عبادت اور نفل میں باقاعدگی

خطبہ جمعہ 30؍ جون 2017ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

رمضان اپنی بیشمار برکتیں لے کر آتا ہے اور جو لوگ اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں وہ اس سے فیض بھی پاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے مجھے خطوط آئے اور آ رہے ہیں کہ ہمیں ان دنوں میں فرائض عبادتوں میں بہتر رنگ میں ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کی ادائیگی کی بھی توفیق ملی۔ قرآن کریم اور حدیث کے درس سننے کی بھی توفیق ملی۔ نماز تراویح کی ادائیگی کی بھی توفیق ملی اور پھر تہجد کی بھی توفیق ملی۔ اسی طرح قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کی بھی توفیق ملی۔ لکھنے والے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان دنوں میں عجیب کیفیت اور حالت تھی اور لکھتے ہیں کہ ان دنوں میں روحانی طور پر لطف اٹھانے کی جو توفیق ملی، دعاؤں کی قبولیت اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے اور روحانی طور پر لطف اٹھانے کی جو توفیق ملی ہے، رمضان میں جن برکتوں کو سمیٹنے کی ہمیں توفیق ملی ہے، اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین کی جو توفیق ملی ہے اور اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے یہ نظارے دکھائے اور یہ حالت پیدا کی اس کے لئے اب دعا کریں کہ یہ حالت ہمیشہ قائم رہے۔ جن روحانی لذّتوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فیضیاب فرمایا ہے ہماری کسی لاپرواہی، کمزوری اور ہماری کسی لغزش اور ہمارے کسی تکبر اور ہماری کسی ناپسندیدہ حرکت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے ہم نے ان دنوں میں جو کچھ پایا ہے اس کے فیض سے بے فیض ہونے والے نہ بن جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اور ان سب برکات کو جو ہمیں اس مہینہ میں ملیں ضائع کرنے والے نہ ہو جائیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ کرے کہ ہمیں یہ ساری برکات ہمیشہ حاصل ہوتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ جنہوں نے حقیقت میں رمضان کے فیض سے فیضیاب ہونے کی کوشش کی ہے اگر ان میں کوئی کمیاں اور کمزوریاں بھی رہ گئی تھیں تو جیسی یہ خواہش کا اظہار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنا فضل اور درگزر فرماتے ہوئے ان کوششوں کو بھی نواز دے جو وہ کرتے رہے اور اس انعام کو ہمیشہ جاری رکھے جو وہ رمضان میں کسی بھی صورت میں اپنی رحمت اور مغفرت کی وجہ سے کرتا رہا۔ جنہوں نے اعلیٰ معیار حاصل کئے ان کے معیاروں کو بھی بڑھاتا چلا جائے اور جو معمولی کوشش کرتے رہے ان کی کوششوں کو بھی نوازتے ہوئے ان کے قدم بہتری کی طرف مستقل بڑھاتا رہے۔ لیکن ہر شخص کو خود بھی اپنے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اب ہمارے قدم پیچھے نہ ہٹیں بلکہ آگے بڑھتے رہیں اور کوشش بھی کرنی چاہئے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہم جہاں تک پہنچے ہیں ان سے قدم کبھی پیچھے نہ ہٹیں اور ہم کہیں پیچھے کی طرف پھسلنا نہ شروع ہو جائیں اور نہ صرف وہاں قدم جمانے کی کوشش کریں بلکہ اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جانے کی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش بھی کریں اور دعا بھی مانگیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرتا رہے۔

اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے بندوں کو جو دعا کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ کہا ہے کہ میں تمہارے قریب آ جاتا ہوں اس میں صرف رمضان کے مہینہ کا ہی ذکر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ جو بھی بے چین ہو اور بے قرار ہو کر میری طرف دعا کرتے ہوئے آتا ہے مَیں اس کی دعا سنتا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ (النمل: 63) وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دُور کر دیتا ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ (النمل: 63) کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہے جو یہ سب کچھ کر سکتا ہے؟ یعنی کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مضطر کی دعا سنتا ہے۔ اس کی تکلیفوں کو دُور کرتا ہے جب اس کو ایک شخص اضطراری حالت میں پکارے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اس آیت کے حوالے سے فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو بے قراروں کی دعا سنتا ہے۔‘‘ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 259)

پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن: 61) کہ تم مجھے پکارو مَیں تمہاری دعا سنوں گا۔

پس جو کچھ روحانی فیض اٹھایا، ہم جو اللہ تعالیٰ کے قریب ہوئے اور قبولیت دعا کے بھی نظارے دیکھے وہ ہمیشہ کا ساتھ بن سکتے ہیں۔ اگر ہماری کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان میں قبولیت دعا اور اپنے قرب کے نظارے دکھائے تو یہ اس بات کا احساس دلانے کے لئے ہیں اور یہ ہمیں اس طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں کہ میں نے جو قرب تمہیں عطا کیا ہے اسے مستقل قائم رکھنے کی کوشش کرنا۔ اللہ تعالیٰ پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ صرف رمضان کے مہینہ میں ہی قریب آئے گا یا کوئی شخص کوئی عمل کرے یا نہ کرے اس نے ضرور رمضان کے مہینہ میں ہی اسے قرب عطا کرنا ہے۔ یہ مہینہ یا یہ دن جو اس نے خاص کئے ہیں تو یہ توجہ دلانے کے لئے کئے ہیں کیونکہ جب جماعتی طور پر اس طرف توجہ ہوتی ہے تو کمزور بھی اس طرف توجہ کرتے ہیں ورنہ اس کا یہ اعلان ہر وقت کے لئے ہے کہ ’’اِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘۔ کہ میں تو تمہارے ہر وقت قریب ہوں۔ پس آؤ اور میرے قرب سے فیض اٹھاتے رہو۔ رمضان میں کیونکہ تم جماعتی رنگ اور ایک کوشش کے ساتھ میرے قریب آنے اور مجھ سے مانگنے کی کوشش کرتے ہو اس لئے میں اپنے خاص احسان کے تحت اپنی برکات میں اضافہ کر دیتا ہوں۔ ورنہ دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول کا ذریعہ بتاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا ربّ رات کے درمیانی حصہ میں بندے کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ فرمایا پس اگر تم سے ہو سکے تو اس گھڑی تم اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے بن جاؤ یا اگر بن سکو تو ضرور بنو۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب منہ حدیث 3579)

پس رمضان کے دنوں میں بہت سے لوگوں کو نفل پڑھنے کی جو عادت پڑی ہے اگر اس میں وہ باقاعدگی اختیار کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے وہ دعا بھی کریں اور رات کو پختہ ارادہ کر کے سوئیں تو اللہ تعالیٰ کی اس قربت سے ہمیشہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا قرب ہو تو انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں اور اس کے حصار میں ہوتا ہے اور یہ قرب رات کی دعاؤں کے ساتھ دن کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادات سے حاصل ہوتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بڑے تنبیہ والے الفاظ میں فرمایا کہ ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مُردہ کی طرح ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ عزوجل حدیث 6407)

پس یہ زندگی کے سامان تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے سارا سال ہی رکھے ہیں، قربت کے سامان تو سارا سال کے لئے رکھے ہیں۔ قبولیت دعا کے سامان تو ہر وقت کے لئے مہیا فرمائے ہیں۔ اپنے آپ کو صرف چند دنوں تک محدود کر کے باقی دنوں میں خدا تعالیٰ کی بات کی طرف توجہ نہ دینا انسان کو مردہ کر دیتا ہے۔ اگر ہم نے حقیقی زندگی حاصل کرنی ہے تو پھر سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا ضروری ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک جگہ تاکیداً اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسے یاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کو زیادہ یاد کرو اور ذکر کی مثال ایسی سمجھو کہ جیسے کسی آدمی کا اس کے دشمن نہایت تیزی کے ساتھ پیچھا کر رہے ہوں یہاں تک کہ اس آدمی نے بھاگ کر ایک مضبوط قلعہ میں پناہ لی اور دشمن کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا۔ فرمایا کہ اسی طرح بندہ شیطان سے نجات نہیں پا سکتا مگر اللہ کی یاد کے ساتھ۔ (سنن الترمذی ابواب الامثال باب ما جاء فی مثل الصلوٰۃ … الخ حدیث 2863)

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے حصار میں صرف خاص دنوں میں ہی نہیں رکھا بلکہ اس کا اِنِّی قَرِیْبٌ (البقرۃ: 187) کا اعلان ہر وقت اور ہر جگہ ہے۔ اس کی مضبوط پناہ گاہیں ہر جگہ موجود ہیں اور ہر وقت موجود ہیں اور ہر وقت مومن کو پناہ دینے کے لئے ان کے دروازے کھلے ہیں اور شیطان کو روکنے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو شیطان سے بچانے کے لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے مستعد حفاظت کرنے والے محافظ ان جگہوں پر کھڑے ہیں۔ اگر انسان ہی اپنی بے عقلی سے کام لیتے ہوئے اپنے دشمن سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ گاہ کی طرف دوڑنے کی بجائے خطرناک راستوں کی طرف چلنا شروع کر دے تو پھر یہ انسان کا اپنا قصور ہے اور اس کی بے وقوفی کی، کم عقلی کی انتہا ہے۔ پس رمضان میں جس محفوظ حصار میں آنے اور جس مضبوط قلعہ میں آنے کی کوشش کی ہے اور پناہ لی ہے ہمارا کام یہ ہے کہ اب اس پناہ میں رہنے کے لئے تمام احتیاطوں کو استعمال کریں۔ یہ نہ ہو کہ ہماری کسی بے احتیاطی کی وجہ سے، لاپرواہی کی وجہ سے ہم قلعہ سے باہر نکل کر اپنے بدترین دشمن کے ہاتھ لگ جائیں۔ پس دعاؤں اور نیکیوں کے بجا لانے کی طرف خاص توجہ دینے کی ہر ایک کو ہر وقت ضرورت ہے تا کہ ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی پناہ گاہ میں رہیں۔ دعاؤں اور ذکر الٰہی پر زور دیں۔ ہماری دعاؤں کی کیا کیفیت ہونی چاہئے اور کس طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں؟ اس بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار‘‘ (کثرت سے بہت زیادہ اور بار بار) ’’اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی۔‘‘ (کثرت بھی ضروری ہے اور اضطراب بھی ضروری ہے وہ دعا نہیں کی جاتی) ’’وہ پروا نہیں کرتا‘‘۔ فرمایا ’’دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے؟ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 10صفحہ 137۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرمایا کہ قبولیت کے واسطے جو ضروری شرط ہے وہ اضطراب ہے۔ انسان جو دعا کرے تو صرف منہ سے الفاظ ادا کر کے نہیں، سطحی طور پر نہیں بلکہ دعا کے وقت ایک بیقراری ہو اور ایک بے چینی ہو۔

پھر قبولیت دعا کے لئے یہ شرط بھی آپ نے بیان فرمائی کہ ’’جس کے واسطے انسان دعا کرتا ہو اس کے لئے دل میں درد ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 336۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

انسان اپنے لئے تو دعا کرتا ہے اور بڑے درد سے اسی طرح کرتا ہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے قریبیوں، بیوی بچوں کے لئے بھی ان کی تکلیف کے وقت بڑے درد سے دعا کرتا ہے۔ لیکن ہمارا کام یہ بھی ہے، ایک مومن کا یہ کام ہے کہ اپنے اس ذاتی دائرے سے باہر نکل کر جماعت کے لئے بھی بہت دعا کریں۔ مُسلم اُمّہ کے لئے بھی بہت دعا کریں۔ اپنے اپنے ملکوں کے لئے بھی دعا کریں۔ دنیا پر جو بھیانک خطرات منڈلا رہے ہیں ان کے دُور ہونے کے لئے بھی دعا کریں اور اس طرح دعا کریں جو دل میں درد کے ساتھ اٹھے۔ صرف سطحی دعائیں نہ ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ: ’’میرا تو یہ مذہب ہے کہ دعا میں دشمنوں کو بھی باہر نہ رکھے۔‘‘ فرمایا ’’جس قدر دعا وسیع ہو گی اسی قدر فائدہ دعا کرنے والے کو ہو گا اور دعا میں جس قدر بخل کرے گا‘‘ (کنجوسی کرو گے۔ کمی کرو گے) ’’اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دُور ہوتا جاوے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 74۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا یہ بھی ذریعہ ہے کہ صرف اپنی ذات تک ہی دعاؤں میں انسان محدودنہ رہے بلکہ اپنی دعاؤں کو وسیع کرے اور آجکل کا معاشرہ اور دنیا آپس میں اس قدر قریب ہے کہ دوسروں کے لئے دعا سے انسان اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچا رہا ہوتا ہے۔ یعنی علاوہ اس کے جو ایک ثواب ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فائدہ پہنچ رہا ہے، ظاہری دنیاوی فائدے بھی پہنچتے ہیں کیونکہ ظاہری طور پر بھی ہر ایک کا دوسرے پر اثر ہو رہا ہے۔

پس پہلے تو اپنی دعاؤں میں یعنی مستقل دعاؤں میں جماعت کے لئے دعاؤں کو بھی شامل کرے اور یہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس کو مجموعی طور پر جماعت کو اپنی دعاؤں میں شامل کرنا چاہئے۔

پاکستان میں جماعت کے حالات کا ہر ایک کو علم ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مقدمہ یا کسی بھی طریق سے تنگ کرنے کی کارروائی بعض حکومتی کارندوں کی طرف سے یا مولویوں کی طرف سے ہوتی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہر پاکستانی احمدی کو بچا کر رکھے۔ اسی طرح ملک کے جو سیاسی حالات ہیں ان میں حکومت بھی اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے بعض کمزوروں کو یا اقلیتوں کو بعض ذریعوں سے اور مختلف گروہوں کے ذریعہ سے یا مختلف لوگوں کے ذریعوں سے یا حملوں کے ذریعوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتی ہے اور خود ہی ایسی حرکتیں کروا کر پھر اس کے بعد law and order قائم کرنے کے نام پر یہ لوگ مزید ایسے قانون بناتے ہیں تاکہ اپنی مرضی کے قانون چلا سکیں اور اپنی حکومت یا کرسی کو مضبوط کر سکیں۔ بہرحال یہ خبریں آجکل وہاں میڈیا میں بھی نکل رہی ہیں۔ اس بات کی کیا حقیقت ہے یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ایسے مکر یہ سیاسی حکومتیں ماضی میں کرتی رہی ہیں اس لئے دعاؤں کی خاص ضرورت ہے۔ پاکستانی احمدیوں کو جو وہاں رہنے والے ہیں اپنے لئے خاص دعا کرنی چاہئے۔ پہلے بھی مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ دعاؤں میں جو ایک جوش ہونا چاہئے وہ نہیں ہے اس لئے اس طرف توجہ دیں۔ جہاں تک دعاؤں کے علاوہ کسی کوشش کا سوال ہے ہم نے نہ تو پہلے قانون ہاتھ میں لیا اور بدلے لئے اور نہ آئندہ لیں گے لیکن دعا کا ہتھیار ہے جو ہم ہمیشہ استعمال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان لوگوں کی جماعت کو ختم کرنے کی جو منصوبہ بندیاں ہیں ان سے بچاتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انشاء اللہ آئندہ بھی بچائے گا۔ نہ صرف بچائے گا بلکہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت ترقی کی منازل کی طرف بھی پہلے سے زیادہ قدم بڑھائے گی۔

اسی طرح الجزائر میں بھی جماعت کے خلاف ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کارروائی ہو رہی ہے لیکن اِکّا دُکّا کے علاوہ تمام احمدی مضبوطی سے اپنے ایمان پر قائم ہیں اور مجھے لکھتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں۔ ہم ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ بلکہ ایک نے یہ بھی لکھا کہ آپ کہتے ہیں نئی جماعت ہے۔ ٹھیک ہے ہم نئی جماعت ہیں۔ گزشتہ دس سال سے قائم ہوئی جماعت ہے لیکن ہماری قربانیاں دینے کی جو تاریخ ہے وہ بہت پرانی ہے اس لئے جب ہم پہلے قربانیاں دیتے رہے ہیں تو اب جبکہ ہم نے حق پا لیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم قربانیاں نہ دیں۔ حکومت کو وہاں سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو نہ تو کسی قسم کا سخت ردّعمل دکھا رہے ہیں اور نہ اپنے ایمان سے پھرتے ہیں۔ عورتیں مرد سب سزائیں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اپنے ایمان سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ احمدی کے پاس دعا کا ہتھیار ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین ہے۔ اس بات پر وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ امتحان کا دَور ایک دن ختم ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ ضرور ہماری دعائیں سنے گا۔ ہم تو اس خدا کے آگے جھکنے والے ہیں جو سب طاقتوں کا مالک ہے جو مضبوط سہارا ہے۔ اس کے ساتھ جب کوئی چمٹ جائے تو و ہ اس کا مضبوط سہارا بن جاتا ہے۔ اس کی پناہ بن جاتا ہے۔ ہمارا خدا سب بادشاہوں اور حکومتوں سے اونچی شان والا ہے۔ وہ صمد ہے۔ یہ دنیادار حکومتیں اور طاقتیں اس کے سامنے ایک حقیر چیونٹی کے برابر بھی نہیں ہیں۔ پس جب ہمارا خدا اس شان والا ہے تو پھر ہمیں خوف کی ضرورت نہیں۔ ہاں امتحان آتا ہے بعض قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن آخر فتح بھی پھر اسی کی ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہو اور جماعت احمدیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر جماعت کو اپنی پناہ میں لیا ہے اور دشمن ناکام و نامراد ہی ہوا ہے۔ پس اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مضبوط قلعہ میں پناہ لینے کے لئے اپنی دعاؤں اور ذکر کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ بڑھائیں۔ پاکستان میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہر احمدی کا کام ہے کہ دعاؤں کی طرف توجہ دے۔ جو سمجھتے ہیں کہ ان کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس بات نے انہیں دعاؤں میں سست کر دیا ہے، دعاؤں کی طرف پوری توجہ نہیں ہے وہ بھی یاد رکھیں کہ ان پر بھی امتحان اور ابتلاء کا دَور آ سکتا ہے اور اگر ایمان بچانا ہے تو اپنے ایمان کو بچانے کے لئے انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں ہی آنا پڑے گا۔ اس لئے اس سے پہلے کہ ایسی حالت ہو دعاؤں کی طرف توجہ کریں۔ اور جیسا کہ میں نے یہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے کہا کہ اگر اس وقت کسی کو بظاہر دنیاوی آسانیاں بھی ہیں تب بھی جو احمدی بھائی مشکل اور پریشانیوں میں گرفتار ہیں ان کے لئے ایک درد کے ساتھ دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی جماعتی پریشانیاں بھی دور فرمائے اور ذاتی پریشانیاں بھی دور فرمائے۔ دوسروں کے لئے دعا کرنے سے دعا کرنے والے کی اپنی پریشانیاں بھی دور ہوتی ہیں جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔

جو باہر کے ممالک میں ہیں، یورپ میں اور ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں۔ اسلام کے خلاف ان مغربی اور ترقی یافتہ ممالک میں اب جو ایک رَو اٹھی ہے اس سے احمدی بھی متاثر ہوں گے۔ بیشک ہم کہتے رہیں کہ ہم وہ نہیں جو بعض دوسرے مسلمان عمل کر رہے ہیں۔ ہم تو پُرامن اسلام اور پیار اور محبت کرنے والے اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں۔ ہر ایک کو تو ابھی پتا نہیں کہ ہم کیا ہیں اور کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقصد ہے؟ اور کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن ہے؟ یا تو ہم نے ہر ایک تک پیغام پہنچا دیا ہو ورنہ کارروائی کرنے والا تو اندھا ہو کر کارروائی کر جاتا ہے اور ایسے واقعات یہاں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ہو رہے ہیں اور ہونے شروع ہو گئے ہیں جو اسلام مخالف اور قوم پرست لوگ مسلمانوں کے خلاف بھی نقصان پہنچانے کے لئے کارروائیاں کر رہے ہیں اور دوسری قوموں کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ بلکہ ایک احمدی نے لکھا کہ میرا مالک میرے کام سے بڑا خوش تھا اور بڑی تعریفیں کیا کرتا تھا۔ اسی طرح اخلاق سے بھی بڑا متاثر تھا لیکن کچھ عرصہ سے اس کا رویّہ بدل گیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہونے کی وجہ سے میرے بھی خلاف ہو گیا اور اس وجہ سے وہ مجھے نوکری سے بھی نکالنا چاہتا ہے۔ تو یہی واقعات ہیں جو آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جاتے ہیں اگر ان کا وقت پہ علاج نہ ہو۔ پس اس کا علاج سوائے دعا کے اور کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کئے بغیر کوئی ان حالات سے بچ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا جب یہ اعلان ہے کہ میری طرف تم خالص ہو کر آؤ مَیں تمہاری پکار اور دعائیں سنوں گا تو پھر اس ذریعہ کو ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ پس جب حیلے سب جاتے رہیں تو ایک حضرتِ توّاب والی حالت ہمیں پیدا کرنی پڑے گی۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ ہم ان مشکلات اور امتحانوں سے اس کے بغیر نکل نہیں سکتے۔

پھر صرف مسلمانوں کی حالت یا احمدیوں کی حالت کا ہی سوال نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے حالات ایسے ہو رہے ہیں جو دنیا خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بڑی طاقتیں اس وقت تو مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہی ہیں اور جیسا کہ مَیں کئی سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ مسلمان ان کے ہاتھوں میں بے وقوف بن کر اپنی طاقت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اپنے ملکوں کی ترقی کو کئی دہائیاں پیچھے لے جا چکے ہیں۔ اس وقت جو امریکہ کا منصوبہ نظر آ رہا ہے وہ بڑا خطرناک ہے۔ شام میں جنگ کے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں اور مزید کئے جائیں گے کہ ایران کی مدد شام کو براہ راست پہنچے۔ ہوسکتا ہے ایران ایسی حالت میں فوجیں بھی بھیج دے اور پھر امریکہ اور اسرائیل ایران سے اپنی دشمنی نکالیں گے اور پھر براہ راست ایران سے جنگ شروع ہو جائے گی۔ اور بدقسمتی سے سعودی عرب کی حکومت بھی ان کا ساتھ دے گی۔ بظاہر یہی نظر آر ہا ہے اور اسلام کے خلاف جو بغض و کینہ ہے، مسلمان ممالک کو کمزور کرنے کی جو کوشش ہے اس پر بڑی حکمت سے یہ طاقتیں عمل درآمد کر رہی ہیں اور کریں گی۔ لیکن یہ جنگ پھر محدودنہیں رہے گی۔ روس بھی دوسرے فریق کی حمایت میں جنگ میں کھل کر آجائے گا جس کا وقتاً فوقتاً وہ اظہار کرتا بھی رہتا ہے۔ ایک عالمی جنگ کی شکل بن سکتی ہے۔ یہی تجزیہ نگار اب کہنے لگ گئے ہیں۔ اگر کسی مسلمان ملک نے ابھی تک کوئی ترقی کی بھی ہے تو اس جنگ کے نتیجہ میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا بعض ملک تو کئی دہائیاں پیچھے جا چکے ہیں اور دوسرے ملک بھی کئی دہائیاں پیچھے چلے جائیں گے۔ نقصان ہمیں مسلمانوں کو ہو گا۔

آجکل اسی طرح قطر کا معاملہ بھی ہے۔ مسلمانوں کو لڑانے کے لئے ایک اور کوشش ہے۔ دہشتگردی کے خاتمہ سے زیادہ یہ بات نظر آتی ہے کہ فرقہ واریت کی وجہ سے ایک حسد پیدا ہوئی ہوئی ہے اور دولت کو حاصل کرنے کی بھی ایک کوشش ہے اور اپنے زیر نگین رکھنے کی بھی کوشش ہے۔ امریکہ نے پہلے تو سعودی عرب کو کہا تھا کہ بیشک قطر پر پابندیاں لگا دو۔ یہی میڈیا میں زیادہ تر ذکر آ رہا ہے کہ صدر امریکہ کے دورے کے بعد، امریکہ کی اجازت ملنے کے بعد قطر کے خلاف یہ اقدامات کئے گئے ہیں۔ اب جب یہ سب کچھ ہو گیا تو امریکہ کی حکومت یہ کہتی ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی صلح کے لئے بڑی سخت شرائط رکھ رہے ہیں ان کو نرم رویہ دکھانا چاہئے۔ اور اب یہ ظاہر کرنے کے لئے قطر پہ بھی ہاتھ رکھنا شروع کر دیا ہے کہ ہم تو اس بارے میں بالکل نیوٹرل ہیں۔ مسلمان ممالک کو سمجھ نہیں آ رہی کہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازش کی جا رہی ہے بلکہ اسلام کے خلاف ایک سازش کی جا رہی ہے اور ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔

پھر صرف مڈل ایسٹ یا عرب ممالک کا ہی معاملہ نہیں ہے کہ جہاں سے جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ امریکہ اور کوریا کا بھی تناؤ ہر آنے والے دن میں بڑھ رہا ہے اور دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والے اور تبصرہ کرنے والے اس بات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں کہ امریکہ کا معمولی سا بھی ہتھیاروں کا استعمال اور سختی کا رویّہ، یا کوریا کی طرف سے ہتھیار کا استعمال چاہے وہ بغیر نقصان پہنچائے ڈرانے کے لئے ہی ہو، اس خطے میں بدترین جنگ پر منتج ہو گا۔ پس دنیا کے بڑے خوفناک حالات ہیں۔ چین گو کوریا کا حمایتی ہے لیکن وہ بھی حالات کی سنگینی اور جنگ کے خوفناک نتائج کو محسوس کرتے ہوئے کوریا کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکہ کو بھی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

پھر نئی ایجادیں ہیں۔ انسانوں نے اپنے رابطوں کے لئے، اپنے ریکارڈ رکھنے کے لئے، اپنے معاشی اور دوسرے نظام چلانے کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کمپیوٹر نے بہت سے کاموں کو سنبھال لیا ہے۔ لیکن یہی ایجاد دنیا کی تباہی کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ آجکل بار بار کبھی کسی خاص ملک میں اور کبھی پوری دنیا میں سائبر اٹیک (Syber attack) ہو رہے ہیں۔ سارا نظام اس سے درہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہاں کا بھی این ایچ ایس (NHS) کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ ایئر پورٹس کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ جنگی آلات کے استعمال اور جنگوں کی وجہ بننے میں بھی یہ سائبر حملے جو ہیں خوفناک کردار ادا کر سکتے ہیں اور تباہی لا سکتے ہیں۔ چنانچہ نیٹو کے ایک نمائندے نے یہ واضح کیا ہے کہ نیٹو پر یا دنیا کے حساس معاملات میں کہیں بھی یہ سائبر حملہ ہو گیا تو ایک تباہ کن جنگ کا باعث بن سکتا ہے اور مزید ہم اس قسم کا حملہ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ وارننگ وہ دے چکے ہیں۔ پس دنیا تو اپنی تباہی کے خود سامان کر رہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ دنیا داروں کی ترقی ان کی حفاظت کی ضامن ہے جبکہ یہ ان کی تباہی کی وجہ بن سکتی ہے۔ اور پھر دنیادار اور دنیادار سربراہان حکومت اپنے مفادات کے لئے بالکل لاپرواہ ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر جب دنیا کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کا صدر اپنے خول میں بیٹھ کر ہوائی باتیں کر کے سمجھتا ہو کہ دنیا اب میرے کہنے کے مطابق چلے گی تو پھر اس کی یہ باتیں حالات کو مزید بگاڑنے والا بنا رہی ہیں۔ ایک بات تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ اپنے تکبر کی وجہ سے اپنے ہر مخالف کو اور مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے مسلمانوں کو ختم کرنے پر تُلا بیٹھا ہوا ہے۔ اپنے مخالفین کو، جو چاہے کوئی بھی ہوں، ختم کرنے پر تُلا بیٹھا ہے اور اس بات سے لاپرواہ ہے کہ دنیا میں مختلف وجوہات سے جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اس کے خوفناک نتائج سے وہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ جو جگہ مرکز اسلام ہے وہاں کے بادشاہ بھی ایماندار نہیں ہیں اور اپنے مفادات اور علاقے میں اپنی بڑائی منوانے کے لئے غیر مسلموں کی گود میں گر کر اسلام کو کمزور کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ سعودی حکومت کا یہی حال ہے۔ مسلمان حکومتوں کے جو سربراہان ہیں وہ بھی عمومی طور پر اپنے عوام پر ظلم کر کے عوام کی بڑی تعداد کو اپنے خلاف کر چکے ہیں اور پھر حکومتوں کو مستحکم کرنے کے لئے مزید ظلم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہی حال سیریا میں ہے۔ یہی حال عراق میں ہے یا کچھ حد تک دوسرے ملکوں میں ہو رہا ہے۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے یہ مسائل کا حل کر لیں گے۔ اور سمجھتے نہیں کہ اس کا حل وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اور جو مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے میں ہی ہے۔

ہم احمدی کمزور ہیں۔ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس دولت نہیں ہے۔ ہمارے پاس حکومت نہیں ہے۔ لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو مان لیا ہے جس سے اب دنیا کا امن اور سلامتی وابستہ ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرنے سے قائم ہو گا۔ دنیا اگر جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچ سکتی ہے تو صرف ایک ہی ذریعہ سے بچ سکتی ہے اور وہ ہے ہر احمدی کی ایک درد کے ساتھ ان تباہیوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے دعا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ دعا ایسی مصیبت سے بچانے کے لئے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت کے بارے میں بھی جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ فرمایا کہ پس اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب من فتح لہ منکم باب الدعاء … الخ حدیث 3548)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہمیں دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے۔ آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے، ان آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کو محسوس کرتے ہوئے جو ابھی ان پر نہیں آئیں اور جن کا ان کو احساس بھی نہیں ہے۔ حکومتیں اور ایک طبقہ تو اپنے مقاصد کے لئے ایسی حرکتیں کر رہا ہے لیکن لاکھوں کروڑوں معصوم دنیا میں ہیں، ان ملکوں میں ہیں جن کو پتا بھی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو رہا ہے اور وہ بے ضرر اور معصوم ہیں ان کے لئے ہمارا فرض ہے کہ دعا کریں۔ یہ لوگ جو دنیا دار ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم، جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم دنیاوی حصاروں میں رہ کر ان اثرات سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن نہیں سمجھتے کہ آفات اور تباہی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ آج غلامان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی یہ فرض ہے کہ جہاں اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دین پر قائم اور مضبوط رکھے، اللہ تعالیٰ سے تعلق کو اور دعاؤں کی طرف توجہ میں انہیں بڑھاتا رہے، ان کی پریشانیوں اور مشکلات کو دور فرمائے، وہاں مُسلم اُمّہ کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ غیروں اور اسلام مخالف طاقتوں کی جھولی میں نہ گریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سلامتی، ان کی ترقی کے لئے اپنے جس فرستادے کو بھیجا ہے وہ اسے ماننے والے ہوں۔ اسی طرح ایک درد کے ساتھ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعا کریں۔ جنگوں کے ٹلنے کے لئے دعا کریں۔ دعاؤں اور صدقات سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ اگر اصلاح کی طرف دنیا مائل ہو جائے تو یہ جنگیں ٹل بھی سکتی ہیں۔ ہم اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ دنیا کا ایک حصہ تباہ ہو اور پھر باقی دنیا کو عقل آئے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور آنے والے کو مانیں بلکہ ہم تو اس بات پر خوش ہیں اور کوشش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کے بداعمال کی وجہ سے تباہی میں نہ ڈالے اور دنیا کو عقل دے کہ وہ بد انجام سے بچیں۔ جہاں مسیح موعود کے غلاموں کا یہ کام ہے کہ اس پیغام کو عام کریں کہ عافیت کا حصار اب مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے یا جڑنے میں ہی ہے، وہاں ہم ان کے لئے دعائیں بھی کریں۔ اس یقین کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہماری دعاؤں سے ان کو عقل بھی آ جائے اور اللہ تعالیٰ ان کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بھی بچا لے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اس مشن کو پورا کرنے والے ہوں جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے تھے کہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے اور اس کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کو بھی عمل میں لائیں اور دعاؤں کی بھی انتہا کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلبہ دعاؤں کے ذریعہ سے ہونا ہے۔ آپ کو دعا کا ہتھیار دیا گیا ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا اب رمضان کے بعد بھی ہمیں اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرتے ہوئے دعاؤں اور عبادتوں میں آگے آگے قدم بڑھانے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

’’دعابڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی‘‘۔ فرمایا کہ ’’انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔‘‘ فرمایا ’’پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہو گی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ 268-269۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ بالخیر کرے اور ہم کبھی شیطان کی جھولی میں گرنے والے نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق زندگیاں گزارنے والے ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ جون 2017ء شہ سرخیاں

    رمضان اپنی بیشمار برکتیں لے کر آتا ہے اور جو لوگ اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں وہ اس سے فیض بھی پاتے ہیں۔ ہر شخص کو خود بھی اپنے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اب ہمارے قدم پیچھے نہ ہٹیں بلکہ آگے بڑھتے رہیں اور کوشش بھی کرنی چاہئے کہ جہاں تک حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہم پہنچے ہیں ان سے قدم کبھی پیچھے نہ ہٹیں۔

    اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے بندوں کو جو دعا کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ کہا ہے کہ میں تمہارے قریب آ جاتا ہوں اس میں صرف رمضان کے مہینہ کا ہی ذکر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ جو بھی بے چین ہو اور بے قرار ہو کر میری طرف دعا کرتے ہوئے آتا ہے مَیں اس کی دعا سنتا ہوں۔ رمضان کے دنوں میں بہت سے لوگوں کو نفل پڑھنے کی جو عادت پڑی ہے اگر اس میں وہ باقاعدگی اختیار کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے وہ دعا بھی کریں اور رات کو پختہ ارادہ کر کے سوئیں تو اللہ تعالیٰ کی اس قربت سے ہمیشہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا قرب ہو تو انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں اور اس کے حصار میں ہوتا ہے اور یہ قرب رات کی دعاؤں کے ساتھ دن کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادات سے حاصل ہوتا ہے۔

    صرف چند دنوں تک اپنے آپ کو محدود کر کے باقی دنوں میں خدا تعالیٰ کی بات کی طرف توجہ نہ دینا انسان کو مردہ کر دیتا ہے۔ اگر ہم نے حقیقی زندگی حاصل کرنی ہے تو پھر سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا ضروری ہے۔

    ایک مومن کا کام ہے کہ اپنے اس ذاتی دائرے سے باہر نکل کر جماعت کے لئے بھی بہت دعا کریں۔ مُسلم اُمّہ کے لئے بھی بہت دعا کریں۔ اپنے اپنے ملکوں کے لئے بھی دعا کریں۔ دنیا پر جو بھیانک خطرات منڈلا رہے ہیں ان کے دُور ہونے کے لئے بھی دعا کریں اور اس طرح دعا کریں جو دل میں درد کے ساتھ اٹھے۔ صرف سطحی دعائیں نہ ہوں۔ پاکستان اور الجزائر میں احمدیت کی شدید مخالفت اور معاندین کے بد ارادوں اور مکروں کے حوالہ سے افراد جماعت کو خاص طور پر دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی تاکید۔

    جماعت احمدیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر جماعت کو اپنی پناہ میں لیا ہے اور دشمن ناکام و نامراد ہی ہوا ہے۔ پس اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مضبوط قلعہ میں پناہ لینے کے لئے اپنی دعاؤں اور ذکر کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ بڑھائیں۔ جو باہر کے ممالک میں ہیں، یورپ میں اور ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں۔ صرف مسلمانوں کی حالت یا احمدیوں کی حالت کا ہی سوال نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے حالات ایسے ہو رہے ہیں جودنیا خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بڑی طاقتیں اس وقت تو مسلمانوں کو آپس میں لڑارہی ہیں اور جیسا کہ مَیں کئی سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ مسلمان ان کے ہاتھوں میں بے وقوف بن کر اپنی طاقت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اپنے ملکوں کی ترقی کو کئی دہائیاں پیچھے لے جا چکے ہیں۔ صرف مڈل ایسٹ یا عرب ممالک کا ہی معاملہ نہیں ہے کہ جہاں سے جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ امریکہ اور کوریا کا بھی تناؤ ہر آنے والے دن میں بڑھ رہا ہے اور دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والے اور تبصرہ کرنے والے اس بات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں کہ امریکہ کا معمولی سا بھی ہتھیاروں کا استعمال یا سختی کا رویّہ، کوریا کی طرف سے ہتھیار کا استعمال چاہے وہ بغیر نقصان پہنچائے ڈرانے کے لئے ہی ہو اس خطے میں بدترین جنگ پر منتج ہو گا۔

    مسلمان حکومتوں کے جو سربراہان ہیں وہ بھی عمومی طور پر اپنے عوام پر ظلم کر کے عوام کی بڑی تعداد کو اپنے خلاف کرچکے ہیں اور پھر حکومتوں کو مستحکم کرنے کے لئے مزید ظلم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم احمدی کمزور ہیں۔ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس دولت نہیں ہے۔ ہمارے پاس حکومت نہیں ہے۔ لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو مان لیا ہے جس سے اب دنیا کا امن اور سلامتی وابستہ ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرنے سے قائم ہو گا۔

    دنیا اگر جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچ سکتی ہے تو صرف ایک ہی ذریعہ سے بچ سکتی ہے اور وہ ہے ہر احمدی کی ایک درد کے ساتھ ان تباہیوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے دعا۔

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلبہ دعاؤں کے ذریعہ سے ہونا ہے۔ آپ کو دعا کا ہتھیار دیا گیا ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا اب رمضان کے بعد بھی ہمیں اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرتے ہوئے دعاؤں اور عبادتوں میں آگے آگے قدم بڑھانے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

    فرمودہ مورخہ 30؍جون 2017ء بمطابق30؍احسان 1396 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور