حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں

4

اس کے بعد ہم آپ کو ایک اَور عظیم الشان پیشگوئی کاحال سُناتے ہیں۔ یہ بات تو ہم آپ کو پہلے بتاچکے ہیں کہ آنے والے زمانہ میں کسی بات کا یقینی طور پربتانا کسی بھی انسان کے لیے ہرگز ممکن نہیں ،کون جانتا ہے کہ کل کیا ہونا ہے اور 5سال بعد کیا ہونا ہے دس(10)برس یا بیس(20)برس کے بعد کیا ہوگا۔ لیکن اللہ اپنے پیارے بندوں کوایسی باتیں بتا دیا کرتا ہے اور اسی کو پیشگوئی کہتے ہیں۔

آپ نے پیچھے لیکھرام والی پیشگو ئی پڑھ لی جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چھ سال کے اندر اندر پوری ہوگی۔ یہ قہر کا نشان تھا۔ یہ ہندؤوں کے لیے بڑی بدقسمتی والی پیشگوئی تھی۔ یہ ایک شریراور شیطان کو سزادینے والی پیشگوئی تھی۔ اب تم رحمت کی پیشگوئی سنو۔ برکت کا نشان دیکھو۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ یہ نشان بھی ہندؤوں نے ہی مانگاتھا جو انہیں دکھایا گیا جسے نہ صرف اُنھوں نے دیکھا بلکہ ساری دُنیا نے دیکھا۔

حضرت مسیح مو عود علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام کچھ عرصہ علیحدہ طور پر اور بالکل تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے تھے۔ اسے بچو چلّہ کشی بھی کہتے ہیں۔ اگر آپ پرانے بزرگوں کی زندگیوں کے حالات پڑھیں تو کئی اولیاء اللہ نے اس قسم کی عبادتیں کی ہیں اسی طرح حضرت صاحب بھی چاہتے تھے اور اس کے لیے آپ کا خیال تھا کہ سو جان پور جو قادیان سے کافی فاصلے پر تحصیل پٹھانکوٹ میں برلبِ نہر ایک پرانا اور غالباً تاریخی قصبہ ہے وہاں جائیں اوروہاں جاکر یہ چلّہ کشی کریں حضرت صاحب کو تو چونکہ اسلام سے عشق تھا اس لیے اس دین کی سر بلندی کے لیے آپ نے ساری دنیا کو چیلنج کیا ہوا تھا کہ جو اس دین کی سچائی اور صداقت کے لیے کوئی نشان دیکھنا چاہتا ہے وہ آپ کے پاس قادیان آئے اور آپ کے پاس کچھ عرصہ ٹھہرے تو آپ اسے اس قسم کا نشان دکھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس اعلان کو قادیان کے ہندوؤں نے بھی سن رکھا تھا لیکھرام جس کا ذکر تم اوپر پڑھ آئے ہو وہ بھی قادیان آچکا تھا اور کافی شور اور شرارتیں کر گیا تھا۔ بس انہی سب باتوں کو دیکھ کر ان لوگوں کو خیال پیداہوا اور یہ لوگ ایک وفد بنا کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور نے ساری دنیا کو تویہ چیلنج دے رکھا ہے کہ میرے پاس آکر اسلام کی صداقت کے لیے نشان دیکھو لیکن ہم لوگ تو آپ کے ہمسائے ہیں آپ کے گاؤں میں رہتے ہیں آپ کے پاس ہی ہیں ہم خود یہ نشان دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں تو کہیں باہر سے آنا بھی نہیں پڑے گا تو آپ ہمیں نشان کیوں نہیں دکھاتے۔ اس پر حضرت صاحب نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی، خدا سے اس کا جواب مانگا تو آپ کو بتایا گیا کہ تیری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی یعنی تیری مشکل کا حل ہوشیار پور میں بتایا جائے گا۔ اس پر آپ نے ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا۔

آپ نے اپنے دو نہایت مخلص دوستوں کو لکھا کہ وہ آپ کے ساتھ جانے کے لیے قادیان آجائیں۔ ان میں ایک تو حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری تھے۔ جنھیں شروع سے ہی حضرت صاحب سے بڑی محبت اور عقیدت تھی اور ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت حضور کے پاس گذاریں۔ انہیں جب یہ پیغام ملا تو یہ بہت خوش ہوئے اور قادیان آگئے۔ دوسرے دوست شیخ حامد علی صاحب تھے جو قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے یہ بھی آگئے۔ ایک اور شخص بھی حضور کے ساتھ گیا جس کا نام فتح خان تھا۔

حضرت صاحب کے ایک دوست ہوشیار پور میں رہتے تھے۔ ان کانام شیخ مہر علی تھا۔ یہ ہوشیار پور کے ایک معزز رئیس تھے۔ انہیں بھی حضرت صاحب سے بڑی محبت اور عقیدت تھی۔ حضور جب بھی ہوشیار پور تشریف لے جاتے تو انہی کے پاس ٹھہرتے۔ اس لیے حضرت صاحب نے انہیں لکھا کہ میں چند دن کے لیے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں آپ میرے لیے شہر سے باہر کہیں ایسی جگہ مکان کا انتظام کردیں جہاں لوگوں کا زیادہ آنا جانا نہ ہو۔ کیونکہ یہ دن میں بالکل تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت میں گذارنا چاہتا ہوں۔ شیخ مہر علی صاحب نے فوراً اس کا انتظام کر دیا۔ ان کا اپنا ہی ایک مکان شہر کے باہر ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک حویلی سی تھی جو بے آباد تھی اور دومنزلہ تھی۔ (یہ مکان اب جماعت احمدیہ کی تحویل میں ہے) جب یہ انتظام ہوگیا تو حضور 20 جنوری1886ء کو قادیان سے ہوشیار پور کے لیے روانہ ہوگئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب قادیان میں ابھی ریل گاڑی نہیں آئی تھی لوگ عام طور پر یکّوں اور بہلیوں میں سفر کرتے تھے۔ بچّو! جانتے ہو بہلی کیا ہوتی ہے۔ یہ ایک گڈّا ہوتا ہے جسے بیل کھینچتے ہیں لیکن اس میں مال اسباب رکھنے کی بجائے ایک بڑی سی پیڑھی رکھ دی جاتی ہے اور اس کے گرد چاروں طرف ڈنڈے لگا کر پردے لگا دئیے جاتے ہیں اور اس پیڑھی پر بیٹھ کر لوگ سفر کرتے ہیں اور حضرت صاحب بھی قادیان سے بہلی میں ہی روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک دریا بھی آتا ہے اس دریا کانام دریائے بیاس ہے۔

جب ان چار آدمیوں کا قافلہ دریائے بیاس پر پہنچا تو دریا پار کرنے کے لیے کشتی پرسفر کرنا تھا۔ لیکن کشتی دریا کے اندر کچھ دور تھی۔ کنارے پر نہیں تھی۔ وہ ملّاح جو کشتی چلاتا تھااس نے حضرت صاحب کو کندھے پر اٹھا کر کشتی میں بٹھایا۔ خیر حضرت صاحب نے رات ایک گاؤں میں گذاری اور اگلے دن ہوشیار پور پہنچ گئے۔ رات حویلی میں بالاخانہ پر گذاری۔ بچّو! بالا خانہ مکان کی دوسری منزل کو کہتے ہیں۔ اور آپ نے کام تقسیم کر دئیے۔ حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کے سپرد تو کھانے پکانے کاکام ہوگیا۔ حضرت شیخ حامد علی صاحب کے سپرد سودا وغیرہ لانے کاکام ہوا اور دوسرے چھوٹے موٹے کام فتح خان کے سپرد ہوئے۔

اس کے بعد پھر حضرت صاحب نے اشتہار کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کر دیا کہ میں چالیس دن اکیلے عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے لوگ مجھے ملنے نہ آئیں اور نہ ہی کوئی دعوت وغیرہ کریں۔ ان چالیس دنوں کے بعد میں بیس دن اور ٹھہروں گا۔ ان دنوں جس کا جی چاہے آکر سوال جواب کرے اور دعوت کرنے والے دعوت بھی کر لیں اور حضور نے یہ حکم دیا کہ مکان کے اندر کی کنڈی ہمیشہ لگی رہے اور حضور کو کوئی نہ بلائے اور اگر حضور کوئی بات پوچھیں تو صرف اُس بات کا اتنا ہی جواب دیا جائے جتنا ضروری ہو۔ اوپر بھی کوئی نہ آئے میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جائے اور میرے کھانے کا انتظار نہ کیا جائے۔ میں جب چاہوں گا کھا لوں گا۔ اور خالی برتن پھرکسی وقت آکر لے جایا کریں یہاں تک کہ جمعہ پڑھانے کے لیے شہر سے باہر ایک باغ میں ویران سی مسجد تلاش کر لی جہاں یہ چاروں چلے جاتے اور حضرت صاحب خود خطبہ پڑھتے اور نماز پڑھادیتے۔

حضرت منشی محمدعبداللہ صاحب سنوری نے لکھا ہے کہ حضور نے مجھے ایک مرتبہ فرمایاکہ:۔ “میاں عبداللہ! اِن دنوں مجھ پر خدا تعالیٰ کے فضل کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہیں بعض اوقات دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہو جاویں “۔ اس چلہ سے متعلق اور بھی بعض واقعات ہیں جو ہم چھوڑتے ہوئے آگے چلتے ہیں کیونکہ اس طرح بات لمبی ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو ایک عظیم الشان خبر دی اور یہ وہ پیشگوئی ہے جسے اب ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں۔ حضور نے اپنے قلم سے 20 فروری1886ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جو امرتسر کے ایک اخبار”ریاض ہند” میں یکم مارچ 1886ء کے پرچہ میں شائع ہوا آپ اسے پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔ اس کے الفاظ، اس کے فقرے کس قدر شان وشوکت والے ہیں اس میں دین اسلام کی ترقی کی پیشگوئی ہے۔ اپنے ایک عظیم الشان بیٹے کی پیدائش کی پیشگوئی ہے۔ پھر ان رشتہ داروں کی تباہی کی پیشگوئی ہے جو ہر وقت حضرت صاحب کو تنگ کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کو ذلیل اور رسوا کرنے کی کوشش کیا کرتے اور پھر آپ یہ دیکھیں کہ یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔ وہ بیٹا پیدا ہوا اور جوان ہوا اور پیشگوئی کے سب الفاظ اس بیٹے پر پورے ہوئے۔ آپ کے وہ سب رشتہ دار جو ہمیشہ آپ کی تباہی کے سامان سوچا کرتے تھے اور آپ کو برباد کرنے کے درپے تھے سب کے سب ہلاک اور برباد ہو گئے۔ اب آپ یہ پیشگوئی خود پڑھیں۔

“پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ واعلامہ عزّوجل خدائے رحیم وکریم بزرگ وبرتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ وعزّ اسمہ‘) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنااور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لیے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اورظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین۔۔۔ کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سوکرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیؐ کوانکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اورپاک لڑکاتجھے دیا جائے گاایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کانام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے۔ اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیوں کہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین وفہیم ہو گااور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گااور وہ تین کو چار کرنے والاہوگا۔ (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے)دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ۔ مَظْھَرُالْحَقِّ وَالْعَلَاءِ کَأَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الہی کے ظہور کاموجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گااور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًامَّقْضِیًّا۔ پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتینِ مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گاتیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گایہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خداتیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گااور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا۔ اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلا لوں گا پر تیرا نام صفحۂ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گااور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گااور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابروزِ قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنااجر پائیں گے”۔ (اشتہار20 فروری 1886ء ضمیمہ اخبار “ریاض ہند”امرتسر مطبوعہ یکم مارچ 1886ء صفحہ 147۔ 148)

ابھی یہ پیشگوئی آگے بھی چلتی ہے جس میں آئندہ کی اور خبریں بھی دی گئی ہیں۔ لیکن ہم نے چونکہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک عظیم الشان بیٹے کے متعلق ہی بتانا ہے اس لیے اسے یہاں پر ختم کر دیا گیا ہے۔

پھر اس کے بعد حضور نے 22 مارچ 1886ء کو ایک اوراشتہار کے ذریعہ یہ بھی بتلا دیا کہ:”اس عاجز کے اشتہار مورخہ 20 فروری 1886ء۔۔۔ میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا۔ ”

اب بچّو! دیکھو اگراس پیشگوئی کے سارے ہی پہلو گننے شروع کریں توپھر ہماری یہ تفصیل بہت لمبی ہو جائے گی لیکن ہم آپ کو چند خصوصیات بتاتے ہیں اور اس کے بعد یہ بھی سمجھائیں گے کہ یہ سب کیسے پوری ہوئیں۔

اول: یہ کہ ایک لڑکا دیا جائے گا۔

دوم: یہ کہ وہ نو برس کے اندر اندر پیدا ہوگا۔

سوم: یہ کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔

چہارم: یہ کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگااور وہ جلد جلد بڑھے گا۔

پنجم: یہ کہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔

ششم: یہ کہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔

اب اگر اوپر والی عبارت آپ نے غورسے پڑھی ہے تو اس کے ہر فقرہ میں ایک پیشگوئی ہے اور ہم یہاں ایک ایک پیشگوئی کی تفصیل بیان کرنا شروع کریں تو پوری کتاب ہی اس سے بھر جائے اور واقعی یہ بات ہے بھی صحیح کہ اتنی شاندار اور عظیم الشان پیشگوئی کے لیے تو پوری ایک کتاب بھی تھوڑی ہے لیکن ہم نے آپ کو صرف ایک پیشگوئی ہی نہیں سمجھانی اور بھی مختلف پیشگوئیاں بتانی ہیں اس لیے اس میں سے صرف چار پانچ باتیں ہی منتخب کی ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے بتایا کہ ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ اب تم خود سوچ لو کہ کیا خدا کے ساتھ زبردستی کی جاسکتی ہے کہ وہ لڑکا ضرور دے۔ اور وہ لڑکے کی بجائے لڑکیاں ہی دے سکتا ہے۔ اور اگر خدا تعالیٰ لڑکیاں ہی دیتا تو یہ پیشگوئی کہاں پوری ہوتی۔ پھر یہ کہ تم نے دیکھا ہوگا کہ کئی لوگ ہیں کہ جن کے نہ لڑکا ہوتا ہے اور نہ لڑکی۔ سینکڑوں دوائیوں اور علاج کے باوجود اُن کے ہاں اولاد ہوتی ہی نہیں تو پھر یہ کہنا کہ لڑکا پیدا ہوگا تو یہ عظیم الشان پیشگوئی نہیں تو اور کیا ہے۔ اور دیکھوخدا تعالیٰ نے یہ لڑکا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کودے بھی دیا۔

اب دوسری بات لو۔ وہ یہ کہ یہ لڑکا نو برس کے اندر پیدا ہوگا۔ اور اگر نو برس میں نہ پیدا ہوتا تو پھر کوئی خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ وہ توقادر مطلق ہے وہ ہم سب کا مالک ہے۔ ہم تو اُس کے بندے اور غلام ہیں۔ وہ چاہے تو ایک برس کے اندر دے دے اور نہ چاہے تو پچاس برس تک نہ دے۔ لیکن اگر واقعی یہ پیشگوئی سچی تھی اور خدا نے ہی یہ بات اپنے پیارے بندے کو بتائی تھی تو پھر خواہ کچھ بھی ہوجاتا نو برس سے ایک دن بھی زیادہ ہونا ممکن نہ تھا۔ وہ اپنی بات ہر رنگ میں پوری کرتا ہے اورپھر خواہ کچھ بھی ہو جائے اس کی بات ردّ نہیں ہو سکتی۔ اور نہ ہی کی جاسکتی ہے۔ پس یہ لڑکا 9 برس تو دور کی بات ہے تین برس کے اندر یعنی 12 جنوری1889ء کو پیدا ہوگیا۔ کیا اسے پیشگوئی پوری ہونا کہتے ہیں یا نہیں۔ پس پیشگوئی کا یہ حصہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوگیا۔

اب لو تیسری بات جوہم نے پیچھے ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔

اگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات نعوذ باللہ اپنے دل سے ہی بنائی ہوتی تو خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کو خدا عزت ہی کیوں دیتاوہ بیٹا ہی کیوں دیتا۔ اور پھر وہ نوبرس میں کیوں دیتا پندرہ برس میں کیوں نہ دیتا۔ اگر دے بھی دیا تو یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ وہ اندھا ،کانا،لنگڑا لُولا یا پاگل ہی پیدا ہوتا۔ پھر یہ کہ اگر لڑکا صحیح اور تندرست اور 9 برس کے اندر ہی پیدا ہوگیا تھا تو بعد میں بڑے ہو کر وہ کوئی برا آدمی بھی بن سکتا تھا۔ یا کوئی قلی مزدور بنتا یا کوئی عام کسان یا دکان دار بن جاتاجسے اپنے ہی گاؤں میں کوئی نہ جانتا۔ تودیکھو بچو! یہ بات خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور نہ ہی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہوکر عزّت اور شہرت کا مالک ہوگا۔ اور پھر اگر وہ یہ بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کہے اور پھر وہ بات بالکل اسی طرح پوری ہوجائے تو پھر تو وہ یقینا سچی پیشگوئی ہے۔ اب اس روشنی میں اس پیشگوئی پر غور کرو اور دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ لڑکا پیدا ہوا۔ 9سال میں پیدا ہوا۔ وہ زندہ رہا۔ جوان ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت احمدیہ کا امام اور سربراہ بنایا وہ لاکھوں احمدیوں کا خلیفہ بنا اور یہ تھے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبشر اولاد میں سے سب سے بڑے بیٹے تھے جواس پیشگوئی کے مطابق حضور کے ہاں پیدا ہوئے۔

تو دیکھو یہ کتنی بڑی عظمت ہے اور کس قدر عزت اور احترام کی بات ہے کہ سب احمدیوں نے آپ کو اپنا سردار تسلیم کیا۔ آپ کو عزت واحترام اور اطاعت کی نظروں سے دیکھا۔ آپ کے حکم کو بجا لانے میں اپنی سعادت سمجھی۔ ہر رنگ میں اس کی خدمت کو اپنے لیے عزت اور برکت کا باعث سمجھا۔ اور پھر ایک وقت آیا کہ ۴۴۹۱ء میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے الہام کے ذریعہ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ آپ ہی وہ لڑکے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی اور الہام میں وعدہ فرمایا تھا اور آپ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود قرار دئیے گئے ہیں۔

چوتھی پیشگوئی اس میں یہ تھی کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا کہ وہ دس برس میں بیس برس کا ہوجائے گا۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنے عظیم الشان کاموں کو جلد جلدمکمل کرے گا اور اس کی شہرت اور عظمت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس کا حال یوں سنو کہ آپ دنیاوی علم کے لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ آپ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرتے۔ لیکن اس لحاظ سے تو آپ میٹرک سے بھی آگے نہ جاسکے۔ صحت آپ کی اتنی کمزور کہ کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا۔ محنت کہاں سے کرتے اور ڈگریاں کس طرح ملتیں۔ علاوہ ازیں گاؤں میں رہنا جہاں نہ یونیورسٹی اور نہ کالج۔ لیکن یہ کوئی انسانی کام تو نہیں یہ تو خدا کا کہا پورا ہونا تھا اس لیے باوجود اس ساری کمی کے اللہ تعالیٰ نے اپنی بات پوری کی۔ آپ ابھی بہت ہی چھوٹی عمر کے تھے یعنی 25 برس کے ہی تھے کہ جماعت نے آپ کو اپنا خلیفہ اور امام چُن لیا۔ اور یوں آپ پرساری جماعت کی ذمّہ داریاں آن پڑیں لیکن ساری جماعت کو علم ہوگیا کہ آپ ہمارے امام ہیں اور پھر اس وقت جماعت کے بعض بڑے بڑے لوگوں نے اپنی علیحدہ جماعت بنا کر آپ کے لیے بڑے مسائل پیدا کر دئیے۔ لیکن آپ نے بڑی ہمت اور بہادری سے وہ سب مسائل حل کر دئیے۔ جماعت میں ایک قسم کا سکون اور چَین پیدا کر دیا۔ پھر یہ کہ آپ نے اپنی تقریروں سے اور تحریروں اور کتابوں سے ساری جماعت کے لیے ایک ایسا علمی ذخیرہ فراہم کر دیا کہ سب لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اور اگر آپ پر خدا کا سایہ نہ ہوتا تو یہ سب کیسے ہوجاتا؟ آپ نے یورپ میں اسلام کے پھیلانے کے لیے مساجدکی تعمیر کا آغاز کیا۔ سب سے پہلی مسجد تو لنڈن میں بنوائی۔ یہ مسجد عورتوں نے اپنے چندہ سے بنائی۔ پھر ہالینڈ میں۔ پھر سوئٹزرلینڈ میں۔ پھر جرمنی میں دومساجد بنوائیں۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ کے ان تہذیب یافتہ ملکوں میں یہ چھوٹی سی غریب جماعت اتنی شاندار مساجدتعمیر کرے گی۔ اور یورپ میں اسلام کی بنیاد رکھ دے گی۔ پھر آپ نے دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شروع کروائے۔ انگریزی ترجمہ تو دیر ہوئی شائع کروا بھی دیا پھر اس کے ساتھ ہی جرمن،ڈچ،ڈینش اور مشرقی افریقہ کی سواحیلی زبان کے ترجمے بھی شائع کروادئیے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھنی شروع کی جو بہت بڑا عظیم الشان کام تھا۔ اور کئی سال کی سخت محنت کے بعد کئی ہزار صفحات کی تفسیر لکھ دی۔ اس کے ساتھ ہی چونکہ یہ بہت بڑی تفسیر تھی اور کئی حصوں میں تھی اس لیے آپ نے اسے مختصر بھی فرمایا اوریہ تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوئی۔ چونکہ آپ بیمار ہو گئے اس لیے بڑی تفسیر آپ مکمل نہ کر سکے اور اسی کی روشنی میں پھر انگریزی کی تفسیر تیار ہوئی جو پانچ جلدوں میں شائع ہوئی لیکن چونکہ یہ تفسیر بھی بہت بڑی تھی اور ہر شخص نہ اسے خریدنے کی طاقت رکھتا تھا اور نہ ہی روزانہ اسے مطالعہ کر سکتا تھا اس لیے اس کو چھوٹا کر کے ایک ہی جلد میں شائع کیا۔ یہ سب کس قدر مشکل کام تھے اور اگر خدا کا سایہ ان کے سر پر نہ ہوتا تو یہ کام کب اور کیسے ہوجاتا۔

بچو! 1947ء میں انگریز ہندوستان کو آزادی دے کر چلے گئے اور پاکستان ایک علیحدہ ملک بن گیا۔ لیکن ہمارا مرکز قادیان ہندوؤں کے حصے میں آگیا۔ بڑی قتل وغارت شروع ہو گئی اور ممکن تھا کہ بے شمار احمدی قتل ہو جاتے۔ لیکن آپ نے اس سارے معاملہ کو ایسی عقلمندی اور دانش مندی سے حل کیا کہ شاید ہی کسی احمدی کی جان گئی ہو۔ قادیان کے سب احمدی کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب خیرو عافیت سے پاکستان پہنچ گئے۔ پھر اس سے بھی بڑا کارنامہ سنو۔ اور وہ یہ کہ جب ہم لوگ پاکستان پہنچے تو ہم لوگوں کے پاس کوئی مرکز نہ تھا۔ اپنا کوئی گاؤں یا شہر نہ تھا کوئی احمدی کہیں اور کوئی کہیں۔ اس لیے آپ نے بڑی دعاؤں اور تلاش کے بعد ایک جگہ منتخب کی جسے آپ اور ہم اب ربوہ کہتے ہیں۔ زمین کا یہ ڈھائی میل لمبا اور میل بھر چوڑا ٹکڑا حکومت سے روپیہ دے کر خرید لیا۔ اور یہاں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے چاروں طرف سوکھی اور خشک پہاڑیاں اور چٹانیں اور زمین شور اور کلر زدہ تھی۔ درخت تو درکنار گھاس کا پتّا نظر نہ آتا تھا۔ پانی کانام ونشان نہ تھا۔ ہم نے جب 1948ء میں یہاں پر خیمے لگائے تو عجیب نظارہ تھا دور دور تک کوئی آبادی نظر نہ آتی تھی۔ رات کو ہواسائیں سائیں کرتی دن کو بگولے اور جھکّڑ چلتے۔ تیز لوئیں چلاکرتیں۔ چند لوگ تھے جنہیں دیکھنے والے دیوانے اور پاگل کہا کرتے۔ یہی دیوانے کئی ماہ ان خیموں میں رہے۔ دور سے پانی لایا کرتے۔ تقریباً10کلومیٹر دور چنیوٹ کا شہر تھا وہاں سے دال سبزی اور ضرورت کی دوسری چیزیں خرید لاتے۔ اسی طرح مہینوں گذر گئے اور پھر اس کے بعد گارے اور مٹی کے چند کچے گھر بنا لیے۔ اور اپنے دفتر بھی اسی طرح بوسیدہ اور پرانی کھڑکیوں اور دروازوں کے ساتھ کچی اینٹوں کے بنا لیے تا کہ کام شروع ہو جائے۔ اب تو ایک ننّھاساگاؤں بن گیا پاس ہی ریل گاڑی گذرتی تھی وہ بھی ٹھہرنی شروع ہو گئی ربوہ ریلوے اسٹیشن بن گیا۔ دوسری طرف بڑی سڑک گذرتی تھی جس پر سے لاہور اور فیصل آباداور سرگودھا جانے والی بسیں گذرتی تھیں وہ بھی ٹھہرنی شروع ہو گئیں۔ یوں آمدورفت کا اچھا بھلا سامان ہوگیا۔ رفتہ رفتہ پکی اور مستقل عمارتیں بننی شروع ہو گئیں۔ لیکن پانی کی شدید تکلیف تھی۔ آخر ہمارا یہی خلیفہ ربوہ آیا اور دعاؤں سے ایک جگہ کی نشاندہی کر دی۔ اور جب وہاں کھودا تو پانی نکل آیا اور پھر اس کے بعد پانی کی تو بہار آگئی۔ لیکن یہ پانی صحت کے لیے کچھ مفید نہ تھااس میں وہ ضروری اجزاء نہ تھے جو اچھے پانی میں ہونے ضروری ہیں لیکن کافی عرصہ کے بعد ایک ٹنکی بن گئی جس میں دریا سے پانی لاکر ڈالا گیا اور یہ پانی بہت عمدہ تھا۔ اب آہستہ آہستہ آبادی بڑھنی شروع ہوگئی۔ ڈاک خانہ بن گیا پھر 1955ء میں بجلی بھی آگئی۔ ٹیلیفون لگ گئے اور ربوہ ایک تیزی سے ترقی پذیر شہر بن گیا۔ جہاں آج غالباً دنیا کی ہر نعمت میسر ہے۔

اب دیکھو بچّو! یہ اسی لڑکے کا کارنامہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ:”خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا اور وہ جلد جلد بڑھے گا”۔ اگر خدا کا سایہ اس کے سر پر نہ ہوتا تو کیا یہ سارے کام اس کے لیے کبھی ممکن بھی تھے؟ یہ تو خدا کا کہا تھا۔ جوپورا ہوا۔ اور کون ہے جو خدا کے کہے کو پورا ہونے سے روک دے؟۔

اب ایک اور بات لو۔ پیشگوئی میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ ذرا دل میں سوچو کہ گاؤں میں پیدا ہونے والا ایک بچہ اور وقت بھی وہ جبکہ نہ ہوائی جہاز،نہ موٹریں نہ ریڈیو اور نہ ٹی وی۔ یہ بات کیسے پوری ہوگی۔ دنیا کے کناروں تک کیسے شہرت پائے گا۔ ابھی جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ پیشگوئی بتائی۔ لیکن خدا سچے وعدوں والا ہے وہ کبھی غلط بات نہیں کہتا اس کی بتائی ہوئی سب باتیں سچی ہوتی ہیں۔ پیارے بچو! اس لڑکے کی پیدائش کے ساتھ ہی جماعت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یعنی حضور نے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور اب حضور کی جماعت باقاعدہ ایک جماعت بن گئی۔ لیکن آپ 1914ء میں جماعت کے خلیفہ بنے۔ اس وقت ہندوستان سے باہر جماعت کا صرف ایک مشن تھا جولنڈن میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسرا مشن 1915ء میں جزیرہ ماریشس میں آپ نے ہی قائم کیا۔ اگر کبھی آپ ماریشس کے رہنے والوں سے بات کریں۔ تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا جزیرہ دنیا کا کنارہ ہے لو خدا کی بات تو 1915ء میں ہی پوری ہو گئی کہ آپ کا نام دنیا کے کنارے تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ بات ہم تمہارے علم کے لیے بتا رہے ہیں کہ آپ کی زندگی میں ہی جماعت احمدیہ کے مشن دنیا کے پچاس مختلف ملکوں میں کھلے۔ یہ مشرق میں بھی تھے اور مغرب میں بھی۔ شمال میں بھی اور جنوب میں بھی۔ کالوں میں بھی اور گوروں میں بھی سرخ لوگوں میں بھی اور زرد میں بھی۔ اگر سب کی فہرست لکھی جائے۔ تو بہت لمبی ہو جائے گی۔ مختصر طور پر سنو کہ کہاں کہاں آپ کی زندگی میں آپ کا نام پہنچا اور مشن قائم ہوئے۔ یورپ میں انگلستان، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سپین، ہنگری، آسٹریا، چیکوسلواکیہ، اٹلی، جرمنی، یوگوسلاویہ، روس اور امریکہ میں شمالی اور جنوبی امریکہ۔ مغربی افریقہ میں غانا، نائیجیریا، سیرالیون،گیمبیا،لائبیریا، ٹوگولینڈ، آئیوری کوسٹ۔ مشرقی افریقہ میں کینیا، یوگینڈا، تنزانیہ اور جنوبی افریقہ میں اور پھر مشرق وسطیٰ میں بھی کئی ملکوں میں مشن کھلے۔ مشرق قریب میں سری لنکا اور برما اور ایران۔ مشرقِ بعید میں جاوا، سماٹرا، ملایا، سنگاپور، جاپان، چین، ہانگ کانگ اور جزائرفجی میں آپ کا نام پہنچ گیا۔ بچو! یہاں پر تمہیں ایک دلچسپ بات بھی بتائیں۔ جزائر فجی کے قریب جغرافیہ دانوں نے ایک فرضی لکیر کھینچی ہے جس کے مشرق میں چلے جاؤ تو ایک تاریخ کم ہوگی اور اس خط کے مغرب میں آجاؤتو ایک تاریخ زیادہ ہوگی اب سوچ کر بتاؤ کہ اسے دنیا کا کنارہ کہتے ہیں یا نہیں۔ بس خدا کی یہ بات پوری ہونی تھی جو ہو گئی اور آپ کا نام زمین کے کناروں تک پہنچ گیا۔

اب اگر اس عظیم الشان پیشگوئی کے ہر پہلو کی تفصیل بیان کریں توپھر یہ ساری کتاب اسی سے بھر جائے گی۔ اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ تمہیں یہ بات اب خوب سمجھ آگئی ہوگی۔ اس لیے ہم اب اگلی پیشگوئی کے بارہ میں تمہیں کچھ بتاتے ہیں۔