مالی قربانیوں کے حیرت انگیز ایمان افروز واقعات اور تحریک جدید

خطبہ جمعہ 11؍ نومبر 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر مالی قربانیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ:

’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دے دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتّقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران: 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’کیونکہ مخلوق الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے۔ اور ابنائے جنس اور مخلوق الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بِدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شئے ہے اور اس آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس مال کا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ95-96۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک اور اقتباس ہے وہ بھی پڑھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔‘‘ پھر فرمایا ’’مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ76۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آجکل کی دنیا سمجھتی ہے کہ مال کو جمع کرنا اور اسے صرف اپنے آرام و آسائش کے لئے خرچ کرنا ہی ان کے لئے خوشی اور سکون کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن ایک مومن جس کو دین کا حقیقی ادراک اور شعور ہو سمجھتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتیں اور سہولتیں انسان کے لئے پیدا فرمائی ہیں لیکن زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، تقویٰ پر چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے اور اس کی مخلوق کا حق ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے جس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے کہ اصل سکون تو نیکیاں کرنے سے ملتا ہے، مال جمع کرنے سے نہیں ملتا اور نیکی اس وقت تک اپنے معیار کو حاصل نہیں کر سکتی جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے کے لئے وہ چیز خرچ نہ کرو جس سے تمہیں محبت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مال و دولت ایسی چیز ہے جس سے انسان بہت محبت کرتا ہے۔ آج اگر ہم جائزہ لیں تو دنیا کے فساد اور فتنوں اور افراتفری کی وجہ دولت کی محبت اور ہوس ہے۔ پھر دنیا دار کو تو یہ بھی نہیں پتا کہ اگر اس کے پاس بہت سی دولت آ گئی ہے تو اسے خرچ کس طرح کرنا ہے۔ مغربی ممالک میں جو ترقی یافتہ ممالک کہلاتے ہیں بیشک ان میں بہت بڑے بڑے امیر لوگ بھی ہیں لیکن ان کے اخراجات کیا ہیں۔ یہاں خرچ کرنے کے لئے ان کے پاس جو چیزیں ہیں casino ہیں وہاں جا کر یہ عیاشیوں میں خرچ کرتے ہیں۔ جوؤں پے رقم خرچ کرتے ہیں۔ بلکہ مسلمان ممالک کا بھی یہ حال ہے، مسلمانوں کا بھی کہ وہ لوگ بھی یہاں آ کر یہ عیاشیاں کرتے اور خرچ کرتے ہیں بلکہ ان کے اپنے ممالک میں ایسی جگہیں ہیں جہاں کھلے خرچ کئے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا مَیں نے ایک رسالے میں ایک آئس کریم کا اشتہار دیکھا جو دبئی کے ہوٹل کا اشتہار تھا جس کے ایک کپ کی، جس میں دو یا تین سکوپ تھے، اس کی قیمت ساڑھے آٹھ سو ڈالر تھی کہ اس میں فلاں جگہ کا زعفران استعمال ہوا ہے اور فلاں جگہ کی فلاں چیز استعمال ہوئی ہے اور اس پہ سونے کا ورق چڑھایا گیا ہے۔ ساڑھے آٹھ سو ڈالر میں ایک غریب ملک کے ایک پورے خاندان کا بہت اعلیٰ رنگ میں گزارہ ہو سکتا ہے لیکن یہ لوگ ایک کپ آئس کریم کھانے میں لگا دیتے ہیں۔ تو جن کے پاس پیسہ بے انتہا ہو ان کو پتا ہی نہیں کہ خرچ کس طرح کرنا ہے اور کس طرح اس سے سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خرچ تو بیشک یہ لوگ کرتے ہیں لیکن اپنی عیاشیوں کی تسکین کے لئے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور نیکیوں کے لئے۔

لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایمان میں بڑھنے کے لئے ان لغویات اور عیاشیوں پر خرچ کرنے کی بجائے مخلوق الٰہی سے ہمدردی اور اس سے حسن سلوک پر خرچ کرو۔ اگر یہ نہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں حاصل کر سکتے۔ مخلوق کی ہمدردی میں جہاں ضرورتمندوں کی ضرورت کا خیال رکھنا ہے وہاں ان کے دین و ایمان اور انہیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا خیال رکھنا بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو بے چین رہتے تھے جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ لوگوں کی حالت دیکھ کر تُو اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا۔ وہ کیا حالت تھی جس کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہوتے تھے۔ وہ حالت ان لوگوں کی اللہ تعالیٰ سے دوری کی تھی، ایمان سے دوری کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کوتکلیف میں اس لئے ڈالتے تھے کہ یہ لوگ ایمان نہ لا کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جائیں گے۔

پس اس زمانے میں بھی علاوہ مادی ضروریات کے پورا کرنے کے جس کے لئے مال خرچ کرنا ضروری ہے، غریبوں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ ہم احمدیوں کے لئے روحانی ضروریات پوری کرنے کے لئے مال خرچ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ تکمیل اشاعت ہدایت کا کام اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا گیا ہے۔ وہ ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کُل انسانیت کے لئے لائے تھے اور جس کے پھیلانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے چین تھے اس کی تکمیل کا یہ زمانہ ہے جب سب ذرائع میسر ہیں۔ جس طرح یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد کیا گیا تھا اسی طرح اب یہ کام آپ کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ ان کے سپرد ہے جو یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ امیر لوگ تو اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کثرت سے ان کے پاس دولت ہے کہ ان کو پتا نہیں چلتا کہ وہ خرچ کیا کریں، کس طرح کریں۔ ساری ضروریات پوری کرنے کے بعد انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اس دولت کا کیا کرنا ہے کیونکہ ان کا دین اور انسانی ہمدردی کا خانہ تو عموماً خالی ہوتا ہے تو پھر عیاشیوں اور بیہودگیوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن مومن وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زائد مال ہی نہیں بلکہ حقیقی نیکی حاصل کرنے کے لئے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اس مال سے خرچ کرو جس سے تمہیں محبت ہے۔ بیشک بعض امراء بھی بعض چیریٹیز (charities) میں خرچ کرتے ہیں، صدقہ و خیرات بھی کر دیتے ہیں لیکن ان کے خرچ ان کی آمد کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں اور پھر ان میں کوئی باقاعدگی نہیں ہوتی۔ پس باقاعدگی سے اور نیک مقاصد کے پورا کرنے کے لئے نیکیاں کمانے کے لئے صرف مومن خرچ کرتا ہے اور اس زمانے میں جماعت احمدیہ ہی مومنین کی وہ جماعت ہے جو ایک نظام کے تحت اشاعت اسلام کے لئے خرچ کرتی ہے جس میں مختلف ذرائع سے تبلیغ کے کام ہیں اور مخلوق سے ہمدردی کی وجہ سے ان کے حق ادا کرتے ہوئے ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تکلیف اٹھا کر یہ خرچ کرتے ہیں اور اس یقین سے خرچ کرتے ہیں کہ جہاں یہ خرچ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا وہاں یہ بھی تسلی ہے کہ صحیح طریق سے خرچ ہو گا۔ اس بات کا اعتراف تو بعض غیر لوگ بھی کئے بغیر نہیں رہتے کہ جماعت کا مالی نظام اور خرچ بہترین ہے۔

ہمارے کبابیر کے مبلغ نے ایک واقعہ لکھا کہ یروشلم یونیورسٹی کے دو ریٹائرڈ پروفیسر اپنے دو بیرونی مہمان دوستوں کے ساتھ ہمارے مشن کبابیر میں آئے۔ ان کے ساتھ جماعت کے متعلق گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ نظام جماعت کا بتایا گیا۔ ان مہمانوں میں ایک آسٹریا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر تھے۔ وہ آخر پر کہنے لگے کہ مجھے جماعت احمدیہ کی جو سب سے اچھی بات لگی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی جماعت کا مالی نظام نہایت پاک اور صاف ہے۔ کہنے لگے کہ دنیا میں صرف پاکیزہ مال سے انقلاب لے کر آنا شاید آپ لوگوں کے مقدر میں ہی لکھا ہوا ہے اور اس کے لئے آپ کو مبارک ہو۔

اور چندوں کے لئے پاکیزہ مال بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنے اس مال سے دو جو پاک مال ہو، جو جائز طریقے سے کمایا ہوا مال ہو۔ دھوکہ دے کر کمایا ہوا مال نہ ہو۔ ٹیکس بچا کر کمایا ہوا مال نہ ہو۔ یا کسی بھی طریقے سے غلط رنگ میں کمایا ہوا مال نہ ہو۔ پس چندے بھی ان لوگوں سے وصول کئے جاتے ہیں جن کے بارے میں کم از کم یہ پتا ہو کہ یہ غلط قسم سے کمایا ہوا مال نہیں ہے اور اگر ہے تو نظام جماعت چندہ نہیں لیتی۔ اور اگر پھر بھی لیا جاتا ہے تو وہ اگر مجھے پتا لگے تو بہرحال یا تو چندہ واپس کیا جاتا ہے یا ان عہدیداروں کو معطّل کیا جاتا ہے۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ قربانی کر کے دینا اور پاک مال میں سے دینا، تبھی اس میں برکت پڑتی ہے۔ اور جب یہ غیروں کو بتایا جائے تو وہ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں جیسا کہ اس پروفیسر نے کہا۔ پھر یہ بات اس دنیا دار کو بھی نظر آ گئی کہ انقلاب لانے والے یہی لوگ ہیں۔ پس جب تک ہماری نیتیں نیک رہیں گی۔ جب تک ہم پاکیزہ مال کمانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور اس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے یقینا تب ہم انقلاب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے اور یہ انقلاب ہمارے سے مقدر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ ہے۔ کوئی دنیاوی انقلاب ہم نے نہیں لانا بلکہ روحانی انقلاب لانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پہنچانا ہے۔ توحید کا قیام کرنا ہے اور مخلوق کے حق ادا کرنے ہیں۔ اور یہ کوئی انسانی باتیں نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بڑھانے کا وعدہ کیا ہوا ہے جو یہ کام سرانجام دیں گے، جو آپ کے کام کی تکمیل کے لئے ہر قربانی کرنے والے ہوں گے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت کی وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے وہ صدق و وفا کا نمونہ دکھایا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ انہوں نے آپ کی خاطر ہر قسم کا دکھ اٹھانا سہل سمجھا یہاں تک کہ عزیز وطن چھوڑ دیا۔ اپنے املاک و اسباب اور احباب سے الگ ہو گئے۔‘‘ فرماتے ہیں: ’’اسی طرح مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری جماعت کو بھی اس کی قدر اور مرتبہ کے موافق‘‘ یعنی جتنا جتنا جماعت کا ایمان ہے اور جو ان کی حالت ہے۔ صحابہ کا مقام تو بہت اونچا تھا لیکن اس زمانے میں ان صحابہ کا مقام بھی بلند تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے تھے۔ فرماتے ہیں ’’اس کی قدر اور مرتبہ کے موافق ایک جوش بخشا ہے اور وہ وفا داری اور صدق کا نمونہ دکھاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 336-337۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر جماعت کی مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے ’’میری دینی اغرض و مقاصد میں ہمیشہ دل کھول کر چندے دئیے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہر شخص کم و بیش اپنی استطاعت اور مقتدرت کے موافق حصہ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس اخلاص اور وفا داری سے ان چندوں میں شریک ہوتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’مَیں یہ خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت نے وہ صدق و وفا دکھایا ہے جو صحابہ ساعت العُسر میں دکھاتے تھے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 338۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ یعنی تنگی کے موقع پہ دکھاتے تھے۔ ایک موقع پر آپ نے افراد جماعت کے معیار قربانی کو دیکھ کر اس حیرت کا بھی اظہار فرمایا تھا کہ کس طرح یہ لوگ اتنی قربانی دیتے ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں میں وہ انقلاب پیدا کیا جو دنیاوی خواہشات کو پس پشت ڈال کر، پیچھے کر کے دین کو مقدم کرنے والا تھا۔ لیکن کیا قربانی کی جو روح آپ نے اپنے اُن ماننے والوں میں پیدا کی تھی جو براہ راست آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے تھے وہ ختم ہو گئی؟ اُس وقت تک تھی؟ اگر ایسا ہوتا اور اگر ایسا ہے تو پھر جماعت کے قدم ترقی کرنے والے کبھی نہیں ہو سکتے اور نہ کبھی ترقی کی طرف اٹھتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ بھی وعدہ فرمایا تھا کہ تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور اس کے لئے مخلص اور فدائی اور قربانیاں کرنے والی جماعت کی بھی ضرورت تھی۔ اسی طرح آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ آپ کے بعد یہ نظام خلافت جاری ہو گا جو آپ کے کام کی تکمیل کرے گا اور جس کے ساتھ جڑ کر مخلصین اس کام کو سرانجام دیں گے۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کس طرح پورے فرماتا چلا جا رہا ہے۔ مخلصین کی ایک جماعت ہے اور خلافت کے ساتھ جڑ کر جان، مال اور وقت کی قربانی دے رہی ہے۔

کیونکہ آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان بھی کروں گا اس لئے مَیں ان چند قربانی کرنے والوں کے کچھ واقعات پیش کرتا ہوں جو مالی قربانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ صرف امیر ممالک میں نہیں بلکہ غریب ممالک اور بالکل نئے شامل ہونے والے احمدی جو ہیں ان کے دل بھی اللہ تعالیٰ احمدیت قبول کرنے کے بعد کس طرح پھیرتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ باوجود تنگی کے وہ قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں۔ چنانچہ مبلغ انچارج گنی کناکری لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت ہے سُومبُویادی (Soumbouyady) اس کی مسجد کے امام اپنی مسجد سمیت اس سال جماعت میں شامل ہوئے۔ جب انہیں جماعت کے مالی نظام اور تحریک جدید کی اہمیت وغیرہ کے متعلق بتایا گیا تو کہنے لگے کہ میں نے خود بھی چندہ اور زکوٰۃ پر بہت زیادہ لیکچر دئیے ہیں لیکن اتنا مضبوط اور جامع مالی نظام مَیں نے کہیں اور نہیں دیکھا اور نہ کبھی ایسے نظام کے بارے میں سنا تھا۔ چنانچہ موصوف نے اسی وقت چندے کی ادائیگی کی اور کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ہر ماہ ہماری ساری جماعت چندہ ادا کرے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غریب علاقے کے ہیں اور غربت کا جو معیار یورپ میں یا مغرب میں ہے اس کے بھی انتہائی نچلے درجے کے غریب ہیں۔ لیکن قربانیوں میں یہ سب سے اعلیٰ درجہ پر پہنچنے والے لوگ ہیں۔ پھر یہ صرف ایک ملک کا قصہ نہیں بلکہ یہ ہوا دنیا کے بہت سے ممالک میں چل رہی ہے۔ پہلے گنی کناکری کا ذکر ہوا تھا تو اب آئیوری کوسٹ کے مبلغ صاحب بھی لکھتے ہیں کہ ہم تبلیغ کے لئے ایک گاؤں کوپنگے (Kopingue)میں گئے اور انہیں جماعت کا پیغام پہنچایا۔ تمام مرد و زن نے بہت غور سے ہماری تبلیغ سنی۔ ایک دوست کہنے لگے کہ پہلے بھی یہاں کافی لوگ تبلیغ کے لئے آ چکے ہیں لیکن اس طرح کا خوبصورت پیغام ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ چنانچہ اس کے بعد تین سو کے قریب لوگوں نے اسی وقت جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد انہیں جماعت کے مالی نظام اور تحریک جدید کے بارے میں بتایا گیا اور باتوں باتوں میں یہ ذکر بھی ہو گیا کہ تحریک جدید کا جو سال ہے آج اس کا یہ آخری دن ہے۔ اس پر گاؤں کے چیف اور امام نے گاؤں والوں سے کہا کہ ہم بیشک آج احمدی ہوئے ہیں اور احمدیت میں آج شامل ہوئے ہیں لیکن ہر صورت میں اس مبارک تحریک میں شامل ہوں گے۔ چنانچہ گاؤں والوں نے فوری طور پر دس ہزار فرانک جمع کر کے تحریک جدید میں ادا کئے۔

پھر قربانی کا ایک واقعہ افریقہ کے ایک اور ملک تنزانیہ کے موانزہ ریجن کا ہے۔ وہاں کے ایک دوست کا تحریک جدید کا وعدہ دو لاکھ شلنگ کا تھا جس میں سے انہوں نے ایک لاکھ شلنگ کی ادائیگی کر دی تھی جبکہ ایک لاکھ بقایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اکتوبر میں امیر صاحب نے انہیں توجہ دلائی کہ ابھی آپ کے ذمہ ایک لاکھ شلنگ بقایا ہے اور تحریک جدید کا سال ختم ہو رہا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں اس وقت سفر پہ ہوں لیکن مَیں کوئی انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ایک بس ڈرائیور کے ہاتھ یہ رقم بھجوا دی اور اسے یہ کہا کہ یہ میرا چندہ ہے جس کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور وہاں پہنچتے ہی یہ ساری رقم معلم کو دے دینا۔ اس کا نام بتایا، پتہ دیا۔ چنانچہ وہ بس ڈرائیور جونہی بس اسٹینڈ پر پہنچا اس نے معلم صاحب کو فون کر کے کہا کہ آپ کی امانت میرے پاس ہے آ کے لے جائیں۔ جب معلم چندہ لینے گئے تو ڈرائیور نے معلم سے کہا کہ وہ بھی احمدی ہونا چاہتا ہے۔ اس بس ڈرائیور کے بیوی بچے پہلے احمدی ہو چکے تھے لیکن وہ خودنہیں ہو رہا تھا کہ تسلی نہیں ہے۔ کہنے لگا مجھے اس بات نے بہت متاثر کیا ہے کہ اس مادی دور میں جہاں انسان مال سے بہت محبت کرتا ہے اور ہم تو غریب علاقے کے لوگ ہیں، کس طرح اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کئے ہیں جو اللہ کی راہ میں مال دے کر حقیقی خوشیاں اور سکون پاتے ہیں۔ اس طرح احمدی دوست جنہوں نے بس ڈرائیور کے ذریعہ سے اپنا چندہ بھجوایا تھا ان کایہ چندہ بھجوانا اس غیر احمدی کو بھی احمدیت میں شامل کرنے کا باعث بن گیا۔ پس یہ ہیں وہ نیک نیتی سے دئیے ہوئے چندے جن کے نتائج فوری طور پر نکلتے ہیں۔ مالی قربانی جو محبوب مال میں سے دی گئی ہے وہ ایک سعید روح کی اصلاح کا باعث بن گئی۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ پھل دینے کے مختلف ذرائع استعمال کرتا ہے۔

اسی طرح سینیگال کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کے ایک ممبر عمر صاحب کے والد جو کہ غیر احمدی تھے گنی کناکری سے انتہائی بیماری کی حالت میں آئے۔ ابتدائی ادویات اور چیک اَپ کے بعد ڈاکٹروں نے پراسٹیٹ کا آپریشن تجویز کیا لیکن عمر دیالو صاحب کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنے والد کا آپریشن کروا سکتے اور اتنا بڑا قرضہ لینا بھی ان کے لئے مشکل نظر آ رہا تھا۔ بیحد پریشان تھے۔ کہتے ہیں کہ اکتوبر کا پہلا ہفتہ شروع ہوا تو جمعہ کے خطبہ میں جب میں نے تحریک جدید کے بارے میں توجہ دلائی تو اگلے روز عمر صاحب مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے میری تحریک جدید کے چندے کی رسید کاٹ دیں۔ امیر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ان کے حالات کا پتا تھا میں نے انہیں کہا کہ آپ کے پہلے حالات ایسے ہیں، والد بیمار ہیں آپ یہ قربانی کس طرح کریں گے۔ انہوں نے کہا کل جو آپ نے خطبہ دیا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ سے سودا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے سودا کرنے آیا ہوں اس لئے آپ میری رسید کاٹیں۔ یہ کہتے ہیں کہ میں دو دن کے بعد جب ان کے گھر ان کے والد کی عیادت کرنے کے لئے گیا تو ان کے والد باہر کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور عمر صاحب کچھ دیر کے بعد آئے اور کہنے لگے کہ آج میری تجارت کامیاب ہو گئی کہ اللہ کے فضل سے والد بالکل ٹھیک ہیں اور درد وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ کچھ دن کے بعد ڈاکٹر نے بھی دوبارہ چیک اَپ کیا تو اس نے کہا کہ آپریشن کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد ان کے والدنے بھی بیعت کر لی۔ تو یہ بعض دفعہ نقد سودے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے مَیں نے مسجد کے افتتاح پر بھی یہاں کے ایک شخص کاذکر کیا تھا کہ کس طرح اس نے مسجد کی خدمت کو ترجیح دی اور اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر اس کے لئے بہت بڑی رقم کا انتظام کر دیا۔ ایک دنیا دار تو شاید اس کو اتفاق سمجھے لیکن خدا پر یقین رکھنے والا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہوا۔

اسی طرح کانگو کنشاسا کی ایک جماعت Vunda Mulunde کے ایک احمدی دوست ایوب Kukondolo صاحب کہتے ہیں کہ میں پہلے جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ میرا بیٹا ہمیشہ بیمار رہتا تھا اور اس کے علاج معالجہ پر بہت خرچ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں پھر مجھے لوکل عاملہ میں سیکرٹری مال کی ذمہ داری دی گئی۔ اس پر میں نے سوچا کہ جب مجھے سیکرٹری مال بنایا گیا ہے تو میری مالی قربانی جماعت کے لئے نمونہ ہونا چاہئے۔ اب ایک دور دراز رہنے والے ایک ملک میں چھوٹی سی جگہ پر ایک غریب آدمی کو یہ خیال آتا ہے کہ جب مجھے سیکرٹری مال بنایا گیا تو میری قربانی کا معیار بھی دوسروں سے زیادہ بہتر ہونا چاہئے۔ کہتے ہیں میں نے باقاعدگی سے چندہ دینا شروع کر دیا اور چندے کی برکت سے میرے حالات میں بھی تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ زندگی پُرسکون اور خوشحال ہونے لگی۔ میرا بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماریوں سے محفوظ ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ سب جماعت کی خدمت اور مالی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔

پیٹ کاٹ کر قربانی کرنے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ سنا تو تھا لیکن اس کی حقیقت تک انسان نہیں پہنچ سکتا جب تک بعض ایسے واقعات سامنے نہ آئیں۔ غریبوں کی قربانیوں کے معیار دیکھ کر یہ چیزیں سامنے آتی ہیں۔ گیمبیا میں Yeeda گاؤں کی ایک خاتون نے احمدیت قبول کی۔ تحریک جدید کے بارے میں جب انہیں بتایا گیا تو اس خاتون نے جواب دیا کہ میرے گھر میں صرف چاول خریدنے کے لئے سو ڈلاسی پڑے ہوئے ہیں۔ چاول بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ اس خاتون نے یہ بھی بتایا کہ اس کا اکلوتا بیٹا جو اس کے خاندان کو سپورٹ کرتا تھا وہ دو سال سے غائب ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ فوت ہو چکا ہو گا۔ اب اس کا کوئی اَتا پتا نہیں لیکن ساتھ ہی اس خاتون نے کہا کہ ٹھیک ہے مَیں گزارہ کر لوں گی، کھانے کے لئے کہیں سے ادھار لے لوں گی۔ یہ رقم جو ہے یہ تحریک جدید کے چندے میں دے دیں۔ اللہ تعالیٰ خود میرا کوئی بندوبست کر دے گا۔ اس واقعہ کے تین دن بعد ہی اس کا وہ لڑکا جو دو سال سے غائب تھا واپس آ گیا اور اپنے ساتھ چاول کی دس بوریاں بھی لے کر آیا اور بہت بڑی رقم لے کر آیا۔ تو اس لڑکے نے بتایا کہ جب وہ غائب تھا تو اس عرصے میں وہ تعمیرات کا کام سیکھتا رہا اور اب اسے شہر میں رہتے ہوئے بہت بڑے اور اچھے ٹھیکے ملنے لگ گئے ہیں۔ تو یہ خاتون خود کہنے لگیں کہ یہ میری اس وقت کی مالی قربانی کی برکت ہے اور میں آئندہ ہمیشہ حصہ لوں گی۔

کیا یہ انقلاب نہیں ہے جو دور بیٹھے ہوئے لوگوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے پیدا کر دیا ہے؟ یقینا ہے۔ اس عورت کی ایمانی حالت دیکھیں کس درجے پر پہنچی ہوئی ہے کہ اس نے اپنی بھوک کی کوئی پرواہ نہیں کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی جو اس سے سلوک فرمایا وہ بھی حیران کن ہے۔

مالی سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ایک احمدی خاتون جن کی عمر اسّی سال کے قریب ہے بڑا باقاعدہ چندہ دیتی ہیں۔ ایک دن گھر سے پیدل چل کر جو ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا مشن ہاؤس آئیں اور گرمی میں ان کا برا حال تھا۔ ان ممالک میں گرمی بھی بڑی پڑتی ہے۔ اِنہوں نے کہا کہ آپ مجھے بتا دیتیں میں آ کے چندہ لے لیتا۔ کہنے لگیں کہ مجھے مالی قربانی کا جب سے پتا لگا ہے کہ اس کی کیا اہمیت ہے تو مَیں نہیں چاہتی کہ اس کا ثواب ضائع کروں۔ ایک تو پیدل چل کے آئیں اس لئے کہ رکشہ پہ جو پیسے لگنے تھے وہ بھی میں چندے میں دے دوں۔ تو یہ ہیں لوگوں کے معیار جو دور دراز علاقوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس طرح احمدیوں کے ایمانوں کو ذاتی تجربات میں سے گزار کر تقویت بخشتا ہے وہ بھی ہر واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے۔

بینن کے معلم زکریا صاحب ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک جماعت سنوے پوتا (Sinwe Kpota) کے صدر کی نوکری چلی گئی جس کی وجہ سے وہ بڑے پریشان تھے۔ انہی دنوں انہیں تحریک جدید کی یاددہانی کروائی گئی۔ کچھ دن کے بعد انہوں نے بتایا کہ جب مجھے چندے کی یاددہانی کروائی گئی تو سخت فکر ہوئی۔ میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ کوئی ذریعہ پیدا فرما دے کہ میں اپنا تحریک جدید کا چندہ ادا کر دوں اور کہتے ہیں کہ میں نے رات بھی بہت بے چینی سے گزاری۔ صبح فجر کی نماز سے فارغ ہوا تو کام کی تلاش میں ایک قریبی گاؤں میں چلا گیا۔ وہاں مجھے کوئی کام نہیں ملا لیکن ایک آدمی اپنے جانور بیچنے کے لئے کہیں جا رہا تھا میں نے اس کی کچھ مدد کر دی۔ اس شخص نے مجھے پانچ سو فرانک دئیے۔ کہتے ہیں مَیں نے ان پیسوں میں سے دو سو فرانک سے کچھ کھانے کا سامان لیا۔ سو فرانک اپنے بچے کو دئیے سکول جاتا ہے اور دوسو فرانک چندہ میں ادا کر دئیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس حقیر سی قربانی کے بدلے ایسا فضل فرمایا کہ چندہ دینے کے ٹھیک چار دن کے بعد ان کو کام مل گیا اور اتنی جلدی اور ایسا مناسب کام مل جانا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ یہ افریقہ سے واقعات ہیں۔ پھر اب انڈیا سے بھی ان کے انسپکٹر تحریک جدید لکھتے ہیں۔ صوبہ جات آندھرا اور تلنگانہ کے انسپکٹر شہاب الدین صاحب کہتے ہیں کہ حیدر آباد کے ایک دوست ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تجارت میں بیس ہزار روپے سے کام شروع کیا۔ ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ نمازوں کے اوقات جب ہوتے ہیں تو دکان بند کر دیتے ہیں۔ یہ ہے حقیقی مومن کی شان کہ پھر کاروبار بند کرے۔ اور کہتے ہیں کہ سال میں ایک ماہ کی مکمل آمد تحریک جدید میں ادا کرتے ہیں۔ اس سال بھی انہوں نے ساٹھ ہزار روپے تحریک جدید میں دئیے۔ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک دن میں نے انہیں کہا کہ آپ اپنا ذاتی گھر خرید لیں۔ اس پر کہنے لگے کہ جیسا چل رہا ہے چلنے دیں۔ دنیا ویسے بھی اس طرح ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہے کہ مال جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں نہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا رہوں۔ اسی طرح پاکستان سے نائب وکیل المال لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کے ایک خادم کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ پندرہ ہزار روپیہ ان کا وعدہ تھا جو میں نے انہیں کہا کہ پندرہ ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کردیں تو انہوں نے ایک لاکھ روپیہ کر دیا۔ انہوں نے جوتے ایکسپورٹ کرنے کا کاروبار شروع کیا اور کہتے ہیں شروع میں پانچ ہزار چندہ دیتے تھے۔ پھر دس ہزار دیا۔ پھر آگے بڑھایا۔ پندرہ ہزار سے بڑھایا، لاکھ کیا۔ اب وہ کہتے ہیں چندوں کی برکت سے جس فیکٹری کو انہوں نے کرائے پر لیا ہوا تھا وہ فیکٹری انہوں نے خرید لی اور کاروبار بھی اچھا ہو گیا۔

اسی طرح انڈونیشیا سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں کے ایک شخص نے کہا کہ اگر میرے پاس موٹر سائیکل ہو تو مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ جمعہ پڑھنے کے لئے آسانی ہو جائے گی تو ہمارے مبلغ نے انہیں کہا کہ دعا کریں اور چندوں میں باقاعدگی اختیار کریں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اور فیملی کا تحریک جدید کا چندہ دینا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں تھوڑے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور موٹر سائیکل خریدنے کی توفیق مل گئی۔ اب اس گھر میں ایک کی بجائے تین موٹر سائیکل ہیں۔ وصیت انہوں نے کر لی ہے اور آمدنی ان کی بڑھ گئی ہے۔

یہاں کینیڈا میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جن کے متعلق امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہزار ڈالر چندہ تھا جو بڑھا کے پانچ ہزار کا وعدہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ادا بھی کر دیا۔ اس لئے شروع میں ہی ادا کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹا جائے اور مسجد کے لئے بھی انہوں نے بیس ہزار ڈالر کی ادائیگی کی۔ اسی طرح بعض یہاں بھی ایمان افروز واقعات ہیں۔ کینیڈا کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ میرا وعدہ ایک ہزار ڈالر کا تھا۔ پیسے نہیں تھے۔ شام کو خاوند کا فون آیا کہ فلاں شخص نے پیسے دئیے ہیں، چیک دیا ہے۔ تو مَیں نے کہا کہ ایک ہزار ڈالر کا چیک ہو گا۔ اس نے کہا تمہیں کس طرح پتا ہے؟ مَیں نے کہا اس لئے کہ مجھے فکر تھی کہ میں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کرنا تھا اور ایک ہزار ڈالرز ادا کرنا تھا اور مجھے خیال ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا ہے تو اتنی ہی رقم ہو گی۔

اسی طرح یورپ کے ممالک کے واقعات ہیں۔ یہاں نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں۔ کروشیا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ غربت کی وجہ سے نوکریوں کے مواقع بہت کم ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس کے پاس کوئی انکم کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ لوگ یا تو اپنے رشتہ داروں کی طرف سے اگر کوئی رقم مل جائے یا اگر کوئی ایسا کام مل جائے جو ایک یا دو دن کا ہے اس سے عموماً گزارہ کرتے ہیں۔ ایک بڑی عمر کے احمدی دوست ہیں جن کو جماعتی کام کرنے کا بہت شوق ہے اور تقریباً اپنا سارا وقت جماعت کے کاموں میں صرف کرتے ہیں لیکن جب جماعت کا کام نہیں بھی کر رہے ہوتے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی کام جس سے جماعت کو فائدہ ہو وہ کرتے رہیں۔ تقریباً ایک سال سے وہ خالی کین(can) جمع کرتے تھے تا کہ اس کو ری سائیکلنگ والوں کو دے کے کچھ رقم مل جائے۔ سال بھر انہوں نے یہ کین(can) جمع کئے اور ری سائیکلنگ والوں کو دئیے۔ سارے سال میں اس کام کے انہیں صرف تیس ڈالر ملے اور ان کو لے کے وہ سیدھے مشن ہاؤس آئے اور اس میں سے دس ڈالر چندے میں ادا کر دئیے کہ میرا تحریک جدید کے چندے کا وعدہ تھا وہ میں نے پورا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس حساب سے سارے سال میں جو محنت انہوں نے کی اس کاایک بٹا تین(1/3) جماعت کو دے دیا۔

جرمنی کے سیکرٹری تحریک جدیدنے لکھا کہ ایک خاتون ہیں جنہوں نے اپنا نام نہیں ظاہر کیا۔ تحریک جدید دفتر میں آئیں اور اپنا سارا زیور تحریک جدید میں پیش کر دیا اور زیور اتنا زیادہ تھا کہ سارا میز زیور سے بھر گیا۔ سونے کے ہار، انگوٹھیاں، چوڑیاں، کافی تعداد یہ میں چیزیں تھیں۔ لیکن انہوں نے کہا میرا نام نہیں ظاہر کرنا تا کہ میری قربانی صرف خدا تعالیٰ کی خاطر ہو۔ زیور عورت کی کمزوری ہے لیکن احمدی عورتیں ہیں جو یہ قربانیاں کرتی ہیں۔ یہاں بھی مجھے ایک احمدی عورت ملیں کہ میں نے اپنا تمام زیور چندے میں مسجد فنڈ میں یا کسی چیز میں دے دیا تھا لیکن میرے سسرال والوں کو یہ بات بہت ناپسند آئی اور وہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ کیوں تم نے دیا اور مختلف قسم کے طعنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی خاطر قربانی کرنے والوں کو نوازتا ہے اور ان خاتون کو بھی جنہوں نے اللہ کی خاطر قربانی کی انشاء اللہ تعالیٰ نوازے گا اور بہت دے گا لیکن ان لوگوں کو فکر کرنی چاہئے جو انہیں یا کسی کو بھی مالی قربانی سے روکتے ہیں۔ مال دینے والا بھی خدا ہے اور ناشکری کرنے والے سے لے بھی سکتا ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو جن کے دل میں اس قسم کے خیالات آتے ہیں استغفار بہت زیادہ کرنی چاہئے۔

رشیا میں بھی کئی واقعات ہیں۔ ایک دوست لینار صاحب کہتے ہیں ان کے حالات کافی خراب تھے کرائے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ کئی مالی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے لیکن اپنے لازمی چندے اور تحریک جدید کا چندہ اپنی توفیق کے مطابق ادا کرتے رہے۔ یہ دوست کہتے ہیں کہ چندے کی برکت سے میری بیوی کو میڈیکل کالج ختم ہونے کے بعد حکومت کی نوکری مل گئی اور حکومت نے بچوں کی رہائش کے لئے قرض بھی فراہم کر دیا۔ اب مالی حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں اور اللہ کے فضل سے ہمارے پاس دو گاڑیاں بھی آ گئی ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور چندہ ادا کرنے کا نتیجہ ہے۔ پہلے بہت مشکل حالات میں بھی ہم چندہ دیتے رہے اور اب تو اللہ تعالیٰ نے بہت کشائش دی ہے۔ اب رشیا میں بیٹھا ہوا ایک شخص ہے اس کو بھی اللہ تعالیٰ نواز رہا ہے۔ افریقہ والے کو بھی نواز رہا ہے۔ انڈونیشیا والے کو بھی نواز رہا ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی، یورپ میں بھی، تو یہ سب اللہ تعالیٰ کا سلوک ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ فرمایا تھا محبوں کی جماعت عطا کرنے کا اور ان کو ایمان میں بڑھانے کا، جو اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتے ہیں ان کو ایمان میں بڑھاتا بھی ہے۔

مالی قربانیوں اور اس پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بیشمار واقعات ہیں جو میرے پاس آئے لیکن میرے لئے مشکل ہو گیا تھا کہ ان میں سے کون سے نکالوں۔ چند ایک میں نے پیش کئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تقریباً ہر ملک میں رہنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے۔ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کی خاطر قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بے انتہا نوازتا ہے۔ ایک عقل رکھنے والے انسان کے لئے احمدیت کی سچائی کا یہی ثبوت کافی ہے کہ کس طرح قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والوں کو نوازتا ہے اس لئے کہ یہ چندے خدا تعالیٰ کی دین کی اشاعت میں خرچ ہوتے ہیں۔ غریب ممالک والے بیشک چندے دیتے ہیں لیکن ان کے اخراجات ان کے چندوں سے بہت بڑھ کر ہیں اس لئے امیر ممالک سے دئیے گئے جو چندے ہوتے ہیں وہ مرکز اُن ممالک پر خرچ کرتا ہے جن کے اپنے بجٹ پورے نہیں ہوتے۔ سینکڑوں سکول، درجنوں ہسپتال، سینکڑوں مشن ہاؤسز، سینکڑوں مساجد ہر سال تعمیر ہوتی ہیں اور ان کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے جو تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں سے پوری کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے اوپر بھی کئی ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ گو مدّ تربیت اور ایم ٹی اے کی بھی ایک مدّ ہے جس میں لوگ چندے دیتے ہیں لیکن اخراجات اس سے بہت زیادہ ہیں۔ ایم ٹی اے کے بارے میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جائزے کے مطابق یہاں ایم ٹی اے سننے کا رواج جتنا ہونا چاہئے وہ نہیں ہے یا کم از کم میرے خطبات براہ راست نہیں سنتے۔ جماعت اتنا بے شمار جو خرچ کرتی ہے یہ جماعت کی تربیت کے لئے ہے۔ اگر وقت کا فرق بھی ہے تو جو repeat خطبہ آتا ہے تو اس کو سننا چاہئے۔ بیشمار غیر لوگ سنتے ہیں اور پھر مجھے لکھتے ہیں کہ ہم غیر از جماعت ہیں لیکن آپ کے خطبات سن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کو خلافت سے جماعت کا تعلق جوڑنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اگر گھروں میں آپ لوگ اس طرف توجہ نہیں دیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کی اولادیں پیچھے ہٹنا شروع ہو جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ضرور پورے کرے گا انشاء اللہ۔ مخلصین بھی آئیں گے اور آپ نے دیکھا کہ نئے شامل ہونے والوں میں اخلاص کتنا بڑھا ہوا ہے۔ لیکن یہ نہ ہو کہ نئے آنے والے تو سب کچھ لے جائیں اور پرانے اس بات پر فخر کرتے رہیں کہ ہمارے باپ دادا صحابی تھے یا ہم پرانے احمدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کسی کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔ اگر پرانے اپنے آپ کو دور کریں گے تو پھر باپ دادا کے صحابی ہونے سے یا ان کے رشتہ دار ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ پس اس سے پہلے کہ پچھتاوا شروع ہو جائے اپنے آپ کو خلافت کے ساتھ جوڑیں اور اس کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے دیا ہوا ہے اسے استعمال کریں۔ دوسرے بھی بے شمار اچھے پروگرام ایم ٹی اے پر آتے ہیں لیکن کم از کم خطبات تو ضرور سنا کریں۔ یہ نہیں کہ مربی صاحب نے ہمیں خلاصہ سنا دیا تھا اس لئے ہمیں پتا ہے کیا کہا گیا۔ خلاصہ سننے میں اور پورا سننے میں بڑا فرق ہے۔

اب جیسا کہ مَیں نے کہا کہ تحریک جدید کا نیا سال کا شروع ہو رہا ہے اور پرانا سال ختم ہو رہا ہے اس نئے سال کا اعلان کرتا ہوں۔ میرے خیال میں کینیڈا سے پہلی دفعہ یہ اعلان ہو رہا ہے۔

یہ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس کی وسعت اتنی ہو چکی ہے کہ 1934ء میں احرار جماعت کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے تھے۔ اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کا اعلان کر کے دنیا میں مشنری بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔ تبلیغ کا ایک جامع منصوبہ بنایا گیا۔ اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کو جانا جاتا ہے اور 209ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے۔ آج بحیثیت جماعت، جماعت احمدیہ ہی ہے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ کہاں تو احراری قادیان سے احمدیت کی آواز کو ختم کرنے کی بات کرتے تھے اور کہاں آج دنیا کے اس مغربی کونے سے ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو آپ کا ایک غلام اور ادنیٰ خادم پہنچا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا وہ بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے۔ پس یہ بھی ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں ان پر ذمہ داریاں ڈالتی ہیں اور اس ذمہ داری کو ادا کرنا آپ سب کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

اب مَیں تحریک جدید کے نئے سال کا بھی اعلان کرتا ہوں اور حسب روایت کوائف بھی کچھ پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک جدید کا جو سال گزرا ہے 31؍اکتوبر کو ختم ہوا۔ یہ بیاسیواں (82) سال تھا اور یکم نومبر سے تراسیواں (83) سال شروع ہو چکا ہے جس کا مَیں نے اعلان کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو رپورٹس آئی ہیں ان کے مطابق تحریک جدید کے مالی نظام میں اس سال عالمگیر جماعت احمدیہ کو کُل ایک کروڑ نو لاکھ تینتیس ہزار پاؤنڈ سٹرلنگ کی قربانی کی توفیق ملی ہے۔ الحمد للہ۔ یہ وصولی گذشتہ سال سے سترہ لاکھ سترہ ہزار پاؤنڈزائد ہے۔

جماعتوں کی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان تو ہمیشہ ہوتا ہی پہلے نمبر پہ ہے۔ اس کو چھوڑ کر نمبر ایک جرمنی ہے۔ نمبر دو برطانیہ ہے۔ نمبر تین امریکہ ہے۔ نمبر چار کینیڈا ہے۔ نمبر پانچ بھارت ہے۔ چھ آسٹریلیا ہے۔ سات مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ آٹھواں انڈونیشیا ہے۔ پھر نویں پر مڈل ایسٹ میں جماعت ہے۔ دسواں غانا ہے اور گیارھواں سوئٹزر لینڈ۔ سوئٹزرلینڈ کا کیونکہ فی کس چندہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے نام لکھ لیا، نہیں تو دس تک ہی اصل لسٹ ہے۔

فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ پھر سوئٹزر لینڈ۔ پھر یوکے۔ پھر فن لینڈ۔ پھر سنگاپور۔ پھر جرمنی۔ سویڈن۔ ناروے۔ جاپان۔ کینیڈا۔ اور ان سے پہلے اصل میں تو مڈل ایسٹ کی جماعتوں کا ہم نام نہیں لیتے وہ پانچ جماعتیں ان سے اوپر ہیں۔ افریقن ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے نمایاں ماریشس نمبر ایک ہے۔ پھر غانا ہے۔ پھر نائیجیریا۔ پھر گیمبیا۔ پھر ساؤتھ افریقہ۔ پھر برکینا فاسو۔ پھر کیمرون۔ سیرالیون۔ لائبیریا۔ تنزانیہ اور مالی۔

شامل ہونے والوں کی تعداد میں بھی اللہ کے فضل سے اس سال نوّے ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور چودہ لاکھ چار ہزار سے زائد لوگ شامل ہوئے ہیں اور اس میں بھی زیادہ کوشش جو کی گئی ہے وہ بینن نے کی ہے۔ نائیجر نے کی ہے۔ مالی نے کی ہے۔ برکینا فاسو نے۔ غانا نے۔ لائبیریا نے۔ سینیگال نے اور کیمرون نے۔ دنیا کو ہر جگہ اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دفتر اوّل کے جو کھاتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب جاری ہیں اور اس میں چندے آ رہے ہیں ان کے رشتے داروں کی طرف سے یا بعض خود زندہ ہیں تو ان کی طرف سے۔

پاکستان میں جو تین بڑی جماعتیں ہیں ان میں اوّل لاہور ہے۔ دوم ربوہ ہے۔ سوم کراچی ہے۔ اور اس کے بعد وصولی کے اعتبار سے دس شہری جماعتیں جو ہیں اس میں نمبر ایک اسلام آباد۔ پھر ملتان۔ پھر کوئٹہ۔ پشاور۔ گوجرانوالہ۔ حیدرآباد۔ حافظ آباد۔ میانوالی۔ کوٹلی۔ خانیوال اور بہاولپور۔

زیادہ قربانی کرنے والے پاکستان کے دس اضلاع۔ باوجود غربت کے پاکستان کے چندے بہت اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ سیالکوٹ نمبر ایک۔ پھر فیصل آباد۔ پھر سرگودھا۔ گجرات۔ عمر کوٹ۔ اوکاڑہ۔ نارووال۔ میر پور خاص۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ منڈی بہاؤالدین اور میرپور آزاد کشمیر۔

جرمنی کی پہلی دس جماعتیں۔ روئیڈر مارک Rödermark، نوئیس، وائن گارڈنWeingarten، راؤن ہیم ساؤتھ rainham south، فلورز ہائم Flörsheim، لمبرگ Limburg، کولون Cologne، کوبلنز Koblenz، نیدا Neida، مہدی آباد۔

اور ان کی پہلی دس لوکل امارتیں جو ہیں ہیمبرگ۔ پھر فرینکفرٹ۔ پھر گراس گراؤ۔ مورفیلڈن والڈورف۔ ویزبادن۔ پھر ڈٹسن باخ۔ پھر آفن باخ۔ پھر من ہائم۔ پھر ڈامسٹڈ۔ پھر رِیڈشٹڈ۔

مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی پانچ ریجنز ہیں۔ لندن بی۔ پھر لندن اے۔ پھر مڈ لینڈز۔ پھر نارتھ ایسٹ۔ پھر ساؤتھ ریجن۔ اور ادائیگی کے لحاظ سے دس بڑی جماعتیں جو ہیں وہ مسجد فضل نمبر ایک پہ۔ پھر ووسٹر پارک۔ پھر گلاسگو۔ برمنگھم ساؤتھ۔ پھر نیو مولڈن۔ پھر بریڈفورڈ۔ پھر اسلام آباد۔ پھر جلنگھم۔ پھر موسک (Mosque) ویسٹ پھر ومبلڈن پارک۔

فی کس ادائیگی کے لحاظ سے وہاں کی پہلی پانچ ریجنز ہیں۔ ساؤتھ ویسٹ۔ پھر اسلام آباد۔ پھر سکاٹ لینڈ۔ پھر مڈ لینڈز۔ نارتھ ایسٹ۔ اور بڑی جماعتیں جو ہیں بروملے اینڈ لیوئیشم۔ Leamington Spa۔ اسلام آباد۔ Scunthorpe۔ برمنگھم ساؤتھ۔ ووسٹر پارک۔ جلنگھم۔ بورن متھ اینڈ ساؤتھ ہیمپٹن۔ مسجد فضل، موسک(Mosque) ویسٹ۔

وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی لوکل امارات۔ پیس ولیج نمبر ایک پہ ہے۔ نمبر دو وان ہے۔ پھر کیلگری۔ پھر برامٹن۔ پھر وینکوور۔ پھر مسی ساگا۔ اور کینیڈا کی جماعتوں میں وصولی کے لحاظ سے ایڈمنٹن ویسٹ پہلے۔ پھر ڈرہم۔ پھر سسکاٹون ساؤتھ۔ سسکاٹون نارتھ۔ ملٹن ایسٹ۔ آٹوا ویسٹ۔ پھر آٹوا ایسٹ۔ پھر ریجائنا۔ میرا خیال تھا کہ لائیڈ منسٹر کی جماعت بھی اچھی ایکٹو جماعت ہے۔ صدر صاحب بھی بڑے فعال کام کرنے والے لگتے تھے۔ وہاں لوگوں کے مالی حالات بھی مجھے بتایا گیا کہ اچھے ہیں۔ ان کی کوئی پوزیشن نہیں آئی۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی جماعتیں۔ سلیکون ویلی۔ پھر اوش کوش نمبر دو۔ پھر ڈیٹرائٹ۔ پھر سیئٹل۔ پھر یارک۔ پھر سینٹرل ورجینیا۔ لاس اینجلس۔ پھر سلور سپرنگ۔ پھر سنٹرل جرسی۔ شکاگو ساؤتھ ویسٹ۔ پھر لاس اینجلس ویسٹ۔ انڈیا کی پہلی دس جماعتیں۔ کیرولائی(کیرالہ)۔ کالی کٹ (کیرالہ)۔ پھر حیدرآباد۔ آندا پردیش۔ پھر پتھا پریم (کیرالہ)۔ پھر قادیان۔ پھر کنانور ٹاؤن(کیرالہ)۔ پھر پینگاڈی(کیرالہ)۔ پھر دہلی۔ پھر کلکتہ (بنگال)۔ پھر سلور (تامل ناڈو)۔

انڈیا کے پہلے دس صوبہ جات جو ہیں ان میں پہلے نمبر پہ کیرالہ۔ پھر کرناٹک۔ پھر آندھرا پردیش۔ پھر تامل ناڈو۔ پھر جموں کشمیر۔ پھر اڑیسہ۔ پھر پنجاب۔ بنگال۔ دہلی اور مہاراشٹرا۔ انڈیا میں گزشتہ چند سالوں سے بڑی ترقی ہے۔ پہلے یہاں بہت پیچھے تھے۔

آسٹریلیا کی پہلی دس جماعتیں۔ یہاں بھی اللہ کے فضل سے لوگ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ملبرن بیروک۔ پھر کاسل ہل۔ پھر ACT کینبرا۔ پھر مازڈن پارک۔ پھر برزبن۔ لوگن۔ پیزتھ۔ ملبرن لانگ وارن۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ۔ پلمپٹن۔ ملبرن ایسٹ۔ اور اسی طرح فی کس ادائیگی کے لحاظ سے دس جماعتیں۔ تسمانیہ۔ برزبن نارتھ۔ ACT کینبرا۔ سڈنی میٹرو۔ ڈارون پیرامیٹا۔ ملبرن بیروک۔ پرتھ۔ مازڈن پارک۔ کاسل ہل۔

اللہ تعالیٰ ان سب شامل ہونے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور آئندہ بھی بڑھ چڑھ کر قربانی کی توفیق دے اور خلافت سے ہمیشہ ان کا مضبوط تعلق قائم کرتا رہے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ نومبر 2016ء شہ سرخیاں

    آجکل کی دنیا سمجھتی ہے کہ مال کو جمع کرنا اور اسے صرف اپنے آرام و آسائش کے لئے خرچ کرنا ہی ان کے لئے خوشی اور سکون کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن ایک مومن جس کو دین کا حقیقی ادراک اور شعور ہو سمجھتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتیں اور سہولتیں انسان کے لئے پیدا فرمائی ہیں لیکن زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، تقویٰ پر چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے اور اس کی مخلوق کا حق ادا کرنا ہے۔

    مخلوق کی ہمدردی میں جہاں ضرورتمندوں کی ضرورت کا خیال رکھنا ہے وہاں ان کے دین و ایمان اور انہیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا خیال رکھنا بھی ہے۔

    اس زمانے میں بھی علاوہ مادی ضروریات کے پورا کرنے کے جس کے لئے مال خرچ کرنا ضروری ہے، غریبوں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ ہم احمدیوں کے لئے روحانی ضروریات پوری کرنے کے لئے مال خرچ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ تکمیل اشاعت ہدایت کا کام اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد کیا گیا ہے۔

    اس زمانے میں جماعت احمدیہ ہی مومنین کی وہ جماعت ہے جو ایک نظام کے تحت اشاعت اسلام کے لئے خرچ کرتی ہے جس میں مختلف ذرائع سے تبلیغ کے کام ہیں اور مخلوق سے ہمدردی کی وجہ سے ان کے حق ادا کرتے ہوئے ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تکلیف اٹھا کر یہ خرچ کرتے ہیں اور اس یقین سے خرچ کرتے ہیں کہ جہاں یہ خرچ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا وہاں یہ بھی تسلی ہے کہ صحیح طریق سے خرچ ہو گا۔ اس بات کا اعتراف تو بعض غیر لوگ بھی کئے بغیر نہیں رہتے کہ جماعت کا مالی نظام اور خرچ بہترین ہے۔

    چندوں کے لئے پاکیزہ مال بہت ضروری ہے۔ چندے بھی ان لوگوں سے وصول کئے جاتے ہیں جن کے بارے میں کم از کم یہ پتا ہو کہ یہ غلط قسم سے کمایا ہوا مال نہیں ہے اور اگر ہے تو نظام جماعت چندہ نہیں لیتی۔ اور اگر پھر بھی لیا جاتا ہے تو وہ اگر مجھے پتا لگے تو بہرحال یا تو چندہ واپس کیا جاتا ہے یا ان عہدیداروں کو معطّل کیا جاتا ہے۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ قربانی کر کے دینا اور پاک مال میں سے دینا، تبھی اس میں برکت پڑتی ہے۔

    آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان بھی کروں گا اس لئے مَیں ان چند قربانی کرنے والوں کے کچھ واقعات پیش کرتا ہوں جو مالی قربانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ صرف امیر ممالک میں نہیں بلکہ غریب ممالک اور بالکل نئے شامل ہونے والے احمدی جو ہیں ان کے دل بھی اللہ تعالیٰ احمدیت قبول کرنے کے بعد کس طرح پھیرتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ باوجود تنگی کے وہ قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں۔ مالی قربانیوں اور اس پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بیشمار واقعات ہیں جو میرے پاس آئے لیکن میرے لئے مشکل ہو گیا تھا کہ ان میں سے کون سے نکالوں۔ چند ایک میں نے پیش کئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تقریباً ہر ملک میں رہنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے۔ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کی خاطر قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بے انتہا نوازتا ہے۔

    مختلف ممالک کے افراد جماعت کے مالی قربانیوں کے حیرت انگیز ایمان افروز اور روح پرور واقعات کا تذکرہ۔

    جائزے کے مطابق یہاں ایم ٹی اے سننے کا رواج جتنا ہونا چاہئے وہ نہیں ہے یا کم از کم میرے خطبات براہ راست نہیں سنتے۔ جماعت اتنا بے شمار جو خرچ کرتی ہے یہ جماعت کی تربیت کے لئے ہے۔

    اگر وقت کا فرق بھی ہے تو جو repeat خطبہ آتا ہے اس کو سننا چاہئے۔

    اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کو خلافت سے جماعت کا تعلق جوڑنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اگر گھروں میں آپ لوگ اس طرف توجہ نہیں دیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کی اولادیں پیچھے ہٹنا شروع ہو جائیں گی۔ پس اس سے پہلے کہ پچھتاوا شروع ہو جائے اپنے آپ کو خلافت کے ساتھ جوڑیں اور اس کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے دیا ہوا ہے اسے استعمال کریں۔ دوسرے بھی بے شمار اچھے پروگرام ایم ٹی اے پر آتے ہیں لیکن کم از کم خطبات تو ضرور سنا کریں۔ یہ نہیں کہ مربی صاحب نے ہمیں خلاصہ سنا دیا تھا اس لئے ہمیں پتا ہے کیا کہا گیا۔ خلاصہ سننے میں اور پورا سننے میں بڑا فرق ہے۔

    1934ء میں احرار جماعت کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے تھے۔ اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کا اعلان کر کے دنیا میں مشنری بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔ تبلیغ کا ایک جامع منصوبہ بنایا گیا۔ اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کو جانا جاتا ہے اور 209ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے۔

    گزشتہ سال(2015ء۔ 2016ء) میں عالمگیر جماعت احمدیہ کو تحریک جدید میں ایک کروڑ 9لاکھ 33ہزار پاؤنڈز سٹرلنگ کی قربانی کی توفیق ملی ہے۔ الحمدللہ۔

    عالمی طور پر جماعتوں کی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان نمبر ایک پر اور اس کے بعد جرمنی، برطانیہ اور امریکہ رہے۔

    مختلف پہلوؤں سے بڑے بڑے ممالک کی تحریک جدید میں مالی قربانی کے جائزے۔

    اللہ تعالیٰ ان سب شامل ہونے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور آئندہ بھی بڑھ چڑھ کر قربانی کی توفیق دے اور خلافت سے ہمیشہ ان کا مضبوط تعلق قائم کرتا رہے۔

    فرمودہ مورخہ 11؍نومبر 2016ء بمطابق11؍نبوت 1395 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت النور، کیلگری، کینیڈا

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور