صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے حضورؑ سے شرف ملاقات و زیارت کے ایمان افروز واقعات

خطبہ جمعہ 4؍ مئی 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے وہ واقعات لئے ہیں جن میں انہوں نے اپنے اُن جذبات و احساسات کا ذکر کیا ہے، اُس شوق کا ذکر کیا ہے جس کے تحت وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور زیارت کا شوق رکھتے تھے۔

حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز یونہی بیٹھے بیٹھے میرے دل میں قادیان شریف جانے کا اُبال سا اُٹھا۔ مَیں نے برادرم مکرم منشی سراج الدین صاحب سے ذکر کیا کہ میرا یہ ارادہ ہے۔ اُس وقت میرے پاس خرچ کو ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ برادرم منشی سراج الدین صاحب نے مجھے ایک روپیہ دے کر کہا کہ اس وقت میرے پاس بھی ایک ہی روپیہ ہے ورنہ اور دیتا۔ مَیں نے پھر قاضی منظور احمد صاحب سے ذکر کیا کہ مَیں تو قادیان جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں بھی چلتا ہوں۔ دوسرے روز ہم دونوں قادیان روانہ ہو گئے۔ بٹالہ سے پیدل چل کر قادیان ظہر کے وقت پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کر کے طبیعت کو تسلی ہوئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر 363-364 روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولیؓ)

پھر لکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ بھی کیا پُر لطف زمانہ تھا کہ آپ کی خدمت میں پہنچ کر پیچھے کی کوئی خبر نہ رہتی تھی۔ دل نہ چاہتا تھا کہ آپ سے جدا ہوں۔ اُس وقت ہم جو قادیان پہنچے، آگے جا کر دیکھا کہ میرے خسر قاضی زین العابدین بھی پہنچے ہوئے تھے۔ ہم حضرت مسیح موعودؑ کی ملاقات سے بہت خوش تھے۔ اب کی دفعہ ہم قادیان چار پانچ روز رہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھنے کا موقع دیا۔ یہ محض اللہ کا فضل ہی تھا کہ ہمارے جیسے کمزوروں کو اُس نے اس مبارک زمانے میں پیدا کر کے مبارک وجود سے ملا دیا۔ والحمد للہ علیٰ ذالک۔

پھر حاجی محمد موسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اُس زمانے میں میرا کئی سال یہ دستور العمل رہا کہ’نیا سٹیشن‘ پر (سٹیشن کا نام تھا) ایک جمعدار کے پاس ایک بائیسکل ٹھوس ٹائروں والا رکھا ہوا تھا (یعنی وہ بائیسکل تھا جس کے ٹائروں میں ہوا کے بجائے صرف ربڑ چڑھا ہوا تھا) جمعہ کے روز مَیں لاہور سے بٹالہ تک گاڑی پر جاتا اور وہاں سے سائیکل پر سوار ہو کر قادیان جاتا اور جمعہ کی نماز کے بعد واپس سائیکل پر بٹالہ آ جاتا۔ یہاں سے گاڑی پر سوار ہو کر لاہور آ جاتا۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر11-12روایت حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ) (ہر جمعہ کا یہ اُن کا دستور تھا کہ لاہور سے باقاعدہ قادیان جمعہ پڑھنے جاتے تھے اور گیارہ بارہ میل کا سفر، بلکہ آنا جانا بائیس میل سائیکل پر کرتے تھے۔ )

پھر حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں پہلے پہل فروری 1901ء میں قادیان آیا اور دستی بیعت کی، کیونکہ تحریری بیعت مَیں اگست 1900ء میں کر چکا تھا۔ تو مَیں نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے پوچھا کہ اپنے سلسلے کا کوئی وظیفہ بتائیں۔ فرمایا سلسلہ کا وظیفہ یہ ہے کہ بار بار قادیان آیا کرو۔ تو مجھے فوراً ہی خیال آیا کہ قادیان میں مکان بنایا جائے تا کہ والدین اور بیوی بچے یہاں رہیں اور جب کبھی رخصتیں آئیں تو سیدھے قادیان آ کر ہی رہیں۔ (قادیان میں مکان بنا لیا جائے تا کہ جب بھی چھٹیاں ہوں یہیں آ کر رہیں ) لہٰذا واپس جاتے ہی مَیں نے افریقہ، مشرقی افریقہ جہاں میں ملازم تھا۔ چھ صد روپیہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے نام بھیج دیا کہ میرے لئے مکان بنا دیا جائے، مگر تین سال کے بعد جب مَیں واپس آیا تو مولوی صاحب نے مجھے روپیہ واپس کر دیا اور معذرت کی کہ مجھے موقع نہیں ملا۔ مولوی صاحب حضرت اقدس کے بالا خانے پر رہتے تھے۔ روپیہ واپس دیتے وقت انہوں نے فرمایا کہ یہ سب بڑے بڑے مکانات احمدیوں کے ہی ہیں (یعنی جو غیروں کے، ہندؤوں کے مکان تھے، کہنے لگے یہ سب احمدیوں کے ہیں )۔ خاص کر ہندو ڈپٹی کے مکان کی طرف اشارہ کیا جس میں اب ہمارے دفاتر ہیں۔ لکھتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب عرفان کی چوٹیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر79-80بقیہ روایات حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ)۔ انہوں نے بات کی اور اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی۔ بہرحال وہ باتیں تو وہ تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔ اُسی نے ان کے ایمان میں اس حد تک زیادتی کی کہ یہ یقین تھا کہ یہ سب کچھ ہمیں ملنے والا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ وہ مل گیا۔

حضرت میاں ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ بندۂ خدا! اگر مرزا صاحب واقعی پیر ہیں اور ہم نے ان کو نہ مانا تو پھر ہمارا کیا حشر ہو گا؟ ایک روز مَیں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی منشی عبدالغفور صاحب سے ذکر کیا کہ مَیں تو صبح یا شام قادیان جانے والا ہوں۔ (اب یہ ان کا بیعت سے پہلے کا قصہ ہے۔) انہوں نے سن کر کہا کہ کسی سے ذکر نہ کرنا۔ مَیں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ لہٰذا اُن کی اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور ہم دونوں علی الصبح دوسرے روز ہی قادیان کو چل دئیے۔ غالباً گیہوں گاہے جا رہے تھے (یعنی گندم کی کٹائی ہو کر اُس میں سے اُس کیharvesting ہو رہی تھی)۔ جب ہم دونوں اسٹیشن پر پہنچے تو یکّہ پر سوار ہونے لگے تو آگے یکّہ پر ایک سواری اور بیٹھی تھی۔ وہ میاں نور احمد صاحب کابلی تھے۔ خیر ہم یکّہ پر سوار ہو کر ظہر کے وقت قادیان پہنچے۔ وضو کر کے ہم دونوں مسجد مبارک میں پہنچے، اُس وقت مسجد مبارک بہت چھوٹی سی تھی۔ وہاں ہم سے پہلے پانچ چھ آدمی اور بھی بیٹھے تھے۔ مَیں نے اُن لوگوں کو خوب تاڑ تاڑ کر دیکھا (یعنی بڑے غور سے دیکھا) تو مجھے کوئی اُن میں سے ایسی شکل جس کو مَیں دیکھنا چاہتا تھا نظر نہ آئی (یعنی یہ حضرت  مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنا چاہتے تھے، لیکن بیٹھے ہوؤں میں سے کوئی ایسی شکل نظر نہ آئی) کہتے ہیں کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ تشریف لائے جو تنگ سیڑھیوں کے دروازے میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ مَیں اُن کو دیکھ کر جلدی سے کھڑا ہو گیا۔ دل میں خیال آیا کہ اگر کوئی ہستی ہے تو یہی ہو سکتی ہے(یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ)۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ بیٹھیں۔ حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں (بڑی فراست تھی۔ سمجھ گئے کہ اس کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ فرمایا کہ بیٹھیں ابھی حضرت مسیح موعود تشریف لاتے ہیں) مَیں آپ کے فرمانے سے بیٹھ گیا اور سمجھا کہ اب جو تشریف لائیں گے وہ ان سے(یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل) سے بڑھ کر ہی ہوں گے۔ پانچ چھ منٹ گزرنے کے بعد خادم حضرت مسیح موعودنے خبر دی کہ حضرت اقدس تشریف لا رہے ہیں۔ کوئی دو تین منٹ بعد مسجد مبارک کی کھڑکی کھلی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر مسجد مبارک میں تشریف لائے کہ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سورج نصف النہار ہوتا ہے (یعنی سورج پورا چڑھا ہوا دوپہر کے وقت) جیسی صورت دیکھنے کی دل میں تمنا تھی بخدا اُس سے کہیں بڑھ کر آپ کو پایا۔ ہم سب لوگ جو وہاں پر موجود تھے حضرت اقدس کے تشریف لانے پر تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آپ کے نورانی چہرہ ٔمبارک کو دیکھ کر دل میں اطمینان ہو گیا اور دوسری اچھی سے اچھی شکلیں آپ کے سامنے ماند ہو گئیں۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر360تا362روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولیؓ)

حضرت شیخ عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں 1903ء میں حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری کے ذریعے احمدی ہوا تھا۔ حکیم صاحب گو لاہور کے باشندے تھے مگر چونکہ لائلپور میں حکمت کا کام کرتے تھے اور وہیں اُن کی وفات ہوئی اس لئے لائلپوری مشہور ہیں۔ وہ اپنے کام کے لئے کراچی تشریف لائے تھے۔ اُن کی تبلیغ سے مَیں احمدی ہو گیاتھا۔ 1904ء میں جب مَیں لاہور گیا تو اُن کے مکان پر ہی ٹھہرا تھا۔ جب مَیں جمعہ پڑھنے گمٹی کی مسجد میں گیا تو وہاں اعلان کیا گیا کہ حضور تشریف لانے والے ہیں۔ حضور کا ایک لیکچر بھی یہاں ہو گا۔ چنانچہ یہ اعلان سن کر مَیں بھی ٹھہر گیا۔ جب حضور تشریف لائے تو میاں معراج الدین صاحب کا مکان تیار ہو رہا تھا اور بعض کمرے مکمل بھی ہو چکے تھے۔ حضرت صاحب نے وہیں قیام کرنا پسند فرمایا تھا اور اُس میں جمعہ کی نماز بھی پڑھی تھی۔ خطبہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا تھا اور نماز بھی اُنہوں نے ہی پڑھائی تھی۔ میں دیوانہ وار پھر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ حضرت اقدس سے کسی نہ کسی طریق سے ملاقات ہو جائے۔ اتنے میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور سے آگے گیا۔ مَیں پہلی صف میں حضرت اقدس کے ساتھ بائیں طرف کھڑا ہو گیا، ۔ مَیں جب التحیات پر بیٹھا تو اپنے گناہوں کا خیال کر کے اور حضرت اقدس کے ساتھ اپنا کندھا لگنے کا خیال کر کے بے اختیار رو پڑا۔ ہچکی بھی بندھ گئی۔ حضرت اقدس نے میری یہ حالت دیکھ کر میری پیٹھ پر اپنا دستِ شفقت پھیرا اور تسلی دی۔ (نماز کے بعد ہوا ہو گا یا پہلے۔ التحیات پر بیٹھے تھے تو سلام پھیرنے کے بعد ہی شفقت کا ہاتھ پھیرا ہو گا۔ نماز کے دوران نہیں۔ بہر حال پھر لکھتے ہیں ) جب حضرت اقدس قادیان روانہ ہوئے تو عاجز بھی ساتھ ہو گیا۔ قادیان میں پہنچے ہی تھے کہ تاریخ پر گورداسپور جانا پڑا۔ مَیں بھی ساتھ ہو لیا۔ عصر کی نماز کے بعد ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسیح موعود کو دیکھ لیا ہے اور بیعت کر لی ہے۔ ہماری بخشش کے لئے صرف یہی کافی ہے۔ (یعنی لوگوں کا خیال ہے کہ بیعت کر لی ہے تو بس سارے کام ہو گئے۔ ) فرمایا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا) کہ اصل چیز اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ہے۔ اس سے انسان کا بیڑا پار ہو سکتا ہے۔ ہم تو صرف راستہ دکھانے کے لئے آئے تھے، سو ہم نے راستہ دکھا دیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1صفحہ نمبر1-2روایت حضرت شیخ عبدالکریم صاحبؓ) (پس اس بات پر اللہ تعالیٰ کی جو عبادت اور مدد ہے، اس کی جستجو بھی ہونی چاہئے اور اس کے لئے کوشش بھی ہونی چاہئے اور یہی اصل چیز ہے جو اعلیٰ معیاروں کی طرف لے کر جاتی ہے اور اُس مقصد کو پورا کرتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا مقصد ہے۔)

حضرت صاحب دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ غالباً 1904ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود

علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق احمدیہ جماعت لاہور کو اطلاع ملی کہ حضور فلاں گاڑی پرلاہور پہنچ رہے ہیں۔ ہم لوگ حضور کی پیشوائی کے لئے ریلوے اسٹیشن پر گئے۔ اُن دنوں دو گھوڑا فٹن گاڑی کا بہت رواج تھا۔ ہم نے فٹن تیار کر دی۔ جب حضور سوار ہوئے تو ہم نوجوانوں نے جیسا کہ عام رواج تھا (یہ اخلاص و وفا کا نمونہ ہے) یہ دیکھ کے گھوڑے کھلوائے اور فٹن کو خود کھینچنا چاہا۔ (ان لوگوں نے بگی سے گھوڑے علیحدہ کئے اور کوشش کی کہ خود کھینچیں۔) حضور نے ہمارے اس فعل کو دیکھ کر فرمایا کہ ہم انسانوں کو ترقی دے کر اعلیٰ مدارج کے انسان بنانے آئے ہیں۔ نہ کہ برعکس اس کے انسانوں کو گرا کر حیوان بناتے ہیں کہ وہ گاڑی کھینچنے کا کام دیں۔ (مفہوم یہ تھا، الفاظ شاید کم و بیش ہوں۔) خیر ہم خدام نے فوراً اپنے فعل کو ترک کر دیا اور گھوڑے گاڑی لے کر چل دئیے۔ گھوڑے آگے لگائے اور وہ اُن کو لے کر چل دئیے۔ مَیں فوراً فٹن کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور حضور کو تمام راستہ چھتری تانے آیا گویا اس طرح مجھے چھتر برداری کی خدمت کرنے کا موقع ملا جس پر مجھے فخر ہے کہ حضور کا چھتر بردار ہوں۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1صفحہ نمبر10روایت حضرت صاحب دین صاحبؓ)

حضرت چوہدری غلام رسول صاحب بسراء بیان کرتے ہیں کہ دسمبر 1907ء جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ جمعرات کی شام کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صبح باہر سیر کو جائیں گے۔ اُس وقت دستور یہ تھا کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ دیتے تھے۔ (یہ واقعہ شاید پہلے بھی کہیں بیان ہو چکا ہے، کسی جگہ مَیں نے بیان کیا، لیکن بہر حال اس سے پھر اُن لوگوں کا ذوق اور شوق اور پھر خدمت اور ایک نظر آپ کو دیکھنے کا اظہار ہوتا ہے، کس طرح لوگ حلقہ باندھ لیتے تھے۔) کہتے ہیں کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ دیتے تھے اور آپ اس حلقے کے بیچ میں چلتے تھے۔ ایک دائرے کی شکل میں لوگ ہاتھ پکڑ کے آپ کو بیچ میں لے لیتے تھے تا کہ زیادہ رَش کی وجہ سے دھکے نہ لگیں۔ چنانچہ مَیں نے اپنے ہمرائیوں مولوی غلام محمد گوندل امیر جماعت احمدیہ چک نمبر 99شمالی، چوہدری میاں خانصاحب گوندل اور چوہدری محمد خانصاحب گوندل مرحوم سے صلاح کی کہ اگر خدا نے توفیق دی تو صبح جب آپ باہر سیر کو نکلیں گے تو ہم آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ بنائیں گے۔ اس طرح پر ہم حضور کا دیدار اچھی طرح کر سکیں گے۔ اصل مقصد ایک پہرہ بھی تھا ایک دیدار بھی تھا۔ صبح جب ہم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو تمام لوگ حضور کے انتظار میں بازار میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔ یہ مکمل پتہ تو نہیں تھا کہ حضور کس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے۔ لیکن جس طرف سے ذرا سی بھی آواز اُٹھتی کہ آپ اُس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے لوگ اس طرف ہی پروانہ وار دوڑ پڑتے۔ کچھ دیر اسی طرح ہی چہل پہل بنی رہی۔ آخر پتہ لگا کہ حضور شمال کی جانب ریتی چھلے کی طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے۔ ہم لوگوں نے بھی جو آگے ہی منتظر تھے، کپڑے وغیرہ کَس لئے اور تیار ہو گئے کہ جس وقت حضور بازار سے باہر دروازے میں تشریف لے آئیں گے اُسی وقت ہم بازؤوں کا حلقہ بنا کر آپ کو بیچ میں لے لیں گے۔ ہم اس تیاری میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ ایک بہت بڑے جمّ غفیر کے درمیان آ رہے ہیں۔ بہت زیادہ لوگ ہیں اور اس جمگھٹے نے ہمارے ارادے کو خاک میں ملا دیا اور روندتا ہوا آگے چلا گیا۔ اتنا رش تھا کہ ہم قریب پہنچ ہی نہ سکے۔ ریتی چھلے کے بڑھ کے مغرب کی طرف ایک لسوڑی کا درخت تھا، آپ اس لسوڑی کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں سے آپ لوگوں سے مصافحہ کرنے لگ پڑے۔ کسی نے کہا کہ حضرت صاحب کے لئے کرسی لائی جاوے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ لوگ بڑی کثرت میں تیرے پاس آئیں گے۔ لیکن (یہ پنجابی کا الہام ہے کہ) تو اکّیں نہ اور تھکیں نہ۔ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1صفحہ نمبر71روایت حضرت چوہدری غلام رسول صاحب بسراءؓ)۔ یعنی گھبرانا بھی نہیں ہے، بیزار بھی نہیں ہونا اور لوگوں کے رش سے اور ملنے ملانے سے تھکنا بھی نہیں ہے۔ وہیں پھر ان کو بھی موقع ملا۔

پھر حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے تو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ مصافحے کی اس قدر پیاس تھی کہ کئی دفعہ ہجوم کی لاتوں سے گزر کر مصافحے کرتا رہتا پھر بھی طبیعت سیر نہ ہوتی تھی۔ (بعض دفعہ دھکے بھی پڑتے۔ مشکل بھی پڑتی لیکن بہر حال کوشش کر کے مصافحے کی کوشش کرتے)۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1صفحہ نمبر184روایت حضرت ڈاکٹر عمرالدین صاحبؓ)

حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں قادیان بٹالہ سے جا رہا تھا تو اُسی وقت ایک بوڑھے نابینا احمدی بھی قادیان جانے والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کسی یکّہ پر کوئی جگہ میرے لئے ہے؟ اُس پر مَیں نے کہا کہ آپ ہمارے یکّہ میں آ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میرے پاس ایک اَٹھنّی موجود ہے مَیں اپنے خرچ پر قادیان جاؤں گا۔

یعنی انہوں نے اُن کومفت آفر کی تھی کہ آجائیں۔ جگہ ہے۔ آپ ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں تو انہوں نے کہا نہیں اس طرح نہیں۔ میرے پاس کرائے کے پیسے ہیں۔ مَیں پیسے دے کر جاؤں گا۔ اس سے منجملہ وقار اور غیرت اور سوال سے نفرت کے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ لوگ باوجود اس غربت کے اپنی زندگی اسی میں پاتے تھے کہ بار بار قادیان آئیں۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر2صفحہ نمبر109-110روایت حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ)۔ یعنی ایک تو نابینا شخص کی غیرت تھی، کوئی سوال نہیں، یعنی سوال سے نفرت ہے۔ دوسرے یہ کہ کوشش کر کے پیسے جمع کرتے تھے اور پھر بار بار قادیان آنے کی کوشش کرتے تھے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حکیم احمد دین صاحبؓ جب حضور کی ملاقات کے لئے لاہور جانے لگے تو مَیں نے اُنہیں مخول کیا، یعنی مذاق میں کہا۔ حکیم صاحب نے کہا کہ یار! تم اپنے آدمی ہو کر مخول کرتے ہو۔ یہ بات سُن کر مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوئی اور میرا دل نرم ہو گیا۔ ان کے کہنے پر مَیں بھی حضور کو دیکھنے کے لئے ساتھ چل پڑا۔ (اُس وقت یہ احمدی نہیں تھے، انہوں نے مذاق کیا، حکیم صاحب کو کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ کوئی ایسی بات کی ہو گی۔ خیر انہوں نے اُن کو کچھ احساس دلایا تو ان کو شرم آئی۔ کہتے ہیں بہر حال مَیں بھی پھر ساتھ چل پڑا) مگر بیعت کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں تھا(ساتھ تو چلا گیا لیکن بیعت کا ارادہ نہیں تھا) جب خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے۔ مخلوق بے شمار تھی۔ حضور کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ ہجوم بہت زیادہ ہے حضور کی زیارت کرنا چاہتا ہے۔ حضور نے باری سے یعنی کھڑکی سے سر نکالا۔ مَیں نے اندازہ لگایا کہ یہ چہرہ ہرگز جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مَیں نے بیعت کر لی۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر9صفحہ نمبر336روایت حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ)

ملک برکت اللہ صاحبؓ پسر حضرت ملک نیاز محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1905ء میں ایک دن بوقتِ عصر ہم کو ’راہوں‘ ضلع جالندھر میں (یعنی جس جگہ یہ رہتے تھے، راہوں ضلع جالندھر میں ) وہاں ایک خط، پوسٹ کارڈ ملاکہ حضور علیہ السلام دہلی تشریف لے جا رہے ہیں اور صبح آٹھ یا نو بجے گاڑی پر سے پھگواڑہ سٹیشن پر سے گزریں گے۔ حاجی رحمت اللہ صاحب، چوہدری فیروز خان صاحب مرحوم نے میری ڈیوٹی لگائی کہ تم نوجوان ہو۔ اسی وقت جاؤ اور جماعت کریام کو اطلاع کرو۔ چنانچہ مَیں مغرب کے بعد چل کر کریام پہنچا۔ جماعت کو اطلاع کی گئی۔ وہاں سے بھی کچھ دوست ساتھ ہو لئے۔ ہم سب لوگ اسی طرح چل کر پھگواڑہ جو کہ راہوں سے تیس میل کے فاصلے پر تھا وہاں پہنچے، صبح کی نماز پڑھی۔ وہاں سٹیشن پر منشی حبیب الرحمن صاحب مرحوم نے حاجی پور والوں کی طرف سے احباب جماعت کے ٹھہرنے کا انتظام کیا ہوا تھا اور دن کے وقت اُنہی کی طرف سے کھانا آیا۔ جب گاڑی کا وقت آیا اور گاڑی آ کر گزر گئی تو معلوم ہوا کہ روانگی کی تاریخ تبدیل ہو گئی ہے۔ جو اطلاع تھی اُس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف نہیں لائے بلکہ تاریخ بدل گئی ہے۔ کسی اور دن آئیں گے جس سے ہم کو بہت صدمہ ہوا۔ لکھتے ہیں، یا تو راتوں رات وفورِ محبت کی وجہ سے اتنا لمبا سفر کیا تھا یا یہ حالت ہوئی کہ ایک قدم چلنا بھی دشوار ہو گیا۔ ملنے کا، دیکھنے کا یہ شوق تھا، اُس وجہ سے ہم نے راتوں رات کئی میل کا سفر کیا۔ لیکن اب جب دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف نہیں لا رہے تو پھر پیروں پر جوچھالے پڑے ہوئے تھے وہ بھی یاد آنے لگ گئے۔ صدمہ بھی ہوا اور پھر کہتے ہیں اس صدمے کی وجہ سے واپسی پرہم پھر یکوں پر، (ٹانگوں پر) واپس چلے گئے۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر3صفحہ نمبر227-228روایت حضرت ملک نیاز محمد صاحبؓ معرفت ملک برکت اللہ صاحبؓ)

حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ یہ ان کا احمدیت قبول کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں جب آٹھویں جماعت میں طالب علم تھا تو حنفی اور وہابی لوگوں کی یہاں لاہور میں بہت بحث ہوا کرتی تھی۔ مَیں حنفی المذہب تھا۔ مجھے شوق پیدا ہوا کہ وہابیوں کی مسجد میں بھی جاؤں۔ چنانچہ مَیں نے چینیاں والی مسجد میں جانا شروع کیا۔ جب مَیں اُن کی مسجد میں بیٹھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ قال اللہ اور قال الرسول کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ میری طبیعت کا رجحان پھر اہلحدیث کی طرف ہو گیا۔ بعض وقت وہابیوں کی مجلس میں حضرت صاحب کا بھی ذکر آ جایا کرتا تھا کہ وہ کافر ہیں اور ان کا دعویٰ مسیحیت اسلام کے خلاف ہے۔ طبعاً مجھے پھر اس طرف توجہ ہوئی۔ چنانچہ ایک شخص حضرت ولی اللہ صاحب ولد بابا ہدایت اللہ کوچہ چابک سواراں احمدی تھے مَیں اُن کی خدمت میں جانے لگا اور ان سے حضرت صاحب کے متعلق کچھ معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے مجھے استخارہ کرنے کے واسطے توجہ دلائی۔ چنانچہ اُن سے مَیں نے طریقِ استخارہ سیکھ کر اور دعائے استخارہ یاد کر کے استخارہ کیا۔ رات کے دو بجے دوسرے روز مَیں ابھی استخارہ کی دعا پڑھ کر سویا ہی تھا کہ رؤیا میں مجھے کسی شخص نے کہا کہ آپ اُٹھ کر دو زانو بیٹھیں کیونکہ آپ کے پاس حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور مجھے بھی زینے سے کسی آدمی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ چنانچہ مَیں رویا ہی میں دو زانوبیٹھ گیا۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ ایک نہایت سفید لباس میں انسان آیا ہے اور انہوں نے ایک بازو سے حضرت مرزا صاحب کو پکڑ کر میرے سامنے کھڑا کر دیا اور فرمایا: ’’ھَذَا الرَّجُلُ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا‘‘۔ پھر وہ دوبارہ تشریف لے گئے اور حضرت صاحب میرے پاس کھڑے ہو گئے اور اپنی ایک انگلی اپنی چھاتی پر مار کرپنجابی میں کہا۔ (انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھاکہ انہوں نے پنجابی میں کہا) ’’ایہو ربّ خلیفہ کیتا ایس نوں مہدی جانو‘‘۔ پھر ایک نظم کی رباعی بھی پڑھی لیکن مَیں بھول گیا ہوں۔ اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ مَیں مسیح موعود ہوں۔ مَیں پھر بیدار ہو گیا۔ صبح میں بجائے سکول جانے کے قادیان روانہ ہو گیا۔ گاڑی بٹالہ تک تھی اور قریباً شام کے وقت وہاں پہنچتی تھی۔ مَیں بٹالہ کی مسجد میں جو اڈے کے سامنے چھوٹی سی ہے نماز پڑھنے کے لئے گیا۔ مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں کا ارادہ ہے؟ مَیں نے کہا لاہور سے آیا ہوں اور قادیان جانے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے حضرت صاحب کو بہت گالیاں دیں اور مجھے وہاں جانے سے روکا۔ جب مَیں نے اپنا مصمم ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے مجھے مسجد سے نکال دیا۔ مَیں اڈے میں آگیا مگر کچھ لوگ اڈے پر بھی میرے پیچھے آئے اور مجھے ہر چند قادیان جانے سے روکا۔ بہت کوشش کی۔ اور کہا کہ اگر تم طالب علم ہو تو ہم تمہیں بڑے میاں کے پاس بٹھا دیں گے اور تمہاری رہائش اور لباس کا بھی انتظام کر دیں گے۔ مگر مَیں نے عرض کیا کہ مَیں پہلے ہی لاہور میں پڑھتا ہوں۔ اس کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔ (اس لئے مجھے یہاں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ ) مَیں قادیان میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے جا رہا ہوں۔ اس پر انہوں نے زیادہ مخالفت شروع کی مگر مَیں نے پروا نہ کی اور قادیان کی طرف شام کے بعد ہی چل پڑا۔ اندھیرا بہت تھا۔ رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا اور راستہ پہلے دیکھا ہوا نہیں تھا۔ مَیں غلطی سے چراغ کو دیکھ کرجو دور جل رہا تھا مسانیاں چلا گیا۔ (قادیان کی طرف ہی ایک اور جگہ تھی) وہاں نماز عشاء ہو چکی ہوئی تھی۔ ایک آدمی مسجد میں بیٹھا ذکر الٰہی کر رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے اور کہاں سے آئے ہیں؟ مَیں نے کہا لاہور سے آیا ہوں اور حضرت مرزا صاحب کو ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے جواباً کہا کہ یہ تو مسانیاں ہے۔ قادیان نہیں۔ قادیان یہاں سے دور ہے اور تم یہاں سو جاؤ۔ صبح کے وقت جانا کیونکہ راستہ ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ مَیں وہاں مسجد میں لیٹ گیا اور چار بجے کے قریب جب چاند چڑھا (لیٹ نائٹ(Late Night) آخری وقت تھا، چاند کے دن تھے، چاندنکلا) تو مَیں نے اُس شخص کو کہا کہ مجھے راستہ دکھا دو۔ وہ مجھے وڈالہ تک چھوڑ گیا اور مجھے سڑک دکھا گیا۔ چنانچہ مَیں نے صبح کی نماز نہر پر پڑھی اور سورج نکلنے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد قادیان پہنچ گیا۔ قادیان کے چوک میں جا کر مَیں نے ایک شخص سے پوچھا کہ بڑے مرزا صاحب کہاں ہیں؟ اس نے مجھے کہا کہ وہاں نہا کر سامنے مکان کی حویلی میں تخت پوش پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں۔ (مرزا نظام الدین کی طرف اشارہ کر دیا)کہتے ہیں: مَیں سنتے ہی آگے بڑھا تو مَیں نے دیکھا کہ ایک معمر شخص نہا کر تخت پوش پر بیٹھا ہے اور بدن بھی ابھی اس کا گیلا ہی ہے اور حقہ پی رہا ہے۔ مجھے بہت نفرت ہوئی اور قادیان آنے کا افسوس بھی ہوا۔ (اتنا تردّد کیا، اتنی محنت کی، سفر کیا، قادیان آیا ہوں تومَیں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں۔ کہتے ہیں ) مَیں مایوس ہو کر واپس ہوا۔ (اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کرنی تھی تو کہتے ہیں )۔ موڑ پر ایک شخص شیخ حامد علی صاحبؓ ملے۔ انہوں نے مجھے پوچھا کہ آپ کس جگہ سے تشریف لائے ہیں اور کس کو ملنا چاہتے ہیں؟ مَیں نے کہا مَیں نے جس کو ملنا تھا اس کو مَیں نے دیکھ لیا ہے اور اب مَیں واپس لاہور جا رہا ہوں۔ میرے اس کہنے پر انہوں نے مجھے فرمایا کہ کیا آپ مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آئے ہیں تو یہ وہ مرزا صاحب نہیں ہے جن کو آپ مل کر آئے ہیں، وہ اور ہیں اور مَیں آپ کو ان سے ملا دیتا ہوں۔ تب میری جان میں جان آئی اور مَیں کسی قدر تسکین پذیر ہوا۔ حامد علی صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ ایک رقعہ لکھ دیں مَیں اندر پہنچاتا ہوں۔ جس پر مَیں نے مختصراً یہ لکھا کہ مَیں طالب علم ہوں۔ لاہور سے آیا ہوں۔ زیارت چاہتا ہوں اور آج ہی واپس جانے کا ارادہ ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ مہمانخانے میں ٹھہریں اور کھانا کھائیں اور ظہر کی نماز کے وقت ملاقات ہو گی۔ اس وقت مَیں ایک کتاب لکھ رہا ہوں (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اس وقت مَیں ایک کتاب لکھ رہا ہوں ) اور اس کا مضمون میرے ذہن میں ہے اگر مَیں اس وقت ملاقات کے لئے آیا تو ممکن ہے کہ وہ مضمون میرے ذہن سے اتر جائے۔ اس واسطے آپ ظہر کی نماز تک انتظار کریں۔ مگر مجھے اس جواب سے کچھ تسلی نہ ہوئی۔ مَیں نے دوبارہ حضرت کو لکھا کہ مَیں تمام رات مصیبت سے یہاں پہنچا ہوں اور زیارت کا خواہش مند ہوں۔ للہ مجھے اسی وقت شرف زیارت سے سرفراز فرمائیں۔ تب حضور نے مائی دادی کو کہا کہ ان کو مسجد مبارک میں بٹھاؤ اور مَیں ان کی ملاقات کے لئے آتا ہوں۔ مجھے وہاں کوئی پندرہ منٹ بیٹھنا پڑا۔ اس کے بعد حضور نے مائی دادی کو بھیجا کہ ان کو اس طرف بلا لاؤ۔ حضرت صاحب اپنے مکان سے گلی میں آگئے اور مَیں بھی اس گلی میں آگیا۔ (دوسری طرف سے) دور سے میری نظر جو حضرت صاحب پر پڑی تو وہی رؤیا میں (خواب میں جو دیکھا تھا) جو شخص مجھے دکھایا گیا تھا بعینہٖ وہی حلیہ تھا۔ حضرت صاحب کے ہاتھ میں عصا بھی تھا اور پگڑی بھی پہنی ہوئی تھی۔ سوٹی ہاتھ میں تھی۔ گویا تمام وہی حلیہ تھا۔ اس سے قبل مجھے دادی کی معرفت معلوم ہوا تھا کہ حضرت صاحب کپڑے اتار کر تشریف فرما ہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کو مجھے رؤیا والا نظارہ دکھانا منظور تھا۔ اس لئے حضور نے جو لباس زیب تن فرمایا وہ بالکل وہی تھا جو مَیں نے رؤیا میں دیکھا تھا۔ میں حضرت صاحب کی طرف چل پڑا تھا اور حضرت صاحب میری طرف آرہے تھے۔ گول کمرہ کے دروازہ سے ذرا آگے میری اور حضرت صاحب کی ملاقات ہوئی۔ مَیں نے حضرت صاحب کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ خواب والے ہی بزرگ ہیں اور سچے ہیں۔ چنانچہ مَیں حضور سے بغلگیر ہو گیا اور زار زار رونے لگا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ وہ رونا مجھے کہاں سے آیا اور کیوں آگیا مگرمَیں کئی منٹ تک روتا ہی رہا۔ حضور مجھے فرماتے تھے صبر کریں، صبر کریں۔ جب میرا رونا ذراتھم گیا اور مجھے ہوش قائم ہوئی تو حضور نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ مَیں نے عرض کیا لاہور سے۔ حضور نے فرمایا کیوں آئے؟ مَیں نے کہا زیارت کے لئے۔ حضور نے فرمایا: کوئی خاص کام ہے؟ مَیں نے پھر عرض کیا کہ صرف زیارت ہی مقصد ہے۔ حضور نے فرمایا۔ بعض لوگ دعا کرانے کے لئے آتے ہیں اپنے مقصد کے لئے۔ کیا آپ کو بھی کوئی ایسی ضرورت درپیش ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی ضروت درپیش نہیں۔ تب حضور نے فرمایا کہ مبارک ہو۔ اہل اللہ کے پاس ایسے بے غرض آنا بہت مفید ہوتا ہے۔ (یہ غالباً حضرت صاحب نے مجھ سے اس لئے دریافت فرمایا تھا کہ ان ایام میں حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جس میں لکھا تھا کہ بعض لوگ میرے پاس اس لئے آتے ہیں کہ اپنے مقاصد کے لئے دعا کرائیں)۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر9صفحہ نمبر120تا126روایت حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ) لیکن میری اس بات سے بہت خوش ہوئے، مبارکباد دی کہ میرا تو مقصد صرف اور صرف آپ کو ملنا اور زیارت تھا۔)

حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب ہم اپنے وطن پہنچے تو دو ماہ کے بعد پھر قادیان آنے کی تحریک پیدا ہوئی مگر خرچ نہیں تھا مگر دل چاہتا تھا کہ پیدل ہی چلنا پڑے تو چلنا چاہئے۔ دو روپے میرے پاس تھے۔ مَیں رہتاس سے جہلم باوجود گاڑی ہونے کے پیدل آیا۔ پھر خیال آیا کہ آگے بھی پیدل ہی چلنا چاہئے۔ جہلم کے پل سے گزرنے لگا تو چار پانچ سپاہی رسالے کے جن کے پاس دو دو گھوڑے تھے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ گھوڑا مجھے پکڑا دو۔ وہ کہنے لگے کہ تم گجرات کے ضلع کے رہنے والے ہو۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گھوڑا لے کر بھاگ نہ جاؤ۔ خیرمَیں نے کہا کہ مَیں ضلع جہلم کا ہوں، گجرات کا نہیں ہوں۔ رہتاس سے آ رہا تھا۔ مگر انہوں نے نہ مانا مگرمَیں ان کے ساتھ رہا کیونکہ رات کا سفر بھی وہ کرتے تھے۔ جو دو سپاہی تھے وہ جب مرالے میں اترے تو مَیں نے بھی وہیں بسترا بچھا لیا۔ ایک سکھ کہنے لگا کہ میاں تم ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ (اُن میں سے ایک سکھ بھی تھا) ہمیں تمہارا ڈر ہے۔ جس وقت آدھی رات ہوئی وہ چل پڑے۔ مَیں بھی ساتھ ہو لیا۔ پھر ایک سکھ نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ تم ہمارا کوئی گھوڑا نہ لے جاؤ۔ مَیں نے کہا کہ مَیں تو جلدی جانا چاہتا ہوں۔ ساتھ کی خاطر تمہارے ہمراہ چل پڑا ہوں۔ ایک سکھ نے کہا کہ یہ بھلا مانس آدمی معلوم ہوتا ہے اُسے گھوڑا دے دو۔ چنانچہ تین میل مَیں نے گھوڑے پر سوار ہو کر سفر کیا۔ رات وزیر آباد پہنچے۔ پل پر سے گزرنے کا پیسہ بھی مجھے انہوں نے دیا اور ر ات کا کھانا بھی انہوں نے ہی کھلایا۔ (یعنی کوئی ٹول ٹیکس لگتا ہو گا، وہ بھی انہوں نے دیا، رات کا کھانا کھلایا) رات ایک بجے پھر تیار ہو گئے اور مجھے گھوڑا دے دیا۔ دوسری رات کامونکی یا مریدکے میں بسیرا کیا۔ پھر انہوں نے کھانا مجھے کھلایا۔ پھر رات چل کر صبح سات یا آٹھ بجے لاہور پہنچے۔ (یہ تقریباً کوئی سو ڈیڑھ سو میل کا سفر بنتا ہے) لاہور پہنچے۔ پھر چونکہ ان کا راستہ الگ تھا اس لئے وہ علیحدہ ہو گئے۔

گیارہ بجے لاہور سے گاڑی چلنی تھی۔ مَیں آٹھ بجے پہنچا۔ اس لئے خیال کر کے کہ کون تین گھنٹے انتظار کرے (قادیان پہنچنے کاشوق تھا۔ تین گھنٹے انتظار کیا کرنا ہے۔ کہتے ہیں) مَیں پھر پیدل چل پڑا۔ ڈیڑھ گھنٹے میں جلّو پہنچا۔ وہاں سٹیشن پر گاڑی کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ پونے بارہ بجے چلے گی۔ پھر مَیں وہاں سے چل پڑا۔ اٹاری پہنچا۔ سٹیشن سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ سوا گھنٹہ گاڑی میں ہے۔ مَیں پھر چل پڑا۔ کیا انتظار کرنا ہے۔ ابھی دو میل خاصہ کا سٹیشن رہتا تھا کہ گاڑی نکل گئی۔ خاصہ سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اب شام کے سات بجے گاڑی آئے گی۔ مَیں پھر پیدل چل پڑا اور کوئی شام سے قبل ہی امرتسر پہنچ گیا۔ وہاں ایک شیخ ہمارے شہر کے تھے ان کے پاس رات بسر کی۔ وہاں سے صبح گاڑی پر سوار ہوا اور چھ آنے دے کر بٹالہ پہنچ گیا۔ بٹالہ سے پھر پیدل چل کر چار پانچ بجے قادیان پہنچ گیا۔ دوسرے روز صبح حضرت صاحب سے ملاقات کی۔ چار پانچ دن آرام سے گزارے۔ پھر اجازت چاہی اور عرض کیا کہ ہم چھوٹے ہوتے یہ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ! امام مہدی کے آنے پرہمیں سپاہی بننے کی توفیق عطا فرما۔ سفر کا تمام واقعہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایاکہ کس طرح مَیں نے اکثر وقت جو ہے سفر کا پیدل طے کیا ہے۔ تھوڑا سا عرصہ بیچ میں گھوڑے پر بھی سواری کی۔ یہ باتیں سن کر حضرت  مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پرفرمایا کہ آپ نے بڑی ہمت کی ہے اور فرمایا کہ آپ کوئی کام جانتے ہیں؟ مَیں نے کہا حضور سوائے روٹی پکانے کے اور کوئی کام نہیں جانتا اور وہ بھی معمولی طور پر۔ فرمایاکہ نام لکھوا دیں۔ ضرورت پڑنے پر ہم آپ کو بلا لیں گے۔ اُس پر مَیں نے نام لکھوا دیا۔ ’’غلام حسین۔ رہتاس۔ ضلع جہلم‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر10صفحہ نمبر319تا321 روایت حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ)

یہ تمام روایات اُن لوگوں کی ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کا شوق تھا اور زیارت کا شوق تھا۔ اس کے لئے وہ تکلیفیں بھی برداشت کرتے تھے اور یہ تکلیفیں اُن کے لئے بہت معمولی ہوتی تھیں۔ اُس کے مقابلے میں جو فیض انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پایا اور جو ایمان میں اُن کی زیادتی ہوتی تھی۔ اللہ کرے ہم میں سے بھی ہر ایک یہ واقعات سن کر صرف واقعات کے مزے لینے والے نہ ہوں بلکہ ہر واقعہ ہمارے ایمان میں بھی زیادتی پیدا کرنے والا ہو۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 4؍ مئی 2012ء شہ سرخیاں

    ’’اہل اللہ کے پاس بے غرض آنا بہت مفید ہوتاہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

    حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰ ۃوالسلام کے صحابہ کے حضور علیہ السلام  سے شرف ملاقات و زیارت کے لئے دلی ذوق وشوق اور محبت بھرے احساسات و جذبات کے ایمان افروز واقعات کا روح پرور تذکرہ۔

    فرمودہ مورخہ 4؍مئی 2012ء بمطابق 4؍ہجرت 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور