مساجد کا حسن نمازیوں سے ہے

خطبہ جمعہ 27؍ اپریل 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلَ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُُ۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ اِنَّک اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (البقرۃ: 128تا 130)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ: اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی (یہ دعا کرتے ہوئے) کہ اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ اور اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یقینا تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور اس کی حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کر دے۔ یقینا تو ہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔

ان آیات میں وہ عظیم نمونہ اور دعا بیان ہوئی ہے جس میں عاجزی اور انکساری، قربانی و وفا، اپنی نسل کے خدا تعالیٰ سے جڑے رہنے کی فکر اور دعا، دنیا کی ہدایت اور رہنمائی اور عبدِ رحمان بننے کی فکر اور دعا کے اعلیٰ ترین معیار قائم کئے ہیں۔ پہلی آیت میں اُس قربانی کا ذکر ہے۔ بہت بڑی قربانی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی تھی۔ یعنی ہر پتھر جو خانہ کعبہ کی دیواروں پر چُنا جا رہا تھا وہ اس بات کی طرف بھی توجہ دلا رہا تھا کہ اب اس گھر کے مکمل ہونے کے بعد باپ نے بیٹے اور اُس سے پیدا ہونے والی نسل کو اس  بے آب و گیاہ جگہ میں ہمیشہ کے لئے آباد کرنا ہے۔ اور بیٹے کو توجہ دلا رہا تھا کہ تم نے اب اس بے آب و گیاہ جگہ میں اس گھر کی رونق قائم کرنے کے لئے یہیں رہنا ہے۔ ان دونوں بزرگوں کو، اللہ تعالیٰ کے ان فرستادوں کو خداتعالیٰ کے وعدوں پر یہ تو یقین تھا کہ ایک روز اس گھر نے تمام دنیا کا محور بننا ہے مگر یہ کیاپتہ تھا کہ یہ سب کچھ کب ہوگا؟ اُس وقت تو صرف قربانی اور صرف قربانی ہی نظر آ رہی تھی لیکن اس کے باوجود عاجزی کی انتہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہے ہیں کہ ہم تیرے گھر کی تعمیر کا جو یہ کام کر رہے ہیں، یہ تیرے ہی فضل سے ہے۔ پس ہماری اس قربانی کو قبول فرما لے۔ کوئی اظہارِ بڑائی نہیں کہ ہم نے جو کام کیا ہے یہ ہمارا حق بنتا ہے کہ اس کا بدلہ ہمیں ملے اور جلد ملے۔ بلکہ اے خدا! اے سمیع و علیم خدا! جو دعاؤں کا سننے والا ہے، تو ہماری دعاؤں کو سن لے۔ ہمارے پاس جو قربانی کرنے کے لئے تھا وہ کر دیااور آئندہ بھی عہد کرتے ہیں کہ قربانی کریں گے بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں بھی اس قربانی میں شامل ہوں۔ یہ وہ دعا تھی جو ان دو بزرگوں نے کی۔ پھر یہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے دل کی حقیقت تیرے سامنے رکھ دی۔ تو علیم ہے جانتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، صرف اور صرف تیری رضا کے حصول کے لئے کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ تو ہماری اس قربانی کو قبول کرکے اب جلد اسے ایسا گھر بنا دے جو تیرا گھر ہو اور تیرا گھر ہونے کی برکت سے یہ بیابان آباد ہو جائے۔ ہم تو تیرے حکم سے جو سمجھے اُس کی ظاہری تعمیل میں اس گھر کی تعمیر ہو گئی تا کہ آبادی کا مرکز بن جائے لیکن اس کی حقیقی آبادی اے اللہ! تیرے فضل پر منحصر ہے۔ اس گھر کو ظاہری طور پر آباد کرنے والوں کو بھی وہ بصیرت اور بصارت عطا فرما جو تجھ تک پہنچانے والی ہو اور روحانیت میں بڑھانے والی ہو۔ پس یہ وہ روح تھی جس کی تتبع میں مسلمانوں کی مساجد تعمیر ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ ورنہ خوبصورت عمارات تو کوئی چیز نہیں ہیں۔ بڑی خوبصورت مساجد بنتی ہیں لیکن اُن میں روح مفقود ہوتی ہے۔ جو مقصد ہے وہ اُن میں نہیں پایا جاتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ مساجد میں نقش و نگار نہیں ہونے چاہئیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب المساجد والجماعۃ باب تشیید المساجد حدیث 741) جس طرح دوسرے مذاہب والوں نے اپنی عبادت گاہوں میں نقش و نگار بنائے ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سی مساجد ہمیں نقش و نگار والی نظر آتی ہیں جو بادشاہوں نے بنائیں، امراء نے بنائیں، بلکہ بعض پر بادشاہوں نے سونے کا پانی بھی پھروایا۔ لیکن یہ اُن کا حسن نہیں ہے، نہ یہ سونے کا پانی، نہ یہ نقش و نگار۔ مساجد کا حسن تو اُن کی آبادی سے ہے۔ ایسی آبادی جو خالصتہً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ ذکر کیا، غالباً مصر کا ذکر ہے کہ مَیں ایک عرب ملک میں ایک بہت بڑی اور خوبصورت مسجد میں جب گیا تو دیکھا کہ چار پانچ نمازی ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب اُن سے پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ تو مسجد کا امام جو اُن کو نماز پڑھا رہا تھا، اُس نے کہا کہ لوگ نماز کے لئے نہیں آتے اور مَیں شرم کی وجہ سے محراب میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھاتا کہ کوئی نیا آنے والا یہ دیکھ کر کیا کہے گاکہ اتنی بڑی اور خوبصورت مسجد ہے اور نمازی چار پانچ ہیں۔ اس لئے ہم کونے میں نماز پڑھ لیتے ہیں تا کہ لوگ سمجھیں کہ اصل نماز ہو گئی ہے اور یہ بعد میں آنے والے نماز پڑھ رہے ہیں۔ (ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد 5صفحہ 357)

لیکن دوسری صورت بھی ہے کہ مسجدوں میں لوگ جاتے بھی ہیں، کافی آبادی ہوتی ہے لیکن دل عموماً اُس روح سے خالی ہوتے ہیں جو ایک مسجد میں جانے والی کی ہونی چاہئے۔ دنیا داری نمازوں کے دوران بھی غالب رہتی ہے۔ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف خالص نہیں ہوتی۔

پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم جب مسجد بناتے ہیں یا بنائیں تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے بنانے والے ہوں اور مسجد بنانے کے لئے جو قربانی کی ہے، اُس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں نہ کہ کسی قسم کا فخر۔ کیونکہ ہماری یہ جو قربانی ہے، جو ہم کرتے ہیں، یہ اُس قربانی کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بہت کم ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی تھی۔ صرف مال کی قربانی ہم کرتے ہیں اور وہ بھی عموماً اپنے وسائل کے مطابق۔ یقینا آج کل کی دنیا میں یہ بھی بہت بڑی قربانی ہے کہ مالی قربانی کی جائے، نیک مقصد کے لئے قربانی کی جائے، اپنی ترجیحات بدل کر مالی قربانی کی جائے اور مسجدوں کی تعمیر کرنا ایک قابلِ تعریف کام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مواقع پر اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ایسے لوگ جزا پانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو مغربی ممالک میں اس طرف بہت توجہ پیدا ہوئی ہے اور مساجد بن رہی ہیں اور اپنی ترجیحات بعضوں نے تو اس حد تک بدل لی ہیں کہ زائد پیسے میں سے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر پھر قربانیاں کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں کبھی کوئی فخر نہیں ہونا چاہئے۔

اس مسجد کی تعمیر پر تقریباً بارہ لاکھ پاؤنڈ خرچ ہوئے ہیں یعنی ایک اعشاریہ دو ملین پاؤنڈ اور جماعت نے یہاں قریباً اتنی رقم کے وعدے کئے اور ادائیگی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہی ہے۔ پچہترّ (75) فیصد ادائیگی کر بھی دی۔ بعض نے بڑی بڑی قربانیاں بھی دیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ چوراسی (84) ہزار پاؤنڈ یا اٹھہتر (78) ہزار پاؤنڈ تک بھی ایک ایک آدمی نے قربانی دی ہے اور ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے پندرہ بیس ہزار، تیس ہزار کی رقمیں دیں۔ تقریباً گیارہ آدمیوں کے کُل وعدے مَیں دیکھ رہا تھا کہ تین لاکھ سے اوپر بنتے ہیں۔ تو یہ بہت بڑی قربانی ہے جو آجکل کے حالات میں جماعت کے افراد کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہر قربانی جو ہے وہ ہمیں عاجزی کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے۔ کیونکہ اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو نمونہ ہمارے سامنے پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ ہماری قربانیاں حقیر ہیں اُن کی کوئی حیثیت نہیں۔ دوسرے ان قربانیوں کا فائدہ تبھی ہے جب اس گھر کی آبادی بھی ہو۔ ایک وہ بے آب و گیاہ جگہ تھی۔ بیابان تھا جہاں آبادی نہیں تھی اور وہاں اللہ تعالیٰ کا گھر بنایا گیا اور ان ممالک میں روحانی لحاظ سے یہ بنجر علاقے ہیں۔ ان علاقوں کو بھی آباد کرنا ہے اور سرسبز بنانا ہے اور اسی مقصد کے لئے ہم یورپ میں مساجد تعمیر کر رہے ہیں۔ پس یہ بہت بڑا کام ہے جس کو ہمیں ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے۔ صرف جمعوں کی آبادی سے ہماری مسجدیں آبادنہیں ہو سکتیں بلکہ نمازوں کی حاضری بھی ہو۔ اور آج جب اس مسجد کا افتتاح ہم کر رہے ہیں تو یہ دعا کریں کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ پس ہماری مالی قربانیاں اُس وقت قبولیت کا درجہ پائیں گی جب ہم خدا تعالیٰ سے یہ عہد بھی کریں اور دعا بھی کریں کہ ان قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ہماری روحانی ترقی کے بھی سامان فرما اور اس مسجد کو آباد رکھنے کی توفیق بھی عطا فرما۔ کیونکہ تو جانتا ہے کہ خالصتاً تیری عبادت کے لئے یہ مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے اور پھر اس علاقے میں ایسے لوگوں کی آبادی کر جو روحانیت میں ترقی کرنے و الے ہوں۔ کیونکہ تیرے ذکر سے پُر رکھنے کے لئے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ پس ہماری قربانی قبول کر کے ہمیں اُس روحانی مقام پر پہنچا جو تیرے قرب کا ذریعہ بنائے۔ تا کہ تیرے انعامات حاصل کرتے ہوئے ہم تیری جنّتوں کے وارث بن جائیں۔ احادیث میں آتا ہے۔ مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز ربّ عزّوجل فرمائے گا کہ مجمع والے عنقریب جان لیں گے کہ کون بزرگی اور شرف والے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! بزرگی اور شرف والے کون ہیں؟ آپ نے فرمایا مساجد میں ذکر کی مجالس لگانے والے۔ (مسند احمدبن حنبل جلد 4 صفحہ 173 مسند ابی سعید الخدری حدیث 11675 مطبوعہ بیروت 1998ء)

پھر بخاری کی ایک حدیث ہے جو حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے۔ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو صبح و شام کو مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت میں مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الأذان باب فضل من غدا الی المسجد ومن راح حدیث 662)

پس ہماری مساجد بزرگی اور شرف کے معیار قائم کرنے والی ہونی چاہئیں۔ اللہ کرے کہ یہ مسجد بھی اور اس میں آنے والے بھی، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہوں۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔ جنت میں اللہ تعالیٰ کی مہمان نوازی سے حصہ پانے والے ہوں۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس نیت سے مسجدیں بناتے ہیں اور اس نیت سے مسجدوں میں آتے ہیں اور صرف اس دنیا کی جنت نہیں بلکہ اُس دنیا میں بھی، جو دوسری دنیا ہے وہاں بھی اُن کو جنتیں ملتی ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ صرف اُس دنیا کی جنت کی تلاش نہیں کرتے جس کا ذکر حدیث میں ہے بلکہ اِس دنیا کی جنت بھی تلاش کرتے ہیں۔ ہماری اکثر مساجد میں گنبد کے نیچے لکھا ہوتا ہے، یہاں بھی اس گولائی میں لکھا ہوا ہے کہ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد: 29) کہ آگاہ ہو جاؤ۔ اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔ پس جن کے دل اطمینان پا جائیں، اُن کے لئے اس سے بڑی جنت کونسی ہو گی؟ آجکل دنیا میں جس قدر بے چینیاں پیدا ہورہی ہیں وہ خدا تعالیٰ کو بھولنے کی وجہ سے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے والے، اُس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تَر کرنے والے تو تکلیفوں کو بھی خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کرتے ہیں اور اُنہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنا کر اپنے دلوں کی تسکین کا باعث بناتے ہیں۔ دنیا میں سینکڑوں لوگ اس لئے خود کشیاں کرتے ہیں، روزانہ کرتے ہیں، کہ وہ دنیاوی صدمات برداشت نہیں کر سکتے یا بعضوں کو دنیاوی صدمات کا اتنا زیادہ اثر ہوتا ہے کہ ویسے ہی اُن کو دل کے دورے پڑ جاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں مجھے کسی نے پاکستان سے لکھا کہ وہاں شیخوپورہ کے علاقے میں شاید شدید طوفان اور ژالہ باری ہوئی اور لوگوں کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ ایک زمیندار اپنے کھیت میں گیا، خربوزے کی شاید فصل تھی۔ دیکھا تو سب ختم ہوا ہوا تھا۔ اُس کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ چیز دیکھ کر ہی اُس کو دل کا حملہ ہوا اور وہ وفات پاگیا۔ تو یہ جو دنیاوی صدمات ہیں وہ اللہ والوں کو دنیاوی نقصانوں سے نہیں ہوتے بلکہ وہ ہر صدمہ پر اللہ تعالیٰ سے لَو لگاتے ہیں۔ مومن ہمیشہ صدمات پر خدا تعالیٰ کی آغوش میں آتے ہوئے اطمینانِ قلب پاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ایک جگہ سورۃ رحمان میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمن: 47) کہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اُس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ پس جو اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ذکر، اُس کی عبادت کرنے والے ہیں وہ اطمینانِ قلب حاصل کر کے اس دنیا میں بھی جنت حاصل کرتے ہیں اور پھر اس دنیا کی جنت جو ایک بندے کو عبدِ رحمان بننے کی وجہ سے ملتی ہے، وہ اگلے جہان کی جنت کا بھی وارث بنا دیتی ہے۔

پھر اگلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ کہ اے ہمارے ربّ! ہم جو دو ہیں، ہمیں نیک بندے بنا دے۔ یہ بھی دیکھیں، پھر ایک اور دفعہ انتہائی عاجزی کا مقام ہے۔ سب قربانیاں کرنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کے فرستادے ہونے کے باوجود پھر بھی یہ دعا ہے کہ اے خدا! ہمیں تو اپنے نیک بندے بنا دے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی بیوی اور بیٹے کو بے آب و گیاہ جگہ میں خدا کے حکم کی تعمیل میں چھوڑنے کے باوجود یہ عرض ہے کہ مجھے اپنا فرمانبردار بنا دے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاطر دے دیا۔ اولاد دے دی۔ بیوی دے دی۔ پھر بھی یہ ہے کہ ایسی فرمانبرداری عطا فرما کہ میں کامل اطاعت کرنے والا بن جاؤں۔ بیٹے کا گلے پہ چھری پِھروانے کے لئے تیار ہونے کے باوجود جو خالصتہً اللہ تعالیٰ کی خاطر تھا، پھر یہ عرض ہے کہ ہمیں ہر حکم کو ماننے والا اور فرمانبردار اور نیک بنا دے۔

پس یہ مقام ہے جو ایک مومن کو حاصل کرنا چاہئے کہ کبھی اپنی نیکیوں پر فخر نہ ہو۔ نہ ہی اُن پر بھروسہ ہو۔ کبھی اپنی قربانیوں کا مان نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کے حضور تو ڈرتے ڈرتے ہر وقت یہ عرض ہے کہ اے اللہ! ہمارے عمل تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر تیرا فضل ہو گا تو ہم نیک بندے بن سکتے ہیں۔ عبدِ رحمن بن سکتے ہیں۔ پس ہماری استدعا ہے، ہماری دعا ہے، عاجزانہ درخواست ہے کہ ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنا اور اپنے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والا بنانا۔ اپنی رضا پر چلنے والا بنانا کہ یہی وہ عظیم مقصد ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ اور پھر صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ہم اپنی نسل کے لئے بھی دعا کرتے ہیں۔ وہ دعا یہ ہے کہ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ کہ اور ہماری ذریت میں سے بھی فرمانبردار اور تیرے احکام بجا لانے والی امّت پیدا کر۔

پس اللہ کا گھر بنا کر پھر اپنی زندگی تک ہی اُس کی آبادی کی فکر نہیں بلکہ عرض کی کہ اس کو آباد رکھنے کے لئے، اس سے روحانی فیض پانے کے لئے، تیری کامل فرمانبرداری کرنے کے لئے ہماری نسلوں میں سے بھی ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں اور یہی ایک مومن کی بھی دعا ہونی چاہئے۔

پس یہی سبق ہے جو آج ہمارے لئے ہے کہ مسجد کے ساتھ صرف بڑے بوڑھوں کا تعلق قائم نہ ہو یا جو فارغ لوگ ہیں اُن کا تعلق قائم نہ ہو بلکہ اپنی مصروفیت میں سے بھی وقت نکال کر لوگ عبادت کے لئے یہاں آئیں اور آباد کریں۔ اپنی نسلوں کا تعلق پیدا کرنے کی بھی ہم کوشش کریں۔ ہماری نسلوں میں نوجوانوں اور بچوں میں بھی عبادت کی تڑپ پیدا ہو جائے۔ اس کے لئے جہاں عملی کوشش کی ضرورت ہے وہاں بہت بڑا ذریعہ دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جاننے والا ہے اور سننے والا ہے، نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کو سنتا ہے۔ اس لئے دعا مانگیں کہ جب یہ عبادتوں کی جاگ، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی جاگ لگتی ہے تو یہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں لگتی چلی جائے۔ اگر خود عبادتوں میں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں سستی ہو تو نسلوں میں بھی پھر سستی رہتی ہے۔ پس ہر مسجد کی تعمیر کے ساتھ جہاں ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے کی اور دعاؤں کی ضرورت ہے وہاں اپنی اولاد کی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جو یہ دعا ہے کہ  وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ یہ ہمیں اپنی تربیت اور عبادتوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور اپنی اولاد کی بہتر حالتوں کی طرف لے جانے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ مَنَاسِکَنَا کا مطلب ہے کہ عبادت اور حقوق اور وہ تمام باتیں جو خدا تعالیٰ کے حضور ہمیں ادا کرنی چاہئیں۔ پس عبادت کے ساتھ تمام حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے اور پھر یہ بھی کہ ان عبادتوں اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے بعد اپنے زعم میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ مَیں نے بہت کچھ کر لیاہے۔ یہ دعا ہے کہتُبْ عَلَیْنَا۔ ہماری توبہ قبول کر لے۔ ہماری طرف متوجہ ہو۔ اور ایسی توبہ قبول کر کہ اگر ہم چھوٹی موٹی غلطیاں کر بھی جائیں تو درگزر کر دیا کر۔ تُو یقینا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

پس جب ایک تسلسل سے خود بھی یہ دعا کی جائے گی تو مسجد کی تعمیر کا مقصد بھی پورا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ اپنی اولادوں کو بھی اس راستے پر ڈالنے کی کوشش ہوگی اور اُن اعلیٰ ترین برکات اور رحمتوں کا فیض بھی ہمیں ملے گاجو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جاری فرمایا اور جن برکات نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک ایسا انقلاب پیدا کیا کہ مُردے زندہ ہونے لگے۔ روحانیت کے نئے نئے چشمے پھوٹنے لگے۔ عبادتوں کے ایسے معیار قائم ہوئے جو نہ کسی نے پہلے دیکھے، نہ سنے۔ اور وہ عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوا جس پر عبادتوں کی بھی انتہا ہوئی۔ جس پر وفاؤں کی بھی انتہا ہوئی۔ جس پر حقوق اللہ کی ادائیگی کی بھی انتہا ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتے ہوئے یہ سب باتیں اُس مقام پر پہنچیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پیارے رسول حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروایا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن (الانعام: 163) تُو اعلان کر دے کہ یقینا میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو ربّ العالمین ہے۔

پس یہاں اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبادتوں، قربانیوں اور ہر عمل کے وہ معیار قائم ہوئے جو نہ پہلے کبھی دیکھے گئے، نہ سنے گئے، جیسا کہ مَیں نے کہا۔ یہ وہ معراج تھی جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لئے یہ اعلان کروا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اب اسی عظیم رسول کی اتباع سے مل سکتی ہے، اس کے بغیر نہیں مل سکتی۔ یہ اسوہ حسنہ ہے جس میں عبادتوں اور قربانیوں کے معیار قائم ہوئے ہیں۔ اور پھر جنہوں نے آپ کی قوت قدسی سے براہِ راست فیض پایا اُن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے فیض پانے کے نئے سے نئے راستے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے کھلتے چلے گئے۔ ساری ساری رات عبادتیں کرنے والے اور دن کے وقت دین کی خاطر قربانیاں کرنے والے پیدا ہوئے۔ جو روحانی لحاظ سے مردے تھے، وہ ایک اعلیٰ ترین زندگی پا گئے۔ یہ وہ عظیم رسول تھاجو تا قیامت تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے آیا تھا۔ پس یہ فیض آج بھی جاری ہے۔ یہ اُسوہ حسنہ آج بھی اسی طرح روشن اور چمکدار ہے جس طرح پہلے دن تھا۔ جو عظیم تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری جو آپؐ لے کر آئے، وہ آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے۔ اس عظیم نبی کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں وہ غلامِ صادق عطا فرمایا ہے جس کو آخرین میں مبعوث فرما کر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام، جس میں آیات کی تلاوت بھی ہے، تزکیۂ نفس بھی ہے، کتاب کی تعلیم بھی ہے اور احکامات کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے، ان کاموں کو جاری فرمایا اور پھر اس غلامِ صادق کے ماننے والوں نے بھی اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کو اپنے آقا و مطاع کے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور اسلامی تعلیمات کو اپنے اوپر اس طرح لاگو کیا کہ مخالفینِ احمدیت بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلامی شعائر کا عملی نمونہ دیکھنا ہے تو ان لوگوں میں دیکھو۔ پس یہ وہ معیار ہے جو ہمارے بڑوں نے قائم کر کے مخالفین کی زبانوں کو نہ صرف بند کیا بلکہ اُن سے اقرار کروایا کہ حقیقی اسلام کی عملی تصویر جماعت احمدیہ کے افراد میں دیکھو۔ آج بھی ہمارے لئے یہی بہت بڑا مقصد ہے جو ہمیں سامنے رکھنا چاہئے، جس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہم نے دنیا کے منہ بند کروانے ہیں۔ اپنے نیک اعمال سے دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کی طرف راغب کرنا ہے۔ اپنی عبادتوں اور اپنی نمازوں سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنا ہے۔ اپنے ساتھ اپنی اولادوں کو بھی اس مقصد کا حق ادا کرنے والا بناتے ہوئے مسجدوں کے ساتھ جوڑنا ہے۔ تبھی ہم مسجد کی تعمیر کا حق ادا کر سکیں گے۔ تبھی ہم رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم کی دعا سے فیض پانے والے ہو سکیں گے، تبھی ہم زمانے کے امام کی بیعت میں آنے کا صحیح حق ادا کرنے والا کہلا سکیں گے۔ تبھی ہم محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن سکیں گے۔

پس آج اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ جو کمزور طبع لوگ ہیں وہ اپنے نئے راستے متعین کریں جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے راستے ہیں۔ جو حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے راستے ہیں۔ جو

اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے راستے ہیں۔ اسی طرح جو بہتر معیار کے ہیں، جن کی نمازوں کی طرف توجہ رہتی ہے، جو مسجدوں میں آنے والے ہیں، اُن کی آبادی کی طرف توجہ رکھتے ہیں وہ بھی ان باتوں کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کے لئے اپنی عبادتوں اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ مسجد اب یہاں کی جماعت میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ ہونی چاہئے۔ جو معلومات مَیں نے لی ہیں۔ اس بڑے ہال میں مردوں کے لئے اگر سات سو ساٹھ (760) نمازیوں کے لئے جگہ ہے تو اس کو ہر نماز میں جلد سے جلد بھرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح یہ بھی مجھے رپورٹ دی گئی کہ عورتوں کے لئے پانچ سو ساٹھ (560) نمازیوں کے لئے جگہ ہے۔ دو ہالوں میں بوقتِ ضرورت چھ سو اسّی (680) نمازیوں کی جگہ ہو سکتی ہے۔ یعنی اس مسجد میں کُل تقریباً دو ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس ’پڑھ سکنے کے‘ فقرے کو جلد سے جلد ’پڑھتے ہیں‘ میں بدلنے کی کوشش کریں۔ تبھی مسجد کی تعمیر اور عبادت کا حق ادا کر سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے جماعت سمیت پورے یورپ میں مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے لیکن اس تعمیر کی خوبصورتی نمازیوں کے ساتھ ہے۔ ان مساجد کی خوبصورتی نمازیوں کے ساتھ ہے۔ میں جائزہ لے رہا تھا، دیکھ رہا تھا کہ 2003ء میں جب مسجد بیت الفتوح کا افتتاح ہوا ہے تو اس سے پہلے باقاعدہ مسجد صرف ایک مسجد ’مسجد فضل‘ تھی۔ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت یوکے کو چودہ نئی مساجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی جو باقاعدہ مساجد ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سات آٹھ سالوں میں یورپ میں جو پہلے تیرہ مساجد تھیں اب تقریباً ستاون (57) ہیں۔ تقریباً اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک مکمل ہونے کے اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ ستاون مساجد تیار ہو گئی ہیں اور یورپ کے مختلف ممالک میں چوالیس (44) مساجد کا سات آٹھ سال میں اضافہ ہوا ہے۔ جس میں جرمنی میں سب سے زیادہ ہیں۔ لیکن ان کی خوبصورتی ان کی تعمیر سے نہیں، ان کے نمازیوں سے ہے۔ اس لئے مَیں آج پھر ان یورپین ممالک کے احمدیوں کو بھی کہتا ہوں کہ ہمارا فخر مساجد بنانے میں نہیں۔ اس کی پیشگوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ ایک وقت میں مساجد بنانے پر فخر کیا جائے گا، لیکن یہ فخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی جماعت سے منسوب ہونے والوں کا کام نہیں ہے۔ دوسرے مسلمان بیشک یہ فخر کرتے پھریں۔ ہمارا تو مقصد تب پورا ہو گا جب ہماری ہر مسجد کی آبادی اتنی بڑھ جائے کہ وہ چھوٹی پڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

میں اس وقت اس عاشقِ صادق سے براہِ راست فیض پانے والے چند لوگوں کی عبادت کے لئے تڑپ اور ان کے معیار کے کچھ واقعات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مَیں نے روایات میں سے لئے ہیں۔ نمازوں میں محویت کا عالم ہے۔ یہ واقعہ سنیں۔ حضرت جان محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد عبدالغفار صاحب ڈسکوی فرماتے ہیں کہ مغرب کی نماز مسجد مبارک کی چھت پر ادا ہونے کے وقت (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں قادیان میں) مسجد مبارک کے محراب کے مغرب صحن خانہ مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ میں انہوں نے مع دیگر آٹھ نو اشخاص مجلس لگا رکھی تھی اور حقہ نوشی ہو رہی تھی (یہ مخالف تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ دار تھے لیکن مخالفت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ دین سے ان کی بالکل بے رغبتی تھی۔ بلکہ خدا تعالیٰ سے انکاری تھے) وہ کہتے ہیں انہوں نے مجلس لگائی ہوئی تھی اس میں حقہ نوشی ہو رہی تھی، صفوں پر شراب بھی پڑی ہوئی تھی اور چارپائیوں پر اہلِ مجلس بیٹھے ہوئے تھے۔ تو جب ہم نماز پڑھنے لگے تو جتنے یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ ہی سارنگی اور طبلے پر چوٹ لگائی اور مراثیوں نے گانا شروع کر دیا تا کہ مسجد میں نمازی ڈسٹرب ہوں۔ (لیکن کہتے ہیں) مگر ہماری نماز میں غضب کی محویت تھی۔ اس طرف خیال بھی نہیں جاتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ باجے بجاتے رہے لیکن ہمیں اپنی عبادتوں سے نہ روک سکے یا توجہ نہ ہٹا سکے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 48روایت حضرت جان محمد صاحبؓ ڈسکوی)

حضرت حاکم علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیعت کے بعد کی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے بعد (بیعت کے بعد) محبت نے مجھے اس قدر دیوانہ کر دیا کہ کوئی مہینہ ایسا نہ ہوتا کہ مَیں حاضر نہ ہوتا۔ پس میری زندگی گویا مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے تھی۔ مَیں نے اپنے گھر کے پاس ایک الگ چھوٹی سی مسجد بنا لی اور میں تہجد کی نماز کے وقت اُس مسجد میں چلا جاتا اور عشاء کی نماز پڑھ کر میں مسجد سے آتا۔ اتنا وقت گویا بیس یا بائیس گھنٹے مسجد میں رہتا تھا اور روزہ رکھتا تھا اور ایک وقت میں کھانا کھاتا تھا لیکن کوئی بھوک پیاس نہ لگتی تھی۔ بے تکلف مَیں اتنا وقت قرآنِ شریف نمازو دعا میں صرف کرتا تھا اور نہایت خوش رہتا تھا اور حالت ایسی ہو گئی کہ کسی معاملے کے متعلق دعا کروں اور توجہ کروں تو اُسی وقت اُس کی صحیح خبر مل جاتی یعنی بذریعہ کشف۔ اس وجہ سے مجھے خدا تعالیٰ کے ساتھ اور قرآن شریف کے ساتھ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت بڑھ گئی اور مسیح موعود علیہ السلام پر میرا ایسا ایمان مضبوط ہوا جو لرزہ نہیں کھا سکتا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 364 روایات حضرت حاکم علی صاحبؓ)

بہت سارے لوگ ہیں۔ یہاں بھی آئے ہوئے ہیں۔ اسائیلم لینے والے ہیں۔ بڑی عمر کے ہیں۔ فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ اُن کو چاہئے کہ بجائے وقت ضائع کرنے کے اپنی عبادتوں کی طرف توجہ کریں۔ یہ عبادتوں کا معیار ہے جو ہمارے لئے نمونہ ہے۔

پھر حضرت میر مہدی حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد مبارک کے اندر اول ایام میں تین خانے تھے۔ یعنی چھوٹی سی مسجد تھی، تین دروں کے درمیان تھی۔ ہر ایک خانے میں دو صفیں کھڑی ہو سکتی تھیں۔ آگے پیچھے۔ اور ایک صف میں چھ آدمی آ سکتے تھے۔ مسجد سے باہر دائیں جانب ایک چھوٹا سا صحن ہوتا تھا جو اس وقت حضرت امّ المومنین علیہا السلام کی رہائش گاہ ہے۔ اس میں ملک غلام حسین صاحب نان پُز (نان پکانے والا)اور محمد اکبر خان صاحب سنوری مرحوم علی الترتیب روٹیاں اور سالن لئے بیٹھے تھے۔ مجھے ملک صاحب نے پہلے ایک چھوٹی سی پلیٹ میں چاول نمکین (کھانے کا ذکر کرتے ہیں) ڈال کے دیا۔ روٹیاں دیں۔ کہتے ہیں میں نے پلیٹ سے دو تین لقمے لئے تھے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے تکبیر کہلا کر نماز شروع کر دی۔ مَیں نے جلدی سے کھانا رکھ دیا اور مسجد میں داخل ہونے لگا تو نان پز جو تھے انہوں نے ذرا سخت لہجے میں کہا (روٹی دے رہے تھے وہ) کہ میاں ! روٹی کھا لے۔ نماز بعد میں پڑھ لینا۔ پنجابی میں کہا ’’نئیں تے بھکا مریں گا‘‘۔ (کہتے ہیں) اور کہا کہ کل دوپہرکو روٹی ملے گی پھر۔ مَیں نے کہا کہ یہاں روٹیاں کھانے نہیں آیا۔ نماز ہی تو اصل چیز ہے۔ اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ کہہ کر نماز عشاء میں شامل ہو گیا۔ (ماخوذاز رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 409روایات حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ)

حکیم فضل الرحمن صاحب اپنے والد حافظ نبی بخش صاحب کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ آپ کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک عشق موجود تھا اور طبیعت میں احتیاط ایسی ہے کہ جب کبھی کوئی حضور علیہ السلام کے حالات سنانے کے لئے کہے تو یہی جواب دیتے ہیں کہ مجھے اپنے حافظے پر اعتبار نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی غلط بات حضور کی طرف منسوب کر بیٹھوں۔ آپ محکمہ نہر میں پٹواری تھے اور گرداوری کے دنوں میں قریباً سارا سارا دن گھومنا پڑتا حتی کہ جیٹھ ہاڑ کے مہینوں میں بھی۔ یعنی پنجاب میں گرمی کے جو شدید مہینے ہوتے ہیں، اُن میں بھی گھومنا پڑتا اور اس سے جس قدر تھکاوٹ انسان کو ہو جاتی ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مگر رات کو آپ تہجد کے لئے ضرور اُٹھتے۔ اور ہم پر بھی زور دیتے (یعنی بچوں کو بھی زور دیتے۔ جوان بچے تھے)۔ جب رمضان کے دن ہوتے تو باوجود اس قدر گرمی کے روزے بھی باقاعدہ رکھتے۔ سردی کے دنوں میں تہجد کی نماز عموماً قرأت جہری سے پڑھ کر بچوں کو ساتھ شامل فرما لیتے (یعنی اونچی آواز میں پڑھتے)۔ آپ خدا کے فضل سے حافظ قرآن ہیں (تھے اُس وقت)۔ ہمیں نماز روزے کی بہت تاکید فرماتے بلکہ کڑی نگرانی فرماتے اور سُستی پر بہت ناراض ہوتے۔ قرآنِ کریم ہمیں خود پڑھایا۔ جب دن کو اپنے کاروبار میں مشغولیت کے باعث وقت نہ ملتا تو رات کو پڑھاتے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ1-2 حالات حافظ نبی بخش صاحبؓ ولد حافظ کریم بخش صاحب)

والدین کے لئے یہ نمونہ ہے۔ بچوں کی تربیت کا یہ نمونہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اور اسی طرح اپنی عبادات جو ہیں وہ والدین کی ہوں گی تو بچے نمونہ پکڑیں گے۔ ان ملکوں میں جہاں دین سے لوگ دور ہو رہے ہیں۔ ہمارے بعض بچے بھی متأثر ہو رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ان ملکوں میں تو بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔ نہ صرف خود دین پر قائم رہنا ہے بلکہ اپنے معیار بڑھانے ہیں اور پھر اس سے بڑھ کر بچوں کی نگرانی بھی کرنی ہے اور تربیت کی طرف بھی توجہ دینی ہے۔ اگر چالیس پینتالیس سال کے لوگ بھی جو میں نے دیکھے کہ خود آدھی رات تک ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں، بعضوں کی شکایتیں اُن کی بیویوں کی طرف سے بھی آجاتی ہیں تو وہ بچوں کی کیا تربیت کریں گے؟

پس ان ملکوں میں رہنے والے احمدیوں کے لئے خاص طور پر اور تمام دنیا میں ہی احمدیوں کے لئے عموماً ایک چیلنج ہے کیونکہ شیطان آج کل اپنی کارروائیوں میں حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہے، اور ہم نے اس کا مقابلہ کرنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد عبادتوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ پس اس طرف بہت زیادہ توجہ دیں۔ پھر شیخ نورالدین صاحب اپنی بیعت کے بعد کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد امرتسر آ گیا۔ وہاں کاروبار کی وجہ سے غفلت پیدا ہو گئی اور دینی حالت اچھی نہ رہی۔ گرمیوں کے دن تھے اور دوپہر کا وقت تھا۔ میں سویا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جس طرح غرغرہ کی حالت ہوتی ہے۔ سوئی ہوئی حالت میں آخری وقت کی حالت پیدا ہو گئی اور خواب میں (یہ اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں) مَیں لوگوں کی گفتگو سنتا تھا لیکن جواب نہیں دے سکتا تھا۔ مَیں نے پورا نقشہ دیکھا کہ مجھے غسل دیا گیا۔ (یہ شاید میرا خیال ہے کشفی حالت تھی کہ مجھے غسل دیا گیا) اور کفن پہنایا گیا۔ پھر مجھے دفن کر دیا گیا۔ مٹی ڈال دی گئی۔ جب لوگ دفن کر کے واپس آ گئے تو قبر نے دونوں پہلوؤں سے مجھے اس طرح دبایا کہ مَیں برداشت نہ کر سکا۔ اتنے میں دیکھا کہ عین سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں اور میری طرف انگلی کرکے فرمایا کہ کیا آپ نے ہمارے ساتھ یہی وعدہ کیا تھا؟ ایک طرف تکلیف تھی، دوسری طرف حضرت صاحب کے الفاظ۔ مَیں بہت رویا اور عرض کیا حضور میں بھول گیا۔ مجھے معاف فرماویں۔ مَیں توبہ کرتا ہوں۔ آئندہ یہ کمزوریاں نہیں دکھاؤں گا۔ حضرت صاحب تشریف لے گئے۔ کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی۔ اُس حالت سے واپس آ گیا مگر اس طرح گھبرایا ہوا اور تکلیف میں تھا کہ بیان سے باہر۔ آنسو نکل رہے تھے اور سخت مرعوب ہو رہا تھا۔ پھر قبلہ رُو ہو کر نماز شروع کی۔ ایک عرصے تک میرے جسم پر اس واقعے کا اثر رہا۔ تکلیف بھی اور درد بھی ہوتا رہا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12 صفحہ 10,9 روایت حضرت شیخ نورالدین صاحب تاجر ولد شیخ میراں بخش صاحب)

پس اُس زمانے میں نیک لوگوں سے جو یہ بھول چوک ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ جن پر رحم کرنا چاہتا ہے اُن کو اس ذریعے سے بھی تنبیہ فرماتا ہے۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک پیار کا سلوک ہے کہ بگڑنے نہیں دیتا۔

پھر عورتوں کے لئے بھی ایک مثال ہے۔ بعض اوقات مختلف عذر پیش کر کے نمازوں کے اوقات میں باقاعدگی نہیں ہوتی۔ عورتیں بعض دفعہ بہانے بنا لیتی ہیں۔ بعض ایسی ہیں لیکن بعض مَیں نے دیکھا ہے کہ مردوں سے زیادہ نمازی ہیں اور نمازوں کی طرف توجہ ہے۔

حضرت مائی کاکو صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ ہم چند عورتیں سیکھواں سے حضور کی ملاقات کے لئے آئیں۔ مولوی قمر الدین صاحب کی والدہ نے مجھے کہا کہ ہمیں مغرب کی نماز روز عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھنی پڑتی ہے، کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے، کیا کریں۔ حضرت صاحب سے فتویٰ پوچھو۔ مَیں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ عورتوں کو بچوں کی وجہ سے مغرب کی نماز میں دیر ہو جاتی ہے، کیا کریں۔ فرمایا مَیں تو نہیں سمجھتا کہ اگر پوری کوشش کی جائے تو دیر ہو جائے۔ لیکن اگر مجبوری ہو تو عورتوں کو چاہئے کہ عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ جمع کریں کیونکہ جس طرح صبح کے وقت فرشتے اترتے ہیں، ویسے ہی مغرب کے وقت بھی اترتے ہیں۔ (ایسے مغرب اور عشاء کی نماز کو اگر جمع کرنا پڑے تو مغرب کے وقت جمع کرنا بہتر ہے)۔ مائی کاکو صاحب نے روایت کے وقت کہا کہ اُس وقت سے لے کر آج تک ہم نے یہ انتظام رکھا ہے کہ مغرب کی نماز سے پہلے پہلے کھانا تیار کر کے بچوں کو کھلا دیتی ہیں اور پھر مغرب کی نماز کے لئے فارغ ہو جاتی ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ 209روایت مائی کاکو صا حبہ)

تو یہ ان لوگوں کے نمونے تھے۔ نماز جمع کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی بلکہ نمازیں علیحدہ پڑھنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنا چاہئے، اس طرف توجہ کی۔ پس مائیں بھی جو بچوں کے لئے ایک نمونہ ہیں، اُن کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اسلام نے وہ قادر اور ہر ایک عیب سے پاک خدا پیش کیا ہے جس سے ہم دعائیں مانگ سکتے ہیں اور بڑی بڑی امیدیں پوری کر سکتے ہیں۔ اس واسطے اُس نے اسی سورۃ فاتحہ میں دعا سکھائی ہے کہ تم لوگ مجھ سے مانگا کرو۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6)۔ یعنی یا الٰہی! ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے بڑے بڑے فضل اور انعام ہوئے۔ اور یہ دعا اس واسطے سکھائی کہ تا تم لوگ صرف اس بات پر ہی نہ بیٹھ رہو کہ ہم ایمان لے آئے بلکہ اس طرح سے اعمال بجا لاؤ کہ ان انعاموں کو حاصل کر سکو جو خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں پر ہوا کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 386۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایا کہ ’’جو شخص سچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ یہ یقینی اور سچی بات ہے کہ جو خدا کے ہوتے ہیں خدا اُن کا ہوتا ہے اور ہر ایک میدان میں اُن کی نصرت اور مدد کرتا ہے۔ بلکہ اُن پر اپنے اس قدر انعام و اکرام نازل کرتا ہے کہ لوگ اُن کے کپڑوں سے بھی برکتیں حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا سکھائی ہے‘‘ (یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی) ’’تو یہ اس واسطے ہے کہ تا تم لوگوں کی آنکھ کھلے کہ جو کام تم کرتے ہو دیکھ لو کہ اُس کا نتیجہ کیا ہوا ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’اگر انسان ایک عمل کرتا ہے اور اُس کا نتیجہ کچھ نہیں تو اُس کو اپنے اعمال کی پڑتال کرنی چاہئے۔ (دیکھنا چاہئے کہ میرے اعمال کیا ہیں ) کہ وہ کیسا عمل ہے جس کا نتیجہ کچھ نہیں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ387۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر اصولِ عبادت کا خلاصہ بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔ ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے اور ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا تعالیٰ سے بہت مانگے اور بہت توبہ استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیۂ نفس ہو جاوے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہو جاوے اور اسی کی محبت میں محو ہو جاوے۔ اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورۃ فاتحہ میں ہی آ جاتا ہے۔ دیکھو اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) میں اپنی کمزوری کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لئے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے اور پھر اُس کے بعدنبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دعا مانگی گئی ہے اور اُن انعامات کو حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اور جو انہیں کی اتّباع اور انہیں کے طریقہ پر چلنے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگی گئی ہے کہ اُن لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا۔ اور اسی جہان میں ہی اُن پر غضب نازل ہوا یا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اصلی مقصود سمجھ لیا اور راہِ راست کو چھوڑ دیا۔ اور اصلی مقصدنماز کا تو دعا ہی ہے اور اس غرض سے دعا کرنی چاہیے کہ اخلاص پیدا ہو اور خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو اور معصیت سے جو بہت بری بلا ہے اور نامۂ اعمال کو سیاہ کرتی ہے طبعی نفرت ہو اور تزکیۂ نفس اور روح القدس کی تائید ہو۔ دنیا کی سب چیزوں جاہ و جلال، مال و دولت، عزت و عظمت سے خدا مقدم ہو۔ (ان کے مقابلے میں سب سے مقدم خداہو) اور وہی سب سے عزیز اور پیارا ہو اور اس کے سوائے جو شخص دوسرے قصے کہانیوں کے پیچھے لگا ہوا ہے، جن کا کتاب اللہ میں ذکر تک نہیں، وہ گرا ہوا ہے اور محض جھوٹا ہے۔ نماز اصل میں ایک دعا ہے جو سکھائے ہوئے طریقہ سے مانگی جاتی ہے۔ یعنی کبھی کھڑے ہونا پڑتا ہے، کبھی جھکنا اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے۔ اور جو اصلیت کو نہیں سمجھتا وہ پوست (اوپر والی جلد) پر ہاتھ مارتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 335۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر فرمایا: ’’بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں۔ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکانِ اسلام بھی بجا لاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد اُن کے شامل حال نہیں ہوتی اور اُن کے اخلاق اور عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں۔ حقیقت کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ احکامِ الٰہی کا بجا لانا تو ایک بیج کی طرح ہوتا ہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے۔ ایک شخص جو کھیت کی آبپاشی کرتااور بڑی محنت سے اُس میں بیج بوتا ہے اگر ایک دو ماہ تک اُس میں انگوری نہ نکلے (یعنی بیج نہ پھوٹے) تو ماننا پڑتا ہے کہ بیج خراب ہے۔ یہی حال عبادات کا ہے۔ اگر ایک شخص خدا کووحدہٗ لاشریک سمجھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے اور بظاہر نظر احکامِ الٰہی کو حتی الوسع بجالاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص مدد اُس کے شامل حال نہیں ہوتی تو ماننا پڑتا ہے کہ جو بیج وہ بو رہا ہے وہی خراب ہے۔ یہی نمازیں تھیں جن کو پڑھنے سے بہت سے لوگ قطب اور ابدال بن گئے۔ مگر تم کو کیا ہو گیا کہ باوجود اُن کے پڑھنے کے کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب تم کوئی دوا استعمال کرو گے اور اگر اس سے کوئی فائدہ محسوس نہ کرو گے تو آخر ماننا پڑے گا کہ یہ دوا موافق نہیں۔ یہی حال ان نمازوں کا سمجھنا چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 386-387۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ کرے کہ ہم اس پیغام کو سمجھنے والے ہوں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں عبادتوں کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ اپریل 2012ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے جماعت سمیت پورے یورپ میں مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے لیکن ان مساجد کی خوبصورتی نمازیوں کے ساتھ ہے۔

    یورپ میں مختلف ممالک میں گزشتہ سات آٹھ سال میں 44 مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ 

    2003ء میں جب مسجد بیت الفتوح کا افتتاح ہوا ہے تو اس سے پہلے باقاعدہ مسجد صرف ایک مسجد ’مسجد فضل‘ تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت یوکے کو 14 نئی مساجد بنانے کی توفیق ملی ہے۔

    مانچسٹر میں نوتعمیر شدہ ’مسجد دارالامان‘ کا مبارک افتتاح۔ اس مسجد میں اور ملحقہ ہالز میں کُل تقریباً دو ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ یہ مسجد اب یہاں کی جماعت میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ ہونی چاہئے۔

    مساجد کا حسن تو اُن کی آبادی سے ہے۔ ایسی آبادی جو خالصتہً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔

    ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم جب مسجد بناتے ہیں یا بنائیں تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے بنانے والے ہوں اور مسجد بنانے کے لئے جو قربانی کی ہے، اُس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں نہ کہ کسی قسم کا فخر۔

    ہر مسجد کی تعمیر کے ساتھ جہاں ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے کی اور دعاؤں کی ضرورت ہے وہاں اپنی اولاد کی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور صحابیات کی عبادت کے قیام کی روشن مثالوں کا تذکرہ اور احباب جماعت کو اس حوالہ سے اہم نصائح۔

    مسجد دارالامان مانچسٹر کے افتتاح کے موقع پر فرمودہ خطبہ جمعہ۔

    فرمودہ مورخہ 27؍اپریل 2012ء بمطابق 27؍شہادت 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد دارالامان مانچسٹر

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور