جماعت احمدیہ رجائنا (Regina) کی مسجد

خطبہ جمعہ 4؍ نومبر 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ واٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ (التوبۃ: 18) الحمد للہ جماعت احمدیہ رجائنا (Regina) کو بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ ماشاء اللہ بڑی خوبصورت مسجد ہے۔ اس وقت جو یہاں جماعت کی تعداد ہے وہ ارد گرد کے قریبی علاقوں سمیت تقریباً 160 لوگ ہیں اور مسجد کی گنجائش جو بتائی گئی ہے اس کے مطابق مسجد کے ہالوں سمیت اس میں چار سو افرادنماز پڑھ سکتے ہیں اور اگر ضرورت ہو تو کامن ایریا (common area) میں بھی مزید سو (100) افراد کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ گویا کہ اس وقت جو جماعت کی تعداد ہے اس کے لحاظ سے یہ مسجد موجودہ ضرورت سے تین گنا بڑی ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے اخراجات بھی مقامی جماعت نے ہی ادا کئے ہیں یا ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے بلکہ نقد رقم کے لحاظ سے جو کُل خرچ ہوا ہے اس کا بھی تقریباً تیسرا حصہ دو افرادنے ادا کرنے کی ذمہ داری لی ہے جن میں سے ایک ہمارے ڈاکٹر شمس الحق شہید کی بیوہ ہیں۔ یہ جو میں نے کہا کہ ’نقد رقم کے لحاظ سے‘ یہ اس لئے کہ جب مسجد کی تعمیر کا کام شروع کرنے کا مرحلہ آیا اور کنٹریکٹرز سے رابطے کئے گئے تو کم سے کم ٹینڈر بھی یہ کہتے ہیں کہ 2.8 ملین کا تھا جس میں باقی اخراجات ملا کر 3.5 ملین ڈالر تک بات پہنچتی ہے۔ لیکن جو کُل خرچ ہوا ہے مسجد کی تعمیر میں اور اس کو مکمل کرنے میں وہ 1.6 ملین ڈالر کا ہؤا ہے۔ اب ایک دنیا دار اس بات کو سن کر حیران ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ٹھیکیداروں کے کم سے کم ٹینڈر کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رقم میں مسجد کی تکمیل ہو گئی۔ یقینا ایک دنیا دار اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا کیونکہ اسے نہیں پتا کہ قربانی کیا ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے قربانیوں کے کیا معیار قائم کئے ہیں۔ جان، مال، وقت کو قربان کرنے کی جو مثالیں ملتی ہیں وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہی ملتی ہیں۔ یہ مزاج جماعت احمدیہ کا ہر جگہ ہے چاہے وہ پاکستان کے احمدی ہوں، جانی و مالی قربانی پیش کرنے والے ہیں۔ چاہے وہ افریقہ کے رہنے والے احمدی ہیں جن کے پاس اگر مال نہیں ہے تو وقت کی قربانی کر کے اور جو کچھ بھی ہے اس کو دے کر مساجد اور جماعتی کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ چاہے انڈونیشیا کے رہنے والے احمدی ہیں یا یورپ کے رہنے والے احمدی ہیں یا یہاں کینیڈا کے رہنے والے احمدی ہیں یا دنیا کے کسی بھی خطے کے رہنے والے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ قربانی کی توفیق دیتا ہے اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کو اپنا مقصود بنایا ہے۔

اس مسجد کی تعمیر میں جماعت کے اموال کی جو نصف سے زائد رقم بچائی گئی وہ مجھے بتایا گیا کہ سسکاٹون کے تین بھائیوں نے جو تعمیر کے کام میں ہیں رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں اور اس طرح یہ رقم بچائی۔ اسی طرح دیگر رضاکار بھی کام میں شامل ہوئے۔ ان بھائیوں کی جو کنٹریکٹر ہیں ان کی مدد ایک چوتھے کنٹریکٹر کی طرف سے بھی ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ نے شاید اسی کام کے لئے ٹورانٹو سے یہاں بھیجا تھا جہاں ان کا کام ختم ہو گیا اور یہاں آئے۔ تو بہرحال ان سب نے مل کر یہ کام کیا اور پھر باقی رضاکار بھی جن میں سے جو یہاں رجائنا (Regina) کے مقامی لوگ بھی ہیں، سسکاٹون سے بھی آئے، کیلگری سے بھی آئے، ایڈمنٹن سے بھی آئے اور پھر ٹورانٹو سے بھی آئے جن میں خدام بھی شامل ہیں، انصار بھی شامل ہیں اور سوائے اس کام کے جس کے لئے جماعت میں پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے نہ تھے سب کام ان کنٹریکٹرز اور رضاکاروں نے کئے۔ اب دنیادار کنٹریکٹر تو یہ سوچ نہیں سکتے لیکن ان لوگوں نے اپنے روپے اور وقت کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اسی طرح لجنہ نے بھی علاوہ مالی قربانی کے ان رضاکاروں کے کھانے کا انتظام کر کے اس خدمت کی وجہ سے اس تعمیر میں حصہ لیا اور وہ بھی حصہ دار بن گئیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تقریباً ساڑھے اکتالیس ہزار گھنٹے اس مسجد پر رضاکاروں نے رضاکارانہ کام کیا۔ بعض نے تو یہاں یہ بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کام کا وقت آٹھ گھنٹے ہے اور پانچ دن کام کرنا ہے۔ میرے خیال میں بعضوں نے کئی کئی گھنٹے دن رات ایک کر کے کام کیا ہو گا۔ اور سات دن تک کام کیا ہو گا۔ کوئی وقت کی پابندی نہیں ہو گی۔ یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ احمدیوں میں نظر آتا ہے جیسا کہ میں نے کہا۔ ایک طرف بعض مسلمان دنیا میں بدامنی پھیلانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف دنیا کے ایسے حصہ میں رہنے والے احمدی مسلمان جو ترقی یافتہ اور دنیاوی ترجیحات میں بڑھا ہوا ملک ہے اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کرنے کے لئے اپنا مال اور وقت پیش کر رہے ہیں اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کرتا ہے وہ جنت میں اپنے لئے گھر تعمیر کرتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب من بنی مسجداً حدیث 450)

اس لئے کہ اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا کہ تم اسلام کے خوبصورت پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے، اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تصویر پیش کرنے کے لئے مسجد بناؤ۔

پس ان مسجدوں کی تعمیر میں یہ قربانی اس لئے ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں وہاں اسلام کے بارے میں غلط تصور کو، غلط فہمیوں کو دنیاکے ذہنوں سے نکالیں اور دنیا کو بتائیں کہ مسلمانوں کی مساجد اور اسلام کی تعلیم دنیا میں فساد اور تباہی کا ذریعہ نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں قائم کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے محبت اور اس کا حق ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔

اس مسجد کی تعمیر سے کینیڈا کی جماعت کو یہ اعزاز بھی پہلی دفعہ حاصل ہوا کہ احمدی رضا کاروں نے اکثر کام کر کے جماعت کی رقم بچائی۔ دنیا میں اور جگہ تو اس طرح کام ہوتا ہے لیکن یہاں اس طرح پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والے، چاہے وہ مالی قربانی کرنے والے ہیں، وقت کی قربانی کرنے والے ہیں، مرد ہیں، عورتیں ہیں جنہوں نے بڑی بڑی رقمیں ادا کی ہیں یا وعدے کئے ہیں ان سب کو جزا دے اور ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکتیں ڈالے۔

ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مسجد ہماری تربیت کے لئے بھی اور تبلیغ کے لئے بھی انتہائی اہم ہے۔ اس لئے میں نے امیر صاحب کو کہا تھا کہ وہ چھوٹی مسجدیں بنائیں لیکن ہر جماعت میں مسجد بنانے کی کوشش کریں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اب ہم نے یہی پروگرام بنایا ہے اور ہماری یہی کوشش ہے کہ چھوٹی مسجدیں بنائی جائیں اور زیادہ سے زیادہ بنائی جائیں۔ لیکن مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ چھوٹی مسجدیں بنانے کا پروگرام ہم نے بنایا ہے، ہمارے وسائل ایسے نہیں کہ ہر جگہ جلد سے جلد مسجد بنا سکیں اس لئے مسجد بنانے میں، تعمیر کرنے میں یہ جو رضاکارانہ کام، والنٹیئرز کا کام شروع کیا ہے یہ ایک اچھی روایت قائم کی ہے اسے اب جاری بھی رکھنا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے رقم بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ایک جگہ مسجد کی تعمیر کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے‘‘ جو شرط آپ نے بیان فرمائی اس کو سامنے رکھنا ہو گا۔ فرمایا کہ شرط یہ ہے ’’کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔‘‘ مسجد بنانے میں نیک نیتی ہو ’’محض للہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ119۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی اس شرط کو بھی مدّنظر رکھنا ضروری ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ اخلاص ہو۔ صرف وقتی جذبہ اور جوش نہ ہو کہ صرف اچھی مسجد کی تعمیر ہی مدّنظر ہو بلکہ اس کے مقاصد کو پورا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ صرف نام و نمود کے لئے مسجدنہ بنائی جائے۔ صرف اس لئے نہیں کہ اتنی مالی قربانی کی ہے یا اتنے گھنٹے اپنا وقت دیا ہے یا کسی مقابلے کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے۔ خالصۃً لِلّٰہ مسجد کی تعمیر ہو۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ان تینوں بھائیوں اور جو چوتھے کنٹریکٹر بھی شامل ہو گئے جنہوں نے تعمیر میں زیادہ حصہ لیا مجھ سے کل ملاقات بھی کی اور اس بات پر خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی کہ اس ثواب میں حصہ لیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے انہیں بعض بڑے ٹھیکے بھی دلوا دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بغیر نواز ے نہیں چھوڑتا۔ کبھی جلدی عطا فرماتا ہے، کبھی دیر سے۔ بلکہ ان بھائیوں میں سے ایک منصور صاحب نے مجھے لکھا ہے کہ ایک لڑکے نے جسے یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا، پہلے وہ کام بھی کر رہا تھا، کام سے انکار کیا پھر اس کو خواب آئی کہ مسجد تعمیر کرنے کے لئے ٹھیکیداروں کو تمہاری ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے رابطہ کیا اور یہاں کام کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران میں مالی حالات بھی ان کے خراب ہوتے گئے۔ ایک دن بیوی نے کہا کہ گھر کا خرچ چلانے کے لئے کوئی پیسے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح نوازا کہ اسی دن یا اگلے دن غالباً ٹیکس کریڈٹ والوں نے کچھ رقم دے دی کہ تمہاری زائد رقم تھی۔ وہ رقم واپس آئی۔ پھر child benefit کی طرف سے رقم آگئی اور اس طرح ان کو تیرہ چودہ ہزار ڈالر مل گئے۔ پس نیت کی نیکی شرط ہے اللہ تعالیٰ پھر نوازتا بھی ہے۔

افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی لوگ ہیں جو بڑی بڑی مساجد بنا کر دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب مَیں غانا میں تھا تو ایک شہر جس میں کچھ عرصہ مَیں رہا ہوں اس کا نام ٹمالے (Tamale) ہے۔ اس میں ہماری ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ کچے بلاکس کی بنی ہوئی مسجد تھی جس پر اندر باہر پلستر کر کے اس کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب میں خلافت کے بعد پہلے دورے پر غانا گیا ہوں تو ٹمالے بھی گیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں ایک بہت بڑی دو منزلہ مسجد ہے، جو یہ آپ کی مسجد ہے اس سے قریباً تین گنا بڑی ہو گی۔ ساتھ اس کے دفاتر وغیرہ بھی ہیں۔ اور مجھے بتایا گیا کہ ہمارے ایک احمدی نے اس کا سارا خرچ برداشت کیا۔ اور یہ بھی مجھے پتا ہے کہ ان کے لئے اتنا آسان نہیں تھا۔ تین چار سال میں انہوں نے اس کی payment کی۔ لیکن بہرحال انہوں نے کہا کہ سب کچھ مَیں کروں گا اور کیا۔ تو یہ مزاج جیسا کہ میں نے کہا احمدیوں کا ہر جگہ ہے۔ افریقن لوگوں کے متعلق ہم عموماً سمجھتے ہیں کہ شاید غربت کی وجہ سے ان میں لالچ ہو لیکن جب ان کے پاس پیسے آتے ہیں تو جو قربانی کے معیار وہ قائم کرتے ہیں وہ بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہر جگہ یہ مزاج ہے کہ خدا تعالیٰ کا گھر تعمیر کیا جائے اور اس کے لئے قربانی کی جائے۔

پاکستان میں ہم مساجد تعمیر نہیں کر سکتے۔ بعض دفعہ مجھے لوگ بڑی بے چینی سے لکھتے ہیں کہ دعا کریں ہم مسجد بنا لیں۔ قانون کی وجہ سے مسجد تو بنا نہیں سکتے، کم از کم ایک ہال میسر آ جائے جہاں اکٹھے ہو کر نمازیں پڑھ سکیں۔ منارہ اور گنبد تو دُور کی بات ہے، مسجد بنانے کے لئے سادہ محراب بھی نہیں بنا سکتے کہ کمرے کی شکل میں آگے محراب نکال دیں۔ بلکہ بعض جگہ تو ایسی سختی ہے کہ قبلہ رخ کوئی عمارت بھی ہم نہیں بنا سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں باہر دنیا کے ممالک میں ایسا نواز رہا ہے کہ ہمارے تصور اور کوشش سے بھی بڑھ کر یہ اللہ تعالیٰ کی نوازشات ہیں اور مساجد بنانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ پس ہم اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو دیکھ کر شکر کے جذبات سے پُر ہیں اور آج یہاں کے رہنے والوں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر میں بڑھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک مسجد عطا فرمائی ہے۔ ایک ایسا گھر عطا فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کا گھر ہے اور خدائے واحد کی عبادت کے لئے ہے۔ بیشک یہ گھر ہے تو خدا تعالیٰ کا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فائدے کے لئے یہ گھر نہیں بنایا۔ اس کا فائدہ بھی ان لوگوں کو ہو رہا ہے اور ہوتا ہے جو اس میں آتے ہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے جس کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور مسجدوں کی تعمیر پر شکر ادا کرنے کا طریق جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے وہ اس آیت میں بیان ہوا ہے جو مَیں نے تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ’اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں‘۔

پس اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان جو ایک مومن ہونے کی اور مسلمان ہونے کی بنیادی شرط ہے یہ تو ضروری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیام نماز بھی ضروری ہے۔ اور قیام نماز کیا ہے؟ یہ پانچ وقت مقررہ وقت پر نماز باجماعت کے لئے آنا ہے۔ قیام نماز کا مطلب ہی یا نماز کے قائم کرنے کا مطلب ہی باجماعت نماز ادا کرنا ہے۔ پھر زکوٰۃ دینا ہے۔ زکوٰۃ کیا ہے؟ یہ اپنے مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے پاک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی اس قربانی میں بڑھے ہوئے ہیں۔ لیکن نمازوں میں آنا اور باجماعت ادا کرنا اس میں سستی ہر جگہ پائی جاتی ہے جبکہ یہ بنیادی چیز ہے۔ اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔

زکوٰۃ کے بارے میں مَیں یہ بھی بتا دوں ایک تو اس میں عمومی زکوٰۃ شامل ہے جو ہر اس شخص پر فرض ہے جو دولتمند ہے جس کا روپیہ بینکوں میں موجود ہے یا اس کے پاس موجود ہے۔ بڑی رقم ہے، سارا سال پڑی رہتی ہے۔ جس کے پاس سونا ہے، جس کے پاس چاندی ہے۔ بعض زمینداروں کے اوپر زکوٰۃ فرض ہے۔ پھر جن کے بڑے بڑے ڈیری فارم (Dairy Farm) ہیں ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اس زکوٰۃ میں سب عورتیں اور مرد شامل ہیں اور اس کا ایک مقررہ نصاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آپ نے مقرر فرمایا۔ اسی طرح خاص طور پر زکوٰۃ کے معاملے میں یہ بھی بتا دوں کہ اس طرف عورتوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ یہاں آ کر بہتر حالات ہو کر ان کے پاس کافی سونے کے زیور ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کی بھی، چھوٹی عمر کی عورتوں کو اکثر میں نے دیکھا ہے کہ کافی بھاری بھاری سونے کے کڑے اور چوڑیاں پہنی ہوتی ہیں۔ بیشک پہنیں۔ زینت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے۔ لیکن اس پر زکوٰۃ دینا بھی فرض ہے۔

پھر زکوٰۃ میں، تزکیۂ اموال میں، اپنے مال کو پاک کرنے میں، ہر وہ چندہ بھی شامل ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس سے متعلقہ کاموں پر خرچ ہوتا ہے۔ حقوق العباد ادا کرنے کے لئے خرچ ہوتا ہے۔ اِس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی ہے جو اشاعت دین کے کاموں میں خرچ کرتی ہے۔ مساجد کی تعمیر ہے، مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے، مبلغین کا نظام ہے، سکول ہیں، ہسپتال ہیں۔ پھر اس زکوٰۃ کے بعد اگلا جو حکم ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے کسی سے خوف نہ کھاؤ۔ اگر خدا تعالیٰ کا خوف رہے تو پھر ہی انسان بہت سی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ ان ملکوں میں جو آزادی کے نام پر بہت سی برائیاں ہیں ان سے بچ سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہونا بڑا ضروری ہے اور خدا تعالیٰ کا خوف ہی تقویٰ ہے۔ اور تقویٰ کے بارے میں قرآن کریم میں بیشمار آیات ہیں جن میں مختلف احکامات ہمیں دئیے گئے ہیں۔ پس اگر ان باتوں پر عمل ہے تو سمجھیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہدایت یافتہ شمار ہو سکتے ہیں اور مسجد کی آبادی کے مقصد کو پورا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ اور یہی عمل ہیں اور یہی ایمان پر قائم ہونا اور پختہ ہونا ہے جو مسجد کی تعمیر کا مقصد پورا کرتا ہے اور یہی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کا شکر گزار بناتی ہے ورنہ صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم نے مسجد بنا دی اور نمازوں پر کبھی کبھار آ گئے، خدا تعالیٰ سے زیادہ بندوں کا خوف ہونے لگے۔ دنیا کے لالچ اور ترجیحات ہوں، دین اور اس کے فرائض کو بھلا دیں تو پھر ایک عارضی ثواب تو شاید ایسے شخص نے کما لیا ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے مستقل فضلوں سے دُور چلے جانے والے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسجدوں کی حقیقی آبادی انہی لوگوں سے ہے جو ایمانی اور اعتقادی لحاظ سے بھی مضبوط اور عملی لحاظ سے بھی بڑھتے چلے جانے والے ہیں۔ سب سے پہلے یہ فرض جماعت کے عہدیداروں اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں کا ہے کہ مسجدوں کی آبادی کو اپنی حاضری سے لازمی بنائیں۔ جماعت نے جو مال اور وقت کی قربانی دی ہے اس کا مستقل ثواب حاصل کرنے کے لئے عہدیداروں کو بھی اور ہر احمدی کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ اس وقت جو مسجد آپ کی تعداد سے تین گنا بڑی ہے اس کو چھوٹا کر دیں۔ اور مسجدیں چھوٹی اس وقت ہوتی ہیں جب نمازیوں کی تعداد بڑھتی ہے اور جماعت کی تعداد بڑھتی ہے۔ جماعت کی تعداد بڑھانے کے لئے تبلیغ بہت ضروری ہے بلکہ انتہائی ضروری ہے۔

مسجد کی تعمیر پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اس رنگ میں کریں کہ حقیقی اسلام اور احمدیت کا پیغام یہاں کے رہنے والے ہر شخص تک پہنچائیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ لوگوں کا حق ادا کرنا بھی ہے۔ یہ ان لوگوں کا حق ہے کہ ہم ان تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچائیں۔ انہیں گند اور غلاظتوں سے باہر لائیں۔ دنیا کو اس کے خالق حقیقی کا پتا دینا ہمارا کام ہے۔ اس وقت دنیا کی اکثریت دنیاوی ترقی اور اس کی چمک دمک اور اس میں گم ہو جانے کو سب کچھ سمجھتی ہے لیکن ان کو یہ نہیں پتا کہ ان عارضی روشنیوں کے آخر پر ایک گھپ اندھیرا ہے جس میں یہ ڈوبنے والے ہیں۔ ایسے وقت میں یہ افراد جماعت کا کام ہے کہ دنیا کو روشن انجام کے راستے دکھائیں۔ ان کو یہ بتائیں کہ یہ عارضی روشنی ہے۔ اصل روشنی وہ ہے جس کا آخر روشن ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے سے ملتا ہے، اس کی عبادت کرنے سے ہوتا ہے اور بے نفس ہو کر عبادت کرنے سے ہوتا ہے اور یہ اُس وقت ہو گا جب ہمیں خود دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر ہو گی۔ دنیا کو ہم اسی وقت بتا سکتے ہیں جب ہم خود اپنے آپ کو بھی دیکھ رہے ہوں۔ اپنی آخرت کی بھی ہمیں فکر ہو تبھی ہم آگے روشنی دکھا سکتے ہیں۔ پھر ہم محبت اور پیار کے صرف نعرے لگانے والے نہیں ہوں گے بلکہ آپس میں ایک دوسرے کے حق بھی ادا کر رہے ہوں گے۔ اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے بلکہ ہمارے ہر قول و فعل سے جہاں اللہ تعالیٰ کے لئے پیار اور محبت کے چشمے ابل رہے ہوں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بھی پیار اور محبت کے چشمے ابل رہے ہوں گے۔ جو لوگ ہمیں دُور سے دیکھ کر اور ہمارے نعرے کو سن کر ہمارے قریب آتے ہیں، جو اسلام کی خوبصورت تعلیم ہمارے سے سن کے متاثر ہوتے ہیں وہ قریب آ کر کبھی یہ نہ کہیں کہ تم جو دُور سے نظر آتے تھے اس طرح قریب سے دیکھنے پر نہیں ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اُخروی جنت کو حاصل کرنے کے لئے اس دنیا کو بھی جنت بنائیں۔ اپنی عبادتوں سے بھی اور اپنے عمل سے بھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو وہاں کچھ کھا اور پی لیا کرو۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجلس میں بیٹھے تھے اور اکثر انہی سے روایات ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس پر پوچھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے باغ کیا ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مساجد جنت کے باغ ہیں۔ پھر عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں کھانے پینے سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر۔ تسبیح، تحمید۔ سُبْحَانَ اللّٰہ کہنا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، یہ سب کہنا اور پڑھنا جنت کے کھانے ہیں اور پینے ہیں۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب منہ حدیث3509)

پس نمازوں کے ساتھ مساجد میں بیٹھ کر تسبیح اور تحمید کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا، اس دنیا میں جنت کے پھل کھانا ہے اور جو اس طرح اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کی طرف توجہ دینے والا ہو وہ صرف اخروی جنت کو نہیں دیکھ رہا ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اپنے عملوں کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔

پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس دنیا میں بھی جنت کے پھل کھاتے ہیں اور کھلاتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔ ان لوگوں میں شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔ ’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے‘‘ یعنی مضبوط قلعہ ہے جس میں انسان شیطان سے بچتا ہے اگر تقویٰ پر چلے۔ فرمایا کہ ’’ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ342)

ہر ایک کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ جو قربانیوں کے نمونے آپ نے دکھائے ہیں ان کو تقویٰ سے قائم رکھنا ضروری ہے۔ نہیں تو یہ عارضی قربانیاں ہوں گی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شکرگزاری تبلیغ کا حق ادا کرنا بھی ہے لیکن مسجد کے بننے سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی خود بخود مسجد کی طرف نظر اٹھے گی اور مسجد دیکھ کر آپ کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ یہاں کے رہنے والے احمدیوں کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اور اس وقت ہر احمدی کا عمل اور تقویٰ ہے جو دوسروں کی ہدایت کا باعث بنے گا۔ پس یہ مسجد یہاں رہنے والے ہر احمدی پر ذمہ داری ڈال رہی ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے ہر احمدی کو نمونہ دکھانے کی ضرورت ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔ ’’ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔‘‘ فرمایا کہ ’’…جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ برے نمونے سے اَوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں اگرچہ آپ کی جماعت میں ابھی داخل نہیں مگر آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگاتا ہوں کہ اس جماعت کی تعلیم ضرور نیکی پر مشتمل ہے۔‘‘

آج بھی بہت سے لوگ مجھے لکھتے بھی ہیں اور بعض لوگ ملنے پر کہتے بھی ہیں کہ جماعت کے لوگوں کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ آپ کی تعلیم امن اور سلامتی اور پیار اور محبت کی تعلیم ہے۔ پس اس کردار کو جاری رکھنا، اس تعلیم کو مزید پھیلانا، اس کومستقلاً اپنے عملوں میں ڈھالنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’…خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے‘‘۔ روزانہ کی ایک ڈائری بن رہی ہوتی ہے جس پہ اعمال لکھے جاتے ہیں ’’پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ تو بناتا ہی ہے لیکن خود ہر شخص کو بھی چاہئے، ایک مومن کو بھی چاہئے کہ اپنے حالات کا ایک جائزہ لے۔ روزانہ اپنی ڈائری لکھے۔ دیکھے کیا میں نے اچھے کام کئے۔ کیا میں نے برے کام کئے۔ فرمایا کہ انسان کو بھی حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے ’’اور اس میں غور کرنا چاہئے۔‘‘ صرف لکھ نہیں لینا بلکہ اس پہ غور کرنا چاہئے ’’کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔‘‘ انسان کا غور کرنا یہ ہے کہ ہم نیکی میں کس حد تک بڑھے ہیں۔ کل جہاں تھے اس سے آگے قدم رکھا ہے کہ نہیں رکھا۔ فرمایا کہ ’’انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔‘‘ اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہماری نیکی جو کل تھی وہ آج بھی قائم ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ تمہارا قدم کل کی نسبت آج نیکی میں بڑھے۔ اگر نہیں تو سمجھو تم فائدہ نہیں اٹھا رہے، نقصان اٹھا رہے ہو، گھاٹے میں جا رہے ہو۔ فرمایا کہ ’’انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد10 صفحہ137-138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس آج دنیا کو ہلاکت سے بچانا احمدیوں کا کام ہے لیکن اس کے لئے شرط وہی ہے کہ ہمارے قدم آگے بڑھیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کی خاطر بھی لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔ پس ہر احمدی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو بچائے۔ جو دنیا خدا کو بھول رہی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو بچائیں۔ بعض اخلاقی لحاظ سے اگر بہتر لوگ بھی ہیں، بعض کہہ دیتے ہیں مذہب کو ہم نے کیا ماننا ہے ہمارے اخلاق بہتر ہیں۔ بعض بنیادی اخلاق تو بہتر ہیں، روزمرہ کے اخلاق ہیں، ملنا جلنا تو بہتر ہے، کسی کا حق بھی بعض نہیں مارتے لیکن بعض لحاظ سے آزادی کے نام پر اخلاقی طور پر یہ لوگ دیوالیہ ہو چکے ہیں اور پھر قانون بھی ان کو تحفظ دے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تو دنیا بالکل بھول چکی ہے۔ ایسے میں ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آئے ہیں ہم بھی اگر اپنی قدروں کو بھول کر، خدا تعالیٰ کو بھول کر، اسلامی اخلاق کو بھول کر دنیا کے پیچھے چل پڑے تو دنیا کی اصلاح کون کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیشک اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اور وہ تو پورے ہوں گے اور لوگ مل جائیں گے لیکن یہ نہ ہو کہ ہم اس سے محروم رہ جائیں۔ پس آج بھی ہر احمدی کا فرض ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اپنا جائزہ ہر احمدی کو لینے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کر سکیں۔ صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ مسجد بنا دی۔ ہمارا ٹارگٹ تو یہ ہونا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آنے والوں کی تعداد کو بڑھانا ہے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہمارا ہر قدم آگے بڑھنے والا نہ ہو۔ ہم میں سے ہر ایک اپنوں کے لئے بھی اور غیروں کے لئے بھی نمونہ نہ بن جائے۔ ہم میں سے کوئی کسی کو دکھ دینے والا نہ ہو بلکہ اپنوں، غیروں کا حق ادا کرنے والا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں، خویش و اقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ۔ مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد10 صفحہ138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ہم میں سے ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو محسوس کرنا چاہئے اور اپنے وہ نمونے قائم کرنے چاہئیں جو جماعت کی نیک نامی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نیک نامی کا باعث بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارا کل، ہمارے آج سے بہتر ہو۔ ہمارے بچے اور ہماری نسلیں اس بات کو سمجھنے والی ہوں کہ ان کے ماں باپ نے جو قربانیاں دیں، جو مسجدیں بنائیں، جو تبلیغ کے کام کئے اور بچوں کو دین کو دنیا پر قائم رہنے کی جو تلقین کی وہی حقیقی دولت ہے جو اُن کے لئے چھوڑی ہے۔ اور پھر آئندہ نسلیں اپنی نسلوں کے دلوں میں یہ سوچ پیدا کرتی چلی جانے والی ہوں اور اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہماری آئندہ نسلیں بھی سمیٹتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 4؍ نومبر 2016ء شہ سرخیاں

    الحمد للہ جماعت احمدیہ رجائنا (Regina) کو بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ ماشاء اللہ بڑی خوبصورت مسجد ہے۔ اس وقت جو جماعت کی تعداد ہے اس کے لحاظ سے یہ مسجد موجودہ ضرورت سے تین گنا بڑی ہے۔ اس کے اخراجات بھی مقامی جماعت نے ہی ادا کئے ہیں یا ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے بلکہ نقد رقم کے لحاظ سے جو کُل خرچ ہوا ہے اس کا بھی تقریباً تیسرا حصہ دو افرادنے ادا کرنے کی ذمہ داری لی ہے جن میں سے ایک ہمارے ڈاکٹر شمس الحق شہید کی بیوہ ہیں۔ ٹھیکیداروں کے کم سے کم ٹینڈر کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رقم میں مسجد کی تکمیل ہو گئی۔ اس مسجد کی تعمیر میں جماعت کے اموال کی جو نصف سے زائد رقم بچائی گئی وہ مجھے بتایا گیا کہ سسکاٹون کے تین بھائیوں نے جو تعمیر کے کام میں ہیں رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں اور اس طرح یہ رقم بچائی۔ اسی طرح دیگر رضاکار بھی کام میں شامل ہوئے۔ ان بھائیوں کی جو کنٹریکٹر ہیں ان کی مدد ایک چوتھے کنٹریکٹر کی طرف سے بھی ہوئی

    ایک طرف بعض مسلمان دنیا میں بدامنی پھیلانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف دنیا کے ایسے حصہ میں رہنے والے احمدی مسلمان جو ترقی یافتہ اور دنیاوی ترجیحات میں بڑھا ہوا ملک ہے اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کرنے کے لئے اپنا مال اور وقت پیش کر رہے ہیں

    اس مسجد کی تعمیر سے کینیڈا کی جماعت کو یہ اعزاز بھی پہلی دفعہ حاصل ہوا کہ احمدی رضا کاروں نے اکثر کام کر کے جماعت کی رقم بچائی۔ دنیا میں اور جگہ تو اس طرح کام ہوتا ہے لیکن یہاں اس طرح پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والے، چاہے وہ مالی قربانی کرنے والے ہیں، وقت کی قربانی کرنے والے ہیں، مرد ہیں، عورتیں ہیں جنہوں نے بڑی بڑی رقمیں ادا کی ہیں یا وعدے کئے ہیں ان سب کو جزا دے اور ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکتیں ڈالے۔

    ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مسجد ہماری تربیت کے لئے بھی اور تبلیغ کے لئے بھی انتہائی اہم ہے۔ اس لئے میں نے امیر صاحب کو کہا تھا کہ وہ چھوٹی مسجدیں بنائیں لیکن ہر جماعت میں مسجد بنانے کی کوشش کریں۔ باوجود اس کے کہ چھوٹی مسجدیں بنانے کا پروگرام ہم نے بنایا ہے، ہمارے وسائل ایسے نہیں کہ ہر جگہ جلد سے جلد مسجد بنا سکیں اس لئے مسجد بنانے میں، تعمیر کرنے میں یہ جو رضاکارانہ کام، والنٹیئرز کا کام شروع کیا ہے یہ ایک اچھی روایت قائم کی ہے اسے اب جاری بھی رکھنا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے رقم بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

    افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی لوگ ہیں جو بڑی بڑی مساجد بنا کر دیتے ہیں۔ افریقن لوگوں کے متعلق ہم عموماً سمجھتے ہیں کہ شاید غربت کی وجہ سے ان میں لالچ ہو لیکن جب ان کے پاس پیسے آتے ہیں تو جو قربانی کے معیار وہ قائم کرتے ہیں وہ بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہر جگہ یہ مزاج ہے کہ خدا تعالیٰ کا گھر تعمیر کیا جائے اور اس کے لئے قربانی کی جائے۔

    زکوٰۃ میں سب عورتیں اور مرد شامل ہیں اور اس کا ایک مقررہ نصاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آپ نے مقرر فرمایا۔

    پھر زکوٰۃ میں، تزکیۂ اموال میں اپنے مال کو پاک کرنے میں، ہر وہ چندہ بھی شامل ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس سے متعلقہ کاموں پر خرچ ہوتا ہے۔

    مسجدوں کی حقیقی آبادی انہی لوگوں سے ہے جو ایمانی اور اعتقادی لحاظ سے بھی مضبوط اور عملی لحاظ سے بھی بڑھتے چلے جانے والے ہیں۔ سب سے پہلے یہ فرض جماعت کے عہدیداروں اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں کا ہے کہ مسجدوں کی آبادی کو اپنی حاضری سے لازمی بنائیں۔ جماعت نے جو مال اور وقت کی قربانی دی ہے اس کا مستقل ثواب حاصل کرنے کے لئے عہدیداروں کو بھی اور ہر احمدی کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ اس وقت جو مسجد آپ کی تعداد سے تین گنا بڑی ہے اس کو چھوٹا کر دیں۔ اور مسجدیں چھوٹی اس وقت ہوتی ہیں جب نمازیوں کی تعداد بڑھتی ہے اور جماعت کی تعداد بڑھتی ہے۔ جماعت کی تعداد بڑھانے کے لئے تبلیغ بہت ضروری ہے بلکہ انتہائی ضروری ہے۔

    فرمودہ مورخہ 04؍نومبر 2016ء بمطابق04؍نبوت 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجد محمود، ریجائنا، کینیڈا

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور