حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں

6

اب ایک اور عظیم الشان نشان کا حال پڑھو۔ امریکہ کے مشہور شہر شکاگو کے پاس ایک شہر صیحون آباد ہے۔ یہ شہر ایک شخص پادری جان الیگزینڈر ڈوئی نے آباد کیا تھا۔ یہ شخص اسلام کا بڑا دشمن تھا۔ اُس نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ بھی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتا تھا۔ اورآپؐ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ دین اسلام جلد سے جلد ختم کر دیا جائے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھتا تھا اور عیسائیت کو پھیلانے کے لیے سخت کوشش کرتا۔ اس کا اپنا ایک اخبار بھی تھا جس کا نام “نیوز آف ہیلنگ” رکھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے اس اخبار میں 19 دسمبر1903ء میں لکھا کہ:۔

’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے۔ ‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میں نے پادریوں کی سینکڑوں کتابیں دیکھی ہیں مگر ایسا جوش کسی میں نہیں پایا جتنا کہ ڈاکٹر ڈوئی میں ہے۔ اس نے اپنے اسی اخبار میں 12 دسمبر 1903ء میں لکھا کہ:۔

’’اگر میں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو خدا کا نبی ہو‘‘۔

اس کے علاوہ وہ سخت مشرک تھا اور کہتا تھا کہ مجھ کو الہام ہو چکا ہے کہ ۵۲ برس تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر آئیں گے۔

یہ شخص در حقیقت حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور یہی بات تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بہت دکھ دیا کرتی تھی۔ جب اس کی بد زبانی اور گالیاں اور تلخ کلامی انتہا کو پہنچ گئی تو حضور علیہ السلام نے اسے ایک خط لکھا اور کہا کہ تم میرے لیے دعا کرو اور میں تمہارے لیے کہ خدا تعالیٰ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے سچے کی زندگی میں ختم کر دے اور ہلاک کر دے۔ اور یہ خط ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ بھجوایا اور امریکہ کے بعض اخباروں میں بھی یہ چیلنج شائع ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب “حقیقۃ الوحی” میں ایسے بتیس اخباروں کے نام لکھے ہیں جن میں یہ چیلنج شائع ہوا اور اس کواخباروں میں شائع کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی نے حضور کے دونوں خطوں کا جواب ہی نہیں دیاتھا۔ اگرچہ یہ سب عیسائی اخبارات تھے لیکن ان سب نے بڑے زور سے اس مضمون کو شائع کیا۔ اور اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ عیسائی مذہب کا عقیدہ جھوٹا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مسیح ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھااور جس کا نبیوں کی کئی کتابوں میں وعدہ دیا گیا تھا۔ اور ڈاکٹر ڈوئی اپنے رسول ہونے اور عیسائیوں کے تین خداؤں کے عقیدے میں بالکل جھوٹا ہے اور اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرے تو وہ میری زندگی میں ہی بڑی تکلیف کے ساتھ جان دے گا۔ اور اگر مباہلہ نہ بھی کرے تب بھی وہ عذاب سے بچ نہیں سکے گا لیکن ڈوئی اپنی دولت، شہرت اور طاقت کے نشہ میں تھا۔ وہ مغرور اور متکبر تھا۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو بڑی حقارت کی نظروں سے دیکھا اور اپنے اخبارمورخہ 26 ستمبر 1903ء میں انگریزی میں چند سطریں شائع کیں اور لکھا کہ :۔

’’ہندوستان میں (نعوذباللہ) ایک بے وقوف محمدیؐ مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دونگا اگر مںر ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا‘‘۔

غرض یہ شخص حضور کے چیلنج کے بعد شوخی اور شرارت میں بڑھ گیا اور حضور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ خدا تعالیٰ سچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھائے اور جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ہلاک کرے۔ اور پھر ڈوئی کے مرنے سے پندرہ دن پہلے خدا تعالیٰ نے حضور کو اس فتح کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ۰۲ فروری ۷۰۹۱ء کو ایک اشتہار میں شائع کردیاکہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا نشان دکھائے گا،جس میں فتح عظیم ہو گی اور یہ ساری دنیا کے لیے ایک نشان ہوگا۔

اس کے پندرہ دن بعد ہی ڈوئی کی موت کی اطلاع آگئی۔

تو دیکھو بچو! خدا تعالیٰ کس طرح اپنے پیارے بندوں کی بات سنتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوران کے دوستوں کو تکلیفوں اور مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ اور ان کے دشمنوں کو تباہ اور برباد کرتا ہے اور ڈاکٹر ڈوئی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ اور اگر ہم اس کی تباہی اور بربادی کی پوری کہانی لکھنی شروع کریں تو یہ سارا واقعہ بہت لمبا ہو جائے گا۔ بس اتنا سمجھ لو کہ اُ س کی زندگی میں ہر طرف مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا وہ شخص جو بڑے بڑے نوابوں اور شہزادوں کی طرح معزز تھا وہ ہر رنگ میں ذلیل ہوا۔ اُس کی بے ایمانی اور بددیانتی سب پر ثابت ہو گئی وہ کہا کرتا تھا کہ شراب پینا حرام ہے لیکن لوگوں کو پتہ چل گیا کہ خود شرابی ہے۔ اس نے خود ایک شہر بسایا تھا جس کا نام صیحون تھا وہاں سے بڑی ذلت کے ساتھ نکالا گیا جسے اس نے لاکھوں روپے خرچ کر کے آباد کیا تھا۔ سات کروڑ روپے جو اس کے پاس تھے اس سے بھی اس کو جواب مل گیا۔ اس کی بیوی اور اس کا اپنا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور آخر میں اس پر فالج گرا اور لوگ اسے تختے کی طرح اٹھا کر لے جاتے رہے۔ اس کے بعد وہ انہیں غموں سے پاگل ہوگیا اور یوں مارچ 1907ء میں بڑے دکھ اور بڑی تکلیف اور مصیبت سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اور اس طرححضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی بڑی شان اور شوکت سے پوری ہوئی اور اس خبر کو امریکہ کے مشہور اخباروں نے بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ امریکہ میں شائع کر دیا۔

یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شائع فرمائیں اور اپنے وقت پر پوری ہوتی رہیں۔ کچھ ہندو قوم کے لیے کچھ مسلمانوں کے لیے اور کچھ عیسائیوں کے لیے تھیں۔ جیسا کہ آپ نے پیچھے پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اور روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے پیار اور محبت کے سلوک کا اظہار کرتا ہے۔ اب ہم چند واقعات اسی قسم کے آپ کو سناتے ہیں۔