اسلامی آئین کے نفاذ کا طریق

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، المصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ

سیدناحضرت مصلح موعودضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

’’آج کل عام طورپر لوگوں میں چرچا پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی آئین نافذ ہوناچاہئے مگرمیری سمجھ میں یہ مسئلہ کبھی نہیں آیا ۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی آئین میرے لئے ہے یانہیں؟ جب اسلامی آئین ہر مسلمان فرد کے لئے ہے تو مسلمان افراد اسلامی آئین پرخود عمل کیوں نہیں کرتے؟ کیا پاکستان میں کوئی ایسا قانون ہے کہ نماز نہ پڑھو یاکیا پاکستان میں کوئی ایسا قانون ہے کہ اوراسلامی احکام پر عمل نہ کرو۔ جب نہیں تو مسلمان اگر سچے دل سے اسلامی آئین کے نفاذ کے خواہش مند ہیں تووہ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے ، وہ اسلامی احکام پر عمل کیوں نہیں کرتے۔

یہ کہا جاسکتاہے کہ پاکستان نے ایسے قانون نہیں بنائے جن کی وجہ سے ہر شخص کو نماز پڑھنے پرمجبور کیا جا سکے۔ مگرسوال یہ ہے کہ اگرایساقانون پاکستان نے نہیں بنایا توکیاپاکستان کاکوئی قانون شراب پینے پرمجبورکر تا ہے یا ناچنے گانے پر مجبورکرتاہے یا کوئی قانون یہ کہتاہے کہ تم نماز نہ پڑھو۔ اگر پڑھو گے تو چھ ماہ قید کی سزا دے دی جائے گی۔ جب پاکستان میں اس قسم کابھی کوئی قانون نہیں تو اگرہم واقعہ میں مسلمان ہیں توہمیں محمد رسول اللہ ﷺ کے بنائے ہوئے قانون پر خود بخود عمل شروع کر دینا چاہئے ۔ کیامحمد رسول اللہﷺکے مقرر کردہ قانون سے پاکستان کا قانون زیادہ مؤثر ہوگا۔ اگر محمد رسول اللہﷺ کے قانون پر عمل کرتے ہوئے آج سارے مسلمان نمازیں پڑھنے لگ جائیں،ساری ویران مساجدآباد ہو جائیں توکونسی گورنمنٹ انہیں اس سے روک سکتی ہے۔ پس بجائے اس کے کہ لوگ یہ مطالبہ کریں کہ پاکستان میں اسلامی آئین نافذہونا چاہئے ان کواسلامی آئین خود اپنے نفوس میں جاری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

میرا یقین ہے کہ برسراقتدار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب مسلمان آئینِ اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں توآئینِ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ محض وزارتوں کی تبدیلی کے لئے ہوتاہے کیونکہ بعض اورلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وزارتوں کے ہم حقدار ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے بہترطریق لوگوں میں کسی وزارت کے خلاف جوش پھیلانے کایہی ہے کہ شورمچا دیا جائے کہ وزراء آئین اسلام جاری نہیں کرتے ورنہ وہ خود بھی وہی کچھ کریں جو آج کل کیا جا رہا ہے ۔ میں مانتاہوں کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو حکومت کے اختیار میں ہیں ہمارے اختیار میں نہیں مگراس بارہ میں بھی حکومت کی طرف سے کوئی قدم اس لئے نہیں اٹھایا جاتاکہ وزراء اور لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کامطالبہ کرنے والے خود سنجیدہ نہیں ۔ اگرسنجیدہ ہوتے تو اپنے گھروں میں اسلامی آئین پرکیوں عمل نہ کرتے؟۔

غرض ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے آ پ کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کریں اور قرآن کریم کے ہرحکم پرعمل کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے مرد و عورت کے اختلاط کومنع کیاہے مگر سینما سارے کے سارے مرد وعورت کے اختلاط کانتیجہ ہوتے ہیں۔ سینما کی فلم بن ہی نہیں سکتی جب تک مرد اور عور ت اکٹھے نہ ہوں لیکن اگر سینما کے خلاف ہی آوازاٹھائی جائے تو آئینِ اسلام کے نفاذ کا شور مچانے والے سب سے پہلے اس کی مخالفت پر اترآئیں۔

پس ضروری ہے کہ ہم پہلے افراد کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کریں ۔کچی اینٹوں سے جو عمارت تعمیر کی جائے وہ کبھی پکی نہیں ہو سکتی۔ وہ عمارت ٹکڑے ٹکڑے ہوگی تب بھی کچی ہوگی،مکمل ہوگی تب بھی کچی ہوگی۔ اسی طرح جب تک افراد سچے مسلمان نہیں بن جاتے کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ کچی اینٹوں کی عمارت پکی نہیں کہلاسکتی جیسی اینٹ ہوگی ویسی ہی عمارت ہوگی‘‘۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۴؍جون۱۹۹۹ء تا۱۰؍جون ۱۹۹۹ء)