اصحابِ احمد کے قبول احمدیت، جرأت ایمانی ، شجاعت اور دلیری کے ایمان افروز واقعات

خطبہ جمعہ 2؍ مارچ 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج مَیں پھر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ واقعات پیش کروں گا جو ان کے احمدیت قبول کرنے کے بعد جرأت اور شجاعت کے متعلق ہیں۔ نیز ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کتنی گہرائی میں وہ دین کو سمجھنے، قرآن کوسمجھنے کی کوشش کرتے تھے اور جب ایک دفعہ سمجھ آ جاتی تھی اور قبول کر لیا تو پھر اس راہ کی ہر تکلیف اور ہر ظلم کو انہوں نے برداشت کیا۔ رجسٹر روایات صحابہ سے مختلف عنوانوں کے تحت میں نے واقعات اکٹھے کروائے ہیں جو مختلف وقتوں میں پیش کرتا رہوں گا۔

بہرحال اس وقت چند واقعات ہیں جن سے اُن کی شجاعت اور دلیری کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں اور ایوب بیگ، مولوی عبداللہ ٹونکی کے مکان پر گئے اور مولوی عبداللہ ٹونکی کو مرزا ایوب بیگ صاحب نے پوچھا کہ آپ نے ہم کو اور ہمارے آقا کو یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کافر کیوں کہا ہے؟ مولوی صاحب اور یئنٹل کالج میں عربی کے پروفیسر تھے اور فتوی کفر میں انہوں نے بھی اپنی مہر ثبت کی تھی۔ مرزا صاحب کے سوال پر (یعنی مرزا ایوب بیگ کے سوال پر) اُس نے کہا کہ چونکہ (فلاں فلاں مولوی)، مولوی غلام دستگیر قصوری، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی نذیر حسین دہلوی، مولوی عبدالجبار غزنوی نے فتویٰ دیا ہے اس لئے مَیں نے بھی لکھ دیا۔ تو حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب نے اس کوکہا بڑی دلیری سے کہ چونکہ یہ تمام جہنم میں جائیں اس لئے آپ بھی ساتھ (جہنم میں ) جائیں۔ اس پر کہنے لگا مَیں نے غلطی کی ہے۔ مَیں نے مرزا صاحب کی کتابوں کو نہیں دیکھا۔ اس پر ہم دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سب کتابیں جو اُس وقت لکھی جا چکی تھیں، اُس کے گھر جا کر دے آئے اور تین مہینے کے لئے اُس سے کہہ دیا کہ آپ ان کا مطالعہ فرما لیں۔ تین ماہ کے بعد ہم پھر گئے۔ پھر کہنے لگا کہ آپ بچے ہیں۔ (یہ دونوں نوجوان تھے۔ ان کو کہنے لگا کہ آپ بچے ہیں۔ ) ابھی آپ نہیں سمجھ سکتے۔ (کہتے ہیں ) مرزا (ایوب بیگ) صاحب نے فرمایا کہ بی۔ اے پاس تو مَیں ہوں۔ (پڑھالکھاہوں، بی۔ اے پاس ہوں۔ ) اگر انگریزی آپ نے پڑھنی ہے تو مجھ سے پڑھ سکتے ہیں۔ اگر مجھے کبھی عربی پڑھنے کی ضرورت ہوئی تو آپ سے پڑھ لوں گا۔ اگر ہم آپ کے خیال میں بچے ہی ہیں تو بچوں پر تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں۔ کیا آپ ایسا ہمیں لکھ کر دے سکتے ہیں۔ (پھر ہم وہاں سے آ گئے۔ کہتے ہیں ) تیسری دفعہ (ہم) پھر گئے اور خواجہ کمال الدین کے خسر خلیفہ رجب الدین کو ساتھ لے گئے کیونکہ وہ بوڑھا تھا۔ ہم اس خیال پر اُسے ساتھ لے گئے کہ اگر وہ اب کے بھی کہے گا کہ تم ناسمجھ بچے ہو تو ہم خلیفہ صاحب کو پیش کر دیں گے۔ اس پر مولوی عبداللہ نے خلیفہ رجب الدین (صاحب سے ادھر اُدھر کی) باتیں شروع کیں کہ بہت اچھا ہوا کہ مسلمانوں نے آٹے دال کی دکانیں کھول لی ہیں اور مٹی کے برتنوں کی دکانیں کھول لی ہیں۔ (لکھتے ہیں کہ) یہ لیکھرام کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس پر ایوب بیگ نے مولوی عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ الٰہی قیامت کے دن میں خدا کے سامنے اسی طرح مولوی عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر کہوں گا کہ الٰہی ! تین دفعہ ہم اس کے مکان پر چل کر گئے۔ اس نے ہم کو نہیں سمجھایا کہ ہم کیوں کافر ہیں۔ اس پر مولوی عبداللہ ٹونکی نے کہا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اس پر ایوب بیگ صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ خدا تعالیٰ کی بھی پرواہ نہیں کرتے تو میں آپ کو عمر بھر کبھی السلام علیکم نہیں کہوں گا۔ پھر وہاں سے ہم اُٹھ کر چلے آئے۔ اور پھر آئندہ اس عہد کو مرزا ایوب بیگ نے اپنی زندگی بھر پورا کیا۔ اور مَیں نے مولوی عبداللہ کی زندگی تک پورا کیا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 9 صفحہ 26 تا 28)

یہ ڈھٹائی جو ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی ہے، جو اُس وقت سے چلی آ رہی ہے اور آج تک چلتی چلی جا رہی ہے۔ کتابیں پڑھتے نہیں یا کچھ حصہ پڑھ لیں گے اور بغیر سیاق و سباق کے یا دیکھا دیکھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کرنے شروع کر دیں گے بلکہ عرب ملکوں میں تو اکثر جو واقعات وہاں سے آتے ہیں وہ یہی ہے کہ پاکستان کے مولویوں نے متفقہ طور پر کیونکہ احمدیوں کو کافر کہہ دیا اس لئے اب یہ کافر ہیں ہمیں اور کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ تو احمدیت کی ابتدا سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ آج تک اُسی طرح چلتا چلا جا رہا ہے۔

حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب کچھ دن سکول نہیں گئے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ چوتھے روز مَیں سکول گیا تو مجھے ایک شخص مرزا رحمت علی صاحب آف ڈسکہ جو انجمن حمایتِ اسلام میں ملازم تھے، (انہوں ) نے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ تم چار دن کہاں تھے۔ مَیں نے صاف صاف اُن سے عرض کر دیا کہ مَیں قادیان گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیعت کر آئے؟ مَیں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے فرمایا کہ یہاں مت ذکر کرنا۔ مَیں بھی احمدی ہوں اور مَیں نے بیعت کی ہوئی ہے مگرمَیں یہاں کسی کو نہیں بتاتا تا کہ لوگ تنگ نہ کریں۔ مگر مَیں نے اُن سے عرض کیا کہ مَیں تو اس کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا چاہے کچھ ہو۔ چنانچہ ہمارے استاد مولوی زین العابدین صاحب جو مولوی غلام رسول قلعہ والوں کے بھانجے تھے اور ہمارے قرآن حدیث کے استاد تھے اُن سے مَیں نے ذکر کیا کہ مَیں احمدی ہو گیا ہوں۔ اس پر انہوں نے بہت برا منایا اور دن بدن میرے ساتھ سختی کرنی شروع کر دی۔ حتی کہ وہ فرماتے تھے کہ جو مرزا کو مانے، سب نبیوں کا منکر ہوتا ہے۔ اور اکثر مجھے وہ کہتے تھے کہ توبہ کرو اور بیعت فسخ کر لو۔ مگر مَیں اُن سے ہمیشہ قرآنِ شریف کے ذریعے حیات و فاتِ مسیح پر گفتگو کرتا جس کا وہ کچھ جواب نہ دیتے اور مخالفت میں اس قدر بڑھ گئے کہ جب اُن کی گھنٹی آئے، (یعنی اُن کا پیریڈ جب آتا تھا) تو وہ مجھے مخاطب کرتے تھے۔ او مرزائی! بنچ پر کھڑا ہو جا۔ میں اُن کے حکم کے مطابق بنچ پر کھڑا ہو جاتا اور پوچھتا کہ میرا کیا قصور ہے؟ وہ کہتے کہ یہی کافی قصور ہے کہ تم مرزائی ہو اور کافر ہو۔ کچھ عرصے تک مَیں نے ان کی اس تکلیف دہی کو برداشت کیا۔ پھر مجھے ایک دن خیال آیا کہ مَیں پرنسپل کو جو نو مسلم تھے اور اُن کا نام حاکم علی تھا کیوں نہ جا کر شکایت کروں کہ بعض استاد مجھے اس وجہ سے مارتے ہیں کہ مَیں احمدی کیوں ہوگیا ہوں۔ اس پر انہوں نے ایک سرکلر جاری کر دیا کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کوئی مدرس، (کوئی ٹیچر) کسی لڑکے کو کوئی سزا نہ دے۔ چنانچہ اس آرڈر کے آنے پر مولوی زین العابدین صاحب اور اُن کے ہم خیال استاد ڈھیلے پڑ گئے اور مجھ پر جو سختی کرتے تھے اُس میں کمی ہو گئی۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 9 صفحہ 127 تا 129)

یہ واقعات کوئی سو سال پرانے نہیں ہیں۔ اُس جہالت کے وقت کے نہیں ہیں بلکہ آج بھی پاکستان میں دہرائے جاتے ہیں۔ آج بھی بچوں سے یہی سلوک ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک طالب علم کا مجھے خط آیا۔ اُس کے بڑے اچھے نمبر تھے۔ ان نمبروں کی بنا پرکالج میں داخلہ مل گیا۔ فیس جمع کروانے گیا تو وہاں انتظامیہ کے کچھ اور بھی افسر بیٹھے تھے۔ انہیں کہیں سے پتہ لگ گیا کہ یہ احمدی ہے تو انہوں نے پوچھا کہ تم احمدی ہو؟ اُس نے کہا کہ ہاں میں احمدی ہوں۔ انہوں نے کہا یہ لو پیسے اور تمہارا داخلہ کینسل اور آئندہ یہاں نظر نہ آنا۔ نہیں تو تمہاری ٹانگیں توڑ دیں گے۔

اسی طرح چند دن ہوئے مجھے ایک لڑکی کا خط آیا۔ بڑے اچھے نمبر اُس کے آئے، پڑھائی میں ہوشیار ہے لیکن بورڈ کے امتحان کا جو داخلہ فارم ہے۔ اب انہوں نے نیا فارم بنایا ہے، کمپیوٹرائز فارم ہے۔ جس پر ٹِک (Tick) کرنا ہے، مسلم یا نان مسلم۔ پہلے تو ہمارے بچے احمدی لکھ دیا کرتے تھے اور اب وہ آپشن (Option) نہیں رہی۔ یہ بچی کہتی ہے کہ کیونکہ آپ نے کہا ہوا ہے کہ مسلمان لکھنا ہے تو مَیں مسلمان کے کالم پر ٹک کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دینے کی جو ڈیکلریشن ہے اُس پر بھی دستخط کرو۔ وہ جب ہم نہیں کرتے تو داخلہ کینسل ہو جاتا ہے۔ تو یہ سختیاں سکول کے بچوں پر اور اچھے بھلے ہوشیار بچوں پر آج بھی ہو رہی ہیں۔ وہاں تو پرنسپل انصاف پسند تھا۔ اُس نے کچھ انصاف کیا اُس نے اور ان پریہ سختی بند ہو گئی۔ لیکن آجکل تو حکومتی قانون کے تحت یہ بے انصافی کی جارہی ہے اور انتہاتک کی جا رہی ہے اَور کافی اور بچے بھی ہیں جو اِس لحاظ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بہر حال یہ ظلم چل رہا ہے لیکن اس ظلم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو آجکل کے ہمارے نوجوان ہیں ان کے ایمان بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت مہر غلام حسن صاحب اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں اور مولوی فیض دین صاحب بیٹھے تھے (کہ) ایک شخص بنام رحیم بخش صاحب قوم درزی یہاں آیا۔ آ کر کہنے لگا کہ مولوی صاحب! آج طبیعت بہت پریشان ہے۔ مَیں نے اُس کی وجہ پوچھی تو وہ بیان کرنے لگے کہ حامد شاہ ایک فرشتہ اور باخدا آدمی ہے۔ ہندو مسلمان اُن کی تعریف کرتے ہیں۔ (سب اُس کی تعریف کر رہے ہیں، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ہو۔) آج اُن سے (ایک) بہت (بڑی) غلطی ہوئی ہے۔ آج انہوں نے اپنے ماموں عمر شاہ کو کہا ہے کہ ماموں جان! آپ کا حضرت ابنِ مریم کے متعلق کیا خیال ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹا! میرا تو یہی مذہب ہے کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں۔ کسی زمانے میں امتِ محمدیہ کی اصلاح کے لئے آئیں گے۔ شاہ صاحب نے کہا کہ ماموں صاحب! آج سے آپ میرے امام نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے کہ ایک انسان کو حی و قیوم اور لازوال مانا جائے۔ دوسری بات یہ کہ سید و مولیٰ سرورِ کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اس عقیدے سے بڑی ہتک ہوتی ہے کہ وہ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسیٰ آسمان پر اُٹھائے جائیں۔ عمر شاہ نے اس پر کہا کہ اچھا بیٹا آپ آگے کھڑے ہوا کریں اور مَیں پیچھے پڑھا کروں گا۔ (کہتے ہیں اُن کی یہ باتیں سنتے ہی) مَیں نے کہا کہ مولوی صاحب! مَیں نے مان لیا ہے کہ مسیح مر گیا ہے۔ اگر مسیح زندہ رہیں تو توحید میں بڑا فرق آتا ہے۔ آپ یہ مت خیال کریں کہ احمدی ہوں۔ مَیں ابھی تک احمدی نہیں مگر مرزا صاحب کی یہ بات ضرور سچی ہے۔ مَیں کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی جائے۔ مولوی صاحب نے میرے منہ کے آگے ہاتھ رکھ دیا۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب! کیوں روکتے ہیں؟۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر آپ کا عقیدہ ہو گیا ہے کہ مسیح مر گیا ہے تو اتنا جوش و خروش دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ (ٹھیک ہے۔ آپ نے مان لیا تو آرام سے چپ کر کے بیٹھے رہیں۔ کہتے ہیں ) مَیں نے کہا مولوی صاحب! مسجد سے نکلتے ہی مَیں منادی کرتا چلا جاؤں گا، (لوگوں کو بتاتا چلا جاؤں گا) کہ اگر حضرت عیسیٰ آسمان پر ہے تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہتک ہے۔ یہ میری جان گوارا نہیں کر سکتی۔ مَیں نے جاتے ہی اپنے والد صاحب کو سمجھایا اور میرا بڑا بھائی غلام حسین جو عارف والے کا امیر جماعت ہے، (اُس وقت احمدی نہیں تھے) وہ دونوں (میری بات سن کر)جل کر آگ بگولہ ہو گئے۔ اور میرا نام دجال، ملعون وغیرہ رکھا۔ (کہتے ہیں ) مجھے یہ خیال آیا کہ کل مجھ پر مولویوں کا حملہ ہو گا۔ مَیں نے رات کے وقت اس احمدی کو جس کو ہم نے مسجد سے روکا تھا، ایک نوکر کے ذریعہ بلایا (ابھی یہ احمدی نہیں ہوئے تھے لیکن اپنا عقیدہ بیان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے جب عقیدہ بیان کیا تو پھر مجھے خیال آیا کہ والدین سے بھی اور بھائی سے بھی ڈانٹ ڈپٹ ہو چکی ہے، اب مولوی بھی میرے پیچھے پڑیں گے تو مَیں نے اُس احمدی کو بلوایا جس کو ہم نے اس وجہ سے مسجد سے نکالا تھا۔ ) مَیں نے اُسے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے وفات مسیح پر کوئی دلیل بھی دی ہے یا یونہی کہہ دیا ہے؟ اُس نے کہا کہ تیس آیات پیش کی ہیں۔ مَیں نے حیران ہو کر کہا کہ ہم دن رات قرآن پڑھتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ ایک ہی آیت ہمیں بتا دو۔ اُس نے ساتویں سپارے کی آیت ’’فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ‘‘ (المائدہ: 118) بتا دی۔ مَیں نے کہا کہ اب میری تسلی ہو گئی۔ اب کوئی مولوی میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ فجر کے وقت مولوی غلام حسن صاحب اور مولوی فیض دین صاحب اور دو تین اور آدمی میرے بھائی کے ہمراہ آئے۔ مَیں مسجد کے دروازے میں کھڑا تھا کہ یہ جا پہنچے۔ مولوی غلام حسن نے کہا کہ مسیح کے آپ کیوں دشمن ہوئے ہیں؟ مَیں نے کہا مولوی صاحب! میں نے کیا دشمنی کی؟ وہ کہنے لگے کہ آپ کا بھائی کہتا ہے کہ یہ مسیح کی موت کا قائل ہو گیا ہے۔ (یعنی اُس بھائی نے یہ شکایت کی تھی۔ تو) مَیں نے کہا مولوی صاحب! کیاکریں وہ تو خود اپنی موت کا اقرار کر رہا ہے اور آپ کی مثال مدعی سست اور گواہ چست کی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا۔ (یہ) کہاں لکھا (ہوا) ہے (کہ مسیح نے اپنی وفات کا خود اقرار کیاہے۔ ) مَیں نے کہا قرآن میں۔ وہ کہنے لگے (کہ) کونسا قرآن؟ جو مرزا صاحب نے بنا دیا؟ میں نے کہا مولوی صاحب ذرا ہوش سے بولیں۔ خدا پر حملہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ (اللہ تعالیٰ) تو فرماتا ہے کہ میرے قرآن کی کوئی مثل نہیں لا سکتا اور آپ یہ کہہ رہے ہیں (کہ مرزا صاحب قرآنِ کریم نے بنا دیا، کچھ تو ہوش کریں۔ ) کہنے لگے کہاں لکھا ہے؟ مَیں نے ساتویں پارے کی آیت پڑھی۔ کہنے لگے ہم تمہیں ایک ہی گُر بتاتے ہیں کہ ان بے ایمانوں (یعنی احمدیوں ) کے ساتھ بات نہ کی جائے، (تبھی تم بچ سکتے ہو اور کوئی گُر نہیں ہے۔ ) بلکہ نظر کے ساتھ نظر نہ ملائی جائے۔ (اگر نظر ملاؤ گے) تو بھی اثر ہو جاتا ہے۔ (ان دو گُرو ں کو یاد رکھو تو بچ کر رہو گے۔ کہتے ہیں ) مَیں نے کہا مولوی صاحب! سچائی کا اثر ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔ (یہ جو آپ مجھے گُر بتا رہے ہیں یہ تو سچائی کی نشانی ہے۔ ) مولوی صاحب واپس ہو کر چلے گئے۔ میرا بھائی جو مخالف تھا وہ نیروبی میں چلا گیا۔ مَیں نے بیعت کر لی۔ والد صاحب اور بیوی کو بھی سمجھا لیا۔ گویا سب کو سمجھا لیا۔ بھائی کو نیروبی میں جا کر سمجھ آئی۔ وہ دس ماہ کے بعد واپس چلے آئے اور آتے ہی بیعت کر لی۔ (لکھتے ہیں ) اب خدا کے فضل سے(جب یہ واقعہ لکھ رہے تھے کہ) ہمارے محلے میں سو ڈیڑھ سو افراد احمدی ہیں۔ آج بھی یہی لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نہ ان سے بات کرو، نہ ان سے نظر ملاؤ۔ اور یہ صرف آج کی بات نہیں ہے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے بھی یہی کہا جاتا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تھا۔ وہ مشہور واقعہ جو حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی کا آتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مَیں مکہ میں آیا، تو قریش نے مجھے کہا کہ تم ایک معزز سردار ہو اور سمجھ دار شاعر ہو۔ تم ہمارے ملک میں آئے ہو۔ تمہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ایک شخص نے ہمارے درمیان دعویٰ کیا ہوا ہے اور ہمارے اندر تفرقہ ڈال دیا ہے اور ہمیں پراگندہ کر دیا ہے۔ اس کے کلام میں جادو ہے جس سے باپ بیٹے اور بھائی بھائی اور میاں بیوی علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ آپ اور آپ کی قوم بھی، اگر ان کی باتیں آپ نے سن لیں تو وہی حال نہ ہو جائے جو ہمارا ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس شخص سے نہ بات کرنا، نہ اس کی بات سننا۔ کہتے ہیں کفار نے اس قدر اصرار کیا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مَیں آپؐ کی بات نہیں سنوں گا۔ بلکہ جب مسجد، خانہ کعبہ میں گیا تو اس ڈر سے کانوں میں روئی ڈال لی کہ کہیں آپ کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز میں مشغول تھے۔ مَیں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر نے آپ کا کچھ کلام مجھے سنوا ہی دیا جو مجھے اچھا لگا۔ تو مَیں نے دل میں کہا کہ تمہارا برا ہو۔ تم ایک زیرک انسان ہو۔ عقل مند ہو۔ شاعر ہو۔ اچھے بُرے کی تمیز جانتے ہو۔ اس شخص کا کلام تو سننا چاہئے۔ اگر باتیں اچھی ہوں گی تو مان لینا۔ اگر بری ہوئیں تو ترک کر دینا۔ کہتے ہیں بہر حال مَیں وہیں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی۔ گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا۔ اور جب حضور گھر پہنچے تو مَیں آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کی قوم نے مجھے آپ کے بارے میں یہ باتیں بتائی ہیں اور انہوں نے مجھے اس قدر اصرار سے ڈرایا ہے کہ مَیں نے ڈر کے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے۔ کہیں آپ کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر نے مجھے کچھ باتیں سنوا دی ہیں اور مجھے وہ اچھی لگیں۔ اب مَیں آپ کی باتیں سننا چاہتا ہوں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآنِ کریم سنایا۔ اور کہتے ہیں کہ خدا کی قَسم! مَیں نے اس سے خوبصورت کلام کبھی نہیں سنا تھا۔ اور اس سے زیادہ درست بات نہ سنی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کر لیا۔ (دلائل النبوّۃ للبیھقی۔ باب قصّۃ دوس والطفیل بن عمرو رضی اللّہ عنہ)

تو یہ ہمیشہ سے مخالفین کا طریقہ چلا آ رہا ہے۔ جادو اگر ہوتا ہے تو مخالفین کی طرف سے ہوتا ہے۔ کبھی انبیاء کی طرف سے نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہی دلیل دی ہے کہ جادو کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اور اگر ان کے نزدیک یہ جادو کامیاب ہو رہا ہے تو پھر قرآنی دلیل کے مطابق یہ جادو نہیں بلکہ سچائی ہے جس کو ان کو بھی قبول کر لینا چاہئے۔

اسی طرح حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں (یہ جموں کے رہنے والے تھے، خلیفہ نور الدین کہلاتے تھے)یہ لکھتے ہیں کہ ’’مَیں مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی کو ایک سال تک سمجھاتا رہا۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ مرزا صاحب پر علماء نے کفر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ تمہارے باپ پر بھی تو مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مولوی صاحب (غالباً مولوی محمد لکھوکے والے) کے متعلق کہا کہ اُسے بھی الہام ہوتا ہے۔ اس سے لکھ کر پوچھتا ہوں کہ مرزا صاحب کے دعویٰ کے متعلق خدا کا کیا حکم ہے۔ ایک ماہ بعد اس مولوی کا یہ جواب آیا کہ مَیں نے دعا کی تھی، (جواب سنیں ذرا مولوی صاحب کا) مَیں نے دعا کی تھی، خدا کی طرف سے جواب ملا ہے کہ ’’مرزا صاحب کافر‘‘۔ مَیں بھدرواہ کام پر گیا ہوا تھا۔ جب جموں واپس آیا تو مجھے یہ خط دکھلایا گیا۔ مَیں نے کہا کہ الہام کرنے والا خدا نعوذ باللہ کوئی بڑا ڈرپوک خدا ہے جومرزا صاحب کو کافر بھی کہتا ہے اور ساتھ ’’صاحب‘‘ بھی بولتا ہے۔ (یہ نکتہ بھی انہوں نے اچھا نکالا کہ کہہ رہا ہے کہ ’مرزا صاحب کافر‘۔ ایک طرف تو اللہ کہہ رہا ہے کہ کافر ہے اور دوسرے ’صاحب‘ کا لفظ بھی استعمال کر رہا ہے جو بڑا عزت کا لفظ ہے۔ ) ایسے ڈرپوک خدا کا الہام قابل اعتبار نہیں۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 66 تا 67)۔ تو اس طرح بھی یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے نکتے نکالا کرتے تھے۔

حکیم عبدالصمد خان صاحب ولد حکیم عبدالغنی صاحب دہلی کے تھے۔ انہوں نے 1905ء میں بیعت کی تھی یہ لکھتے ہیں کہ ’’مَیں 1891ء میں ایک مولوی صاحب سے جلالین پڑھا کرتا تھا۔ اس میں یٰعِیْسٰٓی اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ (آل عمران 56: ) والی آیت آ گئی جس کی تفسیر میں لکھا تھا (کہ) رَافِعُکَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا مِنْ غَیْرِ مَوْتٍ۔ مَیں حیران ہوا کہ مِنْ غَیْرِ مَوْت کہاں سے آ گیا۔ یہ متن کی تفسیر ہو رہی ہے یا متن کا مقابلہ ہو رہا ہے؟ رات غور کرتے کرتے دو بج گئے۔ اتفاقاً والد صاحب کی آنکھ کھلی۔ انہوں نے اتنی دیر جاگنے کا سبب دریافت کیا۔ میں نے اصل حقیقت کہہ سنائی۔ فرمایا۔ میاں استاد کس لئے ہوتا ہے۔ تم صبح جا کر مولوی صاحب سے یہ معاملہ حل کروا لینا۔ چنانچہ مَیں صبح مولوی صاحب کے پاس گیا اور سارا قصہ کہہ سنایا۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ میاں متقدمین سے لے کر متأخرین تک سب کا یہی مذہب چلا آتا ہے۔ اس میں جھگڑا مت کرو۔ (کہ شروع سے یہی مسئلہ چلا آ رہا ہے، چھوڑو اس کو۔ ) مگر مَیں نے کہا کہ جب تک میری سمجھ میں نہ آئے میں آگے ہرگز نہیں چلوں گا۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئے۔ میرے والد صاحب کو بھی بلوایا۔ مگر انہوں نے کہا کہ آپ استاد ہیں اور یہ شاگرد۔ (میرے استاد کو کہہ دیا کہ تم استاد ہو۔ یہ تمہارا شاگرد ہے۔ مَیں نے تمہارے پاس پڑھنے بھیجا ہے۔ ) آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔ مَیں اس میں دخل نہیں دیتا۔ اور یہ کہہ کر (والد صاحب تو اُٹھ کر) چلے گئے۔ اور مولوی صاحب نے پھر مجھے کہنا شروع کیا کہ پڑھو۔ مَیں نے کہا جب تک آپ سمجھائیں نہ، مَیں کیسے پڑھ سکتا ہوں۔ اس پر مولوی صاحب کو غصہ آیا۔ اور انہوں نے مجھے ایک تھپڑ مار کر کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرزا کو۔ مَیں حیران ہوا کہ یہ مرزا کون ہے؟ (اُن کی واقفیت بھی نہیں تھی۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام بھی نہیں سنا تھا۔ کہتے ہیں مَیں حیران ہو گیا اس بات پر کہ مرزا کون ہے؟) ساتھ ہی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں کس اَصل پر قائم ہوں؟ (بہر حال یہ میرا خیال نہیں ہے بلکہ اس کی کوئی بنیاد ہے۔ میرے دل میں جو یہ خیال آیا تو اور لوگ بھی ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں۔ ) یونہی مَیں نے وقت ضائع نہیں کیا۔ اس پر مَیں نے مولوی صاحب کوکہا کہ آپ جب تک سمجھائیں گے نہیں مَیں آگے نہیں چلوں گا۔ یہ دین ہے اور دین میں جبر جائز نہیں۔ آج آپ تھپڑ مار کر مجھے اپنے مذہب پر کر لیں گے۔ کل کو کوئی اور مولوی صاحب دو تھپڑ مار کر اس کے مخالف کہلوا لیں گے اور پرسوں کوئی تین تھپڑ مار کر ان کے بھی خلاف کہلوا لے گا۔ تو یہ کیا مذاق ہے؟ میں ہرگز نہیں پڑھوں گا۔ (اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہر بات کو پُرانے لوگ یونہی نہیں مان لیا کرتے تھے۔ بڑی گہرائی میں جایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں ) اس جھگڑے میں گیارہ بج گئے مگر میں نے نہ پڑھنا تھا نہ پڑھا۔ شام کو دوسرے استاد کے پاس گیا۔ اُس نے بھی کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرزا کو۔ (پھر اُس نے بھی یہی بات دہرائی کہ ایک تم یہ بات کر رہے ہو، اس کا مطلب پوچھ رہے ہو، دوسرا ایک اور شخص ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ دیا۔ کہتے ہیں ) اس سے میرا دل اور مضبوط ہو گیا کہ میری بات کمزور نہیں ہے۔ پھر تیسرے استاد مولوی عبدالوہاب صاحب کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو بڑا قصہ ہے۔ اس کا تو مدعی موجود ہے جو کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں اور جس عیسیٰ کی آمد کا لوگ انتظار کر رہے ہیں وہ مَیں ہوں۔ مَیں نے کہا پہلی بات تو میری سمجھ میں آ گئی ہے مگر دوسری کا ابھی پتہ نہیں لگا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں پنجاب میں گیاتھا۔ بائیس دن وہاں رہا۔ اُن کا ایک مرید مولانا نورالدین ہے۔ حکمت میں تو اُس کا کوئی ثانی نہیں اور مَیں نے اُس کے دینی درسوں کو بھی سُنا ہے۔ بڑے بڑے مولوی اُسکے سامنے دَم نہیں مار سکتے۔ انہوں نے اپنی بیعت کا ذکر نہ کیا۔ (گو یہ مولوی صاحب بیعت کر آئے تھے لیکن اس نوجوان کے سامنے بیعت کا ذکر نہیں کیا) کیونکہ وہ مخالفت سے ڈرتے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ اونچا مت بولو۔ مولوی عبدالغفور صاحب سُن لیں گے۔ (کوئی دوسرے غیراحمدی مولوی تھے جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ) مَیں نے کہا مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ مَیں صداقت کے اظہار سے کیسے رُک سکتا ہوں۔ خیر اسی طرح پڑھتے پڑھتے 1905ء کا زمانہ آ گیا۔ (کہتے ہیں میں نے پڑھائی جاری رکھی۔ سال 1905ء آگیا۔ ) حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے اور الف خان صاحب سیاہی والے کے وسیع مکان میں فروکش ہوئے۔ ہزارہا لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے گئے۔ مَیں بھی گیا۔ میں مخالف مولویوں کے ساتھ گیا۔ اُن میں طلباء زیادہ تھے اور ہمارے سرغنہ مولوی مشتاق علی تھے۔ انہوں نے حضرت صاحب پر کچھ اعتراض کرنے شروع کئے جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ٹھہر جائیں اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کاغذ اور قلم دوات لے کر ایک مضمون لکھا اور وہ مولوی مشتاق علی صاحب کو دیا کہ آپ اُسے پڑھ لیں۔ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو مجھ سے دریافت کر لیں اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی لکھ لیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہیں ایک چھوٹا سا مضمون لکھا، اُس غیر احمدی مولوی کو ہی دیا کہ اسے پڑھ لیں اور سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لیں اور ساتھ جو مَیں نے مضمون لکھا ہے اس کا جواب مجھے لکھ دیں۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس غیر احمدی مولوی کو یہ کہا کہ) پہلے آپ میرا مضمون سنا دیں (خود ہی پڑھ کے، ) اس کے بعد اس کا جواب (جو آپ لکھیں گے وہ) سنا دیں۔ (تو) مولوی صاحب نے بغیر جواب لکھے حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا مضمون سنانا شروع کر دیا۔ حضرت صاحب نے پھر فرمایا کہ اگر جواب آپ لکھ لیتے تو اچھا تھا۔ (خود بھی اس کا جواب لکھ لیتے تا کہ وقت نہ ضائع ہوتا۔ ) مگر انہوں نے کہا کہ نہیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مضمون پڑھنا شروع کر دیا کہ) مَیں زبانی جواب دے دوں گا۔ (مجھے آپ کے اس مضمون کا جواب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ) خیر انہوں نے حضرت صاحب کا مضمون پڑھ کر سنا دیا اور جب سارا مضمون پڑھ کے سنا دیا تو (اس کے بعد) دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ جواب نہیں دے سکے۔ ساتھ کے طلباء میں سے بعض نے کہا کہ اگر ہم کو یہ معلوم ہوتا کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے تو ہم کسی اور کو سرغنہ بنا لیتے۔ آپ نے ہمیں بھی شرمندہ کیا۔ اس پر مولوی صاحب نے ایک طالب علم کو تھپڑ مارا۔ (جواب تو آیا نہیں، غصے میں تھپڑ مار دیا۔ ) اور اُس نے مولوی صاحب کو مارا۔ (اُس نے بھی جواب میں آگے سے مار دیا۔ ہمارے مفتی محمد صادق صاحب تھے، انہوں نے ان دونوں غیر احمدیوں کی لڑائی چھڑائی۔ ) اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر شروع ہو گئی اور حضرت صاحب کی تقریر میں لوگوں نے کچھ شور کیا۔ جماعت کے لوگوں نے حضرت صاحب کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ اُس میں کچھ تھوڑی سی جگہ کھلی رہ گئی تھی۔ (کہتے ہیں ) مَیں وہاں (جا کے) کھڑا ہو گیا۔ (ابھی یہ احمدی نہیں ہوئے تھے۔ تو) اکبر خان ایک احمدی چپڑاسی تھے، انہوں نے مجھے مخالف سمجھ کر دھکا دے کر وہاں سے ہٹا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر مَیں وہاں کھڑا ہو گیا۔ (دل میں تھوڑی سی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ایک محبت پیدا ہو چکی تھی اس لئے وہ خالی جگہ دیکھ کر وہاں کھڑے ہو گئے کہ کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ کہتے ہیں اُس نے پھر مجھے دھکا دیا۔ جب وہ دوبارہ) دھکا دینے کے لئے آگے بڑھے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت خلیفہ اول نے اُن کو روکا کہ کیوں دھکا دیتے ہو؟ اکبر خان نے کہا کہ حضور! یہ مخالف ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھ لیا ہے؟ جو آتا ہے اُس کو آنے دو۔ اس کے بعد مولوی چمریاں والا کھڑا ہو گیا (وہ بھی کوئی نام تھا، مولوی چمریاں والا) اُس نے حضرت صاحب کے متعلق بعض بیہودہ الفاظ کہے۔ اس پر مَیں نے کہا کہ او چمریاں والے! زیادہ بکواس کی تو تیری زبان پکڑ کرکھینچ لوں گا۔ اس پر حافظ عبدالمجیدنے اُس کو منع کیا کہ اس وقت اپنی فوج کی سپاہ بگڑ رہی ہے۔ (اس وقت خاموش رہو اور اخلاق کے دائرے سے باہر نہ نکلو کیونکہ اپنے ہی جو لوگ ہیں وہ بگڑ رہے ہیں ہمیں اپنوں سے ہی مار پڑ جانی ہے۔ اس لئے خاموش کھڑے رہو۔ ) لہٰذا تم خاموش رہو۔ کہتے ہیں حضرت صاحب نے تقریر میں فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا کہ جو لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے وہ اس دعا کو کثرت سے پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کی پنجوقتہ نمازوں میں بتلائی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6) چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت کثرت سے پڑھیں۔ زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک (اگر نیک نیتی سے پڑھیں گے تو) اللہ تعالیٰ اُن پر حق ظاہر کر دے گا۔ (کہتے ہیں ) میں نے تو اُسی وقت سے شروع کر دیا۔ مجھ پر تو ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی حق کھل گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ ’حامد‘ کے محلہ کی مسجد میں ہوں۔ (حامد محلے کا نام ہے اس کی مسجد میں ہوں۔ ) وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں۔ (انہوں نے خواب میں دیکھا۔ ) مَیں حضرت صاحب کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نابینا مولوی نے مجھ کو روکا۔ دوسری طرف سے مَیں نے بڑھنا چاہا تو اُس نے اُدھر سے بھی روک لیا۔ پھر تیسری مرتبہ مَیں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو اُس نے مجھ کو پھر روکا۔ تب مجھے غصہ آ گیا اور مَیں نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ (خواب بتا رہے ہیں کہ) حضرت صاحب نے (خواب میں اُنہیں ) فرمایاکہ نہیں، غصہ نہ کرو۔ مارو نہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! میں تو حضور سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ مجھ کو روکتا ہے۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ مَیں نے صبح میر قاسم علی صاحب اور مولوی محبوب احمد اور مستری قادر بخش کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ میر صاحب نے کہا اسے لکھ دو۔ مَیں نے لکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نیچے لکھ دو کہ میں اپنے اس خواب کو حضور کی خدمت میں ذریعہ بیعت قرار دیتا ہوں۔ مَیں نے لکھ دیا۔ مولوی محبوب احمد صاحب جو غیر احمدی تھے انہوں نے کہا کہ تم کو اپنے والد کا مزاج بھی معلوم ہے! وہ ایک گھڑی بھر بھی تم کو اپنے گھر نہیں رہنے دیں گے۔ مَیں نے کہا مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ خیر حضرت صاحب نے بیعت منظور کر لی اور مجھے لکھا کہ تمہاری بیعت قبول کی جاتی ہے۔ اگر تم پر کوئی گالیوں کا پہاڑ کیوں نہ توڑ دے، نگاہ اُٹھا کر مت دیکھنا۔ (چاہے جتنی مرضی گالیاں پڑیں، تو نے کوئی جواب نہیں دینا۔ ) اب پھر (کہتے ہیں ) مَیں اصل واقعہ کی طرف آتا ہوں۔ حضرت صاحب کی تقریر کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) نے تقریر کی۔ آپ کی تقریر کے بعد میں نے آپ سے مصافحہ کیا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ میاں تم نے دینیات میں کچھ پڑھا ہے؟ مَیں نے کہا حضور مشکوۃ اور جلالین پڑھی ہے۔ آپ نے پوچھا کہ فقہ میں کہاں تک پڑھا ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ قدوری اور (ایک اور نام صحیح طرح پڑھا نہیں جا رہا وہ پڑھی ہے۔ کیونکہ یہ روایات ساری ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں، اس لئے بعض لکھائی پڑھی نہیں جاتی تو) آپ نے دریافت کیا (کہ) منطق میں کہاں تک پڑھا ہے۔ مَیں نے کہا چھوٹے چھوٹے رسالے پڑھے ہیں۔ پھرمَیں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور جب واپس لوٹا تو مولوی عبدالحکیم صاحب نے کہا کہ تم اپنے ہاتھ راپنی سے چھلواؤ، (چھوٹا رمبہ ہوتا ہے جس سے جوتے بنانے والے یا چمڑے کاکام کرنے والے چمڑے کو چھیلتے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ تم نے کیونکہ حضرت مرزا صاحب سے مصافحہ کر لیا ہے۔ اس لئے اپنے ہاتھوں کی جو کھال ہے اس کو ادھڑواؤ۔ تب صاف ہو سکتے ہیں اس کے بغیر صاف نہیں ہو سکتے۔ ) کیونکہ ان ہاتھوں سے تم نے مرزا صاحب سے مصافحہ کیا ہے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 13 تا 19)۔ (نعوذ باللہ)۔ بہر حال یہ تو بیعت کر کے آ گئے۔

اسی طرح حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ایک واقعہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وزیر آباد میں ثمن راجگان کو جو وزیر آباد کے شمالی حصے میں موجود ہے ایک بڑا مکان جس میں ریاست راجوری کشمیر کے راجے مسلمان رہتے ہیں، ایک شخص مسمی اللہ والے نے راجہ عطاء اللہ خان صاحب مرحوم سفیر کابل کوجا کر کہا کہ یونہی لوگ غلام رسول کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ راجہ صاحب نے فرمایا تو پھر کیا ہے (یہ احمدی ہو گئے تھے تو انہوں نے کہا یونہی پڑ گئے ہیں ) حافظ صاحب کولاؤ۔ یہاں آ کر بیان کر دیں کہ ہم مسیح کا رفع جیسا قرآنِ مجید میں موجود ہے مانتے ہیں اور نزولِ مسیح جو حدیثوں میں آیا ہے وہ بھی بیان کر دیں۔ چنانچہ شہر میں منادی کی گئی اور مسلمانوں کے تمام فرقے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے۔ میں جانتا تھا جو مَیں نے کہنا ہے(یہ غلام رسول صاحب وزیرآبادی احمدی ہو چکے تھے) کہتے ہیں میں جانتا تھا جو مَیں نے کہنا ہے اور یہ بھی جانتا تھا کہ میری بات کو کسی نے نہیں سمجھنا۔ (اشاروں میں بات کروں گا)، صرف ایک شخص ہے جس کا نام حکم سلطان علی تھا، وہ میرے خاندان کا آدمی ہی تھا اگر کوئی سمجھا تو وہ سمجھے گا۔ الغرض جب میں پہنچا تو راجہ صاحب نے فرمایا کہ مسمی اللہ والے نے کہا ہے کہ حافظ صاحب مسیح کا رفع اور نزول مانتے ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ مَیں نے کہا بے شک۔ لوگ سب خاموش ہو جائیں تو میں بیان کر دیتا ہوں۔ چنانچہ جب سب خاموش ہو گئے۔ ہزارہا کے مجمع میں مَیں اکیلا ہی احمدی تھا۔ اُس وقت میں نے کہا سنو لوگو! جب قرآنِ مجید میں مسیح کا رفع آیا ہے اور جس طرح حدیث شریف میں نزول کا ذکر (آیا) ہے، مَیں اس کو برحق مانتا ہوں۔ جو اُس کو نہیں مانتا، میں اُس کو بے ایمان جانتا ہوں۔ اتنا لفظ کہنا تھا کہ مخلوق میں آفرین، مبارک بادی کے الفاظ بے ساختہ حاضرین کی زبان سے بآوازِ بلند شروع ہو گئے اور شور پڑ گیا۔ مَیں نے اُس وقت جلدی مجلس سے نکلنا غنیمت سمجھا اور نکل آیا۔ مگر میرے نکل آنے کے بعد اُس شخص حکیم سلطان علی نے میرے خیال کے مطابق جیسا کہ میں نے سوچا ہوا تھاراجہ صاحب کو کہہ دیا کہ تم لوگوں نے کچھ نہیں سمجھا، وہ تمہاری آنکھوں میں خاک جھونک کر چلا گیا۔ اُس کو پھر بلاؤ۔ چنانچہ ثمن کے دروازے سے نکلتے ہی کچھ آدمی میری تلاش کے لئے آئے کہ مجھے واپس لے جائیں مگر میں کسی اور راہ سے نکل کر گھر پہنچ گیا۔ رات خیر خیر سے گزری تو بعد از فجر راجہ صاحب کا ایک پیغامبر بابو فضل دین صاحب میرے پاس پہنچا اور کہا کہ راجہ صاحب اور دیگر اہلِ مجلس کہتے ہیں کہ رفع اور نزول کے فقروں سے ہمیں اطمینان نہیں ہوا۔ مَیں نے کہا کہ پھر کس طرح اطمینان ہو۔ اُس نے کہا کہ راجہ صاحب وغیرہ کہتے ہیں کہ جب تک آپ مرزا صاحب کو کافر نہ کہیں ہم نہیں مانتے۔ مَیں نے کہا مَیں کافر کیوں کہوں۔ اُس نے کہا کہ مولوی جو کہتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ چونکہ مولوی مرزا صاحب کو کافر کہتے ہیں مَیں بھی اُن (مولویوں ) کو کافر کہتا ہوں (یعنی دل میں کہا کہ مولویوں کوکافر کہتا ہوں۔ اُن کو کافر کہتا ہوں نیت میری یہی تھی کہ مولویوں کو کافر کہتا ہوں )اب وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔ جب اس مجلس میں جا کر کہا کہ لو جی اب تو مرزا صاحب کو بھی اُس نے کافر کہہ دیا ہے۔ پھر وہی سلطان علی بولا کہ میاں ! تم دوبارہ آنکھوں میں خاک ڈلوا آئے ہو۔ اُس نے تو مولویوں کو کافر کہا ہے۔ یہ نہیں۔ پھر جاؤ، جا کے کہوکہ یہ لفظ لکھ دے کہ مَیں مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) کو کافر کہتا ہوں (نعوذ باللہ)۔ پھر وہ آیا، مجھ سے یہ کہلوانا چاہا۔ آخر دو دن گزر گئے تھے۔ میرا دل بھی کچھ دلیر ہو گیا تو پھرمَیں نے صاف کہہ دیا کہ بھائی جو کچھ مَیں نے کہا تھا وہی ٹھیک ہے۔ یعنی مرزا صاحب کو جو کافر کہتے ہیں میں اُن کو کافر سمجھتا ہوں۔ پس پھر تو وہ مایوس ہو گئے۔ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ (المائدہ: 4)۔ (قرآن شریف کی یہ آیت انہوں نے یہاں لکھی ہوئی ہے کہ آج کے دن وہ لوگ جو کافر ہوئے، تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم اُن سے نہ ڈرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو)۔ کہتے ہیں۔ بس پھر مقدمات شروع ہو گئے۔ (ان کے خلاف مقدمے شروع ہو گئے۔ ) یہاں تک کہ جن لوگوں پر کبھی بھی جھوٹ بولنے کی امیدنہ تھی، انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کے لئے کھلم کھلا عدالتوں میں جھوٹ بولے۔ مگر مَیں نے ان کی کوئی پرواہ نہ کی، نہ کرتا ہوں۔ الغرض مَیں نے یہ واقعہ جو مرزا صاحب کو کافر کہتے ہیں مَیں اُن کو کافرکہتا ہوں، حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے حضور بیان کیا تو حضور کھلکھلا کر ہنسے۔ حضور نے فرمایا کہ دیکھو کتمانِ ایمان کا بھی ایک درجہ ہوتا ہے، (یعنی ایمان کو چھپانے کے لئے یا فساد سے بچنے کے لئے اخفاء رکھنا ایک درجہ ہوتا ہے) جیسا کہ سورۃ المؤمن میں۔ وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗٓ (المومن: 29)۔ آیا ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ موقع شناسی کر کے شریروں سے اپنی جان بچا لی۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 167، 170 تا 172)

پس یہ داستانیں ہیں جو احمدیوں پر سختی کی داستانیں ہیں، اُنہیں حق سے ہٹانے کی داستانیں ہیں، اُنہیں خوفزدہ کرنے کی داستانیں ہیں۔ یہ پرانے قصے نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا آج ایک سو تئیس سال گزرنے کے بعد بھی یہی کچھ احمدیوں سے روا رکھا جا رہا ہے لیکن احمدیت کا قافلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سب مخالفت کے باوجود آگے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتا چلا جائے گا۔ دنیا میں ہر جگہ احمدی اپنے ایمان کے اظہار میں پختہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھتے ہیں کہ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ۔ خوف ہے تو خدا کا، نہ کہ کسی مخلوق کا۔

اللہ تعالیٰ افرادِ جماعت میں ایمانوں کی مضبوطی اور زیادہ پیدا کرے، اور ہمیشہ نہ صرف قائم رکھے بلکہ بڑھاتا چلا جائے۔

آج پھر اسی طرح کا ایک واقعہ ہوا ہے کہ نوابشاہ کے ہمارے ایک بزرگ احمدی مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب ابن مکرم محمد یوسف صاحب کو شہید کیا گیا ہے۔ یہ مضبوط ایمانوں والے جو خاص طور پر پاکستان میں اپنا نمونہ دکھاتے ہیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب کے خاندان کا تعلق گوکھووال ضلع فیصل آباد سے ہے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا حضرت میاں غلام قادر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت سے ہوا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ چوہدری محمد اکرم صاحب کی پیدائش گوکھووال ضلع فیصل آباد کی ہے۔ جب پرسوں آپ کی شہادت ہوئی ہے تو آپ کی عمر اسّی (80) سال تھی۔ آپ اپنے دیگر بھائیوں اور والد صاحب کے ساتھ آبائی زمین جو کہ جھول خانپور میں تھی، وہاں زمیندارہ کرتے تھے۔ پھر 1960ء میں زمینیں بیچ کے نوابشاہ چلے گئے۔ 2005ء میں آپ اہلیہ کے ساتھ آسٹریلیا شفٹ ہو گئے کیونکہ وہاں ان کے بچے تھے اور گزشتہ سال نومبر سے پاکستان آئے ہوئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا۔ 29؍فروری 2012ء کو آپ اپنے نواسے عزیزم منیب احمد ابن مکرم رفیق احمد صاحب کے ساتھ دوپہر تقریباً ایک بجے جو ان کے داماد کی دکان تھی نوابشاہ میں ہی وہاں سے واپس گھرآ رہے تھے۔ جب گھر کے نزدیک پہنچے ہیں تو ایک موٹر سائیکل پر دو نا معلوم افرادنے آپ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں آپ زخمی ہو گئے۔ ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں راہِ مولیٰ میں جان قربان کر دی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ کے ساتھ آپ کے نواسے کو بھی کولہے کے اوپر گولی لگی اور پھر وہاں سے گزر کے آنتوں میں چلی گئی۔ آنتوں کو متاثر کیا ہے۔ اس کا آپریشن ہو چکا ہے اور اس وقت ہسپتال میں آئی سی یو (ICU) وارڈ میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرمائے۔

شہید مرحوم نے 1960ء میں نوابشاہ شفٹ ہونے کے بعد اپنے کاروبار کے ساتھ جماعتی طور پر بھی بہت خدمت کی ہے۔ لمبا عرصہ انہوں نے خدمت کی توفیق پائی۔ تقریباً پینتیس سال تک بطور سیکرٹری مال نوابشاہ ضلع اور شہرکے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی طرح نائب امیر ضلع کے طور پر بھی خدمات بجالاتے رہے۔ شہید مرحوم اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ عبادت گزار، تہجد کا باقاعدہ اہتمام کرنے والے، انتہائی زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے۔ بعض لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ جب سیکرٹری مال رہے ہیں تو کبھی یہ نہیں ہوا کہ اگر کسی نے کہا ناں کہ مَیں نے چندہ دینا ہے تو خواہ فون پر ہی اطلاع دی کہ آج میں نے چندہ دینا ہے تو بجائے اس کے کہ اُس کو کہتے کہ تم میرے پاس لے آؤ، خود اُس کے گھر پہنچ جاتے تھے اور فوری طور پر چندہ وصول کر کے رسید کاٹا کرتے تھے۔ جماعت کا درد رکھنے والے تھے۔ فلاحی کاموں میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ خلافت سے عشق رکھنے والے، خطبات کو بڑے غور سے، شوق سے باقاعدہ سنتے تھے۔ صدر صاحب جماعت نوابشاہ شہر بیان کرتے ہیں کہ آپ میں عہدے داران کی اطاعت کا جذبہ بھی بہت زیادہ تھا۔ صدر صاحب کہتے ہیں کہ عمر میں بہت بڑے ہونے کے باوجود مجھ سے اطاعت اور ادب کے ساتھ پیش آتے تھے۔ اس دفعہ جب آسٹریلیا سے آئے ہیں تو مجھ سے نادار اور غرباء کی فہرست تیار کروائی جس میں احمدی اور غیر احمدی سب شامل تھے اور جتنی دیر وہاں رہے اُن کی باقاعدہ مدد کرتے رہے۔ اسی طرح نوابشاہ کا ایک سینٹر کافی عرصے سے بند تھاجو کہ آپ نے بڑی محنت اور کوشش کے ساتھ کھلوایا اور پھر اس کی تعمیر کے حوالے سے کہا کہ آپ لوگ اس کی جو مزید تعمیر و مرمت کرنی ہے، شروع کر دیں، میں آسٹریلیا واپس جا کے آپ کو تعمیر کے لئے رقم ضرور بھجواؤں گا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ نے موقع ہی نہ دیا۔ اللہ کرے کہ جماعت خود اب وہاں اس کی تعمیر مکمل کر لے۔ ان کو شہادت کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کی بہو کا بیان ہے کہ جب کسی کی شہادت کی خبر سنتے تو کہتے تھے کہ یہ اعزاز تو مقدر والوں کو ملتا ہے۔ آخر اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی۔ شہید مرحوم نے لواحقین میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ تمام بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے شادی شدہ ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بچے (چار بچے اور ایک بچی) آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی نوابشاہ پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ اکرم صاحب کے نواسے عزیزم منیب احمد صاحب کے بارے میں مَیں نے کہا تھا، ان کی عمر اٹھارہ اُنیس سال ہے اور وہ سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ اکرم صاحب کانماز جنازہ غائب ہوگا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 2؍ مارچ 2012ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض صحابہ کے قبول احمدیت اور جرأت ایمانی  اور شجاعت اور دلیری کے ایمان افروز واقعات، جنہوں نے ہر قسم کی سختیوں کو برداشت کیا  لیکن اپنے ایمان پر آنچ نہیں آنے دی۔

    آج 123سال گزرنے کے بعد بھی احمدیوں کے خلاف ایسی ہی سختیاں روارکھی جارہی ہیں۔ لیکن احمدیت کا قافلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سب مخالفت کے باوجود آگے سے آگے بڑھتا چلا جا رہاہے اور انشاء اللہ بڑھتا چلاجائے گا۔

    دنیا میں ہر جگہ احمدی اپنے ایمان کے اظہار میں پختہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھتے ہیں کہ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ۔ خوف ہے تو خدا کا، نہ کہ کسی مخلوق کا۔

    مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب ابن مکرم محمد یوسف صاحب آف نوابشاہ کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نمازجنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 2؍مارچ 2012ء بمطابق 2؍امان 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور