حضرت مسیح موعودؑ کی اپنی جماعت کی عملی حالت کے بارے میں فکر

خطبہ جمعہ 7؍ فروری 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

راہِ ہدیٰ پروگرام جو ہر ہفتے کو ایم ٹی اے پر شام کے وقت آتا ہے جس میں مختلف موضوعات پر ہمارے علماء اور مربیان بات چیت کرتے ہیں اور لائیو کالز کے ذریعہ سے سوال جواب بھی ہوتے ہیں جس میں غیر از جماعت احباب بھی سوال کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے پروگرام کا کچھ حصہ دیکھنے کا مجھے موقع ملا تو اُس وقت ایک غیر از جماعت کا سوال پیش ہو رہا تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک الہام کے حوالے سے یہ سوال کر رہے تھے، بلکہ ایک رنگ میں اعتراض ہی تھا۔ تمہید بھی اس طرح باندھی کہ قرآنِ کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے، بعد اس کے احادیث ہیں پھر اسی طرح بزرگوں کا کلام ہے۔ اُن سب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اُ ن میں آپس میں ربط نظر آتا ہے لیکن یہ الہام پیش کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اس میں ربط نہیں یا ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ بہر حال ایک اعتراض کا رنگ تھا، اور اگر اُن کی نیت اعتراض کی نہیں بھی تھی تو سوال کی ٹون (Tone) ایسی تھی کہ لگتا تھا اعتراض ہے۔

الہام یہ تھا کہ ’’دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں۔ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب۔ فِیْ شَآئِلٍ مِقْیَاسٍ‘‘۔ پھر آگے انگریزی کا حصہ ہے، Then will you go to Amritsar ’’دن ول یو گو ٹو امرت سر‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلدنمبر 1 صفحہ 559۔ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

اس کا جواب تو اپنے انداز میں جواب دینے والوں نے مختصراً دیا۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کی تفصیل جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہے، وہ بتانی ضروری ہے۔ کیونکہ شاید دوسرے معترضین بھی اور کم علم بھی یا کم علم رکھنے والے ہمارے نوجوان سوال کرنے و الے کے انداز سے متاثر ہوں یا پھر تفصیل چاہتے ہوں۔ راہِ ہدیٰ پروگرام میں اس طرح کے اور سوال بھی غیر از جماعت جو افراد ہیں کرتے رہتے ہیں جس کا بعض دفعہ اُسی وقت علماء جواب دے دیتے ہیں، بعض دفعہ اگر جواب تفصیل چاہتا ہو تو اگلے پروگرام میں دیا جاتا ہے۔ اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ جو اعتراض اور سوال اُٹھتے ہیں اُن میں سے ہر ایک کا اپنے خطبات میں جواب دینا شروع کر دوں۔ تاہم اس کی تفصیل مَیں اس لئے بتا رہا ہوں کہ گزشتہ جمعوں میں جو خطبات کا سلسلہ جاری تھا اُن میں مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمارے ایمان میں اضافے اور غیروں کے منہ بند کرنے کے لئے اس قدر تعداد میں موجود ہیں کہ شاید اس کا عشرِ عشیر بھی غیروں کے پاس نہ ہو۔ جس بات کو یا الہام کو ان صاحب نے ہنسی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے، وہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہینِ احمدیہ میں اپنے نشان کے طور پر پیش فرمائی ہے۔ اسی طرح تذکرہ میں بھی اس کا ذکر ہے اور کافی تفصیل سے ذکر ہے۔

بہر حال سوال کرنے والے کے سوال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس نے جو سوال یا اعتراض ہے وہ کم از کم ’’تذکرہ‘‘ پڑھ کر کیا ہے۔ لیکن سیاق و سباق یا پڑھا ہے یا جان بوجھ کر اُس میں اُس کو ذکر نہیں کیا تا کہ الجھن میں ڈالا جائے۔ براہینِ احمدیہ میں بھی اسی طرح ہے۔ تقریباً یہی مضمون ہے اور وہ بہر حال انہوں نے نہیں پڑھی ہو گی۔ کیونکہ وہ تو ایسی کتاب ہے جو بڑی توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور میرا نہیں خیال کہ ان میں یہ صلاحیت ہو۔ بہر حال اصل حوالہ پیش ہے۔ یہ 1882ء کا ذکر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’کچھ عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی۔ جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا …۔ اس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرتِ احدیت میں دعا کی جائے تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے اور دوسری مخالفین کے لئے تائیدِ الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے۔ تب یہ الہام ہوا۔ ’’دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں۔ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب۔ فِیْ شَآئِلٍ مِقْیَاسٍ۔ دنّ وِل یُو گو تُو امرت سر۔ (Then will you go to Amritsar)۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی تشریح فرمائی) یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا۔ خدا کی مددنزدیک ہے۔ اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مددِ الٰہی بھی قریب ہے۔ اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرتسر بھی جاؤ گے۔ تو جیسا اس پیشگوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورۂ بالا کے رُوبرو وقوع میں آیا۔ یعنی حسب منشاء پیشگوئی دس دن تک ایک خرمہرہ نہ آیا‘‘ (یعنی ایک کوڑی بھی نہ آئی) ’’اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے اور بیست روپیہ (بیس روپے) ایک اور جگہ سے آئے اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوگیا جس کی امیدنہ تھی۔ اور اسی روز کہ جب دس دن کے گزرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا۔ امرتسر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالتِ خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اسی روز ایک سمن آ گیا۔‘‘ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلدنمبر 1 صفحہ-561 559۔ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

تو یہ تھا اس الہام کا پورا حصہ اور اس کی background۔ اس کے آگے پھر ایک جگہ ایک اور حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید وضاحت بھی فرمائی ہے جس میں اس کے علاوہ ایک اور نشان کا بھی اظہار ہے۔ فرمایا کہ:

’’کچھ عرصہ ہوا۔ … ایک صاحب نور احمدنامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں، اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے۔ … چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر انہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارہ میں اُن کے دل میں تھی، مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کر دی۔ اس لئے دل میں بہت رنج گزرا‘‘۔

غلط رائے کا جو حوالہ ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے ایک استاد مولوی صاحب تھے جن کے نام کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں ذکر کیا ہوا ہے وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اُنہیں الہامِ اولیاء اللہ کے بارے میں شک تھا۔ تو یہ نور احمد صاحب بھی اُن سے متاثر تھے۔ اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ الہام کے بارے میں اُن کو کچھ شکوک تھے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’ہر چند معقولی طور پر سمجھایا گیا، کچھ اثر مترتب نہ ہوا‘‘۔ (کوئی اثر نہ ہوا)۔ ’’آخر توجہ اِلی اللہ تک نوبت پہنچی‘‘۔ (پھر یہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے)۔ اور اُن کو قبل از ظہورِ پیشگوئی بتلایا گیا کہ خدا وند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی۔ کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بپایۂ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیشگوئی خداوند کریم ظاہر فرماوے جس کو تم بچشمِ خود دیکھ جاؤ۔ سو اُس رات اِس مطلب کے لئے قادرِ مطلق کی جناب میں دعا کی گئی۔ علی الصباح بنظرِ کشفی ایک خط دکھلایا گیا‘‘ (کشفی حالت میں ایک خط دکھلایا گیا) ’’جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے۔ اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ آئی ایم کؤرلر (I am quarrller)۔ اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے۔ ھٰذَا شَاھِدٌ نَزَّاغٌ۔ اور یہی الہام حکایتاً عن الکاتب القا کیا گیا اور پھر وہ حالت جاتی رہی۔ چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا، اِس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر‘‘، (یعنی وہی شخص جن کو کچھ شکوک تھے کہ اولیاء اللہ کے الہامات جو ہیں یہ باتیں ہی ہیں، کہتے ہیں اُن کو کشف اور الہام کی اطلاع دے کر) ’’اور اس آنے والے خط سے مطلع کر کے پھر اسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ مَیں جھگڑنے والا ہوں۔ سو اس مختصر فقرہ سے یقینا یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے اور ھٰذَا شَاھِدٌ نَزَّاغٌ۔ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اُس کے یہ معنے کھلے کہ کاتبِ خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے۔ اُس دن حافظ نور احمد صاحب بباعث بارش باران امرتسر جانے سے روکے گئے‘‘۔ (انہوں نے جانا تھا، سفر کرنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے نہ جا سکے) ’’اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے اُن کا روکا جانا بھی قبولیّتِ دعا کی ایک خبر تھی تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خد ائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی، پیشگوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اس تمام پیشگوئی کا مضمون اُن کو سنا دیا گیا۔ شام کو اُن کے رُوبرو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرتسر سے آیا جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالتِ خفیفہ میں نالش کی ہے اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے۔ اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذَا شَاھِدٌ نَزَّاغٌ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ ان معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقینِ کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہو گی، بباعث و ثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابلِ قدر ہونے کی وجہ سے فریقِ ثانی پر تباہی ڈالے گی‘‘۔ (یعنی کہ اس کی سچائی بھی اور اس کی value، قدر بھی اس کی ہو گی اور ٹھوس بھی ہو گی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو بیان ہے اس کی ہر لحاظ سے ایک اہمیت ہو گی اور اس اہمیت کی وجہ سے اُس کا خیال تھا کہ یہ دوسرے فریق پر تباہی ڈالے گی) ’’اور اسی نیت سے مہتمم مذکور نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا۔ اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امرتسر جانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا۔ سو وہ پہلی پیشگوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُو برو پوری ہو گئی۔ یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا، روپیہ آ گیا اور امرتسر بھی جانا پڑا۔ فالحمد للہ علی ذالک۔‘‘ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلدنمبر 1 صفحہ 562 تا 565۔ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

آج میں نشانات کے حوالے سے اتنا ہی ذکر کرنا چاہتا تھا اور وہ جیسا کہ مَیں نے بتایا راہِ ہدیٰ پروگرام میں ایک سوال کی وجہ سے اس کا ذکر ہوا ہے۔ انشاء اللہ آئندہ نشانات کا ذکر ہو گا۔

اس کے بعد مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کی عملی حالت کے بارے میں فکر کے حوالے سے آپ علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کروں گا۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کی نصائح اور توقعات بیان کروں، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی سیرت میں جو ایک واقعہ درج فرمایا ہے، وہ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ بھی فضل اور احسان ہے کہ جب خلیفۂ وقت کی کسی مضمون کی طرف توجہ ہوتی ہے تو وہ اگر اصلاحی پہلو ہے تو جماعت کا بڑا حصہ اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس کا اندازہ مجھے خطوط سے بھی ہو رہا ہے اور پھر بعض مددگار جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کو عطا فرمائے ہوئے ہیں، وہ بھی اپنی یادداشت کے مطابق بعض حوالے نکال کر بھیج دیتے ہیں۔ چاہے یہ حوالے پہلے پڑھے ہوں لیکن نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تو سیرت کا جو حوالہ ہے جب مَیں پڑھوں گا تواس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی فکر کا اظہار فرمایا ہے۔ یہ بھی ہمارے ایک مربی صاحب نے مجھے بھیجا کہ آپ خطبات میں عملی اصلاح کی اہمیت کے بارے میں بتا رہے ہیں، تو ایک حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی پیش ہے جو اس فکر کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا یہ حوالہ جو سیرت میں بیان کیا گیا ہے یوں ہے کہ:

’’بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا۔ میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی (کہ اس طرح اختلاف ہو گیا، غصے کا اظہار کیا۔ ) مولوی محمد علی صاحب کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت صاحب(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں کہ تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمتِ دین کا موقع مل سکے۔ لیکن اگر حضور تک ہماری شکایتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں، ممکن ہے کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو تو اس صورت میں ہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے اُلٹا نقصان ہو جائے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر مَیں اُس وقت اپنے فکروں میں اتنا محو تھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے۔ (یہ بڑے غور سے سننے والی بات ہے) بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے۔ میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اُس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ وہ شخص سمجھتا ہو گا کہ میں اُس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں۔ جب میں گھر جاتا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے۔ غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ(میرے آنے کی اصل غرض کیا ہے؟) میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اُس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر کاربند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے، تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو۔ پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پا لیا اور اُس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا (یعنی فتح کر لیا) تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں۔ کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل اور براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے، اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ پس یہ خیال ہے جو مجھے آج کل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا۔‘‘ (سیرت المہدی مرتبہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ جلد 1 حصہ اول صفحہ 235-236 روایت نمبر 258)

پس یہ درد ہے جس نے آپ کو بے چین کر دیا تھا۔ مختلف وقتوں میں آپ نے جماعت کو نصائح فرمائیں کہ احمدی کو کیسا ہونا چاہئے۔ دوسری کتابوں کے علاوہ ملفوظات جو آپ کی مجالس کی مختصراً رپورٹس ہوتی تھیں، تفصیلی نہیں، اُس کی بھی دس جلدیں ہیں۔ اور ان دسوں میں سے کسی جلد کو بھی آپ لے لیں، اس میں آپ نے جماعت سے توقعات اور جماعت کو نصائح، عملی حالتوں کی تبدیلی کا یہ مضمون مختلف حوالوں اور مختلف زاویوں سے ہر جگہ، ہر مجلس میں بیان فرمایا ہوا ہے۔ ان میں سے چند ایک اس وقت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجودِ و احد رکھوورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحادنہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو‘‘۔ (اب ہمیں یہ دیکھنے کی، جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کتنے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرتے ہیں ) ’’اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہوتو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔‘‘

فرمایا: ’’مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ (آل عمران: 104) یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں۔ …‘‘

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’…یاد رکھو بُغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی۔ وہ ضرور ہو گی۔ تم کیوں صبر نہیں کرتے۔ جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا۔ میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیداہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں۔ …ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔ جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں۔ جبتک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ میں کسی کے سبب سے اپنے اُوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو، وہ خشک ٹہنی ہے۔ اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 336۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یہ حوالہ ہم پہلے بھی کئی دفعہ سنتے ہیں، پڑھتے ہیں لیکن اُس حوالے کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس میں آپ نے درد کا اظہار کیا ہے کہ کئی دن سے مجھے اور کسی چیز کا ہوش ہی نہیں سوائے اس بات کے کہ جماعت کی عملی اصلاح ہو جائے، تو پھر ایک خاص فکر پیدا ہوتی ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ کس وقت کوئی آدمی سچا مومن کہلا سکتا ہے؟فرمایا کہ:

’’مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدّم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے، اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا۔ ایسا آدمی تو عرف عام کے طور پر مومن یا مسلمان ہے۔ جیسے چوہڑے کو بھی مُصلّی یا مومن کہہ دیتے ہیں۔ مسلمان وہی ہے جو اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ (البقرۃ: 113) کا مصدا ق ہو گیا ہو۔ وَجْہٌ منہ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجودپر بھی ہوتا ہے۔ پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دی ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی کہ تُو مسلمان ہو جا۔ مسلمان (وہ دعوتِ اسلام دینے والا جو تھا) خود فسق وفجور میں مبتلا تھا۔ یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تُو پہلے اپنے آپ کو دیکھ اور تُو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ۔‘‘

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’…یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لَسّانی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 4)‘‘۔

پھر فرمایا کہ اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو۔ فرماتے ہیں کہ: ’’صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا۔ (قرآنِ کریم میں آل عمران کی آیت 201ہے) جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے۔ اسی طرح تم بھی تیار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصنِ حصین میں آسکو۔ اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔ قومیں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں‘‘۔ (اور آج جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ حالت تو پہلے سے بھی بڑھ کر ہوئی ہوئی ہے) فرمایا کہ ’’اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہوگئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو۔ تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قُدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے۔ اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے۔ بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے۔ کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قَے کرتا پھرتا ہے۔ پگڑی گلے میں ہوتی ہے۔ موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے۔ پولیس کے جوتے پڑتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں۔ اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفسِ اسلام تک پہنچتا ہے۔ مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے جب مَیں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بد عملیوں کی وجہ سے موردِ عتاب ہوئے۔ دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں اپنی بد اعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام پر ہنسی کراتے ہیں …۔ میری غرض اس سے یہ ہے کہ مسلمان لوگ مسلمان کہلا کر ان ممنوعات اور منہیات میں مبتلا ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کو بلکہ اسلام کو مشکوک کر دیتے ہیں۔ پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر (جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے) نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 48-49۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

آج کل جو اعتراضات ہو رہے ہیں وہ یہی ہو رہے ہیں کہ قرآنِ کریم کی اگر تعلیم یہی ہے تو مسلمانوں کے عمل اس کے مطابق کیوں نہیں؟ جہاں جاؤ یہی سوال اُٹھتا ہے اور یہی اعتراض ہوتا ہے۔ اور آج کل جماعت احمدیہ ہی ہے جس نے اپنی حالتوں کو بدل کر ان اعتراضوں کو دھونا ہے۔ اس کے لئے ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔

پھر آپ شکر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شکر اگر کرنا ہے تو تقویٰ اور طہارت کو اختیار کرنا ہو گا۔ فرمایا کہ:

’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ مسلمان کو پوچھنے پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے‘‘۔ (یہ کوئی شکر گزاری نہیں کہ کوئی پوچھے مسلمان ہو؟ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں) ’’اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو، کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ہندو سر رشتہ دار نے جس کا نام جگن ناتھ تھا اور جو ایک متعصب ہندو تھا بتلایا کہ امرتسر یا کسی جگہ میں وہ سر رشتہ دار تھا جہاں ایک ہندو اہلکار در پردہ نماز پڑھا کرتا تھا‘‘ (ہندو تھا، مسلمان ہو گیا لیکن اپناآپ ظاہر نہیں کیا۔ نمازیں باقاعدہ پڑھتا تھا۔) ’’مگر بظاہر ہندو تھا۔‘‘ جو سررشتہ دار ہے وہ بتانے لگا، جو سرکاری افسر تھا وہ کہنے لگا کہ ’’مَیں اور دیگر دوسرے سارے ہندو اُسے بہت برا جانتے تھے اور ہم سب اہلکاروں نے مل کر ارادہ کر لیا کہ اس کو ضرور موقوف کرائیں‘‘۔ (نوکری سے فارغ کروائیں )’’سب سے زیادہ شرارت میرے دل میں تھی۔ میں نے کئی بار شکایت کی‘‘ (اپنے افسروں کو شکایت کرتا تھا)’’کہ اس نے یہ غلطی کی ہے۔ اور یہ خلاف ورزی کی ہے۔ مگر اس پر کوئی التفات نہ ہوتی تھی‘‘۔ (افسران اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے) ’’لیکن ہم نے ارادہ کر لیا ہواتھا کہ اسے ضرور موقوف کرادیں گے۔ اور اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہونے کے لئے بہت سی نکتہ چینیاں بھی جمع کر لی تھیں اور مَیں وقتاً فوقتا ان نکتہ چینیوں کو صاحب بہادر کے رُو برو پیش کر دیا کرتا تھا۔ صاحب اگر بہت ہی غصّہ ہو کر اس کو بلا بھی لیتا تھا تو جوں ہی وہ سامنے آ جاتا تو گویا آگ پر پانی پڑ جاتا‘‘۔ (اس کاغصہ ٹھنڈا ہو جاتا) معمولی طور پر نہایت نرمی سے اُسے فہمائش کر دیتا۔ گویا اس سے کوئی قصور سر زد ہی نہیں ہوا۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ49۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

تو یہ ہے کہ تقویٰ ہو، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر کوئی مشکل جو ہے وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ کوئی کوشش نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ بات بھی خوب یاد رکھنی چاہیے کہ ہر بات میں منافع ہوتا ہے۔ دنیا میں دیکھ لو۔ اعلیٰ درجہ کی نباتات سے لے کر کیڑوں اور چوہوں تک بھی کوئی چیز ایسی نہیں، جو انسان کے لئے منفعت اور فائدے سے خالی ہو۔ یہ تمام اشیاء خواہ وہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کے صفات کے اظلال اور آثار ہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی صفات کے سائے ہیں۔) ’’اور جب صفات میں نفع ہی نفع ہے تو بتلاؤکہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہو گا‘‘۔ (یعنی یہ صفات ہیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے اگر تعلق پیدا کر لوگے تو کس قدر نفع ہے) ’’اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جیسے ان اشیاء سے کسی وقت نقصان اٹھاتے ہیں تو اپنی غلطی اور نافہمی کی وجہ سے۔ اس لئے نہیں کہ نفس الامر میں ان اشیاء میں مَضرّت ہی ہے‘‘۔ (یعنی اس لئے نہیں ہوتا کہ ان کی اصل میں، ان چیزوں کی بنیاد میں ہی نقصان رکھا ہوا ہے۔ )’’نہیں، بلکہ اپنی غلطی اور خطا کاری سے‘‘۔ (نقصان ہوتا ہے) ’’اسی طرح پر ہم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف اور مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ تو ہمہ رحم اور کرم ہے۔ دنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی راز ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی سُوئِ فہم اور قصورِ علم کی وجہ سے مبتلائے مصائب ہوتے ہیں‘‘۔ (یہ سوال بھی اکثر لوگ کرتے رہتے ہیں کہ کیوں مصیبتیں آتی ہیں؟ مصیبتیں ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے آتی ہیں )’’پس اس صفاتی آنکھ کے ہی روزن سے ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم اور کریم اور حد سے زیادہ قیاس سے باہر نافع ہستی پاتے ہیں‘‘۔ (یہی اگر صفاتی آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں تو تبھی ہمیں اللہ تعالیٰ کریم اور رحیم نظر آتا ہے اور اُس سے ہر فائدہ پہنچتا ہے۔ اور وہ ہستی نظر آتی ہے جس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا ہے) فرمایا ’’اور ان منافع سے زیادہ بہرہ ور وہی ہوتا ہے جو اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہوتا جاتا ہے۔ اور یہ درجہ ان لوگوں کو ہی ملتا ہے جومتقی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاتے ہیں۔ جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت اسے ملتا ہے جو اس کی معلومات اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتاہے اور جوں جوں دُور ہوتا جا تا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اس کے دل ودماغ پرقبضہ کر لیتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ (البقرۃ: 19) کا مصداق ہو کر ذلّت اور تباہی کا مورد بن جاتا ہے۔ مگر اس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہ ورانسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزت پاتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (الفجر: 29-28) یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اور پھر یہ اطمینان خداکے ساتھ پایا ہے۔ بعض لوگ حکومت سے بظاہر اطمینان اور سیری حاصل کر تے ہیں۔ بعض کی تسکین اور سیری کا موجب ان کا مال اور عزت ہو جاتی ہے۔ اور بعض اپنی خوبصورت اور ہوشیار اولادواحفاد کو دیکھ دیکھ کر بظاہر مطمئن کہلاتے ہیں‘‘ (اپنے اولاد اور مددگار اور کام کرنے والوں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم بہت ہیں۔ ہمارے لئے اطمینان ہو گیا) ’’مگر یہ لذّت اور انواع واقسام کی لذّاتِ دنیا انسان کو سچا اطمینان اور سچی تسلی نہیں دے سکتیں۔ بلکہ ایک قسم کی ناپاک حرص کو پیدا کر کے طلب اور پیاس کو پیدا کرتی ہیں۔ استسقا ء کے مریض کی طرح ان کی پیاس نہیں بجھتی یہاں تک کہ ان کو ہلاک کر دیتی ہے‘‘۔ (دنیا دار صرف دنیا کے پیچھے ہی پڑا رہتا ہے۔ آخر ہلاک ہو جاتا ہے)’’مگر یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ نفس جس نے اپنا اطمینان خداتعالیٰ میں حاصل کیا ہے۔ یہ درجہ بندے کے لئے ممکن ہے۔ اس وقت اس کی خوشحالی باوجود مال ومنال کے دنیوی حشمت اور جاہ وجلال کے ہوتے ہوئے بھی خدا ہی میں ہوتی ہے۔ یہ زروجواہر، یہ دنیا اور اس کے دھندے اُس کی سچی راحت کا موجب نہیں ہوتے۔ پس جب تک انسان خدا تعالیٰ ہی میں راحت اور اطمینان نہیں پاتا وہ نجات نہیں پاسکتا کیونکہ نجات اطمینان ہی کا ایک مترادف لفظ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1 صفحہ69-70۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ نفس مطمئنہ کے بغیر انسان نجات نہیں پا سکتا۔ اس کے بارے میں فرمایا کہ:

’’مَیں نے بعض آدمیوں کو دیکھا اور اکثروں کے حالات پڑھے ہیں جو دنیا میں مال ودولت اور دنیا کی جھوٹی لذتیں اور ہر ایک قسم کی نعمتیں اولاد احفادرکھتے تھے‘‘۔ (یعنی اولاد بھی اور کام کرنے والے مددگار بھی رکھتے تھے) ’’جب مرنے لگے اور ان کو اس دنیا کے چھوڑ جانے اور ساتھ ہی ان اشیاء سے الگ ہونے اور دوسرے عالَم میں جانے کا علم ہوا تو ان پر حسرتیں اور بے جا آرزوؤں کی آگ بھڑکی اور سرد آہیں مارنے لگے۔ پس یہ بھی ایک قسم کا جہنم ہے جوانسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں دے سکتا، بلکہ اس کوگھبراہٹ اور بے قراری کے عالَم میں ڈال دیتا ہے۔ اس لیے یہ امر بھی میرے دوستوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ اکثر اوقات انسان اہل وعیال اور اموال کی محبت، ہاں ناجائز اور بیجا محبت میں ایسا محو ہو جاتا ہے‘‘۔ (محبت تو ہو سکتی ہے لیکن ناجائز اور بے جا محبت نہیں ہونی چاہئے، اُس میں محو نہیں ہونا چاہئے) ’’اور اکثر اوقات اسی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسے ناجائز کام کر گزرتا ہے جو اُس میں اور خداتعالیٰ میں ایک حجاب پیدا کردیتے ہیں اور اس کے لیے ایک دوزخ تیار کر دیتے ہیں۔ اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا جب وہ ان سب سے یکایک علیحدہ کیا جاتا ہے اس گھڑی کی اسے خبر نہیں ہوتی۔ تب وہ ایک سخت بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی چیز سے جب محبت ہو تو اس سے جدائی اور علیحدگی پر ایک رنج اور درناک غم پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اب منقولی ہی نہیں بلکہ معقولی رنگ رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نَارُاللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ (الھمزۃ: 8-7)۔ پس یہ وہی غیر اللہ کی محبت کی آگ ہے جو انسانی دل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور ایک حیرت ناک عذاب اور درد میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ یہ بالکل سچی اور یقینی بات ہے کہ نفس مطمئنہ کے بدوں انسان نجات نہیں پا سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ70۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزّت سے پیش آؤ۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے۔ اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔ تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور اپنے کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے، مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں ان کی مالک پروا نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑہارا ان کو کاٹ کر تنور میں پھینک دیوے۔ سو ایسا ہی تم بھی یاد رکھو اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔ پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہدنہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں۔ ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ہر روز ذبح ہوتی ہیں پر اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو کتنی باز پرس ہوتی ہے۔ سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لاپروا بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔ چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے، کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی۔ ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ…۔‘‘ فرمایا: ’’…اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تندی اور سختی سے کام نہ لینا۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ175-174۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ہمیشہ نرمی سے سمجھاؤ اور جوش کو ہرگز کام میں نہ لاؤ۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’آئندہ کے لئے یاد رکھو کہ حقوقِ اخوّت کو ہر گز نہ چھوڑو، ورنہ حقوق اﷲ بھی نہ رہیں گے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’مجھے یہی بتایا گیا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12) اﷲ تعالیٰ کسی حالت میں قوم میں تبدیلی نہ کرے گا جبتک لوگ دلوں کی تبدیلی نہ کریں گے۔ ان باتوں کو سن کر یوں تو ہر شخص جواب دینے کو تیار ہو جاتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، استغفار بھی کرتے ہیں، پھر کیوں مصائب اور ابتلا آ جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو جو سمجھ لے وہی سعید ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا منشاء کچھ اَور ہوتا ہے۔ سمجھا کچھ اَور جاتا ہے اور پھر اپنی عقل اور عمل کے پیمانہ سے اسے ماپا جاتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں۔ ہر چیز جب اپنے مقررہ وزن سے کم استعمال کی جاوے تو وہ فائدہ نہیں ہوتا جو اس میں رکھا گیا ہے۔ مثلاً ایک دوائی جو تولہ کھانی چاہئے اگر تولہ کی بجائے ایک بوند استعمال کی جاوے تو اس سے کیا فائدہ ہوگااور اگر روٹی کی بجائے کوئی ایک دانہ کھالے تو کیا وہ سیری کا باعث ہو سکے گا؟ اور پانی کے پیالے کی بجائے ایک قطرہ سیراب کر سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ یہی حال اعمال کا ہے۔ جب تک وہ اپنے پیمانہ پر نہ ہوں وہ اوپر نہیں جاتے ہیں۔ یہ سنّت اﷲ ہے جس کو ہم بدل نہیں سکتے۔ …‘‘ فرمایا: ’’…بھائی کی ہمدردی کرنا صدقات خیرات کی طرح ہی ہے۔ … اور یہ حق، حق العباد کا ہے جو فرض ہے۔ جیسے خدا تعالیٰ نے صوم و صلوٰۃ اپنے لیے فرض کیا ہے اسی طرح اس کو بھی فرض ٹھہرایا ہے کہ حقوق العباد کی حفاظت ہو۔‘‘

فرمایا: ’’…جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے۔ قرآن شریف فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ …(المائدۃ: 33)۔ یعنی جو شخص کسی نفس کو بلاوجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کرتا ہے۔ ایسا ہی مَیں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی۔ زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے۔ حقوق اخوت کو کبھی نہ چھوڑو…‘‘۔ اگر ہم لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیں تو بہت سارے ہمارے لڑائی جھگڑے، رنجشیں، مقدمے سب ختم ہو سکتے ہیں۔ فرمایا: ’’…یاد رکھو کہ سارے فضل ایمان کے ساتھ ہیں۔ ایمان کو مضبوط کرو۔ قطع حقوق معصیت ہے۔ …‘‘ جب حقوق کو کاٹو گے، ختم کرو گے تو یہ گناہ ہے۔ فرمایا: ’’…یہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی حال ہوا کہ ان میں اخوت اور ہمدردی نہ ہو تو بڑی خرابی ہوگی۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ270-271۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’ہماری جماعت (جس سے مخالف بُغض رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جماعت ہلاک اور تباہ ہو جاوے) کو یاد رکھنا چاہیے کہ مَیں اپنے مخالفوں سے باوجود اُن کے بغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے۔ وہ قرآن شریف کی سّچی تعلیم پر سچّی عامل ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں فنا ہو جاوے۔ ان میں باہم کسی قسم کا بغض و کینہ نہ رہے۔ وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری اور سچی محبت کرنے والی جماعت ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر بھی اس غرض کو پورا نہیں کرتا اور سچّی تبدیلی اپنے اعمال سے نہیں دکھاتا تو وہ یاد رکھے کہ دشمنوں کی اس مراد کو پورا کر دے گا۔ وہ یقینا ان کے سامنے تباہ ہو جاوے گا۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کا رشتہ نہیں اور وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے۔ لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اُس نے راہِ مستقیم کو چھوڑ دیا، سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ (البقرۃ: 62) کی مصداق ہوئی۔ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا۔ … یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے۔ بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے۔ اسی طرح یہ قوم جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔ لیکن اگر کوئی اس جماعت میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ سے سچّی محبت اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچّی اور کامل اتباع نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا کاٹ ڈالا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ ہوگا۔ پس تمہیں چاہیے کہ کامل تبدیلی کرو اور جماعت کو بدنام کرنے والے نہ ٹھہرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 144-145۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وہ معیار ہے جو ہم سب نے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کرنی چاہئے۔ تقویٰ پر چلنا، اپنے اعمال کی اصلاح کرنا، اپنے ایمان کے معیار بلند کرنا، یہ باتیں کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں۔ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو اُس کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے ہمیں پوری طرح سعی و کوشش کرنی چاہئے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو ہمیں انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور ہر بدی سے ہمیں مکمل طور پر نفرت کا اظہار کرنا چاہئے۔ محبت، پیار اور اخوّت کو بڑھانے کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کا مددگار بننے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

آج مَیں پھر یاددہانی کے طورپر آپ کو اسلامی ممالک خاص طور پر سیریا یا مصر وغیرہ جہاں فساد ہیں، خاص طور پر شام وہاں بہت زیادہ ظلم ہو رہے ہیں، اُن کے لئے دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں، اسی طرح پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی۔ پاکستان میں احمدیوں پر بہت ظلم ہو رہے ہیں اور ہر طرح سے اُن کو عدمِ تحفظ کا احساس دلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور یہ لوگ جو فتنہ پرداز اور امن برباد کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جلدی اپنی پکڑ میں لے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ فروری 2014ء شہ سرخیاں

    تقویٰ پر چلنا، اپنے اعمال کی اصلاح کرنا، اپنے ایمان کے معیار بلند کرنا، یہ باتیں کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں۔ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو اُس کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے ہمیں پوری طرح سعی و کوشش کرنی چاہئے۔

    ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو ہمیں انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور ہر بدی سے ہمیں مکمل طور پر نفرت کا اظہار کرنا چاہئے۔ محبت، پیار اور اخوت کو بڑھانے کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کا مددگار بننے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

    (عملی اصلاح کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گہری فکر اور آپؑ کی پُردردنصائح کا تذکرہ)

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک الہام پر اعتراض کا جواب حضور علیہ السلام کی بیان فرمودہ تشریحات کی روشنی میں۔

    فرمودہ مورخہ 07فروری 2014ء بمطابق 07تبلیغ 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور