جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۵ء کی برکات

خطبہ جمعہ 28؍ اگست 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آجکل مجھے دنیا کے مختلف ممالک سے خطوط اور فیکسز آ رہی ہیں جن میں جلسہ سالانہ برطانیہ کے کامیاب انعقاد پر مبارکبادیں بھی ہوتی ہیں اور اس بات کا اظہار بھی کہ ہم نے ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست جلسہ دیکھا اور فائدہ اٹھایا۔ لیکن حقیقی فائدہ اور فیض تو تبھی پہنچتا ہے جب ہم اس بات کی بھی بھرپور کوشش کریں کہ جو کچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے اسے اپنی زندگی سنوارنے کا ذریعہ بنائیں۔ کوئی سیاسی باتیں یہاں نہیں ہوتیں۔ کوئی دنیاوی باتیں نہیں کی گئیں بلکہ غیر مسلموں یا غیر احمدیوں کا بھی جو دنیا دار طبقہ ہمارے جلسہ پر مہمان کے طور پر آتا ہے ان میں سے بعض خاص مہمانوں کو دو تین منٹ کے لئے کچھ کہنے کا موقع دیا جاتا ہے تو ان میں سے بھی تقریباً سبھی اس دینی ماحول سے متاثر ہو کر زیادہ تر انہی باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو جماعت کی تعلیم کا حصہ ہیں اور اعلیٰ اخلاقی معیاروں کی طرف لے جانے والی ہیں۔ بہرحال اس جلسے کا فائدہ تبھی ہے جب ہم اپنی حالتوں کو اپنی تعلیم کے مطابق بنائیں اور جو کچھ سنا ہے اسے اپنے پر لاگو کریں ورنہ ان مہمانوں کے سامنے جو کچھ ہم نے پیش کیا، جو کچھ ہم نے سنا اور جس کی عموماً ہمارے مہمان تعریف کرتے ہیں وہ صرف ظاہری چمک ہو گی۔ ہمارے اندرونے کا اظہار نہیں ہو گا۔ ایک مومن کو اندر اور باہر سے ایک جیسا ہونا چاہئے۔ آجکل کی جو دنیا ہے اس کی بہت زیادہ نظر ہم پہ ہو گئی ہے اور اب دنیا ہمارے جلسوں میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شامل ہوتی ہے۔ احمدی دنیا بھی اور بعض دوسرے بھی سنتے ہیں۔ خاص طور پر برطانیہ کے جلسے کو بہت گہری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہم لاکھوں پاؤنڈ ایم ٹی اے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ پیغام پہنچانے کے لئے صرف اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ ہمارا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد اپنی زندگی کے مقصد کو پانے والا ہو۔ اس تک ایک وقت میں پیغام پہنچ رہا ہو۔

پس ہماری خوشی اور مبارکباد صرف جلسے کے کامیاب انعقاد کی مبارکبادوں تک محدودنہ رہے بلکہ یہاں شامل ہونے والے بھی اور دنیا میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے سننے والے بھی جو انہوں نے سنا ہے، دیکھا ہے اس کی جگالی کرتے رہیں۔ اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے اس مادی دور میں ایک دنیاوی مادی ایجاد کو ہماری اصلاح کے لئے، ہماری علمی، عملی اور اعتقادی ترقی کے لئے، بہتری کے لئے ذریعہ بنا دیاہے۔ ٹیلیویژن، انٹرنیٹ، اخبار اور دوسرے اشاعت کے ذرائع جب ہمارے لئے کام کر رہے ہوں تو ایک مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ اس زمانے میں ایسی ایجادیں ہوں گی جو دین کی اشاعت کے لئے ممّد و معاون ہوں گی اور ہر روز ہم اس پیشگوئی کو بہتر سے بہتر رنگ میں پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔ مَیں آگے کچھ ذکر کروں گا، پریس کی بھی رپورٹ دوں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ یہ پیغام پہنچاتا ہے۔

پس ہمیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس بات پر شکرگزاری کے اظہار میں ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والا ہونا چاہئے کہ یہ شکرگزاری ہمیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مزید انعامات اور ترقیات سے نوازے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراہیم: 8)۔ کہ اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اَور بھی زیادہ دوں گا اور بھی زیادہ بڑھاؤں گا۔ شکرگزاری کا یہ مضمون جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کا راستہ دکھاتا ہے وہاں بندوں کی شکرگزاری کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔ (سنن الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک حدیث نمبر 1955)

بہت سارے والنٹیئرتھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کام کرنے والوں کو توفیق دی کہ انہوں نے جلسے کے انتظامات کو بہترین شکل دینے کی کوشش کی۔ ٹرانسپورٹ ہے۔ رہائش ہے۔ کھانا پکانا ہے۔ جلسہ گاہ ہے۔ مختلف پروگرام ہیں۔ صفائی کا کام ہے۔ گرمی میں پانی پلانے کا انتظام ہے۔ آواز پہنچانے کا انتظام ہے اور دنیا تک پھر آواز اور یہاں کے نظارے پہنچانے کا انتظام جو ایم ٹی اے نے کیا ہے۔ غرض کہ اگر نام لئے جائیں تو بیشمار شعبے ایسے بنتے ہیں جن میں مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی، بوڑھوں نے بھی، جوانوں نے بھی، بچوں نے بھی، بچیوں نے بھی خدمت کی ہے اور جلسے کے تمام انتظامات کو اپنی استعدادں اور صلاحیتوں کے مطابق بہترین رنگ میں انجام دینے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے۔ تمام والنٹیئرز جو مختلف شعبوں کے ہوتے ہیں ان میں کوئی اپنے اپنے کاموں میں کسی کمپنی میں ڈائریکٹر ہے تو کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی انجنیئر ہے، کوئی سائنٹسٹ ہے، کاروباری لوگ ہیں۔ پھر اپنے کام کرنے والے ہیں، مزدوری کرنے والے ہیں۔ لیکن سب ایک ہو کر کام کرتے ہیں۔ لنگرخانے میں قطع نظر اس کے کہ کوئی کیا ہے آگ کے سامنے کھڑا ہے جہاں سو دو سو بڑے دیگچے آگ پر رکھے ہوئے ہیں اور گرمی کی بھی انتہا ہے اور بڑی خوشی سے یہ لوگ دیگوں میں چمچے ہلا رہے ہیں، کھانے پکا رہے ہیں۔ بوڑھے نوجوان سب اس کوشش میں ہیں کہ بہترین قسم کا سالن مہمانوں کے لئے تیار ہو کر ان تک پہنچے۔ کسی کو بھی پرواہ نہیں کہ گرمی ہے یا نہیں ہے حتی کہ چودہ، پندرہ، سولہ سال تک کے بچے بھی کھانا پکانے اور روٹی پلانٹ پر بڑی بشاشت سے ڈیوٹی دیتے ہیں۔ پھر پانی کی فراہمی کے لئے ان والنٹیئرز کا ایک گروپ کام کر رہا ہے۔ اور پھر مردوں اور عورتوں کا ایک گروپ بے نفس ہو کر کسی چیز کی پرواہ کئے بغیر مہمانوں کے لئے ان کے غسل خانوں کی صفائی کر رہا ہے۔ کہیں ارد گرد پھیلے ہوئے کوڑا کرکٹ کو اٹھانے والے کام کر رہے ہیں۔ کوئی ٹریفک کنٹرول کر رہا ہے۔ کچھ مرد اور عورتیں بگھیوں میں معذوروں اور بیماروں کو لانے لے جانے کا کام کر رہی ہیں۔ گرمی کی شدت میں بچے اور بچیاں مہمانوں کو بڑے جذبے سے پانی پلاتے ہیں۔ اس کو لوگ بڑا سراہتے ہیں۔ کچھ مرد اور عورتیں مہمانوں کو کھانا کھلانے کی ڈیوٹی پر متعین ہیں۔ ۔ پھرسیکیورٹی کا انتظام ہے۔ یہ بھی بڑا وسیع انتظام ہے اور بڑا اہم نظام ہے۔ غرضِ کہ اور بھی بہت سارے شعبہ جات ہیں جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا جن میں ہر کارکن قطع نظر اس کے کہ وہ یہ کام جانتا ہے یا نہیں اپنی بھرپور صلاحیت اور جذبے کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ پھر وائنڈ اَپ کا کام ہے۔ جلسے کے بعد بارشیں شروع ہو گئیں۔ بڑی دقّت سے سامان کو سمیٹا جا رہا ہے۔ بارش کی وجہ سے کچھ سامان بیڈنگ وغیرہ گیلا بھی ہؤااور ان میں نقصان بھی ہؤا۔ میٹرسوں کو وسیع پیمانے پر اب سُکھانے کا بھی مسئلہ ہو گا لیکن بہر حال خدام یہ کر رہے ہیں۔ یہ خدام جلسے سے پہلے بھی سب انتظامات مکمل کرنے آئے تھے اور اب سمیٹنے کے لئے بھی مختلف ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ وائنڈ اَپ کا کام بھی بہت بڑا کام ہوتا ہے کیونکہ کونسل نے معین دن دئیے ہوتے ہیں کہ ان میں یہ سارا کچھ سمیٹنا ہے۔ اگر یہ کام معینہ وقت میں نہ کیا جائے، نہ سمیٹا جائے تو آئندہ سال کے لئے جلسے کی اجازت میں مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ غرضیکہ ہر کام ہی بہت اہم کام ہے۔ اس سال کینیڈا کے خدام کی ایک ٹیم نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا کہ ہم جلسے پر کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں وائنڈ اَپ کی ٹیم میں رکھا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بھی بھرپور مدد کی۔ یوکے کے علاوہ باقی جگہوں پر اتنا وسیع انتظام نہیں کرنا پڑتا اس لئے ان کینیڈا سے آئے ہوؤں کے لئے نیا تجربہ تھا لیکن پھر کافی پرجوش طریقے پر اور بڑی محنت سے انہوں نے کام کیا۔ یوکے کی خدام الاحمدیہ کی ٹیموں کے ساتھ ہمیں کینیڈا کے اس گروپ کا بھی، خدام کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہماری مدد کی۔

بہرحال یہ سب لوگ چاہے مرد ہیں یا عورتیں ہیں ہم سب ان کے شکرگزار ہیں اور یہ شکر گزاری کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ کارکنوں کی طرف سے مَیں ان سب مہمانوں کا شکریہ بھی ادا کر دیتا ہوں جنہوں نے تعاون کیا۔ چند ایک کے علاوہ عمومی طور پر کوئی شکایت نہیں آئی۔ اِکّا دُکّا تو شکایات آتی ہیں۔ اس وقت میں اسی شکر گزاری کے مضمون کے سلسلے میں مہمانوں کے تأثرات بیان کرتا ہوں جو دوسرے ممالک سے آئے۔ ان میں سیاستدان بھی تھے۔ ان میں کچھ ملکوں کے وزراء بھی تھے۔ بڑے عہدیدار بھی تھے۔ انسان جب ان کی باتیں سنتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی شکر گزاری میں مزید ڈوب جاتا ہے۔ اتنے بڑے انتظام میں بعض کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور یہ بہرحال قدرتی بات ہے لیکن اللہ تعالیٰ کس طرح ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے کہ مہمانوں کو صرف اچھائیاں نظر آتی ہیں اور کمزوریاں پردے میں چلی جاتی ہیں۔ یوگنڈا سے مسٹر ولسن مورُولی (Wilson Muruli)صاحب جو کہ منسٹر آف Gender ہیں جلسے میں شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ مہمان نوازی، سیکیورٹی نظم و ضبط کے انتظامات دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ کس طرح لوگ رضاکارانہ طور پر اتنی قربانی کر رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ میں ایک ایسے جلسے میں شامل ہونے جا رہا ہوں جہاں انسان نہیں بلکہ فرشتے کام کرتے نظر آئیں گے۔ میں نے نہ رات کو لوگوں کو سوتے دیکھا، نہ دن کو۔ ہر وقت خدمت کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ نہ تھکتے ہیں نہ اُکتاتے ہیں۔ بیس دفعہ بھی کوئی چیز مانگو تو مسکرا کر پیش کر دیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے یہاں ریویو آف ریلیجنز اور مختلف تصاویر کی نمائش بھی دیکھی۔ ہیومینٹی فرسٹ کے سٹال پر بھی گئے۔ وہ کہنے لگے کہ جس نہج پر جماعت احمدیہ کام کر رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ جماعت اگلے چند سال میں دنیا پر غالب آ جائے گی۔ انشاء اللہ۔ پھر کہتے ہیں امن عالم کے لئے نہایت مدبرانہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ نصائح اور تجاویز دنیا کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔ اگر لوگ ان نصائح پر عمل کریں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگر جلسہ سالانہ کو میں خلاصۃً بیان کروں تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ جماعت احمدیہ انسانیت کے لئے امن محبت اور بھائی چارے کا ایک عظیم نمونہ ہے۔

فرنچ گیانا سے ایک مہمان جیک برتھول (Jacques Bertholle) جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ موصوف فرنچ گیانا کی کورٹ کے جج ہیں اور ملک کے بشپ کی نمائندگی میں آئے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ جب میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے فرنچ گیانا سے روانہ ہوا تو میری ٹانگ میں درد تھا لیکن جلسہ میں شامل ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں شفا دی اور پورا جلسہ درد کا نام و نشان نہیں رہا۔ تو اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جلسے کی جو برکات احمدیوں کو پہنچتی ہیں اس سے غیر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جہاں تک جلسے کے انتظامات کا تعلق ہے تو میں ایک لمبا عرصہ work inspector رہا ہوں اور ہر کام کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہوں مگر جس طریق پر جماعت احمدیہ کے والنٹیئرز کام کر رہے تھے وہ قابل تعریف ہے۔ ہر ایک اپنا کام احسن رنگ میں کر رہا تھا۔ خاص طور پر اتنے بڑے مجمع کی سیکیورٹی کا انتظام کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اسی طرح اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کے لئے کھانا تیار کرنا اور پھر انہیں وقت پر کھلانا معمولی کام نہیں۔ پھر نائیجیریا کے ایک مشہور ٹیلیویژن ایم آئی ٹی وی (MITV) کے چیئرمین مرہی بساری (Murhi Busari) صاحب یہاں آئے تھے۔ یہ الحاج ہیں، انہوں نے حج کیا ہوا ہے۔ یہ کہتے ہیں جلسہ سالانہ میں شرکت کر کے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں عرفات کے مقام پر ہوں اور ہر طرف پیار محبت اور خوشی بکھر رہی ہے۔ ایسا نظارہ میں نے دنیا میں کبھی نہیں دیکھا اور خدام بڑی عمدگی سے ڈیوٹی دے رہے تھے۔ اطاعت کے جذبے سے سرشار تھے۔ اطاعتِ امام کا جو نظارہ میں نے جماعت احمدیہ کے خلیفہ اور اس کی جماعت میں دیکھا ہے وہ کہیں نہیں دیکھا۔

کونگو کنساشا سے جسٹس ’نول کی لومبا (Noel Kilomba Ngozi Mala) صاحب آئے ہوئے تھے جو کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے جج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت جج خدا تعالیٰ نے مجھے اتنی فراست دی ہے کہ دیکھ سکوں کہ کہاں حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے اور کہاں اظہارِ حق کیا جا رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے جس اسلام کا مجھے تعارف کروایا گیا تھا اس کا عملی نمونہ میں نے جلسے میں شامل ہو کر دیکھ لیا ہے۔ میرے دل میں اگر کوئی شک تھا تو اب دُور ہو گیا ہے۔ دراصل حقیقی اسلام یہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے۔ اسلام کے اسی پیغام کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا مستقبل اسی پیغام سے وابستہ ہے۔ اسی اسلام کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہمیں دہشت گردوں کا اسلام نہیں چاہئے۔

سیرالیون کے وائس پریذیڈنٹ بھی جلسے میں شامل ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ بہت عظیم الشان ہے اور ساری قوموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ مجھے جلسے میں شامل ہو کر بہت محبت ملی ہے۔

مکینی سیرالیون کا شہر ہے وہاں کے میئر شامل ہوئے۔ کہتے ہیں تینوں دن روحانیت سے بھرپور تھے اور میری زندگی میں عظیم انقلاب پیدا کرنے کا موجب بنے ہیں۔ میں نے کبھی لوگوں کو اس طرح ایک دوسرے سے پیار کرتے نہیں دیکھا۔

سیرالیون سے ڈپٹی منسٹر آف سپورٹس آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت میری زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ چھوٹے، بڑے اور بوڑھے سب لوگ آگے بڑھ بڑھ کر مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے۔ میں نے آج تک کسی بھی مذہبی یا سیاسی جلسے میں اس قدر مہمانوں کی عزت اور محبت نہیں دیکھی۔

بینن کے نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ایرک ہندے (Eric Houndete) صاحب آئے ہوئے تھے کہتے ہیں کہ سب سے بڑی بات جو میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے افراد اپنے خلیفہ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ یہ چیز کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ کہتے ہیں میں نے اس جلسے میں شامل ہو کر اپنی زندگی کے بہترین لمحات گزارے ہیں۔ میں نے تمام انتظامات کا جائزہ لیا ہے۔ ہر چیز میں مجھے حسنِ انتظام ہی نظر آیا۔ پینتیس ہزار سے زائد افراد کے جلسے میں ٹرانسپورٹ کا بہترین انتظام تھا اور ٹریفک کو بڑی مہارت سے گائیڈ کیا جا رہاتھا۔ اتنی بڑی تعداد کے باوجود صفائی کا معیار بھی اچھا تھا۔ کہیں گندگی نظر نہیں آئی۔ ان تمام انتظامات پر پانچ ہزار سے زائد جماعت احمدیہ کے لوگ رضاکارانہ طور پر کام کر رہے تھے اور ان رضا کاروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل تھے، بوڑھے بھی شامل تھے، جوان بھی شامل تھے، مرد عورتیں اور کم عمر بچے بھی شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی بات ہے جو کسی بھی مذہبی یا دنیاوی تنظیم میں نظر نہیں آئے گی۔

ارجنٹائن سے ایک احمدی آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے سچے مذہب کی تلاش میں دس سال گزارے ہیں اور بالآخر جماعت میں شامل ہو کر مجھے سچا مذہب مل گیا۔ جلسہ سالانہ کی آرگنائزیشن سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ سب سے زیادہ جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ جلسہ میں نوجوان نسل کی موجودگی تھی۔ میں نے آج تک کسی دوسرے مذہب میں نوجوان نسل کی کسی مذہبی فنکشن میں اس قدر involvement نہیں دیکھی جس طرح جماعت احمدیہ میں ہے۔ کہتے ہیں عالمی بیعت میں شمولیت میری زندگی کے خوش ترین لمحات تھے۔ بیعت کے دوران میرا دل اور جسم لرز رہا تھا۔ دس شرائط بیعت دراصل قرآن کریم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ ہیں۔ میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں کہ میں ارجنٹائن کا پہلا مسلمان ہوں جسے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی اور اب انشاء اللہ اپنے ملک میں جا کر میں احمدیت کی تبلیغ بھرپور انداز میں کروں گا۔

جاپان سے ایک مہمان یوشیو اِوَامُورا (Yoshio Iwamura) صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ مہمان نوازی کی روایات اور کارکنان کا محبت و شفقت کا رویّہ ہم سب کے لئے ایک ناقابل فراموش یاد ہے۔ جلسہ سالانہ برطانیہ اقوام متحدہ کا حقیقی نمونہ پیش کر رہا تھا جہاں ہر رنگ و نسل اور قوم کے افراد ایک خاندان کی طرح نظر آ رہے تھے۔ اس روحانی ماحول نے میرے دل پر ایک خاص اثر کیا ہے۔

جاپان سے ایک دوست ڈاکٹر جیوانی مونٹے (Giovanni Monte)بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ موصوف جو ہیں یہ میڈیکل سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اور ٹوکیو انٹرنیشنل بک فیئر کے موقع پر ان کا جماعت سے رابطہ ہوا تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ دس سال سے مختلف مذاہب اور معاشروں کی تحقیق کر رہا تھا۔ عیسائیت سے متنفر ہو چکا تھا۔ حق کی تلاش میں تھا۔ بُک فیئر کے پہلے دن جب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ دی گئی تو یہ لکھنے والے ہمارے مشنری لکھتے ہیں کہ اگلے دن دوبارہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رات کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ شروع کیا اور میرے لئے مشکل تھا کہ اس کتاب کو پڑھے بغیر سو جاتا۔ صبح تک جب اس کتاب کا مطالعہ مکمل کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام ایک سچا مذہب اور حق و صداقت کا راستہ ہے۔ کہتے ہیں ایک سال کے دوران میں نے پچاس بار اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کردہ فلسفہ غیر معمولی کشش رکھتا ہے۔ چنانچہ موصوف جلسہ دیکھ کر کہنے لگے کہ میں حق کی تلاش میں تھا اور مجھے حق مل گیا ہے۔ اسلام احمدیت سے بہتر کوئی طرز زندگی نہیں ہے۔ چنانچہ موصوف نے پہلے دن تو بیعت نہیں کی تھی جلسے کے فوراً بعد اگلے روز یہ میرے پاس آئے کہ انہوں نے بیعت کرنی ہے اور پھر ان کی وہاں مسجد میں بیعت ہوئی تھی۔

جاپان سے ایک غیر احمدی دوست ماسا یوکی آکو توسو (Masayuki Akutsu) صاحب جو ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں جلسہ میں شامل ہوئے۔ جماعت احمدیہ کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں اور اس غرض سے یہ ربوہ کا سفر بھی کر چکے ہیں۔ موصوف نے بتایا کہ ربوہ کے دورے کے دوران واپسی پر ہمارے معزز میزبان اور گاڑی کے ڈرائیور نے مجھے کہا کہ مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو معاف کر دیں۔ اس کیفیت نے میرے دل پر بے انتہا اثر کیا اور آج یہاں جلسے پر آیا ہوں تو ایسی اعلیٰ روایات یہاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعلیم اور عمل جو ہے وہ ایک ہے۔ ہر جگہ یہ نمونے نظر آتے ہیں۔ سپین سے نیشنل اسمبلی کے دو ممبران پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے۔ جوس ماریہ (JoseMaria) صاحب تھے۔ کہتے ہیں کہ جلسے کے انتظامات دیکھ کر یہی سوچتا رہا کہ ہمیں اس طرح کا انتظام کرنا پڑے تو ہم کیسے کریں گے۔ اس وقت دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ یہ تینوں دن جلسے کے پروگرام میں شرکت کرتے رہے اور متعدد بار اس بات کا اظہار کیا کہ ایسے منظم کام ہماری حکومتیں نہیں کر سکتیں جو یہاں پر رضا کار کر رہے ہیں۔ میں اس جلسے پر بہت کچھ سیکھ کر جا رہا ہوں۔ پس یہ جو رضا کاروں کے، والنٹیئرز کے، کارکنان کے کام ہیں یہ بھی ان کی ایک خاموش تبلیغ ہے جو یہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر خاتون پارلیمنٹ ممبر جو تھیں کہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے بڑی انتھک محنت کر رہی ہے۔ کہتی ہیں کہ میرا سپین کے مشہور تاریخی شہر ٹولیڈو سے تعلق ہے جہاں کسی دَور میں مختلف تہذیبیں جن میں مسلمان، یہودی اور عیسائی شامل ہیں باہم متحد ہو کر امن کے ساتھ رہتے رہے ہیں۔ ہمیں اس دور پر فخر ہے اور سپین کی تاریخ کا وہ ایک سنہری دور تھا۔ موصوفہ نے کہا کہ ہزار سال قبل بنوامیہ خاندان سے عبدالرحمن اول سپین آئے اور انہوں نے کہا کہ وہ اس ملک کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ کہتی ہیں آج ہم آپ کے خلیفہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ آپ لوگ جب ہمارے ملک میں آئیں تو اسے اپنا گھر سمجھیں۔ فرانس کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ اس سال ایک ہی خاندان کے پینتیس افراد یہاں جلسے پہ شامل تھے جن میں اٹھائیس تو احمدیت قبول کر چکے تھے مگر ان کے والد اور والدہ اور ان کی ایک بیٹی اور اس کے تین بچوں نے ابھی احمدیت قبول نہیں کی تھی۔ والد کافی بڑی عمرکے ہیں۔ جمعہ کی نماز سے پہلے کہنے لگے کہ میں ماحول کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ پھر بیان کرتے ہیں کہ یہاں اس جلسے میں شامل ہو کر اور جلسے کا ماحول دیکھ کر پتا چلا ہے کہ میرے بچے کیوں احمدی ہوئے ہیں اور جب سے احمدی ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی حالت ہی بدل گئی ہے۔ اسلامی تعلیم پر ایسا عمل ہے کہ خدا کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے اور یہ سب احمدیت کی وجہ سے ہوا ہے۔ کہتے ہیں میں جب جوان تھا تو ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک عجیب سی جگہ ہے جہاں بہت سے لوگ ہیں۔ اب جلسے پر آ کے وہ خواب یاد آئی ہے۔ جلسے کے دوسرے دن انہوں نے بتایا کہ آج میں نے پانچ مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ چنانچہ وہ اور ان کی اہلیہ اتوار کی جو عالمی بیعت ہوئی ہے اس میں شامل ہوئے اور بیعت کر کے اب جماعت میں شامل ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ بیعت کے وقت ان کا سارا خاندان وہاں موجود تھا جو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔

پھر ان کی تین بچوں والی بیٹی کے بارے میں بھی امیر صاحب لکھتے ہیں پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ان کا جماعت سے پرانا تعلق ہے لیکن بیعت نہیں کی تھی اور اتوار کی صبح فجر کی نماز کے بعد وہ کہتے ہیں میرے پاس خاوند اور بیٹی آئے۔ کہنے لگے کہ آپ سے ایک بات کرنی ہے اور ساتھ ہی رونے لگ گئے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ میں اس لئے بیعت نہیں کر رہا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لے کر بیعت کروں۔ اب جب جلسے میں شامل ہوا تو میرا بہت دل کر رہا تھا کہ بیعت کر لوں لیکن میری شدید خواہش تھی کہ میری بیوی بھی میرے ساتھ بیعت کرے۔ چنانچہ آج صبح فجر کی نماز میں مَیں نے بہت دعا کی۔ نماز کے بعد میری اہلیہ مجھے کہنے لگیں کہ میں نے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ اس پر مَیں نے اسے کہا کہ میں نے بھی تم سے کچھ کہنا ہے۔ چنانچہ میری اہلیہ نے کہا کہ مَیں بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں بھی یہی بات کہنے والا تھا کہ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں اور مَیں دعا کر رہا تھا کہ ہم اکٹھے بیعت کریں اور آج اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن لی تو وہ بولی میں بھی یہی دعا کر رہی تھی۔ اس طرح اس فیملی کی حالت بڑی جذباتی تھی۔

یونان کے وفد کے تأثرات۔ یونان سے بھی وفد آیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر اکرم شریف دامادوغلو صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کبھی کسی مسلمان جماعت کو اتنا منظم نہیں دیکھا جس طرح منظم جماعت احمدیہ ہے۔ ہر کوئی آپ سے نہایت محبت اور اخوت کے جذبے سے ملتا ہے خواہ وہ آپ کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

تین افراد پر مشتمل سلوینین وفد بھی تھا۔ وہاں کے ایک دوست زماگو پاؤلچچ (Zmago Pavlicic) جو کہ بطور ترجمان کے کام کرتے ہیں کچھ عرصہ سے جماعتی لٹریچر کے ترجمہ پر بھی کام کر رہے ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے سے پہلے میرا جماعت کے متعلق تعارف صرف پڑھنے تک محدود تھا لیکن جلسے میں شامل ہو کر اور جلسے کا ماحول دیکھ کر اب یقین ہو گیا ہے کہ جو کچھ میں نے جماعت کے بارے میں پڑھا تھا وہ ایک حقیقت ہے۔ مثال کے طور پر محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا قول میں نے پہلے پڑھا تھا یا سنا تھا لیکن جلسے میں آ کر اور مختلف لوگوں سے مل کر، جلسے کے ماحول کو دیکھ کر، اس قول کی عملی حالت بھی دیکھ لی کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس قول پر عمل کرنے والا ہے۔

جہاں لوگوں کے تاثرات آپ سنتے ہیں وہاں ہر ایک کو اپنے اپنے جائزے بھی لیتے رہنا چاہئے کہ دوسروں پر یہ جو اثر قائم ہوا ہے ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کو ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ سلوینین وفد میں یونیورسٹی کی ایک پروفیسر آندرے یابورچ صاحبہ بھی شامل تھیں۔ یہ صاحبہ خاتون ہیں۔ عورت ہیں۔ کہتی ہیں مَیں پہلی مرتبہ کسی اسلامی پروگرام میں شامل ہوئی اور پہلی مرتبہ مجھے اسلام کے بارے میں مثبت تعارف حاصل ہوا۔ جماعت حقیقت میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ ڈائننگ ہال میں بچے کھاناserve کر رہے تھے اور ہم سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہمیں بتائیں۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے بچے جلسہ گاہ میں پانی پلا رہے تھے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ساری چیزیں بچوں کی تربیت اور ان کی پرورش کے لئے بہت ضروری ہیں۔ سویڈن کے ایک پولیس افسر آئے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ جو پیغام دے رہے ہیں اس کا میں نے عملی مشاہدہ بھی دیکھا ہے۔ کاش کہ یہ پیغام دنیا کے تمام ممالک تک پہنچ جائے۔ یہ پولیس آفیسر ہیں۔ کہتے ہیں اگر یہ پیغام سویڈن میں بھی پہنچ جائے تو مَیں اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دوں کیونکہ پولیس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور اگر ہمارا معاشرہ پر امن اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والا ہو جائے گا تو جو پیسے پولیس والوں کی تنخواہ میں دیتے ہیں وہی غریبوں بوڑھوں کی ضروریات پوری کرنے کے کام آئیں گے۔

پس یہ چیزیں ہر احمدی کو جہاں شکرگزار بناتی ہیں وہاں جن میں چھوٹی موٹی کمزوریاں ہیں ان کو ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

سوئٹزرلینڈ سے پریس اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے مہمان برانسولاوبیلی صاحب (Branislav Beli) شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے آخری دن شامل ہوا۔ میں دنیا کے مختلف events میں شامل ہوتا رہتا ہوں لیکن اس طرح کا event پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ایک عجیب نظارہ تھا۔ جب لوگوں کو رکنے کا کہا جاتا تو خاموشی سے رک جاتے اور جب ان کو مڑنے کو کہتے تو اسی طرف وہ مڑ جاتے۔ کسی نے اس بات پر غصے کا اظہار نہیں کیا کہ کیوں ان کو روکا جا رہا ہے۔ مجھے نظر نہیں آیا کہ کوئی کارکن یا کوئی بھی جلسے میں شامل ہونے والا غصے سے بات کر رہا ہے۔ میں نے کافی ملک دیکھے ہیں مگر اس طرح کا پرسکون اور اعلیٰ نظام کہیں نہیں دیکھا۔

ایک غیر احمدی سوئس غیر مسلم مائیکل شیرن برگ (Michael Scharrenberg) شامل ہوئے۔ سوئٹزرلینڈ کے ہی ہیں وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر عالمی بیعت کا نظارہ تھا کہ کس طرح لوگ اپنے عقیدے اور خلیفہ کے ساتھ وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک نو احمدی دوست مائیٹا کیلاف واسرو ہیں۔ مائیکرونیشیا سے آئے ہوئے تھے اور یہ وہاں گیارہ سال تک میئر بھی رہے ہیں۔ کہتے ہیں یہ سارا کچھ دیکھنے کے بعد اب میں مصمّم ارادہ لے کر جا رہا ہوں کہ اپنے خاندان اور کوسرائے (جو اُن کا شہر ہے) کے لوگوں کے اسلام کے بارے میں غلط تاثرات کو ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ پس جلسہ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔

جمیکا سے ایک جرنلسٹ آئی ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک کیمرہ مین بھی تھا۔ کہتی ہیں کیمرہ مین شروع میں کسی مسلمان مجمع میں شامل ہونے سے ہچکچا رہا تھا لیکن انہوں نے جب دیکھا کہ ہر ایک ان کے ساتھ محبت سے پیش آ رہا ہے اور ان کا خیال رکھا جا رہا ہے تو پوچھنے لگے کہ کیا ان لوگوں کے دلوں میں واقعی ہمارے لئے پیار ہے یا یہ صرف دکھاوا کر رہے ہیں؟ اس پر ہمارے مبلغ نے انہیں جواب دیا کہ اخوت اور بھائی چارہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ آپ سارا جلسہ گزاریں آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ لوگ دکھاوا کر رہے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ جب جلسہ ختم ہوا تو یہ کیمرہ مین کہنے لگے کہ کوئی شک نہیں کہ جس محبت اور اخوت اور ایک دوسرے کے لئے محبت کا جلسے پر مظاہرہ ہو رہا تھا وہ محض دکھاوا نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی۔ پھر جرنلسٹ جو تھیں انہوں نے میرا انٹرویو بھی لیا تھا۔ کہتی تھیں وہاں جا کے میں لکھوں گی یا ڈاکومنٹری بناؤں گی۔ تو اس سے مزید تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں وعدہ کرتی ہوں کہ جماعت احمدیہ کی ان تعلیمات کو جمیکا میں پھیلانے کے لئے سخت محنت کروں گی۔ اب یہ عیسائی ہیں اور ہماری تبلیغ کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ پانامہ سے ایک دوست رونالڈو کوچز صاحب آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں اس طرح کی پرامن فضا کی مثال آج کے دور میں ملنا ممکن نہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کثیر تعداد میں مسلمان رہتے ہیں لیکن لوگ ان کے بارے میں اچھا تاثر نہیں رکھتے بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ مجھے بھی جب مسلمانوں کے جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت ملی تو مجھے لگا یہ لوگ بھی پانامہ کے مسلمانوں کی طرح ہی ہوں گے لیکن جب میں یہاں پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے یہاں محبت، پیار اور امن کی ایسی فضا دیکھی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کہتے ہیں آج کے بعد اگر کوئی شخص اسلام کے بارے میں غلط نظریہ پیش کرے گا تو میں اس کا بھرپور دفاع کروں گا کہ سارے مسلمان ایک جیسے نہیں ہوتے۔

قازخستان سے تاناشیواما صاحبہ ہیں۔ سٹیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں اور نیو یارک کی اکیڈمی کی ممبر بھی ہیں۔ سن 2000ء میں ان کو لیڈی آف ورلڈ کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ اپنے تاثرات میں بیان کرتی ہیں کہ اپنی 75 سالہ زندگی میں دنیا کی بہت سی جگہیں دیکھ چکی ہوں لیکن انسانیت سے محبت اور انسانیت کی حقیقی معنوں میں مدد کرنا میں نے صرف یہاں ہی دیکھا ہے۔ بہت شاندار منظر تھا کہ سب کی موجودگی میں مختلف فیلڈز کے طلباء نے کارکردگی کی بنا پر میڈل حاصل کئے۔ یہ بات اور یہ اعزاز ہمیشہ ان کے دلوں میں پختہ رہے گا اور ان کو مستقبل میں بھی اپنی زندگی کو اسی اصول کے مطابق ڈھالنے میں ممد و معاون ہو گا۔ کہتی ہیں میں بھی اس جلسے کی بدولت اپنے اندر ایک روحانی تازگی اور قوت محسوس کرتی ہوں۔ ایک طالبہ گوئٹے مالا سے آئی تھیں۔ کہتی ہیں جلسے میں شامل ہونا میرے لئے انتہائی خوش کن تجربہ تھا۔ اس جلسے کے روحانی ماحول نے میری آئندہ زندگی کو سنوارنے کی طرف رہنمائی کی ہے۔

کروشیا سے اٹھائیس افراد کا وفد آیا ہوا تھا اور کروشین قومی اسمبلی کے ممبر پارلیمنٹ پانڈک درازن صاحب بھی اس میں شامل تھے۔ کہتے ہیں میرا کسی بھی مسلمان تنظیم کے اجتماع میں شرکت کا پہلا موقع تھا اور کافی متاثر تھے۔ آخری تقریر بھی انہوں نے سنی۔ کہتے ہیں اگر ان نصیحتوں پر عمل کریں تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

سیرالیون کے نیشنل ٹی وی SLBC کے جرنلسٹ بھی شامل ہوئے۔ یہ کہتے ہیں آپ نے جلسے میں مجھے دعوت دے کر بڑا احسان کیا اور کہتے ہیں جلسے کے دوران ہی میں نے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔ چنانچہ موصوف نے عالمی بیعت کے دن بیعت بھی کر لی۔

پال سینگر ڈیوس (Paul Sanger Davies) جو برٹش رائل ایئر فورس میں گروپ کیپٹن ہیں، کہتے ہیں میں لازماً اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اب تک میں نے سینکڑوں ایسے پروگرام دیکھے ہیں لیکن ایسا منظم پروگرام کبھی نہیں دیکھا۔ خاص کر ایسے امور پر بات چیت کر کے بہت اچھا لگا کہ ہم آجکل بہت سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں اور ان خطرات سے نکلنے کا کیا حل ہے اور اس حوالے سے بہت سی اچھی باتیں سننے کو ملیں۔ آئیوری کوسٹ سے دو ممبر پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے۔ کوآکوکوآکوواترا (Kouakou Kouakou Ouattara) صاحب ان میں سے ایک تھے۔ کہتے ہیں یہ میری زندگی کے اہم لمحات میں سے ہے۔ میں کئی سالوں سے احمدی ہوں مگر اس طرح کا روحانی ماحول پہلی دفعہ دیکھا ہے۔ میں احمدی تو پہلے سے ہی تھا مگر جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر میرا ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا ہے۔

برٹش سوسائٹی آف دی ٹیورن شراؤڈ نیوز لیٹر کے ایڈیٹر Hugh Farey صاحب تھے۔ یہ بھی ٹیورن شراؤڈ (Turin Shroud) کے ماہرین میں سے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے آج تک جتنے فورمز پر کفن مسیح کے حوالے سے بات چیت کی ہے ان میں سب سے زیادہ بہترین فورم یہ تھا۔ کہتے ہیں یہ تین دن علمی لحاظ سے میرے لئے غیر معمولی تھے۔ نہ صرف شراؤڈ کے بارے میں بلکہ احمدیہ جماعت کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ہے۔ میرا اس بارے علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس سے میرے لئے تحقیق کی نئی راہیں کھلی ہیں۔ اور ٹیورن شراؤڈ پر تحقیق کرنے والی بعض دوسری شخصیات بھی تھیں وہ بھی شامل ہوئیں۔ ان میں ایک صاحب بیری شارٹس(Barrie Schwortz) ہیں جو کہ ٹیورن شراؤڈ کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مستند سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی تقریر تو آپ لوگ سن چکے ہیں۔ بہت ساری باتوں کے علاوہ جو ایک خاص بات تھی وہ کہتے ہیں کہ میرا یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں کو شراؤڈ آف ٹیورن کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ لیکن مجھے یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ جس قدر مَیں آپ کو اس حوالے سے علم دے سکتا ہوں ان چند دنوں میں اس سے کئی گنا میں نے آپ لوگوں سے علم سیکھا ہے۔

پریس اور میڈیا کی مَیں نے بات کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال پریس میڈیا کے ذریعہ سے جلسے کا بہت وسیع پیمانے پر تعارف ہوا ہے۔ اور اس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پیغام پہنچایا۔ جلسہ کی خبر اور ویڈیو کلپس (video clips) ٹیلیویژن اور آن لائن ویڈیو کے سات مختلف پروگرامز کے ذریعہ کل تین اعشاریہ تین ملین افراد تک خبر پہنچی ہے۔ ریڈیو کے 34پروگرامز کے ذریعہ 2.79ملین افراد تک پیغام پہنچے۔ پرنٹ اور آن لائن میڈیا کے چودہ مختلف فورمز کے ذریعہ 7.7ملین افراد تک پیغام پہنچا اور سوشل میڈیا میں گیارہ سو پچانوے شاملین کے ذریعہ جلسے کا پیغام پانچ ملین افراد تک پہنچا۔ اس طرح مندرجہ بالا فورمز کے ذریعہ کل 18.79 ملین افراد تک جلسے کی کارروائی اور خبر اور پیغام اور تصاویر اور ویڈیو کلپس پہنچے اور افریقہ کے علاوہ ایسے ممالک جہاں جلسے کے حوالے سے میڈیا کو کوریج ملی ہے ان میں برطانیہ، سکاٹ لینڈ، ویلز، آئر لینڈ، یو ایس اے، کینیڈا، پاکستان، انڈیا، فرانس، جمیکا، بولیویا، یونان اور بیلیز شامل ہیں۔ سب سے اہم چینلز میں بی بی سی نیوز 24 شامل ہے جس پر جلسے کی خبر تین مرتبہ نشر ہوئی۔ یہ بھی پہلی دفعہ ہی ہؤا ہے۔ ابتدائی طور پر اس چینل پر ایک مرتبہ خبر نشر کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم بعد میں مزید خبر نشر کرنے کی اجازت دی گئی۔

انٹرنیشنل نیوز ایجنسی فرانس اے ایف پی نے بھی جلسے کی خبر نشر کی۔ AFP نے ویڈیو رپورٹ بھی جاری کی جو کہ بعد ازاں یو ایس اے، یو کے اور انڈیا میں درجنوں خبروں کی ویب سائٹس پر نشر کی گئی۔ ان میں Yahoo News، MBC News، MSN News شامل ہیں۔ پھر ریڈیو کوریج، 34ریڈیو انٹرویوز بی بی سی کے تین نیشنل ریڈیو سٹیشنز، 24ریجنل ریڈیو سٹیشنز اور دو لوکل ریڈیو سٹیشنز پر نشر ہوئے۔ ان میں BBC Radio 4 بھی شامل ہے جو کہ برطانیہ کا سب سے زیادہ سنا جانے والا ریڈیو اسٹیشن ہے۔ اس پر 20 منٹ کا طویل انٹرویو نشر کیا گیا۔ اس کے علاوہ بی بی سی ریڈیو سکاٹ لینڈ (BBC Scotland) اور بی بی سی ریڈیو ایشین نیٹ ورک (BBC Radio Asian Network) شامل ہیں۔ بی بی سی ریڈیو سٹیشن نیٹ ورک پر ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کا انٹرویو شائع کیا گیا۔ 34ریڈیو اسٹیشنز کے ذریعہ کُل 2.79ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ ان میں سے کم از کم دو انٹرویوز کا جو آغاز تھا وہ بی بی سی کی ایک جرنلسٹ کیرولائن وائٹ (Caroline Wyatt) تھیں۔ انہوں نے میرے سے انٹرویو لیا تھا اس کو انہوں نے نشر کیا جس پہ اب یہاں کی مسلمان تنظیموں کے فورم پر بہت شور پڑا ہے کہ ہمیں اکٹھا ہو جانا چاہئے۔ یہ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کر رہا ہم اکٹھے ہو کر مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے۔

دو ایشین اور کیتھولک ہیرالڈ (Catholic Herald) نے خبر اور آرٹیکل چھاپے۔ ہفنگٹن پوسٹ (Huffington Post)نے بھی دو آرٹیکل شائع کئے۔ اسی طرح اور بہت سے ہیں۔ سوشل میڈیا، ٹوئٹر وغیرہ کے ذریعہ یہ پیغام پہنچتا رہا۔ یہ جو ہے مرکزی رپورٹ ہے۔ اس کے علاوہ یوکے کے پریس میڈیا کے ذریعہ سے میرا خیال ہے دو تین ملین تک تو ضرور پیغام پہنچا ہو گا۔

افریقن ممالک میں ملکی ٹی وی جلسہ سالانہ کی لائیو کوریج دیتے رہے جن میں گھانا نا، ئیجیریا، سیرالیون، یوگنڈا اور کونگو کنشاسا شامل ہیں۔ حدیقۃ المہدی سے براہ راست لائیو نشریات کیں۔ گھانا کے ایک دوست نانااوسئی آکوٹو (Nana Osei Akoto)صاحب نے فون کر کے بتایا کہ میں مذہباً عیسائی ہوں لیکن آپ کے جلسہ کی لائیو نشریات دیکھ کر مجھ پر جذباتی کیفیت طاری ہے۔ میرے لئے آنسو روکنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت اسلام کی نمائندگی میں جماعت احمدیہ سب سے آگے ہے۔ میری دعا ہے کہ میں آپ کی جماعت کا مبلغ بن کر جماعت احمدیہ کا پیغام پھیلاؤں۔ ٹمالے گھانا سے ایک خاتون ہُما ادا اِڈاٹو (Humada Idatu) صاحبہ نے کہا کہ میں نے گھانا ٹی وی کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا جلسہ دیکھا ہے اور یہ جلسہ دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔ میں مسلمان تو ہوں لیکن جلسہ سالانہ کی نشریات دیکھ کر میں احمدی مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ یوگنڈا سے ایک دوست نے فون کر کے بتایا کہ میں نے جلسہ کی نشریات ٹی وی پر دیکھی ہیں۔ مَیں آپ کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ چنانچہ موصوف مشن ہاؤس آئے اور بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔

گھانا سے ایک کالر نے فون کر کے کہا کہ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلام کی حقیقی نمائندگی کر رہی ہے۔ میں اسلام کے متعلق کوئی بات نہیں سنتا تھا کیونکہ مسلمان اسلام کے نام پر ظلم کر رہے ہیں۔ لیکن آپ لوگ جس اسلامی تعلیم کو پیش کر رہے ہیں وہ سن کر میرا ذہن تبدیل ہو گیا ہے۔

ایک احمدی خاتون نے گھانا سے لکھا کہ آج اپنے کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی پر جلسہ سالانہ کی نشریات دیکھ رہی ہوں اور مجھے لگ رہا ہے جیسے میں بھی جلسے میں شامل ہوں۔ میرا دل خوشی سے بھرا ہؤا ہے اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں۔ سیرالیون میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیرالیون کے نیشنل ٹی وی SLBC پر جلسہ سالانہ کی 36گھنٹے لائیو نشریات دکھائی گئیں۔ سیرالیون سے بہت سے لوگوں نے فری ٹیلیفون لائن پر بات کر کے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ایک صاحب جبرائیل صاحب کہتے ہیں میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی کوششوں سے آج ہم یہ جلسہ دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ایسا لگ رہا ہے جیسے خلیفہ کے ساتھ یوکے میں بیٹھے ہیں۔ یہ احمدی ہیں اور اپنے گھر میں بیٹھے جلسے کی برکات سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ کونگو کنشاسا میں بھی چار بڑے بڑے شہروں میں جلسے کی نشریات دکھائی گئیں۔ ان شہروں میں سے دو میں میرا آخری خطاب نشر کیا گیا جبکہ دو شہروں میں جلسے کی تمام کارروائی لائیو نشر کی گئی۔ جب آخری خطاب ہو رہا تھا تو کنشاسا میں ہم نے ان سے دو گھنٹے کا وقت لیا تھا۔ جب دو گھنٹے ختم ہو گئے تو ابھی میرا خطاب جاری تھا اور ختم نہیں ہوا تھا۔ اس پر ٹیلیویژن کے عملے سے درخواست کی گئی کہ کچھ مزید وقت دے دیں تا کہ خطاب مکمل نشر ہو جائے۔ انہوں نے کہا ہمارے پروگرام تو پہلے سے ہی شیڈیول ہوتے ہیں اور اس طرح وقت نہیں بڑھایا جا سکتا لیکن چونکہ آپ کے خلیفہ کی تقریر جاری ہے اور اس تقریر کا ہم پر اس قدر اثر ہے کہ ہم آپ کو مزید وقت دے رہے ہیں اس طرح مکمل خطاب کی کوریج دکھائی گئی اور اس کا اچھا فِیڈ بَیک (Feed back) بھی آنا شروع ہو گیا۔

ایک شخص نے فون کر کے بتایا کہ میں مسلمان ہوں لیکن آج تک میں نے ایسی باتیں کسی کے منہ سے نہیں سنیں میں فوراً جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ اور کونگو کے ایک شہر بکانگو میں جی کے وی (GKV) ٹی وی پر جلسہ نشر کیا گیا۔ اس ٹی وی کے سربراہ جَوس (Jose) صاحب نے کہا کہ میں اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسلام کا جو تصور میرے ذہن میں تھا وہ یکسر تبدیل ہو گیا اور مجھے خلیفۃ المسیح کے خطابات سن کر معلوم ہوا کہ اسلام ایک بہت ہی خوبصورت اور دل کو موہ لینے والا مذہب ہے۔ کہتے ہیں کہ اکثر گھروں میں ایم ٹی اے کے پروگرام اور خاص طور پہ آخری خطاب چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ایک دوست نے کہا کہ ٹی وی پر آپ کا جلسہ دیکھا اور بہت خوشی ہوئی کہ دنیا میں ایک ایسا وجود بھی ہے جو اتنی پیاری تعلیمات دے رہا ہے۔

افریقن ممالک میں ریڈیوز پر جلسہ سالانہ کی جو کوریج ہوئی ہے۔ اس میں مالی میں جماعت کے پندرہ ریڈیو سٹیشنز کے ذریعہ سے جلسہ سالانہ کی تینوں دن کی کارروائی لائیو نشر ہوئی۔ اس طرح وہاں قریباً دس ملین لوگوں نے جلسہ سالانہ یوکے کی لائیو کارروائی اپنی زبانوں میں سنی۔

اسی طرح برکینا فاسو میں چار ریڈیو اسٹیشنز پر جلسہ سالانہ کی تین دن کی مکمل کارروائی نشر ہوئی۔ اس کو بھی بڑا وسیع سننے والے ہیں۔ اسی طرح سیرالیون میں کارروائی نشر ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دفعہ جلسے کا یہ پیغام ملینز لوگوں تک مختلف برّ اعظموں میں پہنچا۔

اللہ کے فضل سے پریس میڈیا ٹیم نے بھی بڑا اچھا کام کیا اور ایم ٹی اے نے بھی اس کے لئے بہت کام کیا۔ خاص طور پر وہ جو افریقہ کے انچارج بنائے گئے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے۔

پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسے کے ذریعہ جماعت کا بہت وسیع تعارف ہوا ہے اور ان میں جیسا کہ میں نے کہا ایم ٹی اے کے بھی اور پریس سیکشن کے بھی بہت سے کام کرنے والے شامل ہیں۔ اور پریس سیکشن میں بھی کام کرنے والے یوکے کے ہی نوجوان ہیں جو کام کر رہے ہیں اور اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں کو مزید بڑھائے اور اجاگر کرے۔

بعض انتظامی باتیں بھی ہیں جو انتظامیہ اور مہمانوں کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً ایک شکایت میرے سامنے یہ آئی کہ مین مارکی میں بیٹھنے کے لئے کرسیاں کم تھیں اور بیماروں اور معذوروں کو نہیں ملیں اور بظاہر چھوٹی عمر کے اور نوجوان بیٹھے ہوئے تھے اور عذر یہ پیش کیا گیا کہ ان کو کیونکہ کارڈ ایشو ہو چکے ہیں اس لئے ہم ان کو اٹھا بھی نہیں سکتے۔ ایک تو کارڈ کرسیوں کے مطابق ہونے چاہئیں یا پھر جگہ بڑھائیں یا اگر وہاں جگہ نہیں ہوتی تو معذوروں اور بیماروں کے لئے، ایک علیحدہ مارکی کرسیوں کے لئے ساتھ لگائی جا سکتی ہے اس طرف بھی اگلے سال غور کرنا چاہئے۔ اور دوسرا یہ بھی ہے کہ ٹی وی سکرین ایک کم ہے، ایک سے زیادہ ہونی چاہئیں۔ عمومی طور پر تو غسل خانوں کا ٹوائلٹس کا انتظام صحیح رہا ہے لیکن بعض دفعہ شکایات آتی تھیں کہ پانی اور ٹشو پیپر وغیرہ کی کمی تھی۔

بازار میں جانے والے پاکستانی مہمانوں کی بھی غیر پاکستانیوں نے شکایت کی ہے کہ وہاں بعض دفعہ اگر کوئی چیز خریدنی ہو اور لائن میں لگنا پڑے تو پاکستانی صبر کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے، اور دھکم پیل کرتے تھے۔ ان کو اپنے نمونے دکھانے چاہئیں کیونکہ جلسے کا مقصد تو یہ ہے ہی نہیں۔ پہلے دن بھی میں نے کہا تھا کہ صبر اور برداشت کریں اور دوسرے کا حق زیادہ دینے کی کوشش کریں۔ ٹرانسپورٹ کے انتظام کی عموماً اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تعریف کی گئی ہے۔ اس سال بعض کارکنوں نے بعض مہمانوں کی شکایت کی ہے۔ چاہے وہ چند ایک یا ایک آدھ ہی تھا لیکن غلط اثر ڈالنے والا تھا۔ کارکنوں تک ہی رہا تو ٹھیک ہے۔ شکر ہے ایسے مہمانوں تک نہیں پہنچا جو ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کارکنان کی بات ماننا ہر آئے ہوئے مہمان کا فرض ہے چاہے وہ کوئی ہو، کسی عہدیدار کا قریبی ہے یا کوئی بڑا ہے۔ کسی خاندان کا ہے چاہے میرا رشتہ دار بھی ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ بات مانیں اور ماحول کو اچھا بنائیں، بعضوں نے غلط رویّے دکھائے جو صحیح نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ نوجوان جو ڈیوٹی پر تھے اور اس بات پر زیادہ جذباتی ہو گئے کہ اگر یہ ہماری بات نہیں مانتے تو ہم ڈیوٹی نہیں دیتے یہ بھی غلط سوچ ہے۔ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختلف طبائع ہوتی ہیں۔ اس لئے کارکنوں کو بھی صبر اور حوصلہ دکھانا چاہئے اور اگر کوئی غلط چیز دیکھیں تو اپنے بالا افسر کو شکایت کریں پھر وہ آپ ہی سنبھال لیں گے۔ بہرحال عمومی طور پر جلسہ سالانہ بہت سے فضلوں کو لانے والا بنا۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو، ہر اس شخص کو جس نے شمولیت کر کے یا ٹی وی کے ذریعہ سے اسے دیکھا اور سنا اپنے اندر تبدیلی لانے والا بنائے اور جو میڈیا کے ذریعہ سے اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کو پہنچا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اس کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اس حقیقی پیغام کو قبول کریں۔

نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو سیدہ فریدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا رفیق احمد صاحب کا ہے۔ آپ مکرم سید جلیل شاہ صاحب کی بیٹی تھیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہو تھیں۔ حضرت میر حامد شاہ صاحب کی پوتی اور میر حسام الدین صاحب کی پڑپوتی تھیں۔ تین دن پہلے ان کی وفات ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب کی نواسی تھیں اور حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کی پڑنواسی۔ یعنی حضرت اُمّ طاہر کی بھتیجی کی بیٹی تھیں۔ میر حسام الدین شاہ صاحب کی پڑپوتی تھیں۔ میر حسام الدین شاہ صاحب وہ ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص تعلق تھا اور جب شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدنے آپ کو سیالکوٹ بھیجا ہے تو انہی کے گھر میں رہے تھے۔ اور حضرت مصلح موعودنے بھی ذکر کیا کہ ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک خاص تعلق تھا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد سوم صفحہ 326-327)

اسی طرح سید حبیب اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ماموں تھے۔ یہ فریدہ بیگم صاحبہ ان کی بیٹی کی بیٹی تھیں۔ جب فریدہ بیگم کی والدہ رضیہ بیگم صاحبہ کا نکاح ہوا ہے تو حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا کہ اس خاندان کے خاص تعلق کی وجہ سے مَیں بیماری کے باوجودنکاح پڑھانے کے لئے باہر آ گیا ہوں۔ اور اسی طرح لڑکی کی طرف سے ولی بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود بنے تھے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد سوم صفحہ 326و328)

اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی بہو نے لکھا ہے کہ خاص طور پر دینی لحاظ سے بھی آخری عمر میں تو انہوں نے بہت زیادہ مطالعہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب پڑھیں بلکہ تین دفعہ پڑھیں۔ ملفوظات پڑھی۔ تفسیر کبیر مکمل کی۔ خطبات باقاعدگی سے سننے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو۔ ان کا ایک پوتا جامعہ احمدیہ ربوہ میں اور ایک نواسہ ان کا جامعہ احمدیہ کینیڈا میں پڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی صحیح رنگ میں جماعت کا خادم بنائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 28؍ اگست 2015ء شہ سرخیاں

    آجکل مجھے دنیا کے مختلف ممالک سے خطوط اور فیکسز آ رہی ہیں جن میں جلسہ سالانہ برطانیہ کے کامیاب انعقاد پر مبارکبادیں بھی ہوتی ہیں اور اس بات کا اظہار بھی کہ ہم نے ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست جلسہ دیکھا اور فائدہ اٹھایا۔ لیکن حقیقی فائدہ اور فیض تو تبھی پہنچتا ہے جب ہم اس بات کی بھی بھرپور کوشش کریں کہ جو کچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے اسے اپنی زندگی سنوارنے کا ذریعہ بنائیں۔ ہماری خوشی اور مبارکباد صرف جلسے کے کامیاب انعقاد کی مبارکبادوں تک محدودنہ رہے بلکہ یہاں شامل ہونے والے بھی اور دنیا میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے سننے والے بھی جو انہوں نے سنا ہے، دیکھا ہے اس کی جگالی کرتے رہیں۔ اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے اس مادی دور میں ایک دنیاوی مادی ایجاد کو ہماری اصلاح کے لئے ہماری علمی، عملی اور اعتقادی ترقی کے لئے، بہتری کے لئے ذریعہ بنا دیاہے۔

    ہمیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس بات پر شکرگزاری کے اظہار میں ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والا ہونا چاہئے کہ یہ شکرگزاری ہمیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مزید انعامات اور ترقیات سے نوازے گی۔ یہ شکرگزاری کا مضمون جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کا راستہ دکھاتا ہے وہاں بندوں کی شکرگزاری کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔

    جلسہ سالانہ کے رضاکاران کی انتھک محنت اور پُر خلوص خدمات پر خراج تحسین اور دعا۔

    جلسہ سالانہ کے متعلق مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کے نہایت دلچسپ اور ایمان افروز تأثرات کا تذکرہ۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال پریس میڈیا کے ذریعہ سے جلسے کا بہت وسیع پیمانے پر تعارف ہوا ہے۔ اور اس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پیغام پہنچایا۔

    ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ جلسہ سالانہ کی تشہیر۔

    کئی ملینز افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔

    گھانا نا، ئیجیریا، سیرالیون، یوگنڈا اور کونگو کنشاسامیں ملکی ٹی وی چینلز کے ذریعہ جلسہ سالانہ برطانیہ کی براہ راست نشریات کے نیک اثرات۔

    افریقن ممالک میں مالی، برکینافاسو، اور سیرا لیون میں جماعت کے ریڈیو سٹیشنز کے ذریعہ کئی ملینز افراد تک جلسہ کے پروگراموں کی مقامی زبانوں میں تراجم کے ساتھ تشہیر۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا تعارف اس جلسے کے ذریعہ بہت وسیع ہوا ہے اور ان میں جیسا کہ میں نے کہا بہت سے کام کرنے والے شامل ہیں۔ ایم ٹی اے کے بھی اور پریس سیکشن میں بھی کام کرنے والے یوکے کے نوجوان ہیں جو کام کر رہے ہیں۔ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں کو مزید بڑھائے اور اجاگر کرے۔

    بعض انتظامی امور سے متعلق آئندہ کے لئے اہم ہدایات۔

    مکرمہ فریدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا رفیق احمد صاحب کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 28؍اگست 2015ء بمطابق 28ظہور 1394 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور