جاتا نہیں ہے را ئیگاں راہِ خدا میں خون

فاروق محمود، لندن

کہتے ہو داستانِ وفا کو رقم کروں

یعنی میں جوشِ اشک کو شعروں سے کم کروں

شہدأ کے واقعات سپردِقلم کروں

قربانیوں کے باب میں کیسے رقم کروں

ہم وہ نہیں جو شکوۂ رنج و الم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں


بعداز فرات، راوی کی اب ہے کتھا میں خون

کابل میں ہو کہ ربوہ میں یا کربلا میں خون

ہو انڈونیشیا میں، یا گھر کی فضا میں خون

جاتا نہیں ہے رائیگاں راہِ خدا میں خون

یادِ حسینؓ زندہ و جاوید ہم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں


وہ وصلِ یار کے لیے سب با وضوہوئے

وقتِ وصال آگیا سو قبلہ رُو ہوئے

اک جاوداں حیات لیے سرخرو ہوئے

اور موت کا شکار ہمارے عدو ہوئے

ہم تو دعا کے زور سے ہلکا یہ غم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں


یہ قیل و قال کی نہیں عملوں کی بات ہے

دل کو جو دیکھتی ہے مولا کی ذات ہے

نہ اپنی کچھ بساط، نہ لفظوں میں بات ہے

روحِ شہید پا گئی جس سے ثبات ہے

اُس راہِ زندگی کا سفر آؤ ہم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں


یہ وقتی جوش بدلہء قاتل نہیں ہے دوست

یہ ذکر وجہِ گرمیء محفل نہیں ہے دوست

لفظوں کی جوڑ توڑ ہی منزل نہیں ہے دوست

اور نگہِ مشفقانہ کے قابل نہیں ہے دوست

فاروق آپ قول و عمل کو بہم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں


جو صبر کا پہاڑ ہے کوہِ وقار ہے

جس کو بلا کا آنسوؤں پہ اختیار ہے

اُسکا بشر کے آگے نہ رونا شعار ہے

اشکوں کے بندتو ڑے وہ سجدوں میں یارہے

نقش ِقدم پہ ہم چلیں، شب زندہ ہم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں


چھینے کہیں پہ باپ، کہیں پہ سہاگ بھی

میرا خدا لگائے گا اُن سب کو بھاگ بھی

اے قوم اُن کے واسطے راتوں کو جاگ بھی

ڈھل جائے اب دعا میں سِینے کی آگ بھی

خلوت میں اُنکے واسطے آنکھوں کو نم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں


تُو ان کے خوں کا آپ ہی اب انتقام لے

میرے خدا شہیدوں کے بچوں کو تھام لے

ہم سے بھی زندگی میں کوئی ایسا کام لے

مرقد پہ آئے جو بھی محبت سے نام لے

سچی وفاشہیدوں کی مٹی سے ہم کریں

اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں

فاروق محمود (لندن)