حضرت محمد ﷺ توحید باری تعالیٰ کا حقیقی اورعملی نمونہ

خطبہ جمعہ 16؍ مئی 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں ذکر ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہو کر قرآن کریم کو سمجھا، قرآنی احکامات کو سمجھا، اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھا کیونکہ توحید کا حقیقی مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کے بغیر سمجھ آ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی قرآن کریم کا علم آپ کے وسیلے کے بغیر حاصل ہو سکتا ہے۔ اس لئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حقیقی اور عملی نمونہ اور مثال ہیں۔ بہر حال آج میں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جو توحید کے بارے میں آپ نے بیان فرمائے کہ سچی توحید کیا ہے؟ توحید کی حقیقت کیا ہے؟ کس طرح عمل کرنے سے انسان حقیقی موحد کہلا سکتا ہے۔

سورۃ الناس کی تفسیر میں اِلٰہِ النَّاس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔ رَبِّ النَّاس۔ مَلِکِ النَّاس۔ اِلٰہِ النَّاس کا مضمون بیان ہو رہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ

’’مَیں … بتلانا چاہتا ہوں کہ پہلے اس صورت میں خداتعالیٰ نے رَبِّ النَّاس فرمایا۔ پھر مَلِکِ النَّاس، آخر میں اِلٰہِ النَّاس فرمایا جو اصلی مقصود اور مطلوب انسان کا ہے‘‘ (یعنی اِلٰہِ النَّاس جو ہے وہی انسان کا اصل مقصد ہے، اسی کی انسان کو طلب ہے اور ہونی چاہئے)۔ فرمایا کہ: ’’اِلٰہ کہتے ہیں مقصود، معبود، مطلوب کو۔‘‘ (یعنی وہ چیز جو حاصل کرنی ہے، جو ہمارا ٹارگٹ ہے، جس کو حاصل کرنا ضروری ہے یا جہاں تک پہنچنے کے لئے ایک مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے، ایک موحد کو کوشش کرنی چاہئے اور اسی کی ہمیں طلب ہے)۔ فرمایا: ’’اِلٰہ کہتے ہیں مقصود، معبود، مطلوب کو۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی یہی ہیں کہ لَا مَعْبُوْدَ لِیْ وَلَا مَقْصُوْدَ لِیْ وَلَا مَطْلُوْبَ لِیْ اِلَّا اللّٰہُ۔‘‘ (کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی مقصودنہیں، کوئی مطلوب نہیں، کوئی معبودنہیں)۔

فرمایا کہ ’’… یہی سچی توحید ہے کہ ہر مدح اور ستائش کا مستحق اللہ تعالیٰ کو ہی ٹھہرایا جائے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 321۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

جتنی بھی تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی منسوب کی جائیں۔ جو تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جاتی ہیں اور اسی کو ہی زیب دیتی ہیں اور یہی حقیقی توحید ہے۔

فرمایا کہ ’’توحید تبھی پوری ہوتی ہے کہ کُل مرادوں کا مُعطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذاتِ واحد ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی یہی ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’صوفیوں نے الٰہ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے۔ بے شک اصل اور سچ یونہی ہے جب تک انسان کامل طور پر کار بندنہیں ہوتا۔ اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ 32۔ ایڈیشن2003ء مطبوعہ ربوہ)۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر حقیقی طور پر کاربند ہو تبھی اسلام کی محبت اور عظمت قائم ہو گی ورنہ صرف باتیں ہیں۔ پھر آپ اسلام کی اعلیٰ و اکمل تعلیم کے بارے میں فرماتے ہیں

’’یہ خدا کا فضل ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا اور اس فضل کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ جس پہلو سے دیکھو مسلمانوں کو بہت بڑے فخر اور ناز کا موقع ہے۔ مسلمانوں کا خدا پتھر، درخت، حیوان، ستارہ یا کوئی مردہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ قادر مطلق خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے پیدا کیا اور حيّ وقیوم ہے۔

مسلمانوں کا رسول وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی نبوت اور رسالت کا دامن قیامت تک دراز ہے۔ آپؐ کی رسالت مُردہ رسالت نہیں بلکہ اس کے ثمرات اور برکات تازہ بتازہ ہرزمانے میں پائے جاتے ہیں جو اس کی صداقت اور ثبوت کی ہر زمانہ میں دلیل ٹھہرتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت بھی خدا نے ان ثبوتوں اور برکات اور فیوض کو جاری کیا ہے اور مسیح موعود کو بھیج کر نبوتِ محمدیہ کا ثبوت آج بھی دیا ہے اور پھر اس کی دعوت ایسی عام ہے کہ کُل دنیا کے لیے ہے۔‘‘

فرمایا اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ ’’قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا(الاعراف: 159)‘‘ (کہ کہہ دے کہ اے لوگو! میں تمہارے لئے تم، سب کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں) ’’اور پھر فرمایا وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰالَمِیْنَ (الانبیاء: 108)‘‘۔ (اور ہم نے تجھے دنیا کی طرف صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔) فرمایا کہ ’’کتاب دی تو ایسی کامل اور ایسی محکم اور یقینی کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرۃ: 3) اور فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنَۃ: 4)‘‘ (جس میں قائم رہنے والے احکام ہیں۔ باقی کتابیں تو صرف قصے ہیں، قصے رہ گئے ہیں۔ ایسی صداقتیں جو دائمی ہیں وہ صرف قرآن کریم میں نظر آتی ہیں۔) ’’اور اٰیٰتٌ مُحْکَمٰت۔ قَوْلٌ فَصْلٌ۔ مِیْزَانٌ۔ مُھَیْمِنٌ۔‘‘

پھر فرماتے ہیں کہ ’’غرض ہر طرح سے کامل اور مکمل دین مسلمانوں کا ہے جس کے لئے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: 4) کی مہر لگ چکی ہے۔‘‘ (کہ آج تمہارے لئے تمہارا دین مکمل ہو گیا۔ اپنی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا۔ یہ مہر اب لگ چکی ہے۔ پس اسلام ہی ہے جو آخری اور کامل دین ہے جو تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔)

پھر فرمایا: ’’…پھر کس قدر افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ ایسا کامل دین جو رضائے الٰہی کا موجب اور باعث ہے رکھ کر بھی بے نصیب ہیں‘‘(ایسے دین کی طرف منسوب ہو کر بھی بے نصیب ہیں) ’’اور اس دین کے برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں لیتے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو ایک سلسلہ ان برکات کو زندہ کرنے کے لئے قائم کیا تو اکثر انکار کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور لَسْتَ مُرْسَلَاً اور لَسْتَ مُؤْ مِنًا کی آوازیں بلند کرنے لگے۔‘‘ (مسیح موعود کو بھیجا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ہی فیض ہے تو بجائے اس کے کہ قبول کرتے انکار کرنا شروع کر دیا۔ یہ نعرے لگانے شروع کر دئیے کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہیں آئے۔ یہ آوازیں بلند کرنی شروع کر دیں کہ تم مومن نہیں ہو۔)

فرمایا کہ ’’یاد رکھو خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار محض ان برکات کو جذب نہیں کر سکتا جو اس اقرار اور اُس کے دوسرے لوازمات یعنی اعمال صالحہ سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘۔ صرف توحید کا اقرار کر لینا برکات کو جذب نہیں کرے گا۔ اس اقرارکے ساتھ جو لوازمات ہیں یعنی اعمال صالحہ کا بجا لانا، وہ بھی کیونکہ ضروری ہیں اس لئے جب تک وہ پیدا نہیں ہوتے (برکتیں نہیں ملیں گی)۔ توحید کی برکتیں تبھی ملیں گی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہو کر آپ کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے، عمل کرتے ہوئے اعمال صالحہ بجا لاؤ گے۔

فرمایا: ’’یہ سچ ہے کہ توحید اعلیٰ درجہ کی جُز ہے جو ایک سچے مسلمان اور ہر خدا ترس انسان کو اختیار کرنی چاہئے مگر توحید کی تکمیل کے لئے ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ محبت ِالٰہی ہے یعنی خدا سے محبت کرنا۔

قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدّعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہٗ لا شریک ہے ایسا ہی محبت کی رُو سے بھی اس کو وحدہٗ لا شریک یقین کیا جاوے اور کُل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ یہی رہا ہے۔ چنانچہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ جیسے ایک طرف توحید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیل ِمحبت کی ہدایت بھی کرتا ہے‘‘ ( لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ توحید کی تعلیم بھی دیتا ہے اور توحید کی تکمیل محبت، اس سے توحید سے محبت کرنے کے کمال کو حاصل کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔) ’’اور جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا ہے یہ ایک ایسا پیارا اور پُر معنی جملہ ہے کہ اس کی مانند ساری تورات اور انجیل میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے۔

اِلٰہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے۔ گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے۔ یاد رکھوکہ جو توحید بِدوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادھوری ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ136۔ 137۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا اللہ تعالیٰ کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو کر ملتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔ اعلان کرایا کہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ(آل عمران: 32)۔ انہوں نے فرمایا کہ میری پیروی کرو تو پھر اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملے گی۔

توحید کی حقیقت اور ایک مؤمن کا کیا معیار ہونا چاہئے، اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ

’’جو لوگ حکّام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا خطاب پاتے ہیں۔ اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے۔ وہ اُن کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے‘‘ (توحید کے معیار کو ختم کر دیتا ہے۔) ’’اور انسان کو اس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دُور پھینک دیتا ہے۔ پس انبیاء علیہم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مآل کار توحید پر جا ٹھہرے۔‘‘ (آخرکار جو نتیجہ ہے، جو سارا انحصار ہے وہ توحید پر جا کے ٹھہرے۔) ’’وہ انسان کو‘‘(یعنی انبیاء انسان کو) ’’یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزّتیں، سارے آرام اور حاجات برآری کا متکفّل خدا ہی ہے۔ پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدّوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے۔‘‘ (جب دو ضدوں کا مقابلہ ہو گا تو لازماً ایک ہلاک ہو گی۔ دو دشمنوں کا مقابلہ ہو گا، دو فریقین کا مقابلہ ہو گا تو ایک کو بہر حال ہار ماننی پڑے گی۔)

فرمایا کہ ’’اس لئے مقدم ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو۔ رعایت اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔‘‘ (اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ جو ذریعے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں، وسائل مہیا کئے ہیں ان کو استعمال کرو لیکن ان کو خدا نہ بناؤ۔ توحید کو مقدم رکھو۔) ’’اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔ محسنِ حقیقی وہی ہے۔ ذرّہ ذرّہ اُسی سے ہے۔ کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا۔ جب انسان اس پاک حالت کوحاصل کرے تو وہ موحد کہلاتا ہے۔‘‘ (جب یہ حالت ہو جائے گی، مکمل انحصار خدا تعالیٰ پر ہو جائے گا) کوئی دوسرا درمیان میں نہیں ہوگا تبھی موحد کہلاؤ گے۔) ’’غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بنائے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے۔‘‘ (یعنی اسباب جو ہیں انہی پر زیادہ زیادہ انحصار نہ کرے۔ حد سے زیادہ نہ بڑھے۔ صرف انہی پر چارہ نہ کرے، اپنا مدار نہ رکھے۔

فرمایا کہ ’’تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس اور وجود کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھادیا جاوے‘‘(توحید قائم کرنے کے لئے تیسری چیز یہ ہے کہ اپنے نفس کو بھی مٹا دو۔ اس کی جو غرضیں ہیں، جو ذاتی نفسانی اغراض ہیں ان کو ختم کر دو۔) ’’اور اس کی نفی کی جاوے۔ بسا اوقات انسان کے زیر ِنظر اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے‘‘ (اکثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے اور بعض کاموں میں اپنی خوبی اپنی طاقت پر انحصار کر رہا ہوتا ہے۔) ’’کہ فلاں نیکی مَیں نے اپنی طاقت سے کی ہے۔ انسان اپنی طاقت پر ایسا بھروسہ کرتا ہے کہ ہر کام کو اپنی قوت سے منسوب کرتا ہے۔ انسان موحد تب ہوتا ہے کہ جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کردے۔

لیکن اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان جیسا کہ تجربہ دلالت کرتا ہے‘‘ (تجربے سے یہ ثابت ہے کہ) ’’… عموماً کوئی نہ کوئی حصہ گناہ کا اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بعض موٹے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض اوسط درجہ کے گناہوں میں اور بعض باریک در باریک قسم کے گناہوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جیسے بخل، ریاکاری یا اور اسی قسم کے گناہ کے حصوں میں گرفتار ہوتے ہیں۔ جب تک ان سے رہائی نہ ملے انسان اپنے گمشدہ انوار کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں۔ بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ ان کی بجاآوری ہر ایک کو میسّر نہیں ہے۔ مثلاً حج۔ یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو۔ پھر راستہ میں امن ہو۔ پیچھے جو متعلقین ہیں ان کے گزارہ کا بھی معقول انتظام ہو‘‘ (یہ نہیں کہ گھر والوں کو بھوکا چھوڑ جاؤ کہ ہم حج پر جا رہے ہیں) ’’اور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے۔ ایسا ہی زکوٰۃ ہے۔ یہ وہی دے سکتا ہے جو صاحب نصاب ہو۔ ایسا ہی نماز میں بھی تغیرات ہو جاتے ہیں۔‘‘ (سفر میں قصر ہو جاتی ہے یا بعض دوسرے حالات میں جمع ہو جاتی ہے۔) ’’لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تغیر نہیں‘‘(کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہو سکتی) ’’وہ ہے: لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ اصل یہی بات ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ سب اس کے مکمّلات ہیں۔ توحید کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک عبادات کی بجا آوری نہ ہو۔‘‘ (جس طرح اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اس طرح عبادت کرو گے تبھی توحید کی تکمیل ہو گی۔

فرمایا کہ ’’اس کے یہی معنے ہیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ کہنے والا اس وقت اپنے اقرار میں سچا ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی وہ ثابت کر دکھائے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی محبوب و مطلوب اور مقصودنہیں ہے۔ جب اس کی یہ حالت ہو اور واقعی طور پر اس کا ایمانی اور عملی رنگ اس اقرار کو ظاہر کرنے والا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں جھوٹا نہیں۔ ساری مادی چیزیں جل گئی ہیں اور ایک فنا اُن پر اس کے ایمان میں آگئی ہے تب وہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ منہ سے نکالتا ہے اور مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ جو اس کا دوسرا جزو ہے وہ نمونہ کے لیے ہے۔ کیونکہ نمونہ اور نظیر سے ہر بات سہل ہو جاتی ہے۔‘‘ (مثالیں قائم ہوں تو سب باتیں آسان ہو جاتی ہیں اور مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کر کے، اپنا اسوہ حسنہ قائم کر کے ہمیں دے دی۔)

فرمایا کہ ’’انبیاء علیہم السّلام نمونوں کے لئے آتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے۔‘‘ (تمام کمالات جتنے بھی ہیں آپ میں جمع ہو گئے اور ان کے نمونوں کی مثالیں بھی آپ نے قائم کر دیں۔) ’’کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپؐ میں جمع ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 58۔ 59۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک سوال ہوا کہ یہودیوں میں بھی توحید موجود ہے۔ اسلام اس سے بڑھ کر کیا پیش کرتا ہے؟ اعتراض کرنے والے نے یہ اعتراض کیا۔

آپ نے فرمایا کہ ’’یہودیوں میں توحید تو نہیں ہے۔ ہاں قشر التوحید بے شک ہے‘‘ (کہ توحید کا خول ہے جو موجود ہے۔) ’’اور نرا قشر کسی کام نہیں آ سکتا۔ توحید کے مراتب ہوتے ہیں۔ بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ نرا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہی کہہ دینا کافی نہیں۔ یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے۔ جبتک عملی طور پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو۔ کچھ نہیں۔ یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے؟ آپ ہی بتا دیں۔‘‘ (سوال کرنے والا بھی یہودی تھا۔ )’’توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تویہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سرزدنہ ہو۔ اور کوئی فعل اس کا اﷲ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو۔ گویا اﷲ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہو جاوے۔ اسی واسطے اس کے معنے یہ ہیں۔ لَامَعْبُوْدَ لِیْ وَلاَ مَحْبُوْبَ لِیْ وَلَا مُطَاعَ لِیْ اِلَّااللّٰہُ۔ یعنی اﷲ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی میر امعبود ہے نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے۔

یاد رکھو شرک کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک شرک جلی کہلاتا ہے دوسرا شرک خفی۔ شرک جلی کی مثال تو عام طو رپر یہی ہے جیسے یہ بُت پرست لوگ بتوں، درختوں یا اور اشیاء کو معبود سمجھتے ہیں۔ اور شرک خفی یہ ہے کہ انسان کسی شئی کی تعظیم اسی طرح کرے جس طرح اﷲ تعالیٰ کی کرتا ہے۔‘‘(ضرورت سے زیادہ کسی کو عزت و مقام دینا شروع کر دے) تو فرمایا ’’جس طرح اللہ تعالیٰ کی کرتا ہے یا کرنی چاہیے یا کسی شئی سے اﷲ تعالیٰ کی طرح محبت کرے یا اس سے خوف کرے یا اس پر توکل کرے۔

اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ حقیقت کامل طور پر توریت کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے یا نہیں؟ خود حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں جو کچھ ان سے سرزد ہوا۔‘‘(بتانے والے کو آپ فرما رہے ہیں کہ) ’’وہ آپ کو بھی معلوم ہوگا۔ اگر توریت کافی ہوتی تو چاہئے تھا کہ یہودی اپنے نفوس کو مزکی کرتے مگر ان کا تزکیہ نہ ہوا۔ وہ نہایت قسی القلب اور گستاخ ہوتے گئے۔‘‘ (حضرت موسیٰ کو بھی جواب دینے لگ گئے تھے۔ ) ’’یہ تاثیر قرآن شریف ہی میں ہے کہ وہ انسان کے دل پر بشر طیکہ اس سے صوری اور معنوی اعراض نہ کیا جاوے۔ ایک خاص اثر ڈالتا ہے اور اس کے نمونے ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں۔ چنانچہ اب بھی موجود ہے۔

قرآن شریف نے فرمایا: قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32) یعنی اے رسول! تو ان لوگوں کو کہہ د ے کہ اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اﷲ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع انسان کو محبوب ِالٰہی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل موحد کا نمونہ تھے۔ پھر اگر یہودی توحید کے ماننے والے ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ایسے موحد سے دُور رہتے۔‘‘ (یعنی پھر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانناچاہئے تھا) ’’انہیں یاد رکھنا چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ کے خاتم الرسلؐ کا انکار اور عنادنہایت خطرناک امر ہے۔ مگر انہوں نے پروا نہیں کی اور باوجود یکہ ان کی کتاب میں آپ کی پیشگوئی موجود تھی مگر انکار کر دیا۔ اس کی وجہ بجز اس کے اَور کیا ہو سکتی ہے کہ قَسَتْ قُلُوُبُہُمْ (الانعام: 44)۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ 448۔ 449۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ایک موقع پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلط عقیدے پر ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ

’’اسلام وہ مصفّا اور خالص توحید لے کر آیا تھا جس کا نمونہ اور نام و نشان بھی دوسرے ملّتوں اور مذہبوں میں پایا نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ میرا ایمان ہے کہ اگرچہ پہلی کتابوں میں بھی خدا کی توحید بیان کی گئی ہے اور کُل انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اور منشاء بھی توحید ہی کی اشاعت تھی۔ لیکن جس اسلوب اور طرز پر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم توحید لے کر آئے اور جس نہج پر قرآن نے توحید کے مراتب کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی اور کتاب میں اس کا ہر گز پتہ نہیں ہے۔ پھر جب ایسے صاف چشمہ کو انہوں نے مکدّر کرنا چاہا ہے‘‘ (یعنی ان لوگوں نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل نہیں ہیں اور خدا تعالیٰ کے مقابل پر بعض جگہ انہوں نے کھڑا کیا ہوا ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، ان کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ جب ایسے صاف چشمہ کو انہوں نے یعنی ایسے مسلمان کہلانے والوں نے مکدر کرنا چاہا ہے۔) ’’تو بتاؤ اسلام کی توہین میں کیا باقی رہا۔ اس پر اُن کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب ان کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے پیش کیا جاتا ہے اور قرآن شریف کے ساتھ ثابت کر کے دکھایا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بَری کر سکتے ہیں؟ نہیں ! بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سنت ِقدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجت اُن پر پوری ہوتی ہے۔ جب کبھی کوئی خدا کا مامور اور مُرسل آیا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کو سن کر یہی کہا ہے۔ مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْ اٰبَآ ئِنَا الْاَوَّلِیْنَ (المؤمنون: 25)۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ188۔ 189۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) یعنی ہم نے اپنے پہلے باپ دادوں میں اس قسم کا واقعہ ہوتے نہیں دیکھا نہ سنا۔

توحید اور شرک فی الاسباب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’توحید اس کا نام نہیں کہ صرف زبان سے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ لیا۔ بلکہ توحید کے یہ معنی ہیں کہ عظمت ِالٰہی بخوبی دل میں بیٹھ جاوے اور اس کے آگے کسی دوسری شئے کی عظمت دل میں جگہ نہ پکڑے۔ ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون کا مرجع اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو سمجھا جاوے اور ہر ایک امر میں اسی پر بھروسہ کیا جاوے کسی غیر اللہ پر کسی قسم کی نظر اور توکل ہرگز نہ رہے اور خدا تعالیٰ کی ذات میں اور صفات میں کسی قسم کا شرک جائز نہ رکھا جاوے۔

اس وقت مخلوق پرستی کے شرک کی حقیقت تو کُھل گئی ہے اور لوگ اس سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں‘‘ (یعنی عیسائی بھی جو حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتے تھے دور ہٹنے لگ گئے ہیں، بیزاری ظاہر کرنے لگ گئے ہیں۔ ) ’’اس لئے یورپ وغیرہ تمام بلاد میں عیسائی لوگ ہر روز اپنے مذہب سے متنفر ہو رہے ہیں۔ چنانچہ روز مرہ کے اخباروں، رسالوں اور اشتہاروں سے جو یہاں پڑھے جاتے ہیں اس بات کی تصدیق ہو تی ہے۔‘‘اس زمانے میں متنفر ہونے کی جو رفتار تھی اب تو اس سے ہزاروں گنا بڑھ گئی ہے بلکہ عملاً بہت سے لوگ صرف کہنے کے لئے نام نہاد عیسائی ہیں۔ اس نظریے کو ماننے کے قائل ہی نہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں یانہیں ہیں یا خدا ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے وجود کے بھی اسی وجہ سے انکاری ہو رہے ہیں۔ )

فرمایا کہ ’’الغرض مخلوق پرستی کو اب کوئی نہیں مانتا۔ ہاں اسباب پرستی کا شرک اس قسم کا شرک ہے کہ اس کو بہت سے لوگ نہیں سمجھتے۔ مثلاً کسان کہتا ہے کہ مَیں جب تک کھیتی نہ کرونگا اور وہ پھل نہ لاوے گی تب تک گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہر ایک پیشہ والے کو اپنے پیشہ پر بھروسہ ہے اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر ہم یہ نہ کریں تو پھر زندگی محال ہے۔ اس کا نام اسباب پرستی ہے اور یہ اس لئے ہے کہ خداتعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان نہیں ہے پیشہ وغیرہ تو درکنار پانی، ہوا، غذا وغیرہ جن اشیاء پر مدارِ زندگی ہے یہ بھی انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک خداتعالیٰ کا اذن نہ ہو۔‘‘(اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ )’’اسی لئے جب انسان پانی پئے تو اسے خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی پیدا کیا ہے اور پانی نفع نہیں پہنچاسکتا جب تک خداتعالیٰ کا ارادہ نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کے ارادے سے پانی نفع دیتا ہے اور جب خداتعالیٰ چاہتا ہے تو وہی پانی ضرر دے دیتا ہے۔‘‘(نقصان دیتا ہے۔) (ملفوظات جلد 3صفحہ 229۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایا کہ ایک شخص نے ایک دفعہ روزہ رکھا ہوا تھا تو جب روزہ افطار کیا تو پا نی پی لیا اور پانی پیتے ہی لیٹ گیا۔ اس کے لئے پا نی نے ہی زہر کا کام کیا۔ پانی پیتے ہی ایسی تکلیف ہوئی کہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا اور وہی پانی جو زندگی بخش چیز ہے وہاں اس کے لئے زہر بن گیا۔ بعض لوگ روزے کے بعد بے انتہا پانی پی جاتے ہیں، ان کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس بارے میں احتیاط کرنی چاہئے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 230۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر فرمایا کہ ’’جو کام ہے خواہ معاشرہ کا خواہ کو ئی اَور جب تک اس میں آسمان سے برکت نہ پڑے تب تک مبا رک نہیں ہوتا۔ غرض کہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات پر کامل یقین چاہئے۔ جس کا یہ ایمان نہیں ہے اس میں دہریت کی ایک رگ ہے۔ پہلے ایک امر آسمان پر ہو رہتا ہے۔ تب زمین پر ہو تا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 230۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایا کہ ’’لا ف وگزاف کا نا م تو حیدنہیں۔ مو لویوں کی طرف دیکھو کہ دوسروں کو وعظ کر تے اور آپ کچھ عمل نہیں کر تے۔ اسی لئے اب اُن کا کسی قسم کا اعتبا ر نہیں رہا ہے۔ ایک مو لوی کا ذکر ہے کہ وہ وعظ کر رہا تھا۔ سامعین میں اس کی بیوی بھی موجود تھی۔ صدقہ و خیرات اور مغفرت کا وعظ اس نے کیا۔ اس سے متا ثر ہو کر ایک عورت نے پاؤں سے ایک پازیب اُتار کر واعظ صاحب کو دیدی جس پر واعظ صاحب نے کہا تو چاہتی ہے کہ تیرا دوسرا پاؤں دوزخ میں جلے؟ یہ سن کر اس نے دوسری بھی دیدی۔ جب گھر میں آئے تو بیوی نے بھی اس وعظ پر عملدرآمد چاہا کہ محتاج کو کچھ دے۔ مو لوی صاحب نے فر ما یا کہ یہ با تیں سنا نے کی ہو تی ہیں کر نے کی نہیں ہوتیں اور کہا کہ اگر ایسا کا م ہم نہ کر یں تو گزارہ نہیں ہو تا۔‘‘ (آجکل کے مولویوں کا یہی حال ہے۔ ) ’’انہیں کے متعلق یہ ضرب المثل ہے ؎

واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر مے کنند

چوں بخلوت مے روند آں کا رِدیگر مے کنند‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 230۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یعنی وعظ کرنے والے جو کچھ محراب و منبر پر بتاتے ہیں جب تنہائی میں جاتے ہیں تو اس کام کے برخلاف کرتے ہیں۔ پھر ایک حقیقی مومن جو توحید پر قائم ہو کیسا ہوتا ہے یا کیسا ہونا چاہئے۔ اس کی حالت بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ

’’مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے۔ اسے صرف خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی حاجت ہوتی ہے اور اسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مدّ نظر رکھتا ہے کیونکہ جب اس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اسے کسی کے ضرر اور نفع کا کیا خوف ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے بالمقابل کسی دوسرے کے وجود کو دخل دیتاہے تو ریاء اور عجب وغیرہ معاصی میں مبتلا ہوتا ہے۔‘‘

فرمایا: ’’یاد رکھو کہ یہ دخل وہی ایک زہر ہے اور کلمہلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے اوّل جزو لَااِلٰہَ میں اس کی بھی نفی ہے۔‘‘

فرمایا کہ ’’جب انسان کسی انسان کی خاطر خدا تعالیٰ کے ایک حکم کی بجا آوری سے قاصر رہتا ہے تو آخر اُسے خد اکی کسی صفت میں شریک کرتا ہے تبھی تو قاصر رہتا ہے‘‘ (جب اللہ تعالیٰ کے جو حکم احکامات ہیں ان میں سے کسی ایک حکم کو وہ نہیں بجا لاتا، اس کو چھوڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں کسی کو شریک سمجھتا ہے تبھی وہ کام نہیں کر رہا۔ فرمایا کہ) ’’اس لئے لَااِلٰہَ کہتے وقت اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 87۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اگر حقیقی مومن ہے تو جب لَااِلٰہَ کہتا ہے تواس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کر رہا ہے۔ یعنی کسی بھی صفت میں اللہ تعالیٰ کے مقابل پر کسی کو نہیں لاتا اور یہی لَااِلٰہَ کی حقیقت ہے۔

فرمایا ذکر کرتے ہوئے کہ بعض کتابوں میں بعض واقعات لکھے ہیں۔ روزے داروں کا ایک ذکر لکھا ہے کہ

’’کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اسے مقصود ہو کہ اپنے روزہ کا اظہار کرے تومالکِ خانہ کے استفسار پر بجائے اس کے کہ سچ بولے کہ مَیں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس کی نظروں میں بڑا نفس کُش ثابت کرنے کے لئے‘‘ (کہ میں اپنے نفس پر بڑی سختی کرتا ہوں ) ’’جواب دیا کرتے ہیں کہ مجھے عذر ہے۔‘‘ (غرض اس کی یہ ہوتی ہے کہ بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں۔ یعنی واضح طور پر نہیں کہتا کہ روزہ رکھا ہوا ہے بلکہ بہانہ کہ بس ایک وجہ ہے۔ میں کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں۔ فرمایا کہ) ’’غرضیکہ اسی طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں جو اعمال کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (اس طرح جو بناوٹ ہے اور تصنع ہے یا اپنی کسی بھی نیکی کا اظہار کرنا یہ مخفی گناہ ہیں اور اس سے آہستہ آہستہ پھر اعمال تباہ ہو جاتے ہیں۔ انسان توحید سے دور ہو جاتا ہے۔

فرمایا کہ ’’امر اء کو کبر اور نخوت لگے رہتے ہیں جو کہ ان کے عملوں کو کھاتے رہتے ہیں۔ اس لئے بعض غریب آدمی جن کو اس قسم کے خیالات نہیں ہوتے وہ سبقت لے جاتے ہیں۔‘‘ (کیونکہ کبر اور نخوت جو ہے وہ انسان کو توحید سے بھی دور کرتی ہے۔ فرمایا کہ) ’’غرضیکہ ریاء وغیرہ کی مثال ایک چوہے کی ہے جو کہ اندر ہی اندر اعمال کو کھاتا رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے لیکن اس کی طرف آنے کے لئے عجز ضروری ہے۔‘‘(عاجزی ہو گی تو اللہ کے قریب آؤ گے) ’’جس قدر انانیت اور بڑائی کا خیال اس کے اندر ہوگا خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو، خواہ ریاست کے لحاظ سے، خواہ مال کے لحاظ سے، خواہ خاندان اور حسب نسب کے لحاظ سے، تو اسی قدر پیچھے رہ جاویگا۔ اسی لئے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے ہیں کیونکہ خاندانی تکبر کا خیال ان میں پیدا ہو جاتا ہے۔ قرونِ اولیٰ کے بعد جب یہ خیال پیدا ہوا تو یہ لوگ رہ گئے۔‘‘

فرمایا کہ ’’اس قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں۔ بہت ہی کم ہیں جو ان سے نجات پاتے ہیں۔ امارت اور دولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 87۔ 88۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اور یہی چیزیں، دولت بھی اور امارت بھی ہیں جو احکامات کی بجا آوری سے روکتی ہیں اور جب احکامات پر عمل نہ ہو تو پھر توحید سے انسان دور ہو جاتا ہے۔

آپ کا ایک الہام ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْک۔ (اس کے بارہ میں ) آپ سے سوال کیا گیا کہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تو مجھ میں سے ہے اور میں تجھ میں سے یہ تو تَوحید کے خلاف ہے۔

فرمایا کہ ’’اَنْتَ مِنِّیْ تو بالکل صاف ہے اس پر کسی قسم کا اعتراض اور نکتہ چینی نہیں ہوسکتی۔ میرا ظہور محض اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے ہے اور اسی سے ہے۔‘‘ یعنی اَنْتَ مِنِّیْ کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ

’’یاد رکھنا چاہئے کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا قرآن شریف میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے وحدہٗ لاشریک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں نہ افعال الٰہیہ میں۔ سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان کامل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک انسان ہر قسم کے شرک سے پاک نہ ہو۔ توحید تب ہی پوری ہوتی ہے کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو کیا بااعتبار ذات اور کیا بااعتبار صفات کے اصل اور افعال کے بے مثل مانے۔‘‘ (اب اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے حساب سے یہی سمجھے کہ اسی کی طرف ساری منسوب ہوتی ہیں۔ اسی کی ذات اور صفات جو ہیں وہ ہر چیز پر حاوی ہیں اور جو کام ہیں ان کے جیسے بے مثل نتائج اللہ تعالیٰ پیدا فرماسکتا ہے اور کوئی پیدا نہیں فرما سکتا۔)

فرمایا: ’’نادان میرے اس الہام پر تو اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے نہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے لیکن اپنی زبا ن سے ایک خدا کا اقرار کرنے کے باوجودبھی اللہ تعالیٰ کی صفات دوسرے کے لئے تجویز کرتے ہیں جیسے حضرت مسیح علیہ السلا م کو محی اور ممیت مانتے ہیں۔‘‘ (زندہ کرنے والا اور مردہ کرنے والا مانتے ہیں۔ مارنے والا مانتے ہیں۔) ’’عالم الغیب مانتے ہیں۔ الحی القیوم مانتے ہیں۔ کیا یہ شرک ہے یا نہیں؟ یہ خطرناک شرک ہے جس نے عیسائی قوم کو تباہ کیا ہے اور اب مسلمانو ں نے اپنی بد قسمتی سے اُن کے اس قسم کے اعتقادوں کو اپنے اعتقادات میں داخل کر لیا ہے۔ پس اس قسم کے صفات جو اللہ تعالیٰ کے ہیں کسی دوسرے انسا ن میں خواہ وہ نبی ہو یا ولی تجویزنہ کرے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال میں بھی کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔ دنیا میں جو اسباب کا سلسلہ جاری ہے بعض لوگ اس حد تک اسباب پرست ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ تو حید کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ شرک فی الاسباب کا بھی شائبہ باقی نہ رہے۔ خواص الاشیاء کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جاوے‘‘ (یعنی جو چیزوں میں خواص ہوتے ہیں ان کے بارے میں یہ یقین نہ کیا جائے۔) ’’کہ وہ خواص ان کے ذاتی ہیں بلکہ یہ ماننا چاہئے کہ وہ خواص بھی اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ جیسے تُربد‘‘(ایک بوٹی ہے) ’’اسہال لاتی ہے یا سم الفار ہلاک کر تا ہے۔‘‘(ایک زہر ہے۔) ’’…اب یہ قوتیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخودنہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ نکال لے تو پھرنہ تُربد دست آور ہوسکتی ہے اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی خاصیت رکھ سکتا ہے، نہ اسے کھا کر کوئی مَر سکتا ہے۔ غرض اسباب کے سلسلہ کو حدِّ اعتدال سے نہ بڑھادے اور صفات وافعال الٰہیہ میں کسی کوشریک نہ کرے تو توحید کی حقیقت متحقق ہوگی اور اسے موحد کہیں گے لیکن اگر وہ صفات و افعال الٰہیہ کو کسی دوسرے کے لئے تجویز کرتا ہے تو وہ زبان سے گو کتنا ہی توحید کو ماننے کا اقرارکرے وہ موحدنہیں کہلا سکتا۔ ایسے موحد تو آریہ بھی ہیں جو اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں لیکن باوجود اس اقرار کے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ روح اور مادہ کو خدا نے پیدا نہیں کیا۔ وہ اپنے وجود اور قیام میں اللہ تعالیٰ کے محتاج نہیں ہیں گویا اپنی ذات میں ایک مستقل وجود رکھتے ہیں۔‘‘ (یہ روح اور مادہ۔) ’’اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہو گا؟ اسی طرح پر بہت سے لوگ ہیں جو شرک اور توحیدمیں فرق نہیں کرسکتے۔ ایسے افعال اور اعمال اُن سے سر زد ہوتے ہیں یا وہ اس قسم کے اعتقاد ات رکھتے ہیں جن میں صاف طور پرشرک پایا جاتا ہے مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہوجاتے یا فلاں کام درست نہ ہوتا۔ پس انسان کو چاہئے کہ اسباب کے سلسلہ کو حدِّ اعتدال سے نہ بڑھاوے اور صفات و افعال الٰہیہ میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘

فرمایا کہ ’’انسان میں جو قوتیں اور ملکات اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں ان میں وہ حد سے نہیں بڑھ سکتے مثلاً آنکھ اس نے دیکھنے کے لئے بنائی ہے اور کان سننے کے لئے، زبان بولنے اور ذائقہ کے لئے۔ اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کانوں سے بجائے سننے کے دیکھنے کا کام لے۔ زبان سے بولنے اور چکھنے کی بجائے سننے کا کام لے۔ ان اعضاء اور قویٰ کے افعال اور خواص محدود ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے افعال اور صفات محدودنہیں ہیں اور وہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ہے۔ غرض یہ توحید تب ہی پوری ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے واحد لا شریک یقین کیا جاوے اور انسان اپنی حقیقت کو ہا لکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت سمجھ لے کہ نہ مَیں اور نہ میری تدابیر اور اسباب کچھ چیز ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 1۔ 2۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

فرمایا کہ اب اَنَا مِنْک کے بارے میں پھر فرماتے ہیں کہ

’’اس کی حقیقت سمجھنے کے واسطے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا انسان جو نیستی کے کامل درجہ پر پہنچ کر ایک نئی زندگی اور حیات طیبہ حاصل کر چکا ہے اور جس کو خدا تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا ہے اَنْتَ مِنِّی۔ جو اس کے قُرب اور معرفت الٰہی کی حقیقت سے آشنا ہونے کی دلیل ہے اور یہ انسان خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی عزت و عظمت اور جلال کے ظہور کاموجب ہو اکرتاہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک عینی اور زندہ ثبوت ہوتا ہے۔ اس رنگ سے اور اس لحاظ سے گویا خدا تعالیٰ کا ظہور اس میں ہوکر ہوتا ہے‘‘(جب بالکل خدا تعالیٰ میں ڈوب جاتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا ظہور اس میں ہو جاتا ہے۔) ’’اور خدا تعالیٰ کے ظہور کا ایک آئینہ ہو تا ہے۔ اس حالت میں جب اس کا ذکر خدا نما آئینہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اُن کے لئے یہ کہتا ہے وَاَنَا مِنْکَ۔ ایسا انسان جس کو اَنَا مِنْکَ کی آواز آتی ہے اُس وقت دنیا میں آتا ہے جب خدا پرستی کا نام و نشان مٹ گیا ہوتا ہے‘‘(اَنَا مِنْکَ کی آواز جس انسان کو آئے وہ اس وقت آتا ہے جب لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے دور ہٹ چکے ہوتے ہیں اس کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا ہے) ’’اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا مَیں ان لوگو ں کوجواللہ تعالیٰ سے غافل اور بیخبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلا دوں۔ اس بناء پر اللہ تعا لیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا۔ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 5۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرماتے ہیں کہ ’’توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دے اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کر دے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 158۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

صحابہ کا اخلاص بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’صحابہ کرامؓ کے حالات کو دیکھ کر تعجب ہو تا ہے کہ انہوں نے نہ گر می دیکھی نہ سردی اپنی زند گی کو تباہ کر دیا۔ نہ عزت کی پروا کی نہ جان کی۔ بکری کی طرح ذبح ہو تے رہے۔ اس طرح کی نظیر پیش کر نی آسان نہیں ہے۔ اس جماعت کے اخلاص کا اس سے زیادہ کیا ثبوت ہے کہ جان دیکر اخلاص ثابت کیا۔ ان کے نفس بالکل دنیا سے خالی ہو گئے تھے جیسے کوئی ڈیوڑھی پر کھڑا سفر کے لئے تیار ہوتا ہے ویسے ہی وہ لوگ دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے واسطے تیار تھے۔ لوگوں کے کاموں میں بہت حصہ دنیا کا ہو تا ہے اور اس فکر میں ہو تے ہیں کہ یہ کرو وہ کرو اور وقت مؤجل آپہنچتا ہے۔ خدا ایسا نہیں کہ کسی کو ضائع کرے۔ یہ اعتراض کہ ہمارے املاک تباہ ہو جاویں گے غلط ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابوبکرؓ وغیرہ کے املاک ہی کیا تھے؟ ایک ایک دو دو سو یا کچھ زیادہ روپیہ کسی کے پاس ہوگا مگر اس کا اجر اُن کو یہ ملا کہ خدا تعالیٰ نے بادشاہ کر دیا اور قیصرو کسریٰ کے وارث ہوگئے۔ مگر خدا تعالیٰ کی غیرت یہ نہیں چا ہتی کہ کچھ حصہ خدا کا ہوا اور کچھ شیطان کا اور توحید کی حقیقت بھی یہی ہے کہ غیر ازخدا کا کچھ بھی حصہ نہ ہو۔ تو حید کا اختیار کرنا تو ایک مرنا ہے لیکن اصل میں یہ مرنا ہی زند ہ ہو نا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 336۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ

’’یقینا سمجھو۔ اس دنیا کے بعد ایک اور جہان ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ اس کے لئے تمہیں اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔ یہ دنیا اور اس کی شوکتیں یہاں ہی ختم ہو جاتی ہیں مگر اس کی نعمتوں اور خوشیوں کا کوئی بھی انتہا نہیں ہے۔

مَیں سچ کہتا ہوں کہ جو شخص ان سب باتوں سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہی مومن ہے اور جب ایک شخص خدا کا ہو جاتا ہے تو پھر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اسے چھوڑ دے۔ یہ مت سمجھو کہ خدا ظالم ہے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے کچھ کھوتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ پا لیتا ہے۔ اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدّم کر لو اور اولاد کی خواہش نہ کرو تو یقینا اور ضروری سمجھو کہ اولاد مل جاوے گی۔ اور اگر مال کی خواہش نہ ہو تو وہ ضرور دے دے گا۔ تم دو کوششیں مت کرو کیونکہ ایک وقت دو کوششیں نہیں ہو سکتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو پانے کی سعی کرو۔‘‘ (کوشش کرو۔ جو خدا تعالیٰ کے واسطے دنیا کو چھوڑ دیتے ہیں انہیں دنیا بھی مل جاتی ہے لیکن یہ شرط ہے کہ ہر قسم کے شرک سے بچو۔)

فرمایا: ’’مَیں پھر کہتا ہوں کہ اسلام کی اصل جڑ توحید ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کوئی چیز انسان کے اندر نہ ہو اور خدا اور اُس کے رسولوں پرطعن کرنے والا نہ ہو خواہ کوئی بلا یا مصیبت اس پر آئے۔ کوئی دکھ یا تکلیف یہ اٹھائے مگر اس کے منہ سے شکایت نہ نکلے۔ بَلا جو انسان پر آتی ہے وہ اس کے نفس کی وجہ سے آتی ہے۔ خدا تعالیٰ ظلم نہیں کرتا۔ ہاں کبھی کبھی صادقوں پر بھی بَلا آتی ہے مگر دوسرے لوگ اسے بَلا سمجھتے ہیں درحقیقت وہ بَلا نہیں ہوتی۔ وہ ایلام برنگ انعام ہوتا ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق بڑھتا ہے اور ان کا مقام بلند ہوتا ہے۔ اس کو دوسرے لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن جن لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا اور ان کی شامتِ اعمال ان پر کوئی بَلا لاتی ہے تو وہ اَور بھی گمراہ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا ہے: فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (البقرۃ: 11) پس ہمیشہ ڈرتے رہو اور خدا تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو تا ایسا نہ ہو کہ تم خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والوں میں ہو جاؤ۔ جو شخص خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اس کو ایسی توفیق عطا کی۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ ایک قوم کو فنا کر کے دوسری پیدا کرے۔ یہ زمانہ لوطؑ اور نوحؑ کے زمانہ سے ملتا ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی شدید عذاب آتا اور دنیا کا خاتمہ کر دیتا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے اصلاح چاہی ہے اور اس سلسلے کو قائم کیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد5صفحہ 98۔ 99۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ہماری بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس تعلیم کو سمجھیں۔ توحید کی حقیقت کو سمجھیں۔ فرمایا کہ

’’ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں کیونکہ ان کو توتازہ معرفت ملتی ہے اور اگر معرفت کا دعویٰ کر کے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے۔ پس ہماری جماعت کو دوسروں کی سُستی غافل نہ کر دے‘‘(دنیا کے نمونے دیکھ کر ان کے پیچھے نہ چل پڑو۔) ’’…اور اس کو کاہلی کی جرأت نہ دلادے۔ وہ ان کی محبت سرد دیکھ کر خود بھی دل سخت نہ کر لے۔‘‘ (دوسرے لوگوں کی دین کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی طرف محبت نہیں ہے تو دیکھا دیکھی اپنے دل بھی کہیں سخت نہ کر لیں۔ فرمایا ’’انسان بہت آرزوئیں اور تمنائیں رکھتا ہے۔ مگر غیب کی، قضا وقدر کی کس کو خبر ہے۔ زندگی آرزوؤں کے موافق نہیں چلتی۔ تمنّاؤں کا سلسلہ اور ہے، قضاو قدر کا سلسلہ اور ہے۔ اور وہی سچا سلسلہ ہے۔‘‘ (جو قضا و قدر کا ہے۔ )’’خدا کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں۔ اسے کیا معلوم ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اس لئے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 157۔ 158۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توحید کا حقیقی ادراک عطا فرمائے اور ہمارا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔

نماز جمعہ کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ یہ مکرم عبدالکریم عباس صاحب سیریا کا ہے جو 5؍مئی کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے 2005ء میں بیعت کی سعادت پائی تھی اور بعد میں آ کے بہت آگے نکلنے والوں میں شامل ہو گئے۔ خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ 2009ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ چندوں کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے۔ گزشتہ سال مالی حالات کی خرابی کے باعث ملک میں جو حالات ہیں ان پر بھی اثر پڑا۔ اگر بہت دور بھی ہوتے تھے تو کسی رشتے دار کے ہاتھ چندہ ضرور بھجوا دیا کرتے تھے۔ مرحوم شوگر کے مریض تھے اور صحت کافی خراب تھی۔ جسم بھی دبلا پتلا تھا۔ گزشتہ دنوں خرابی صحت اور تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئے۔

ان کو مکرم ملہم العدس صاحب نے تبلیغ کی تھی اور اپنے صدق و اخلاص کی وجہ سے جلد ہی انہوں نے بیعت کی توفیق پائی۔ لکھتے ہیں کہ آپ نے سچی تلاش حق اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے باعث زیادہ مطالعہ کے بغیر ہی حق کو قبول کر لیا اور تبلیغ کے ایک ماہ بعد ہی بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ مسجد قبا میں کبار صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اور سب نے سفید لباس پہنا ہوا ہے۔ نیز بیان کیا کہ نماز کے دوران ان کی حالت بہت روحانی تھی۔ مرحوم اس خواب سے بہت خوش تھے۔ کہا کرتے تھے کہ یہ خواب اس بات کا ثبوت ہے کہ میرا بیعت کا فیصلہ درست تھا۔ لیکن اپنی خاکساری کے باعث ہمیشہ پوچھا کرتے تھے کہ کیا میں واقعی صحابہ کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہل ہوں۔ جہاں بھی ہوتے تبلیغ کرتے۔ اس بارے میں کسی خوف یا ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ خصوصاً یہ بات اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ آپ اس علاقے میں رہتے تھے جہاں کے رہائشی اپنے عقائد اور عادات کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے۔

شدید بیماری کے باوجود جماعت سے رابطہ رکھتے اور مطالعہ کرتے اور دلائل سیکھتے اور نرمی سے آگے بیان فرماتے۔ بہت نرم دل اور دھیمے مزاج کے طور پر مشہور تھے۔ ہمیشہ یہ ثابت کرتے کہ بیماری کوئی روک نہیں ہے اور ہر کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پہنچانے میں حصہ لے سکتا ہے۔ جب تبلیغ کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے تو آنکھیں نمناک ہو جاتیں۔ حق کی بات ہمیشہ جرأت اور بہادری سے کرتے اور سننے والوں کو احساس نہ ہوتا کہ ایسا کلام کوئی دبلا پتلا انسان بھی کر سکتا ہے۔

وفات کے بعد ان کے گھر والے کیونکہ احمدی نہیں تھے ان کی نعش آبائی گاؤں لے گئے اور وہاں احمدی بھی جنازہ نہیں پڑھ سکے۔ بہرحال بعد میں انہوں نے جنازہ غائب پڑھا۔ ہم بھی انشاء اللہ پڑھیں گے۔

ہانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم بہت مخلص احمدی تھے۔ 2009ء میں میرے لئے ویب سائٹ ڈیزائن کرنے کی پیش کش کی۔ میں نے وقت کی کمی کا عذر کیا تو کہنے لگے مجھے صرف مضامین بھجوا دیا کریں۔ باقی کام میں خود کروں گا۔ پھر انہوں نے بہت ہی خوبصورت ویب سائٹ ڈیزائن کی۔ جماعت کی خدمت کے بارے میں اپنی لگن اور شدت کا اور تڑپ کا اظہار کرتے تھے۔ مجید عامر صاحب نے بھی لکھا ہے کہ مرحوم محمد العباس کے ساتھ خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اردو کتب کے عربی تراجم کی چیکنگ اور دہرائی کے سلسلے میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ اس دوران شدت سے محسوس کیا کہ مرحوم غیر معمولی اخلاص اور باریک بینی سے کام کرنے اور جلد کام کو نپٹانے کے عادی تھے۔ کبھی بیماری کو اس راہ میں آڑے نہیں آنے دیا بلکہ بیماری کا کبھی ذکر تک بھی نہیں کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو پڑھ کر بڑی سعادت اور خوشی کا اظہار کرتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معارف اور تعلیمات جلد عرب لوگوں میں پہنچنے چاہئیں تا کہ وہ بھی اس سے مستفیض ہوں اور ہدایت پائیں۔ خلافت کی محبت میں سرشار تھے۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ مئی 2014ء شہ سرخیاں

    رعایت اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔ اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ جو ذریعے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں، وسائل مہیا کئے ہیں ان کو استعمال کرو لیکن ان کو خدا نہ بناؤ۔ توحید کو مقدم رکھو۔

    لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حقیقی اور عملی نمونہ اور مثال ہیں۔ مسلمانوں کا رسول وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی نبوت اور رسالت کا دامن قیامت تک دراز ہے۔

    اس وقت بھی، آج بھی خدا نے مسیح موعود کو بھیج کر نبوتِ محمدیہ کا ثبوت دیا ہے۔ پس اسلام ہی ہے جو آخری اور کامل دین ہے جو تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔

    اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان کامل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک انسان ہر قسم کے شرک سے پاک نہ ہو۔

    بعض لوگ اس حد تک اسباب پرست ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں۔

    مکرم عبدالکریم عباس صاحب آف سیریا کی وفات۔ ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 16؍مئی 2014ء بمطابق 16ہجرت 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور