مالی قربانی اور چندہ وقف جدید کے مختلف مصارف

خطبہ جمعہ 8؍ جنوری 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک الہام ہؤا کہ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاتَّخِذْنِیْ وَکِیْلاً (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ401) کہ میرے سوا کوئی معبودنہیں۔ پس تُو مجھے ہی اپنا کارساز بنا۔

اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بھی تسلی دلا دی کہ تجھے کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیرے سب کام سنوارنے والا مَیں ہوں۔ تیرے کاموں کو چلانے والا مَیں ہوں۔ مَیں ہی ان سب کاموں کی نگرانی کرنے والا ہوں اور میں ہی ان کاموں کے لئے وسائل بھی مہیا کرنے والا ہوں۔ جب تُو نے مجھے اپنا معبود بنا لیا اور جب میں نے تجھے دین کی اشاعت کے لئے کھڑا کیا تو پھر کسی پریشانی کی ضرورت نہیں۔ مَیں ہی تیرے سب کام سنوارنے کی طاقت رکھتا ہوں اور سنواروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی اس کی مختصر سی وضاحت فرمائی ہے کہ یعنی مَیں ہی ہوں کہ ہر ایک کام میں کارساز ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پس تو مجھ کو ہی وکیل یعنی کارساز سمجھ لے اور دوسروں کا اپنے کاموں میں کچھ بھی دخل مت سمجھ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس الہام پر مجھے خوف پیدا ہوا اور میرے دل پر لرزہ پڑا کہ شاید اللہ تعالیٰ کی نظر میں میری جماعت اس قابل نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کا نام بھی لے۔ آپ نے جماعت کو توجہ دلائی کہ یہ الہام ایسا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کو یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ تمہاری خدمتوں کا محتاج نہیں ہے۔ تمہاری مددوں کا محتاج نہیں ہے۔ نہ ہی تمہاری قربانیوں کا محتاج ہے۔ جب اس نے اس سلسلے کو قائم فرمایا ہے تو اس کو چلانے کا بھی وہ انتظام کرنے والا ہے۔ آپ نے افراد جماعت کو فرمایا کہ تمہیں جو خدمت کا موقع ملتا ہے اس کو فضل الٰہی سمجھ کرکرو۔ (مأخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ 498 اشتہار’’حضرت اقدس کی طرف سے جماعت کو ارشاد‘‘ اشتہار نمبر 253مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ)

پس آپ کی اس بات کو افراد جماعت نے سمجھا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوئے جس میں مالی قربانی بھی ہے جس کے بڑے اعلیٰ نمونے دکھائے۔ آپ کی زندگی میں بھی اور بعد میں بھی آج تک یہ نمونے دکھاتے چلے جا رہے ہیں۔ ان قربانیوں کو کرنے والے جماعت پر یہ قربانیاں کوئی احسان نہیں سمجھتے بلکہ قربانی کی توفیق ملنے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس الہام میں یہ بھی اشارہ ہے کہ آپ کے بعد خلافت احمدیہ کا جاری نظام بھی ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اور اللہ پر توکّل کرتے ہوئے اسی سے مدد مانگنی ہے اور اسی پہ انحصار کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی ہر کام میں آسانیاں بھی پیدا کرتا چلا جائے گا۔ سب کام سنوارے گا اور کاموں کے انجام دینے کے لئے بھی سامان مہیا فرماتا رہے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے یہ نظارے ہم آج تک دیکھ بھی رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ احمدیوں کے دلوں میں قربانی کی اہمیت ڈالتا ہے اور وہ غیر معمولی نمونے بھی دکھاتے ہیں۔ جماعت میں وصیت کا ایک نظام ہے۔ چندہ عام کا نظام ہے۔ اس کے علاوہ مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں اور احباب ان میں قربانی کی غیر معمولی مثالیں قائم کرتے ہیں۔ دو تحریکات تو مستقل تحریکات ہیں یعنی ’’تحریک جدید‘‘ اور ’’وقف جدید‘‘۔ وقف جدید کی تحریک پہلے صرف پاکستان میں تھی۔ پھر تمام دنیا میں عام کر دی گئی اور اس کے بعد بھی اس میں مزید بہت وسعت پیدا کی گئی۔ قربانی کے غیر معمولی نمونے افراد جماعت کی طرف سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جیسا کہ احباب جماعت جانتے ہیں کہ پاکستان میں جب تحریک کی گئی تھی تو دیہاتی اور دور دراز علاقوں میں تربیتی اور تبلیغی کاموں میں تیزی پیدا کرنے کے لئے یہ تحریک کی گئی تھی اور وقف جدید کو جاری کیا گیا تھا۔ پھر یہ تمام دنیا کے لئے جب عام کی گئی تب بھی اس کے مخصوص مقاصد تھے۔ خاص علاقوں کے لئے اس میں سے خرچ کیا جانا تھا۔ اس کے لئے جو علاقے مقرر تھے یا شروع میں جو تحریک کی گئی تھی وہ بھارت کے لئے تھی۔ پھر افریقہ اور دوسرے غریب ممالک کے علاقوں میں تربیت اور تبلیغ کے کام کو فعال کرنے کے لئے اسے جاری کیا گیا۔

ایک نوجوان عزیز نے مجھ سے سوال کیا کہ جب وقف جدید تمام دنیا میں جاری کر دی گئی ہے (پہلے تو صرف پاکستان میں محدود تھی) تو پھر اب تحریک جدید کے جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے یا اس کا کیا مقصد ہے؟ شاید اور کسی کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھے کہ اتنی تحریکات ہیں۔ ان کا کیا مقصد ہے؟ تو اس بارے میں مَیں تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ وقف جدید یعنی اس کے اخراجات مخصوص ملکوں اور مخصوص علاقوں کے لئے ہیں۔ مغربی اور امیر ممالک سے وقف جدید کی مدّ میں جو چندہ آتا ہے وہ بھارت اور افریقہ کے عموماً دیہاتی علاقوں میں خرچ ہوتا ہے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب یہ تحریک باقی دنیا کے لئے بھی عام کی تھی تو امیر ممالک میں وقف جدید کو جاری کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہندوستان کے اور قادیان کے جو اخراجات ہیں وہ وقف جدید سے پورے کئے جائیں جبکہ تحریک جدید سے جو اخراجات کئے جاتے ہیں وہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں مرکز سے مدد کی ضرورت ہو کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ رقم مرکز میں آتی ہے اور وہاں سے اخراجات کئے جاتے ہیں۔ بہرحال وقف جدید کے ذریعہ سے بہت سے منصوبے غریب یا غیر ترقی یافتہ ملکوں میں سر انجام پا رہے ہیں۔ جنوری کے پہلے یا دوسرے جمعہ میں وقف جدید کے سال کا بھی اعلان ہوتا ہے اس لئے میں وقف جدید کے حوالے سے آج بات کروں گا اور نئے سال کا اعلان بھی کروں گا اور گزشتہ سال کی رپورٹ بھی پیش کروں گا جیسا کہ روایت ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا اٹھاونواں (58) سال 31؍دسمبر 2015ء کو ختم ہوا اور اس سال کے دوران خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں احباب جماعت کو 68لاکھ 91ہزار پاؤنڈ کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ اور یہ وصولی گزشتہ سال سے چھ لاکھ بیاسی ہزار ایک سو پچپن پاؤنڈ زیادہ ہے۔ اس سال بھی پاکستان جو ہے وصولی کے لحاظ سے دنیا کی جماعتوں میں سر فہرست ہی ہے۔

باقی ممالک کی پوزیشنیں بتانے سے پہلے مَیں وقف جدید کی کچھ تھوڑی سی تفصیل بھی بتانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ بتایا ہے کہ سال 2015ء میں وقف جدید میں 68لاکھ 91ہزار پاؤنڈ کی وصولی ہوئی۔ اس میں سے کل وصولی کا جو تیسرا حصہ ہے وہ انہی ملکوں میں لگایا جاتا ہے۔ یعنی یہ غیر ترقی یافتہ یا کم ترقی یافتہ یا غریب ممالک جو ہیں ان سے ہی وصولیاں ہو رہی ہوتی ہیں اس لئے اس کل وصولی کا تیسرا حصہ ان ممالک سے آتا ہے اور انہی جگہوں پہ رہ جاتا ہے اور انہی ملکوں میں ان کے منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ بقایا جو دو حصے ہے اس میں سے بھی نصف قادیان اور بھارت کی جماعتوں کے لئے خرچ کیا جاتا ہے جیسا کہ حضرت خلیفہ رابعؒ نے تحریک شروع کی تھی اور اس مقصد کے لئے کی تھی۔ اور بقایا نصف، جو تیسرا حصہ ہے وہ پھر افریقہ اور دوسرے ممالک میں خرچ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس سال میں بھی اُنیس (19) مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ دو مساجد زیر تعمیر ہیں۔ اس سال 23مشن ہاؤس بنائے گئے۔ چار مشن ہاؤسز اس وقت زیر تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ قادیان میں بھی جلسہ گاہ اور مختلف پراجیکٹس جو ہیں ان کی تعمیر ہوئی، ان پر خرچ ہوا۔ نیپال بھی بھارت کے تحت ہی ہے۔ یہاں سے وکالت تعمیل و تنفیذ کنٹرول کرتی ہے اور بھوٹان میں بھی یہیں سے کنٹرول ہوتا ہے۔ بہرحال نیپال میں دو پختہ مساجد بنی ہیں اور دو عارضی شیڈ بنائے گئے۔

مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر پر ہر جگہ خاص طور پر توجہ دی جاتی ہے۔ بھارت کی ایک جماعت میں بڑے عرصے کے بعد ہمارا وفد وہاں ایک گاؤں میں گیا تو لوگوں نے بتایا کہ ہم عرصہ ہوا احمدی ہوئے تھے اور ہمارے پاس نہ کوئی مسجد ہے، نہ مشن ہاؤس ہے اور مخالفین نے ہمیں یہ کہا کہ جماعت احمدیہ تو اب ختم ہو چکی ہے۔ یہاں تو اس صوبے کا جو مرکز ہے وہ بھی ختم ہو چکا ہے اور اب تمہیں جماعت میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جماعت چھوڑ دو۔ تو اس طرح بہت ساری بیعتیں جو ماضی میں ہوتی رہیں وہ ضائع ہو گئیں کیونکہ رابطے نہیں رہے۔ اور جب تک مساجدنہ ہوں، جب تک مشن ہاؤسز نہ ہوں، جب تک معلّمین نہ ہوں ان جماعتوں کو قائم رکھا بھی نہیں جا سکتا۔ اس لئے جو بعض اعتراض ہوتے ہیں کہ اتنی تعداد کہاں گئی وہ تعداد اس لئے ضائع ہو گئی کہ ان کے رابطے نہیں رہے اور اس کے لئے اب جو plan کئے گئے ہیں وہ یہی ہیں کہ جہاں جہاں جماعتیں بنیں، جہاں جہاں بیعتیں ہوں اور افراد جماعت کی تعداد اچھی خاصی ہو جائے تو وہاں مساجد بھی بنائی جائیں اور افریقہ میں بھی اور بھارت میں بھی اور دوسری جگہوں پہ بھی مشن ہاؤس بھی بنائے جائیں۔ اس کے علاوہ جو کام ہوتے ہیں اس میں بھی اخراجات ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں دوران سال تربیتی کلاسوں کا انعقاد ہوا۔ کافی تعداد میں ریفریشر کورسز ہوئے اور ان پر بھی اخراجات ہوتے ہیں۔ اس وقت صرف ہندوستان میں جو معلّمین کام کر رہے ہیں ان کی تعداد بھی 1127 ہے۔ ان کے الاؤنسز ہیں۔ ان کی رہائشگاہیں ہیں اور ان کے سفر کے اخراجات ہیں۔ اس طرح کے بڑے وسیع اخراجات ہوتے ہیں۔ پھر افریقہ ہے۔ افریقہ کے 26ممالک میں اس وقت 1287لوکل معلّمین کام کر رہے ہیں۔ دیہاتوں میں مساجد کی تعمیر کے ساتھ بعض مقامات پر معلمین کی رہائش کے لئے کمرے یا مکان بھی تعمیر کئے گئے۔ پھر اس کے علاوہ جہاں معلّمین کو ٹھہرانے کے لئے تعمیر نہیں ہوتی کیونکہ جیسا کہ مَیں نے کہا جماعتیں اگر قائم رکھنی ہیں پھر بہرحال معلّمین بھیجنے پڑتے ہیں گو ان کی تعداد ابھی بہت کم ہے اور ہمیں بہت زیادہ معلّمین چاہئیں لیکن بہرحال جس حد تک کوشش کی جا سکتی ہے کرنی چاہئے۔ تو جہاں ابھی فوری طور پہ مکان نہیں بن سکتے وہاں کرائے پر مکان لئے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی افریقہ میں ہی مثلاً 372ایسی جماعتیں ہیں جہاں کرائے پر مکان لے کر وہاں ان معلّمین کو رکھا ہوا ہے۔

اس سال میں افریقہ میں 130مساجد مکمل ہوئی ہیں۔ 47مساجد اس وقت زیر تعمیر ہیں اور ان کا جو منصوبہ ہے اس سال میں ہی 95مزید مساجد بنانے کا بھی ہے۔

پھر افریقہ کے اٹھارہ ممالک میں 82مشن ہاؤسز کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ تیرہ (13) ممالک میں اکیس (21) مشن ہاؤسز زیر تعمیر ہیں اور اس کے علاوہ بھی تعمیری منصوبے ہیں۔ افریقہ میں تربیت کے لئے، نومبائعین کی تربیت کے لئے تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز بھی ہوتے ہیں۔ دوہزار ایک سو چھپن (2156) مقامات پر سینتیس ہزار کے قریب تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز مکمل کئے گئے اور اس میں تقریباً ایک لاکھ نَومبائعین نے شرکت بھی کی۔ 1132 اماموں نے ٹریننگ لی۔ نومبائعین کی تعلیم و تربیت کے لئے اور ان کو نظام جماعت کا فعال حصہ بنانے کے لئے مختلف ممالک میں ان کی تعلیمی و تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز کا انعقاد کیا جاتا ہے جیسا کہ میں نے بتایا اور بہت سارے جو شریف الطبع مساجد کے امام بھی بیعت کرتے ہیں اور احمدیت میں شامل ہوتے ہیں تو ان کی بھی نئے سرے سے تربیت کرنی پڑتی ہے۔ انہیں تربیت دینی پڑتی ہے۔ صحیح اسلام کے بارے میں مسائل سکھانے پڑتے ہیں۔ ان کی کلاسیں لگائی جاتی ہیں۔ تو اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا اماموں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ان کی جو کلاسز ہیں وہ ہفتے سے لے کے دو ہفتے تک سال کے مختلف اوقات میں، سال کے مختلف حصوں میں لگتی ہیں۔ ان پر رہائش اور خوراک وغیرہ کے اخراجات آتے ہیں۔ یہاں جو رپورٹیں میرے سامنے آئی تھیں اس میں مَیں دیکھ رہا تھا کہ برکینا فاسو اور نائیجر کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کام بہت بہتر ہو سکتا ہے جو یہ نہیں کررہے۔

بہرحال اب شامل ہونے والوں کے کچھ کوائف پیش کرتا ہوں۔ پہلے تو مَیں نے بتایا تھا کہ یہ اتنا اضافہ ہوا۔ اب ہے وقف جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد۔ 2010ء میں یہ تعداد چھ لاکھ تھی۔ اُس وقت مَیں نے خاص طور پر مختلف جماعتوں کو تحریک کی تھی کہ تربیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک چندے کے نظام میں شامل نہیں کریں گے۔ اب اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان شامل ہونے والوں کی تعداد بارہ لاکھ سے اوپر جا چکی ہے لیکن ابھی بھی بہت زیادہ گنجائش ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا چندوں میں شمولیت کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ ایمان میں بھی ترقی نہیں ہو سکتی اور پھر چندوں کا نظام ہی ایسا نظام ہے جس کی وجہ سے پھر رابطے بھی رہتے ہیں اور خود چندہ دینے والوں کو چندے کی برکات کا پتا چلتا ہے اور پھر ان میں شوق پیدا ہوتا ہے۔ چند ایک واقعات بھی اس کے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تنزانیہ کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کی رہنے والی ایک نومبائع خاتون نے صرف ایک ماہ پہلے بیعت کی تھی۔ ان کو جب وقف جدید کی برکات کے بارے میں بتایا گیا تو کہنے لگیں کہ اس وقت میرے پاس رقم تو نہیں ہے لیکن چونکہ چندہ کی ادائیگی کا سال ختم ہو رہا ہے۔ مَیں چندے کی برکت سے محروم نہیں ہونا چاہتی تھوڑا سا انتظار کریں۔ چنانچہ وہ اپنے گھر گئیں۔ گھر میں انڈے پڑے ہوئے تھے۔ وہاں سے انڈے لئے۔ وہ جا کے بازار میں بیچے اور دوہزار شلنگ ان کی قیمت وصول ہوئی۔ وہ آکے چندہ وقف جدید میں دے گئیں۔ اب یہ صرف ایک مہینہ پہلے احمدی ہوئیں اور ان کو یہ احساس ہوا کہ چندہ دینا ضروری ہے۔

اسی طرح ایک نومبائع ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ جو رقم تھی وہ میں نے چندے میں دے دی۔ کسی نے ان کی رقم دینی تھی۔ کہتے ہیں وہ رقم میں نے چندے میں دے دی اور بڑے عرصے سے کسی شخص سے رقم مانگ رہے تھے جس نے ان سے ادھار لیا ہوا تھا، قرض لیا ہوا تھا اور واپس نہیں کر رہا تھا۔ چندہ دینے کے فوراً بعد ہی اس کا پیغام آیا کہ تمہاری وہ رقم میرے پاس پڑی ہوئی ہے وہ لے جاؤ اور وہ اس رقم سے چار پانچ گنا زیادہ تھی جو انہوں نے چندے میں دی۔

پھر گیمبیا کی ایک خاتون ہیں انہوں نے دو سال پہلے بیعت کی تھی۔ ان کی شادی کو دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ گزشتہ سال جب وقف جدید کے چندہ کی تحریک کی گئی تو انہوں نے اپنی استعداد کے مطابق چندہ ادا کیا اور پھر مجھے بھی دعا کے لئے لکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور موصوفہ کو اللہ تعالیٰ نے اب دو جڑواں بچوں سے نوازا ہے اور یہ کہتی ہیں کہ مجھے اب سمجھ آئی کہ چندے کی برکات کیا ہیں؟

پھر گیمبیا سے ہی امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کے ایک دوست ہیں۔ ایک سال سے بیمار تھے اور بیماری کے دوران نہ چل سکتے تھے، نہ پھر سکتے تھے، نہ کوئی کام کر سکتے تھے۔ اس وجہ سے مالی حالت بھی بہت زیادہ خراب تھی۔ چنانچہ گزشتہ سال جب وقف جدید کی تحریک کی گئی تو ان کے پاس پانچ ڈلاسی تھے جو ان کو کسی نے صدقے کے طور پر دئیے تھے۔ وہ پانچ ڈلاسی انہوں نے وقف جدید میں ادا کر دئیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ایسا فضل کیا کہ جو شخص چلنے پھرنے سے قاصر تھا اس کے کام میں ایسی برکت ڈالی کہ اب جانوروں کا ایک ریوڑ ان کے پاس ہے اور وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ سب فضل فرمایا کہ میری فصلیں بھی اچھی ہونے لگ گئیں اور میرے پاس جانوروں کا بڑا ریوڑ آ گیا یہ سب چندے کی برکات ہیں۔ گیمبیا سے ہی امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون کا خاوند سات سال پہلے اچانک غائب ہو گیا۔ خاتون بڑی پریشان رہتی تھی۔ اس کو لوگ کہتے تھے کہ اتنا عرصہ ہو گیا وہ نہیں آیا۔ فوت ہو چکا ہوگا۔ تم شادی کر لو۔ وہ کہتی تھی نہیں۔ بہرحال چندے کے لئے جب ان کے پاس گئے۔ وقف جدید کا چندہ انہوں نے دینا تھا۔ پانچ ڈلاسی انہوں نے چندہ ادا کر دیا اور کہتی ہیں کہ اس چندے کی ادائیگی کے بعد مجھے ایک ذہنی سکون مل گیا۔ اور پھر نہ صرف ذہنی سکون ملا۔ دو ماہ کے بعد ہی اچانک ایک دن ان کا خاوند صحیح سالم گھر پہنچ گیا جو کہیں کسی وجہ سے پھنس گئے تھے یا کسی ایسی جگہ چلے گئے تھے جہاں سے آنا مشکل تھا۔ بہرحال ان کے وہ حالات ٹھیک ہو گئے۔ خاوند بھی آ گیا اور اب اللہ کے فضل سے ان کے بیٹی بھی پیدا ہوئی۔

فِن لینڈ سے ایک دوست لکھتے ہیں کہ 510 یورو میرا پچھلے سال کا وعدہ تھا۔ اس سال میں نے کہا چلو حالات ٹھیک نہیں تو میں نے اپنا وعدہ ایک سو یورو کر دیا کہ زیادہ نہیں دے سکتا۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرح پکڑا کہ ایک دن اچانک میری گاڑی سڑک پر خراب ہو گئی اور اس کو مرمت کے لئے ورکشاپ لے جانا پڑا۔ جو بِل آیا وہ بعینہٖ اتنا تھا جتنا پہلے انہوں نے وعدہ کیا ہوتا تھا یعنی 510یورو۔ تو گھر پہنچتے ہی انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اصل میں مجھے سبق دیا ہے۔ پھر فوری طور پہ انہوں نے اپنا وقف جدید کا وعدہ پورا کیا اور چندہ ادا کیا۔

سیرالیون کی ایک احمدی خاتون پرائمری سکول کی ہیڈ مسٹرس ہیں۔ کہتی ہیں کہ مشنری صاحب نے چندے کی تحریک کی۔ میرے پاس رقم نہیں تھی۔ پہلے میں دے چکی تھی۔ کہتی ہیں میرا ایک بھائی تھا جو بڑے عرصہ سے عیسائی ہو گیا تھا اور مجھ سے ناراض تھا کہ تم بھی عیسائی ہو جاؤ اور چھوڑ کے امریکہ چلا گیا تھا۔ خیر کہتی ہیں میں نے مشکل سے چندہ تو ادا کر دیا گو حالات ایسے نہیں تھے۔ ایک دن اس کا فون آیا اور اس نے کہا کہ ٹھیک ہے تم بیشک مسلمان رہو۔ احمدی رہو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بہرحال مجھے تحریک ہوئی ہے کہ میں تمہاری مدد کروں۔ اس لئے میں تمہیں ایک بڑی رقم بھیج رہا ہوں۔ چنانچہ اس نے رقم بھیجی۔ بھائی سے رابطہ بھی ہو گیا اور کشائش بھی پیدا ہو گئی۔

ہندوستان سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ کوئمبتور (Coimbator) کے ایک دوست اپنی بیٹی کے لئے زیور خریدنے بازار گئے۔ زیور پسند کر رہے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا۔ انہوں نے دکاندار سے کہا کہ ہم نماز پڑھ کے آتے ہیں۔ پھر زیور لیں گے۔ خطبہ جمعہ میں ان کو میرے خطبہ کا خلاصہ سنایاگیا جس میں تحریک جدید کے چندے کے نئے سال کا اعلان تھا۔ چندے کے بارے میں بتایا گیا اور اس میں ایک نابینا خاتون کی مالی قربانی کا واقعہ بھی مَیں نے سنایا تھا۔ اس کا ان دوست پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے نماز کے بعد بجائے زیور خریدنے کے وقف جدید کا چندہ ادا کر دیا اور مسجد سے باہر آ کر جب اپنی اہلیہ سے اس بات کا ذکر کیا تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ خطبہ کے دوران مَیں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا کہ یہ چندہ دے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری بیٹی کے زیور کا کوئی اور انتظام کر دے گا۔

ہندوستان میں سہارنپور سے ہی انسپکٹر وقف جدید لکھتے ہیں کہ یوپی کے ایک گاؤں میں ایک احمدی دوست کے گھر وقف جدید کی وصولی کے لئے گئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ عید آنے والی ہے اور میرے پاس صرف دو سو روپے ہیں۔ چاہو تو عید کے کپڑے بنا لو چاہو تو چندہ ادا کر دو۔ اس وقت موصوفہ نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کریں کپڑے تو بعد میں بن جائیں گے۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ یہ ان کے گھر دوبارہ چندہ لینے گئے تو ان کا گھر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ موصوف نے بتایا کہ ہم نے جب سے چندہ ادا کیا ہے تب سے ہمارے پاس بہت کام آیا ہے۔ پہلے تو میں کھیتوں میں دوسروں کا ٹریکٹر چلاتا تھا اب اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا ہے کہ میں نے خود اپنا ٹریکٹر خرید لیا ہے اور کام میں بے انتہا برکت پڑ گئی ہے۔

ہندوستان سے ہی اڑیسہ کی ایک جماعت جگت گیری ہے (میرا خیال ہے یہ اڑیسہ میں ہی ہے)۔ بہرحال جو بھی جگہ ہے وہاں کے ایک شخص قرضے میں ڈوبے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے پھر رہے تھے۔ چھپ چھپا کر اپنا وطن چھوڑ کے حیدرآباد چلے گئے۔ خیر ان کو (انسپکٹر وقف جدید کو) جب ان کے بارے میں علم ہوا تو ان کے پاس پہنچے۔ وہاں رابطہ ہوا۔ مربی صاحب نے یا انسپکٹر صاحب نے ان کو چندے کی اہمیت بتائی۔ خیر انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنا چندہ ادا کر دیا اور جماعت سے رابطہ بھی رکھا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ آمدنی پیدا ہونی شروع ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے سارے قرضے بھی اتار دئیے اور نہ صرف ان کے قرضے اتر گئے جس کی وجہ سے چھپتے پھرتے تھے بلکہ کہتے ہیں میں نے اپنا مکان بھی خرید لیا۔ اب انہوں نے اپنا وعدہ اس سے کئی گنا بڑھ کے لکھوا دیا۔

بنگال اور سکّم کے انسپکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ دارجلنگ جماعت کے ایک دوست دس سال قبل جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ مالی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ اس سال جب وقف جدید کے بجٹ کے لئے ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ والد کا آپریشن تھا جس میں ایک لاکھ روپے خرچ ہو گئے ہیں اس لئے کافی تنگی ہے۔ موصوف نے اپنا وقف جدید کا بائیس ہزار روپے کا وعدہ جو اُن کا کافی بڑا وعدہ تھا، کم کر کے سترہ ہزار روپے کروا دیا لیکن جب وصولی کرنے کے لئے گئے تو بائیس ہزار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خیال آیا کہ میں ایک نیکی کو جب جاری کر چکا ہوں تو کیوں اس میں کمی کروں۔ تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ ایمانوں میں اضافہ کرتا ہے اور خود احساس پیدا کرواتا ہے کہ تم لوگ قربانیاں کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مزید وارث بنو۔

ماریشس سے ایک احمدی دوست بیان کرتے ہیں کہ 2015ء میں جب میری طرف سے خطبہ جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوا تو کہتا ہے میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے تو کبھی یہ چندہ ادا نہیں کیا۔ خطبہ کے دوران ہی میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر مجھے کام مل گیا تو پچیس ہزار ماریشین روپے جو تقریباً پانچ سو پاؤنڈ بنتے ہیں وقف جدید میں ادا کروں گا۔ کہتے ہیں چند دن بعد ہی مجھے پانچ لاکھ روپے کا ایک contract مل گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے وعدے کے بدلے میں بیس گنا زائد عطا فرمایا ہے اور اس کے ملتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا چندہ ادا کیا۔

بینن افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے ایک مخلص احمدی آوموسوں قدوس صاحب ہیں۔ نوجوان بچہ ہے۔ سولہ سترہ سال عمر ہے لیکن چندہ دینے میں مزدوری کر کے چندہ دیتے تھے لیکن ان کے بھائی بیمار تھے اور بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج کرانے کے باوجود فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ بہرحال بڑی فکرمندی تھی۔ انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے خط لکھا۔ خود بھی دعا کرتے رہے اور اس کے بعد ایک ہزار فرانک چندے کے طور پر بھی پیش کیا۔ کہتے ہیں کہ کیونکہ خاص طور پر اس نظر سے کیا تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ غیر معمولی طور پر ان کے بھائی کو شفا ہو گئی بلکہ یہ بیان کرنے والے وہاں کے مبلغ ہیں بیان کرتے ہیں کہ ہم نے انہیں کہا بھی کہ تمہارا بھائی بیمار ہے تمہیں ضرورت ہے ابھی تم یہ چندہ نہ دو، بعد میں دے دینا۔ اس نے کہا نہیں۔ اس نے نقد سودا کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی فوری طور پہ نوازا۔

بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست بڑی باقاعدگی سے چندہ دینے والے ہیں۔ یہ کہتے ہیں 4؍دسمبر 2015ء کی رات ڈاکوؤں کا ایک بہت بڑا گروہ مختلف گاؤں کی بھینسیں چُراتا ہوا ہمارے گاؤں میں بھی آ گیا اور اسلحے کے زور پہ وہ ان کی سب بھینسیں لے گئے۔ لیکن ڈاکوؤں کا یہ گروہ ابھی بھینسیں لے کر گاؤں سے نکلا ہی تھا کہ بڑے زور کی آندھی چلنی شروع ہو گئی اور تمام گائیاں بھینسیں جو تھیں بدک کر بھاگ گئیں اور یہ ڈاکو جو تھے ان پہ قابو نہ پا سکے۔ تو ان احمدی صاحب کی کوئی بیس کے قریب گائیاں تھیں جو ان کے پاس آ گئیں بلکہ باقی جانور بھی یہیں آ گئے اور پھر ان لوگوں کو واپس کئے اور لوگوں کو بتایا کہ یہ سب کچھ جو تمہیں بھی واپس ملا ہے میری وجہ سے اس وجہ سے یہ ملا ہے کہ مَیں باقاعدگی سے چندہ دینے والوں میں سے ہوں۔ افریقہ کے دور دراز ملکوں میں بیٹھے ہوئے یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد کس طرح ایمان میں ترقی کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی ایک جماعت کے بارے میں سیکرٹری وقف جدید لکھتے ہیں کہ ایک خاتون نے گزشتہ سال وقف جدید کے بارہ میں خطبہ سنا اور وہ موصوفہ بڑی متاثر ہوئیں۔ اور دوہزار ڈالر ان کے پاس تھے وہ فوری طور پر انہوں نے ادا کر دئیے۔

اسی طرح آسٹریلیا سے ہمارے مبلغ ایک بچے کا واقعہ لکھتے ہیں۔ یہ ان کے گھر والوں سے باتیں کر رہے تھے اور وہ بچہ قریب بیٹھا باتیں سن رہا تھا تو تھوڑی دیر کے بعد وہ گیا اور اپنی بُگّی (گلّہ، بُغچی) اٹھا کے لے آیا۔ اس میں دو سو ڈالر تھے کہ یہ میری طرف سے وقف جدید کا چندہ ہے۔

ناروے کے امیر صاحب نے بھی لکھا ہے کہ ایک نارویجین نومبائع خاتون ہیں۔ انہیں جب تحریک کی گئی تو فوری طور پر دو سو کرون ادا کر دئیے اور کچھ دن کے بعد موصوفہ نے بتایا کہ جس دن میں نے چندہ ادا کیا تھا اس سے اگلے روز ہی میرے bossنے مجھے بلا کر میری تنخواہ میں دو سو کرون کا اضافہ کر دیا حالانکہ میں نے کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ کہتی ہیں میں نے تو ایک دفعہ دو سو کرون دئیے تھے اور اب مجھے ہر ماہ دو سو کرون زائد مل رہے ہیں۔ کونگو کنساشا میں ایک دوست ہیں۔ حال ہی میں بیعت کی ہے۔ ان کو جماعت کے مالی نظام سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے اسی وقت باقاعدگی سے چندے کی ادائیگی شروع کر دی۔ یہ نومبائع دوست بیان کرتے ہیں کہ چندے کی ادائیگی سے میرے مالی حالات میں بہت بہتری آ گئی ہے۔ اس سے پہلے میں جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا وہ بار آور نہ ہوتا تھا لیکن جب سے چندے کی ادائیگی شروع کی ہے خدا تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا ہے کہ اب میرے پاس گائیاں بھی ہیں اور رزق میں بہت برکت پڑ گئی ہے۔

جرمنی کے نیشنل سیکرٹری وقف جدید لکھتے ہیں کہ جرمنی کی جماعت کا سیمینار تھا جس میں ایک نومبائع خاتون بھی شامل ہوئیں۔ جماعت کی صدر لجنہ نے انہیں بتایا کہ سیمینار کے بعدنومبائع خاتون نے وقف جدید میں چار سو یورو کی بڑی رقم ادا کی۔ یہ اپنی فیملی میں اکیلی احمدی ہیں اور ان کو بڑی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مخالفت بھی دور فرمائے۔

امیر صاحب کینیڈا لکھتے ہیں کہ ایک خادم نے humanity first میں سیرین refugees کے لئے بصیغہ راز کہ نام نہ بتایا جائے پچیس ہزار ڈالر کی مدد کر دی تھی۔ ان کو وقف جدید کے لئے کہا گیا۔ پہلے ہی صف اول میں شامل تھے یا ان میں شامل ہونے کی تحریک کی گئی تو انہوں نے ہچکچاہٹ کی اور صف دوم میں شامل ہونے کا وعدہ کیا۔ لیکن جب چندہ دینے کا وقت آیا تو انہوں نے کہا کہ چندہ مَیں صف اول کے لوگوں کے برابر دوں گا۔ اس میں شامل کرلیں۔ تنزانیہ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست چند سال پہلے عیسائی سے احمدی ہوئے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ پچھلے سال رمضان میں اتفاقاً مارکیٹ میں آگ لگنے سے کئی دکانیں جل گئیں اور میری دکان کا سارا سامان بھی بالکل خاکستر ہو گیا۔ اسی دکان پر میرا انحصار تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مارکیٹ والے دوستوں نے مشورہ دیا کہ بنک سے سود پر قرضہ لے کر کاروبار کا دوبارہ آغاز کروں جیسا کہ میرے دوسرے پڑوسی کر رہے تھے لیکن میں نے کہا کہ میرا اللہ میرے حالات اور میری ضروریات کو جانتا ہے۔ توکّل بھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بڑھاتا ہے۔ پھر عیسائیت سے احمدیت قبول کی تو کس طرح ایمان میں بڑھے۔ کہتے ہیں مَیں ہرگز ایسا کام نہیں کروں گا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ سودنہیں لوں گا چاہے اس میں بظاہر فائدہ کیوں نہ ہو۔ کہتے ہیں کچھ مقامی جماعت کے دوستوں نے اور کچھ جماعت نے میری تھوڑی سی مدد کی۔ بغیر میرے کہے یہ مدد کرتے رہے اور دوبارہ میں نے کام شروع کر دیا اور کاروبار میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی کیونکہ میں نے ساتھ کاروبار شروع کرتے ہی اپنے چندے بھی بڑھا دئیے اور وعدے سے زیادہ ادائیگیاں کیں۔ کہتے ہیں ابھی میری دکان کو جلے چھ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے رزق میں اتنی برکت ڈالی کہ جو نئی دکان بنائی تھی اس میں ایسا کاروبار ہوا کہ پہلے کبھی مجھے اتنی آمد چھ مہینے میں بھی نہیں ہوتی تھی جتنی جلدی جلدی اب ہونے لگی۔ میری بیوی بیمار تھی وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بہت بہتر ہے۔ کہتے ہیں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا پھل ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پاک کمائی سے خرچ کرو تو برکت پڑتی ہے تو دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ان کو کس طرح اس کا پھل دیا کہ انہوں نے کہا کہ میں غلط طریقے سے رقم نہیں لوں گا اور مدد لے لی، کچھ قرض لے لیا اور کاروبار شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے برکت ڈالی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پاک کمائی سے دی ہوئی ایک کھجور کی بھی جو گٹھلی ہے اللہ تعالیٰ اسے پہاڑ بنا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ ایک چھوٹا بچھڑا ہوتا ہے اور وہ بڑا جانور بن جاتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب حدیث1410)۔ اسی طرح پاک کمائی سے کی گئی قربانی کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے۔ پس یہ نظارے اللہ تعالیٰ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جماعت کے افراد کو دکھاتا ہے۔

اب میں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا گزشتہ سال کی رپورٹ پیش کرتا ہوں۔ پاکستان کے بعد جو ممالک ہیں ان میں اس سال کُل ممالک میں دوسرے اور باہر کے ممالک میں پہلے نمبر پر برطانیہ ہے۔ یوکے پہلا نمبر۔ امریکہ دوسرے نمبر پہ۔ جرمنی تیسرے نمبر پہ۔ کینیڈا چوتھے پہ۔ ہندوستان پانچویں پہ۔ آسٹریلیا چھٹے پہ۔ انڈونیشیا اور اسی طرح ایک مڈل ایسٹ کی جماعت ساتویں پہ۔ اور مڈل ایسٹ کی ہی ایک اَور جماعت ہے وہ آٹھویں نمبر پہ ہے۔ بیلجیم نویں پہ اور گھانا دسویں پہ۔

مقامی کرنسی میں وصولی میں اضافے کے لحاظ سے گھانا نمبر ایک پر ہے۔ اس کے بعد امریکہ ہے۔ پھر برطانیہ ہے۔

بڑی جماعتوں میں فی کس ادائیگی کے لحاظ سے پہلے مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر امریکہ ہے۔ پھر دوبارہ مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر چوتھے نمبر پر سوئٹزر لینڈ۔ پھر پانچویں نمبر پہ برطانیہ۔ چھٹے پہ آسٹریلیا۔ ساتویں پہ بیلجیم۔ آٹھویں پہ جرمنی اور نویں پہ کینیڈا۔

جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک وقف جدید کے شاملین میں بارہ لاکھ سے اوپر تعداد شامل ہوئی۔ بارہ لاکھ پینتیس ہزار سے اوپر لوگ شامل ہوئے اور گزشتہ سال سے ایک لاکھ چھ ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ افریقہ کے علاوہ شاملین میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں اضافے کے لحاظ سے انڈیا نمبر ایک پہ ہے۔ پھر کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ نمایاں ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اضافہ افریقہ کے ممالک میں ہوا ہے اور افریقہ میں پہلے نمبر پر نائیجیریا ہے۔ پھر کیمرون ہے۔ پھر گنی کناکری ہے۔ پھر نائیجر ہے۔ پھر برکینا فاسو ہے۔ پھر مالی ہے۔ بینن ہے۔ تنزانیہ ہے اور یوگنڈا ہے۔

چندہ بالغان میں پاکستان کی پہلی تین جماعتوں میں اوّل لاہور ہے۔ دوسرے نمبر پہ ربوہ ہے۔ تیسرے پہ کراچی ہے۔ پاکستان میں اضلاع کی پوزیشن یہ ہے۔ پہلے نمبر پر فیصل آباد۔ پھر اسلام آباد۔ پھر سرگودھا۔ پھر گوجرانوالہ۔ پھر گجرات۔ ملتان۔ عمر کوٹ۔ نارووال۔ حیدرآباد اور بہاولپور۔

دفتر اطفال میں پاکستان کی تین بڑی جماعتوں میں اوّل لاہور۔ دوم کراچی۔ سوم ربوہ۔ اور اضلاع کی پوزیشن یہ ہے نمبر ایک پہ اسلام آباد۔ نمبر دو پہ فیصل آباد۔ نمبر تین گوجرانوالہ۔ نمبر چار گجرات۔ نمبر پانچ حیدرآباد۔ نمبر چھ ڈیرہ غازی خان۔ نمبر سات ملتان۔ نمبر آٹھ کوٹلی (آزاد کشمیر)۔ نمبر نو میر پور خاص اور نمبر دس پشاور۔ برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ worcester park۔ پھر Raynes Park۔ پھربرمنگھم ویسٹ۔ پھر مسجد فضل۔ پھر ومبلڈن پارک۔ پھر Gillingham، پھر Cheam South، پھر نیومالڈن۔ پھر بریڈ فورڈ ساؤتھ اور گلاسگو۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کے جو ریجنز ہیں وہ Midlandsنمبر ایک پہ۔ پھر نارتھ ایسٹ۔ پھر لندن اے۔ پھر لندن بی اور پھر Middlesex ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی دس جماعتیں۔ سلیکون ویلی، Seattle، ڈیٹرائٹ، سنٹرل ورجینیا، لاس اینجلس ایسٹ، سلور سپرنگ، یارک/ ہیرس برگ، بوسٹن، Houston Northاور Dallas ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی پانچ لوکل امارتیں یہ ہیں۔ ہیمبرگ نمبر ایک پہ۔ پھر فرینکفرٹ، گروس گیراؤ، پھر ویزبادن، مورفلڈن والڈورف۔

اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے جو دس جماعتیں ہیں وہ Roedermark، نوایس، فریڈبرگ، Florsheim، کوبلنز، Hanau، ہنوفر، نِیڈا، وائن گارٹن اور فُلڈا ہیں۔ کینیڈا کی تین جو امارتیں ہیں وہ نمبر ایک پہ کیلگری۔ نمبر دو پہ وان۔ نمبر تین پہ وینکو ور ہیں۔ پانچ بڑی جماعتیں۔ ملٹن جارج ٹاؤن نمبر ایک پہ۔ پھر ڈرہم۔ پھر ایڈمنٹن ویسٹ۔ پھر سسکاٹون نارتھ اور پھر آٹوا ویسٹ ہیں۔ اطفال میں کینیڈا کی پانچ نمایاں جماعتیں۔ ڈرہم نمبر ایک پہ۔ پھر کیلگری نارتھ ویسٹ۔ ملٹن جارج ٹاؤن۔ پھر پِیس ولیج ایسٹ۔ وُڈ برج ہیں۔ مَیں کئی مرتبہ پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ دفتر اطفال میں جس طرح کینیڈا میں آرگنائز ہوکر کام ہو رہا ہے باقی دنیا کے جو بڑے ممالک ہیں ان کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے اور کام کرنا چاہئے۔ اس بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ دفتر اطفال صرف وقف جدید میں ہوتا ہے، تحریک جدید میں نہیں ہوتا۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے بھارت کے صوبہ جات میں کیرالہ نمبر ایک۔ تامل ناڈو نمبر دو۔ جموں و کشمیر۔ تیلنگانا۔ پھر کرناٹکا۔ پھر ویسٹ بنگال۔ پھر اُڑیشہ۔ پھر پنجاب۔ پھر اتر پردیش۔ پھر دہلی۔ پھر مہاراشڑا ہیں۔ اور وصولی کے لحاظ سے جو جماعتیں ہیں نمبر ایک پے کارولائی۔ کالیکٹ۔ پھر حیدرآباد۔ پھر پاٹھا پریام۔ پھر قادیان۔ پھر کانُور ٹاؤن۔ پھر کلکتہ۔ پھر سُولُور۔ پھر بینگلور، پینگاڈی اور رِشی نگر۔

آسٹریلیا کی دس جماعتیں ملبرن ساؤتھ، کاسل ہِل، ماؤنٹ ڈروئیٹ، پینرِتھ، ایڈیلیڈ ساؤتھ، پلمپٹن، برزبِن ساؤتھ، برزبن لوگان، مارزڈن پارک اور بلیک ٹاؤن ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آسٹریلیا میں کسی نے مجھ سے سوال پوچھا تھا کہ وقف جدید میں اطفال کا دفتر ہے۔ تحریک جدید میں بھی ہے؟ تو واضح ہو کہ تحریک جدید میں کوئی نہیں۔ اطفال سے جو چندہ وصول کیا جاتا ہے اور خاص طور پہ زور دیا جاتا ہے وہ وقف جدید کے لئے ہے اور اس کے لئے علیحدہ دفتر ہے۔

اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے اموال اور نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور اس سال میں اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر جہاں قربانی کی توفیق دے وہاں تعداد میں بھی اضافہ فرمائے۔

اب مَیں نمازوں کے بعد دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ مکرم محمد اسلم شاد منگلا صاحب کا ہے جو 31؍ دسمبر 2015ء کو رات دس بج کر چالیس منٹ پر تقریباً 71سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ دل کی تکلیف تو ان کو تھی۔ چیک اَپ کے لئے ہسپتال گئے تھے۔ وہیں ان کو ڈاکٹر نے جو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ حالت ٹھیک نہیں ہے اور ان کو داخل کر لیا۔ پھر ان کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ پھر وینٹی لیٹر(Ventilator) پر شفٹ کیا گیا۔ پھر دوبارہ ان کو اس دوران میں ہی ہسپتال میں فالج کا بھی حملہ ہوا اور ہارٹ اٹیک بھی ہوا۔ پھر گردوں کی تکلیف بھی شروع ہوگئی اور ڈائلیسز (Dialysis) کیا جاتا رہا۔ بہرحال جب تیسری بار ان کو وہیں ہسپتال میں ہارٹ اٹیک ہوا تو پھر باوجود شاک (Shock) دینے کے ریکوری (Recovery) مشکل تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے والد کا نام حاجی صالح محمد منگلا تھا۔ ان کا تعلق 168-171چک منگلا سرگودھا سے ہے۔ والدہ کا نام صاحب بی بی تھا اور 1955ء میں آپ کے والد حاجی محمد صالح صاحب کی سربراہی میں چک منگلا کے 80افرادنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر ربوہ آ کر بیعت کی تھی اور اس کا ذکر بھی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے کہ ایک جماعت ملی تھی۔ ان میں بچوں میں مکرم محمد اسلم صاحب شاد منگلا بھی شامل تھے۔ ان کی عمر اس وقت صرف دس سال تھی۔ انہوں نے پرائمری تک تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر ربوہ سکول میں داخل کرنے کے لئے ان کے والد لے کے آئے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں چھٹی کلاس میں داخلہ مل گیا۔ ان کے والدنے ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد جو اس وقت کالج کے پرنسپل تھے ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ مَیں ایک چڑیا آپ کے سپرد کر رہا ہوں اسے باز بنا دیں۔ چنانچہ حضرت خلیفہ ثالثؒ نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ انشاء اللہ باز بنے گا اور اللہ تعالیٰ نے بعد میں ماشاء اللہ ان کو کافی خدمت کی توفیق دی۔ 61ء میں انہوں نے میٹرک پاس کیا۔ پھر تعلیم الاسلام کالج سے بی اے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ اے عربی کیا اور وہاں بھی پوزیشن لی۔ پھر 1966ء میں ایم۔ اے عربی مکمل کرنے کے بعد 1980ء تک یہ 14سال بطور لیکچرر تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں خدمت بجا لاتے رہے۔ سکول کالج 1973ء میں شاید 74-75ء میں قومیائے گئے تھے۔ بہرحال 1980ء میں حکومت کی طرف سے احمدی اساتذہ کے مختلف مقامات پر تبادلوں کی وجہ سے آپ نے وہاں سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ آپ خدمت کرنا چاہتے تھے اس لئے مطمئن نہ ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش ہوئے اور وقف کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے دفتر میں آ جائیں۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ان کو رکھ لیا اور تین ماہ کے بعد آپ کو اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری بنا دیا۔ 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کیا اور تا وقت وفات آپ ربوہ میں پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ جب خلیفۃ المسیح الرابعؒ لندن آئے ہیں تو اس وقت آپ کو تقریباً ایک سال یہاں لندن میں بھی پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ 1982ء سے وفات تک سیکرٹری مجلس شوریٰ پاکستان کے طور پران کو خدمت کی توفیق ملی۔ 68ء سے 83ء تک مجلس خدام الاحمدیہ میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ 86ء سے 2015ء تک انصار اللہ میں مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی اور اِس وقت نائب صدر تھے۔ آپ کی اہلیہ اور چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر دے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ ان کے ایک بیٹے محمدنیّر منگلا مربی سلسلہ ربوہ میں ریسرچ سیل میں ہیں۔ دوسرے عتیق منگلا واقف نَو ہیں اور میڈیکل لیب (Lab) ٹیکنیشن ہیں۔ ان کے داماد کہتے ہیں کہ آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے اور ہر قسم کی پریشانی کا بڑی ہمت کے ساتھ خود ہی مقابلہ کرنے والے تھے اور کبھی بھی آپ کی زبان سے کسی بھی دکھ یا تکلیف کا اظہار میں نے نہیں سنا۔ ساری زندگی خدمت دین کے لئے وقف تھی۔ صبح شام دن رات تمام وقت جماعت کے کاموں میں مصروف رہتے تھے اور حقیقت میں انہوں نے وقف کا حق ادا کیا۔ یہ مَیں نے خود بھی ان کو دیکھا ہے۔

ان کے بیٹے نیّر احمد کہتے ہیں کہ تہجد کے لئے خود بھی بیدار ہوتے اور گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کرتے اور بڑے سوز و گداز سے دعائیں کرنے والے تھے۔ باجماعت نمازوں پر جاتے ہوئے بچوں کو ساتھ لے کر جاتے۔

ان کی بیٹی عابدہ کہتی ہیں کہ خدا پر بہت توکّل تھا۔ بہت باہمت اور بلند حوصلہ کے مالک تھے۔ کوئی بھی مشکل ہوتی کبھی بھی چہرے اور زبان سے ظاہر نہ کرتے بلکہ خدا کے حضور روتے اور گڑگڑاتے اور خلیفۂ وقت کی خدمت میں دعا کے لئے تحریر فرماتے اور خواہ کوئی بڑی بات ہو یا معمولی بات ہمیشہ خلیفۂ وقت سے مشورہ لیتے۔ غریب رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے۔ بہو کہتی ہیں کہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ بڑے دھیمے مزاج کے، بہت مہمان نواز، ملنسار تھے۔ کبھی دفتر کی بات گھر میں آ کر نہیں کی بلکہ باہر سے اگر ہمیں کوئی بات پتا لگ جاتی تو کہتے اچھا تم نے یہ سنی ہے تو مجھے بھی بتا دو اور انہوں نے کوئی ایسا معاملہ جو دفتری ہو گھر آ کے کبھی ڈِسکس (Discuss) نہیں کیا۔

ان کی بہو اسلم بھروانہ صاحب شہید کی بیٹی ہیں۔ کہتی ہیں میرے والد کی شہادت کے بعد تو اور بھی زیادہ میرا خیال رکھا اور بہوؤں کو ہمیشہ ایک مقام دیا۔ گھر میں کوئی مسئلہ ہوتا تو بہوؤں کی رائے بھی لی جاتی۔ اصل میں گھروں کو جنت نظیر بنانے کا یہ صحیح طریقہ ہے۔

ان کے بھتیجے کہتے ہیں کہ ہمیشہ جماعت اور خلافت کے لئے ان کا ہر لمحہ قربان ہوتے دیکھا اور خلافت سے بڑا پیار کا تعلق تھا۔

ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب لکھتے ہیں کہ آٹھ سال سے مکرم منگلا صاحب کی بعض خوبیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان خوبیوں میں سے نمایاں پہلو جو نظر آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ میں نے انہیں منکسر المزاج، نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک، ہمدرد، ملنسار، غرور اور نفرت سے پاک بہت عاجز انسان پایا۔ آپ شوگر بلڈ پریشر اور دل کی بیماری کے باوجود پنجوقتہ نمازوں کو التزام کے ساتھ مسجد میں جا کر ادا کیا کرتے تھے۔ خلافت سے انتہائی مخلص اور باوفا خدمتگار تھے۔

بشیر احمد صاحب کارکن دفتر پی ایس کہتے ہیں کہ مجھے ان کے ساتھ 22سال کام کرنے کا موقع ملا اور ہمیشہ مجھ سے پیار اور محبت سے تعاون کیا اور ہمیشہ رہنمائی فرماتے رہے۔

پھر دفتر پی ایس کے ہی کارکن وسیم صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ خاکسار کا کوارٹر منگلا صاحب کے ساتھ ہی تھا۔ ایک دفعہ خاکسار کی والدہ بیمار ہو گئیں تو بار بار خاکسار سے ان کی صحت کے حوالے سے دریافت کرتے رہے۔

مرزا داؤد صاحب بھی کارکن پی ایس ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ 24سال منگلا صاحب کے ساتھ کام کیا اور ہمیشہ انہوں نے بڑا اعتماد دیا اور کام کی نگرانی کی اور کام کی رہنمائی کی اور کبھی کوئی ناراض بھی ہو جاتا تو پہلے بلا کر دلجوئی کرتے۔

خالد عمران حفاظت خاص کے کارکن ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے لیکن درگزر کرنے والی صفت ان میں بہت نمایاں تھی۔ کسی کارکن سے خواہ کتنے ہی ناراض ہوں لیکن اس کی معذرت پر فوراً معاف کر دیتے تھے اور دل صاف کر لیتے تھے۔

ہمارے یہاں پرائیویٹ سیکرٹری میں کارکن سلیم ظفر صاحب ہیں وہ بھی کہتے ہیں منگلا صاحب سے بڑا پرانا تعلق ہے اور کوئی ایسی بات مجھے یادنہیں پڑتی کہ کبھیکسی سے اَن بن ہوئی ہو یا مستقل ناراضگی ہوئی ہو۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے۔

عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد لندن کہتے ہیں کہ میرا آپ سے بڑا لمبا تعلق تھا۔ خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مختلف حیثیتوں میں اکٹھا کام کیا۔ پھر بعد میں بھی رابطہ رہا۔ ان کی خلافت سے محبت اور عقیدت اور احساس ذمہ داری کا وصف بہت نمایاں تھا۔ کہتے ہیں جن دنوں لقاء مع العرب اور سوال و جواب کے دیگر پروگرام ریکارڈ ہوتے تھے کئی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ان سے مختلف معلومات کے سلسلے میں رابطہ کرنے کا موقع ملتا تھا اور فوری طور پہ بڑی مستعدی سے مطلوبہ معلومات بھجوا دیتے جو مَیں پیش کر دیا کرتا تھا۔

ملک نسیم صاحب کہتے ہیں کہ یہ مہتمم مقامی تھے اور مَیں ربوہ میں خدمت خلق کا ناظم تھا۔ ایک دفعہ ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ رات ساڑھے بارہ بجے یہ سائیکل پر میرے گھر آئے اور انہوں نے کہا کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ فیصل آباد میں مریض ہیں۔ فوری خدّام کو لے کر جائیں۔ میں نے کار کا انتظام کر دیا ہے۔ بعض لوگوں کو خون کی ضرورت ہے ان کے لئے خون کا انتظام کریں۔ کہتے ہیں سردی تھی مَیں نے کہا منگلا صاحب چائے پی کر جائیں۔ انہوں نے کہا چائے کا وقت نہیں ہے۔ لوگ اس وقت مر رہے ہیں آپ فوری وہاں پہنچیں۔ اور اس وقت ان کو شدید فلو اور بخار بھی تھا اس کے باوجود احساس ذمہ واری یہ تھا کہ سائیکل پر خودناظم خدمت خلق کے گھر پہنچے اور ان کو ٹیم تیار کر کے بھجوایا۔

جن صفات کا لوگو ں نے ذکر کیا ہے بچوں نے بھی، غیروں نے بھی اس میں ذرا بھر بھی مبالغہ نہیں ہے۔ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں میرے خیال میں ان کے اوصاف اس سے بہت زیادہ تھے۔ میرا ان سے لمبا عرصہ تعلق رہا۔ شروع شروع میں جب یہ کالج میں آئے ہیں تو چند دن شاید مَیں ان سے کالج میں پڑھا بھی۔ پھر خدام الاحمدیہ میں بھی، انصار اللہ میں بھی ان کے ساتھ کام کیا۔ پھر جب مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ناظر اعلیٰ بنایا تو اس وقت بھی براہ راست ان سے بہت زیادہ واسطہ رہا۔ مَیں نے ہمیشہ ان کو انتہائی اطاعت گزار دیکھا اور کام کرنے میں بڑا مستعد دیکھا ہے اور بڑی ذمہ داری سے کام کرتے تھے۔ پھر خلافت کے بعد بھی جب بھی ان کو کوئی کام دیا انہوں نے کیا۔ عاجزی انکساری ایسی تھی کہ کئی دفعہ مَیں نے ان کو جلسے پہ یہاں بلایا جب بھی آتے تھے تو عام کارکنوں کے ساتھ بیٹھ کے دفتر میں کام کیا کرتے تھے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ میں وہاں پرائیویٹ سیکرٹری ہوں تو یہاں مجھے علیحدہ میز کرسی ملے۔ عام کارکنوں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور معمولی معمولی کام بھی یہاں کر رہے ہوتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔

دوسرا جنازہ احمد شیر جوئیہ صاحب کا ہے جو حکیم صالح محمد جوئیہ صاحب کے بیٹے تھے۔ بیلجیم میں رہتے تھے۔ 67سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سوشل ورکر کے طور پر وہاں کام کرتے تھے۔ نمازوں کے پابند، شفیق، غریب پرور، نیک اور مخلص انسان تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹے اُسامہ جوئیہ جامعہ احمدیہ یوکے سے پڑھ کے اب آجکل مایوٹی(Mayotte) کے جزیرے میں مبلغ سلسلہ کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ یہ والد کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے کیونکہ میدان عمل میں تھے۔ ڈاکٹر نے احمد شیر جوئیہ صاحب کو کینسر کی وجہ سے لاعلاج قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ بس چند دن ان کی زندگی کے ہیں۔ عزیزم اُسامہ جوئیہ جو مبلغ سلسلہ ہیں ان دنوں میں وہ یہاں آئے ہوئے تھے اور والد کی بیماری کی وجہ سے پریشان بھی تھے۔ لیکن باپ نے بیٹے کو کہا کہ تمہارا کام میدان عمل میں رہنا ہے۔ تم میری بیماری کی فکر نہ کرو اور جاؤ اور جو کام جماعت کی طرف سے تمہارے سپرد کیا گیا ہے، خلیفہ وقت کی طرف سے جو کام سپرد کیا گیا ہے اس کو سرانجام دو۔ چنانچہ انہوں نے زبردستی بھیجا اور بیٹے کے جانے کے چند دن بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ عزیزم اُسامہ جوئیہ جو خدمت دین کے کام میں مصروف ہے اللہ تعالیٰ اسے بھی صبر عطا فرمائے اور پہلے سے بڑھ کر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور ماں باپ کی نیک خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں سے جتنے بھی واقفین نکل رہے ہیں، مبلغین مربیان بڑا کام کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ عاجزی اور کام کرنے کی صلاحیتیں اور ہمت ان میں ہمیشہ قائم رہے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ جنوری 2016ء شہ سرخیاں

    خدا تعالیٰ احمدیوں کے دلوں میں قربانی کی اہمیت ڈالتا ہے اور وہ غیر معمولی نمونے بھی دکھاتے ہیں۔ جماعت میں وصیت کا ایک نظام ہے چندہ عام کا نظام ہے۔ اس کے علاوہ مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں اور احباب ان میں قربانی کی غیر معمولی مثالیں قائم کرتے ہیں۔ دو تحریکات تو مستقل تحریکات ہیں یعنی تحریک جدید اور وقف جدید۔ وقف جدید کی تحریک پہلے صرف پاکستان میں تھی پھر تمام دنیا میں عام کر دی گئی اور اس کے بعد بھی اس میں بہت وسعت مزید پیدا کی گئی۔ وقف جدید کے ذریعہ سے بہت سے منصوبے غریب یا غیر ترقی یافتہ ملکوں میں سر انجام پا رہے ہیں۔ چندہ وقف جدید کے مختلف مصارف اور اس کے ذریعہ تکمیل پانے والے اور زیر تکمیل منصوبوں کا تذکرہ۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا اٹھاونواں (58) سال 31؍دسمبر 2015ء کو ختم ہوا اور اس سال کے دوران خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں احباب جماعت کو 68لاکھ 91ہزار پاؤنڈ کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ اور یہ وصولی گزشتہ سال سے چھ لاکھ بیاسی ہزار ایک سو پچپن پاؤنڈ زیادہ ہے۔ اس سال بھی پاکستان جو ہے وصولی کے لحاظ سے دنیا کی جماعتوں میں سر فہرست ہی ہے۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی تحریک میں شامل ہونے والوں کی تعداد بارہ لاکھ 35ہزار سے اوپر جاچکی ہے لیکن ابھی بھی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اس میں شمولیت کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے۔

    چندوں کا نظام ہی ایسا نظام ہے جس کی وجہ سے رابطے بھی رہتے ہیں اور خود چندہ دینے والوں کو چندے کی برکات کا پتہ چلتا ہے اور پھر ان میں شوق پیدا ہوتا ہے۔

    مختلف ممالک سے مالی قربانی میں حصّہ لینے والوں کے بعض ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔

    وقف جدید کی مالی قربانی میں پاکستان کے بعد دنیا بھر میں برطانیہ پہلے نمبرپر۔ امریکہ دوسرے نمبر پر اور جرمنی تیسرے نمبر پر رہے۔ مقامی کرنسی میں وصولی کے لحاظ سے گھانا نمبر ایک پر ہے۔

    مختلف پہلوؤں سے نمایاں قربانی کرنے والے ممالک، اضلاع اور جماعتوں کا تذکرہ۔

    اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے اموال اور نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور اس سال میں اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر جہاں قربانی کی توفیق دے وہاں تعداد میں بھی اضافہ فرمائے۔

    مکرم محمد اسلم شاد منگلا صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ پاکستان) اور مکرم احمد شیر جوئیہ صاحب آف بیلجیم کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 08؍جنوری 2016ء بمطابق 08؍صلح 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور