سیرت حضرت مسیح موعودؑ: حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات

خطبہ جمعہ 22؍ مئی 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات: 13) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو، بچا کرو۔ یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ اس بارے میں فرمایا کہ: ’’فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنون فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے۔ اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق مل جاتی ہے۔ جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے‘‘۔ فرمایا: ’’بدظنی بہت بری چیز ہے۔ انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنی شروع کردیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 375۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ:

’’دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کرسکتے‘‘ (یعنی کسی کے دل تک ہماری پہنچ نہیں ہو سکتی) ’’اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے۔ انسان ایک آدمی کو بد خیال کرتا ہے اور پھر آپ اس سے بدتر ہوجاتا ہے۔ … سُوئِ ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا۔‘‘ (بدظنی میں جلدی کرنا اچھا نہیں ہوتا)۔ ’’تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے‘‘۔ (یعنی یہ خیال کرنا کہ ہماری لوگوں کے دلوں تک پہنچ ہے یہ بہت حساس معاملہ ہے بہت نازک چیز ہے۔ ) کیوں نازک اور حساس ہے؟ فرمایا اس لئے کہ ’’اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 568-569۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اور پھر جیسا کہ پہلے فرمایا پھر خدا تعالیٰ پر بھی بدظنی شروع ہو جاتی ہے۔

ایسے ہی بدظنی کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض واقعات بیان فرما رہے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگوں نے انبیاء اور اہل بیت پر بدظنّیاں کیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے زمانے میں اس کا سب سے بڑا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور اسی نے اپنی تائید اور نصرت کو ہمیشہ میرے شامل حال رکھا ہے اور سوائے ایک نابینا اور مادرزاد اندھے کے اور کوئی نہیں جو اس بات سے انکار کرسکے کہ خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری مدد کے لئے فرشتے نازل کئے‘‘۔ اعتراض کرنے والوں کو فرما رہے ہیں کہ ’’پس تم اب بھی اعتراض کرکے دیکھ لو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان اعتراضات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اس قسم کے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کئے گئے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے ایسا ہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا (یعنی چندہ دینے کے بارے میں) کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلے کے لئے ایک حَبّہ بھی بھیجو پھر دیکھو کہ خدا کے سلسلے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘۔ فرمایا: ’’میں بھی ان لوگوں کو اسی طریق پر کہتا ہوں کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی مدد کے لئے دو۔‘‘ (جو اعتراض کرتے ہیں کہ غلط رنگ میں پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور خلیفہ وقت اس کو غلط خرچ کرتا ہے۔ ان کو فرمایا کہ) ’’گو میری عادت نہیں کہ میں سخت لفظ استعمال کروں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم میں ذرہ بھی شرافت باقی ہو تو اس کے بعد ایک دمڑی تک سلسلہ کے لئے نہ دو اور پھر دیکھو سلسلہ کا کام چلتا ہے یا نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ غیب سے میری نصرت کا سامان پیدا فرمائے گا اور غیب سے ایسے لوگوں کو الہام کرے گا جو مخلص ہوں گے اور جو سلسلہ کے لئے اپنے اموال قربان کرنا باعث فخر سمجھیں گے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں: ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے‘‘۔ (یعنی اپنی اولاد کے بارے میں جو آپ کے پانچ بچے ہیں حضرت مسیح موعودنے فرمایا ہے) ’’کہ مقبرے میں دفن ہونے کے بارے میں میرے اہل و عیال کی نسبت خدا تعالیٰ نے استثناء رکھا ہے‘‘۔ (حضرت ام المومنین اور آپ کے پانچ بچے) ’’اور وہ وصیت کے بغیر بہشتی مقبرے میں داخل ہوں گے اور جو شخص اس پر اعتراض کرے گا وہ منافق ہو گا‘‘۔ فرماتے ہیں ’’اگر ہم لوگوں کا روپیہ کھانے والے ہوتے تو امتیازی نشان کیوں قائم فرماتا اور بغیر وصیت کے ہمیں مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کیوں اجازت دیتا۔ پس جو ہم پر حملہ کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے۔ مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبریں دکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل و عیال کی قبریں ہیں اور اسی وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ گو یہ خواب اس طرح چَھپی ہوئی نہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ خواب اس طرح چھپی ہوئی نہیں ’’لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اسی طرح ذکر فرمایا۔ پس خدا نے ہماری قبریں بھی چاندی کی کر کے دکھا دیں اور لوگوں کو بتا دیا کہ تم تو کہتے ہو یہ اپنی زندگی میں لوگوں کا روپیہ کھاتے ہیں اور ہم تو ان کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو ان کے ذریعہ سے فیض پہنچائیں گے‘‘۔ یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم فیض پہنچائیں گے۔ ’’پس اللہ تعالیٰ ہماری مٹی کو بھی چاندی بنا رہا ہے اور تم اعتراضات سے اپنی چاندی کو بھی مٹی بنا رہے ہو۔‘‘

فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ منافق عام طور پر پوشیدہ باتیں کرنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے میں نے کھلے طور پر ان باتوں پر روشنی ڈال دی ہے ورنہ مجھے اس بات سے سخت شرم آتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے لئے کچھ چندہ دوں اور پھر کہتا پھروں کہ میں نے اتنا چندہ دیا ہے۔‘‘ مگر چونکہ آپ کے زمانے میں یہ ایک سوال اٹھایا گیا جیسا کہ میں نے کہا آپ کو سب سے زیادہ مخالفین اور منافقین کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گو اِکّا دُکّا اب بھی سوال اٹھاتے رہتے ہیں لیکن اس زمانے میں بہت شدت تھی۔ فرمایا کہ ’’چونکہ ایک سوال اٹھایا گیا تھا اس لئے مجھے مجبوراً بتانا پڑا کہ اگر اپنے تمام خاندان کا چندہ ملا لیا جائے تو اس رقم سے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے کھا لی پانچ گنا زیادہ رقم ہم چندے میں دے چکے ہیں اور جو رقم صرف میرے اہل و عیال کی طرف سے خزانے میں داخل ہوئی ہے وہ بھی اس سے زیادہ ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم نے پانچ گنا زیادہ رقم اس لئے خرچ کی تا اس کا پانچواں حصہ کسی طرح کھا جائیں۔ پس ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اس وقت سے پیشتر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے جبکہ ان کا ایمان اڑ جائے اور وہ دہریہ اور مرتد ہو کر مریں‘‘۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 18صفحہ 189-188)

بہرحال جیسا کہ میں نے کہا ایسے لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں لیکن آپ کو بہت زیادہ سامنا کرنا پڑا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوا۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’وہ لوگ جو ہم سے علیحدہ ہو گئے ہیں ان میں اپنے بھائیوں پر بدظنی کرنے کی عادت تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی نسبت کہہ گزرے کہ آپ جماعت کا روپیہ اپنے ذاتی مصارف پر خرچ کر لیتے ہیں۔ حضرت صاحب کو آخری وقت میں یہ بات معلوم ہو گئی تھی۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آخری زندگی کے دنوں میں یہ بات معلوم ہو گئی تھی’’اور آپ نے مجھے فرمایا (یعنی حضرت مصلح موعود کو) کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ لنگر کے لئے جو روپیہ آتا ہے اسے میں اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کر لیتا ہوں مگر ان کو معلوم نہیں کہ لوگ جو میرے لئے نذروں کا روپیہ لاتے ہیں (یعنی اس بات کے لئے لاتے ہیں کہ آپ نے ذاتی طور پر خرچ کرنی ہے) میں تو اس میں سے بھی لنگر کے لئے خرچ کرتا ہوں‘‘۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ’’مَیں آپ کے منی آرڈر لایا کرتا تھا اور مجھے خوب معلوم ہے کہ لنگر کا روپیہ بہت تھوڑا آیا کرتا تھا اور اتنا تھوڑا آیا کرتا تھا کہ اس سے خرچ نہ چل سکتا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر میں لنگر کا انتظام ان لوگوں کے سپرد کر دوں (یعنی جو اعتراض کرنے والے ہیں یا اپنے آپ کو انجمن کے سرکردہ سمجھتے ہیں ) تو یہ کبھی اس کے اخراجات کو پورا نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک بدظنی کا خمیازہ بھگتا جا رہا ہے کہ لنگر کا فنڈ ہمیشہ مقروض رہتا ہے‘‘۔ (ماخوذ از الحکم جوبلی نمبر 28 دسمبر1939ء صفحہ 13جلد 42نمبر 31تا 40)

ایک لمبا عرصہ اس بدظنی کا خمیازہ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ ہم بڑا اچھا انتظام چلا سکتے ہیں وہ بھگتتے رہے اور انجمن بھی مقروض رہی۔ لیکن کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں بھی جماعت کے ساتھ تھیں۔ اب جو جماعت کو کشائش ہے یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی کی ذاتی کوشش نہیں ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر بھی دنیا کے ہر ملک میں چل رہا ہے۔

پھر ایک واقعہ جس کا تعلق روحانیت کے ساتھ ہے۔ انبیاء کی زندگی اور ان کے بعد کی زندگی، انبیاء کے زمانے میں جماعت کی حالت اور ان کے بعد جماعت کی حالت سے جس کا تعلق ہے وہ بھی بیان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی دنیا میں اس لئے بھیجتا ہے کہ دنیا میں جو روحانی انحطاط شروع ہو چکا ہے اس کی اصلاح کرے۔ جو روحانی طور پر گراوٹ لوگوں میں آ گئی ہے اس کی اصلاح کرے۔ انبیاء اس لئے آتے ہیں اور لوگوں کو روحانی ترقیات تک لے کر جاتے ہیں۔ گو جب انبیاء کے ماننے والوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تو ان کے ماننے والوں کو روحانی ترقیات کے ساتھ ساتھ مادی ترقیات بھی ملتی ہیں لیکن مادی اور دنیاوی ترقیات کے معیار نبی کی زندگی کے بعد بہت بڑھ جاتے ہیں۔ یہی ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انبیاء کی زندگی میں بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں بھی۔ تا ہم روحانی ترقی کے لحاظ سے نبی کا زمانہ جو اپنا مقام رکھتا ہے وہ بعد میں آنے والا زمانہ نہیں رکھ سکتا۔ روحانی ترقی نبی کے زمانے میں بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور مادی ترقی بہت کم۔ بعد میں دنیاوی ترقی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ملتی ہے لیکن روحانیت میں کمی ہو جاتی ہے۔

اس بات کی ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضاحت فرمائی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا۔ فرماتے ہیں کہ ’’نبی کی وفات کے معاً بعد سے روحانی لحاظ سے رات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے نبی کی وفات طلوع فجر پر دلالت کرتی ہے اور معاً بعد سے طلوع آفتاب یعنی ظاہری کامیابیوں کا نظارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا۔ ایسا ہی مسیح ناصری اور موسیٰ کے زمانے میں ہوا اور ایسا ہی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ہوا۔ آپ کے زمانے میں جو آخری جلسہ ہوا اس میں سات سو آدمی جمع ہوئے تھے‘‘۔ (اور اس وقت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا وہ سننے کے قابل ہے۔ ) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے آپ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تو ریتی چھلّہ میں جہاں بَڑ کا درخت ہے وہاں لوگوں کی کثرت اور ان کے اژدہام کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کام ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب غلبے اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں۔ پھر آپ بار بار احمدیت کی ترقی کا ذکر کرتے اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو کس قدر ترقی بخشی ہے۔ اب تو ہمارے جلسے میں سات سو آدمی شامل ہونے کے لئے آ گئے ہیں۔ (یعنی اس وقت آپ نے فرمایا کہ اتنے آدمی آ گئے ہیں لگتا ہے اب میرا کام ختم ہو گیا۔ ) ’’یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اب احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9صفحہ 340)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں یہ تھا آپ کا توکّل اور اللہ تعالیٰ پر یقین۔ جب سات سو آدمی جلسے پر آ گئے تو آپ نے فرما دیا کہ اب اتنی تعداد ہو گئی کہ احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں احمدیت پہنچی ہوئی ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب لنگرخانے کا خرچہ بڑھا اور کثرت سے قادیان میں مہمان آنے شروع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر یہ فکر پیدا ہو گیا کہ اب ان اخراجات کے پورا ہونے کی کیا صورت ہو گی۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک احمدی لنگرخانے کا سارا خرچ دے سکتا ہے۔ (اب یہ حضرت مصلح موعود کے زمانے کی بات ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید وسعت پیدا ہو چکی ہے۔)

فرماتے ہیں ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلے کے متعلق اپنی پیشگوئیوں کی اشاعت فرمائی تو قادیان میں کثرت سے احمدی دوست آ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی دوستوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے اور وہاں خیموں میں رہائش شروع کر دی۔ چونکہ ان دنوں قادیان میں زیادہ کثرت سے مہمان آنے لگ گئے تھے۔ ایک دن آپ نے ہماری والدہ سے فرمایا کہ اب تو روپے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ (بہت زیادہ اخراجات شروع ہو گئے ہیں۔ ) میرا خیال ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے۔ (یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ ) کیونکہ اب اخراجات کے لئے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو اس وقت مسکرا رہے تھے۔ واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرے میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالیٰ کے متواتر نشانات دیکھنے کے بعض دفعہ بدظنی سے کام لیتا ہے۔ میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لئے روپیہ نہیں۔ اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لئے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے اس کی حالت دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہوں گے۔ (بھاری تھی اس لئے coinsکی وجہ سے سکّوں کی وجہ سے اس میں وزن آ گیا اور چند پیسے ہوں گے) مگر جب گھر آ کر اسے کھولا تو اس میں سے کئی سو روپیہ نکل آیا۔ اب دیکھو وہ روپیہ آج کل کے چندوں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا تھا۔ آج اگر کسی کو کہا جائے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا ایک دن نصیب کیا جاتا ہے بشرطیکہ تم لنگر کا ایک دن کا خرچ دے دو تو وہ کہے گا ایک دن کا خرچ نہیں تم مجھ سے سارے سال کا خرچ لے لو لیکن خدا کے لئے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا ایک دن دیکھنے دو۔ مگر آج کسی کو وہ بات کہاں نصیب ہو سکتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں قربانی کرنے والوں کو نصیب ہوئی۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9صفحہ341)

بیشک قربانیاں بڑھ گئیں لیکن اس زمانے کا ایک اپنا مقام تھا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے قرآن پر ایک چھوٹا سا نوٹ تحریر کیا جو ان قلبی کیفیات کو خوب ظاہر کرتا ہے جو نبی کے زمانے دیکھنے والوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔ میں نے سَلَامٌ پر نوٹ لکھا ہے۔ یعنی اس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ سورۃ القدر کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آہ! مسیح موعود کا وقت۔ اس وقت تھوڑے تھے۔ (یہ نوٹ لکھا ہوا تھا) آہ! مسیح موعود کا وقت۔ اس وقت تھوڑے تھے مگر امن تھا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی ترقیات دی ہیں مگر یہ ترقیات اس زمانے کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہیں جو مسیح موعود کا زمانہ تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9صفحہ 340)

بیشک آج دنیوی لحاظ سے لوگ ہماری بات زیادہ سنتے ہیں۔ زیادہ لوگوں تک ہماری پہنچ ہے۔ بڑے بڑے سیاستدانوں تک اور حکومتوں تک کو بھی ہم بات سنا دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے لحاظ سے مالی طور پر بھی جماعت زیادہ مضبوط ہے۔ آج ایک ایک آدمی جتنا چندہ دیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں سال بلکہ دو سال میں بھی اتنا چندہ نہیں آتا تھا مگر اس کے باوجود یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ زمانہ اس زمانے سے بہتر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بن سکتے ہیں۔ گو وہ زمانہ تو نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہمارے اندر یہ جذبہ اور جوش پیدا ہو جائے کہ ہم نے آپ کے مشن کی تکمیل میں اسی طرح اخلاص اور وفا سے کام کرنا ہے۔ جو آپ روح پھونکنا چاہتے تھے اور اس روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آپ نے اپنے صحابہ میں پیدا کی۔

حضرت مصلح موعود کے بعض اور حوالے بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور آپ کے زمانے سے ہی متعلق ہیں وہ پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا جو عشق تھا اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا۔ آپ کے دیکھنے والوں کو آپ سے جو محبت تھی اس کا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو بعد میں آئے یا جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں عمر چھوٹی تھی۔ (آپ کے زمانہ میں تھے لیکن عمر چھوٹی تھی، اتنا شعور نہیں تھا۔ ) فرمایا ’’مگر مجھے خدا تعالیٰ نے ایسا دل دیا تھا کہ میں بچپن سے ہی ان باتوں کی طرف متوجہ تھا۔ میں نے ان لوگوں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا اندازہ لگایا ہے جو آپ کی صحبت میں رہے۔ میں نے سالہا سال ان کے متعلق دیکھا ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جدائی کی وجہ سے اپنی زندگی میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا تھا اور (حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد) دنیا میں کوئی رونق نظر نہ آتی تھی۔ فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول جن کے حوصلے کے متعلق جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ کتنا مضبوط اور قوی تھا۔ وہ اپنے غموں اور فکروں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مگر انہوں نے کئی دفعہ جبکہ آپ اکیلے ہوتے اور کوئی پاس نہ ہوتا مجھے کہا میاں ! جب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے اور دنیا خالی خالی نظر آتی ہے۔ میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ آپ کے علاوہ کئی اور لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہے۔ ان کی محبت اور عشق ایسا بڑھا ہوا تھا کہ کوئی چیز انہیں لطف نہ دیتی اور وہ چاہتے کہ کاش ہماری جان نکل جائے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملیں۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 1صفحہ145-144)

پھر ایک جگہ جماعتی کارکن جو ہیں خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں مہنگائی بھی بہت ہے اور غربت بھی بہت ہے، ان کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا خدا سے مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو۔ اور اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک چھوٹی سی بات کی مثال حضرت مصلح موعودنے دی۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بہت سردی محسوس ہوتی تھی اس لئے آپ مشک کھایا کرتے تھے۔ (یہ دیسی حکیموں کا نسخہ ہے۔ مُشک کھانے سے سردی دور ہوتی ہے) شیشی بھر کے جیب میں رکھ لیا کرتے تھے اور ضرورت کے وقت استعمال کر لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیشی (چھوٹی سی شیشی جیب میں آ جاتی ہے)۔ دو دو سال تک چلتی ہے۔ لیکن جب خیال آتا ہے کہ مشک تھوڑی رہ گئی ہے اور شیشی دیکھتا ہوں تو وہ ختم ہو جاتی ہے۔ (جب تک دیکھا نہیں جاتا، کھاتے رہتے ہیں اور اس میں برکت پڑتی رہتی ہے۔ فرمایا کہ جب میں دیکھتا ہوں تو کچھ عرصہ بعد ختم ہو جاتی ہے۔ ) حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب سے رزق بھیجتا ہے اور اس کے رزق بھیجنے کے طریقے نرالے ہیں۔ پس تم اس ذات سے مانگو جس کا خزانہ خالی نہیں ہوتا۔ انجمن سے کیوں مانگتے ہو جس کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ وہ تمہارے گزارے بڑھا سکے۔ پس تم خدا پرست بن جاؤ۔ (خدا تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ) خدا تعالیٰ غیب سے تمہیں رزق بھیج دے گا۔ (اُس سے مانگو۔ ) صدر انجمن احمدیہ کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ وہ تمہیں زیادہ گزارہ دے سکے۔ آخر اس کے پاس جو روپیہ آتا ہے وہ جماعت کے چندوں سے ہی آتا ہے اور وہ اس قدر زیادہ نہیں ہوتا۔ (ماخوذ از الفضل 18فروری 1956ء صفحہ 5 جلد 45/10نمبر42)

ان ملکوں میں جیسا کہ میں نے کہا مہنگائی زیادہ ہے بعض دفعہ بعض لوگوں کے ایسے حالات ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا گزارہ نہیں ہوتا اور بعض مجھے خطوں میں لکھتے بھی ہیں۔ مجھے علم ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان ہندوستان وغیرہ میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور کارکنوں کے جو الاؤنس ہیں ان سے گزارے مشکل سے ہوتے ہیں۔ لیکن جو زیادہ سے زیادہ گنجائش کے مطابق سہولت دی جا سکتی ہے وہ دی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو ان لوگوں کی طرف بھی دیکھنا چاہئے جو انتہائی غربت میں گرفتار ہیں۔ بیماری کی صورت میں بچوں کے اور اپنے علاج کی بھی توفیق نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے اور اس پر توکّل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور اس کی طرف اپنی ضروریات کے لئے جھکنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ اِدھر اُدھر دیکھا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ذکر میں ایک پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’سینکڑوں پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد میں پوری ہوئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا بیّن ثبوت بنیں۔ مثلاً میرے متعلق ہی آپ کی یہ پیشگوئی تھی کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی زندگی میں آپ کی کس قدر جائداد تھی۔ آپ نے مخالفین کو انعامی چیلنج کرتے ہوئے لکھا کہ میں اپنی جائداد جو دس ہزار روپیہ مالیت کی ہے پیش کرتا ہوں۔ گویا اس وقت آپ کی جائداد صرف دس ہزار روپیہ کی تھی لیکن اب وہ لاکھوں روپے کی ہوچکی ہے۔ یہ دولت کہاں سے آئی ہے؟ یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ ورنہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد جب نانا جان (حضرت میر ناصر نواب صاحب) نے ہماری زمینوں سے تعلق رکھنے والے کاغذات واپس کئے۔ (پہلے حضرت مسیح موعود کے زمانے میں ان کے سپرد انتظام تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود کو کاغذواپس کر دئیے۔ ) تو میں اپنے آپ کو اتنا بے بس محسوس کرتا کہ میں حیران تھا کہ کیا کروں۔ اتفاق سے شیخ نور احمد صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو ایک ملازم کی ضرورت ہے۔ آپ مجھے رکھ لیں۔ (زمین کا انتظام سنبھالنے کے لئے مینجر کی ضرورت ہے۔ ) میں نے کہا میں تنخواہ کہاں سے دوں گا؟ میرے پاس تو نہ کوئی رقم ہے جس سے تنخواہ دے سکوں اور نہ جائداد سے اتنی آمد کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا آپ جو چھوٹی سے چھوٹی تنخواہ دینا چاہتے ہیں وہ دے دیں۔ اور پھر انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ آپ مجھے دس روپیہ ماہوار ہی دے دیں۔ چنانچہ میں نے انہیں ملازم رکھ لیا اور یہ خیال کیا کہ چلو اس قدر تو آمد ہو ہی جائے گی۔ لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ جوں جوں شہر ترقی کرتا گیا اس جائداد کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی۔ جب قرآن کریم کے پہلے ترجمے کے چھپوانے کا سوال پیدا ہوا۔ (کچھ لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ پیسہ کہاں خرچ کیا یا کہاں سے آیا تو اس کا جواب بھی اس میں آگیا۔ ) فرماتے ہیں کہ جب قرآن کریم کے پہلے ترجمے کے چھپوانے کا سوال پیدا ہوا تو میں نے چاہا کہ اس ترجمے کی اشاعت کا سارا خرچ ہمارا خاندان ہی برداشت کرے۔ (یعنی آپ اور آپ کے بھائی بہن۔ ) میں نے اس وقت شیخ نور احمد صاحب کو بلوایا اور ان سے کہا کہ اس وقت مجھے دوہزار روپے کی ضرورت ہے۔ کیا اس قدر روپیہ مہیا ہو سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ زمین کا کچھ حصہ مکانات کے لئے فروخت کرنے کی اجازت دے دیں تو پھر جتنا چاہیں روپیہ آ جائے گا۔ چنانچہ میں نے کچھ زمین فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ زمین پچاس کنال کے قریب تھی اور اس جگہ واقع تھی جہاں بعد میں محلہ دارالفضل آباد ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ صاحب آئے اور ان کے ہاتھ میں روپوں کی تھیلی تھی۔ انہوں نے کہا یہ دو ہزار روپیہ ہے اور اگر آپ کو دس ہزار کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی مل سکتا ہے۔ میں نے کہا مجھے اس وقت اتنے ہی روپے کی ضرورت تھی (کیونکہ قرآن کریم کی اشاعت کے لئے روپیہ چاہئے تھا) زیادہ کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ قادیان کا جو محلہ دارالفضل ہے اس کے بارے میں آپ فرما رہے ہیں کہ اس طرح اس محلے کی بنیاد پڑی اور وہ روپیہ اشاعت قرآن میں دے دیا گیا۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 3صفحہ 682-681)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قادیان سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محبت تھی اور کس طرح آپ دیکھا کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنا دئیے جاتے ہیں۔ قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے۔ یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری اور اس جگہ سے وہ محبت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گئے ہوئے تھے۔ (جب حضرت مسیح موعود آخری بیماری کے دنوں میں یا آخری دنوں میں لاہور گئے ہیں وہیں وفات ہوئی ہے) اور آپ کا وصال ہو گیا ہے۔ ایک دن آپ نے مجھے ایک مکان میں بلا کر فرمایا کہ محمود دیکھو یہ دھوپ کیسی زرد سی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں مجھے تو ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی ہر روز دیکھتا تھا تو میں نے کہا کہ نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح ہر روز ہوا کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے۔ قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے۔ چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتا لگتا ہے۔ (ماخوذ ازانوار خلافت، انوار العلوم جلد 3صفحہ 175)

پھر ایک اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں جو گھڑسواری سے تعلق رکھتا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سائیکل چلانے اور گھڑ سواری کے مقابلے کا موازنہ کس طرح کیا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک گھوڑی خرید کر دی۔ درحقیقت وہ خرید تو نہ کی گئی تھی بلکہ تحفۃً بھیجی گئی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے لڑکوں کو سائیکل پر سواری کرتے ہوئے دیکھا تو میرے دل میں بھی سائیکل کی سواری کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کیا۔ آپ نے فرمایا مجھے سائیکل کی سواری تو پسندنہیں، مَیں تو گھوڑے کی سواری کو مردانہ سواری سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا اچھا آپ مجھے گھوڑا ہی لے دیں۔ آپ نے فرمایا پھر مجھے گھوڑا بھی وہ پسند ہے جو مضبوط اور طاقتور ہو۔ اس سے غالباً آپ کا منشاء یہ تھا کہ میں اچھا سوار بن جاؤں گا۔ تو آپ نے کپورتھلے والے عبدالمجید خان صاحب کو لکھا کہ اچھا گھوڑا خرید کر بھجوا دیں۔ خانصاحب کو اس لئے لکھا کہ ان کے والد صاحب ریاست کے اصطبل کے انچارج تھے اور ان کا خاندان گھوڑوں سے اچھا واقف تھا۔ انہوں نے ایک گھوڑی خرید کر تحفۃً بھجوا دی اور قیمت نہ لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات کا اثر لازمی طور پر ہمارے اخراجات پر بھی پڑنا تھا اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے۔ (پہلے حصے میں یہ آ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سواری کی preference پھر آگے حضرت مصلح موعودنے اپنے حالات کا بھی ذکر کیا اور وہ واقعہ اب پورا ہی بیان کر دیتا ہوں کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے) تا کہ اس کے اخراجات کا بوجھ والدہ صاحبہ پر نہ پڑے (کیونکہ اس کے بعد آمد کے ذرائع کم تھے اور حضرت امّاں جان اُمّ المومنین پر بوجھ پڑتا تھا۔ ) فرمایا کہ مجھے ایک دوست نے جن کو میرا یہ ارادہ معلوم ہو گیا تھا اور جو اَب بھی زندہ ہیں کہلا بھیجا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اسے آپ بالکل فروخت نہ کریں۔ اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی۔ وہ جگہ جہاں یہ بات کہی گئی تھی اب تک یاد ہے۔ مَیں اس وقت ڈھاب کے کنارے تشحیذ الاذہان کے دفتر سے جنوب مشرق کی طرف کھڑا تھا۔ جب مجھے یہ کہا گیا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود کا تحفہ ہے اس لئے اسے فروخت نہ کرنا چاہئے تو بغیر سوچے سمجھے معاً میرے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ بیشک یہ تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے مگر اس سے بھی بڑا تحفہ اُمّ المومنین ہیں۔ مَیں گھوڑی کی خاطر حضرت اُمّ المومنین کو تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ چنانچہ میں نے گھوڑی فروخت کر دی۔ (ماخوذ ازخطبات محمو د جلد 29صفحہ 32-31)

اس سے جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجاہدانہ رجحان کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپ نے گھوڑے کی سواری کو پسند کیا، باقی چیزوں پر ترجیح دی اور حضرت مصلح موعود کے حضرت اُمّ المومنین کے لئے جو جذبات اور احساسات تھے ان کا بھی پتا لگتا ہے۔

پھر حضرت مسیح موعودؑ کی وفات اور اپنی حالت کا ذکر کرتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو یہ سمجھا گیا کہ آپ اچانک فوت ہو گئے ہیں۔ لیکن مجھے پہلے سے اس کے متعلق کچھ ایسی باتیں معلوم ہو گئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑا انقلاب آنے والا ہے۔ مثلاً میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ سے ایک کشتی پر آ رہا ہوں۔ رستے میں پانی اس زور شور کا تھا کہ سخت بھنور پڑنے لگا اور کشتی خطرے میں پڑ گئی جس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے۔ جب ان کی یہ حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی جس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی نکل جائے گی۔ میں نے کہا یہ تو شرک ہے خواہ ہماری جان چلی جائے ہم اس طرح نہیں کریں گے۔ اتنے میں خطرہ اور بھی بڑھ گیا اور ساتھ والوں میں سے بعض نے کہا کہ کیا حرج ہے ایسا کر دیا جائے۔ اور انہوں نے پیر صاحب کو چھٹی لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دی۔ (خواب میں یہ نظارہ نظر آ رہا ہے۔ ) جب مجھے معلوم ہؤا تو میں نے اس چھٹی کو کود کر نکال لیا۔ (فوراً پانی میں چھلانگ لگائی اور اس خط کو نکال لیا) اور جونہی میں نے ایسا کیا وہ کشتی چلنے لگ گئی اور کوئی خطرہ نہیں رہا۔ سب خطرہ جاتا رہا۔ فرماتے ہیں کہ جب حضرت صاحب فوت ہوئے اس وقت خدا تعالیٰ نے میرا دل نہایت مضبوط کر دیا اور فوراً میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اب ہم پر بہت بڑی ذمہ داری آ پڑی ہے اور میں نے اسی وقت عہد کیا کہ الٰہی میں تیرے مسیح موعود کی لاش پر کھڑا ہو کر اقرار کرتا ہوں کہ خواہ اس کام کے کرنے کے لئے دنیا میں ایک بھی انسان نہ رہے پھر بھی میں کرتا رہوں گا۔ اس وقت مجھ میں ایک ایسی قوت آ گئی کہ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔ (ماخوذ از خطاب جلسہ سالانہ 27دسمبر1919ء، انوارالعلوم جلد 4صفحہ 524-523)

پھر اس کی ایک جگہ ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے اور جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ تکالیف اور مصائب سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو میں نے لوگوں کی طرف سے اس قسم کی آوازیں سنیں کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے۔ ایسا کہنے والے یہ تو نہیں کہتے تھے کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں مگر یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح نہیں پہنچایا اور پھر آپ کی بعض پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں۔ میری عمر اُس وقت (جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے) انیس سال تھی۔ میں نے جب اس قسم کے فقرات سنے تو میں آپ کی لاش کے سرہانے جا کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اے خدا یہ تیرا محبوب تھا۔ جب تک یہ زندہ رہا اس نے تیرے دین کے قیام کے لئے بے انتہا قربانیاں کیں۔ اب جبکہ تو نے اسے اپنے پاس بلا لیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی وفات بے وقت ہوئی ہے۔ ممکن ہے ایسا کہنے والوں یا ان کے باقی ساتھیوں کے لئے اس قسم کی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوں اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے۔ اس لئے اے خدا مَیں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی تیرے دین سے پھر جائے تو مَیں اس کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا۔ اُس وقت مَیں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اور یہی ایک چیز تھی جس نے انیس سال کی عمر میں ہی میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ بھر دی کہ میں نے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت پر لگا دی اور باقی تمام مقاصد کو چھوڑ کر صرف یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس کام کے لئے تشریف لائے تھے وہ اب مَیں نے ہی کرنا ہے۔ وہ عزم جو اس وقت میرے دل کے اندر پیدا ہوا تھا آج تک میں اس کو نت نئی چاشنی کے ساتھ اپنے اندر پاتا ہوں اور وہ عہد جو اُس وقت میں نے آپ کی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا وہ خضر راہ بن کر مجھے ساتھ لئے جاتا ہے۔ میرا وہی عہد تھا جس نے آج تک مجھے اس مضبوطی کے ساتھ اپنے ارادے پر قائم رکھا کہ مخالفت کے سینکڑوں طوفان میرے خلاف اٹھے مگر وہ اس چٹان کے ساتھ ٹکرا کر اپنا ہی سر پھوڑ گئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا تھا اور مخالفین کی ہر کوشش ہر منصوبہ اور ہر شرارت جو انہوں نے میرے خلاف کی وہ خود انہی کے آگے آتی گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ مجھے ہر موقع پر کامیابیوں کا منہ دکھایا یہاں تک کہ وہی لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے وقت یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے، آپ کے مشن کی کامیابیوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں۔ پس جو شخص یہ عہد کر لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ کام میں نے ہی سرانجام دینا ہے اس کے رستے میں ہزاروں مشکلات پیدا ہوں، ہزاروں روکیں واقع ہوں، ہزاروں بند اس کے راستے میں حائل ہوں وہ ان سب کو عبور کرتا ہے اور اس میدان میں جا پہنچتا ہے جہاں کامیابی اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہوتی ہے۔ (اب جماعت کے افراد کے لئے سننے والی نصیحت ہے) پس ہماری جماعت کے ہر شخص کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ دین کا کام میں نے ہی کرنا ہے۔ اس عہد کے بعد ان کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور ہر مشکل ان پر آسان ہوتی جائے گی اور ہر عُسر اُن کے لئے یُسر بن جائے گی۔ (ہر تنگی ان کے لئے آسائش بن جائے گی۔ ) ان کو بیشک بعض تکالیف اور مصائب اور آلام سے بھی دوچار ہونا پڑے گا مگر وہ اس میں عین راحت محسوس کریں گے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے صرف تم ہی میرے مخاطب ہو۔ تمہارے صحابہ اس کام میں حصہ لیں یا نہ لیں لیکن تم سے بہرحال میں نے کام لینا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ رات دن اسی کام میں لگے رہتے تھے اور آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل اس بات کے لئے وقف تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کیا جائے اور آپ اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ اصل میں میرا ہی کام ہے، کسی اور کا نہیں۔ (ماخوذ از قومی ترقی کے دو اہم اصول، انوار العلوم جلد 19صفحہ 75-74)

اور یہی سنّت ہے جس کو ہمیں اپنانا ہو گا۔

پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور جماعت کی ترقی اور ہمارے فرائض کے بارے میں آپ نے اس طرح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے مجھے اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی (جس کا ذکر ہو چکا ہے) اور میں نے آپ علیہ السلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کر دی جس کا نتیجہ آج ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ جو اس سے پہلے شرک میں مبتلا تھے یا عیسائیت کا شکار ہو چکے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنے لگ گئے ہیں۔ لیکن ان تمام نتائج کے باوجود یہ حقیقت ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا کی اس وقت سات ارب کے قریب آبادی ہے اور سب کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل کرنا جماعت احمدیہ کا فرض ہے۔ پس ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بڑا بھاری بوجھ ہے جو ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا گیا ہے۔ اتنے اہم کام میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور نصرت کے سوا ہماری کامیابی کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ ہم اس کے عاجز اور حقیر بندے ہیں اور ہمارا کوئی کام اس کے فضل کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ (ماخوذ از الفضل 2جنوری 1963ء صفحہ 1جلد 52/17نمبر 2)

پس اس کے فضلوں کو جذب کرنے کی ہمیں حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے۔ اس عہد کا حوالہ دیتے ہوئے جو آپ نے حضرت مسیح موعود کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا اور جو ہم سب کا عہد ہونا چاہئے کیونکہ اسی سے ترقیات ہونی ہیں اور اسی میں ہم جماعت کا فعّال حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اصل میں یہ خدا تعالیٰ سے ہے۔ حضرت مصلح موعودنے ایک جگہ فرمایا کہ جب ہم ایک انسان سے ایسا اقرار کر سکتے ہیں (جیسا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا) تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں ایسا اقرار نہیں کر سکتے کہ یا اللہ اگر تمام دنیا بھی تجھے چھوڑ دے مگر ہم تجھے کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ (ماخوذ ازخطبات محمو د جلد 12صفحہ 151۔ خطبہ جمعہ 19جولائی 1929ء)

پس یہ عہد ہے جو ہمیں ہر ایک کو کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جبکہ دنیا میں دہریت کا بڑا زور ہے ہمیں اس عہد کو نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے اور پُرجوش طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے اور اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم شرک سے بھی دُور رہیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کی بھی بھرپور کوشش کریں گے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ جو ہم نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو لہرانے کا عہد کیا ہے اسے بھی پورا کریں گے انشاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 22؍ مئی 2015ء شہ سرخیاں

    جماعت کے آغاز میں مالی دقّت اور بعد میں کشائش کے عطا ہونے، لنگر خانہ کے اخراجات پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید، صحابہ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ محبت، حضور علیہ السلام کی قادیان سے محبت اور دوسرے متفرق امور سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ واقعات کے حوالہ سے ایمان افروز تذکرہ۔

    فرمودہ مورخہ 22؍مئی 2015ء بمطابق 22ہجرت 1394 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور