صفت الرافع۔  عبادتوں اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ

خطبہ جمعہ 26؍ جون 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے خطبہ کے آخر میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں یہ ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے گھروں کو بلندی عطا فرماتا ہے جو آنحضرتﷺ کے نُور سے حصہ پاتے ہیں اور اس نُور سے حصہ پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرتے ہیں۔ اپنی عبادتوں اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں ان کا کچھ ذکر آج مَیں کروں گا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد ہی عبادت فرمایا ہے۔ لیکن عبادت کس طرح ہو؟ اور کس طرح کی ہو؟ اس زمانہ کے امام نے جو اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے نور سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کا سب سے زیادہ فہم و ادراک رکھنے والا تھا۔ اس بارے میں ہماری راہنمائی اُس قرآنی تعلیم کی روشنی میں فرمائی ہے جس کا ادراک آپؑ کو عطا فرمایا گیا۔ اس کی روشنی میں مَیں آج بیان کروں گا۔

آج ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ان پر خداتعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ زمانہ کے امام کو قبول کرکے ہمیں ہر وقت اور ہر معاملہ میں راہنمائی ملتی ہے۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت کے جاری نظام او ر مرکزیت کی وجہ سے توجہ دلائی جاتی رہتی ہے۔ اور خلافت اور جماعت کے ایک خاص رشتے اور تعلق کی وجہ سے جو کہ عہد بیعت کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہتا ہے۔ بغیر کسی انقباض کے اصلاح کی طرف توجہ دلانے پر توجہ ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے مسلمان جو ہیں اس نعمت سے محروم ہیں۔ گزشتہ دنوں مجلس خدام الاحمدیہ UK کی عاملہ اور ان کے قائدین کے ساتھ ایک میری میٹنگ تھی کسی بات پرمَیں نے انہیں کہہ دیا کہ تم لوگ میری باتوں پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے بعد صدر صاحب خدام الاحمدیہ میرے پاس آئے، جذبات سے بڑے مغلوب تھے، تحریری طورپر بھی معذرت کی کہ آئندہ ہم ہر بات پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسی طرح عاملہ کے اراکین جو تھے انہوں نے بھی معذرت کے خط لکھے۔ تو یہ تعلق ہے خلیفہ اور جماعت کا۔ اس کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مادی دور میں، اس مادی ملک میں، وہ لوگ جو دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہیں اور دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں لیکن دین کے لئے اور خلافت سے تعلق کے لئے مکمل اخلاص و وفا دکھانے والے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے تعلق کے طریق ہمیں سکھائے۔ ہماری عبادتیں بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ جو ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں اور حقوق العبادکی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں۔ لیکن دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک غیر از جماعت دوست ملنے کے لئے آئے۔ بڑے پڑھے لکھے طبقہ کے ہیں اور میڈیا میں بھی معروف مقام رکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر مساجد آج کل اس طرح آباد ہیں جو گزشتہ 62 سال میں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ حج پر جانے والے ہمیں اتنی تعداد میں نظر آتے ہیں جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آتے۔ پھر اور کئی نیکیاں انہوں نے گنوائیں۔ پھر کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود وہ اثرات اور وہ نتائج نظر نہیں آتے جو ہونے چاہئیں۔ پھر خود ہی انہوں نے کہا کہ مسجد کے باہرکے معاملات اصل میں صاف نہیں ہیں اور یہ اس لئے کہ دل صاف نہیں ہیں۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی معاملات میں ایک قسم کی کدورت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ ایک بات تو یہ ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری عبادتیں، ہماری نمازیں، ہماری دوسری نیکیاں تبھی فائدہ مند ہو سکتی ہیں جب ہمارے جائزے بھی ہوں اپنے خود کے۔ اس بات پر خوش ہوجانا کہ ہم عبادت کر رہے ہیں یاہم اپنے آپ پر اسلامی رنگ کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے حلیے سے ہماری حالتوں سے اسلامی رنگ کا اظہار ہوتا ہے تو یہ تو کوئی نیکی نہیں ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک فقرہ مجھے یاد آیا مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ لوگوں کا کام بے شک ہے کہ تمہارے اعمال کو وہ دیکھیں۔ لیکن تمہارا یہ کام ہے کہ ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرو۔ پس اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بڑا نمازی ہے بڑا روزہ دار ہے، بڑا حاجی ہے، اس سے نیکیاں پیدا نہیں ہو جاتیں ان چیزوں سے۔ نیکی کی اصل روح تب پیدا ہوتی ہے جب یہ احساس ہو کہ کیا یہ سب کام مَیں نے خدا کی خاطر کئے ہیں؟ اور اس کے لئے اپنے دل کے جائزہ کی ضرورت ہے اور جب یہ جائزے ہوں گے تو ان نیکیوں کے حقیقی اثرات جو ہیں وہ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔

دوسری بات مَیں نے انہیں یہ کہی کہ آپ لوگ نہیں مانیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس زمانہ کے امام کومانے بغیر ان نیکیوں کی جو آپ گنوا رہے ہیں صحیح سمت نہیں رہ سکتی۔ صحیح رخ نہیں رہ سکتے۔ شیطان کا اثر ہر نیکی کو بھی بدنتائج پر منتج کر دیتا ہے۔ تو مَیں نے انہیں بتایا کہ معاملات صاف نہ ہونے یا دل صاف نہ ہونے یافتنہ و فساد کی یہ وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانے بغیر اور آپؑ کے بعد خلافت کو مانے بغیر قبلے درست نہیں ہو سکتے۔ تو حقیقت یہی ہے کہ عبادتوں کے اسلوب بھی ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی سکھائے۔ قرآن وہی ہے، شریعت وہی ہے، لیکن اس کا حقیقی فہم و ادراک اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے غلام صادق کو عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف اور خشیت اور آنحضرتﷺ سے عشق و محبت ہمارے دلوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا فرمائی ہے اور اسے اجاگر کیا ہے۔ پس اس کی جس انتہا تک قدر ہم کریں گے اور اس کے نتیجہ میں اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہیں گے ہماری عبادتیں ہمیں فائدہ دیتی رہیں گی۔ پس یہ ہر احمد ی کی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کلام کی جگالی بھی کرتا رہے۔ جو پڑھ سکتے ہیں وہ پڑھیں۔ جو سن سکتے ہیں وہ سنیں اور اس کے مطابق پھر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے رہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیسیوں جگہ اس بات کی راہنمائی فرمائی ہے کہ عبادت کی حقیقت کیا ہے؟ اور قرآن کریم میں ابتداء میں ہی سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ: 5)۔ اس کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ ہم روزانہ نماز میں پڑھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اس کو پڑھ کر۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر سے دیکھیں تو حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔

آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ کے الفاظ اِیَّا کَ نَعْبُدُ میں ایک اور اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت میں انتہائی ہمت اور کوشش خرچ کریں اور اطاعت گزاروں کی طرح ہر وقت لبیک لبیک کہتے ہوئے اس کے حضور کھڑے رہیں۔ گویا کہ یہ بندے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ہم مجاہدات کرنے، تیرے احکام کے بجا لانے اور تیری خوشنودی چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہے، لیکن تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور عجب اور ریاء میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو صرف دکھانے کے لئے ہو اور ہم تجھ سے ہی ایسی توفیق طلب کرتے ہیں جو ہدایت اور تیری خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو اور ہم تیری اطاعت اور تیری عبادت پر ثابت قدم ہیں۔ پس تو ہمیں اپنے اطاعت گزار بندوں میں لکھ لے۔‘‘ فرمایا ’’اور یہاں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بندہ کہتا ہے کہ اے میرے ربّ ہم نے تجھے معبودیت کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے اور تیرے سوا جو کچھ بھی ہے اس پر تجھے ترجیح دی ہے۔ پس ہم تیری ذات کے سوا اور کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور ہم تجھے واحد اور یگانہ ماننے والوں میں سے ہیں۔‘‘فرمایا۔ ’’یہ دعا تمام بھائیوں کے لئے ہے نہ صرف دعا کرنے والے کی اپنی ذات کے لئے اور اس میں (اللہ تعالیٰ نے) مسلمانوں کو باہمی مصالحت، اتحاد اور دوستی کی ترغیب دی ہے اور یہ کہ دعا کرنے والا اپنے آپ کو، اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے۔ اور اس کی (یعنی اپنے بھائی کی) ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا ہی اہتمام کرے اور بے چین ہو جیسے اپنے لئے بے چین اور مضطرب ہوتا ہے اور وہ اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان کوئی فرق نہ کرے اور پورے دل سے اس کا خیر خواہ بن جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ تاکیدی حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! بھائیوں اور محبّوں کے (ایک دوسرے کو) تحائف دینے کی طرح دعا کا تحفہ دیا کرو اور (انہیں شامل کرنے کے لئے) اپنی د عاؤں کا دائرہ وسیع کرو اور اپنی نیتوں میں وسعت پیدا کرو۔ اپنے نیک ارادوں میں (اپنے بھائیوں کے لئے بھی) گنجائش پیدا کرو اور باہم محبت کرنے میں بھائیوں، باپوں اور بیٹوں کی طرح بن جاؤ۔‘‘ (ترجمہ عربی عبارت کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 121-122)

یہ ایک عربی کتاب ہے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کرامات الصادقین اس میں سے کچھ حصے کا ترجمہ ہے۔ پس یہ ہے عبادات کے نیک نتائج اور اثرات پیدا کرنے کا طریق۔ نیتوں میں وسعتوں کی ضرورت ہے۔ اگر صرف اپنے ذاتی مفادات پیش نظر ہوں گے تو عبادتیں وہ معیار حاصل نہیں کر سکتیں۔ ان کے نیک نتائج برآمدنہیں ہو سکتے۔ اگر عبادتوں کے بعد ایک دوسرے کے لئے محبت کے سوتے نہیں پھوٹتے تو عبادتیں محل نظر ہیں۔ اگر دوسرے مسلمانوں کی مساجد میں چلے جائیں تو اکثر جگہ سے آج کل حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کی جماعت کے خلاف مغلّظات ہی سننے میں آتی ہیں۔ جب مسجدوں میں اس طرح دریدہ دہنی ہو رہی ہو تو ان مقتدیوں پر کیا اثر ان عبادات کا پڑنا ہے جو ان بیہودہ گوئیاں کرنے والوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں۔ اور پھر باہر آکر کیا ایسے لوگوں نے معاملات صاف کرنے ہیں۔ اور جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا تعلیم دی ہے ایسی باتیں سننے کے بعد فرمایا ’’صبر بڑا جوہر ہے… جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے‘‘۔

بعض جگہ بعض دفعہ ایسی ایسی باتیں سن کے، جلسے سن کے یا گالیاں سن کے لوگ بے صبری دکھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہندوستان میں بھی واقعات ہوئے ہیں، وہاں بھی لوگوں نے بڑے بے صبری کے خط لکھے یا اکا دکا کوئی احمدی دکھا بھی دیتا ہے تو فرمایا کہ’’جماعت کو چاہئے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض میں گالی نہ دے… اللہ تعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے۔ … مَیں اس کو پسندنہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پر حملہ کریں یا اخلاق کے برخلاف کوئی کام کریں۔‘‘ فرمایا ’’خداتعالیٰ کے الہامات کی تفہیم بھی یہی ہے کہ بردباری کریں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 517 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ’’ہمارا مذہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’ہم ان سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی سختیوں پر صبر کرتے ہیں۔ تم ان کی بدسلوکیوں کو خد اپر چھوڑ دو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 130 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

جب خدا پر چھوڑو گے تو خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ عبادت کرو گے اور پھر خداتعالیٰ انشاء اللہ مدد کو آئے گا۔

اورپھر آپ نے ہمیں دشمن کے لئے بھی دعا کرنے اور سینہ صاف رکھنے کا حکم دیا ہے۔ تو یہ چیزیں ہیں جو عبادتوں کے معیار قائم کرتے ہوئے۔ اس کے اثرات اور نیک نتائج پیدا کرتی ہیں اور معاشرے کی ان خطوط کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ پس یہ چیز ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ورنہ صرف حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنا آپؑ کو مسیح موعود مان لینا تو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ بلندیوں کا حصول اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے ہو گا جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے۔ اس میں توکوئی شک نہیں اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے اور نماز کو ایک بنیادی رکن سمجھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی بار بار تاکید فرمائی ہے اور آنحضرتﷺ نے بھی بلکہ ایک دفعہ ایک قوم مسلمان ہوئی اور اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے کام کاعذر کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ ہمیں نماز معاف کر دی جائے۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ یاد رکھو کہ جس مذہب میں خداتعالیٰ کی عبادت نہیں وہ مذہب ہی نہیں۔ (کشف الغمہ عن جمیع الامۃ جزء ثانی صفحہ240دارالکتب العلمیۃ بیروت طبع اولیٰ1998) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام باب امر وفد ثقیف واسلامھا صفحہ829دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001)

تو یہ اہمیت تو ہے نماز کی۔ ایک عام مسلمان بھی جانتاہے، چاہے وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا۔ لیکن مسلمانوں کو اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نماز پڑھنی کس طرح ہے؟ جیسا کہ مَیں نے ایک غیر از جماعت دوست کی بات کا حوالہ دیا تھاکہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اس کے باوجود ہمیں نہیں پتہ کہ معاملات کیوں صاف نہیں ہیں؟ کیونکہ ایک بہت بڑا طبقہ ان میں بھی ایسا ہے جو باوجود عبادت کو ایک اہم دینی فریضہ سمجھنے کے بدقسمتی سے اس کے جو اثرات ہیں وہ نہیں اس پر پڑتے اس لئے کہ حقیقی رنگ میں عبادت ادا نہیں کی جاتی۔ بہت سے جو ہیں وہ صرف دکھاوے کے لئے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ توجہ سے نماز ادا کریں لیکن وہ بھی نمازوں کی روح اور اس کی گہرائی کو نہیں سمجھتے۔ کیونکہ جس روحانی چشمہ کو اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے یہ فہم و ادراک عطا کرنے کے لئے جاری فرمایا تھا، اس کے فیض سے ان کے نام نہاد علماء نے انتہائی خوفزدہ کرکے دور رکھا ہوا ہے۔ اور آج ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانہ کے اس روحانی چشمہ سے فیض اٹھا رہے ہیں۔ جس کا منبع آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں اور اب دنیا کی روحانی حالت کی تبدیلی اور اللہ تعالیٰ کی آخری شریعت کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ہی چنا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے کس طرح راہنمائی فرمائی ہے؟ اور ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ وہ چند باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکان اسلام بھی بجا لاتے ہیں۔ مگر خداتعالیٰ کی نصرت اور مدد ان کے شامل حال نہیں ہوتی اور ان کے اخلاق اور عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں … کیونکہ احکام الٰہی کا بجا لانا تو ایک بیج کی طرح ہوتا ہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے۔ ایک شخص جو کھیت کی آبپاشی کرتا ہے اور بڑی محنت سے اس میں بیج بوتا ہے۔ اگر ایک دو ماہ تک اس میں انگوری نہ نکلے (یعنی اس کی سبزی نہ نکلے) تو ماننا پڑتا ہے کہ بیج خراب ہے۔ یہی حال عبادات کا ہے۔ اگر ایک شخص خدا کو وحدہ لاشریک سمجھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، اور بظاہر نظر احکام الٰہی کو حتی الوسع بجا لاتا ہے لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص مدد اس کے شامل حال نہیں ہوتی تو ماننا پڑتا ہے کہ جو بیج وہ بو رہا ہے وہی خراب ہے۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 386-387 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے کہ عبادتوں سے اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے اور عبادتوں کے اثرات معاشرے کے تعلقات میں بھی نظر آئیں۔ بعض لوگ صرف ذاتی مقاصد کے لئے دعائیں کرکے کہتے ہیں کہ بہت دعائیں کیں، قبول نہیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی دعاؤں کی قبولیت ہی صرف اللہ تعالیٰ سے تعلق کا معیار بنایا ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ مَیں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جب دعائیں کرو۔ تو یہ بھی فرمایا کہ مَیں جان مال، اولاد کے نقصان سے تمہیں آزماؤں گا۔ پس ہماری عبادتیں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور دلی اطمینان کے لئے ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میری عبادت کرو۔ میرا ذکر کرو۔ مَیں تمہیں اطمینان بخشوں گا اور اگر اس میں بہتری کی طرف قدم اٹھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اگر معاشرے میں ہم امن و سلامتی کے لئے کوشاں ہیں تو یہ بھی عبادتوں کے نیک اثرات ہیں۔ چاہے ہماری ذاتی دعائیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں ہوتیں لیکن ایک تعلق خداتعالیٰ سے بڑھ رہا ہوتا ہے اور یہی چیز پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور مخلوق کی ہمدردی دلوں میں پیدا ہو اور یہی عبادتوں کا مقصد ہے۔ پس اس کے حصول کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک نمازوں کی کیا حالت ہونی چاہئے اس کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’نماز سے وہ نمازمرادنہیں جو عام لوگ رسم کے طور پرپڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے‘‘۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’یاد رکھو یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 402-403جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ چند باتیں ہیں ان بے شمار نصائح کے خزانے میں سے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں فرمائی ہیں تاکہ ہم اپنے دین اور دنیا کو سنوارنے والے بن سکیں۔ آج جب ہم دنیا کے سامنے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ پیش کرتے ہیں اور معاشرے کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم سے پوچھو کہ کیوں مساجدنمازیوں سے بھرے ہونے کے باوجود معاشرے میں ہر طرف بدامنی اور فساد ہے تو اس کے ساتھ ہی ہماری نظر اپنے گریبان پر بھی پڑنی چاہئے۔ ہمیں اپنے اندر بھی جھانکنا چاہئے۔ ہمیں اپنی فکر بھی ہونی چاہئے کہ کہیں ہم اس مقصد کو بھول نہ جائیں جو خداتعالیٰ نے ہماری پیدائش کا بیان فرمایا ہے۔ اور جس کے حصول کے لئے ہم نے اس زمانہ کے امام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کو نبھائیں گے۔

پس جہاں مَیں عمومی طور پر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں خاص طورپر کارکنان، عہدیداران اور واقفین زندگی جو ہیں ان کو سب سے زیادہ اس کے حصول کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر کارکنان عہدیداران اور واقفین زندگی اس طرف ایک فکر سے توجہ کریں گے تو جہاں ہماری مسجدوں کی آبادی بڑھ رہی ہو گی وہاں جماعت کی عمومی روحانی حالت میں بھی ترقی ہو گی۔ معاشرہ میں، احمدی معاشرہ میں، خاص طور پر امن، پیار اور حقوق کی ادائیگی کا ایک خاص رنگ پیدا ہو رہا ہو گا۔ عہدیداران کے نمونوں سے افراد جماعت بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پید اکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک سے دوسرے کو جاگ لگتی ہے اور اگر کسی کے نمونے سے دوسرے میں پاک تبدیلی پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی اتنا ہی ثواب دیتا ہے جتنا اس شخص کو مل رہا ہے جس نے اپنے اندر پاک تبدیلی پید اکی ہے۔ پس اس طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ کسی کا علم، کسی کاصائب الرائے ہونا، کسی کی انتظامی صلاحیت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا، نہ اس کو بحیثیت احمدی کوئی فائدہ دے سکتا ہے، نہ جماعت کو ایسے شخص کے علم، عقل اور دوسری صلاحیتوں سے کوئی دیرپا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کا خوف اور خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو یہ سب چیزیں فضول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقام کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی توقعات ہم سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہیں۔

اب مَیں ایک ذکر خیربھی کرنا چاہتا ہوں جو کہ حضرت صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ کا ہے۔ جن کی دو تین دن پہلے وفات ہوئی ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹیوں میں سے دوسرے نمبر کی بیٹی تھیں اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمدصاحب کی اہلیہ تھیں۔ آپ حضرت سیدہ امۃ الحی صاحبہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیٹی تھیں، کے بطن سے 19ستمبر 1916ء کو پیدا ہوئیں اور قادیان میں ہی اماں جان کے کمرے میں جو بیت الفکر اور مسجد مبارک کے قریب تھا۔ آپ کی پیدائش ہوئی، آپ نے مولوی فاضل کی تعلیم حاصل کی پھر ایف اے پاس کیا اور ان کی لجنہ کی جو خدمات ہیں دو مختلف وقتوں میں چار سال تکلجنہ واشنگٹن کی صدر رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لجنہ امریکہ کی مشاورتی کمیٹی کا خاص نمائندہ مقرر فرمایا تھا اور تاحیات آپ اس پہ قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر تک آپ کا ذہن بالکل صاف رہا۔ تقریباً 92سال کی عمر تھی۔ لیکن ذہنی طور پر بالکل ایکٹو (active) تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پرانے واقعات اور باتیں سناتی رہا کرتی تھیں۔ بہت غریب پرور تھیں، چھپ کر بھی غریبوں کی مدد کرنا۔ اعلانیہ بھی مدد کرنا، کئی بیواؤں اور یتیموں کو مستقل مدد کرتی رہتی تھیں۔ اور پھر جماعت سے باہر بھی اور ملکی اور بین الاقوامی چیریٹیز (Charities) جو ہیں ان میں بھی صدقات دیا کرتی تھیں۔ نمازوں میں بڑا خشوع و خضوع ہوتا تھا۔ جو ظاہری نمازیں ہیں۔ نوافل تو چھپ کے انسان پڑھتا ہے دوسری نمازیں نظر آ جاتی ہیں، کئی دفعہ مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا، بڑے جذب اور خشوع سے نمازیں پڑھ رہی ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا ان کا۔ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ (المومنون: 3) کی مثال تھیں۔ اور پھر لغویات سے بھی بچنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اس پر بھی عمل کرتی تھیں۔ عاجزی انکساری بہت تھی ان میں باوجود اس کے کہ مرزا مظفر احمد صاحب پاکستان میں بڑے اچھے عہدوں پر رہے، ورلڈ بینک میں بھی رہے۔ لیکن آپ کے ہاں جانے والے، ملنے والے ان کو جس طرح وہ خود ملتے تھے مرزا مظفر احمد صاحب بھی اور آپ بھی بڑی عاجزی سے ان سے ملا کرتے تھے۔ کئی عورتوں نے مجھ سے اس کا ذکر بھی کیا ہے اور افسوس کے جو خط آ رہے ہیں ان میں بھی کئیوں نے اس کا اظہار کیا ہے کہ بہت عاجزی اور انکساری سے ملا کرتی تھیں اور دین کی بھی بڑی غیرت رکھتی تھیں۔ جماعت اور خلافت کی بڑی غیرت تھی ان کو۔ پردہ کی بھی بڑی پابند تھیں۔ پردہ میں تو بعض دفعہ اس حد تک چلی جاتی تھیں کہ اگر کسی کا چھوٹا عزیز جو ہے جس سے اگر پردہ نہیں بھی ہے اگر اسے پہچان نہیں رہیں اور وہ گھر میں بھی آ گیا تو تب بھی پردہ کر لیتی تھیں جب تک پہچان نہ ہو جاتی۔ ان کی اپنی اولاد تو کوئی نہیں تھی، اپنی بہن صاحبزادی امۃ الجمیل بیگم صاحبہ جو چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بہو تھیں ان کے بیٹے کو انہوں نے گود لیا تھا۔ بڑا پیاردیا اسے لیکن اس کی تربیت کی بھی کوشش کرتی رہیں ہمیشہ۔ خداتعالیٰ سے تعلق رکھنے کی ہمیشہ تلقین کرتی رہیں۔ اس نے مجھے لکھا کہ بچپن سے ہی ہمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں آنحضرتﷺ کے حوالے سے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے سناتی تھیں اور اس طرح اس کے بچوں کو بھی سناتی رہیں۔ ایک بات جو مجھے عزیزم ظاہر احمدنے لکھی ہے ان کے بارہ میں۔ یہ ان کے بھانجے اور لے پالک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم کوبڑے غور سے پڑھا کرتی تھیں اور صفحوں کے صفحے نوٹس لکھے ہوئے ہیں قرآن کریم پر۔

خلافت سے بھی ان کا ایک خاص محبت کا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا دور تو مَیں نے دیکھا ہے ان کے ساتھ تعلق میں، بڑے بھائی بھی تھے، لیکن خلافت سے جو ایک خاص تعلق ہوتا ہے وہ بہت زیادہ تھا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ چھوٹے بھائی تھے لیکن اس کے بعد خلافت کے بعد انتہائی ادب اور احترام کا تعلق ہوا۔ ایک کسی نے مجھے لکھا کہ جب پہلا جلسہ ہوا اسلام آباد میں۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا، یہ جلسہ میں بیٹھی ہوئی تھیں جلسہ کے بعد وہیں پیغام ملا۔ جو ان کے ساتھ ڈیوٹی پر خاتون تھیں ان کو کہ ان کولے کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بلا رہے ہیں فوراً آؤ۔ تو کہتی ہیں انہوں نے سن لیا اور ان کے تیار ہونے سے پہلے ہی اٹھ کے چل پڑیں اور بڑی تیزی سے اتنا چلیں کہ جو ڈیوٹی والی خاتون تھیں ان کو ساتھ دوڑنا پڑ رہا تھا اور یہ کہتیں جلدی کرو حضور کا پیغام آیا ہے مجھے بلا رہے ہیں۔ تو یہ بھی ایک تربیت تھی، اپنے باپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بھی اور اپنے نانا کی وہ مثال بھی سامنے تھی جس طرح وہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بلاوے پر فوراً دوڑپڑے تھے بغیر کچھ لئے۔

پھر میرے سے ایک تعلق تھا ان کا۔ یہ تعلق بھانجے سے زیادہ اس وقت شروع ہوا، میری خالہ تھیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرر کیا پاکستان میں، ربوہ میں، تو پہلی مرتبہ جب یہ امریکہ سے آئی ہیں تو مَیں حیران رہ گیا ان کے تعلق کودیکھ کر اور شرمندہ بھی ہوتا تھا، ایک احترام جماعتی عہدیدار کا اور عزت ایسی تھی جو بالکل مختلف تھی ہر قسم کے رشتوں سے۔ بالکل مختلف رویہ تھا ان کا اور یہ ان کی سیرت کا پہلو مجھ پر اس وقت کھلاکہ یہ کس طرح احترام کرتی ہیں عہدیداران کا۔ خلافت کے بعد تو پھر یہ تعلق اور بھی بڑھا۔ جب مَیں غور کرتاہوں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے زمانہ میں بھی دیکھا ہے مَیں نے ان کے ساتھ تعلق ان کا اور اپنے ساتھ جب دیکھتا ہوں، کوئی فرق مجھے نظر نہیں آتا۔ وہی عزت وہی احترام۔ معمولی سا بھی فرق کہیں نظر نہیں آیا۔ اتنا ادب اور احترام کہ بعض دفعہ شرمندگی ہوتی تھی۔ امریکہ گیا ہوں تو جماعتی پروگرام کی وجہ سے بعض مجبوریاں تھیں اس لئے مشن ہاؤس میں ٹھہرنا پڑا۔ مسجد کے ساتھ۔ پہلے اس بات پر زور دیا تھا انہوں نے جانے سے پہلے کہ ان کے ہاں ٹھہروں۔ لیکن بہرحال مجبوری تھی اس کی وجہ سے معذرت کر نی پڑی۔ پھر جب ان کو ملنے گیا ان کے گھر تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی اور آپ کے اس تعلق کی وجہ سے ہی آپ کے اس لے پالک بیٹے اور بھانجے اور بہو کا اور بچوں کا خلافت سے بھی ایک خاص تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا بھی بڑا وسیع مطالعہ تھا۔ کسی نے مجھے بتایاکہ 7مرتبہ انہوں نے ہر کتاب پڑھی تھی لیکن ظاہر احمدنے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے کہا کہ مَیں 9مرتبہ یہ کتابیں پڑھ چکی ہوں۔ بیماری میں بھی، گزشتہ ایک ماہ سے بیمار تھیں ان دنوں میں بھی ایک دو دفعہ فون پر بات ہوئی ہے تو ظاہر نے بتایا کہ ایک دفعہ فون پربات کرنے سے پہلے وہ کوشش کر رہے تھے کچھ کھانا کھا لیں۔ لیکن کھا نہیں رہی تھیں۔ فون پر بات کرنے کے بعد اس نے کہا کہ اب تو آپ کی بات ہو گئی ہے، میرا حوالہ دیاان کو تو کھانا کھا لیں۔ خیر کہتا ہے مَیں دوسرے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو کھانا جو پلیٹ میں رکھا ہوا تھا ختم تھا اور صرف اس لئے کہ اس نے حوالہ یہ دیا تھا کہ آپ کی بات ہو گئی ہے میرا اس سے لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اس نے کہا ہو گا کہ انہوں نے کہا ہے، ذرا اونچا سنتی تھیں اس لئے فون پہ صحیح سمجھ نہیں آئی ہو گی۔ ظاہر کی بات سے انہوں نے یہی سمجھا کہ انہوں نے کہاہے کہ کھانا کھا لیں۔ کیونکہ فوراً اطاعت گزاری تھی اس لئے نہ طبیعت چاہنے کے باوجود بھی آخری بیماری میں بھی فوری طور پر کھانا کھا لیا۔ تو اس حد تک، باریکیوں کی حد تک اطاعت تھی ان میں۔ بیماری کے دنوں میں انہوں نے اپنے اس بھانجے اور بیٹوں اور اس کے بچوں کو بہو کو بلایا اور اس نے لکھا ہے کہ تین گھنٹے تک مختلف قسم کی نصیحتیں کرتی رہیں اور پھر یہ ہے کہ ہمارا شکریہ ادا کیا کہ تم لوگ میری بہت خدمت کر رہے ہو۔ حالانکہ جو خدمت انہوں نے ان بچوں پہ کی تھی وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ان بچوں کی ہو گی۔ بہرحال یہ ان کی بڑائی اور شکر گزاری کا احساس تھا۔ بڑی باریکی کی حد تک انہوں نے اس کا خیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو بھی اور اس کے بچوں کو بھی، اس کی بیوی کو بھی ان کی نیکیاں جو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی اور صاحبزادی امۃ القیوم کی ہیں ان کی تربیت کے زیر اثر جاری ر کھنے کی توفیق دے اور ان کی دعاؤں سے ہمیشہ یہ لوگ حصہ لیتے رہیں اور عاجزی اور انکساری جو ان میں تھی وہ ان بچوں میں بھی ہمیشہ قائم رہے۔

کچھ واقعات ہیں، جو انہوں نے خود ایک دفعہ لکھے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو آپ سے بڑا تعلق تھا، ہر بچے سے تھا، لیکن ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا اظہار تھا۔ یہ کہتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو لکھا کہ مَیں نے اپنی اس بچی کو 14سال تک ہتھیلی کے چھالے کی طرح رکھا ہے۔ اگر کوئی اس کی طرف دیکھتا تھا تو میری نظر فوراً اٹھتی تھی کہ اس آنکھ میں پیار کے سوا کچھ اور تو نہیں۔ اب مَیں اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ یاد رکھنا اگر اسے کوئی تکلیف ہوئی تو مَیں برداشت نہیں کر سکوں گا۔ مطلب یہ نہیں تھا کہ لڑائی کروں گا۔ مطلب یہ تھا کہ مجھے دلی صدمہ پہنچے گا۔ (سیرت و سوانح حضرت سیدہ امۃ الحیٔ بیگم صاحبہ صفحہ 110-111۔ لجنہ اماء اللہ لاہور)

آپ اپنی اس زندگی میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی۔

تو یہ نمونے ہیں جو ہمارے ہر گھر میں جہاں اس قسم کے جھگڑے ہوتے ہیں ان کو بھی دیکھنے چاہئیں۔ کہ جب کسی کی بچی کو لے کے آتے ہیں۔ تو شادی کرنے والے کو بھی اور سسرال کو بھی، لڑکے کو بھی اور لڑکی کے سسرال کو بھی بچوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا چاہئے۔ کہ وہ بھی کسی کی بچیاں ہیں اور لاڈلی بچیاں ہیں۔ اسی طرح جب ملتان کہتی ہیں مَیں گئی ہوں۔ روزانہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا تاریا خط آیا کرتا تھا۔ اچھا ایک دفعہ انہوں نے واقعہ کا ذکر کیا ہے اپنی ایک خواب کا کہ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے یعنی صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ اپنی خواب کا ذکر کر رہی ہیں۔ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے کہ مَیں تمہاری ماں کو لینے آیا ہوں۔ مَیں رو رو کر اس کی منتیں کرتی ہوں کہ نہیں لے جانا۔ وہ کہتا ہے کہ اچھا اگر یہ نہیں تو تمہارے ابّاکو لے جاتا ہوں۔ تو مَیں نے گھبرا کر کہا نہیں بالکل نہیں۔ وہ کہتاہے کہ تمہاری ایک بات مانی جا سکتی ہے۔ ماں کو لے جانے دو یا باپ کو۔ اس نے جب مجھ کو بہت مجبور کیا دونوں میں سے ایک کو رکھ سکتی ہو، دونوں کو رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو مَیں ماں کو دینے پر راضی ہو گئی اور پھر کہتی ہیں اس خواب کا اثر تھا کہ پھر اپنی امی سے بہت چمٹنے لگ گئیں۔ یہ دس سال کی تھیں جب ان کی والدہ فوت ہو گئی تھیں۔ حضرت اماں جان کو یہ پتہ نہیں تھا، وہ پہلے کہا کرتی تھیں ان کو کہ تم ماں سے چمٹی رہتی ہو، باپ سے بھی چمٹا کرو۔ تو ایک دن اماں جان نے ان کو زور سے کہا اماں جان نے خود ہی بیان فرمایا۔ کہ مَیں نے جب کہا تو تم ڈر گئیں اور تم نے اس کا جواب دیا چمٹوں گی چمٹوں گی اور ساری عمر چمٹی رہوں گی۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت اماں جان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ (سیرت و سوانح حضرت سیدہ امۃ الحیٔ بیگم صاحبہ صفحہ 112)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو سفر تھا دہلی کا اور جہاں سیرروحانی کابعد میں تقاریرکا سلسلہ آپ نے شروع فرمایا تھا وہاں جو نظارہ آپ نے دیکھا تھا اور جو آپ نے اس وقت اونچی آوازمیں کہا ’’مَیں نے پا لیا، مَیں نے پالیا‘‘۔ تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں اس وقت میرے پیچھے میری بیٹی امۃ القیوم بیگم چلی آ رہی تھی، اس نے کہا ابّا جان آپ نے کیا پا لیا۔ تو مَیں نے کہا مَیں نے بہت کچھ پا لیا، مگرمَیں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا۔ مَیں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا جلسہ سالانہ پر بتا دوں گا کہ مَیں نے کیا پایا۔ اس وقت تم بھی سن لینا۔ (سیر روحانی صفحہ 4-5 رقیم پریس یو۔ کے)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک تو آمین پر بچوں کی نظم لکھی اور ایک ان کی شادی پر بھی لکھی تھی۔ اس کے دو شعر ہیں جو مَیں سناتا ہوں آپ کو۔ ؎

کہ الفت نہ اس کی کم ہو

رشتہ نہ اس کا ٹوٹے

چھٹ جائے خواہ کوئی

دامن نہ اس کا چھوٹے

(کلام محمودصفحہ 224۔ شائع کردہ لجنہ اماء اللہ کراچی)

یہ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق کی طرف توجہ دلائی تھی، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور اس تعلق کو انہوں نے شادی کے بعد بھی قائم رکھا جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ بڑی دعاگو اور نیکیوں کو جاری رکھنے والی خاتون تھیں۔ بلکہ مجھے امریکہ سے مسعود خورشید صاحب نے لکھا کہ ان کی اہلیہ نے 25 سال پہلے ایک خواب دیکھی تھی ان کو آواز آئی کوئی کہہ رہا ہے۔ بی بی امۃ القیوم ولی اللہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ان کی نیکیاں تو ایسی تھیں یقینا جو اللہ والوں کے لئے نیکیاں ہوتی ہیں اور یہ صرف اس لئے تھا کہ اپنے عظیم باپ کی نصیحت پر ہمیشہ انہوں نے عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ابھی میں نماز جمعہ کے بعد ان کی جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا اور اس کے ساتھ ایک دو اور جنازے بھی ہیں۔ ایک میجر افضال احمد صاحب ابن مکرم اقبال احمد صاحب مرحوم کا ہے جو 19جون کو جنوبی وزیرستان میں جو عسکریت پسند یا طالبان جو ہیں ان کے خلاف جو حکومت کا آپریشن ہے اس میں شہادت پا گئے۔ 32 سال ان کی عمر تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے کرنل صاحب نے بتایا کہ آپریشن میں شامل تھے اور پاؤں میں ان کے گولی لگی لیکن ان کو روکا گیا کہ اب اس زخم کو پہلے کر لیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا نہیں اور بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔

آپ کے پڑدادا حضرت چوہدری عبدالعزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے، پڑنانا حضرت ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔ راولپنڈی جماعت کے مخلص رکن تھے، آپ موصی بھی تھے ان کے پسماندگان میں ایک اہلیہ اور ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹی کی عمر 4سال ہے دانیہ افضال اور بیٹا محمد آصف ایک سال کا ہے۔ ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی ہے اور فوجی اعزاز کے ساتھ۔ فوج کے وہاں افسران بھی آئے اور دستہ بھی آیا جنہوں نے وہاں ان کی تدفین کی۔

یہ کہتے ہیں کہ احمدی ملک کے دشمن ہیں جہاں بھی قربانیاں دی جاتی ہیں احمدی پیش پیش ہوتے ہیں ان قربانیوں میں اور وزیراعظم اور صدر صاحب کی طرف سے بھی پھولوں کی چادر ان کے چڑھائی گئی۔ تو اگر یہ ملک دشمن ہیں تو پھر اپنے وزیراعظم اور صدر کو پکڑو پہلے اور پھر فوج کو پکڑو جو وہاں آئے اور انہوں نے پورے اعزاز سے ان کی تدفین کی۔

پھر ایک اور جنازہ ہے عزیزم احمد جمال کا جو محمد محسن صاحب مرحوم کے بیٹے تھے یہ بھی 19مئی کو ربوہ نہر پہ پکنک پہ گئے، ربوہ کے پاس وہاں ڈاکوؤں نے انہیں لوٹا اور ان پر فائر کیا، سر میں دو گولیاں لگیں وہیں شہید ہو گئے۔ مرحوم کی 19سال عمر تھی اور وقف نو کی تحریک میں شامل تھاا ور موصی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے بھی درجات بلند فرمائے۔ بڑا خدام الاحمدیہ کا سرگرم رکن۔

اسی طرح کل ایک اطلاع ہے جس کی تفصیلات تو نہیں ہیں لیکن بہرحا ل دو شہداء ہیں جو کوئٹہ میں شہید ہوئے۔ خالد رشید صاحب ابن مکرم رشید احمد صاحب اور ظفر اقبال صاحب ابن مکرم لعل دین صاحب۔ یہ ظفر اقبال صاحب ان کے پاس ملازم تھے تو یہ شام کو اس ملازم کو چھوڑنے گھر گئے ہیں تو کار سے نکلتے ہوئے، نکلتے ہی ان پر فائر کر دیا گیا اور دونوں موقع پر شہید ہو گئے۔ ان کے بھائی جو گھر کے دروازے کے باہر نکلے، ان پر بھی فائر کیا لیکن بہرحال وہ تو نہیں لگا لیکن اس کے بعد یہ چلے گئے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یا یہ احمدیت کی وجہ سے ٹارگٹ شوٹنگ ہے یا آج کل پنجابی اور بلوچی کا بڑا وہاں چل رہا ہے۔ ان کو تھریٹ (Threat) بھی ہیں احمدیت کی وجہ سے بھی تھریٹس (Threats)تھیں۔ اس وجہ سے بہرحال یہ بھی کل دو شہید ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان سب کے جنازے بھی پڑھاؤں گا میں۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 29 مورخہ 17 جولائی تا 23 جولائی 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 26؍ جون 2009ء شہ سرخیاں

    صفت الرافع۔ آنحضرتؐ کے نور سے حصہ لینے والے اپنی عبادتوں اور اعمال صالحہ کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ خلافت ایک نعمت ہے جس سے جماعت کی اصلاح ہوتی ہے اور دوسرے اس سے محروم ہیں۔ ایک غیر احمدی کا دوران ملاقات سوال کرنا کہ کیا وجہ ہے کہ مسجدیں آجکل زیادہ آباد ہیں لیکن پھر بھی نتائج وہ نہیں جو ہونے چاہئیں۔ انسان کا یہ کام ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرے تب نیکیوں کے حقیقی اثرات ظاہر ہوں گے۔ نبی کریمؐ اور قرآن کی محبت جماعت میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہی پیدا کی ہے۔ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کی جگالی کرتا رہے۔ ارشادات حضرت مسیح موعودؑ کی روشنی میں عبادت کی حقیقت، مخالفین کی مخالفت پر صبر اور دعا کی تلقین۔ نماز کی اہمیت کا بیان۔ عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے طریقوں کا ذکر۔ کارکنان، عہدیداران اور واقفین زندگی کو مسجدوں کو آباد کرنے کی طرف توجہ۔ اگر خدا کا خوف اور خالص ہو کر اس کی عبادت نہیں تو جو جتنا مرضی صائب الرائے اور عالم ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

    فرمودہ مورخہ 26؍جون 2009ء بمطابق26؍احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور