مساجد کا مقصد

خطبہ جمعہ 24؍ فروری 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّہِ أَحَدًا۔ (سورۃ الجنّ: 19)

قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَأَقِیْمُواْ وُجُوہَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ۔ (سورۃ الاعراف: 30)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اور یقینا مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔ یہ سورۃ الجنّ کی آیت ہے۔

اور دوسری آیت سورۃ اعراف کی ہے۔ اس کا ترجمہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میرے ربّ نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارا کرو۔ جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا، اسی طرح تم مرنے کے بعد لوٹو گے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آج اس علاقے میں ہمیں مسجد تعمیر کر کے اُس کے افتتاح کی توفیق مل رہی ہے۔ دنیا کے لئے بھی بتا دوں کہ یہ فیلتھم (Felthum) کا علاقہ کہلاتا ہے۔ ہونسلو بھی قریب ہے۔ اس لئے اس علاقے کی یہ مشترکہ مسجد ہے۔ یہ دو جماعتیں ہیں ساؤتھ اور نارتھ۔ بلکہ یہاں کے ریجنل امیر صاحب کی باتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ شاید یہ علاقے کی جامع مسجد ہی ہو کیونکہ میرے خیال میں ابھی تک اس علاقے میں مساجد میں یہ بڑی مسجد ہے جس میں جمعہ اور نمازوں کے لئے احباب آیا کریں گے۔ یہی مسجد کا مقصد ہو تا ہے۔

اللہ کرے کہ یہاں ہر علاقے میں جماعت کو اپنی مسجد بنانے کی توفیق مل جائے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش اور ارشاد کو پورا کرتے ہوئے ہماری مسجدیں اسلام اور جماعت کے تعارف کا ذریعہ بنیں، تبلیغ کے نئے میدان کھلیں اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلے۔ کیونکہ آج اس زمانے میں جماعت احمدیہ ہی ہے جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔

اور پھر ہمارے لئے مساجد کی تعمیر اس لئے بھی اہم ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بلکہ حکم دیا کہ قبیلوں یا محلوں میں یا گھروں میں مسجدیں بناؤ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب المساجد والجماعات باب تطہیر المساجدوتطییبہ احدیث758)

اُس زمانے میں عموماً محلّے قبیلوں کی صورت میں آباد ہوا کرتے تھے، بلکہ آج کل بھی آپ دیکھیں۔ بعض قومیں دوسرے ملکوں میں جا کر ایک جگہ اکٹھا رہنے کو پسند کرتی ہیں۔ چینی لوگ جہاں بھی جاتے ہیں چائنا ٹاؤن بنالیتے ہیں۔ بہرحال اس روایت میں ہے کہ ہر علاقے میں مسجدیں بناؤ اور پھر اُنہیں پاک و صاف بھی رکھو۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں بھی متعدد جگہ پر مساجد کی تعمیر کا ارشاد ہے۔ پس مساجد کی بڑی اہمیت ہے۔ خاص طور پر ہمارے لئے جو احمدی مسلمان کہلاتے ہیں تا کہ جہاں ہم اپنی اجتماعی عبادتوں کے لئے ایک پاک صاف جگہ کا انتظام کر یں اور اُس کے لئے خاص اہتمام کریں وہاں آجکل جبکہ اسلام کے خلاف بیشمار غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ گو اس علاقے میں ساؤتھ ہال اور ہونسلو میں ہمارے سینٹر ہیں، اور بھی جگہ مجھے انہوں نے بتایا کہ سینٹر ہیں جہاں نماز کے لئے سب جمع ہوتے ہیں۔ جماعتی پروگرام وغیرہ بھی ہوتے ہیں، غیروں کے ساتھ پروگرام بھی ہوتے ہیں لیکن باقاعدہ مسجد سے بہر حال نئے راستے کھلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں اس ریجن میں ہی ہیز (Hayes) کی جماعت نے بھی مسجد بنا لی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگلے ہفتے اُس کا بھی افتتاح ہو گا۔

یہ مسجد جس میں اس وقت خطبہ دیا جا رہا ہے یہ عمارت گو خاص مسجد کے لئے، یعنی جسے purpose built مسجد کہتے ہیں، وہ تو نہیں ہے۔ ایک عمارت کو جو دفاتر کی عمارت تھی مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہیز (Hayes) میں بھی کمیونٹی سنٹر کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان مساجد کو، جیسا کہ میں نے کہا مختلف عمارتوں کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے، ان مساجد کو اسلام کی تعلیم کے پھیلانے کا بھی ذریعہ بنائے۔ ہمارے ایمانوں میں ترقی کا بھی ذریعہ بنائے۔ اور ایمانوں میں ترقی ہی ہے جو ہر مسجد کے ساتھ خاص طور پر وابستہ ہے۔

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے مساجد کی اہمیت بیان فرمائی ہے کہ مسجد کی اہمیت اور اُس کے مقاصد کے بارے میں تمہیں کس طرح خیال رکھنا چاہئے۔ قرآنِ کریم میں دوسری جگہ بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ بہر حال ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مساجد ایسی جگہیں ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ یہاں جو آئے خالص عبد بن کر آئے اور مسجدوں میں کبھی کوئی کفر، شرک بلکہ دنیاوی باتیں بھی نہ ہوں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروباری باتیں بلکہ دنیاوی چیزوں کے، گمشدہ چیزوں کے اعلان کرنے سے بھی منع فرمایا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب نہی عن نشدالضا لۃفی المسجدحدیث 1260)

ہاں جن باتوں کی اجازت ہے وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے بعد اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے منصوبے، دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے منصوبے اور اس پر عمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہتری کے سامان کرنے کے لئے مشورے اور اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے۔

یہاں اس پہلی آیت فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّہِ أَحَدًا میں اس بات کی بھی وضاحت ہو گئی کہ جب ہم یہ کہتے ہیں اور عموماً ہم یہی دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہماری مساجد ہر ایک کے لئے کھلی ہیں تو اس کا ایک مطلب یہ ہے جس کا عموماً ہماری مساجد میں اظہار ہوتا ہے کہ کوئی شخص چاہے کسی بھی مذہب کا ہو یا لا مذہب بھی ہو، یہاں آ سکتا ہے، آتا ہے اور اس کے پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا ہو گا کہ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہیں۔ اگر ہم کسی دوسرے مذہب والے کو عبادت کرنے کی اجازت دیں تو اس بات کی کہ جو خدا تعالیٰ کی خالص عبادت کا حصہ ہے۔ کیونکہ ہر مذہب میں ایک خدا کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ تو جو خدا تعالیٰ کی خالص عبادت کا حصہ ہے وہ تو تم بیشک ہماری مسجد میں کر سکتے ہو اور جو بتوں کی عبادت کا حصہ ہے، جو شرک کے حصے ہیں وہ بہر حال مسجد سے باہر جا کر۔ پس اس شرط کے ساتھ کوئی بھی مذہب رکھنے والا مسجد میں آ کر عبادت کرسکتا ہے۔ مسجدیں وہ جگہیں ہیں جہاں شرک کی بہرحال اجازت نہیں ہے۔ وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّہِ أَحَدًا۔ کہ یقینا مسجدیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ اُن کی تعمیر کا مقصد ہی ایک خدا کی عبادت کے لئے جمع ہونا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا گھر ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہی حکم فرمایا ہے کہ اگر میرے گھر میں عبادت کے لئے آنا ہے تو پھر میری اور صرف میری عبادت کرو اور جو میرے احکامات ہیں اُن پر عمل کرو۔ اس سے پہلی آیات میں بھی یہی مضمون چل رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی واحد و یگانہ ذات ہے اور اس سے دور جانے والے اپنے کئے کی سزا بھگت لیں گے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تو یہ بات اور بھی زیادہ روشن اور واضح ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ دنیا میں اپنی وحدانیت کو اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قائم فرمائے گا اور مساجد اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اور اب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور سچائی صرف اور صرف مساجد کے ذریعہ ہی پھیلے گی۔

پس وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے آنے والے آپ کے غلامِ صادق کی جماعت میں بھی شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارا تو اب یہ اور صرف یہی کام ہے اور یہ مقصد ہونا چاہئے کہ جہاں خالص ہو کر ایک خدا کی عبادت کے لئے مسجدوں میں آئیں تا کہ ہماری عبادتوں کے معیار بڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق قائم ہو، وہاں اس سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانے کا بھی باعث بنیں۔ پس جب سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ہمیں صرف ظاہری عبادت کا دعویٰ کافی نہیں ہو گا بلکہ اس نور سے اپنے آپ کو منوربھی کرنا ہو گا۔

مَیں نے جو دوسری آیت سورۃ اعراف کی تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے انصاف کا حکم دیا۔ فرمایا قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ۔ تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا وہاں ہر اُس حقیقی مومن کو بھی ہے جو آپ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے۔

پس یہاں سب سے پہلے اس اعلان کا حکم ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو انصاف قائم کرنے، حقوق قائم کرنے، ہر قسم کے امتیازی سلوکوں سے بالا تر ہونے اور تقویٰ پر چلنے کا حکم ہے۔ اور جن لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے وہی اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تر توجہ پھیرتے ہوئے اُس کی عبادت کا بھی حق ادا کرتے ہیں۔ پس دلوں کے پاک لوگ ہی عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ جن کی طبیعت میں نیکی، پاکیزگی اور انصاف نہیں وہ نہ تو حقوق العباد ادا کرتے ہیں اور نہ حقوق اللہ۔ ایک معاملے میں اگر نیکی اور انصاف کرتے ہیں تو دوسرے معاملے میں عدل و انصاف ایسے لوگوں میں نظر نہیں آتا۔

پس تقویٰ ہے جو انصاف قائم کرواتا ہے اور تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تر توجہ پھیرنے کے لئے مائل کرتا ہے اور تقویٰ ہی ہے جو عبادت کا حق ادا کرواتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کے وقت جب مسجدوں کا رُخ کرو تو اگر کسی بشری تقاضے کے تحت دنیا داری یا ذاتی مفادات نے تمہاری توجہ اِدھر اُدھر کر بھی دی ہے تو نماز کے بلاوے کے ساتھ ہی تمہارے خیالات اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف منتقل ہو کر تمہیں اللہ کا حقیقی عبد بنانے والے ہونے چاہئیں۔ ورنہ یہ عبادتیں بے فائدہ ہیں یا مسجد میں آنا بے فائدہ ہے۔ پس جب دین خالص کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو پکارنے کا حکم ہے تو عبادتوں کے معیار کے حصول کے لئے جو الٰہی احکامات ہیں اُن احکام کی پابندی کی بھی شرط لگا دی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اور تقویٰ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی کرواتا ہے اور یہ سب چیزیں ہی ہیں جو پھر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والی بھی ایک انسان کو بناتی ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُونَ۔ کہ جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اس طرح تم مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹو گے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں کئے گئے اعمال اگلے جہان کی جزا سزا کا باعث بنتے ہیں۔ پس اللہ فرماتا ہے تمہاری جسمانی پیدائش کے مختلف مرحلے اور پھر یہ زندگی گزارنا تمہیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے بھی مختلف دور ہیں جن میں سے روح نے گزرنا ہے۔ پس اس اخروی زندگی اور روح کی بہتر نشوونما کے لئے، صحیح نشوونما کے لئے اس دنیا کے اپنے اعمال کے ذریعے فکر کرو۔ اور یہ فکر اُسی وقت حقیقی رنگ میں ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کیا جائے اور اپنی عبادتوں کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بجا لایا جائے۔ اُس کے احکامات پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ عبادت کے وقت یہ ذہن میں ہو کہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ اور یہ خالص عبادت ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرتے ہوئے مجھے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنائے گی اور اُخروی زندگی میں بھی۔

خالص عبادت کس طرح ہونی چاہئے؟ اس بات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک سوال کرنے والے کے اس سوال پر کہ نماز میں کھڑے ہوکر اللہ جلّ شانہٗ کا کس طرح کا نقشہ پیشِ نظر ہونا چاہئے؟ حضرت مسیح موعودؑ نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ:

’’موٹی بات ہے قرآنِ شریف میں لکھا ہے اُدْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (الاعراف: 30) اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے اور اُس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 335۔ ایڈیشن2003ء مطبوعہ ربوہ)

انسان پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار احسانات ہیں اور خاص طور پر جو یہاں رہنے والے ہیں جہاں مذہبی آزادی بھی ہے اور دنیاوی معاملات میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت فضل اور احسان ہیں۔ فرمایا کہ ’’اُس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے۔ چاہئے کہ اخلاص ہو، احسان ہو اور اُس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک ربّ اور حقیقی کارساز ہے۔ عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔ ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے۔ ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیۂ نفس ہو جاوے اور خدا سے سچا تعلق ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد5صفحہ 335۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وہ حالت ہے جو ایک مومن کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور مسجد اس حالت کے پیدا کرنے اور اس کی یاددہانی کروانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مسجد بننے سے ہماری ذمہ داری پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جہاں ہم نے عبادتوں کے حق ادا کرنے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات کی پابندی کی طرف بھی توجہ کرنی ہے۔ پہلے سے بڑھ کر توجہ دینی ہے ورنہ ہم مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریاکاری، عُجب، خود بینی، تکبر، نخوت، رعونت وغیرہ صفاتِ رذیلہ ترقی کر گئے ہیں اور مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وغیرہ صفات حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اُٹھ گئے ہیں‘‘۔ توکّل، تفویض وغیرہ سب باتیں کالعدم ہیں‘‘۔ یعنی دنیا داری پر انحصار اور اپنی بڑائی تکبر وغیرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل کم ہے۔ دنیا کے خداؤں کی طرف توجہ زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی طرف توجہ کم ہے۔ عبادت کے حق بھی ادا نہیں کئے جاتے اور جو کام اللہ تعالیٰ نے سپرد کئے ہیں، جن نیکیوں کا حکم دیا ہے اُن پر توجہ بالکل بھی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ کس طرح یہ حق ادا کر سکتے ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو‘‘۔ (البدرجلد 3نمبر10 مورخہ 8مارچ1904ء صفحہ3)

یعنی ان نیک کاموں کی تخم ریزی ہو۔ خدا کا یہ ارادہ کس طرح ہے؟ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا ہے۔

پس ہم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں دنیا داری سے ہٹ کر خالص ہونا ہو گا اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، تب ہی مسجد بنانے کا ہمارا مقصد پورا ہو گا۔ عبادتوں کے ساتھ اپنے اعمال کی درستی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ جو یہ کرے گا وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ کہ ’’اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخمریزی ہو‘‘ یہ نرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ طبیعتوں میں یہ انقلاب اس تخم ریزی سے پیدا ہوئے۔ آج سے ایک سو تئیس سال پہلے جو تخمریزی ہوئی تھی، اُس نے لاکھوں عبادالصالحین پیدا کئے۔ عبادالصالحین کے پھل آپ کو عطا کئے اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک آج بھی جاری ہے۔ نئے لوگ جو جماعت میں شامل ہوتے ہیں وہ اس سوچ کے ساتھ ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا ہو۔ کس طرح عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ کس طرح اعلیٰ معیار حاصل کئے جائیں جس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن جائے؟ آپ لوگ جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ میں بہت بڑی تعداد ایسے احمدیوں کی ہے جن کے باپ دادا احمدی ہوئے۔ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے ارادے کو سمجھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آئے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیار قائم کئے۔ پس اُن بزرگوں کی عبادتوں کو مزید پھل لگانے کے لئے اگلی نسلوں کا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ اور یہی چیز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو دوسروں سے ممتاز کرنے والی ہو گی۔ ورنہ ظاہری نمازیں، ظاہری روزے، ظاہری طور پر قرآنِ کریم پڑھنا، اس کی تلاوت کرنا، یہ تو بہت سے دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ہم میں اور دوسروں میں فرق صرف اُسی وقت ظاہر ہو گا جب ہمارا ہر فعل خدا تعالیٰ کے لئے ہو گا اور جب ہم دنیاوی معاملات میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے پہلو تلاش کریں گے۔ تو اُس وقت مساجد میں جا کر عبادت کے وقت بھی ہماری تمام تر توجہات خدا تعالیٰ کی طرف ہوں گی اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسے ہی پکاریں گے۔ نمازوں میں ہماری توجہ ہمارے کاروباروں کی طرف نہیں ہو گی، ملازمتوں کی طرف نہیں ہو گی، دنیاوی خواہشات کے حصول کی طرف نہیں ہو گی، کسی دوسرے سے دنیاوی بدلے لینے کی طرف نہیں ہوگی بلکہ تمام معاملات خدا پر چھوڑ کر اُس کے حضور جھکیں گے۔ اللہ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضاکے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔ اُن باتوں پر عمل کرنے والے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ہمیں حکم دیاہے۔ نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں۔ تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں۔ گناہوں اور زیادتی سے بچنے والے ہوں اور اس کے خلاف جہاد کرنے والے ہوں۔ صرف بچنا ہی کام نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف جہاد بھی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سورۃ المائدہ میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ:

وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ (المائدۃ: 3)

کہ تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو۔ اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔ اور گناہوں اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو یقینا اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔

آج اسلام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ شدت پسند مذہب ہے اور جنگ کو پسند کرنے والا مذہب ہے اور یہ کہ اسلام نعوذ باللہ طاقت سے اور تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اسلام نے ہر مذہب کے خلاف، جو بھی اسلام کے مخالف مذہب تھا یا دوسرے مذاہب تھے، ان سب کے خلاف اسلام نے تلوار اٹھائی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام پر اس اعتراض کا بھی ردّ فرمایا ہے۔ آیت کے اس حصے میں کہ جو اللہ تعالیٰ کے خالص بندے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہے، جن کی عبادتیں خدا تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہیں، اُن کے تو دشمنوں سے یہ سلوک ہونے چاہئیں کہ کسی بھی طرح اُن پر زیادتی نہ ہو۔ جنہوں نے زیادتی کی ہے، اُن کا جواب بھی زیادتی سے نہیں دینا۔

پس ایک مسلمان، وہ حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتا ہے، نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں اپنوں اور غیروں میں ہر ایک سے بھر پور تعاون کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ اور گناہوں اور زیادتی کے کاموں سے بیزار ہے۔ اور کبھی ایسے کاموں میں تعاون نہیں کر سکتا کیونکہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔ یہ اپنی عبادتوں کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے۔ جو نمازیں نیکی کے کاموں میں روک بن رہی ہوں، زیادتی کے کاموں میں مددگار ہوں، تقویٰ سے عاری ہوں وہ صرف دکھاوے کی نمازیں ہیں۔ اُن نمازوں اور عبادتوں کا اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی مقام نہیں ہے، کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور ایسی نمازیں پڑھنے والوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْن۔ کہ ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے۔ ہم جو زمانے کے امام کو مان کر اسلام کے احکامات پر چلنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں، ہم میں سے کسی سے یہ توقع کی ہی نہیں جا سکتی کہ وہ مسجد میں عبادت کے لئے آئے، اس مقصد کے لئے آئے جس کے لئے مسجد تعمیر کی گئی ہے اور پھر گناہوں اور زیادتیوں میں ملوث ہو جائے۔ پس یہاں کے رہنے والے احمدیوں کو اس علاقے کے لوگوں کے ان تحفظات کو بھی دُور کرنا ہو گا۔

مسجد کی تعمیر کے ساتھ جہاں تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں وہاں مخالفتیں بھی تیز ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے مخالفت اس لئے ہوتی ہے کہ اُن کے علماء کی طرف سے احمدیت کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت نبوت پر ڈاکہ مارنے والے ہیں۔ جبکہ احمدی ہمیشہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ خاتم النبیین پر سب سے بڑھ کر یقین کرنے والے ہیں اور یہ فہم و ادراک ہمیں آپ کے عاشقِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے۔ بہر حال مسلمانوں کی بھی مخالفت کا ہمیں سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم مقامی لوگ اسلام کی اپنے ذہن میں بنائی ہوئی غلط تصویر کی وجہ سے فکر مند ہو کر ہم سے زیادتی کرتے ہیں۔ کچھ ویسے ہی Racist لوگ ہیں جو غیر قوموں کے، غیر ملکیوں کے خلاف ہیں، اُن کی طرف سے بھی زیادتی ہوتی ہے۔ تو ہم تو ہر طرف سے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ پرسوں رات بھی یہاں مسجد کی دیوار پر جو غلط الفاظ لکھے گئے یا پینٹ وغیرہ پھینک کر گند کرنے کی کوشش کی گئی، یہ دل میں بٹھائی گئی اسی دشمنی کا نتیجہ ہے جو اسلام کے خلاف غیر مسلموں میں ہے۔ پس ہم نے ہر قسم کے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کرنے ہیں اور وہ اُسی وقت ہو سکتے ہیں جب ہماری عبادتیں خالصۃً للہ ہوں گی۔ جب ہم مسجد کی تعمیر کے مقصد کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

اسی طرح یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس میں آپس میں بھی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر اظہار پایا جائے۔ آپس کے تعلقات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس طرح بنایا جائے کہ ہر دیکھنے والا کہے کہ یہ آپس کی محبت اور بھائی چارہ اس جماعت کا ایک خاص وصف اور خاصہ ہے۔

نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے کے حکم کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ایک جماعت کا نظارہ پیش ہو۔ سب ایک وجود بن جائیں اور آپس کی محبتیں بڑھیں اور رنجشیں دور ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں۔ ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔ تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے؟ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے: تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ (المائدۃ: 3) کمزور بھائیوں کا بار اُٹھاؤ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت، جماعت نہیں ہو سکتی جبتک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے۔ اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو، کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضرور ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے‘‘۔

پھر فرماتے ہیں: ’’دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور اُن کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہر گز نہیں چاہیے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں۔ …… کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔ اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے۔ اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی، پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔ …… جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔ پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ …… خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوّت یاد دلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوّت ان کو نہ ملتی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدائے تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 263 تا265۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ انقلاب پیدا کرنے کے لئے آئے تھے کہ تقویٰ کو دنیا میں دوبارہ قائم کریں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے عبادالرحمن کا خالص گروہ بنائیں۔ پس ہماری خوشی صرف مسجد کی تعمیر کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ پر عمل کرتے ہوئے حقیقی عبد بننے میں ہے۔ اس مادی دور میں جبکہ ہر طرف مادیت کے حصول کے لئے، دنیا داری کے لئے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، یہ معیار حاصل کرنا یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والا بناتا ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ جہاں غیر مسلم بھی اسلام قبول کر کے عبادالرحمن بن رہے ہیں وہاں مسلمان بھی بدعتوں سے دور ہٹ کر حقیقی اسلام کو سمجھ رہے ہیں اور آپ کی بیعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ حقیقی اسلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی میں پیش فرماتے ہیں۔ پرسوں کی ڈاک میں ہی مَیں ایک اُزبک احمدی کا خط دیکھ رہا تھا، جس میں اس بات کا اظہار تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کی کایا پلٹی ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ نیک فطرتوں کو جماعت کا حصہ بناتا چلا جا رہا ہے اور بدعات سے پاک کر رہا ہے۔ اُزبک زبان میں انہوں نے لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ زندگی جو ہم اس وقت گزار رہے ہیں، اس میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے ہم مکمل بے خبر حال میں رہے ہیں۔ آج کے دن تک وہ الفاظ جو انسان نے کبھی نہ سنے تھے، مثلاً یہ باتیں کہ وفات شدگان پر قرآن خوانی کرنا، (وہ اپنی بدعات کا ذکر کر رہے ہیں) یا عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ تسلیم کرنا وغیرہ۔ لیکن صبر و تحمل سے ہم نے اُن کتب کا مطالعہ کیا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند ایک کتابوں کا مطالعہ کیا جو اُن کی زبان میں ابھی لٹریچر مہیا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جوں جوں ہم پڑھتے گئے ہمارے قلوب میں، ہمارے دلوں میں روشنی اور نور داخل ہو کر ہمیں طاقت دیتا گیا۔ الحمد للہ ان کتب کو پڑھنے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو لمبے عرصے سے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہت ہی دور جا چکے تھے۔ ہم آپ کی خدمت میں اپنے لئے درخواست کرتے ہیں کہ دعا کریں کہ جماعت سے لی گئی الٰہی قوت اور نور ہمارے پورے بدن میں سرایت کر جاوے۔ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پہلی بدعتوں بھری زندگی سے ہم نے چھٹکارا پا لیا۔ الحمدللہ۔ (آگے اپنے گاؤں کا نقشہ لکھتے ہیں کہ) لیکن اگر آپ ہمارے گاؤں کے گلی کوچوں میں نکلیں تو اِنہی بدعتوں میں گرفتار انسانوں کو دیکھیں گے۔

پس نئے آنے والے کس طرح چھٹکارے پا رہے ہیں اور آپ تو جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا بہت سے بزرگوں کی اولادیں ہیں تو اس لئے ہمیں خاص طور پر بہت کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اندر سے بدعتوں کو دور کریں۔ ظاہری رسم و رواج کو دور کریں۔ صرف زمانے کی رَو میں نہ بہتے چلے جائیں۔ نہیں تو یہ نئے آنے والے آگے نکلنے والے ثابت ہوں گے۔

یہ رسول جان اپنا نام لکھ رہے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ میرا تعلق آرٹیکوو (Artikov) نامی خاندان سے ہے۔ 68 سال کا ہوں۔ ہم سب اہلِ خانہ اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ مسیح موعود آ چکے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ ہمیں گواہی دینے والوں کی صف میں شمار کیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ہم آپ کی خدمت میں یہ بھی درخواست دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ نسلوں میں علمائے اسلام اور مسلمان ڈاکٹر پیدا کرے۔ اُن کے ہاں ڈاکٹروں کی بھی کمی ہو گی۔ نام نہاد علماء تو پہلے بھی اُن کے ہیں، لیکن وہ حقیقی علماء کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ جو حقیقی عبادالرحمن ہوں۔ جو اللہ تعالیٰ کے صحیح احکامات پر چلنے والے ہوں۔ اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں تو ان کے بارے میں وہاں کے مبلغ نے تعارف لکھا ہے کہ موصوف احمدیت کے سخت مخالفت تھے۔ ان کا بیٹا پہلے احمدی ہو گیا اور یہ مخالفت کرتے رہے بلکہ اُس کو دھمکیاں دیتے رہے کہ تمہیں گھر سے نکال دوں گا۔ لیکن کسی طریقے سے 2008ء میں خلافت جوبلی کے جلسے میں شامل ہو گئے، اور اس جلسے کے دوران ہی ان پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے بیعت کر لی اور اب مبلغ لکھتے ہیں کہ وفا میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے صدقے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک خاص عشق ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں احمدیت سے پہلے جب ہماری بحث ہوتی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان کو شدیدنفرت تھی۔ لیکن اب یہ حال ہے کہ سیدنا مسیح موعود کے عاشقِ صادق اور فدائی ہو چکے ہیں۔ جب ان کو شروع میں جماعتی کتب دی گئیں تو بہت اعتراض کرتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا اُزبک ترجمہ ہوا ہے تو کہتے ہیں پہلے میں نے ایک دفعہ پڑھی، پھر مجھے سمجھ آئی۔ پھر دوسری دفعہ پڑھی تو مجھے اور سرور حاصل ہوا۔ اب میں تیسری دفعہ پڑھ رہا ہوں۔ تو یہ ہے نئے آنے والوں کے ایمان کی حالت۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ بھی رشین ملکوں میں شمار ہونے والی ایک سٹیٹ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ وقت آئے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کو یہاں بھی پورا ہوتا دیکھیں کہ ہمیں وہاں ریت کے ذرّوں کی طرح احمدیت نظر آئے۔

پس اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے حقیقی اسلام کا دنیا کو پتہ چل رہا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ہماری مسجدیں نہیں ہیں بلکہ کھل کے تبلیغ کی بھی اجازت نہیں اور تعارف بھی احمدیت کا اچھی طرح نہیں ہوسکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے جگ کی مہار اس طرف پھیر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود لوگوں کی توجہ پیدا ہو رہی ہے اور احمدیت کی فتح بھی انشاء اللہ تعالیٰ دعاؤں سے ہی ہونی ہے۔ ہمیں جو دنیا کے ان ملکوں میں، مغربی ممالک میں رہتے ہیں یہاں مذہبی آزادی بھی ہے اور عبادت کرنے میں بھی کوئی روک نہیں، ان ملکوں کے رہنے والوں کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں اور جن رشین سٹیٹس کا مَیں نے ذکر کیا اور بعض دوسرے مسلمان ملکوں کا بھی، جہاں ہمیں آزادی سے تبلیغ کی اجازت نہیں ہے ان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پابندیوں اور روکوں کو بھی دور فرمائے اور وہ بھی آزادی سے مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے والے بن سکیں۔ اپنی مسجدیں بنانے والے بن سکیں۔ یہاں میں نے ان ملکوں میں مذہبی آزادی کا ذکر کیا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے قانون نے کونسل ہمسایوں کو ایسے اختیارات دئیے ہوئے ہیں جن سے اگر وہ چاہیں تو کسی بھی عمارت کی تعمیر میں روک ڈال سکتے ہیں۔ یہاں کی مسجد کی تعمیر میں بھی کونسل کی طرف سے پہلے اجازت ملنے کے بعد پھر روکیں ڈالی گئیں اور اس وجہ سے مسجد لیٹ بھی ہوئی۔ اجازت نامہ منسوخ کر دیا گیا۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے یہاں کے احمدیوں کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور سنا اور جب عدالت میں یہ مقدمہ گیا تو ہمارے حق میں فیصلہ کر دیا بلکہ مقدمہ کا تمام خرچ بھی کونسل پر ڈال دیا۔

پس اس طرح یہاں کے احمدیوں کو عدالت سے انصاف ملا تو ان احمدیوں کو بھی عدالت کا بہت زیادہ شکرگزار ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا بھی اس کے فضل پر شکر گزار ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکنے والا بننا چاہئے۔ اللہ کا حقیقی عبد بن کے اس مسجد کا حق ادا کرنا چاہئے۔ اور شکرگزاری کے لئے باقاعدہ مسجد میں پانچ وقت یہاں نمازیوں کو آنا چاہئے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ تم میں سے ہر ایک کے لئے دعا مانگتے رہتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنی نماز کی جگہ میں ٹھہرا رہتا ہے۔ جس نے کہا کہ اُس نے نماز پڑھی۔ فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ! اُسے بخش دے۔ اے اللہ! اُس پر رحم کر۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ وانتظار الصلاۃ حدیث نمبر1508)

کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لئے فرشتے دعائیں کریں اور پھر ان کی دعاؤں کے ساتھ ایسے لوگوں کی اپنی دعائیں بھی شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوں۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اُس کا رحم مل گیا اُسے اور کیا چاہئے؟ اللہ ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحم کے حاصل کرنے والے بنتے ہیں۔ آخر میں مسجد کی تعمیر کے بارے میں جو مجھے معلومات دی گئی ہیں، اُن کا بھی مختصر ذکر کر دوں۔ کچھ ذکر تو شروع میں ہو گیا کہ کس طرح یہ مسجد بنی اور دفتری عمارت کو تبدیل کیا گیا۔ اس کی خرید پر اور تعمیر پر تقریباً نو لاکھ پاؤنڈ خرچ آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے، میرا خیال ہے ہونسلو (Hounslow) کی دو جماعتوں نے، یہی مجھے بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر خرچ اُٹھایا اور ریجن میں بھی بعض جگہوں سے دوسری جماعتوں نے بھی چندے دئیے ہوں گے۔ اگر صرف ہونسلو کی اور فیلتھم (Felthum) کی جماعتوں کو شمار کیا جائے تو دو صد کے قریب یہاں چندہ دہند بنتے ہیں۔ کل تعداد تو ان کی چھ سو ہے۔ تو اس نے یہ خرچ اُٹھایا اور مسجد بنائی۔ اگر ریجن کو بھی شامل کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ چار سو کے قریب بن جائیں گے، پھر بھی یہ کافی بڑی رقم ہے۔ جو بھی صورتحال ہو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جماعت نے بڑی قربانی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔ اور خاص طور چھ اشخاص ایسے ہیں جن کی بڑی قربانیاں ہیں جنہوں نے تقریباً دو لاکھ اسّی ہزار کے قریب قربانی کی ہے۔ ایک نے ایک لاکھ سے اوپر ادائیگی کی۔ باقی نے بیس ہزار سے لے کے پچاس ہزار کے قریب تک۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

آخر پر پھر یاددہانی کے طور پر مَیں کہتا ہوں کہ مسجد کا حق اُس کی تعمیر سے یا دس، بیس، پچاس ہزار یا لاکھ پاؤنڈ کی قربانی سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ اصل مقصد اس کو آباد کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور آبادی بھی ایسی جو خالصۃً للہ ہو۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے ہو اور مسجد سے باہر نکل کر بھی اس عبادت کا ایسا اثر ہو کہ خدا تعالیٰ کے بندوں کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنے والے بنیں اور یہی چیز ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک دعا کی بھی تحریک کرتا ہوں، پاکستان میں تو روز ہمارے ساتھ معاملات ہوتے ہی ہیں لیکن آجکل انڈیا میں بھی حیدرآباد دکن میں ہماری مسجدوں پر غیروں کی نظر ہے اور قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کیونکہ وہاں مسلمان کافی تعداد میں ہیں اس لئے اُن کے شور سے حکومت بھی کچھ اُن کے زیرِ اثر آ رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہمیں بچائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 24؍ فروری 2012ء شہ سرخیاں

    لندن میں فیلتھم (Felthum) کے علاقہ میں مسجد بیت الواحد کا افتتاح۔ 

    اب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور سچائی صرف مساجد کے ذریعہ ہی پھیلے گی۔

    اللہ کرے کہ یہاں ہر علاقے میں جماعت کو اپنی مسجد بنانے کی توفیق مل جائے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش اور ارشاد کو پورا کرتے ہوئے ہماری مسجدیں اسلام اور جماعت کے تعارف کا ذریعہ بنیں۔ تبلیغ کے نئے میدان کھلیں اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلے۔ کیونکہ آج اس زمانے میں جماعت احمدیہ ہی ہے جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔

    ہمارا تو اب یہ اور صرف یہی کام ہے اور یہ مقصد ہونا چاہئے کہ جہاں خالص ہو کر ایک خدا کی عبادت کے لئے مسجدوں میں آئیں تا کہ ہماری عبادتوں کے معیار بڑھیں اور  اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق قائم ہو، وہاں اس سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانے کا بھی باعث بنیں۔ پس جب سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ہمیں صرف ظاہری عبادت کا دعویٰ کافی نہیں ہو گا بلکہ اس نور سے اپنے آپ کو منور بھی کرنا ہو گا۔

    مسجد کی تعمیر کے ساتھ جہاں تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں وہاں مخالفتیں بھی تیز ہوتی ہیں۔ ہم نے ہر قسم کے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کرنے ہیں اور وہ اُسی وقت ہو سکتے ہیں جب ہماری عبادتیں خالصۃً لِلّٰہ ہوں گی۔

    نماز باجماعت کے لئے مسجد میں آنے کے حکم کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ایک جماعت کا نظارہ پیش ہو، سب ایک وجود بن جائیں اور آپس کی محبتیں بڑھیں اور رنجشیں دور ہوں۔ ہماری خوشی صرف مسجد کی تعمیر کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ پر عمل کرتے ہوئے حقیقی عبد بننے میں ہے۔

    مسجد کا حق اُس کی تعمیر سے یا دس، بیس، پچاس ہزار یا لاکھ پاؤنڈ کی قربانی سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ اصل مقصد اس کو آباد کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور آبادی بھی ایسی جو خالصۃً لِلّٰہ ہو۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے ہو۔ اور مسجد سے باہر نکل کر بھی اس عبادت کا ایسا اثر ہو کہ خدا تعالیٰ کے بندوں کا حق ادا کرنے والے بنیں۔

    فرمودہ مورخہ 24؍فروری 2012ء بمطابق 24؍تبلیغ 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الواحد فیلتھم (Felthum)۔ لندن (یوکے)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور