بدری اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ

خطبہ جمعہ 10؍ جنوری 2020ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾

گذشتہ خطبہ جمعہ میں وقفِ جدید کے نئے سال کے اعلان کے ساتھ جو میں نے ملکوں کی جماعتوں کی پوزیشن بتائی تھی اس میں بتایا تھا کہ یوکے کی جماعتوں میں وقفِ جدید کے چندے کی وصولی کے لحاظ سے اسلام آباد کی جماعت پہلے نمبر پر ہے لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ جائزہ غلط تھا۔ پہلے نمبر پر آلڈرشاٹ (Aldershot)کی جماعت ہے اور دوسرے نمبر پر اسلام آباد کی جماعت۔ کیوں ہوا؟کس طرح ہوا؟ اس کی تفصیل میں مَیں نہیں جانا چاہتا لیکن بہرحال یہ درستی کی ضرورت تھی۔ اس لیے میں نے سب سے پہلے اسی کو لیا۔

آلڈرشاٹ کی جماعت ماشاء اللہ بڑی قربانی دے رہی ہے اور خاص طور پر لجنہ آلڈرشاٹ کی صدر نے مجھے لکھا تھا کس طرح بعض عورتوں نے غیر معمولی قربانی دی ہے۔ ان کا جذبۂ قربانی مثالی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے۔ میں نے گذشتہ خطبے میں عموماً غریبوں کی اور غریب ملکوں میں رہنے والوں کی قربانی کے واقعات اس لیے بیان کیے تھے کہ امیروں میں بھی یہ احساس پیدا ہو اور وہ بھی قربانی کی روح کو سمجھیں ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیاوی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر قربانی کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا برطانیہ کی جماعتوں میں وقفِ جدید میں آلڈرشاٹ کی جماعت سرِفہرست ہے۔

اب میں آج کے خطبے کے موضوع کی طرف آتا ہوں جو بدری صحابہؓ کا ذکر چل رہا ہے۔ گذشتہ سے پہلے خطبے میں حضرت سعد بن عبادہؓ کا ذکر چل رہا تھا اور کچھ رہ گیا تھا۔ آج بھی ان کے ذکر کے حوالے سے ہی بیان کروں گا۔ لیکن یہاں بھی ایک حوالے کی درستی کی ضرورت ہے جو گذشتہ خطبے میں مَیں نے بیان کیا تھا۔ گو احساس کے باوجود مَیں نے حوالے بھیجنے والوں کو ذکر تو نہیں کیا لیکن ریسرچ سیل میں ہمارے کام کرنے والوں کو خود ہی احساس ہو گیا اور انہوں نے یہ درستی بھیجی اور اس سے بہرحال میری یہ غلط فہمی جو مجھے بھی تھی وہ بھی دور ہو گئی۔ ماشاء اللہ اپنی طرف سے تو بڑی محنت سے کام کر کے یہ حوالے نکالتے ہیں لیکن بعض دفعہ جلد بازی سے ایسی تحریروں سے گزر جاتے ہیں جو دو صحابہ کے ملتے جلتے واقعات کو ملا دیتی ہیں۔ اسی طرح بعض دفعہ عربی عبارتوں کے ترجمے میں بھی الفاظ کا صحیح چناؤنہ ہونے کی وجہ سے حقیقت واضح نہیں ہوتی۔ بہرحال اس حوالے سے اب انہوں نے خود ہی درستی کر کے بھجوائی ہے جو میں پہلے بیان کروں گا۔ پھر باقی ذکر ہو گا۔

27؍ دسمبر کے خطبے میں حضرت سعد بن عبادہؓ کے تعارف میں یہ بیان ہوا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ اور طُلیب بن عُمیر کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی جو مکے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور ابنِ اسحاق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عُبادہؓ اور حضرت ابوذر غِفاریؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی لیکن بعض کو اس سے اختلاف بھی ہے اور واقدی نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ اس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات غزوۂ بدر سے قبل صحابہؓ کے درمیان قائم فرمائی تھی۔ حضرت ابوذر غِفاری جو اس وقت مدینہ میں موجودنہیں تھے اور وہ آئے نہیں تھے اور غزوۂ بدر اور احد اور خندق میں بھی شامل نہیں تھے بلکہ وہ ان غزوات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو میں نے یہ بتایا تھا کہ یہ ان کی دلیل ہے۔ بہرحال یہ اس طرح نہیں ہے۔ مؤاخات کا یہ ذکر دراصل حضرت مُنذِر بن عمرو بن خنیسؓ کے ضمن میں تھا۔ (اُسُد الغابہ جلد 5 صفحہ258 منذر بن عمرو مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

ریسرچ سیل والوں نے خود ہی لکھا ہے کہ جس کتاب سے یہ لیا گیا ہے وہاں ان کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہؓ کا بھی ذکر تھا تو ریسرچ سیل کی طرف سے سہواً یہ عبارت حضرت سعدؓ کے ساتھ بھی بیان کر دی گئی جبکہ حضرت منذر بن عمروؓ کے ذکر میں مؤاخات کا یہ ذکر ہے اور یہ تفصیل مَیں گذشتہ سال کے شروع میں 25؍ جنوری کے خطبے میں بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال یہ ایک درستی ہے۔ اب آگے جو ذکر چل رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ جب غزوۂ خندق کا واقعہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیینہ بن حصن کو مدینہ کی ایک تہائی کھجوراس شرط پر دینے کی پیشکش کے بارے میں سوچا کہ قبیلہ غطفان کے جو لوگ ان کے ہمراہ ہیں وہ انہیں واپس لے جائے۔ باقی لوگوں کو چھوڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ سے مشورہ طلب کیا۔ اس پر ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ہوا ہے تو آپؐ ایسا کر دیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بخدا ہم کچھ نہیں دیں گے سوائے تلوار کے یعنی ہم اپنا حق لیں گے یا جو بھی اس کی سزا ہے وہ ان کو اس منافقت کی یا عہد کی پابندی نہ کرنے کی ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جو میں نے تم دونوں کے سامنے رکھی ہے۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان لوگوں نے جاہلیت میں ہم سے ایسی ہی طمع نہیں کی تو آج کیوں کر؟ جبکہ اللہ ہمیں آپؐ کے ذریعہ ہدایت دے چکا ہے یعنی کہ یہ جو پہلا اصول ان کے ساتھ چل رہا تھا آج بھی وہی چلے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے اس جواب سے خوش ہو گئے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 442 سعد بن عبادہ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)

اس کی تفصیل غزوہ ٔخندق کے حالات کے ذکر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ یہ دن مسلمانوں کے لیے نہایت تکلیف اور پریشانی اور خطرے کے دن تھے اور جوں جوں یہ محاصرہ لمبا ہوتا جاتا تھا مسلمانوں کی طاقتِ مقابلہ لازماً کمزور ہوتی جاتی تھی اور گو ان کے دل ایمان واخلاص سے پُر تھے مگر جسم مادی قانونِ اسباب کے ماتحت چلتا ہے تو وہ مضمحل ہوتا چلا جارہا تھا۔ یعنی جسم کی ضروریات ہیں، آرام ہے، خوراک ہے، محاصرہ لمبا ہو گیا تو اس کی وجہ سے بے آرامی بھی تھی۔ صحیح رنگ میں خوراک بھی پوری نہیں ہو رہی تھی اس لیے تھکاوٹ بھی پیدا ہو رہی تھی، کمزوری بھی پیدا ہو رہی تھی، یہ جسم کا قدرتی تقاضا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات کودیکھا توآپؐ نے انصار کے رؤساء سعدبن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ کوبلا کر انہیں حالات بتلائے اور مشورہ مانگا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کی، غریبوں کی تو یہ حالت ہو رہی ہے اور ساتھ ہی اپنی طرف سے یہ ذکر فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تویہ بھی ہو سکتا ہے کہ قبیلہ غطفان کومدینے کے محاصل میں سے کچھ حصہ دینا کر کے اس جنگ کوٹال دیا جائے۔ سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ نے یک زبان ہوکر یہ عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! اگر آپؐ کواس بارہ میں کوئی خدائی وحی ہوئی ہے تو سرِتسلیم خم ہے۔ اس صورت میں آپؐ بے شک خوشی سے اس تجویز کے مطابق کارروائی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایانہیں مجھے اس معاملہ میں وحی کوئی نہیں ہوئی۔ میں تو صرف آپ لوگوں کی تکلیف کی وجہ سے مشورہ کے طریق پر پوچھ رہا ہوں۔ ان دونوں سعدؓ نے جواب دیا کہ پھر ہمارا یہ مشورہ ہے کہ جب ہم نے شرک کی حالت میں کبھی کسی دشمن کوکچھ نہیں دیا تو اب مسلمان ہو کر کیوں دیں۔ یعنی جو اُن کے وہاں قانون ہیں اس کے مطابق اب بھی عمل ہو گا۔ پھر آگے انہوں نے کہا کہ واللہ ہم انہیں تلوار کی دھار کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوانصار ہی کی وجہ سے فکر تھی۔ دوسرے لوگ بھی وہاں کے رہنے والے ہیں لیکن مدینہ کے انصار کو کوئی اعتراض یا لمبے محاصر ےسے انقباض یا بے چینی نہ پیدا ہو تو انصار کی وجہ سے یہ فکر تھی جو مدینہ کے اصل باشندے تھے اور غالباً اس مشورہ میں آپؐ کامقصد بھی صرف یہی تھا کہ انصار کی ذہنی کیفیت کاپتا لگائیں کہ کیا وہ ان مصائب میں پریشان تو نہیں ہیں اور اگر وہ پریشان ہوں تو ان کی دلجوئی فرمائی جائے۔ اس لیے آپؐ نے پوری خوشی کے ساتھ ان کے اس مشورے کو قبول فرمایا اور پھر جنگ بھی جاری رہی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ589-590)

غزوۂ خندق کے حالات بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں قبیلہ بنو قریظہ کی غداری کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ

’’ابو سفیان نے یہ چال چلی کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی رئیس حُیَی بِن اَخْطَب کویہ ہدایت دی کہ وہ رات کی تاریکی کے پردے میں بنو قُریظہ کے قلعہ کی طرف جاوے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے ساتھ مل کر بنو قریظہ کواپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ حُیَی بِن اَخْطَب موقعہ لگا کر کعب کے مکان پر پہنچا۔ شروع شروع میں تو کعب نے اس کی بات سننے سے انکار کیا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہمارے عہدوپیمان ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے عہدوپیمان کو وفاداری کے ساتھ نبھایا ہے۔ اس لیے میں اس سے غداری نہیں کر سکتا مگر حُیَی نے اسے ایسے سبز باغ دکھائے اور اسلام کی عنقریب تباہی کا ایسا یقین دلایا اور اپنے اس عہد کو کہ جب تک ہم اسلام کو مٹا نہ لیں گے مدینہ سے واپس نہیں جائیں گے اس شدّومد سے بیان کیا کہ بالآخر وہ راضی ہو گیا اور اس طرح بنوقریظہ کی طاقت کاوزن بھی اس پلڑے کے وزن میں آکر شامل ہوگیا۔‘‘ جو ملانے آیا تھا باہر سے ’’جو پہلے سے ہی بہت جھکا ہوا تھا‘‘ یعنی پہلے ہی ان میں طاقت تھی۔ دنیاوی طاقت ان کے پاس پہلے ہی بہت تھی۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بنوقریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا توآپ نے پہلے تو دو تین دفعہ خفیہ خفیہ زبیر بن العوامؓ کو دریافت حالات کے لیے بھیجا اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس و خزرج کے رئیس سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ اور بعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہو تو واپس آ کر اس کا برملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدین‘‘ یعنی دونوں سعد جو تھے ان ’’کی طرف سے معاہدہ کاذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے کہ‘جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ’یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا اور سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مناسب طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحالات سے اطلا ع دی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 584-585)

بہرحال پھر جو بھی ان کے ساتھ جنگ تھی یا سزا ملنی تھی وہ جاری رہی۔ غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے کئی اونٹوں پر کھجوریں لاد کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے بھیجیں جو ان سب کا کھانا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھجور کیا ہی اچھا کھانا ہے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 05 صفحہ06 فی غزوہ بني قريظۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

غزوۂ موتہ جو جمادی الاولیٰ سنہ آٹھ ہجری میں ہوئی۔ اس میں حضرت زیدؓ شہید ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو ان کی بیٹی کرب اور تکلیف کے باعث روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس پر آپؐ بھی بہت زیادہ رونے لگے۔ اس پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! یہ کیا! آپؐ نے فرمایا۔ ھٰذَا شَوْقُ الْحَبِیْبِ اِلٰی حَبِیْبِہٖ۔ یہ ایک محبوب کی اپنے محبوب سے محبت ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 34 زیدالحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

صحیح بخاری کی ایک اَور روایت ہے۔ یہ پہلی صحیح بخاری کی نہیں تھی۔ یہ واقعہ اَور ہے اور صحیح بخاری کی روایت سے ہے کہ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال کوچ فرمایا تو قریش کو یہ خبر پہنچی۔ تب ابوسفیان بن حَرْب، حکیم بن حِزَام اور بُدَیْل بن وَرْقَاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو میں نکلے۔ وہ چل پڑے یہاں تک کہ مَرُّ الظَّہْرَانْ مقام پر پہنچے۔ مَرُّ الظَّہْرَانْ مکے کی جانب ایک مقام ہے جس میں بہت سے چشمے اور کھجور کے باغات ہیں۔ یہ مکے سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ بہرحال جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا کہ بے شمار آگیں روشن ہیں جیسے حج کے موقع پر عرفات کے مقام کے آگے ہوتی ہیں۔ ابوسفیان نے کہا یہ کیسی ہیں؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عرفات کی آگیں ہیں۔ بدیل بن وَرْقَاءْ نے کہا بنو عمرو کی آگیں معلوم ہوتی ہیں یعنی خزاعہ قبیلہ کی۔ ابو سفیان نے کہا عمرو کا قبیلہ اس تعداد سے بہت کم ہے۔ اتنے میں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے داروں میں سے کچھ لوگوں نے دیکھ لیا اور ان تینوں کو پکڑ کر گرفتار کر لیا اور پھر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کے آئے۔ ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلےیعنی مکےکی طرف تو آپؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا۔ ابوسفیان کو پہاڑ کے درّے پر روکے رکھنا تا کہ وہ مسلمانوں کو دیکھ لے۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے اسے روکے رکھا۔ مختلف قبائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرنے لگے۔ لشکر کا ایک ایک دستہ ابوسفیان کے سامنے سے گزرتا گیا۔ جب ایک گروہ گزرا تو ابوسفیان نے کہا عباسؓ ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ قبیلہ غِفار کے لوگ ہیں۔ ابوسفیان نے کہا مجھے غفار سے کیا سروکار۔ پھر جُہینہ والے گزرے۔ ابوسفیان نے ویسے ہی کہا۔ پھر سعد بن ھُذَیْم والے گزرے۔ پھر اس نے ویسے ہی کہا۔ پھر سُلیم والے گزرے۔ پھر اس نے ویسے ہی کہا۔ یہاں تک کہ آخر میں ایک ایسا لشکر آیا کہ ویسا اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ابوسفیان نے پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت عباسؓ نے کہا انصار ہیں اور ان کے سردار سعد بن عبادہؓ ہیں جن کے پاس جھنڈا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے پکار کر کہا ابوسفیان! آج کا روز گھمسان کی لڑائی کا روز ہے۔ آج کعبہ میں لڑائی حلال ہو گی۔ ابوسفیان نے یہ سن کر کہا عباسؓ ! بربادی کا یہ دن کیا خوب ہو گا اگر مقابلے کا موقع مل جاتا۔ یعنی کہ میں دوسری طرف ہوتا یا کہ اس طرف ہونے کی وجہ سے مجھے بھی موقع ملتا کیونکہ اسلام قبول کر لیا تھا۔ پھر ایک اَور دستہ فوج کا آیا اور وہ تمام لشکروں سے چھوٹا تھا۔ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپؐ کے ساتھی مہاجرین تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ابوسفیان نے کہا کیا آپؐ کو علم نہیں کہ سعد بن عبادہؓ نے کیا کہا ہے؟ آپؐ نے پوچھا کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کہ ایسا کہا ہے۔ جو بھی انہوں نے الفاظ استعمال کیے تھے (وہ بتائے)۔ آپؐ نے فرمایا سعدؓ نے درست نہیں کیا بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت قائم کرے گا اور کعبہ پر غلاف چڑھایا جائے گا۔ کوئی جنگ ونگ نہیں ہو گی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب أین رکز النبیؐ الرایۃ یوم الفتح حدیث 4280) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 247)

اس واقعےکو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذرا تھوڑی سی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ جب لشکر مکےکی طرف بڑھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ کسی سڑک کے کونے پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ وہ اسلامی لشکر اور اس کی فدائیت کو دیکھ سکیں۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے یکے بعد دیگرے عرب کے قبائل گزرنے شروع ہوئے جن کی امداد پر مکہ بھروسا کر رہا تھا یعنی مکہ والے سمجھتے تھے یہ مدد کریں گے اور وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مگر آج وہ قبائل کفر کا جھنڈا نہیں لہرا رہے تھے، آج وہ اسلام کا جھنڈا لہرا رہے تھے اور ان کی زبان پر خدائے قادر کی توحید کا اعلان تھا۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہے تھے جیسا کہ مکہ والے امید کرتے تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے تیار تھے اور ان کی انتہائی خواہش یہی تھی کہ خدائے واحد کی توحید اور اس کی تبلیغ کو دنیا میں قائم کر دیں۔ لشکر کے بعد لشکر گزر رہا تھا کہ اتنے میں اَشْجَع قبیلے کا لشکر گزرا۔ اسلام کی محبت اور اس کے لیے قربان ہونے کا جوش ان کے چہروں سے عیاں تھا اور ان کے نعروں سے ظاہر تھا۔ ابوسفیان نے کہا عباس! یہ کون ہیں۔ عباسؓ نے کہا یہ اَشْجَع قبیلہ ہے۔ ابوسفیان نے حیرت سے عباسؓ کا منہ دیکھا اور کہا سارے عرب میں ان سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ عباسؓ نے کہا کہ یہ خدا کا فضل ہے کہ جب اس نے چاہا ان کے دلوں میں اسلام کی محبت داخل ہو گئی۔ سب سے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کا لشکر لیے ہوئے گزرے۔ یہ لوگ دو ہزار کی تعداد میں تھے اور سر سے پاؤں تک زرہ بکتروں میں چھپے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کی صفوں کو درست کرتے چلے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ قدموں کو سنبھال کر چلو تا کہ صفوں کا فاصلہ ٹھیک رہے۔ ان پرانے فداکارانِ اسلام کا جوش اور ان کا عزم اور ان کا ولولہ ان کے چہروں سے ٹپکا پڑتا تھا۔ ابوسفیان نے ان کو دیکھا تو اس کا دل دہل گیا۔ اس نے پوچھا عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے، عباسؓ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار و مہاجرین کے لشکر میں جا رہے ہیں۔ ابوسفیان نے جواب دیا اس لشکر کا مقابلہ کرنے کی دنیا میں کس کو طاقت ہے۔ پھر وہ حضرت عباسؓ سے مخاطب ہوا اور کہا تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا میں سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے۔ عباسؓ نے کہا اب بھی تیرے دل کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ یہ بادشاہت نہیں ہے، یہ تو نبوت ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہاں ہاں اچھا پھر نبوت ہی سہی۔ جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا تو انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہؓ نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا۔ آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے۔ آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا آپؐ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے۔ ابھی ابھی انصار کے سردار سعدؓ اور اس کے ساتھی ایسا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بلند آواز سے یہ کہا ہے کہ آج لڑائی ہو گی اور مکہ کی حرمت آج ہم کو لڑائی سے باز نہیں رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے۔ یا رسول اللہؐ !آپؐ تو دنیا میں سب سے زیادہ نیک، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ کیا آج آپؐ اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے۔ ابو سفیان کی یہ شکایت اور التجا سن کر وہ مہاجرین بھی تڑپ گئے جن کو مکہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا اور ان کے دلوں میں بھی مکہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! انصار نے مکہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوسفیان، سعدؓ نے غلط کہا ہے۔ آج رحم کا دن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک آدمی کو سعدؓ کی طرف بھجوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیسؓ کو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا۔ اس طرح آپؐ نے جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے بیٹے کو دے دیا۔ اس طرح آپؐ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیسؓ پر پورا اعتماد تھا جو سعدؓ کے بیٹے تھے کیونکہ قیس نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں ایسے شریف تھے، ان کی شرافت کا یہ حال تھا کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض دوست میرے واقف ہیں اور میری عیادت کے لیے نہیں آئے۔ ان کے دوستوں نے کہا کہ آپ بڑے مخیر آدمی ہیں۔ قیسؓ بڑے مخیر تھے اور لوگوں کی بڑی مدد کرتے تھے تو آپؓ ہر شخص کو اس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں۔ کسی نے مانگا قرضہ دے دیا اور شہر کے بہت سے لوگ آپؓ کے مقروض ہیں اور وہ اس لیے آپؓ کی عیادت کے لیے نہیں آئے کہ شاید آپؓ کو ضرورت ہو اس حالت میں اور آپؓ ان سے روپیہ مانگ بیٹھیں۔ جو قرض دیا ہوا ہے وہ واپس نہ مانگ لیں۔ آپؓ نے فرمایا اوہو، بڑا افسوس کا اظہار کیا کہ میرے دوستوں کو بلا وجہ یہ تکلیف ہوئی ہے۔ ان کو اگر یہ خیال آیا تو میری طرف سے تمام شہر میں منادی کر دو، اعلان کر دو کہ ہر شخص جس پر قیسؓ کا قرضہ ہے وہ اسے معاف ہے۔ اس پر کہتے ہیں کہ اس قدر لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے کہ ان کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 341 تا 343)

غزوۂ حنین جس کا دوسرا نام غزوۂ ہوازن بھی ہے، حنین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان مکہ سے تیس میل کے فاصلہ پر واقع ایک گھاٹی ہے۔ غزوۂ حنین شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا تھا۔ جو اموالِ غنیمت اس جنگ میں حاصل ہوئے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین میں تقسیم کر دیے۔ انصار نے اپنے دلوں میں اس بات کو محسوس کیا۔ اس کے متعلق ایک تفصیلی روایت مسند احمد بن حنبل میں اس طرح مذکور ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور دیگر قبائلِ عرب میں مال تقسیم فرمایا تو انصار کے حصے میں اس میں سے کچھ نہ آیا۔ انصار نے اس کو محسوس کیا اور ان میں اس کے متعلق باتیں ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم سے جا ملے ہیں، ہمیں بھول گئے۔ مہاجروں کو دے دیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! یہ قبیلہ یعنی انصار جو ہیں آپؐ کے متعلق اپنے نفسوں میں کچھ محسوس کر رہا ہے۔ آپؐ نے جو اپنی قوم اور مختلف قبائل عرب میں مالِ فَےتقسیم کیا ہے اور انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ملا۔ آپؐ نے پوچھا اے سعؓ د! اس معاملے میں تم کس طرف ہو؟ تم اپنی بات کرو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنی قوم کا محض ایک فرد ہوں اور میری کیا حیثیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قوم کو اس احاطے میں اکٹھا کرو یعنی وہاں ایک بڑا احاطہ تھا، ایک جگہ تھی وہاں لے کے آؤ۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نکلے اور انہوں نے انصار کو اس احاطے میں اکٹھا کر لیا۔ کچھ مہاجرین بھی آ گئے۔ حضرت سعدؓ نے انہیں اندر آنے دیا اور کچھ اَور لوگ اندر آئے تو حضرت سعدؓ نے انہیں روک دیا۔ جب سب اکٹھے ہو گئے تو حضرت سعدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ انصار جمع ہو گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ اے گروہ ِانصار! کیا باتیں ہیں جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچ رہی ہیں، کہ تمہیں اس بات پر کچھ ناراضگی ہے کہ تمہیں مال نہیں ملا۔ کیا جب میں تمہارے پاس آیا تو تم گمراہی میں نہ پڑے ہوئے تھے کہ اللہ نے تمہیں ہدایت سے سرفراز فرمایا؟ تم مالی تنگ دستی کا شکار نہ تھے کہ اللہ نے تمہیں مال دار بنا دیا؟ تم ایک دوسرے کے دشمن نہ تھے کہ اللہ نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ اللہ اور اس کا رسولؐ زیادہ احسان کرنے والا اور افضل ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ ! ہم آپؐ کو کیا جواب دیں جبکہ احسان اور فضل اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہے۔ آپؐ نے فرمایا بخدا اگر تم چاہتے تو یہ کہہ سکتے تھے اور تمہاری وہ بات سچی ہوتی اور تمہاری تصدیق بھی ہو جاتی کہ آپؐ ہمارے پاس اس حال میں آئے تھے جب آپؐ کو جھٹلادیا گیا تھا۔ پس ہم نے آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ کو آپؐ کے اپنوں نے چھوڑ دیا تھا تو ہم نے آپؐ کی مدد کی۔ آپؐ ہمارے پاس آئے کہ لوگوں نے آپؐ کو نکال دیا تھا تو ہم نے آپؐ کو پناہ دی۔ آپؐ کو ہم نے ایک بڑے کنبے والا پایا تو ہم نے آپؐ کے ساتھ مؤاسات قائم کی۔ اے انصار کے گروہ !کیا تم نے دنیا کے حقیر سے مال پر دکھ محسوس کیا ہے؟ پھر آپؐ نے یہ الفاظ فرمانے کے بعد کہا کہ تم یہ یہ جواب دے سکتے تھے۔ پھر فرمایا کہ اے انصار کے گروہ ! کیا تم نے دنیا کے حقیر مال پر دکھ محسوس کیا ہے کہ مَیں نے تمہیں نہیں دیا اور ان کو دے دیا جو میں نے اس قوم کی تالیفِ قلب کے لیے دیا ہے تا کہ وہ اسلام قبول کر لیں اور میں نے تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے۔ ان کی تالیفِ قلب کی ہے تا کہ اسلام قبول کر لیں اور مضبوط ہوں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے۔ اے انصار کے گروہ !کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے گھروں میں لوٹو، صلی اللہ علیہ وسلم۔ پھر آپؐ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک شخص ہوتا۔ اور اگر لوگ ایک وادی میں چل رہے ہوں اور انصار دوسری وادی میں چل رہے ہوں تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں پر۔ راوی کہتے ہیں اس پر وہ سب انصار رونے لگے جو وہاں موجود تھے حتیٰ کہ ان کی داڑھیاں ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور وہ کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم اور حصے کے لحاظ سے راضی ہیں یعنی جو بھی آپؐ نے تقسیم کی ہے اس پر راضی ہیں اور آپؐ ہمارے لیے کافی ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور لوگ بھی منتشر ہو گئے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 192-193 مسند ابی سعید الخدریؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) (اٹلس سیرتِ نبوی صفحہ 408-409 مطبوعہ دار السلام الریاض 1424ھ) (السیرة الحلبیہ جلد3صفحہ163و175 باب غزوہ الطائف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

حجة الوداع کے لیے مدینہ سے سفر کر کے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ حج پر پہنچے تو وہاں آپؐ کی سواری گم ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کی سواری ایک ہی تھی اور وہ حضرت ابو بکرؓ کے غلام کے پاس تھی جس سے رات کے وقت وہ گم ہو گئی۔ حضرت صَفْوان بن مُعَطَّلؓ قافلہ میں سب سے پیچھے تھے۔ وہ اپنے ہمراہ اس اونٹنی کو لے آئے اور سارا سامان بھی اس پہ موجود تھا۔ وہ اونٹنی جو گم گئی تھی اس کو لے آئے اور وہ سامان بھی اس پہ موجود تھا۔

حضرت سعد بن عبادہؓ نے جب یہ بات سنی تو اپنے بیٹے قیسؓ کے ہمراہ آئے۔ ان دونوں کے ساتھ ایک اونٹ تھا جس پر زادِ راہ تھا۔ سارا سامان سفر کا لدا ہوا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ اس وقت اپنے گھرکے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی سامان والی سواری واپس لوٹا دی تھی یعنی اس وقت تک آپؐ کی وہ اونٹنی مل چکی تھی جو گمی تھی۔ جب سعدؓ آئے ہیں تو حضرت سعدؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپؐ کی سامان والی سواری گم ہو گئی ہے۔ یہ ہماری سواری اس کے بدلے میں ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ وہ سواری ہمارے پاس لے آیا ہے۔ یعنی وہ جو گمی تھی وہ مل گئی ہے۔ تم دونوں اپنی سواری واپس لے جاؤ۔ اللہ تم دونوں میں برکت ڈالے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 08 صفحہ 460 ذكر نزولہﷺ بالعرج، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) (کتاب المغازی جلد 3 صفحہ 1093 باب حجۃ الوداع مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)

حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے آپؐ کو کہلا بھیجا کہ میرا بچہ حالتِ نزع میں ہے ہمارے پاس آئیں تو آپؐ نے کہلا بھیجا اور فرمایا کہ اللہ ہی کا ہے جو لے لے اور اسی کا ہے جو عنایت کرے اور ہر بات کا اس کے ہاں ایک وقت مقرر ہے۔ اس لیے تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہو۔ انہوں نے پھر آپؐ کو بلابھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دی کہ ان کے پاس ضرور آئیں۔ آپؐ اٹھے اور آپؐ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادؓ ہ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور کئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ جب آپؐ پہنچے توبچہ اٹھا کر لایا گیا۔ وہ بچہ اس وقت دم توڑ رہا تھا اور ایسی ہی دم توڑنے کی آواز آ رہی تھی۔ عثمانؓ کہتے تھے کہ میرا خیال ہے اسامہؓ نے کہا کہ جیسے پرانی مشک ٹھکرانے سے آواز دیتی ہے یعنی ایسی آواز آ رہی تھی کہ بڑے بڑے سانس لے رہا تھا۔ بچے کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ یہ کیا ہے! آپؐ نے جواب دیا یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے اور اللہ بھی اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز، باب قول النبیﷺ یعذب المیت ببکاء اھلہ علیہ …… الخ حدیث 1284) یہ کوئی جذباتی حالت ہے تو ایسی کوئی بات نہیں۔ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کو کسی بیماری کی شکایت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ان سب کو اپنے ساتھ لے کر ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو گھر والوں کے جمگھٹ میں پایا۔ آپؐ نے فرمایا کیا یہ فوت ہو گئے؟ لوگ بیماری کی وجہ سے اکٹھے ہوئے تھے، شدید بیماری تھی۔ گھر والے ارد گرد اکٹھے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں یا رسول اللہؐ ! فوت نہیں ہوئے۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب گئے۔ ان کی حالت دیکھی تو آپؐ رو پڑے۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو دیے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ سنتے نہیں۔ دیکھو کہ اللہ آنکھ کے آنسو نکلنے سے عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کے غمگین ہونے پر بلکہ اس کی وجہ سے سزا دے گا یا رحم کرے گا اور آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور پھر فرمایا اور میّت کو بھی اس کے گھر والوں کے اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز، باب البکاء عند المریض حدیث 1304)

نوحہ کرنا جو ہے وہ غلط ہے۔ اس وقت ہو سکتا ہے کہ دیکھ کر ان کی ایسی حالت ہو یا آپؐ کی دعا کی کیفیت پیدا ہوئی ہو اس میں بھی آپؐ کو رونا آ گیا ہو لیکن باقیوں نے یہ سمجھا ہو کہ ان کا آخری وقت ہے اس لیے رونا شروع کر دیا۔ اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ رونا منع نہیں ہے لیکن بری بات اور منع یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے ظاہر ہونے پر ناراض ہو جائے۔ پس آنسو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے نکلیں تو اس کا رحم جذب کرتے ہیں ورنہ اگر برا منا کر نکلیں اور اس پر نوحہ کیا جائے تو پھر یہ سزا مل جاتی ہے۔ بہرحال اس وقت فوت نہیں ہوئے تھے جبکہ بیماری ان کی شدید تھی۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ انصار میں سے ایک شخص آپؐ کے پاس آیا۔ اس نے آپؐ کو سلام کیا۔ پھر وہ انصاری پیچھے مڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصاری بھائی! میرے بھائی سعد بن عبادہؓ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون اس کی عیادت کرے گا۔ آپؐ اٹھے اور ہم آپؐ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم دس سے کچھ اوپر لوگ تھے۔ ہم نے نہ جوتے پہنے تھے نہ موزے، نہ ٹوپیاں تھیں نہ قمیض۔ یعنی بڑی جلدی میں آپؐ کے ساتھ ساتھ چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ ہم اس قدر زمین میں چلے یہاں تک کہ ہم ان کے یعنی سعد بن عبادہؓ کے پاس آئے۔ سارے لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے تھے وہ سب پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے وہ اصحابؓ جو آپؐ کے ساتھ تھے ان کے قریب آ گئے۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ اسی پہلے واقعہ کا اس روایت میں ذکر ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز، باب فی عیادۃ المرضٰی (2138))

حضرت جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرامؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والدنے مجھے حریرہ تیار کرنے کا حکم دیا۔ میں نے حریرہ تیار کیا۔ حریرہ مشہور غذا ہے جو آٹے اور گھی اور پانی سے بنتا ہے بلکہ (بعض نے کہا ہے کہ) آٹے اور دودھ سے بنتا ہے بہرحال یہ انہوں نے لغت حدیث میں سے جو (معنیٰ) نکالا ہے انہوں نے کہا ہے کہ میں ان کے حکم کے مطابق وہ حریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھر میں تھے۔ آپؐ نے فرمایا اے جابرؓ ! کیا یہ گوشت ہے؟ میں نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہؐ ! یہ حریرہ ہے جو میں نے اپنے والد کے حکم سے بنایا ہے۔ پھر انہوں نے مجھے حکم دیا تو میں آپؐ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پھر میں واپس اپنے والد کے پاس آ گیا۔ میرے والدنے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ میں نے کہا جی۔ میرے والدنے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیا کہا؟ میں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ اے جابر! کیا یہ گوشت ہے؟ میرے والدنے سن کر کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت کی خواہش ہو رہی ہو۔ والد صاحب نے بکری ذبح کی، اس کو بھونا اور مجھے حکم دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر آؤ۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے وہ بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ انصار کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے بالخصوص عبداللہ بن عَمرو بن حَرَام اور سعد بن عُبادہ کو۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 5صفحہ39-40 کتاب الاطعمۃ دارالفکر 2001ء) (فتح الباری کتاب الاطعمہ جلد 9 صفحہ 678 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) (جہانگیر اردو لغت صفحہ 649 مطبوعہ جہانگیر بکس لاہور) (Lexicon part 2 P: 539 London 1865)

حضرت ابواُسید سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجار ہیں۔ پھر بنو عبد اشھل۔ پھر بنوحارث بن خزرج۔ پھر بنو ساعِدہ اور انصار کے تمام گھرانوں میں بھلائی ہے۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہؓ بولے اور وہ اسلام میں اعلیٰ پایہ کے تھے۔ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے یعنی کہ اچھے اعلیٰ پائے کے تھے کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہم سے افضل قرار دیا ہے۔ اس پر ان سے کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو بھی تو بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ہے۔ (صحیح البخاری كتاب مناقب الأنصار باب منقبۃ سعد بن عبادہ حدیث 3807)

حضرت ابواُسید انصاریؓ گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے بہترین گھر بنو نجار ہیں۔ پھر بنو عبداشہل۔ پھر بنو حارث بن خزرج اور پھر بنو ساعدہ اور انصار کے سب گھروں میں بھلائی ہے۔ راوی ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابواُسیدؓ نے کہا کہ رسول اللہؐ سے یہ روایت کرنے پرمجھے متہم کیا جاتا ہے۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوتا تو ضرور اپنی قوم بنو ساعدہ سے شروع کرتا۔ یہ بات حضرت سعد بن عبادہؓ تک پہنچی تو ان پر بھی بڑی گراں گزری۔ پہلی بھی جو روایت ہے اس میں بھی ان کا اظہار یہ تھا کہ ہمیں انہوں نے کہا کہ ہمیں پیچھے کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہم چار میں سے آخری ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے یعنی سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ میرے لیے میرے گدھے پر زین کسو۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ ان کے بھتیجے سہل نے ان سے کہا، سعد بن عبادہؓ کے بھتیجے نے کہا کہ کیاآپؓ اس لیے جا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تردید کریں۔ جو آپؐ نے ترتیب بیان کی ہے اس کے بارے میں بلا وجہ جا کے پوچھیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں۔ کیا آپؓ کے لیے یہ کافی نہیں کہ آپؓ چار میں سے ایک ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ارادہ بدل دیا اور کہا اللہ اور اس کا رسولؐ زیادہ جانتے ہیں اور انہوں نے اپنے گدھے کی زین کھولنے کا حکم دیا اور وہ زین کھول دی گئی۔ یہ بھی صحیح مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فی خیر دور الانصار حدیث (6425))

ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے قابلِ تعریف بنا دے اور مجھے شرف اور بزرگی والا بنا دے۔ شرف اور بزرگی بغیر اچھے کاموں کے نہیں ہو سکتی۔ اچھے کام نہ ہوں تو پھر شرف بھی نہیں مل سکتا اور بزرگی بھی نہیں ہو سکتی اور اچھے کام بغیر مال کے نہیں ہو سکتے۔ اے اللہ! تھوڑا میرے لیے مناسب نہیں اور نہ ہی مَیں اس میں درست رہوں گا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ461 سعد بن عبادہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

بہرحال یہ دعا کرنے کا ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! اگر مَیں اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو غلط حالت میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ مَیں چار گواہ لے آؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر مَیں ہوں تو اس سے پہلے ہی جلدی سے تلوار کے ساتھ اس کا فیصلہ کردوں۔ کوئی گواہی تلاش نہیں کروں گا بلکہ قتل کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں سے کہا کہ سنو ! تمہارا سردار کیا کہتا ہے۔ وہ بہت غیور ہے اور فرمایا کہ مَیں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب اللعان حدیث (3763))

پھر اسی حوالے سے مسلم کی ہی ایک اَور روایت بھی ہے جو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا اگر مَیں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھوں تو اسے قتل کر دوں اور تلوار بھی چوڑے رخ سے نہیں دھار کے رخ سے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم سعدؓ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو۔ اللہ کی قسم! مَیں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ اللہ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائیوں کو منع فرمایا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں اور کوئی شخص بھی اللہ سے زیادہ غیرت مندنہیں اور اللہ سے بڑھ کر کوئی شخص معذرت کرنے کو پسندنہیں کرتا۔ اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند بھی نہیں اور اللہ جتنا معذرت کو پسند کرتا ہے، توبہ کو پسند کرتا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے کوئی شخص اس میں اللہ سے زیادہ بڑھ نہیں سکتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ بشارت بھی دیتے ہیں ڈراتے بھی ہیں۔ اور کوئی شخص اللہ سے بڑھ کر مدح کو پسندنہیں کرتا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب اللعان حدیث (3764))

اللہ تعالیٰ کی مدح، تعریف برائیوں سے بچنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے جنت کا بھی وعدہ کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے تو جلدی نہیں کرتا۔ انسان کہہ دے میں غیرت کھا گیا اور جلدی کی۔ توبہ کرنے والے کو معاف بھی فرماتا ہے اور صرف معاف ہی نہیں کرتا بلکہ نوازتا بھی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے قانون سے، آپؐ نے فرمایا آگے نہ بڑھو۔ جو اللہ تعالیٰ کے قانون ہیں اس کے اندر رہو۔

حدیث میں ایک روایت مسند احمد بن حنبل کی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا فلاں قبیلے کے صدقات کی نگرانی کرو لیکن دیکھنا قیامت کے دن اس حال میں نہ آنا کہ تم اپنے کندھے پر کسی جوان اونٹ کو لادے ہوئے ہو اور وہ قیامت کے روز چیخ رہا ہو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! پھر یہ ذمہ داری کسی اَور کے سپرد فرما دیجیے توآپؐ نے یہ کام ان کے سپردنہیں کیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 473 مسند سعد بن عبادہ حدیث 22828 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) یعنی نگرانی کا پھر حق ادا کرنا ہو گا۔ انصاف کرنا ہوگا اور کسی قسم کی خیانت نہیں ہو گی۔ اگر خیانت ہوئی، انصاف نہ ہوا، اس کا حق ادا نہ ہوا تو پھر یہ بہت بڑا گناہ ہے اور قیامت کے دن اس کا جواب دہ ہونا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں چھ انصار نے قرآن کریم جمع کیا تھا جن میں حضرت سعد بن عبادہ بھی شامل تھے۔ (اسد الغابہ، جلد 1صفحہ503، جاریۃ بن مجمع، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 2003ء)

حضرت مصلح موعودؓ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ

’’انصار میں سے جو مشہور حفاظ تھے ان کے نام یہ ہیں: عُبادہ بن صامتؓ۔ مُعاذؓ۔ مُجَمِّع بن حارِثہؓ۔ فَضَالہ بن عُبَیدؓ۔ مَسْلَمہ بن مُخَلَّدؓ۔ ابودَرْدَاءؓ۔ ابوزیدؓ۔ زید بن ثابتؓ۔ اُبَیّ بن کعبؓ اور سعد بن عبادہؓ۔ ام وَرَقَہؓ۔‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہؓ میں سے بہت سے قرآن کریم کے حافظ تھے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 430)

باقی ان شاء اللہ۔ ان کا یہ تھوڑاسا حصہ رہ گیا ہے وہ ان شاء اللہ آئندہ۔

(الفضل انٹر نیشنل لندن 31؍جنوری 2020ء صفحہ 5تا 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 10؍ جنوری 2020ء شہ سرخیاں

    اے انصار کے گروہ !کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے گھروں میں لوٹو۔ اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔

    اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک شخص ہوتا۔

    اگر لوگ ایک وادی میں چل رہے ہوں اور انصار دوسری وادی میں چل رہے ہوں تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا۔

    اے اللہ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں پر۔

    اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ

    فرمودہ 10؍جنوری2020ء بمطابق 10؍صلح 1399 ہجری شمسی،  بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور