سیرت مسیح موعود علیہ السلام

فہرست مضامین

پیدائش حضرت اقدس علیہ السلام و زمانۂ طفولیّت و تذکرہ والد بزرگوار

حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے مختصر حالات لکھنے کے بعد ہم آپ کے حالات بیان کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ 1836ء یا 1837ء میں پیدا ہوئے تھے جو کہ آپ کے والد کے عروج کا زمانہ تھا کیونکہ اُس وقت اُن کو جاگیر کے بعض مواضع اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجی خدمت کی وجہ سے اچھی عظمت حاصل تھی لیکن منشاء الٰہی یہ تھا کہ ایک ایسے رنگ میں پرورش پائیں جس میں آپ کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو۔ اِس لیے آپ کی پیدائش کے تین ہی سال بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے ساتھ ہی سکھ حکومت پر زوال آ گیا اور اِس زوال کے ساتھ آپ کے والد صاحب بھی مختلف تفکرات میں مبتلا ہوگئے اور آخر الحاق پنجاب کے موقعہ پر اُن کی جائیداد ضبط ہوگئی اور باوجود ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے وہ اپنی جاگیر واپس نہ لے سکے جس کا صدمہ اُن کے دل پر آخری دم تک رہا چنانچہ خود حضرت مرزا صاحب اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:۔

’’میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے۔ انہوں نے پیرویٔ مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر کار ناکامی تھی کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور اُن کا واپس آنا ایک خام خیال تھا۔ اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گردابِ غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے اور مجھے اِن حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیداکرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لَوث زندگی کا سبق دیتا تھاجو دنیاوی کدورتوں سے پاک ہے۔ اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکارِ انگریزی کی طرفسے کچھ انعام سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اِس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔ اِس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بار ہا کہتے تھے کہ جس قدر مَیں نے اِس پلید دنیا کے لیےسعی کی ہے اگر مَیں وہ سعی دین کے لیے کرتا تو آج شاید قطبِ وقت یا غوثِ وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ ع

عمر بگذشت نماند است جز ایّامے چند
بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند

اور مَیں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے اور وہ یہ ہے ع

از درے تو اے کسے ہر بے کسے
نیست اُمیدم کہ بروم ناامید

اور کبھی دردِ دل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے ع

بآب دیدۂ عشاق و خاکپائے کسے
مرادے است کہ درخون تپدبجائے کسے

حضرتِ عزت جلّشانہٗ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں اُن پر غلبہ کرتی گئی تھی۔ بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بے ہودہ خرخشوں کے لیے مَیں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی‘‘۔