صداقت کے نشان

خطبہ جمعہ 14؍ فروری 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نشانات کے حوالے سے کچھ ذکر کروں گا جو اپنے نشانات کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس ضمن میں یہ ایک اصولی بات بڑی واضح طور پر فرمائی کہ اصل مقصد، یہ نشانات جو ابھی ظاہر ہوئے یا ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوتے رہیں گے، ان کا مقصد یہ ہے کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اسلام کی صداقت کو دنیا پر واضح کرنا چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ یہ نشانات جہاں غیروں کے اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کرتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہیں کہ آپ ہی وہ جری اللہ ہیں جن کو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ اس وقت میں براہینِ احمدیہ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے آپ کے اس بیان کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی روح کا پتا لگتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ جو لوگ فی الحقیقت راہِ راست کے خواہاں اور جُویاں ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہوجائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور تا جو اس زمانہ کے ملحد ذرّیت ہے اس پر خدائے تعالیٰ کی حجت قاطعہ اِتمام کو پہنچے اور تا ان لوگوں کی فطرتی شیطنت ہریک منصف پر ظاہر ہو کہ جو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب عالیہ سے انکار کرکے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پُر خبث کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور بباعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بے ایمانی کے اس بات سے بے خبر ہورہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا۔ اور تا ان تحریرات حقّہ سے اسلام کی شان و شوکت خود مخالفوں کے اقرار سے ظاہر ہوجائے۔ اور تا جو شخص سچی طلب رکھتا ہو اس کے لئے ثبوت کا راستہ کھل جائے۔ اور جو اپنے میں کچھ دماغ رکھتا ہو اس کی دماغ شکنی ہوجائے۔ اور نیز ان کشوف اور الہامات کے لکھنے کا یہ بھی ایک باعث ہے‘‘ (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ہیں) ’’کہ تا اس سے مومنوں کی قوّت ایمانی بڑھے اور ان کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو۔ اور وہ اس حقیقت حقّہ کو بہ یقین کامل سمجھ لیں کہ صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقّانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ اور ایک باعث ان کشوف اور الہامات کی تحریر پر اور پھر غیر مذہب والوں کی شہادتوں سے اس کے ثابت کرنے پر یہ بھی ہے کہ تا ہمیشہ کے لئے ایک قوی حجت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے اور جو سفلہ اور ناخداترس اور سیاہ دل آدمی ناحق کا مقابلہ اور مکابرہ مسلمانوں سے کرتے ہیں‘‘۔ (اپنی برابری یا بڑائی جتاتے ہیں ) ’’ان کا مغلوب اور لاجواب ہونا ہمیشہ لوگوں پر ثابت اور آشکار ہوتا رہے اور جو ضلالت اور گمراہی کی ایک زہرناک ہوا آج کل چل رہی ہے اس کی زہر سے زمانہ حال کے طالب حق اور نیز آئندہ نسلیں محفوظ رہیں۔ کیونکہ ان الہامات میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جن کا ظہور آئندہ زمانوں پر موقوف ہے۔ پس جب یہ زمانہ گزر جائے گا اور ایک نئی دنیا نقاب پوشیدگی سے اپنا چہرہ دکھائے گی اور ان باتوں کی صداقت کو جو اس کتاب میں درج ہے بچشم خود دیکھے گی تو ان کی تقویت ایمان کے لئے یہ پیشین گوئیاں بہت فائدہ دیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 555تا 558 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

براہینِ احمدیہ کی جو پہلی چار جلدیں ہیں یہ حوالہ ان میں سے ہے اور آپ نے صرف اُس زمانے کے لئے ان الہامات کا اور پیشگوئیوں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ آئندہ کی نسلیں اگر اس کو یاد رکھیں تو اس (ضلالت و گمراہی) سے محفوظ رہیں گی۔ اور بہت ساری پیشگوئیاں جو کی گئی ہیں آئندہ زمانوں میں ظاہر ہوں گی۔ اور سب کچھ پیشگوئیاں جو آپ نے کیں یہ اپنے لئے نہیں بلکہ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ ہمیں بتانے کے لئے یا دنیا کو بتانے کے لئے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو اس روح کی تلاش نہیں کرتے اور اس بات پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ آپ کو اس قسم کے الہام ہو رہے ہیں اور جو اردو، انگریزی اور عربی سارے ملا کر ہو رہے ہیں۔ خدا کو پابند تو نہیں کیا جا سکتا۔ خدا تعالیٰ کی مرضی ہے جس مرضی زبان میں اور ایک ہی وقت میں ایک ہی مضمون کو دو، تین، چار زبانوں میں بیان کروا سکتا ہے۔ بہر حال یہ جو الہام ہوئے ان کے پورے ہونے کے گواہ غیر بھی ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اُن پر ظاہر ہوئی۔ روحانی آنکھ رکھنے والوں کے لئے تو براہینِ احمدیہ آج بھی ایک نشان ہے۔ اس میں بیان کردہ مضامین اور نشانات ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ان باتوں کی صداقت آئندہ نسلیں دیکھیں گی۔ یہ دیکھ کر یقینا ایمان کو تقویت ملتی ہے۔ یہ کتاب اور آپ علیہ السلام کی دوسری کتابیں ہدایت کا باعث بن رہی ہیں بلکہ ایک نشان ہیں۔ لیکن جن کے دل اندھے ہیں اُن کو آپ کے علوم و معرفت اور نشانات کا کچھ پتا نہیں لگتا، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر جس طرح آپ نے پیشگوئیاں فرمائی ہیں اُن کا ذکر فرماتے ہوئے آپ کشتیٔ نوح میں فرماتے ہیں کہ:

’’وہ غیب کی باتیں جو خدا نے مجھے بتلائی ہیں اور پھر اپنے وقت پر پوری ہوئیں وہ دس ہزار سے کم نہیں۔ مگر کتاب نزول المسیح میں جو چھپ رہی ہے نمونہ کے طور پر صرف ڈیڑھ سو ان میں سے مع ثبوت اور گواہوں کے لکھی گئی ہیں۔ اور کوئی ایسی پیشگوئی میری نہیں ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئی یا اُس کے دو حصوں میں سے ایک حصہ پورا نہیں ہوچکا۔ اگر کوئی تلاش کرتا کرتا مر بھی جائے تو ایسی کوئی پیشگوئی جو میرے منہ سے نکلی ہو اس کو نہیں ملے گی جس کی نسبت وہ کہہ سکتا ہو کہ خالی گئی۔ مگر بے شرمی سے یا بے خبری سے جو چاہے کہے۔ اور مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہزارہا میری ایسی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہوگئیں جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں۔ ان کی نظیر اگر گزشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اَو ر جگہ ان کی مثل نہیں ملے گی۔ اگر میرے مخالف اسی طریق سے فیصلہ کرتے تو کبھی سے اُن کی آنکھیں کھل جاتیں اور میں ان کو ایک کثیر انعام دینے کو تیار تھا اگر وہ دنیا میں کوئی نظیر ان پیشگوئیوں کی پیش کرسکتے۔ محض شرارت سے یا حماقت سے یہ کہنا کہ فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی ہم بجز اِس کے کیا کہیں کہ ایسے اقوال کو خباثت اور بدظنی کی طرف منسوب کریں۔ اگر کسی مجمع میں اسی تحقیق کے لئے گفتگو کرتے تو ان کو اپنے قول سے رجوع کرنا پڑتا یا بے حیا کہلانا پڑتا۔ ہزارہا پیشگوئیوں کا ہُو بہو پورا ہوجانا اور اُن کے پورا ہونے پر ہزارہا گواہ زندہ پائے جانا یہ کچھ تھوڑی سی بات نہیں ہے۔ گویا خدا ئے عزّوجل کو دکھلا دینا ہے۔ کیا کسی زمانہ میں باستثنائے زمانہ نبوی کے کبھی کسی نے مشاہدہ کیا کہ ہزارہا پیشگوئیاں بیان کی گئیں اور وہ سب کی سب روز روشن کی طرح پوری ہوگئیں اور ہزار ہا لوگوں نے ان کے پورے ہونے پر گواہی دی۔ مَیں یقینا جانتا ہوں کہ اِس زمانہ میں جس طرح خدا تعالیٰ قریب ہوکر ظاہر ہو رہا ہے اور صدہا امورِ غیب اپنے بندہ پر کھول رہا ہے۔ اس زمانہ کی گزشتہ زمانوں میں بہت ہی کم مثال ملے گی۔‘‘ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 7-6)

جن پیشگوئیوں کے بارے میں آپ نے نزول المسیح کا ذکر فرمایا، اُس میں سے تین چار میں نے نمونے کے طور پر رکھی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یَا اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلَی شَفَتَیْکَ۔ (دیکھو) براہینِ احمدیہ صفحہ 517۔‘‘ ترجمہ یہ ہے کہ ’’اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری کی جاوے گی۔ بلاغت اور فصاحت اور حقائق اور معارف تجھے عطا کئے جاویں گے۔ سو ظاہر ہے کہ میری کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا۔ اس الہام کے بعد بیس سے زیادہ کتابیں اور رسائل مَیں نے عربی بلیغ فصیح میں شائع کئے مگر کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔ خدا نے ان سے زبان اور دل دونوں چھین لئے اور مجھے دے دیئے۔‘‘ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 510)

پھر آپ ایک اور پیشگوئی کے ذکر میں فرماتے ہیں:

’’وَقَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَااِلَّا سِحْرٌ یُؤْثَر۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً۔ لَا یُصَدِّقُ السَّفِیْہُ اِلَّا سَیْفَۃَ الْھَلَاکِ۔ عَدُوٌ لِّیْ وَعَدُوٌّلَکَ۔ قُلْ اَتیٰ اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہ۔ صفحہ 518۔ 519دیکھو براہینِ احمدیہ۔‘‘ اور ترجمہ اس کا یہ ہے۔ ’’اور کہتے ہیں کہ یہ مقام تجھے کہاں سے ملا، یہ تو ایک فریب ہے۔ ہم تیرے پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو نہ دیکھ لیں۔ یہ لوگ تو بجز موت کے نشان کے کبھی مانیں گے نہیں۔ ان کو کہہ دے کہ مَری یعنی طاعون پھر چلی آتی ہے۔ سو تم مجھ سے جلدی مت کرو۔‘‘ فرمایا کہ: ’’یہ پیشگوئی بیس برس پہلے طاعون کے کی گئی تھی۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 510)

طاعون جو آیا تھا اُس سے بیس برس پہلے کی گئی اور کئی سال تک وہ طاعون چلا اور لاکھوں آدمی مرے۔

پھر آپ ایک پیشگوئی کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَا اَدْرٰکَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ۔ تَرَیٰ اَعْیُنُھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ۔ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ اَمْلُوْا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 242۔‘‘ ترجمہ یہ ہے۔ ’’صُفّہ کے دوست، اور تُو کیا جانتا ہے کیا ہیں صُفّہ کے دوست۔ تو اُن کی آنکھوں کو دیکھے گا کہ اُن سے آنسو جاری ہیں۔ تیرے پر وہ درود بھیجیں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا! ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز کو سنا جو کہتا تھا کہ اپنے ایمان کو درست کرو اور قوی کرو اور وہ خدا کی طرف بلاتا تھا اور شرک سے دُور کرتا تھا اور وہ ایک چراغ تھا زمین پر روشنی پھیلانے والا۔ (لکھ لو) یہ پیشگوئی جس زمانے میں براہینِ احمدیہ میں شائع کی گئی، اُس وقت نہ کوئی صُفّہ تھا، نہ اصحاب الصُّفَّہ۔ (یہ جو براہینِ احمدیہ ہے یہ 1882ء کی کتابیں ہیں (ان میں) یہ الہامات ہیں۔) ’’پھر بعد اس کے جو مخلصین قادیان میں ہجرت کر کے آئے اُن کے لئے صُفّے اور مہمانخانے تیار کئے گئے۔ دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ اُس زمانے میں یہ باتیں بتلائی گئیں جبکہ کسی کو اس طرف خیال بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ قادیان میں ایسے مخلص جمع ہوں گے اور اُن کے لئے صُفّے تیار کئے جاویں گے۔‘‘ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 502-501)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ دیکھو براہینِ احمدیہ صفحہ 240۔ ترجمہ۔ مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ یعنی بہت سے مکر کام میں لاویں گے مگر خدا اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گااگرچہ کافر لوگ کراہت ہی کریں۔ یہ اُس زمانہ کی پیشگوئی ہے کہ جبکہ اس سلسلے کے مقابل پر مخالفوں کو کچھ جوش اور اشتعال نہ تھا۔‘‘ یعنی مخالفت تھی ہی کوئی نہیں اور پیشگوئی ہو رہی ہے کہ جو مخالف ہیں وہ ختم ہو جائیں گے۔ ’’اور پھر اس پیشگوئی سے دس برس بعد وہ جوش دکھلایا کہ انتہاء تک پہنچ گیا، یعنی تکفیر نامہ لکھا گیا، قتل کے فتوے لکھے گئے اور صدہا کتابیں اور رسالے چھاپ دئیے گئے اور قریباً تمام مولوی مخالف ہوگئے اور کوئی ذلیل سے ذلیل منصوبہ نہ چھوڑا جو میرے تباہ کرنے کے لئے نہ کیا گیا مگر نتیجہ برعکس ہوا اور یہ سلسلہ فوق العادۃ ترقی کر گیا۔‘‘ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 527-526)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ فَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔ دیکھو براہینِ احمدیہ صفحہ 510۔ ترجمہ۔ اگرچہ لوگ تجھے نہ بچاویں یعنی تباہ کرنے میں کوشش کریں مگر خدا اپنے پاس سے اسباب پیدا کر کے تجھے بچائے گا۔ خدا تجھے ضرور بچا لے گا اگرچہ لوگ بچانا نہ چاہیں۔ اب دیکھو کہ یہ کس قوت اور شان کی پیشگوئی ہے اور بچانے کے لئے مکرر وعدہ کیا گیا ہے اور اس میں صاف وعدہ کیا گیا ہے کہ لوگ تیرے تباہ اور ہلاک کرنے کے لئے کوشش کریں گے اور طرح طرح کے منصوبے تراشیں گے مگر خدا تیرے ساتھ ہو گا اور وہ ان منصوبوں کو توڑ دے گا اور تجھے بچا ئے گا۔ اب سوچو کہ کون سا منصوبہ ہے جو نہیں کیا گیا۔ بلکہ میرے تباہ کرنے اور ہلاک کرنے کے لئے طرح طرح کے مکر کئے گئے۔ چنانچہ خون کے مقدمے بنائے گئے، بے آبرو کرنے کے لئے بہت جوڑ توڑ عمل میں لائے گئے اور ٹیکس لگانے کے لئے منصوبے کئے گئے۔ کفر کے فتوے لکھے گئے، قتل کے فتوے لکھے گئے لیکن خدا نے سب کو نامراد رکھا۔ وہ اپنے کسی فریب میں کامیاب نہ ہوئے۔ پس اس قدر زور کا طوفان جو بعد میں آیا مدت دراز پہلے خدا نے اُس کی خبر دے دی تھی۔ خدا سے ڈرو اور سچ بولو کہ کیا علمِ غیب اور تائیدِ الٰہی ہے یا نہیں؟ اور اگر کہو کہ عصمت کا وعدہ چاہتا تھا کہ وہ لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دیں مگر انہوں نے جھوٹے مقدمات کر کے عدالت میں جانے کی تکلیف دی، بہت سی گالیاں دیں، مقدمات کے خرچ سے نقصان کرایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عصمت سے مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جو دشمنوں کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالانکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھے اور یہ حادثہ وعدہ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو فرمایا تھا۔ اِذْ کَفَفْتَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَنْکَ۔ (المائدۃ: 111) یعنی یاد کرو وہ زمانہ کہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے مَیں نے تجھ سے روک دیا۔ حالانکہ تواترِ قوی سے یہ ثابت ہے کہ حضرت مسیح کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا لیکن خدا نے آخر جان بچا دی۔ پس یہی معنی اِذْ کَفَفْتُکے ہیں۔ جیسا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کے ہیں۔‘‘ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 529-528)

پس یہ تین چار میں نے نمونے رکھے تھے۔ اسی طرح آپ کی کتب جو ہیں وہ بھی ایک نشان ہیں۔ اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشا پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوں کیونکہ جب مَیں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی، دو حصہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (1)۔ ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائیدنہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقّت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر ان مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ (2)۔ دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں مثلاًایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلۂ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب ان کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی مَتلُوّ کی طرح روح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت میں اپنی حِسّ سے غائب ہوتا ہوں۔ مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاریٔ عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلُوّ کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنی ہیں بسیاری عیال۔ یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم و غصّہ سے چپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دِل پر وحی ہوئی کہ وَجُوم۔ ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صدہا بنے بنائے فقرات وحی متلُوّ کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا ان کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرّف سے۔ اور بعض اوقات کچھ مدّت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلُوّالقاء ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے۔ چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے۔ یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے۔ مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں کچھ نمونہ ان کا لکھا گیا ہے۔ اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القاء ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصے بیان کرکے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصّے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علمِ غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا۔ پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے مَیں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں۔ ورنہ انسان کیا چیز اور ابنِ آدم کیا حقیقت کہ غرور اور تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بلاوے۔‘‘ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 434 تا 436)

آپ کی عربی کتب نے عربوں پر جو اثر کیا اُس کی چند مثالیں اب اس زمانے میں بھی ہیں جو پیش کرتا ہوں۔ چندنہیں بلکہ بہت سی مثالیں ہیں اُن میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں۔ اُس زمانے میں تو آپ کی عربی کے مقابلے پر کوئی نہیں آیالیکن آج بھی عربوں کاجو اظہار ہے وہ کس طرح کا ہے۔

فلسطین کی ہماری ایک خاتون ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مروجہ طرزِ فکر کے زیرِ اثر میرا بڑا پکا ایمان تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر موجود ہیں اور آخری زمانے میں آسمان سے نازل ہوں گے اور اُمت کو دیگر اقوام کی غلامی سے تلوار کے زور پر آزاد کروائیں گے۔ نیز تلوار کے زور سے ہی جبراً لوگوں کو اسلام میں داخل کریں گے۔ لہٰذا مجھے بڑی شدت کے ساتھ اس دن کا انتظار تھا۔ پھر جماعت سے میرا تعارف ہوااور یہ تعارف میرے دیور کے ذریعہ ہوا جو نہ صرف جماعت کے بارے میں میرے ساتھ اکثر بات چیت کرتے تھے بلکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب اور لٹریچر بھی بھیجتے رہتے تھے۔ اُن کتب میں مجھے بے مثل اور انمول موتی ملے۔ ایسے معارف کا مطالعہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ ایسی بلاغت اور اعجاز سے بھرپور عربی کلام جس میں علم و معرفت کے ہیرے رکھ دئیے گئے ہوں میرے لئے بالکل نیا تھا۔ ایسے جواہر پاروں کے مطالعہ سے ہی قاری کا خدا سے تعلق قائم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور مکمل اطمینان ہونے کے بعد میں نے بیعت کر لی۔

پھر الجزائر سے حجاز صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ مسخ شدہ اسلامی تعلیم اور قرآنِ کریم کی غلط تفاسیر سے بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ علماء کی تشریحات سن کر سوچتا تھا کہ کیا یہ خدا کا کلام ہو سکتا ہے؟ یہاں تک کہ اردن کے احمدی دوست کے ذریعہ احمدیت اور بانی سلسلہ کی تحریرات سے آگاہی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پڑھنے سے قبل نوافل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ راہِ راست کی طرف رہنمائی فرمائے۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا سینہ کھلتا گیا اور اس کلام کی ہیبت سے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ الٰہی وحی ہے۔

پھر فراس صاحب ابوظہبی سے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جس قدر کتابیں مجھے مہیا ہو سکیں اُن کے مطالعہ سے نیز ایم ٹی اے کے پروگرام ’’الحوار المباشر‘‘ کو باقاعدگی سے دیکھنے سے مجھے جماعتی عقائد پر اطلاع ہوئی۔ شروع میں تو جہالت اور گزشتہ خیالات کی وجہ سے میں نے فوری منفی ردّ عمل ظاہر کیا لیکن جب قرآنی آیات و احادیث اور خدائی سنت کا بغور مطالعہ کیا تو میرا دل مطمئن ہونے لگا۔ اب میرے سامنے دو راستے ہو گئے۔ یا تو مَیں مسلسل حضرت عیسیٰ بن مریم کے آسمان سے نزول کا انتظارکئے جاؤں اور اس سے قبل دجال کا انتظار، جس کی بعض ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کو زیبا ہیں، جیسے احیائے موتی وغیرہ اور پھر جنّ بھوتوں کے قصے اور قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کے عقیدے سے چمٹا رہوں۔ یا پھر حضرت احمد علیہ السلام کو مسیح موعود اور امام مہدی مان لوں جنہوں نے اسلام کو خرافات سے پاک فرمایا ہے اور اسلام کے حسین چہرے کو نکھار کر پیش فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی دفاع فرمایا ہے۔ خیرکہتے ہیں، بہر حال میں نے خدا تعالیٰ سے مدد چاہی اور بہت دعا کی کہ وہ میری رہنمائی فرمائے اور حق اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ چنانچہ میں نے جماعت احمدیہ اور حضرت احمد علیہ السلام کی طرف ایک دلی میلان محسوس کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ میں نے قانون پڑھا ہوا ہے۔ جب مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار سنے تو میرا جسم کانپنے لگا اور آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور میں نے زور سے کہا کہ ایسے شعر کوئی مفتری نہیں کہہ سکتا۔ ایک مفتری کے سینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت کیسے ہو سکتی ہے۔ پھر ایک عجمی کا اتنا قوی اور فصیح و بلیغ عربی زبان کا استعمال کرنا بغیر خدائی تائید کے ناممکن ہے۔

پھر عباس صاحب ہیں جو اٹلی میں رہتے ہیں۔ عرب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں باوجود مولویوں کی ہرزہ سرائی کے ایم ٹی اے العربیہ کا ہو کر رہ گیا تھا۔ ایک دن میں الحوار دیکھ رہا تھا کہ اس میں وقفے کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عربی قصیدہ آ گیا۔

عِلْمِیْ مِنَ الرَّحْمٰنِ ذِیْ الْآلَاءِ

بِاللّٰہِ حُزْتُ الْفَضْلَ لَا بِدَھَآءِ

 (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 266۔ 282)

میں یہ قصیدہ سننے کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو بھی دیکھتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک بے اختیاری کے عالم میں میرے منہ سے بلند آواز میں یہ کلمات نکلے کہ خدا کی قسم! یہ بات کوئی جھوٹا ہرگز نہیں کہہ سکتا۔ یہ شخص لازمی خدا کا فرستادہ ہے۔ ایسا کلام خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کی بے حرمتی کرنے والا نہیں ہو سکتا۔

پھرمراکش کے ایک خالد صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں۔ احمدیت سے تعارف کے بعد مجھے اس بات سے کسی قدر حیرت بھی ہوئی کہ امام مہدی آ کر چلا بھی گیا اور ہم اب اُن کے بارے میں سن رہے ہیں۔ سوچ سوچ کر میں نے خدا تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کی اور جماعت کی عربی ویب سائٹ پر موجود کتب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھی وہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ تھا جسے مَیں نے کئی مرتبہ پڑھا۔ اس کتاب میں عدل و احسان اور ایتایٔ ذی القربی کا مضمون پڑھ کر میری روح بھی وجد کرنے لگی۔ اس کے بعد میں نے ’’التبلیغ‘‘ پڑھی اور دیگر کتب کا مطالعہ کیا۔ ان کتب نے روحانی دقائق اور دینی معارف کے ایسے دریا بہائے کہ اکثر میری زبان پر یہ فقرہ آتا تھا کہ مجھے خزانہ مل گیا ہے۔

ہمارے ایک صاحب حمادہ صاحب ہیں اُن کے بارے میں ہانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری ویب سائٹ پر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مریم بننے اور پھر اس مریم میں نفخ روح کے بارے میں پوچھا تھا۔ اس پر اُن سے رابطہ کیا گیا اور کچھ مضامین اور حضور علیہ السلام کے اقتباسات بھجوائے گئے جن سے وہ بہت متاثر ہوئے اور حقیقت پا گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کی کتاب ’’التبلیغ‘‘ نے میرا سینہ کھول دیا اور مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ اس زمانے میں بھی انبیاء کا پُر نور کلام مجھے پڑھنے کو ملا۔ اپنے سابقہ شکوک وشبہات پر افسوس بھی ہوا۔

یمن کے ایک صاحب حطامی صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ ایک صحافی اور ایک محقق ہونے کے ناطے حقیقتِ حال جاننے کا مجھے شوق تھا۔ لہٰذا جماعت کے مخالفین کی کتب بھی پڑھیں۔ اُن میں ناروا الزام تراشی کے بعدنوبت تکفیر تک پہنچتی نظر آئی۔ مزید تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان میں وہی پرانے غلط الزامات کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی دانی وغیرہ جیسے معجزات تھے۔ یہ بھی الٰہی معجزہ تھا کہ امام مہدی کو فارسی الاصل پیدا کیا۔ ضروری نہیں کہ عربوں میں ہی مہدی آتا۔ کیونکہ ہدایت اور نبوت صرف عربوں پر ہی منحصر نہیں، دوسری دنیا کا کیا قصور ہے۔ اسلام کے آخری زمانے میں غریب ہو جانے کا میرے نزدیک ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس کی نشأۃ ثانیہ غیر عرب ملک سے شروع ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ نے اسلام کا صحیح تصور دوبارہ پیش کیا ہے۔ جس کو لوگوں نے بھلا دیا تھا یا بگاڑ دیا تھا۔ اسلام امن اور سلامتی کا نام ہے۔ لیکن مسلمان آپس میں لڑ مر رہے ہیں۔ کوئی خونی مہدی کا انتظار کر رہا ہے تو کوئی مہدی کے غار سے نکلنے کا منتظر ہے۔ لیکن ایک جماعت احمدیہ ہے جو حقیقی مہدی کو مان کر اُس کی پیروی کر رہی ہے۔

پھر ایران کے ایک صاحب عبیات صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میری پیدائش اور پرورش شیعہ خاندان میں ہوئی جہاں شروع سے ہی دینی رجحان تھا۔ مَیں نے مختلف ٹی وی پروگرامز اور کتب کا مطالعہ کیا لیکن جس طرح سے اسلام کو پیش کیا جا رہا تھا اس سے تسلی نہ ہوتی تھی۔ اور خیال کرتا تھا کہ جس طریق سے اسلام پیش کیا جا رہا ہے، ضرور اس میں کوئی کمی یا کمزوری ہے۔ کیونکہ قرآن تو یہ فرماتا ہے کہ کثرت سے لوگ اس دین میں داخل ہوں گے لیکن آجکل لوگوں کی اکثریت تو اسلام کی حقیقت سے خالی ہے۔ اس پر مجھے یقین ہو گیا کہ رائج الوقت مفاہیم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں ایک روز میرے ایک دوست نے اپنے گھر بلایا اور ایم ٹی اے سے تعارف کروایا۔ اس کے بعد میں نے پروگرام ’’الحوار المباشر‘‘ اور بعض دیگر پروگرام دیکھے جن میں آپ کی تفسیر القرآن اور مختلف مسائل پر گہری علمی اور حکیمانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوا۔ پہلی بار کسی چینل پر اسلام کے بارے میں علمی طریق سے گفتگو اور رابطہ کرنے والوں کے سوالوں کے قوی دلائل پر مبنی جوابات سنے۔ پھر کہتے ہیں نیز عجیب بات یہ تھی کہ یہ علماء جو غیر از جماعت علماء ہیں، شیعوں کو تو مناظرے کی دعوت دیتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کے مقابلے پر صرف تکفیر بازی اور گالی گلوچ پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ وہ جماعت احمدیہ کے قوی دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں کہ احمدی لوگوں کو قید اور قتل کیا جاتا ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے مخالفین کے پاس سوائے اسلام کو بدنام کرنے والے ان کاموں کے اور کچھ نہیں۔ جب بھی میں ایم ٹی اے دیکھتا ہوں میرا ایمان مضبوط تر ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں کسی قسم کے نسخ نہ ہونے کے بارے میں آپ کا عقیدہ معلوم کر کے آپ کی اسلام کے ساتھ محبت کا یقین ہو گیا۔ جب یہ سنا کہ مسیح موعودنے اسلام کی دوسرے مذاہب پر فوقیت ثابت کرنے کے لئے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے تو مجھے اس کی تبلیغ کے بارہ میں آپ کی لگن کا یقین ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود اور پھر خلفاء کی کتب پڑھ کر یقین ہو گیا کہ یہ لوگ معمولی آدمی نہیں بلکہ یہ اسلام کے سرگروہ ہیں اور ان کے افکار کی دنیا کو سخت ضرورت ہے۔ حضور علیہ السلام کی عربی زبان کی مہارت اور عرب و عجم کو عربی میں مقابلہ کا چیلنج دینا مخالفین کے لئے گولڈن چانس مہیا کرتا تھا کہ اپنی فوقیت ثابت کر سکیں لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ ان سب دلائل نے میرے لئے آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ چھوڑا۔ جماعت کی حقیقت پر آگاہ ہونے کے بعد اس کی تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ مَیں چند ایک پیش کروں گاجو پیش کئے ہیں۔ پھر ان نشانات کے ضمن میں ہی ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صدہا نشان ظاہر ہوئے۔ کیا زمین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے کہ جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کر کے مجھ پر غالب آ سکے۔ مجھے اُس خدا کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دو لاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور شاید دس ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ لوگوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپؐ نے میری تصدیق کی۔ اور اس ملک میں جو بعض نامی اہل کشف تھے جن کا تین تین، چار چار لاکھ مرید تھا اُن کو خواب میں دکھلایا گیا کہ یہ انسان خدا کی طرف سے ہے۔ اور بعض اُن میں سے ایسے تھے کہ میرے ظہور سے تیس برس پہلے دنیا سے گزر چکے تھے۔ جیسا کہ ایک بزرگ گلاب شاہ نام ضلع لدھیانہ میں تھا۔ جس نے میاں کریم بخش مرحوم ساکن جمال پور کو خبر دی تھی کہ عیسیٰ قادیان میں پیدا ہو گیا اور وہ لدھیانہ میں آئے گا۔ میاں کریم بخش ایک صالح موحد اور بڈھا آدمی تھا۔ اُس نے مجھ سے لدھیانہ میں ملاقات کی اور یہ تمام پیشگوئی مجھے سنائی۔ اس لئے مولویوں نے اُس کو بہت تکلیف دی۔ مگر اُس نے کچھ پروا نہ کی۔ اُس نے مجھے کہا کہ گلاب شاہ مجھے کہتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم زندہ نہیں، وہ مر گیا ہے۔ وہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا۔ اس امّت کے لئے مرزا غلام احمد عیسیٰ ہے جس کو خدا کی قدرت اور مصلحت نے پہلے عیسیٰ سے مشابہ بنایا ہے اور آسمان پر اُس کا نام عیسیٰ رکھا ہے اور فرمایا کہ اے کریم بخش جب وہ عیسیٰ ظاہر ہو گا تو تُو دیکھے گا کہ مولوی لوگ کس قدر اُس کی مخالفت کریں گے۔ وہ سخت مخالفت کریں گے لیکن نامراد رہیں گے۔ وہ اس لئے دنیا میں ظاہر ہو گا کہ تا وہ جھوٹے حاشیے جو قرآن پر چڑھائے گئے ہیں اُن کو دُور کرے اور قرآن کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاوے۔ اس پیشگوئی میں اس بزرگ نے صاف طور پر یہ اشارہ کیا تھا کہ تُو اس قدر عمر پائے گا کہ عیسیٰ کو دیکھ لے گا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن، جلد20صفحہ 36تا37)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں بعض لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔ (اس ضمن میں ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بعض جو بیعت کرنے والے تھے، اُن کے کچھ واقعات اور بعد کے واقعات بھی بیان کرتا ہوں۔ حضرت میاں عبدالرشید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’مجھے بیعت کی تحریک حضرت والد صاحب کی تحریک اور ایک خواب کے ذریعہ سے ہوئی۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ حضور ایک چارپائی پر لیٹے ہیں اور بہت بیمار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے پاس کھڑے ہیں جیسے کسی بیمار کی خبر گیری کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چارپائی سے آپ کے کندھے پر سہارا دے کر کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد اس حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکچر دینا شروع کر دیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بیان تھا اور اس کے بعد خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تندرست ہو گئے ہیں اور آپ کا چہرہ پُر رونق ہو گیا۔ جس سے میں نے یہ تعبیر نکالی کہ اب اسلام حضرت صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے دوبارہ زندہ ہو گا۔ چنانچہ اس خواب کے بعد پھر میں نے بیعت کر لی۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 28 روایت حضرت میاں عبدالرشید صاحبؓ لاہور)

اسی طرح عبدالستار صاحبؓ ولد عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے اپنے والد صاحب سے سوال کیا کہ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ ہمیں نہیں آتا، زندہ کا آتا ہے۔ کیونکہ مسیح زندہ کے بارے میں سنتے رہے ہیں۔ یہ ہمیں سمجھا دیں۔ میرے والد صاحب نے اپنا ایک خواب بیعت سے آٹھ دس ماہ کے بعد یہ سنایا کہ میں نے دریائے راوی کے کنارے پر دیکھا کہ دو خیمے لگے ہوئے ہیں، ایک مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور دوسرا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ میں رسولِ کریمؐ کے خیمے میں داخل ہوا اور یہ سوال کیا کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے والے بزرگ کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہ شخص بہت لائق، بہت لائق (ہے)، بہت لائق۔ تین دفعہ انگلی کے اشارے سے فرمایا۔ مکمل شہادت کو دیکھ کر یقینِ کامل ہو گیا کہ آپ یعنی مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ میں راستباز ہیں، ہمیں حیات و اموات کے مسئلے کی ضرورت نہیں، ایمان لے آئے اور بیعت میں داخل ہوئے۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹرنمبر 6 صفحہ 178 روایت حضرت عبد الستار صاحبؓ)

پھر سردار کرمداد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ: ’’میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیعت کرنے سے پہلے خواب میں دیکھا۔ وہ اس طرح کہ ایک سڑک ہے جس پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مل کر ٹہلتے آ رہے ہیں۔ بندہ سامنے سے آ رہا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندے کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں، انگلی کے اشارے سے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ یعنی تین دفعہ حضور نے فرمایا۔ جب میں نے 1902ء میں بمقام قادیان دارالامان میں جبکہ چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی، بیعت کی تو اُسی حلیے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پایا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ رجسٹر نمبر 5 صفحہ 1روایت حضرت سردار کرم داد خان صاحبؓ)

اس زمانے میں پھر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کا نظارہ دیکھتے ہیں۔ محمد بن احمد صاحب جرمنی میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک عرصے سے مَیں یہ لکھنے کا سوچ رہا تھا لیکن بار بار لکھنے میں تردد پیدا ہوا۔ کیونکہ جب تک میں ایک خاص روحانی کیفیت میں نہ ہوں، خدا تعالیٰ کی رضا کو محسوس نہ کر رہا ہوں، لکھنے نہیں بیٹھتا۔ کہتے ہیں۔ خاکسار اس وقت جرمنی میں انجنیئرنگ پڑھ رہا ہے۔ بچپن اور جوانی اپنی فیملی کے ساتھ سعودی عرب میں گزاری جہاں احمدیت کا نام تک نہ سنا تھا۔ 2004ء یا 2005ء میں خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ اُس وقت ہم ایک خوبصورت مینار میں تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو اپنے جوبن پر اور ہمارے بالکل قریب تھا۔ چاند کی روشنی ہمارے چاروں طرف دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی جس کے درمیان میں ایک مینار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتا رہے تھے جسے مَیں پہلے نہیں جانتا تھا۔ آپ میرے ساتھ اتنی محبت اور شفقت سے پیش آ رہے تھے کہ جس کا بیان ناممکن ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ حضور کے چہرہ سے اہل دنیا کے لئے ہموم و غموم کا بوجھ ہویدا تھا۔ پھر میں بیدار ہو گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے مَیں زمین سے بلند ہوں۔ اس کے بعد کئی روز تک لوگوں سے میرا سلام کلام بہت کم رہا۔ مجھے اس خواب کی کچھ سمجھ نہ آئی، یہاں تک کہ میرے والد صاحب نے بعد میں اس بارے میں بتایا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب والد صاحب نے بتایا کہ اُنہیں بھی نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں 1979ء میں میری ولادت کی بشارت دی تھی اور فرمایا تھا کہ تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا اور اُس کا نام محمد رکھنا۔ یہ بات میرے والد صاحب نے مجھے 2007ء میں بتائی۔ اُس وقت تک میں احمدیت کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ پھر سیریا میں ایک بار میرے چھوٹے بھائی نے جماعت کی ویب سائٹ کے بارے میں بتایا جہاں میں نے جماعت کے عقائد اور تفسیر کا مطالعہ کیا۔ یہ کم و بیش وہی عقائد تھے جن کا ہم بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے۔ مثلاً یہ کہ دجال سے مراد اثرِ حاضر کا مغربی ممالک کا صنعتی انقلاب اور مادی کشش، نیز عیسائیت کا پرچار کرنے والی قوتیں ہیں۔ پھر مجھے لکھتے ہیں کہ یقین کریں کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھتے وقت حقائق و معارف اور حضور کی روزِ روشن کی طرح واضح صداقت کو پڑھ کر رویا کرتا تھا۔ ہر لفظ میری روح میں اتر جاتا تھا۔ یہ متاع ایمان ایسی دولت ہے جس کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ جماعت کے عقائد کا دوسروں پر غلبہ بھی واضح تھا۔ یقینا جو جماعت اسلام کے صحیح عقائد پیش کرتی ہے، مثلاً قرآنِ کریم کا ناسخ و منسوخ سے پاک ہونا، اس کی عقلی اور منطقی تفسیر، عصمتِ انبیاء، ختم نبوت کی تفسیر، اسراء اور معراج کی حقیقت، وہ صرف مسیح موعود کی جماعت ہی کھول سکتی ہے۔ گو آج اُسے جزوی غلبہ حاصل ہے لیکن مستقبل قریب میں اُسے کامل غلبہ حاصل ہو گا۔

دمشق کے ایک دوست رضوان صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے دمشق یونیورسٹی سے میتھیمیٹک (Mathematic) اور آئی ٹی (IT) کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کمپیوٹر کی مرمت کا کام شروع کیا اور اس کے ساتھ دمشق کی بعض مساجد میں نوجوانوں کو قرآن پڑھانے لگا۔ دینی علوم مَیں نے کسی ادارے میں نہیں حاصل کئے بلکہ ذاتی کوشش اور مطالعہ سے اخذ کئے۔ ایک واقعہ کے بعد مَیں معرفتِ الٰہی کے حصول کی کوشش میں لگ گیا۔ تو اُس کے بعد جو پہلا رؤیا دیکھا اُس میں میرے لئے پیغام تھا کہ قرآنِ کریم ہی علوم و معارف کا خزانہ ہے اور اپنی زندگی کی تمام مشکلات کا حل اس میں تلاش کرو۔ میں نے جب قرآنِ کریم پر غور کیا تو اُس کے فیوض و علوم سے میرا دامن بھر گیا۔ ایک رات میں نماز میں قول خدا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(الکہف: 105) سے بہت ڈرا۔ اور خدا تعالیٰ سے ہی سیدھے راستے کی ہدایت چاہی۔ اُس وقت دو نوجوانوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور قادیانیت کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے قادیانیت کے کافر ہونے کے بارے میں ایک کتاب لی اور اُنہیں سنانے لگا۔ اچانک مجھے ایک عجیب احساس ہوا اور میں نے کتاب بند کر دی اور کہا مجھے لگتا ہے کہ کوئی بڑی غلطی کر رہا ہوں۔ کیونکہ میں ایسی جماعت کے بارے میں بتا رہا ہوں جس کے ساتھ مجھے بات کرنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا بلکہ میں سنی سنائی باتیں کر رہا ہوں۔ پھر میرا تعارف ایک احمدی مکرم بدر صاحب سے ہوا جنہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ دی۔ میں نے یہ کتاب اُس وقت تک نہ رکھی جب تک مکمل نہ پڑھ لی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس شخص کے انگ انگ میں اسلام سمایا ہوا ہے۔ یہ سنا سنایا ہوا اسلام نقل نہیں کر رہا بلکہ اس نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا ہے۔ یہ ضرور کوئی خدا کا مقرب انسان ہے۔ اس کتاب میں جس موضوع نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ وحی الٰہی اور اُس کا غیر منقطع ہونا ہے کیونکہ کوئی چھ ماہ قبل میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ جیسے مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں اور خدا تعالیٰ کا نور پھیلا ہوا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ مجھے فرماتا ہے۔ اَعْطَیْتُکَ الدِّرْعَ الْوَاقِیْ۔ یعنی میں نے تجھے محفوظ رکھنے والی زرہ عطا کی ہے۔ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی اور خدا تعالیٰ سے شرم کے سبب میں نے اُنہیں نہیں پوچھا بلکہ عرض کیا کہ سَمْعًا وَ طَاعَتًا۔ اس پر ایک فرشتہ نظر آیا جو جنگجو لگتا تھا اور اُس نے اسلحہ وغیرہ زیب تن کیا ہوا تھا۔ اس فرشتے نے مجھے کہا کہ اپنے دوست باسط سے کہو کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے ساتھ چمٹ جاؤ۔ اس کے بعد میں نے حضور علیہ السلام کی تمام عربی کتب پڑھ لیں اور بہت فائدہ اُٹھایا۔ آپ کے کلام نے مجھ پر جادو کا سا اثر کیا۔ ا س کے بعد میں نے استخارہ کیا تو ایک دفعہ مجھے یہ آیت سنائی دی۔ عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا اٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا  (الکھف: 66) پھر دوسری دفعہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ میرے پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا کہ اس زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے صرف مرزا غلام احمد ہی سفینۂ نجات ہیں۔

پھر بعض نشانات دیکھ کر افریقہ کے جو مختلف لوگ ہیں (ان کے کچھ واقعات بیان کرتا ہوں )۔ ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ سرکٹ مبلغ عبدالمالک اپنے دو ساتھیوں مونسے (Monsie) نامی قصبہ میں تبلیغ کے لئے گئے۔ قصبے کے نو جوانوں نے تبلیغ کی جگہ پر خوب شور شرابا کیا جن پر اُن کو تبلیغی نشست بند کرنا پڑی۔ اگلے دن قصبے کے لوگ اپنے ایک پروگرام کے تحت ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ اچانک تیز ہوا شروع ہوئی۔ بظاہر بارش کا کوئی امکان نہ تھا کہ اچانک گھنے بادل آئے اور بڑی تیز آندھی چلی۔ موسلا دھار بارش ہوئی اور اُن کا سارا پروگرام خراب ہو گیا۔ اس واقعہ پر قصبہ کے لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ طوفان خدا کے غضب کا نشان تھا جو احمدیوں کو تبلیغ سے روکنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوا ہے۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں اکتالیس افرادنے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی۔

پھر نائیجیریا کی ایک رپورٹ ہے کہ وہاں اودولو (Odulu) گاؤں اور اس کے ارد گرد تبلیغ کر رہے تھے تو وہاں کافی مخالفت ہوئی۔ کچھ عرصے بعد اس گاؤں کا ایک نوجوان بشیر ہے، اس نے آ کر بتایا کہ اُس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر یہ احمدی لوگ سچے نہیں ہیں تو اُنہیں تکلیف میں مبتلا کر اور اگر احمدی سچے ہیں تو مخالفین کو تکلیف میں مبتلا کر جو ایک نشان بنے۔ چنانچہ پانچ دن بعد میں نے دیکھا کہ مخالفین میں دو شخص بیمار ہوئے اور شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ جماعت خدا کی طرف سے ہے اور میں سچے دل کے ساتھ ایمان لا کر احمدی ہوتا ہوں۔ پھر بورکینا فاسو میں ددگو (Dedougou) ریجن ہے، وہاں سے (ہمارے مبلغ) لکھتے ہیں کہ جب تبلیغ کے سلسلے میں مختلف گاؤں کا دورہ کیا تو ایک گاؤں پہنچے۔ اس گاؤں میں ہمارے سو کے قریب ممبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مربی صاحب! کافی عرصے سے بارش نہیں ہو رہی اور ہم فصلیں کاشت نہیں کر سکے۔ خاکسار نے کہا کہ آؤ خدا سے دعا کرتے ہیں اور نمازِ استسقاء پڑھتے ہیں۔ صبح دس بجے نمازِ استسقاء ہو گی۔ تمام گاؤں کے افراد، بچے بوڑھے خواتین سب کو اطلاع کر دیں۔ جب اطلاع کی تو غیر احمدی مسلمان اپنے امام سمیت اس نماز میں شامل نہیں ہوئے۔ کہتے ہیں مَیں نے نماز میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واسطہ دے کر کہا کہ اے میرے رب! ان لوگوں کی زمین کی پیاس بجھا دے، ہماری دعائیں سُن اور آج یہ نظارہ گاؤں والوں کو دکھا دے۔ خدا تعالیٰ نے احمدی بچوں اور خواتین اور بوڑھوں کی دعا کو سنا۔ اُسی رات موسلا دھار بارش ہوئی۔ کہتے ہیں ہم تو نماز پڑھ کے دوسرے گاؤں میں تبلیغ کرنے چلے گئے تھے۔ صبح جب جماعت ماسو کے لوگ پیغام دینے کے لئے آئے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گاؤں میں یہ سب سے پہلی بڑی بارش برسی ہے جو خداتعالیٰ کا بڑا فضل تھا۔ اس واقعہ سے غیر احمدی مسلمان اور عیسائی بہت متاثر ہوئے جنہوں نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور نتیجۃً وہاں نوّے (90) بیعتیں ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے۔ اور اُن کو شکر کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو یونہی نہیں چھوڑا بلکہ اُن کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ710۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ سے ایک سچا تعلق پیدا کرنے والے ہوں۔ ایسا تعلق پیدا کرنے والے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا نشان دکھانے والا بنائے اور ہمارے ایمانوں میں اضافہ کرنے والا بنائے۔ اور آئندہ نسلوں میں بھی ہم اس روح کو پھونکنے والے ہوں کہ خدا تعالیٰ سے ایک سچا تعلق جوڑو اور جماعت کے ہمیشہ وفادار رہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آئے ہو تو اُس کی قدر کرو۔ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں میں بھی ایمان قائم رکھے اور بڑھاتا چلا جائے۔

اس وقت ایک افسوسناک خبر ہے۔ میں نمازوں کے بعد دو جنازے پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ مکرم رضی الدین صاحب ابن مکرم محمد حسین صاحب کا ہے، جو 8؍فروری 2014ء کو اپنے گھر سے کام پر جانے کے لئے نکلے تھے کہ ان کو شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ کراچی میں تھے۔ ان کی اہلیہ اور بھتیجا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ کراچی میں اُس دن ہڑتال تھی اور ان کی اہلیہ نے اُنہیں کہا بھی کہ کام پر نہ جائیں لیکن یہ پھر بھی کام پر جانے کے لئے تیار ہوئے۔ ابھی گھر سے کچھ فاصلے پر ہی پہنچے تھے کہ دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے اور انہوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ ایک گولی آپ کی گردن میں لگی جس نے سانس کی نالی کو زخمی کر دیا۔ بھتیجا ان کا ساتھ تھا، وہ تو خیر اطلاع دینے کے لئے گھر چلا گیا۔ اہلیہ ان کو فوری طور پر ہسپتال لے گئیں جہاں ڈاکٹر نے ہر ممکن کوشش کی لیکن مکرم رضی الدین صاحب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ محمد حسین مختار صاحب کے یہ بیٹے تھے۔ شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق مینڈر ضلع پونچھ کشمیر سے تھا۔ مینڈر کے دو بزرگان نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور واپس آ کر تبلیغ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم فتح محمد صاحب نے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی توفیق پائی تھی۔ شہید مرحوم کے دادا کا نام مکرم مختار احمد صاحب جبکہ والد مکرم محمد حسین مختار ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان گوئی ضلع کوٹلی میں آباد ہوا۔ بعد میں 1992ء سے کراچی میں رہائش اختیار کر لی۔ ایف۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ ایک فیکٹری میں چھ سال سے ملازم تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی۔ نہایت ہمدرد اور مخلص انسان تھے۔ ہر ایک سے خوش دلی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ خلافت سے عشق تھا۔ عہدیداران اور نظامِ جماعت کا بہت احترام کرتے تھے۔ کسی سے جھگڑے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ شہادت کے بعد غیر از جماعت دوست بھی اظہار کرتے رہے کہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی، نہ ہی کبھی کسی کو شکایت کا موقع دیا۔ بار بار شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ شہادت سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک لڑکا کلہاڑی لے کر تعاقب کر رہا ہے اور اچانک وار کر دیتا ہے تو اس سے آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ شہادت سے دو دن قبل چھ فروری کو ان کی اہلیہ محترمہ نے خواب میں دیکھا کہ میرے خاوند شہید مرحوم کی شادی ہو رہی ہے۔ پھر اچانک دیکھتی ہیں کہ گھر جنازہ پڑا ہوا ہے۔ کہتی ہیں میں بھاگ کر اپنے والدین کے گھر جاتی ہوں جو قریب ہی تھا تو دیکھا کہ ایک جنازہ وہاں بھی پڑا ہوا ہے۔ پھر ان کی آنکھ کھل گئی۔ شہید مرحوم کے والدنے بھی خواب دیکھی تھی کہ بڑا بیٹا محمد احمد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے پاس سترہ دن کی مہلت ہے۔

بفضلہ تعالیٰ شہید موصی تھے اور اکثر مسجد میں جو آجکل خدام ڈیوٹی دیتے ہیں اُن ڈیوٹی دینے والوں میں بڑے فعّال تھے۔ ان کے والد عمر رسیدہ ہیں۔ اسّی (80) سال ان کی عمر ہے۔ گزشتہ چار سال سے مفلوج بھی ہیں۔ یہ اپنی فیملی کے، والدین اور بچوں کے بھی اکیلے ہی کفیل تھے۔ ان کے بھائیوں کو بھی دھمکیاں ملی ہیں جس کی وجہ سے وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد پھر ان کو دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں تھیں۔ ان کے والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ نصرت جبین صاحبہ اور سات ماہ کی بیٹی عزیزہ عطیۃ النور ہیں۔ صرف ایک ہی ان کی بیٹی ہے۔ بھائی ہیں، اُن کے بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلندفرمائے اور ان کے والدین کو بھی اور باقی لوگ، بیوی کو بھی اور بچی کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور صبر اور حوصلہ کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرا جنازہ ڈاکٹر خالد یوسف صاحب کا ہو گا جو 7؍فروری 2014ء کو فضلِ عمر ہسپتال ربوہ میں 46 سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ڈاکٹر صاحب موصی تھے۔ بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی ہے۔ آپ کے والد محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب تھے جو نوابشاہ کے امیر ضلع تھے اور اُنہیں 9؍ ستمبر 2008ء میں شہید کر دیا گیا تھا۔ ان کی والدہ نوابشاہ میں ہی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تھا۔ امۃ الشافعی اور ادیبہ یوسف اور اعیان احمد بیٹا نو سال کا ہے اور ایمان خالد پانچ سال۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ دے اور ان کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ اپنے والد کی شہادت کے بعد یہ نوابشاہ سے یہاں آئے تھے اور بڑے اچھے ڈاکٹر تھے۔ وہاں بھی انہوں نے غریبوں کی بڑی خدمت کی لیکن نوابشاہ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے پھر یہ فضل عمر ہسپتال میں آ گئے تھے۔ ای این ٹی کے رجسٹرار تھے۔ اور مریضوں کے ساتھ ان کا بڑا اچھا سلوک ہوتا تھا۔ جس دن ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں، اُس دن بھی باوجود اپنی بیماری کے انہوں نے اسّی (80) مریض دیکھے۔ بڑی خدمت کا جذبہ رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 14؍ فروری 2014ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعہ جو نشانات ظاہر ہوئے یا ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوتے رہیں گے ان کا مقصد یہ ہے کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اسلام کی صداقت کو دنیا پر واضح کرنا چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ یہ نشانات جہاں غیروں کے اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کرتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہیں کہ آپ ہی وہ جری اللہ ہیں جن کو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ نشانات میں سے بعض کا تذکرہ۔

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کے عربوں پر غیر معمولی اثرات کا ایمان افروز بیان۔

    بہت سے لوگوں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی خوابوں میں آکرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی طرف رہنمائی فرمائی۔ نمونۃ چند مثالوں کا تذکرہ۔

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے۔ اور اُن کو شکر کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو یونہی نہیں چھوڑا بلکہ اُن کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں۔‘‘

    مکرم رضی الدین صاحب ابن مکرم محمد حسین صاحب آف کراچی کی شہادت۔ مکرم ڈاکٹر خالد یوسف صاحب ابن مکرم سیٹھ محمد یوسف صاحب شہید آف نوابشاہ کی وفات۔ مرحومین کا ذکرِخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 14فروری 2014ء بمطابق 14تبلیغ 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور