جلسہ سالانہ یوکے اور مہمان نوازی

خطبہ جمعہ 23؍ اگست 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگلے جمعہ سے انشاء اللہ جلسہ سالانہ یوکے (UK) شروع ہو رہا ہے۔ جلسہ شروع ہونے سے بہت پہلے جلسے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ یوکے (UK) کا جلسہ سالانہ ایسا جلسہ ہے جہاں جلسے کے عارضی انتظامات کر کے چند دنوں کے لئے ایک عارضی شہر ہی بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جلسے ہوتے تھے تو وہاں بھی لنگر خانوں کا ایک مستقل انتظام تھا، کئی لنگر تھے۔ اسی طرح رہائشگاہیں بھی کافی حد تک مستقل ہو گئی تھیں۔ اس سے پہلے جب سکول اور کالج جماعت کے تھے تو وہ رہائشگاہ ہوتی تھی۔ لیکن جب حکومت نے لے لئے تو پھر دوسری رہائشگاہیں بن گئیں۔ گو بہت زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے عارضی رہائشگاہیں خیمے لگا کر بھی بنائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ربوہ کے مکین مہمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے گھروں میں سمو لیتے تھے۔ وہ جس جس جگہ پر ہوتے تھے اُن کا کھانا وغیرہ لنگر خانوں سے آتا تھا۔ بہر حال ربوہ کے جلسے کے بعض مستقل انتظامات بھی تھے اور ایک لمبے تجربے سے، علاوہ مستقل انتظامی ڈھانچے کے، ربوہ کے مکین بھی انتظامات کے ماہر ہو چکے تھے۔ اللہ کرے کہ اُن کی یہ رونقیں اور یہ تربیتی ماحول اور یہ خدمت کے جذبے اُن کی زندگی کا دوبارہ حصہ بن جائیں۔ اسی طرح اب قادیان میں بھی بہت سے مستقل انتظامات ہو چکے ہیں۔ عارضی طور پر اب زیادہ جلسہ گاہ کے انتظامات ہی ہیں، جلسہ گاہ ہی ہے جو زیادہ انتظامات چاہتی ہے۔ بیشک لنگر خانوں کے لئے غیر احمدیوں میں سے زائد لیبر یا غیر مسلموں میں سے لیبر لانی پڑتی ہے۔ کھانے پکوائی کے لئے، روٹی پکوانے کے لئے پکانے والے لانے پڑتے ہیں۔ لیکن لنگروں کا مستقل وہاں بھی انتظام ہے۔

اسی طرح جرمنی میں بھی ہال وغیرہ میسر آنے کی وجہ سے بہت سے مستقل انتظامات موجود ہوتے ہیں۔ کھانا پکانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ روٹی وہ لوگ بازار سے لے لیتے ہیں جس کو تازہ روٹی سمجھ کر کھاتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں وہ بھی شاید ایک ہفتہ پرانی ہوتی ہے۔ بہر حال اگر نہیں ہوتی تو جرمنی والے پیغام پہنچانے میں بڑے تیز ہیں، شام تک مجھے پیغام پہنچ جائے گا کہ تازہ ہوتی ہے کہ نہیں۔ اسی طرح باقی دنیا کے جلسوں کے انتظامات کا حال ہے۔ لیکن برطانیہ کا جلسہ جو خلافت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے اَب انٹرنیشنل جلسہ بن چکا ہے، اس کے گزشتہ سال تک تو الف سے لے کر یاء تک تمام انتظامات عارضی انتظامات تھے۔ پہلے اسلام آباد میں جو جلسے ہوتے تھے تو وہاں کھانا پکانے کے لئے ایک مستقل انتظام تھا۔ اسی طرح کچھ حد تک روٹی کی بھی ضرورت پوری ہو جاتی تھی کہ وہاں اپنی روٹی پکانے کی مشین تھی۔ لیکن حدیقۃالمہدی میں جب سے جلسے منتقل ہوئے ہیں، گزشتہ دو تین سالوں سے یہاں شروع ہوئے ہیں تو کھانا بھی یہاں عارضی لنگر میں پکتا تھا کیونکہ اسلام آباد سے کھانا لانے میں یہی تجربہ ہوا تھا کہ دقّت ہوتی ہے۔ کچھ روٹی اسلام آباد میں پک جاتی تھی اور کچھ بازار سے خریدی جاتی تھی۔ لیکن اس وجہ سے بہرحال بہت دقّت محسوس ہورہی تھی۔ اس لئے یہاں کونسل کے ساتھ اس بات کی کوشش ہوتی رہی کہ ہمیں حدیقۃ المہدی میں مستقل کچن بنانے کی اجازت مل جائے کیونکہ مارکیاں لگا کر جو عارضی کچن لگانا پڑتا ہے یہ بڑا دقّت طلب بھی ہے اور بعض لحاظ سے خطرناک بھی۔ بہر حال کونسل نے اس سال مہربانی کی اور وہاں مستقل کچن کی اجازت مل گئی اور سٹوریج (storage) کے لئے جوشیڈز (sheds) بنے ہوئے تھے وہاں اُن میں ایک بڑے شیڈ (shed) کو بڑے اچھے طریقے سے اندر اور باہر سے ٹھیک کر کے لنگر کا مستقل کچن تیار ہو گیا۔ جس میں امید ہے اب حسبِ ضرورت کھانا انشاء اللہ تعالیٰ پک جائے گا۔ لیکن پھر روٹی کا مسئلہ تھا۔ جب میں نے اس طرف توجہ دلائی تو یہاں انتظامیہ کو، امیر صاحب وغیرہ کو یہی خیال تھا کہ حسبِ سابق جس طرح بازار سے روٹی خریدتے ہیں، یا کچھ اسلام آباد سے پک کے آ جاتی ہے، وہی ہو۔ اُن کو میں نے کہا کہ نئی مشین لگائیں تو اُس کے خرچ کی وجہ سے ان کے کچھ تحفظات تھے لیکن بہرحال جب میں نے کہا مرکز آپ کو قرض دے دیتا ہے تو پھر ان کو تھوڑی سی غیرت آ گئی اور انہوں نے خرچ کرلیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لبنان سے روٹی پلانٹ منگوایا گیا اور پاکستان سے ہمارے ایک مخلص احمدی دوست ہیں جنہوں نے وہاں لبنان جا کر یہ مشین خریدی اور یہاں آ کر لگائی بھی۔ ابھی بھی وقت دے رہے ہیں۔ ان کو قادیان اور ربوہ میں بھی مشین لگانے کا تجربہ تھا۔ اس لئے بڑے احسن طریقے سے یہاں یہ کام ہو گیا۔

لنگر کے لحاظ سے اب حدیقۃ المہدی کے جلسے کے انتظام میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ انتظام ہے کہ وہاں روٹی پکوائی کے لئے بھی اور کھانا پکانے کے لئے بھی مستقل انتظام ہو گیا۔ بہر حال ہم کونسل کے بھی شکرگزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی جزا دے جنہوں نے اس کی اجازت دے دی۔ لیکن ابھی بھی باقی دنیا کے جلسوں کی نسبت یہ انفرادیت اس جلسے کی قائم ہے کہ بہت سے عارضی انتظامات تقریباً تیس ہزار کی آبادی کو سنبھالنے کے لئے کرنے پڑتے ہیں۔ خاص طور پر اگر بارش ہو جائے تو رہائش اور راستوں کامسئلہ رہتا ہے۔ راستوں کا مسئلہ تو ایک حد تک ٹریک (Track) بچھا کر حل کر لیا جاتا ہے لیکن جو رہائش ہے، اس کے لئے خیمے لگائے جاتے ہیں، یا چھوٹی مارکیاں ہیں، کھانا کھلانے کا انتظام ہے اور بعض دوسرے مسائل ہیں وہ ابھی بھی قائم ہیں۔ بہرحال ایک وقت آئے گا کہ جب انشاء اللہ تعالیٰ یہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور بعیدنہیں کہ یہ عارضی شہر ہی جماعت احمدیہ کا ایک مستقل شہر بن جائے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا شہر بسانے کے لئے عارضی انتظامات ہیں۔ اس عارضی انتظام کا بہت سا انتظام اور بہت بڑا کام وقارِ عمل کے ذریعہ سے والنٹیئرز کرتے ہیں، خدام کرتے ہیں، انصار کے اچھی صحت والے لوگ کرتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو اتفاقاً میں حدیقۃ المہدی گیا تو وہاں اُس وقت بھی علاوہ اُن لوگوں کے جو روٹی پلانٹ لگنے کے بعد اُس کے تجربات میں مصروف تھے، نوجوان، بچے اور بڑے بھی اپنے کاموں کے لئے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ اور جلسے کے انتظامات کو دو ہفتے، تین ہفتے پہلے ہی احسن رنگ میں انجام دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ روٹی پلانٹ لگانے کا کام بھی کسی باہر سے آنے والی کمپنی نے نہیں کیا بلکہ تمام کام ہمارے والنٹیئرز نے، ہمارے انجنیئرز نے اور ٹیکنیشنز نے اور دوسرے کارکنوں نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کو جزا دے۔

یہاں کے معیار بھی ایسے ہیں جن کو پورا کرنا بہت ضروری ہے۔ انڈیا یا پاکستان کی طرح یہ نہیں کہ جس طرح چاہیں کام کر لیں اور چیکنگ کوئی نہیں۔ عارضی کام کر لیا، تاریں لٹکی ہوئی ہیں تو لٹکی رہ جائیں یا بعض اور اصولی باتیں ہیں۔ یہاں تو ہر قدم پر چیکنگ ہوتی ہے۔ حکومت کا ادارہ یہاں آ کر دیکھتا ہے، منظوری دیتا ہے، اُس کے بعد پھر آپ اگلا کام شروع کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے روٹی پلانٹ اور کچن کی جو بھی شرائط تھیں اُن کے معیار کے مطابق وہ پوری ہو گئیں اور اجازت بھی مل گئی۔ بہر حال کہنے کا یہ مقصد ہے کہ یہاں کے عارضی انتظامات کی وجہ سے باقی جگہوں کی نسبت محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی والنٹیئرز بڑے ذوق و شوق سے اپنے کام کرتے ہیں۔ یہ روح کہ جماعت کی خاطر وقت دینا ہے احمدی کا خاص نشان بن چکی ہے۔ ہر معاملے میں احمدی اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ انجنیئرز ایسوسی ایشن ہے تو وہ اپنے کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشن ہے تو وہ اپنے کام کر رہی ہے۔ دوسرے متفرق شعبے ہیں تو اُن کے لوگ اپنے وقت دیتے ہیں۔ علاوہ جلسوں کے کاموں کے سارا سال یہ کام چل رہے ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا ایک خاصہ ہے کہ یہاں والنٹیئر کام بہت زیادہ ہوتا ہے۔ سالہا سال کی تربیت کی وجہ سے جلسے کے مہمانوں کی خدمت تو احمدی دنیا میں خاص طور پر ایک احمدی کا طُرّۂ امتیاز ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں سب جلسے کے دنوں میں خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ اور اپنے ذمہ جو بھی اُن کے مفوضہ فرائض ہیں اُن کی بجا آوری میں بڑے سرگرمی سے کوشاں ہوتے ہیں اور ہونا چاہئے۔ کیونکہ جلسے کے مہمان تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں۔ گویا یہ مہمان نوازی اعلیٰ خُلق بھی ہے اور دِین بھی ہے۔

یہاں یہ بھی بتا دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کا معیار کیا تھا؟ تا کہ ہمارے معیار مزید اونچے اور بہتر ہوں۔ ایک دن آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، آپ آرام فرما رہے تھے، ایک مہمان آ گئے۔ آپ کو پیغام بھیجا گیا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا ’’میں نے سوچا مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے۔ اس لئے مَیں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 163۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے ہمیں یہی معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس مہمان نوازی کا آج ہمیں موقع دیا جا رہا ہے وہ نہ صرف مہمان ہیں بلکہ ایک دینی مقصد کے لئے سفر کر کے آنے والے مہمان ہیں۔ اس لئے آ رہے ہیں کہ جلسے کے تین دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی باتیں سنیں گے۔ اس لئے آ رہے ہیں کہ اپنی روحانی اور دینی تربیت کے سامان کریں گے۔ اس لئے آرہے ہیں کہ آپس میں پیار اور بھائی چارے اور محبت کی فضا کو قائم کریں گے۔ بہت سے مہمان ایسے بھی ہیں جو بڑی تکلیف اُٹھا کر آتے ہیں۔ بعض بڑے اچھے حالات میں اپنے گھروں میں رہنے والے یہاں آتے ہیں تو یہاں دنیاوی آسائش کے لحاظ سے ان دنوں میں تقریباً تنگی میں گزارہ کرتے ہیں لیکن پھر بھی آتے ہیں۔ بعض غریب مہمان ہیں وہ اپنے پر بوجھ ڈال کر دور دراز ملکوں سے صرف جلسے کی برکات حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں۔ خلیفۂ وقت سے ملنے اور اُس کی باتیں سننے کے شوق میں آتے ہیں۔ اب بیشک ایم ٹی اے نے دنیائے احمدیت کو بہت قریب کر دیا ہے لیکن پھر بھی جلسے کے ماحول کا اپنا ایک علیحدہ اور الگ اثر ہے۔

پس ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آج کل کونسی تکلیف ہے جو یہ مہمان اُٹھا رہے ہیں۔ بعض بڑی عمر کے ہیں جو مختلف عوارض کے باوجود تکلیف اُٹھاتے ہیں اور سفر کرتے ہیں۔ بعض جیسا کہ مَیں نے کہا، اپنے گھر کی آسائشوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر سفر کرتے ہیں، مارکی میں سوتے ہیں اور سادہ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پس ایسے مہمانوں کا ہم پر بہت حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت ایسے مہمانوں کی ہوتی ہے جو صرف اور صرف جلسے کی غرض سے آتے ہیں اور اب تو سفر کے اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں لیکن خرچ کرتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے۔ پس ان مہمانوں کایہ احترام کرنا ہم پر فرض ہے۔ یہ بہت ہی قابلِ احترام مہمان ہیں جن کی نیت اللہ اور رسول کی رضا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور موقع پر مہمانوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔

’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو…‘‘ فرمایا ’’تم پر میرا حسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 492۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اور دینی غرض سے آئے ہیں، جن کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے تو ان کے لئے پھر ہمیں ایک توجہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسنِ ظن کا پاس کرنے اور خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ہر مہمان کے لئے خدمت کا جذبہ ہمارے دل میں ہونا چاہئے۔ اور دل میں ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہئے کہ مہمان کا حق ہوتا ہے۔ جہاں جہاں ہماری ڈیوٹیاں ہیں ہم نے اس حق کے ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر کارکن اور ہر ڈیوٹی دینے والے کے دل میں یہ ہونا چاہئے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسنِ ظن پر پورا اتریں۔ ہم یہ کہنے کے قابل ہوں کہ اے خدا کے مسیح! اور اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق! تیری ہر نصیحت پر ہم آج بھی عمل کرنے والے ہیں۔ اور ایک احمدی سے یہی توقع کی جاتی ہے۔ ایک صدی سے زائد کے سفر نے ہمیں آپ کے حسنِ ظن سے غافل نہیں کر دیا۔ آج بھی ہمارے بچے، جوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں اپنے فرائض کو نبھانے کے لئے حتی الوسع کوشش کر رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ کرتے رہیں گے۔ آپ کے اس خیال اور اس درد کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کوشش کرتے رہیں گے کہ آپ نے فرمایا کہ: ’’میراہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اُس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے۔‘‘ فرمایا ’’مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 292۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ بہت اہم نصیحت ہے۔ یہ صرف ہمارا زبانی عہدنہ ہو بلکہ عملی نمونہ ہو۔ اب دنیا کے مختلف ممالک میں جلسے ہوتے ہیں وہاں بھی مہمان آتے ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر دنیا کے مختلف ممالک سے مختلف قومیں جلسے پر آتی ہیں۔ ہر قوم اور طبقے کا معیار مختلف ہے۔ برداشت کا مادہ مختلف ہے۔ ان کے بات چیت اور جذبات کے اظہار کے طریق مختلف ہیں۔ ان کی ہمارے سے توقعات مختلف ہیں۔ ان کی ترجیحات مختلف ہیں۔ اس لئے ہر ایک کے ساتھ بڑی حکمت سے معاملہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پُر حکمت نصیحت ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہئے۔ اگر یہ سامنے ہوگی تو سب معاملے ٹھیک ہو جائیں گے کہ ’’مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘

اگر ہر خدمت کرنے والا اس نصیحت کو پلّے باندھ لے توکبھی جو چھوٹے موٹے مسائل پیدابھی ہوتے ہیں، اِلّا مَاشاء اللہ وہ پیدا نہ ہوں۔ شکایات کبھی نہیں ہوں گی سوائے اس کے کہ کسی کا مقصد ہی شرارت کرنا ہو، تو وہاں تو بہر حال بعض دفعہ سختیاں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ گزشتہ سال ایک واقعہ ہوا تھا۔ عورتوں کے کھانے کی دعوت کے دوران ایک خاتون مہمان جو بڑے دور دراز علاقے سے آئی تھیں کسی وجہ سے ناراض ہو گئیں۔ اس میں غلطی کسی کارکن کی تھی یا نہیں تھی، لیکن ہمیں اس کو بہر حال تسلیم کرنا چاہئے، تبھی اصلاح ہو سکتی ہے۔ بجائے اس کے کہ مختلف قسم کی تاویلیں پیش کی جائیں۔ اس مرتبہ تبشیر کے مہمانوں میں مردوں اور عورتوں دونوں طرف اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کو بھی تکلیف نہ ہو، کیونکہ یہ مختلف غیر ملکی مہمان ہوتے ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، ویسے تو جیسا کہ میں نے کہا، سب مہمان ہی مہمان ہیں۔ بہر حال اس شعبہ میں مَیں نے کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں انتظامی لحاظ سے ہیں۔ انتظامیہ کو بدلا ہے اور زیادہ تر واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کو شامل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بھی اب اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک انعام کیا ہے کہ بہت سارے واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو اس عمر کو پہنچ چکے ہیں اور تیار ہو چکے ہیں جو اپنے کام کو سنبھال سکیں۔ کچھ مستقل جماعت کی خدمت کر کے سنبھال رہے ہیں اور کچھ عارضی انتظامات میں بھی آ گئے ہیں۔ مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ یہ معیار اس سال بہتر ہو گا۔ لیکن یاد رکھیں کہ صرف شخصیات بدلنے سے، چہرے بدلنے سے بہتری نہیں آیا کرتی بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شاملِ حال رہے اور ہم وہ کام کریں، اُس طرح احسن رنگ میں خدمت کرنے والے ہوں جس طرح خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اُس کی توفیق مانگیں۔ اور یہ بھی دعا کریں کہ کوئی ایسا موقع پیدا نہ ہو جس میں غلط فہمی پیدا ہو۔

مہمان نوازی کے ضمن میں اس بات کی بھی مَیں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ انگلستان کے رہنے والے احمدی اور خاص طور پر لندن میں رہنے والے احمدی یہ خیال رکھیں کہ باہر سے، یعنی بیرون از یوکے (UK) سے آنے والے مہمان اُن کے بھی مہمان ہیں۔ باہر سے آنے والے مہمانوں کی تعداد اب کم و بیش تین ہزار ہوتی ہے۔ اگر ویزے مل جائیں تو شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائے۔ اس لئے یہاں کے احمدیوں میں سے کسی کی کسی کام پر ڈیوٹی ہے یا نہیں ہے اُن کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ باہر سے آنے والا ہر مہمان اُن کا مہمان ہے۔ کیونکہ یوکے (UK) میں رہنے والے مہمان بھی جلسے پر آئیں گے تو مہمان ہوں گے، جن کی ڈیوٹی نہیں ہے۔ یہاں کے رہنے والے مہمان جب کسی باہر سے آنے والے مہمان سے رابطے میں ہوں تو سمجھیں کہ یوکے (UK) میں رہنے والا ہر احمدی میزبان ہے اور باہر سے آنے والا مہمان ہے۔ یا یہ سمجھ لیں کہ اگر بعض خاص حالات میں برطانیہ سے آئے ہوئے مہمانوں اور بیرون از برطانیہ آئے ہوئے مہمانوں کے لئے کسی ترجیح کا سوال پیدا ہو تو بیرون از برطانیہ مہمانوں کو پہلی ترجیح ملنی چاہئے اور یہاں کے رہنے والوں کو بہر حال اُن کے لئے قربانی دینی چاہئے۔ پس یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ بعض حالات میں مہمان ہوتے ہوئے بھی میزبان ہیں۔ یہ صرف ڈیوٹی والوں کا ہی کام نہیں ہے بلکہ اس سوچ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو وسیع کرتے ہوئے پھر آپ اپنے آپ کو قربانیاں دینے والا بنائیں اور جب یہ کچھ ہو گا تو پھر ایک خوبصورت معاشرہ ہمیں نظر آئے گا۔

جب ہم بعض احادیث کو دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ مہمان بننے کی بجائے میزبان ہی بنے رہیں۔ مہمان نوازی بھی ایک حدیث کے مطابق مومن ہونے کی نشانی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتا ہے، وہ مہمان کی عزت و احترام کرے۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ حدیث نمبر 6135)

گویا دوسرے لفظوں میں مہمان کی عزت و احترام نہ کرنے والا اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان میں کمزور ہے۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بار بار مہمان نوازی کی طرف توجہ دلائی تو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی وجہ سے، قرآنِ کریم کے حکم کی وجہ سے، اس لئے کہ ہم اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کریں۔ پھر ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کو بھی بڑی نیکی فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء حدیث نمبر 6690)

پس جلسے کے یہ تین دن جو ہیں ان میں متفرق نیکیاں بجا لائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ یہ بھی بہت بڑی نیکی ہے کہ دوسروں سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اس کے مختلف مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ میزبانوں کو بھی پیدا ہوں گے اور مہمانوں کے لئے بھی پیدا ہوں گے۔ خاص طور پر ڈیوٹی دینے والے کارکنوں کو مَیں کہوں گا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات میں بھی، بات چیت میں بھی، تھکاوٹ کی وجہ سے بعض دفعہ آدمی چِڑ بھی جاتا ہے تب بھی خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اور افسران جو ہیں اپنے ماتحتوں سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ کارکنوں کے لئے بعض دفعہ ایسے موقعے پہلے پیدا ہوتے رہے ہیں کہ بعض جگہیں مخصوص ہیں یا بعض کھانے پینے کی چیزیں مخصوص کر دی گئیں یا جہاں دفتر بنائے گئے تو فریج رکھ دئیے گئے جو صرف افسران کے لئے مخصوص کر دئیے گئے اور عام معاون اگر وہاں سے پانی بھی پی لیتا تھا تو اُس سے ناراضگی ہو جاتی تھی، یہ چیزیں ہمارے اندر نہیں ہونی چاہئیں۔ بہر حال ڈیوٹی کے دوران جس طرح میں نے کہا، کئی باتیں ہو جاتی ہیں، کام کرتے ہوئے اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے خوش اخلاقی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا ہے۔ مہمانوں سے تو خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے ہی، اگر آپس میں بھی خوش خلقی کا مظاہرہ کریں، تو مہمانوں پر بھی اس پورے ماحول پر بہت اچھا اثر ہو گا اور ماحول مزید خوشگوار ہوگا۔ جو غیر مہمان آئے ہوتے ہیں اُن پر بھی بڑا اچھا نیک اثر ہو گا اور پھر اسی طرح خود بھی اپنی نیکیوں میں اضافہ کر رہے ہوں گے۔ خوش خلقی کا مظاہرہ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن رہے ہوں گے۔

پھر یہ بات بھی ہر ڈیوٹی دینے والے کو، ہر کارکن کویاد رکھنی چاہئے کہ مہمان نوازی کوئی احسان نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے، جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ مہمان کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ حقوق کی ادائیگی کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟ ایک جگہ فرمایا وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(بنی اسرائیل: 27) اور قرابت دار کو بھی اُس کا حق دو اور مسکین کو بھی اور مسافر کو بھی، اور فضول خرچی اور اسراف نہ کرو۔

یہاں تین قسم کے لوگوں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے، لیکن آج کے مضمون کے حوالے سے مسافر کے حق کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ مسافروں کی بھی کئی قسمیں ہیں لیکن جو خدا تعالیٰ کی خاطر اور خدا تعالیٰ کے کہنے سے سفر کرتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خوش قسمت مسافر ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایسی مجلس جس میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا ذکر ہو رہا ہو اُس مجلس میں بیٹھنے والوں پر فرشتے بھی سلامتی اور دعاؤں کے تحفے بھیجتے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء … باب فضل مجالس الذکر حدیث نمبر 6839)

ہمارے جلسے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی ہی مجالس ہیں۔ اور ان مجلسوں میں شامل ہونے کے لئے سفر کر کے آنے والوں کا مقام بھی بہت بلند ہے جو اس نیت سے آتے ہیں کیونکہ فرشتے اُن کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ایسے مسافروں کی خدمت اور مہمان نوازی کا حق ادا کرنے والے ہوں جن کا حق خدا تعالیٰ نے قائم فرما دیا۔ یقینا اُس کی ادائیگی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو گا۔ اور جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لے اُس سے زیادہ خوش قسمت اور کون ہو سکتا ہے؟

پس اگر غور کریں تو یہ جلسے کا بھی عجیب نظام ہے کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ خدمت کے جذبے کی روح کو ہر خدمت کرنے والے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ گو اس جذبے سے خدمت کرتے بھی ہیں لیکن اس میں مزید بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیوٹی دینے والے صرف اس لئے ڈیوٹی نہ دیں کہ جماعت کی طرف سے مطالبہ آیا ہے کہ چلو کام کرنے والوں کا ہاتھ بٹا دو۔ صدر خدام الاحمدیہ نے کہہ دیا ہے کہ وقارِ عمل کرنا ہے اس لئے آ جاؤ، لجنہ کی صدر نے کہہ دیا ہے کہ بطورِ احسان کام کرنے کے لئے گروپ میں شامل ہو جاؤ۔ نہیں، بلکہ مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کس طرح اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی خوشنودی کی خاطر مہمان نوازی کی اور اُس کے حق ادا کئے، اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ اس روایت کو ہم جتنی دفعہ بھی سنیں اور پڑھیں ایک نیا مزہ دیتی ہے یا سبق ملتے ہیں۔ حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا؟ ایک انصاری نے عرض کیا کہ حضور مَیں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو۔ بیوی نے جواباً کہا آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو۔ پھر چراغ جلاؤاور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر اور بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ بیوی نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا، بچوں کو بھوکا سلا دیا۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اُٹھی اور جا کر چراغ بھجا دیا اور پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے یہ ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ پس وہ دونوں رات بھوکے ہی رہے۔ صبح جب وہ انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی مسکرا دیا۔ یا فرمایا کہ تم دونوں کے اس فعل کو اُس نے پسند فرمایا۔ اسی موقع پر ہی یہ آیت نازل ہوئی۔ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (الحشر: 10) یہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں۔ اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللّہ و یؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصۃ حدیث نمبر 3798)

یہ دیکھیں کتنی بڑی قربانی ہے۔ بچوں کو بھوکا سلا کر مہمان کو کھانا کھلا دیا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاید ہی کسی کی ایسی حالت ہو اور خاص طور پر جماعتی مہمانوں کے لئے تو ایسی صورتحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل نہیں ہے۔ وہ مہمان جو تھے جن کی خاطر اس خاندان نے قربانی دی وہ بھی جماعتی مہمان ہی تھے۔ دینی غرض سے آنے والے مہمان تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے مہمان تھے۔ آپؐ کے ہی مہمان تھے۔ ایسی مثالیں قائم کر کے ہمیں مہمان نوازی کی اہمیت کا سبق دیا گیا ہے۔ وہ مہمان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان تھا۔ اُس کا ایک بہت بڑا مقام تھا اور آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے جو مہمان ہیں اُن کو بھی خدا تعالیٰ نے بڑی اہمیت دی ہے۔

پس ہر کام کرنے والے کو اس اہمیت کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ دیکھیں بظاہر یہ ظلم لگتا ہے کہ بچوں کو زبردستی بھوکا رکھا گیا۔ لیکن قربانی اور خدمت کا ایک اعلیٰ نمونہ قائم کیا گیا جس میں پورا خاندان شامل ہو گیا۔ کچھ خوشی سے اور کچھ مجبوری سے۔ یقینا ان بچوں کو بھی خدا تعالیٰ نے بہت نوازا ہو گا۔ جیسا کہ اس آیت کے مضمون سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ’’مُفْلِحُوْن‘‘ میں شامل فرمایا ہے۔ اور فلاح پانے والے کون لوگ ہیں؟ اگر ہم اس کے معنی دیکھیں تو اس کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ مُفْلِح وہ ہیں جوپھولنے پھلنے والے ہیں، جو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں، وہ جو انہی نیک اور اعلیٰ خواہشات کو حاصل کرنے والے ہیں اور اس وجہ سے خوشی حاصل کرنے والے اور ہر اچھائی کو پانے والے ہیں، مستقل طور پر ان اچھائیوں اور کامیابیوں کی حالت میں رہنے والے ہیں۔ زندگی کے آرام و سکون کو پانے والے ہیں، حفاظت میں آنے والے ہیں۔ پس ایک وقت کے کھانے کی قربانی اور مہمان نوازی نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا وارث بنا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اور جس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ یہ سب کچھ مل جائے اُسے اَور کیا چاہئے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہ مقام ہے جو مہمان نوازی کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو ہمیں اپنے مہمانوں کی خدمت کر کے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ معیار ہے جو ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کا قرب دلا کر ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کا موجب بنے گا۔

پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا موقع عطا فرما کر اللہ تعالیٰ ہمارے لئے مُفْلِحِیْنَ میں شامل ہونے کے راستے کھول رہا ہے۔ اللہ کرے کہ تمام خدمتگار، تمام کارکنان اس فیض کو حاصل کرنے والے بنیں اور جلسے کے جو انتظامات ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن میں بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔

نمازِ جمعہ کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے ایک شہید بھائی مکرم ظہور احمد صاحب کیانی کا ہے جن کو اور نگی ٹاؤن کراچی میں 21؍ اگست کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کا واقعہ یوں ہوا کہ ظہور صاحب 21؍اگست کو اپنے کسی دوست کے ساتھ سوا گیارہ بجے گاڑی چیک کرنے کے لئے گئے۔ جس کو آپ نے صحیح کروانے کے لئے دی تھی وہ گاڑی لے کر آیا۔ گاڑی کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ جب آپ باہر آئے تو اسی اثناء میں آپ کے پڑوسی نورالحق صاحب جو غیر از جماعت ہیں وہ بھی باہر آ گئے اور یہ تینوں گاڑی دیکھنے چلے گئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا گاڑی گھر سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی تھی۔ یہ تینوں جب کار چیک کر کے واپس آ رہے تھے تو ایک موٹر سائیکل پر دو حملہ آور آئے جن میں سے ایک نے موٹر سائیکل سے اتر کر ظہور صاحب پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے ظہور صاحب کے پڑوسی انوار الحق صاحب نے حملہ آور کے ہاتھ پر جھپٹا مارا جس سے حملہ آور کے دوسرے ساتھی نے نور الحق صاحب پر بھی فائرنگ شروع کر دی اور فرار ہو گئے۔ ظہور صاحب کی بیٹی نے جب فائرنگ کی آواز سنی تو اُس نے اوپر کھڑکی سے دیکھاکہ دو موٹر سائیکل اس طرح فائر کر کے دوڑے جا رہے ہیں۔ وہ چائے پی رہی تھی۔ کھڑکی پر کھڑی تھی۔ اُس نے چائے کا کپ حملہ آوروں پر پھینکا تو اُس پر بھی انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ گھر کی کھڑکی پر بھی فائر آکے لگے۔ لیکن بہرحال بچی بچ گئی۔ ظہور صاحب تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

شہادت کے وقت مرحوم کی عمر 47سال تھی اور ان کے جو غیر از جماعت پڑوسی نور الحق صاحب تھے، وہ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ اُن سے بھی رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ظہور صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے چچا یوسف کیانی صاحب اور مکرم محمد سعید کیانی صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ آپ دونوں کو 1936ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی تھی۔ دونوں ہی صاحبِ علم تھے اور باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد بیعت کی توفیق پائی۔ پھر اُس کے بعد مرحوم شہید کے والد اور دیگر تین چچا بھی احمدیت میں شامل ہو گئے۔ ان کا خاندان پریم کوٹ مظفر آباد کشمیر سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ 1966ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 1976ء میں کراچی شفٹ ہو گئے۔ وہیں انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ شہادت کے وقت آپ محکمہ کسٹم کے اینٹی سمگلنگ یونٹ میں بطور کلرک خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ظہور صاحب اپنی مجلس سے انتہائی تعاون کرنے والے تھے۔ انتہائی ملنسار، مالی قربانی میں صفِ اول کے مجاہدین میں شامل تھے۔ اسی طرح مہمان نوازی آپ کا خاص وصف تھا۔ کبھی گھر آئے ہوئے مہمان کو مہمان نوازی کے بغیر واپس نہیں جانے دیتے تھے۔ ہر جماعتی عہدیدار کی عزت کرتے اور کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیتے۔ شہید مرحوم موصی بھی تھے۔ اسی طرح تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ ان کو 2009ء میں ایک شخص کی بیعت کروانے کی بھی توفیق ملی۔ آپ کی شہادت کے بعد ہسپتال میں اور بعد میں جنازے کے موقع پر آپ کے دفتر سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ہر ایک نے شہید مرحوم کے اعلیٰ اخلاق و عادات کی تعریف کی۔ اُن کا ایک ساتھی جُو اُن کی شہادت کے بعد اُن کے جسدِ خاکی کے ساتھ رہا اُس نے رو رو کر ذکر کیا کہ شہید مرحوم انتہائی پُر شفقت اور صلح جو طبیعت کے مالک تھے۔ کام کے حوالے سے کئی مواقع پر جب ہمیں غصہ آ جاتا تو وہ ہمیں صبر کی تلقین کرتے تھے۔ اُن کے افسران نے بتایاکہ ظہور احمد کیانی ہمارا ایک بہادر اور جانباز سپاہی تھا جو بہت تھوڑے عرصے میں ہی ہر ایک کو اپنا گرویدہ کر لیتا تھا۔ آج ہم ایک اچھے ساتھی سے محروم ہوئے ہیں۔ آپ کے سسر بشیر کیانی صاحب نے بتایا کہ شہید مرحوم خاندان میں ہر ایک کی مدد کیا کرتے تھے۔ مالی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو وسعت دی تھی۔ لہٰذا پورے خاندان میں جب بھی کوئی ضرورت ہوتی آپ اُس کی مدد کرتے۔ خاندان کے علاوہ بھی ضرورتمند آپ کے دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا۔ بچوں کے ساتھ بھی آپ کا تعلق انتہائی شفقت کا تھا۔ بچوں کی ضروریات کا مکمل خیال رکھتے۔ ان کی تعلیم کی فکر رہتی۔ اُن کی گہری نگرانی کرتے۔ آپ کی اہلیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو جو اتنا اچھا دل دیا تھا تو شاید اس شہادت کے لئے ہی یہ اچھا دل دیا تھا۔ بچوں کو کبھی نہیں ڈانٹتے تھے۔ کہتی ہیں کہ شہادت سے پہلے مجھے کہا کہ میری جوتی صاف کر دو۔ میں ابھی آتا ہوں۔ پھر مسکرا کر نیچے اترے۔ حملے کے بعد کہتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ جب گھر سے باہر آئی اور اُنہیں دیکھا تو انہوں نے مجھے اور بچوں کو اُس زخمی حالت میں مسکرا کر دیکھا جیسے الوداع کہہ رہے ہوں اور پھر اپنی جان اپنے خالقِ حقیقی کے سپرد کر دی۔

بچوں کو کبھی کچھ نہیں کہتے تھے لیکن یہاں سے ایم ٹی اے پر جو میرا خطبہ جاتا تھا، بچوں کو ہمیشہ کہتے تھے یہ سننا ہے۔ اس پر بہر حال ناراضگی کا بھی اظہار کرتے تھے کہ خطبہ کیوں نہیں سنا۔ ان کی بڑی پابندی تھی۔ بیٹیوں کے ساتھ خاص شفقت اور محبت کا سلوک تھا۔ آپ کے پسماندگان میں آپ کی اہلیہ طاہرہ ظہور کیانی صاحبہ ہیں۔ اس کے علاوہ تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ عمران کیانی بیس سال کی عمر ہے۔ کامران کیانی چودہ سال۔ سرفراز تین سال۔ اسی طرح بیٹیاں ہیں نورالصباح سولہ سال، نور العین چودہ سال، عطیۃ المجیب سات سال، فائقہ ظہور پانچ سال۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ ان کی اہلیہ کو حفاظت میں رکھے۔ ان کو صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 23؍ اگست 2013ء شہ سرخیاں

    جلسہ کے انتظام میں لنگر کے لحاظ سے حدیقۃالمہدی میں کھانا پکانے کے لئے مستقل کچن اور نئے روٹی پلانٹ کی تنصیب۔

    جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کے سلسلہ میں احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے کارکنان کو نہایت اہم نصائح۔

    جس مہمان نوازی کا آج ہمیں موقع دیا جا رہا ہے وہ نہ صرف مہمان ہیں بلکہ ایک دینی مقصد کے لئے سفر کر کے آنے والے مہمان ہیں۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں اور خلیفۂ وقت سے ملنے اور اس کی باتیں سننے کے شوق میں آتے ہیں۔ ایسے مہمانوں کا ہم پر بہت حق ہے۔ یہ بہت ہی قابلِ احترام مہمان ہیں جن کی نیت اللہ اور رسول کی رضا ہے۔

    مکرم ظہور احمد کیانی صاحب اور نگی ٹاؤن کراچی کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 23اگست 2013ء بمطابق23 ظہور 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور