عہدیداروں اور شعبہ تربیت کے لئے ہدایات

خطبہ جمعہ 15؍ جولائی 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

کچھ عرصہ پہلے مَیں ایک خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ جماعتی عہدیداران کے انتخاب کا سال ہے۔ اب اکثر جگہوں پر انتخاب ہو چکے ہیں ملکوں میں بھی اور مقامی جماعتوں میں بھی اور نئے عہدیداروں نے اپنا کام سنبھال لیا ہے۔ عہدیداروں میں بعض جگہوں پر بعض امراء، صدران اور دوسرے عہدیدار نئے منتخب ہوئے ہیں لیکن بہت سی جگہوں پر پہلے سے کام کرنے والوں کا ہی دوبارہ انتخاب کیا گیا ہے۔ نئے آنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا جہاں شکر ادا کرنا چاہئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کے لئے چنا وہاں عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق دے جو اُن کے سپرد کی گئی ہے۔ اسی طرح جو عہدیدار دوبارہ منتخب ہوئے ہیں وہ بھی جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ خدمت کی توفیق دی وہاں اللہ تعالیٰ سے یہ عاجزانہ دعا بھی مانگیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ان امانتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور گزشتہ عرصۂ خدمت کے دوران ان سے جو کوتاہیاں، سستیاں اور غفلتیں ہو گئیں جس کی وجہ سے ان کے سپرد کی گئی امانتوں کا حق ادا نہیں کیا گیا یا حق ادا نہیں ہو سکا اللہ تعالیٰ ایک تو اس سے صَرفِ نظر فرمائے اور پھر اپنا فضل فرماتے ہوئے اس نے آئندہ تین سال کے لئے جو دوبارہ خدمت کا موقع عطا فرمایا ہے اور جو امانتیں اس کے سپرد کی ہیں ان میں آئندہ سستیاں اور کوتاہیاں اور غفلتیں نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ان امانتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی خدمت کو کوئی معمولی خدمت نہیں سمجھنا چاہئے۔ سرسری طور پر نہیں لینا چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک نے چاہے وہ عہدیدار ہے یا ایک عام احمدی ہے اس نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے گا اور جب ایک شخص دین کی خدمت یا بحیثیت عہدیدار کسی خدمت کے کرنے کو قبول کرتا ہے یا اس خدمت پر مامور کیا جاتا ہے تو اس پر دوسروں سے زیادہ بڑھ کر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عَہد کو پورا کرے اور یاد رکھے کہ یہ عَہد اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے عَہدوں کو پورا کرنے کا کئی جگہ قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے یہ بڑا واضح فرمایا ہے کہ تمہارے سپرد کی گئی امانتیں جن کو تم قبول کرتے ہو تمہارے عَہد ہیں پس اپنی امانتوں اور اپنے عَہدوں کو پورا کرو۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کے سچے اور تقویٰ پر چلنے والوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا  (البقرۃ: 178) یعنی اپنے عہد کو جب کوئی عہد کر لیں پورا کرنے والے ہیں۔ پس یہ خاص طور پر اُن لوگوں کا ایک بنیادی امتیاز ہونا چاہئے جو جماعتی کاموں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہتے ہوئے اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھاتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیں۔ اگر ان کے سچائی کے معیار میں ذرا سا بھی جھول ہے، کمی ہے، اگر ان کے تقویٰ کے معیار ایک عام فرد جماعت کے لئے نمونہ نہیں تو وہ اپنے عَہد، اپنے عُہدے، اپنی امانت کے حق کو ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔

پس امراء، صدران سب سے پہلے اپنی عاملہ کے سامنے بھی اور افراد جماعت کے سامنے بھی اپنے نمونے قائم کریں۔ سیکرٹریان تربیت ہیں جن کے سپرد تربیت کا کام ہے اور تربیت کا کام اسی وقت صحیح رنگ میں ہو سکتا ہے جب نمونے قائم ہوں۔ جو کام کرنے والا ہے، جس کی ذمہ داری ہے، دوسروں کو نصیحت کرنے والا ہے تو خود بھی ان کاموں پر عمل کرنے والا ہو۔ پس سیکرٹریان تربیت بھی افراد جماعت کے سامنے اپنے نمونے قائم کریں کہ جماعت کی تربیت کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔

مَیں کئی موقعوں پر ذکر کر چکا ہوں کہ اگر شعبہ تربیت فعال ہو جائے تو بہت سے دوسرے شعبوں کے کام خود بخود ہو جاتے ہیں۔ جتنا افرادِ جماعت کی تربیت کا معیار اونچا ہو گا اتنا ہی دوسرے شعبوں کا کام آسان ہو گا۔ مثلاً سیکرٹری مال کا کام آسان ہو گا۔ سیکرٹری امور عامہ کا کام آسان ہو گا۔ سیکرٹری تبلیغ کا کام آسان ہو گا۔ اسی طرح دوسرے شعبوں کا، قضاء کا کام آسان ہو گا۔

میں اکثر مختلف جگہوں پرعاملہ کی میٹنگ میں کہا کرتا ہوں کہ تربیت کا کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں اور یہ گھر صرف سیکرٹری تربیت کا گھر نہیں ہے بلکہ عاملہ کے ہر ممبر کا گھر ہے اور مجلس عاملہ سب سے بڑھ کر ہے کہ وہ اپنی تربیت کرے۔ امیر جماعت، صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت جو بھی پروگرام بناتے ہیں ان کو سب سے پہلے اپنی عاملہ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ان پروگراموں پر عمل کر رہی ہے کہ نہیں۔ خدا تعالیٰ کے جو بنیادی احکام ہیں اور انسان کی پیدائش کا جو مقصد ہے اسے عاملہ کے ممبران پورا کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر تقویٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق عبادت کا ہے اور اس کے لئے مردوں کو یہ حکم ہے کہ نماز کا قیام کرو اور نمازوں کا قیام باجماعت نماز کی ادائیگی ہے۔ پس امراء، صدران، عہدیداران اپنی نمازوں کی حفاظت کر کے اس کے قیام اور باجماعت ادائیگی کی بھرپور کوشش کریں تو اس سے جہاں ہماری مسجدیں آباد ہوں گی، نماز سینٹر آباد ہوں گے وہاں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور اپنے عملی نمونے سے افراد جماعت کی بھی تربیت کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بھی ہوں گے۔ ان کے کاموں میں آسانیاں بھی پیدا ہوں گی۔ صرف باتیں کرنے والے نہیں ہوں گے۔ پس کام کرنے والے پہلے اپنے جائزے لیں کہ کس حد تک ان کے قول و فعل ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَاتَفْعَلُوْنَ (الصف: 3) یعنی اے مومنو وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خودنہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے‘‘۔ فرمایا کہ ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ67۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر فرمایا ’’یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آ سکتی جب تک عمل نہ ہو‘‘۔ اَور ’’محض باتیں عند اللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 77۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

عمل کے علاوہ اگر اور باتیں ہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کھول کر بتایا کہ ہمارے عمل اور قول میں تضادنہیں ہونا چاہئے۔ پس اس بات کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لینے والے سب سے زیادہ ہمارے عہدیدار ہونے چاہئیں۔ جہاں فاصلے زیادہ ہیں یا چند گھر ہیں اور مسجد یا سینٹر کی سہولت موجودنہیں وہاں گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہو سکتا ہے اور عملاً یہ مشکل نہیں ہے۔ بہت سے احمدی ہیں جو اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی باقاعدہ خدمت بھی نہیں ہے۔ کسی عاملہ کے ممبر بھی نہیں ہیں لیکن اپنے گھروں میں ارد گرد کے احمدیوں کو جمع کر کے نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ پس اگر احساس ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے اور ہمارے ہر عہدیدار میں نماز باجماعت کی ادائیگی کا احساس ہونا چاہئے ورنہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوں گے جس کی قرآن کریم میں بار بار تلقین کی گئی ہے۔

پس ہمیشہ عہدیداران کو یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی نشانی ہی یہ بتائی ہے کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ان کی نگرانی کرنے والے ہیں۔ یہ دیکھنے والے ہیں کہ کہیں ہمارے سپرد جو امانتیں کی گئی ہیں اور جو ہم نے خدمت کرنے کا عہد کیا ہے اس میں ہماری طرف سے کوئی کمی اور کوتاہی تو نہیں ہو رہی؟ کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا۔ (بنی اسرائیل: 35) کہ ہر عہد کے متعلق ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہو گی۔ یہ عبادت تو ایک بنیادی چیز ہے اور یہی انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور اس کا حق تو ہم نے ادا کرنا ہی ہے۔ اس میں سستی تو، خاص طور پر عہدیداروں کی طرف سے بالکل نہیں ہونی چاہئے بلکہ کسی بھی حقیقی مومن کی طرف سے نہیں ہونی چاہئے۔

اس کے علاوہ بھی بعض باتیں ہیں جن کا عہدیداروں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور یہ باتیں لوگوں کے حقوق اور افراد جماعت کے ساتھ عہدیداروں کے رویّوں سے تعلق رکھتی ہیں اور اسی طرح یہ باتیں عہدیداروں کے عَہدوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ کوئی عہدیدار افسر بننے کے تصور سے یا بنائے جانے کے تصور سے کسی خدمت پر مامور نہیں کیا جاتا بلکہ اسلام میں تو عہدیدار کا تصور ہی بالکل مختلف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ (کنز العمال کتاب السفر، الفصل الثانی فی آداب السفر، جزء 6 صفحہ 302حدیث 17513 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

پس ایک عہدیدار کا لوگوں کے معاملے میں اپنی امانت کا حق ادا کرنا اس کا قوم کا خادم بن کر رہنا ہے۔ اور یہ حالت اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان میں قربانی کا مادہ ہو۔ اس میں عاجزی اور انکساری ہو۔ اس کا صبر کا معیار دوسروں سے اونچا ہو۔ بعض دفعہ عہدیداروں کو بعض باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔ اگر سننی پڑیں تو سن لینی چاہئیں۔ اپنا یہ جائزہ تو عہدیدار خود ہی لے سکتے ہیں کہ ان کا برداشت کا یہ پیمانہ کتنا اونچا ہے، کس حد تک ہے اور عاجزی کی حالت ان کی کس حد تک ہے۔ بعض دفعہ ایسے عہدیداران کے معاملات بھی سامنے آ جاتے ہیں جن میں برداشت بالکل بھی نہیں ہوتی اور اگر کوئی دوسرا بدتمیزی کر رہا ہے تو یہ بھی تُوتکار شروع کر دیتے ہیں۔ ا گر کوئی عام شخص بدتمیز ہے تو اس سے اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے اخلاق تو یہی کہیں گے بڑا بداخلاق ہے۔ اس کے اخلاق گرے ہوئے ہیں۔ لیکن جب عہدیدار کے منہ سے غلط الفاظ لوگوں کے سامنے نکلتے ہیں تو عہدیدار کی اپنی عزت اور وقار پر حرف آتا ہے اور ساتھ ہی جماعت کے افراد پر بھی اثر پڑتا ہے۔ جماعت کا جو معیار ہونا چاہئے اور جس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں اس میں اگر کہیں بھی ایک بھی ایسی مثال ہو جائے تو جماعت کی بدنامی کا موجب بنتی ہے اور بن سکتی ہے اور یہ مثالیں بعض جگہوں پہ ملتی ہیں۔ مسجدوں میں بھی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ باتیں بچوں اور نوجوانوں پر انتہائی برا اثر ڈالتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے اور قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ نے کس طرح ذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ  (الحشر: 10)کہ مومن جو ہیں اپنے دینی بھائیوں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مثال انصار نے مہاجرین کے لئے قائم کی۔ اور یہی ایک نمونہ ہے ہمارے لئے۔ یہ نفسوں کو ترجیح دینا تو بڑی دُور کی بات ہے اور بڑی بات ہے، بعض دفعہ تو کسی کا جو حق ہے وہ بھی پوری طرح ادا نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کے بعض معاملات عہدیداروں کے پاس یا مرکز میں رپورٹ بھجوانے کے لئے آتے ہیں یا مرکز سے رپورٹ بھجوانے کے لئے بعض معاملات بھیجے جاتے ہیں تو بڑی بے احتیاطی سے معاملے کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ صحیح رنگ میں تحقیق نہیں کی جاتی اور رپورٹ بھجوائی جاتی ہے یا معاملے کو اتنا لٹکا دیا جاتا ہے کہ اگر کسی ضرورتمند کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کوئی درخواست ہے تو وقت پر ضرورت پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس ضرورتمند کو نقصان ہو جاتا ہے یا تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ بعض عہدیداران اپنی مصروفیت کا بھی عذر پیش کر دیتے ہیں۔ بعض کے پاس کوئی عذر نہیں ہوتا صرف عدم توجہگی ہوتی ہے۔ اگر ان کے اپنے معاملے ہوں یا کسی قریبی کے معاملے ہوں تو ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ پس حقیقی خدمت کا جذبہ، قربانی کا جذبہ، اپنی امانت کا صحیح حق ادا کرنا تو یہ ہے کہ ایک فکر کے ساتھ دوسرے کے کام آیا جائے اور جب یہ قربانی کا مادہ ہو اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر کام کیا جائے گا تو جماعت کے افراد کا بھی معیار قربانی بڑھے گا۔ ایک دوسرے کے حق مارنے کی بجائے حق دینے کی طرف توجہ ہو گی۔ ہم غیروں کے سامنے تو یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں امن تب قائم ہو سکتا ہے جب ہر سطح پر حق لینے اور حق غصب کرنے کی بجائے حق دینے اور قربانی کا جذبہ پیدا ہو لیکن ہمارے اندر اگر یہ معیار نہیں تو ہم ایک ایسا کام کر رہے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ پھر ایک وصف جو خاص طور پر عہدیداروں کے اندر ہونا چاہئے وہ عاجزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا  (الفرقان: 64) کہ وہ زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ پس اس کی بھی اعلیٰ مثال ہمارے عہدیداروں میں ہونی چاہئے۔ جتنا بڑا کسی کے پاس عہدہ ہے اتنی ہی زیادہ اسے خدمت کے جذبے سے لوگوں کے ملنے کے لحاظ سے عاجزی دکھانی چاہئے اور یہی بڑا پن ہے۔ لوگ دیکھتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں کہ عہدیداروں کے رویّے کیا ہیں۔ بعض دفعہ لوگ مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ فلاں عہدیدار کا رویّہ ایسا تھا لیکن آج مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اس عہدیدار نے مجھے نہ صرف سلام کیا بلکہ میرا حال بھی پوچھا اور بڑی خوش اخلاقی سے پیش آیا اور اس کے رویّے کو دیکھ کر خوشی ہوئی اور اس سے اس عہدیدار کا بڑا پن ظاہر ہوا۔

پس اکثریت افراد جماعت کی تو ایسی ہے کہ وہ عہدیداروں کے پیار، نرمی اور شفقت کے سلوک سے ہی خوش ہو کر ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی عہدیدار کے دل میں اپنے عہدے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی بڑائی پیدا ہوتی ہے یا تکبر پیدا ہوتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے اور جب خدا تعالیٰ سے انسان دور ہو جاتا ہے تو پھر کام میں برکت نہیں رہتی۔ اور دین کا کام تو ہے ہی خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور جب خدا تعالیٰ کی رضا ہی نہیں رہی تو پھر ایسا شخص جماعت کے لئے بجائے فائدے کے نقصان کا موجب بن جاتا ہے۔

پس ہمیشہ عہدیداروں کو خاص طور پر اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ان میں عاجزی ہے یا نہیں۔ اور ہے تو کس حد تک ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا زیادہ کوئی عاجزی اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃوالآداب باب استحباب العفو والتواضع حدیث 6487)

پس ہر عہدیدار کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کو اگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقع دیا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور اس احسان کی شکرگزاری اس میں مزید عاجزی اور انکساری کا پیدا ہونا ہے۔ اگر یہ عاجزی اور انکساری مزید پیدا نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ادا نہیں ہوتا۔

بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ عام حالات میں اگر ملیں تو بڑی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں سے بھی صحیح طریق سے مل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب کسی کا اپنے ماتحت یا عام آدمی سے اختلاف رائے ہو جائے تو فوراً ان کی افسرانہ رَگ جاگ جاتی ہے اور بڑے عہدیدار ہونے کا زعم اپنے ماتحت کے ساتھ متکبرانہ رویے کا اظہار کروا دیتا ہے۔ پس عاجزی یہ نہیں کہ جب تک کوئی جی حضوری کرتا رہے، کسی نے اختلاف نہیں کیا تو اس وقت تک عاجزی کا اظہار ہو۔ یہ بناوٹی عاجزی ہے۔ اصل حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب اختلاف رائے ہو یا ماتحت مرضی کے خلاف بات کر دے تو پھر انصاف پر قائم رہتے ہوئے اس رائے کا اچھی طرح جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے۔ پس اس عاجزی کے ساتھ بلند حوصلگی کا بھی اظہار ہو گا اور جب یہ ہو گا تو یہ عاجزی حقیقی عاجزی کہلائے گی۔

ہمیشہ عہدیدار کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سامنے رکھنا چاہئے کہ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا  (لقمان: 19)اور اپنے گال لوگوں کے سامنے غصہ سے مت پھلاؤ۔ (اپنا منہ نہ پھلاؤ غصہ سے) اور زمین میں تکبر سے مت چلو۔

اختلاف رائے کی میں نے بات کی ہے تو اس بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ قواعد بیشک امیر جماعت کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ بعض دفعہ وہ عاملہ کی رائے کو ردّ کر کے اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرے لیکن ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے اور مشورے سے، اکثریت رائے سے ہی فیصلے ہوں اور کام ہوں۔ بعض جگہ امراء اس حق کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس حق کا استعمال انتہائی صورت میں ہونا چاہئے۔ جہاں یہ پتا ہو کہ جماعت کا یہ مفاد ہے تو پھر وہاں عاملہ پہ واضح بھی کر دیا جائے۔ وسیع تر جماعتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ہونا چاہئے۔ اس کے لئے دعا سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی لینی چاہئے۔ صرف اپنی عقل پر بھروسہ نہ کریں۔ واضح ہو کہ یہ حق صدرانِ جماعت کو نہیں۔ جہاں نیشنل صدر ہیں وہاں بھی ان کو نہیں کہ عاملہ کی رائے کو ردّ کرتے ہوئے اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کریں۔ اپنے اپنے دائرہ کار کو سمجھنے کے لئے عہدیداران کے لئے ضروری ہے کہ قواعد و ضوابط کو پڑھیں اور سمجھیں۔ اگر قواعد و ضوابط کے مطابق عمل کریں گے تو بعض چھوٹے چھوٹے مسائل جو عاملہ کے اندر یا افراد جماعت کے لئے بے چینی کا باعث بن جاتے ہیں وہ نہیں بنیں گے۔

پھر ایک خصوصیت عہدیداران کی یہ بھی ہونی چاہئے کہ وہ ماتحتوں سے حسن سلوک کریں۔ جماعت کے اکثر کام تو رضاکارانہ ہوتے ہیں۔ افراد جماعت جماعتی کام کے لئے وقت دیتے ہیں۔ اس لئے وقت دیتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ اس لئے وقت دیتے ہیں کہ ان کو جماعت سے تعلق اور محبت ہے۔ پس عہدیداروں کو بھی اپنے کام کرنے والوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے اور یہی اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔

پھر اس حسن سلوک کے ساتھ اپنے نائبین اور ماتحتوں کو کام سکھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے تا کہ جماعتی کام بہتر طور پر چلانے کے لئے ہمیشہ کارکن مہیا ہوتے رہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ جماعت کے کاموں کو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے۔ لیکن اگر افسران عہدیدارن جن کو کام کا تجربہ ہے کام کرنے والوں کی دوسری لائن تیار کرتے ہیں تو ان کو اس کام کا بھی ثواب مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ ہی مجھے، نہ پہلے خلفاء کو کبھی یہ فکر ہوئی کہ جماعتی کام کیسے چلیں گے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے۔ وہ انشاء اللہ تعالیٰ کام کرنے والے مخلصین مہیا کرتا رہے گا۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 267 حاشیہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے وقت میں ایک عہدیدار کا خیال تھا کہ میری حکمت عملی اور میری محنت کی وجہ سے مالی نظام بہت عمدہ طور پر چل رہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو جب یہ پتا چلا تو آپ نے اس کو ہٹا کر ایک ایسے شخص کو اس کام پر مقرر کر دیا جس کو مال کی الفب بھی نہیں پتا تھی۔ لیکن کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور خلیفہ وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے اس وجہ سے نئے آنے والے افسر جس کو کچھ بھی نہیں پتا تھا اس کے کام میں اتنی برکت پڑی کہ اس سے پہلے کبھی تصور بھی نہیں تھا۔

پس عہدیداروں کو تو اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے۔ جماعتی کارکنوں کو تو اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے۔ واقفین زندگی کو تو خدا تعالیٰ موقع دیتا ہے کہ وہ جماعت کی اور دین کی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں ورنہ کام تو خود اللہ تعالیٰ کر رہا ہے اور یہ اس کا وعدہ ہے۔ اس لئے کسی کے دل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ میرا تجربہ اور میرا علم جماعت کے کاموں کو چلا رہا ہے یا میرا تجربہ اور علم جماعت کے کاموں کو چلا سکتا ہے۔ جماعت کے کاموں کو خدا تعالیٰ کا فضل چلا رہا ہے۔ ہماری بہت ساری کمزوریاں، کمیاں ایسی ہیں کہ اگر دنیاوی کام ہو تو ان میں وہ برکت پڑ ہی نہیں سکتی۔ ان کے وہ اچھے نتیجے نکل ہی نہیں سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا ہے اور خود فرشتوں کے ذریعہ سے مدد فرماتا ہے۔

تبلیغ کے مثلاً کام ہیں۔ اس میں ہی ان مغربی ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہاں پلے بڑھے ایسے نوجوان کارکن مہیا کر دئیے ہیں جنہوں نے اپنے طور پر دینی علم حاصل کیا ہے اور پھر مخالفین احمدیت کا منہ بند کرتے ہیں اور ایسے جواب دیتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور پھر بہت سارے ایسے نوجوان ہیں جن کے اس طرح کے جوابوں سے مخالفین کو راہِ فرار کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ پس عہدیدار خدمت دین کے موقع کو فضل الٰہی سمجھیں، نہ کہ اپنے کسی تجربے یا لیاقت اور قابلیت کی وجہ۔ پھر ایک وصف عہدیداران میں جو ہونا چاہئے وہ بشاشت ہے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا  (البقرۃ: 84) یعنی اور لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کیا کرو۔ اور ان سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ پس یہ بھی ایک بنیادی خُلق ہے جو عہدیداروں میں بہت زیادہ ہونا چاہئے۔ اپنے ماتحتوں سے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے بھی جب بات چیت کریں اور اسی طرح جب دوسرے لوگوں سے بھی بات کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ بعض دفعہ انتظامی معاملات کی وجہ سے سختی سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے لیکن یہ ضرورت انتہائی قدم ہے اور اگر پیار سے کسی کو سمجھایا جائے اور عہدیدار لوگوں کو یہ احساس دلا دیں کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں تو ننانوے فیصد ایسے لوگ ہیں جو سمجھ جاتے ہیں اور جماعت سے اس لئے تعاون کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ جماعت سے ان کو ایک تعلق ہے۔ لیکن بڑی اور اہم شرط یہی ہے کہ لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے یا لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ عہدیدار ہمارے ہمدرد ہیں۔ نرمی سے لوگوں سے بات کریں۔ کسی کی غلطی پر شروع میں ہی اس طرح پکڑ نہ کر لیں کہ دوسرے کو اپنی صفائی کا صحیح طرح موقع ہی نہ ملے۔ ہاں جو عادی ہیں، بار بار کرنے والے ہیں، بات بات پر فتنہ اور فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے ساتھ سختی بھی کرنی پڑتی ہے لیکن اس کے لئے پوری طرح تحقیق ہونی چاہئے۔ اور پھر ساتھ ہی یہ سختی بھی ذاتی عناد کی شکل اختیار کرنے والی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اصلاح کے لئے ہونی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے مقرر کردہ یمن کے والیوں کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا۔ مشکلیں نہ پیدا کرنا۔ اور محبت اور خوشی پھیلانا۔ نفرت کو نہ پنپنے دینا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 638 حدیث 19935 مسند ابو موسیٰ الاشعری مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)

پس یہ ایسی نصیحت ہے جو عہدیداروں اور افراد جماعت کے درمیان بھی تعلقات میں خوبصورتی پیدا کرتی ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں آپس میں افراد جماعت میں بھی ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی روح پیدا ہوتی ہے۔

پس عہدیداروں کی اور خاص طور پر امراء، صدران اور تربیت کے شعبوں اور فیصلہ کرنے والے اداروں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے طریق سوچیں۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے اندر رہتے ہوئے یہ طریق اختیار کرنے ہیں۔ دنیاداروں کی طرح نہیں کہ آسانیاں پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حکموں کو بھول جائیں۔ ہم نے شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے، خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے بندوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں اور اپنے عَہدوں اور اپنی امانتوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ قواعد و ضوابط کی کتاب کو ہر عہدیدار کو دیکھنا چاہئے اور اپنے شعبے کے کاموں کا علم حاصل کرنا چاہئے۔ ہر ایک کو اپنی حدود کا علم ہونا چاہئے۔ بعض دفعہ عہدیداروں کو اپنی حدود کا بھی پتا نہیں ہوتا۔ ایک شعبہ ایک کام کر رہا ہوتا ہے جبکہ قواعد و ضوابط میں دوسرے شعبہ میں وہ کام لکھا ہوتا ہے۔ یا بعض دفعہ ایسا باریک فرق کاموں کے بارے میں ہوتا ہے جس پر غور نہ کرتے ہوئے دو شعبے ایک دوسرے کی حد میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں میری یہاں یوکے (UK) کی مجلس عاملہ سے بھی میٹنگ تھی وہاں بھی مجھے احساس ہوا کہ اس باریک فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بلا وجہ کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ اگر قواعد کو پڑھیں تو اس طرح وقت ضائع نہ ہو۔ مثلاً تبلیغ کے شعبہ نے تبلیغی مہم بھی چلانی ہے اور رابطے بھی کرنے ہیں۔ رابطوں سے ہی تبلیغ آگے پھیلے گی۔ اسی طرح شعبہ امور خارجہ ہے اس نے بھی رابطے کرنے ہیں اور جماعت کا تعارف بھی کروانا ہے۔ دونوں کا دائرہ علیحدہ ہے۔ ایک نے تبلیغی مقصد کے لئے کام کرنا ہے۔ دوسرے نے اپنی پبلک ریلیشن (Public Relation) کے لئے یہ کام کرنا ہے۔ تعلقات بڑھانے کے لئے یہ کام کرنا ہے۔ اصل مقصد تو جماعت کا تعارف اور دین کی طرف رہنمائی ہے تا کہ دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف لا کر ہم ان کی دنیا و عاقبت بھی سنوارنے کی کوشش کریں اور دنیا کے امن کی صورتحال کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ دنیاوی طور پر کوئی کریڈٹ لینا تو ہمارا مقصدنہیں ہے۔ اصل مقصد تو خدا تعالیٰ کو خوش کرنا اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اگر شعبے آپس میں تعاون سے کام کریں تو نتیجہ کئی گنا بہتر نکل سکتا ہے۔

پھر اکثر جگہوں سے اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ شعبوں کے بجٹ صحیح طرح مختص نہیں کئے جاتے۔ ہر شعبے کو بجٹ جو شوریٰ میں پاس ہوا ہوتا ہے وہ بجٹ دیا جانا چاہئے اور اس کے خرچ کا متعلقہ سیکرٹری کو اختیار ہونا چاہئے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ سیکرٹری سال کے کام کا منصوبہ عاملہ میں پیش کرے اور اس منظور شدہ منصوبے کے مطابق خرچ ہو اور پھر کام کا جائزہ ہر عاملہ میٹنگ میں لیا جائے اور اگر منظور شدہ منصوبے میں یا کام کے طریق میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو یا بہتری کی گنجائش کی طرف کسی کی توجہ ہو اور دلائی جائے تو اس پر دوبارہ غور کر لیا جائے۔

پھر امراء اور صدران اور جماعتی سیکرٹریان کا یہ بھی بہت اہم کام ہے کہ مرکز سے جو ہدایات جاتی ہیں یا سرکلر جاتے ہیں ان پر فوری اور پوری توجہ سے عملدرآمد کریں اور اپنی جماعتوں کے ذریعہ بھی کروایا جائے۔ بعض جماعتوں کے بارے میں یہ شکایات ملتی ہیں کہ مرکزی ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی ہدایت کے بارے میں کسی خاص ملک یا جماعت کو ملکی حالات کی وجہ سے کچھ تحفظات ہوں تو پھر بھی فوری طور پر مرکز سے رابطہ کر کے حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنے کی درخواست کرنی چاہئے اور یہ کام امیر جماعت اور صدر کا ہے۔ لیکن یہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں کہ اپنی عقل لڑاتے ہوئے اس ہدایت کو ایک طرف رکھ کر دبا دیا جائے اور اس پر عمل نہ کروایا جائے اور نہ ہی مرکز کو اطلاع کی جائے۔ کسی بھی امیر یا صدر جماعت کی جو یہ حرکت ہے یہ مرکز گریز رویّہ سمجھی جائے گی اور اس بارہ میں پھر مرکز کارروائی بھی کر سکتا ہے۔

موصیان کے بارہ میں بھی مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات تو موصیان کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے چندے کی باقاعدہ ادائیگی اور اس کا حساب رکھنا ہر موصی کی اپنی ذمہ داری ہے۔ لیکن مرکزی دفتر اور متعلقہ سیکرٹریان کا بھی کام ہے کہ ہر موصی کا حساب مکمل رکھیں اور جب ضرورت ہو انہیں یاد دہانی بھی کروائیں کہ ان کے چندے کی کیا صورتحال ہے؟ ملکی جماعت کا کام ہے کہ مقامی جماعتوں کے سیکرٹریان کو فعّال کریں اور ہر موصی ان کے رابطے میں ہو۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی معاملے میں کسی شخص کے بارے میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے اور وہ شخص موصی ہوتا ہے۔ رپورٹ میں ذکر کر دیا جاتا ہے کہ اس نے اتنے عرصے سے وصیت کا چندہ نہیں دیا۔ جب پوچھا جائے کہ وصیت کا چندہ نہیں دیا تو وصیت کس طرح قائم ہے؟ تو پھر تحقیق کرنے پر پتا چلتا ہے کہ موصی کا قصور نہیں تھا۔ اس نے تو چندہ دیا تھا۔ لیکن ریکارڈ رکھنے والوں نے، دفتر نے صحیح ریکارڈ نہیں رکھا۔ ایک تو ایسی رپورٹ بلا وجہ موصی کو پریشان کرنے کا موجب بنتی ہے۔ دوسرے جماعتی نظام کی کمزوری کا بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اب تو ٹھوس حسابات کا انتظام ہو چکا ہے۔ بڑا systematic طریقہ ہے۔ کمپیوٹر ہیں، سب کچھ ہیں۔ ایسی غلطی ہونی نہیں چاہئے۔ ہر ملک کے سیکرٹریان وصایا اور سیکرٹریان مال اپنے ملک کی ہر جماعت کے متعلقہ سیکرٹریان کو فعّال کریں اور امرائے جماعت کا بھی یہ کام ہے کہ اس کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہا کریں۔ صرف چندہ جمع کرنا اور اس کی رپورٹ کرنا ان کا کام نہیں ہے بلکہ اس نظام کو قابل اعتماد بنانا اور مرکزاور مقامی جماعتی نظام میں مضبوط ربط پیدا کرنا بھی امراء کا کام ہے۔

اسی طرح ایک بات مبلغین اور مربیان کے حوالے سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ بعض جگہ مربیان مبلغین کی باقاعدہ ہر ماہ میٹنگز نہیں ہوتیں۔ مبلغ انچارج اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ یہ میٹنگز باقاعدہ ہوں۔ جماعتی تربیتی اور تبلیغی کاموں کا بھی جائزہ ہو۔ جو بہتر کام کسی نے کیا ہے اس کے بارہ میں تبادلہ خیال ہو اور کسی کی طرف سے اس بہتر کام کا جو طریقہ کار اپنایا گیا تھا اُس سے دوسرے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اسی طرح جو جماعتی سیکرٹریان جماعتوں کو ہدایت دیتے ہیں یا مرکز کی ہدایت پر جماعتوں کو ہدایت بھجوائی جاتی ہے اس بارے میں بھی رپورٹ دیں۔ مربیان یہ بھی دیکھا کریں کہ ہر جماعت میں اس سلسلے میں کتنا کام ہوا ہے اور جہاں سیکرٹریان فعّال نہیں ہیں۔ خاص طور پر تبلیغ اور تربیت اور مالی قربانی کے معاملے میں وہاں مربیان اور مبلغین انہیں توجہ دلائیں۔ اللہ تعالیٰ تمام عہدیداروں کو توفیق دے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو آئندہ تین سال کے لئے خدمت کا موقع دیا ہے اس میں وہ زیادہ سے زیادہ کام اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ سرانجام دے سکیں اور اپنے ہر قول و فعل سے جماعت میں نمونہ بننے والے ہوں۔

نماز کے بعد میں ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ یہ غائب جنازہ ہے جو محترمہ صاحبزادی طاہرہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ مکرم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کا ہے۔ 13؍جولائی 2016ء کو شام چھ بجے ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت نواب عبداللہ خان صاحب اور نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پوتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نواسی تھیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی بہو تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ 95سال آپ نے عمر پائی۔ قادیان میں ابتدائی تعلیم میٹرک تک حاصل کی۔ حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا اور ان کے ساتھ بڑا خاص محبت اور شفقت کا سلوک تھا۔ جہلم میں مکرم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کے ساتھ رہیں۔ جہاں ان کی (مرزا منیر احمد صاحب کی) چِپ بورڈ فیکٹری تھی جو چند ماہ پہلے جلائی گئی تھی۔ وہاں یہ صدر لجنہ کی خدمات بھی بجا لاتی رہیں۔ پھر 1974ء کے جو فساد ہوئے تو جہلم کی جماعت کا بہت بڑا حصہ یہاں چِپ بورڈ فیکٹری میں جمع ہو گیا تھا اور ان دنوں میں وہاں پر مرحومہ نے افرادِ جماعت کی بڑے اچھے رنگ میں مہمان نوازی بھی کی۔ آپ کی ایک صاحبزادی ہیں امۃ الحسیب بیگم جو مکرم مرزا انس احمد صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے بیٹے ہیں ان کی بیوی ہیں۔ اور ایک بیٹے مرزا نصیر احمد صاحب ہیں۔ یہ جہلم کے امیر جماعت رہے ہیں۔ ابھی تک تھے لیکن جب ان کی فیکٹری گئی تو وہاں سے جہلم چھوڑنا پڑا۔ اسی طرح مرزا سفیر احمد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے داماد ہیں یہ بھی ان کے بیٹے ہیں۔ مرحومہ بہت خوش اخلاق، ہنس مکھ اور ملنسار تھیں۔ صابر اور شاکر، دعا گو، تہجد گزار، عبادت میں شغف رکھنے والی خاتون تھیں۔ خلافت کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق تھا۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں۔ مہمان نوازی بھی ان کا وصف تھا۔ یہ نظام جماعت اور سلسلہ کی بہت غیرت رکھنے والی خاتون تھیں۔ نظام خلافت کے خلاف کوئی بھی بات برداشت نہیں تھی۔ اگر کوئی نظام کے خلاف، خلافت کے خلاف بات کرتا تو فوراً روک دیتیں۔ حضرت امّاں جان نے جیسا کہ میں نے کہا ان کو بیٹی بنایا ہوا تھا۔ حضرت اماں جان نے اپنا ذاتی بہت سارا جہیز کا سامان ان کو دے دیا تھا جس پہ حضرت امّاں جان کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور خلافت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 15؍ جولائی 2016ء شہ سرخیاں

    یہ جماعتی عہدیداران کے انتخاب کا سال ہے۔ اب اکثر جگہوں پر انتخاب ہو چکے ہیں ملکوں میں بھی اور مقامی جماعتوں میں بھی۔ امراء، صدران و دیگر عہدیداران و مبلغین کے لئے نہایت اہم ہدایات۔

    یہ ایک بنیادی امتیاز ہونا چاہئے خاص طور پر اُن لوگوں کا جو جماعتی کاموں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہتے ہوئے اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھاتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیں۔ اگر شعبہ تربیت فعال ہو جائے تو بہت سے دوسرے شعبوں کے کام خود بخود ہو جاتے ہیں۔ تربیت کا کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں اور یہ گھر صرف سیکرٹری تربیت کا گھر نہیں ہے بلکہ عاملہ کے ہر ممبر کا گھر ہے اور مجلس عاملہ سب سے بڑھ کر ہے کہ وہ اپنی تربیت کرے۔ امیر جماعت، صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت جو بھی پروگرام بناتے ہیں ان کو سب سے پہلے اپنی عاملہ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ان پروگراموں پر عمل کر رہی ہے کہ نہیں۔ خداتعالیٰ کے جو بنیادی احکام ہیں اور انسان کی پیدائش کا جو مقصد ہے اسے عاملہ کے ممبران پورا کر رہے ہیں؟

    اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق عبادت کا ہے اور اس کے لئے مردوں کو یہ حکم ہے کہ نماز کا قیام کرو اور نمازوں کا قیام باجماعت نماز کی ادائیگی ہے۔ پس امراء، صدران، عہدیداران اپنی نمازوں کی حفاظت کر کے اس کے قیام اور باجماعت ادائیگی کی بھرپور کوشش کریں۔ ہمارے ہر عہدیدار میں نماز باجماعت کی ادائیگی کا احساس ہونا چاہئے ورنہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوں گے جس کی قرآن کریم میں بار بار تلقین کی گئی ہے۔

    اس کے علاوہ بھی بعض باتیں ہیں جن کا عہدیداروں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور یہ باتیں لوگوں کے حقوق اور افراد جماعت کے ساتھ عہدیداروں کے رویّوں سے تعلق رکھتی ہیں پھر ایک وصف جو خاص طور پر عہدیداروں کے اندر ہونا چاہئے وہ عاجزی ہے۔

    اپنے اپنے دائرہ کار کو سمجھنے کے لئے عہدیداران کے لئے ضروری ہے کہ قواعد و ضوابط کو پڑھیں اور سمجھیں۔ پھر ایک خصوصیت عہدیداران کی یہ بھی ہونی چاہئے کہ وہ ماتحتوں سے حسن سلوک کریں۔ کسی کے دل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ میرا تجربہ اور میرا علم جماعت کے کاموں کو چلا رہا ہے، یا میرا تجربہ اور علم جماعت کے کاموں کو چلا سکتا ہے۔ جماعت کے کاموں کو خدا تعالیٰ کا فضل چلا رہا ہے۔

    پھر ایک وصف عہدیداران میں جو ہونا چاہئے وہ بشاشت ہے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے۔

    عہدیداروں کی اور خاص طور پر امراء، صدران اور تربیت کے شعبوں اور فیصلہ کرنے والے اداروں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے طریق سوچیں۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے اندر رہتے ہوئے یہ طریق اختیار کرنے ہیں۔ امراء اور صدران اور جماعتی سیکرٹریان کا یہ بھی بہت اہم کام ہے کہ مرکز سے جو ہدایات جاتی ہیں یا سرکلر جاتے ہیں ان پر فوری اور پوری توجہ سے عملدرآمد کریں اور اپنی جماعتوں کے ذریعہ بھی کروایا جائے۔

    موصیان کو پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے چندے کی باقاعدہ ادائیگی اور اس کا حساب رکھنا ہر موصی کی اپنی ذمہ داری ہے۔ لیکن مرکزی دفتر اور متعلقہ سیکرٹریان کا بھی کام ہے کہ ہر موصی کا حساب مکمل رکھیں اور جب ضرورت ہو انہیں یاد دہانی بھی کروائیں کہ ان کے چندے کی کیا صورتحال ہے؟ ملکی جماعت کا کام ہے کہ مقامی جماعتوں کے سیکرٹریان کو فعّال کریں اور ہر موصی ان کے رابطے میں ہو۔

    اللہ تعالیٰ تمام عہدیداروں کو توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو آئندہ تین سال کے لئے خدمت کا موقع دیا ہے اس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام سرانجام دے سکیں اور اپنے ہر قول و فعل سے جماعت میں نمونہ بننے والے ہوں۔

    محترمہ صاحبزادی طاہرہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ مکرم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 15؍جولائی 2016ء بمطابق15وفا 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن۔ لندن۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور