حضرت مصلح موعودؓ ایک اولوالعزم لیڈر

خطبہ جمعہ 17؍ فروری 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی کے جلوے ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ اور آج زندہ مذہب ہونے کا صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت صرف اور صرف اسلام ہی دیتا ہے۔ اسلام کا خدا وہ خدا ہے اب بھی وہ جس کو بھی چاہے کلیم بنا سکتا ہے۔ اُس سے اب بھی بولتا ہے، دعاؤں کو سنتا ہے اور جواب دیتا ہے اور اپنی قدرت کے جلوے دکھاتا ہے۔ اور اس زمانے میں اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اس نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجاجس کے اس زمانے میں آنے کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔

پس مسلمانوں میں بھی آج جماعت احمدیہ ہی وہ فرقہ ہے جو آج بھی اللہ تعالیٰ کو اپنی تمام تر صفات کے ساتھ قادر و مقتدر یقین کرتا ہے۔ اس یقین پر قائم ہے کہ خدا تعالیٰ آج بھی وہی قدرتیں رکھتا ہے، وہی قدرتیں دکھاتا ہے جیسا کہ ازل سے دکھاتا چلا آ رہا ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں، آپ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ اب تمام قسم کے انعامات کے حصول کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی مل سکتا ہے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی  علیہ السلام، مسیح موعود و مہدی معہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ کامل عاشقِ صادق ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اس زمانے میں بھیجا ہے۔ اور پھر آپ سے تکمیلِ تبلیغ ہدایت کا بھی وعدہ فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام اس زندہ خدا کے بارے میں اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں:

’’اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا۔ اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے۔ اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے۔ نہ اُس کے خَلْق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوّتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے۔ سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا۔ اور ایسے خدا کوپایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا۔ اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقشِ وجودنہیں پکڑا۔ اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے۔ اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا، احسان والا۔ اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔‘‘ (نسیم دعوت روحانی خزائن جلد19صفحہ363)

پس یہ ہمارا زندہ خدا ہے جو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمردنبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مُرسَلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفیٰ و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی‘‘۔ (سراج منیر روحانی خزائن جلد12 صفحہ82)

پھر آپ تمام دنیا کو دعوتِ اسلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی رُوحو جو مشرق و مغرب میں آباد ہو! مَیں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیاہے۔ اور ہمیشہ کی رُوحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدّس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی رُوحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم رُوح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ141)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کے ایک فتح مند جرنیل کی حیثیت سے اسلام کے مخالفین کا منہ بند کروایا۔ نہ صرف براہین و دلائل سے بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات اور نشان دکھا کر بھی وہ باتیں دنیا کے سامنے رکھیں، وہ پیشگوئیاں فرمائیں جو سوائے عالم الغیب خدا کے کوئی اور نہیں جان سکتا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ پیشگوئیاں جو خدا تعالیٰ سے خبر پا کر آپ نے کی تھیں، اللہ تعالیٰ کے کس قدر عظیم تائیدی نشانات کے ساتھ پوری ہوئیں۔ آپ کو اسلام کا کس قدر درد تھا اور اسلام کے مخالفین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے والوں کو کس طرح آپ مخاطب کر کے سمجھاتے تھے اور پھر خدا کے حضور کس تڑپ سے ان مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ اس کا اظہار آپ کی سیرت میں جو صحابہ نے لکھی ہے، اس سے بھی ملتا ہے۔ آپ کی کتب اور متفرق لٹریچر میں بھی اس کا خوب خوب اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے تائیدی نشانوں کے لئے بھی آپ کی بیشمار دعائیں ملتی ہیں۔ اپنی بڑائی کے لئے نہیں بلکہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری ثابت کرنے کے لئے آپ میں ایک تڑپ تھی، ایک لگن تھی جس کی وجہ سے آپ دعائیں کیا کرتے تھے۔ انہی نشانوں میں سے ایک نشان یہ ہے کہ آپ کو آپ کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرماتے ہوئے فرمایا کہ ہشیارپور جاؤ اور وہاں چلّہ کشی کرو۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ106ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

اس چلّہ کشی کے دوران ایک نشان آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا جو ایک موعود بیٹے کا تھا جس کو ہر احمدی پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے جانتا ہے۔ یہ بہت عظیم پیشگوئی ہے کہ ایک معین عرصے میں بیٹے کا پیدا ہونا اور اُس میں وہ خصوصیات پیدا ہونا جن کا پیشگوئی میں ذکر ہے۔ اُس کا لمبی عمرپانا۔ یہ جوساری چیزیں ہیں ایک عظیم پیشگوئی پر دلالت کرتی ہیں اور بعد میں آنے والوں کے لئے تو یہ پیشگوئی یقینا ازدیادِ ایمان کا باعث ہے جنہوں نے حرف بہ حرف اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھا ہے۔ اور اُس موعود بیٹے کے مختلف نوع کے کارنامے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پیشگوئی میں بیان فرمائے تھے وہ مصلح موعود کی ذات میں پورا ہوتے دیکھے ہیں۔ بہر حال اس وقت مَیں اس پیشگوئی کے الفاظ پیش کرتا ہوں۔ کئی دفعہ ہم سنتے ہیں اور آئندہ جلسے جب ہوں گے، 20؍فروری کی مناسبت سے آج کل ہوں گے تو اُس میں بھی آپ سنیں گے۔ مجموعہ اشتہارات میں آپ نے تحریر فرمائے ہیں کہ:

’’بِاِلْہَامِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَ اِعْلَامِہٖ عزّوجل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جَلَّشَانُہ وَعَزَّاِسْمُہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنااور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہ پایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو‘‘ (جس کا مَیں نے ذکر کیا، ہشیار پور اور لدھیانے کا سفر تھا جو آپ نے چلّہ کشی کاکیا) ’’تیرے سفر کو (جو ہوشیارپوراور لودھیانہ کا سفرہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔ اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں۔‘‘ (یعنی خدا تعالیٰ قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے) ’’اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام) لڑکا(تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے۔ اور وہ نوراللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃاللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ ٔ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ (……) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ٔ ارجمند، مَظہَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخّرِ، مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالْعلَاء کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اُس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اَسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیًّا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ95-96اشتہار نمبر33 ’’اشتہار20فروری 1886ء‘‘مطبوعہ ربوہ)

مجموعہ اشتہارات میں جلد اول میں یہ سارا لکھا ہوا ہے۔ اس پیشگوئی کے مصداق تو جیسا کہ مَیں نے کہا یقینا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تھے۔ اس کا آپ نے 1944ء میں خود بھی اعلان فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں۔ اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی خوشی میں یومِ مصلح موعود کے جلسے بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، آئندہ چند دنوں میں یہ جلسے مختلف جماعتوں میں ہوں گے۔ اس لئے کہ جماعت کے ہر فرد کو پتہ چلے کہ یہ ایک عظیم پیشگوئی تھی جو بڑی شان سے پوری ہوئی۔

یہاں ضمناً میں اُن لوگوں کے لئے بھی جو دنیا کے ماحول کے زیرِ اثر، جن کا دینی علم بھی ناکافی ہے، کئی دفعہ میں بیان پہلے بھی کر چکا ہوں لیکن پھر بھی سوال کرتے رہتے ہیں۔ جو سالگرہ منانے کی خواہش رکھتے ہیں وہ سالگرہ پریہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری بھی سالگرہ منائی جائے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کے زیرِ اثر بھی ہیں جویہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مصلح موعود کا دن مناتے ہیں تو باقی خلفاء کے دن کیوں نہیں مناتے اور پھر سالگرہ کیوں نہیں مناتے؟ یعنی باقی خلفاء کی سالگرہ کی آڑ میں اپنی سالگرہ کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ تو یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا یومِ ولادت نہیں منایا جاتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی پیدائش تو 12؍جنوری 1889ء کی ہے۔ اور یہ پیشگوئی جو عظیم الشان پیشگوئی تھی آپ کی پیدائش سے تین سال پہلے کی ہے۔ اُس پیشگوئی کے پورا ہونے کا دن منایا جاتا ہے جو 20؍فروری 1886ء کو کی گئی تھی اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے یہ پیشگوئی تھی اور یہ پیشگوئی اس لحاظ سے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس وضاحت کے بعد پھر مَیں اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے بہت سارے پہلو بیان ہوتے ہیں لیکن اس وقت مَیں دو باتیں بیان کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس کو مصلح موعود قرار دیا اور خود مصلح موعود کی اپنی حالت، اسلام کے بارہ میں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اور مُسلم اُمّہ کے بارے میں ان کی دلی کیفیت کیا تھی؟ کیونکہ وقت نہیں ہے کہ اس پیشگوئی کے جو باقی الفاظ ہیں اُن میں سے ہر ایک کو لیا جائے۔ اس طرح تویہ تقریباً کوئی باون پوائنٹ بنتے ہیں۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا یہ دو باتیں بیان کروں گا۔

خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیا اور آپ یہی سمجھتے تھے۔ آپ اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ جو روحانی خزائن کی جلد 15 ہے اس کے صفحہ 219 میں فرماتے ہیں کہ:

’’محمود جومیرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی 1888ء میں‘‘ (یعنی 10؍جولائی 1888ء کا جو اشتہار ہے) ’’اور نیز اشتہار یکم دسمبر 1888ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار محمود کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا۔ چنانچہ اب تک ہمارے مخالفوں کے گھروں میں صدہا یہ سبز رنگ اشتہار پڑے ہوئے ہوں گے۔ اور ایسا ہی دہم جولائی 1888ء کے اشتہار بھی ہر ایک کے گھر میں موجود ہوں گے۔ پھر جب کہ اِس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو۔ تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے 12؍ جنوری 1889ء کو مطابق 9؍ جمادی الاوّل 1306ھ میں بروز شنبہ‘‘ (یعنی ہفتہ کے دن) ’’محمود پیدا ہوا۔ اور اس کے پیدا ہونے کی میں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے جس کے عنوان پر ’’تکمیل تبلیغ‘‘ موٹی قلم سے لکھا ہوا ہے جس میں بیعت کی دس شرائط مندرج ہیں۔ اور اس کے صفحہ 4میں یہ الہام پسر موعود کی نسبت ہے

اے فخرِ رُسل قُربِ تو معلومم شد دیرآمدہ ٔ زراہ دُور آمدۂ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 219)

کہ اے رسولوں کے فخر تیرا خدا کے نزدیک مقامِ قرب مجھے معلوم ہو گیا ہے۔ تو دیر سے آیا ہے اور دور کے راستے سے آیا ہے۔

پھر اپنی کتاب ’’سراجِ منیر‘‘ جو روحانی خزائن کی جلد 12میں ہے اُس کے صفحہ 36 پر تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’پانچویں پیشگوئی مَیں نے اپنے لڑکے محمودؔ کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا۔ اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اَب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے‘‘۔ (سراجِ منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 36)

پھر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی جو روحانی خزائن کی بائیسویں جلد ہے اُس کے صفحہ 373میں فرماتے ہیں کہ:

’’ایسا ہی جب میرا پہلا لڑکا فوت ہو گیا‘‘ (یعنی کہ ان سے پہلے جو بیٹا فوت ہوا تھا) ’’تو نادان مولویوں اور ان کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اُس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی اور بار باراُن کو کہا گیا کہ 20فروری 1886ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے۔ پس ضرور تھا کہ کوئی لڑکا خورد سالی میں فوت ہو جاتا۔ تب بھی وہ لوگ اعتراض سے باز نہ آئے۔ تب خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے لڑکے کی مجھے بشارت دی۔ چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے۔ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگرچہ اب تک جو یکم ستمبر 1888ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی‘‘ (اُس کا حوالہ دے رہے ہیں حقیقۃ الوحی میں) ’’جس کے مطابق جنوری 1889ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ373-374)

پھر تریاق القلوب جو روحانی خزائن کی جلد 15 ہے اُس کے صفحہ 214پر آپ فرماتے ہیں:

’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمودؔ ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمودؔ۔ تب میں نے اِس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا۔ جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ہے اور یہ اشتہار مورخہ یکم دسمبر 1888ء ہزاروں آدمیوں میں شائع کیا گیا اور اب تک اس میں سے بہت سے اشتہارات میرے پاس موجود ہیں‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 214)

پھر ضمیمہ انجامِ آتھم میں روحانی خزائن کی جلد 11کے صفحہ 299 میں آپ فرماتے ہیں:

’’پھر ایک اور نشان یہ ہے جو یہ تین لڑکے جو موجود ہیں ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے آنے کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے جو پہلے (لڑکے) کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا۔ جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے‘‘۔ (ضمیمہ انجامِ آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 299)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو موعود بیٹے کا مصداق سمجھتے تھے جس نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ آج بھی بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اس لئے میں نے یہ وضاحت کی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود کی باون سالہ خلافت کا دور اس عظیم پیشگوئی کے پورا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ کی تحریرات، آپ کی تقریریں اُس درد سے بھری ہوئی ہیں جو اسلام اور آنحضرت

صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے آپ کے دل میں تھا۔ آپ کا علم و عرفان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو علومِ ظاہری و باطنی سے پُر فرمایا۔

غرض جو باون یا بعض لحاظ سے اٹھاون خصوصیات پیش کی جاتی ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو پیشگوئی میں جتنی بھی خصوصیات کا ذکرہے، وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس حوالے سے بھی میں بعض باتیں کروں گا تو آپ کے کچھ حوالے پیش کرتا ہوں جو آپ کی تقریر اور تحریر کے ہیں جن سے آپ کا عظیم عزم بھی جھلکتا ہے جو ہمیں آپ کے اولوالعزم ہونے کا بھی پتہ دیتا ہے۔

ایک تقریر میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ کے مرسل جب آتے ہیں اُس وقت ہر شخص جو اُن کی جماعت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ دین کا کام میرے سوا اور کسی نے نہیں کرنا۔ جب وہ یہ سمجھ لے تو وہ اس کی انجام دہی کے لئے اپنی ساری قوتیں صرف کردیتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ مجنوں بن جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے تو میں نے اس قسم کی آوازیں سنیں کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے۔ ایسا کہنے والے یہ تو نہیں کہتے تھے کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں۔‘‘ (کیونکہ یہ مانتے بھی تھے۔ احمدیوں میں سے ہی یہ آوازیں اُٹھ رہی تھیں) ’’مگر یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح نہیں پہنچایا اور پھر آپ کی بعض پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’میری عمر اُس وقت انیس سال کی تھی۔ مَیں نے جب اس قسم کے فقرات سنے تو مَیں آپ کی لاش کے سرہانے جا کر کھڑا ہو گیا اور مَیں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اے خدا! یہ تیرا محبوب تھا جب تک یہ زندہ رہا اس نے تیرے دین کے قیام کے لئے  بے انتہا قربانیاں کیں۔ اب جبکہ اُس کو تُو نے اپنے پاس بلا لیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی وفات بے وقت ہوئی ہے۔ ممکن ہے ایسا کہنے والوں یا ان کے باقی ساتھیوں کے لئے اس قسم کی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوں اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے۔ اس لئے اے خدا! مَیں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی تیرے دین سے پھر جائے تو مَیں اس کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا۔ اُس وقت مَیں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اور یہی ایک چیز تھی جس نے انیس سال کی عمر میں ہی میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ بھر دی کہ مَیں نے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت میں لگا دی اور باقی تمام مقاصد کو چھوڑ کر صرف یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس کام کے لئے تشریف لائے تھے وہ اب مَیں نے ہی کرنا ہے۔ وہ عزم جو اُس وقت میرے دل کے اندر پیدا ہوا تھا، آج تک مَیں اُس کو نِت نئی چاشنی کے ساتھ اپنے اندر پاتا ہوں اور وہ عہد جو اُس وقت مَیں نے آپ کی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا وہ خضرِ راہ بن کر مجھے ساتھ لئے جاتا ہے۔ میرا وہی عہد تھا جس نے آج تک مجھے اس مضبوطی کے ساتھ اپنے ارادہ پر قائم رکھا کہ مخالفت کے سینکڑوں طوفان میرے خلاف اُٹھے مگر وہ اس چٹان کے ساتھ ٹکرا کر اپنا ہی سر پھوڑ گئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا تھا۔ اور مخالفین کی ہر کوشش، ہر منصوبہ اور ہر شرارت جو انہوں نے میرے خلاف کی وہ خود اُنہیں کے آگے آتی گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ مجھے ہر موقع پر کامیابیوں کا منہ دکھایا۔ یہاں تک کہ وہی لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے وقت یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے، آپ کے مشن کی کامیابیوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں‘‘۔ (قومی ترقی کے دو اہم اصول۔ انوار العلوم جلد19صفحہ74-75)

آپ کی ایک مجلس کی یہ تقریرہے جو مَیں نے بیان کی ہے۔ اس کے بعد پھر اس کا تسلسل چل رہا ہے۔ اس کے بعد آپ نے جماعت کو بھی توجہ دلائی کہ:

جماعت کے ہر شخص کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس نے اپنے اندر یہ روح پیدا کرنی ہے کہ دین کا کام اُسی نے کرنا ہے۔ ہر کوئی سمجھے کہ اب دین کے کام کی ذمہ داری، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے لے جانے کی ذمہ داری میری ہے۔ اس لئے ایک عہد کریں اور جو یہ عہد کرے گا کہ ہر حالت میں مَیں نے دین کی خدمت کو مقدّم رکھنا ہے۔ فرمایا کہ پھر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر جس مقصد کو حاصل کرنا تھا، وہ آپ کرنے والے بنیں گے۔ کیونکہ وہ مقصد یہی ہے کہ آپ کے مشن کو آگے لے جانا۔ اور پھر مزید فرمایا کہ اگر ہم میں یہ روح پیدا ہو جائے گی تو کوئی مشکل ہمیں مشکل نظر نہیں آئے گی۔ رستے کی جو ساری مشکلات ہیں ہمیں معمولی نظر آئیں گی۔ (ماخوذ ازقومی ترقی کے دو اہم اصول۔ انوار العلوم جلد19صفحہ75)

پھر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے دل کا درد آپ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ:

’’اصل چیز دنیا میں اسلامستان کا قیام ہے‘‘ (اسلام کے نام (کی مناسبت) سے آپ نے فرمایا۔ اصل چیز دنیا میں اسلامستان کا قیام ہے)۔ ’’ہم نے پھر سارے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے۔ ہم نے پھر اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں لہرانا ہے۔ ہم نے پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عزت اور آبرو کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے۔ ہمیں پاکستان کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے۔ ہمیں مصر کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے۔ ہمیں عرب کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے۔ ہمیں ایران کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے مگر ہمیں حقیقی خوشی تب ہو گی جب سارے ملک آپس میں اتحاد کرتے ہوئے اسلامستان کی بنیاد رکھیں۔ ہم نے اسلام کو اُس کی پرانی شوکت پر پھر قائم کرنا ہے۔ ہم نے خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے۔ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے۔ ہم نے عدل اور انصاف کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور ہم نے عدل و انصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بنانا ہے۔ یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امن قائم کرے گا‘‘۔

کاش کہ پاکستان کے عوام اور جو پاکستان کو اوپر لے جانے والے آجکل کے لیڈر اور علماء بنے پھرتے ہیں، ، وہ اس بات کو سمجھ سکیں۔ فرماتے ہیں کہ:

’’ہر ایک کو اُس کا حق دلائے گا۔ (حقیقی امن قائم کرے گا اور ہر ایک کو اس کا حق دلائے گا۔) جہاں روس اور امریکہ فیل ہوا، صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہوں گے‘‘، فرماتے ہیں کہ ’’یہ چیزیں اس وقت ایک پاگل کی بڑ معلوم ہوتی ہیں مگر دنیا میں بہت سے لوگ جو عظیم الشان تغیر کرتے ہیں وہ پاگل ہی کہلاتے رہے ہیں۔ اگر مجھے بھی لوگ پاگل کہہ دیں تو میرے لئے اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔ میرے دل میں ایک آگ ہے، ایک جلن ہے، ایک تپش ہے جو مجھے آٹھوں پہر بے قرار رکھتی ہے۔ مَیں اسلام کو اُس کی ذلّت کے مقام سے اُٹھا کر عزت کے مقام پر پہنچانا چاہتا ہوں۔ مَیں پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا چاہتا ہوں۔ مَیں پھر قرآنِ کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نہیں جانتا کہ یہ بات میری زندگی میں ہو گی یا میرے بعد۔ لیکن مَیں یہ جانتا ہوں کہ مَیں اسلام کی بلند ترین عمارت میں اپنے ہاتھ سے ایک اینٹ لگانا چاہتا ہوں یا اتنی اینٹیں لگانا چاہتا ہوں جتنی اینٹیں لگانے کی خدا مجھے توفیق دیدے۔ میں اس عظیم الشان عمارت کو مکمل کرنا چاہتا ہوں یا اس عمارت کو اتنا اونچا لے جانا چاہتا ہوں جتنا اونچا لے جانے کی اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔ اور میرے جسم کا ہر ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت اس کام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خرچ ہو گی اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی میرے اس ارادے میں حائل نہیں ہو گی‘‘۔ (تقریر جلسہ سالانہ 28دسمبر1947۔ انوار العلوم جلد19صفحہ387-388)

پس یہ وہ اولوالعزم موعود بیٹا تھا جس نے اپنے دل کی تڑپ کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی۔ آج ہم جب یومِ مصلح موعود مناتے ہیں تو حقیقی یومِ مصلح موعود تب ہی ہو گا جب یہ تڑپ آج ہم میں سے اکثریت اپنے اندر پیدا کرے کہ ہمارے مقاصد بہت عالی ہیں، بہت اونچے ہیں، بہت بلند ہیں جس کے حصول کے لئے عالی ہمتی کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اور اپنے اندر اعلیٰ تبدیلیاں بھی پیدا کرنا ہوں گی، پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ خداتعالیٰ سے ایک تعلق بھی جوڑنا ہو گا۔ اسلام کا درد بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درد پیدا کرتے ہوئے اظہار بھی کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو بیشمار خوبیوں کے مالک بیٹے کی خوشخبری عطا فرمائی تھی تو وہ یہ گہرا مطلب بھی اپنے اندر رکھتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا تھا کہ تیرا سلسلہ صرف تیرے ہی تک محدودنہیں ہو گا۔ جس مشن کو تو لے کر اُٹھا ہے وہ تیری زندگی تک ہی محدودنہیں رہے گا بلکہ تیرا ایک بیٹا جو اولوالعزمی میں اپنی مثال آپ ہو گا، جو اسلام کو دنیا میں پھیلانے کی تڑپ میں تیرا ثانی ہو گا۔ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے بے چین دل رکھتا ہو گا، اور پھر اُس بیٹے تک ہی محدودنہیں بلکہ بعد میں بھی اس مشن کو دنیا کے کونے کونے تک لے جانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قدرتِ ثانیہ کا تا قیامت تسلسل جاری رہنے کا بھی وعدہ فرمایا ہے جو اس کام کو آگے بڑھاتا چلا جائے گا اور قدرتِ ثانیہ کو ایسے سلطانِ نصیر بھی عطا ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے قدرتِ ثانیہ جو خلافت کی صورت میں جاری ہے اس کے مددگار بنیں گے۔

پس آج ہمیں پیشگوئی مصلح موعودجہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل کے طور پر دکھائی دیتی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جس خوبیوں کے مالک بیٹے کی اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی اور جس تڑپ اور عزم کے ساتھ اُس بیٹے نے جماعت کو آگے بڑھنے کے راستے دکھائے، ایک خوبصورت نظام عطا فرمایا۔ جماعت کی تربیت کے نظام کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچانے کے لئے ایک ایسا نظام مستحکم کر دیا جس کے نتائج ہر روز نئی شان سے پورے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس نظام کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ہر احمدی اپنا کردار ادا کرنے والا بنے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے عرب ممالک میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ افریقہ میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ یورپ میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ امریکہ میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ آسٹریلیا میں بھی یہ نظام قائم ہے اور جزائر میں بھی یہ نظام قائم ہے۔

پس جہاں جہاں بھی احمدی ایک جماعت قائم کر کے اس نظام کا حصہ بنے ہیں وہاں وہ اس بات کی طرف بھی خاص توجہ دیں کہ صرف اپنی ذات کی اصلاح تک ہم نے محدودنہیں رہنا، اپنی اگلی نسلوں کو بھی سنبھالنا ہے، اُن کے دل میں بھی یہ چیز راسخ کرنی ہے کہ تم نے اس نظام کا حصہ بنتے ہوئے اپنے عظیم مقصدکوجو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہراتے ہوئے توحید کا قیام ہے، اُسے کبھی نہیں بھولنا اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا ہے۔ اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک اس مقصد کو حاصل نہ کر لو۔ اپنی اگلی نسلوں میں یہ روح پھونکنی ہے کہ اس عظیم مقصد کو کبھی مرنے نہیں دینا۔ پس جیسا کہ میں نے کہا آج دنیا کے ہر کونے میں جماعت احمدیہ کا قیام ہے اور قادیان سے اُٹھنے والی آواز دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے اور اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے میں باوجودنامساعد حالات کے بہت بڑا ہاتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ تو جب مصلح موعود کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے کرتے ہیں تو اپنے عزم اور اپنے پروگراموں میں ایک ایسی روح پیدا کریں جو آپ کے جذبوں کی نئے سرے سے تجدید کرنے والی ہو اور اُن خواہشات کو بھی سامنے رکھیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی ہیں۔ اور جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ ہر مسلمان ملک کا رہنے والا احمدی یہ کوشش بھی کرے کہ ہم نے اسلامستان قائم کرنا ہے۔ وہ اسلامستان بنانا ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃٌ للعالمین تھے وہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ اسلامستان بنانا ہے جو اپنوں اور غیروں کے حقوق ادا کرتے ہوئے انسانیت کی قدریں قائم کرنے والا ہو تا دنیا کو یہ پتہ چلے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محسنِ انسانیت تھے اور یہی ایک بہت بڑا کام ہے جو ہم نے دنیا کو بتانا ہے، جو اس دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ ہر اسلامی ملک کو ہم نے یہ باور کرانا ہے۔ یہ ہمارا مقصد ہے۔ یہ باتیں تھیں جن کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے اور یہ وہ مشن ہے جس کی تکمیل کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور یہ کام ہے جو آج جماعت احمدیہ نے کرنا ہے اور ہم نے ہر مسلمان کو، ہر اسلامی ملک کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ ہمارے مقاصد ہیں۔ اگر ہماری مخالفت میں یہ لوگ ہماری بات نہیں سنتے تو تڑپ تڑپ کر ان کے لئے دعا کرنی ہے۔ دعا سے تو ہمیں کوئی نہیں روک سکتا کہ یہ اس بات کو سمجھنے والے بن جائیں۔ پاکستان ہو یا سعودی عرب ہو یا مصر ہو یا شام ہو یا ایران ہو یا انڈونیشیا ہویا ملائیشیا ہو یا سوڈان ہو یا کوئی بھی اسلامی ملک ہو، ان لوگوں کو یہ بتانا ہو گا کہ علیحدہ علیحدہ رہ کر تمہاری کوئی ساکھ نہیں بن سکتی۔ تمہاری ساکھ اُسی وقت بن سکتی ہے اور تمہاری بقا اسی میں ہے، ان ممالک کا رعب تبھی ہے جب وہ ایک ہو کر اسلام کی عظمت کے بارے میں سوچیں گے۔ جب وہ اپنے ملکوں کے اندر بھی اور اپنے ہمسایوں میں بھی فرقوں سے بالا ہو کر سوچیں گے۔ یہ پیغام ہے جو ہم نے ان ملکوں کو بھی دینا ہے۔ آج ہمیں مصر کے لئے بھی کوشش کرنی چاہئے اور شام کے لئے بھی کوشش کرنی چاہئے، لیبیا کے لئے بھی یہ پیغام اُن کے اربابِ حل وعقد کو پہنچانا چاہئے کہ اگر اپنے قبیلوں اور فرقوں کو ہی فوقیت دیتے رہے اور اس کے لئے ظلم کرتے رہے تو خود اپنے ہاتھ سے اپنے ملکوں کو کھوکھلا کرنے والے بنتے رہو گے۔ تمہارے اندر نہ ہی ملکی لحاظ سے اور نہ ہی مسلم اُمّہ کے لحاظ سے کبھی طاقت آئے گی بلکہ کمزوری بڑھتی ہی جائے گی اور غیر تمہیں پھر اپنے پنجے میں لے لیں گے۔ پھر اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے کہ غلامی کی زنجیروں میں بعض ملک جکڑے بھی جا سکتے ہیں۔ پس ان کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہوش کرو اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی فکر نہ کرو۔ صرف اپنے قبائل اور فرقوں کی ناجائز طرفداری نہ کرو ورنہ سب کچھ ہاتھ سے کھو بیٹھو گے۔ ملکوں کی انفرادیت قائم رکھنے کی بجائے اسلام کی عظمت کو قائم کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظمت کو قائم کرنے کے لئے جس شخص کو بھیجا ہے اُس کی باتوں پر بھی غور کرو۔

پس یہ عظیم مقصد حاصل کرنے کے لئے موقع کے لحاظ سے، سمجھا کر بھی اور دعاؤں سے بھی ہم نے یعنی ہر ملک میں رہنے والے احمدی نے اپنا کردار ادا کرتے چلے جانا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ سال بھی کہا تھا کہ ہم میں سے ہر احمدی کو دنیا کی اصلاح کی یہ کوشش کر کے مصلح بننے کا کردار ادا کرنے والا ہونا چاہئے تا کہ مصلح موعود کے مقاصد کو جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی تکمیل ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے کا ایک عظیم منصوبہ ہے اُسے ہم حاصل کرسکیں۔ پس یہ دور جو فساد میں بڑھتے چلے جانے کا دور ہے، جس میں بڑی طاقتوں کی نظریں بھی اسلامی ممالک کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں۔ اس میں بہت زیادہ کوشش کر کے ہم احمدیوں کو ہر اسلامی ملک کو بھی اور مسلم اُمّہ کو بھی ہوس پرستوں کی ہوس سے بچانے کے لئے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اقدام کرنے چاہئیں اور اس کے لئے سب سے بڑھ کر جیسا کہ میں نے کہا دعا ہے۔

اللہ تعالیٰ مسلمان ملکوں کے سیاستدانوں اور لیڈروں کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر سوچیں۔ علماء جن کو عوام الناس علوم اور روحانیت میں بڑھا ہوا سمجھتے ہیں وہ بھی عقل سے کام لیں اور اپنے مفادات کے بجائے قرآنی تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے مفادات کی خاطر عوام اور حکمرانوں کو لڑانے کی بجائے تقویٰ سے کام لیں اور جیسا کہ میں نے کہا، اس کا سب سے خوبصورت حل زمانے کے امام کی آواز کو سن کر اس پر عمل کرنا ہے۔ اور اللہ کرے کہ عوام الناس بھی اپنے نورِ فراست کو بڑھانے کی کوشش کریں اور زمانے کے حالات دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند کر کے عقل اور حکمت سے عاری باتیں کرنے والوں کی، چاہے وہ علماء میں سے ہوں یا لیڈروں میں سے ہوں، اُن کی اندھی تقلیدنہ کریں۔ اللہ کرے کہ ہم جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواہش کا اظہار فرمایا تھا، ایک خوبصورت اسلامستان دیکھنے والے ہوں اور یہی ایک حل ہے جو دنیا کو فسادوں سے بچا سکتا ہے۔ اللہ کرے دنیا کو عقل آ جائے۔

آج پھر ایک حاضر جنازہ ہے جو ابھی نمازوں کے بعد مَیں باہر جا کر پڑھاؤں گا۔ احباب یہیں مسجد میں رہیں۔ یہ جنازہ عزیزم شیخ مصور احمد ابن مکرم شیخ نصیر احمد صاحب جلنگھم کا ہے جو 14؍فروری 2012ء کو ایک مختصر علالت کے بعد پچیس سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو مسکولر ڈسٹرافی (Muscular Dystrophy) کی بیماری تھی جس میں عمر کے ساتھ مسلز کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ انہوں نے باوجود معذوری کے جلنگھم جماعت میں مختلف عہدوں پر خدمت کی بھی توفیق پائی۔ آپ کے سپرد جو بھی کام ہوتا تھا پوری توجہ اور ذمہ داری کے ساتھ مکمل کرتے تھے۔ ویل چیئر پر تھے لیکن اُس کے باوجود بڑی پُھرتی اور تندہی سے اور ہمت سے اور محنت سے کام کیا کرتے تھے۔ چندہ جات اور تحریکات میں حصہ لینے والے تھے۔ نیک اور دین سے تعلق رکھنے والے تھے۔ خلافت سے ایک خاص تعلق تھا۔ مخلص انسان تھے اور ذہین اور قابل تھے۔ باوجود معذوری کے انہوں نے پڑھائی مکمل کی اور پھر بینک میں نوکری کی اور ترقی کرتے ہوئے اس وقت بینک میں اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ افسران بھی ان کے کام سے بہت خوش تھے۔ پسماندگان میں انہوں نے والدین کے علاوہ ایک بھائی یادگار چھوڑا ہے۔ وہ بھی مسلز کے لحاظ سے بیمار ہی ہے۔ یہ عزیز بچہ جو ہے، شیخ مبارک احمد صاحب جو انگلستان کے مبلغ تھے، اُن کے بھائی کا پوتا اور میرا خیال ہے شایدنواسہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے۔ لواحقین کو، والدین کو اور بھائی کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 17؍ فروری 2012ء شہ سرخیاں

    زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی کے جلوے ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ اور آج زندہ مذہب ہونے کا صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت صرف اور صرف اسلام ہی دیتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی آج جماعت احمدیہ ہی وہ فرقہ ہے جو آج بھی اللہ تعالیٰ کو اپنی تمام تر صفات کے ساتھ قادر و مقتدر یقین کرتا ہے۔ اس یقین پر قائم ہے کہ خدا تعالیٰ آج بھی وہی قدرتیں رکھتا ہے، وہی قدرتیں دکھاتا ہے جیسا کہ ازل سے دکھاتا چلا آ رہا ہے۔

    آج ہم جب یومِ مصلح موعود مناتے ہیں تو حقیقی یومِ مصلح موعود تب ہی ہو گا جب یہ تڑپ آج ہم میں سے اکثریت اپنے اندر پیدا کرے کہ ہمارے مقاصد بہت عالی ہیں، بہت اونچے ہیں، بہت بلند ہیں جس کے حصول کے لئے عالی ہمتی کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اور اپنے اندر اعلیٰ تبدیلیاں بھی پیدا کرنا ہوں گی۔ پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ خداتعالیٰ سے ایک تعلق بھی جوڑنا ہو گا۔ اسلام کا درد بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا دل میں درد پیدا کرتے ہوئے اظہار بھی کرنا ہو گا۔

    یہ دَور جو فساد میں بڑھتے چلے جانے کا دور ہے، جس میں بڑی طاقتوں کی نظریں بھی اسلامی ممالک کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں۔ اس میں بہت زیادہ کوشش کر کے ہم احمدیوں کو ہر اسلامی ملک کو بھی اور مسلم اُمّہ کو بھی ہوس پرستوں کی ہوس سے بچانے کے لئے اپنے دائرے میں  رہتے ہوئے اقدام کرنے چاہئیں اور اس کے لئے سب سے بڑھ کر دعا ہے۔

    عزیزم شیخ مصوّر احمد ابن شیخ نصیر احمد صاحب آف جلنگھم کی وفات، نماز جنازہ اور مرحوم کا ذکرخیر۔

    فرمودہ مورخہ 17؍فروری 2012ء بمطابق 17؍تبلیغ 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور