہی ہیں کہ ہمارے بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے والا کوئی نہیں اور ہمیں مجبوراً بعض دفعہ غیر احمدیوں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اسی طرح جن کو قاعدہ پڑھانے کی ضرورت ہے، اُنہیں قاعدہ پڑھائیں۔ اس طرح بھی بچوں کو آپ لوگ مسجد سے attach کریں گے، مرکز سے attach کریں گے تو تربیتی لحاظ سے بھی یہ چیز بڑی مفید ہوگی اور قرآنِ کریم کے پڑھانے کا جو فائدہ ہے وہ تو ظاہر و باہر ہے ہی۔

مبلغین کے لئے یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عموماً تین چار سال بعد اُن کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اگر اس سے پہلے بھی ضرورت ہو تو جس ملک میں ہوں وہیں اسی جگہ ہوجاتا ہے۔ اگر اس طرح کی کبھی صورتحال پیدا ہو تو بعض ملکوں سے ہمیں یہ شکایت ہے کہ اُن کو بڑا انقباض ہوتا ہے۔ ایسے تبادلوں کو بخوشی تسلیم کرنا چاہئے۔ اللہ کے فضل سے یہاں یوکے (UK) کے مبلغین میں یہ بات ابھی تک میرے علم میں نہیں آئی۔

یہ بھی اہم بات یاد رکھیں کہ اگر کسی عہدیدار یا اگر امیر کو بھی کسی بات کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہو مثلاً اگر کوئی ایسا معاملہ ہے جو جماعتی روایت کے خلاف ہے یا جس میں کوئی شرعی روک ہے تو ادب کے دائرے میں اور نرمی کے ساتھ توجہ دلائیں۔ اگر بات نہ مانی جائے اور جماعتی نقصان ہو رہا ہو یا شرعی حکم ٹوٹ رہا ہو تو پھرمجھے اطلاع کر دیں۔ کسی قسم کی آپس میں بحث اور ایک ضد بازی نہیں شروع ہو جانی چاہئے۔ کیونکہ یہ پھر نظامِ جماعت میں تفرقہ ڈالنے کا موجب بنتی ہے۔ بیشک مَیں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مربیان دینی مسائل میں امراء کو توجہ دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اس قاعدے کی بھی پابندی کرنی ضروری ہے یا ایسے اخلاق کی بھی پابندی کرنی ضروری ہے کہ احسن طریق پر اور بغیر کسی ایسے ماحول کو پیدا کئے جس سے جماعتی نظام متاثر ہو رہا ہو، یہ نصیحت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی احمدی بننے اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

ابھی نماز جمعہ کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو عزیزہ تانیہ خان کا ہے جو آصف خان صاحب سیکرٹری امورِ خارجہ کینیڈا کی اہلیہ تھیں۔ 6؍اگست 2013ء کو 38 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ لبنانی نژاد کینیڈین خاتون تھیں۔ 1998ء میں انہوں نے احمدیت قبول کی۔ بڑی فعال داعی الی اللہ تھیں۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ نیشنل سیکرٹری تبلیغ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے علاوہ مختلف حیثیتوں سے لوکل اور نیشنل لیول پر جماعتی خدمت کی ان کو توفیق ملی۔ ایم ٹی اے کینیڈا کی مستقل ممبر تھیں۔ میڈیا پر بھی اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے ہمیشہ مستعد رہتی تھیں۔ اس مقصد کے لئے آپ نے کینیڈا کے طول و عرض کے علاوہ امریکہ کا سفر بھی اختیار کیا۔ اپنا مؤقف ہر فورم پر بڑی خوبصورتی اور نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا کرتی تھیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایک ٹیچر تھیں اور ابھی حال ہی میں اُن کی تقرری وائس پرنسپل کے طور پر بھی ہوئی تھی۔ طلباء میں انسانی قدریں پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں۔ ٹیچر کی حیثیت سے کئی ایوارڈ حاصل کئے۔ خلافت کے ساتھ ان کا بڑا محبت اور وفا کا تعلق تھا۔ ہر تحریک پر لبیک کہنے والی تھیں۔ پردہ کی پابند اور خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشار۔ اپنے اعضاء بھی انہوں نے وفات کے بعد donate کرنے کی وصیت کی ہوئی تھی۔ غریبوں کی بڑی ہمدرد، بیوی بھی مثالی، ماں بھی مثالی، ہر رشتہ کو خوبصورتی سے نبھانے والی تھیں۔ پاکستانی سے شادی ہوئی تھی لیکن انہوں نے غیر معمولی طور پر اپنے آپ کو adjust کیا۔ اسلامی اقدار کی محافظ، بڑی مخلص خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کی تین بچیاں ہیں جو وقفِ نو میں شامل ہیں۔ ان کا حلقہ کافی وسیع تھا۔ وہاں صوبے کی جو خاتون وزیرِ اعلیٰ ہے وہ بھی ان کے جنازے پر آئی ہوئی تھیں۔ ممبران پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے۔ ممبر، کونسلر، سکول کے اساتذہ، طلباء، غیروں کی بھی بڑی کثیر تعداد تھی۔ بڑی مشہور اور ہر دلعزیز تھیں۔ چھوٹے بڑے ہر ایک سے میں نے ان کی تعریف سنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور ان کی بچیوں کو بھی اور خاوند کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ اگست 2013ء شہ سرخیاں

    ہر احمدی کو پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے؟ اور یہ کہ آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟اپنے عقیدے کو مضبوط اور پختہ کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنانے چاہئیں کہ کس طرح ہم اس بارے میں ہر فرد تک یہ تعلیم پہنچا دیں کہ آپ کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے۔

    جو جماعتی نظام ہے، سیکرٹریان، مبلغین اور ذیلی تنظیمیں سب کا کام ہے کہ خلافت سے ہر فرد کا ذاتی تعلق پیدا کروانے کی کوشش کریں۔ دلوں میں خلافت سے تعلق اور وفا کو جو پہلے ہی ہے، اُجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ ہر احمدی کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم چندہ کیوں دیتے ہیں؟ہر سطح پر سیکرٹریانِ مال کو فعّال ہونے کی ضرورت ہے۔ خلیفۂ وقت کے خطبات کا سننا بھی بہت ضروری ہے۔ مبلغین جماعتوں میں قرآنِ کریم پڑھانے کا انتظام کریں۔ مختلف تربیتی اور انتظامی امور سے متعلق امراء جماعت، مبلغین، عہدیداران اور افراد جماعت کونہایت اہم تاکیدی نصائح۔

    مکرمہ تانیہ خان صاحبہ اہلیہ مکرم آصف خان صاحب کینیڈاکی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 16؍اگست 2013ء بمطابق 16 ظہور 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور