جلسہ سالانہ پر خدمت کرنے والے رضاکاروں اور میزبانوں کے لئے اہم ہدایات

خطبہ جمعہ 22؍ اگست 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ اگلے جمعہ سے شروع ہو رہا ہے۔ جلسہ گاہ یا حدیقۃ المہدی میں وہ علاقہ جہاں سارے جلسہ کے انتظامات ہوتے ہیں، وہاں اب تک کافی حد تک تیاری کے کام مکمل ہو چکے ہیں۔ مہمانوں کی بھی آمد شروع ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب مہمانوں کی جو جلسے کی برکات کے حصول کے لئے سفر کر رہے ہیں، سفر میں ہیں یا آ چکے ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں، حفاظت فرمائے اور جو سفر کر رہے ہیں ان کے سفروں کو بھی آسان کرے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور خیریت سے لائے۔ دنیا کے حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں سفروں کی اور مسافروں کی بھی فکر رہتی ہے۔ بہرحال ہماری تو یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو، نہ صرف احمدیوں کو بلکہ دنیا کے ہر فرد کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور وہ اس امن اور سکون کو پا سکیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رضا کارانہ خدمت کے جذبے کے تحت ہمارے جلسے کے انتظامات سرانجام پاتے ہیں اور اس حوالے سے جلسے سے ایک جمعہ پہلے مَیں کارکنان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ بھی دلاتا ہوں۔ اس وقت اسی بارے میں چند باتیں میں کارکنان کے حوالے سے کارکنان کو کہوں گا۔ بلکہ مہمان نوازی سے متعلق جو باتیں ہیں ان کا تعلق صرف کارکنان یا جلسے کے رضاکاروں سے ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص سے ہے جس کے گھر میں جلسے کے مہمان آ رہے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں کہنا چاہئے کہ مہمان کا احترام، اس کی مہمان نوازی، اس کا عزت و احترام ہر مومن کو عام حالات میں بھی کرنا چاہئے اور یہ اس پر فرض ہے۔ بہرحال اس وقت مَیں کیونکہ جلسے کے مہمانوں کے حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں اس لئے ان باتوں کا محور جلسہ سالانہ ہی رہے گا۔

جلسہ پر آنے والے مہمان جیسا کہ مَیں نے کہا یہاں آتے ہیں اور جلسے کے لئے آرہے ہیں، خالص دینی غرض سے آتے ہیں اور جلسے میں شامل ہونے والوں کی یہی غرض ہونی چاہئے۔ اور جب یہ غرض ہو تو مہمان کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے اور اس جلسے کو خالص دینی اغراض کا حامل ٹھہرایا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا حامل ٹھہرایا ہے تو اس سے کس قدر اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ آنے والے کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں آتے۔ کسی دنیاوی رونق میں حصہ لینے کے لئے نہیں آتے۔ اگر کوئی اس غرض کے لئے آتا ہے تو اپنے ثواب کو ضائع کرتا ہے۔ پس یہاں آنے والے مہمان جن کی خدمت کے لئے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کے لئے مخلصین اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں یہ عام مہمان نہیں ہیں بلکہ زمانے کے امام کے قائم کردہ نظام پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والے مہمان ہیں۔ پھر یو کے کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے مہمان تو خاص طور پر وہ مہمان ہیں جو خاص تردّد سے، فکر سے اور بعض دفعہ بے انتہا خرچ کر کے، اپنی بساط سے زیادہ خرچ کر کے یہاں آتے ہیں اور بڑی دُور دُور سے اس لئے آتے ہیں کہ یہ سفر ہر لحاظ سے برکات کا موجب بن جائے۔ خلافت سے محبت ان کو یہ احساس دلا رہی ہوتی ہے کہ یہ سفر خلیفۂ وقت سے ملاقات کا بھی باعث بن جائے گا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ آتے ہیں۔ نو مبائعین بھی ہیں، پرانے احمدی بھی ہیں۔ ان آنے والوں کی آنکھوں میں جب مَیں خلافت سے محبت دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے شکر سے جذبات بڑھتے جاتے ہیں کہ کس طرح وہ مومنین کے دل میں خلافت سے محبت پیدا کرتا ہے۔ یہ کسی انسان کی کوشش سے نہیں ہو سکتا۔ اور یہ صرف اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر آپ کے بعد اس نظام کو جاری فرمایا اور اس لئے ہے تاکہ اسلام کی صحیح اور حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کرایا جائے۔ اس لئے کہ اسلام کے پیار اور محبت کے پیغام کو دنیا کو بتایا جائے۔ اس لئے کہ دنیا کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی اسلام میں ہی اب دنیا کا امن ہے۔ پس یہ باتیں ہیں جن کو دیکھنے کے لئے، سننے کے لئے، سیکھنے کے لئے لوگ یہاں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے جو خلافت سے محبت ہے۔ اب تو جرمنی میں بھی کئی ملکوں کی نمائندگی جلسے پر ہوتی ہے اور اچھی خاصی تعداد میں ہوتی ہے اس لئے کہ خلیفہ وقت سے ملاقات ہو جائے۔ برطانیہ کے جلسے پر تو خاص طور پر بہت لوگ اس لئے آتے ہیں کہ جلسہ کے روحانی ماحول سے بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ علمی تربیتی اور دینی پروگراموں میں بھی شامل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنیں گے اور خلیفہ وقت سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ غرض کہ یہاں آنے والوں کا جذبہ ایسا ہے جو کسی دوسرے دنیاوی رشتے میں نہیں ہے اور اسی بات کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں توجہ دلائی ہے۔

پس یہاں آنے والے مہمان یا مہمانوں کا مقام ایک خاص مقام ہے اور ان کی اہمیت ہے۔ اور اسی وجہ سے ان مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کی بھی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اور اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی افراد جماعت رضاکارانہ طور پر مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ ایک دنیاوی لحاظ سے اچھے افسر کو، بڑے کمانے والے کو دیگوں پر کھانا پکانے، روٹیاں پکانے اور دوسرے مختلف کاموں پر لگا دیا جاتا ہے حتی کہ ٹائلٹس کی صفائی پر بھی کھڑا کر دیں تو وہ خوشی سے یہ کام کرتا ہے۔ اس لئے کہ ان مہمانوں کی خدمت سے وہ بے انتہا دعاؤں کا وارث بن رہا ہوتا ہے۔ اور پھر یہی کارکن غیر از جماعت مہمانوں کے لئے تبلیغ کا بھی باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ ایک بچہ بھی جب جلسہ گاہ میں پھر کر پانی پلا رہا ہوتا ہے تو وہ بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو دنیا میں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ دنیا کو مادی پانی بھی پلاتے ہیں، روحانی پانی بھی پلاتے ہیں۔ پس مہمان کی اہمیت میزبان کی اہمیت کو بھی بڑھا رہی ہوتی ہے اور یہ چیز دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آ سکتی۔ پس خوش قسمت ہیں وہ کارکن اور رضا کار جو ایسے مہمانوں کی خدمت کو انجام دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے مہمانوں اور مہمان نوازی کی بہت اہمیت بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام اور خوبیوں کا جب ذکر فرمایا تو ان کے مہمان نوازی کے وصف کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ پس وہ میزبان جو بے نفس ہو کر مہمان نوازی کرتے ہیں اور مہمان کو دیکھتے ہی کسی اور کام کے بجائے مہمان کی خدمت کی فکر کرتے ہوئے ان کے لئے تیاری شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مقام ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مہمانوں کی اس خدمت سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ کوئی خواہش، کوئی مطلب، کوئی شکر گزاری وصول کرنا ان کا مقصودنہیں ہوتا۔

پس دنیا میں نہ ایسے مہمانوں کی مثالیں ملتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر سفر کر رہے ہوں اور دنیاوی غرض کوئی نہ ہو اور نہ ہی ایسے میزبانوں کی مثال ملتی ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مہمان نوازی کر رہے ہوں بلکہ اس کے حصول کے لئے مہمانوں کے آنے سے پہلے ہی ان کو سہولیات مہیا کرنے کے لئے کئی کئی دن سے وقار عمل کر کے اس جنگل کو قابل رہائش اور قابل استعمال بنا رہے ہوں۔ یہ خوبصورت نقشہ ہمیں صرف جماعت احمدیہ میں نظر آتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق زمانے کے امام کو ہم نے مانا ہے۔ اس لئے کہ خلافت کی لڑی میں پروئے گئے ہیں۔ اس لئے کہ اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ ہر سال کا تجربہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا مرد عورت بچہ جوان بوڑھا ایک خاص جذبے سے خدمت کرتا ہے۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خدمت اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ اس جذبے سے ہو گی اور ہو رہی ہے۔ اور وقار عمل کی جو رپورٹس مجھے مل رہی ہیں ان کے مطابق اس سال تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے نوجوان بھی وقار عمل میں وقف عارضی کر کے شامل ہو رہے ہیں جن کو پہلے یہ تجربہ نہیں تھا یا پہلے ان کی اس طرف توجہ نہیں کروائی گئی۔ جو اپنے آپ کو جماعت سے منسلک کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مَیں احمدی ہوں اس کے بارے میں مَیں تو ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی کی جماعت کے کام کی طرف عدم توجہ ہے تو اس لئے کہ جو لوگ توجہ دلانے کے کام پر مامور ہیں وہ صحیح طور پر اپنا فرض ادا نہیں کرتے۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی بھی فرد کو جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے ضرورت بتا کر کسی کام کے لئے بلایا جائے اور وہ نہ آئے۔ پس صحیح رہنمائی کرنا ہمارا فرض ہے اور اس لئے اللہ تعالیٰ کا بھی یاد دہانی کا حکم ہے کہ صحیح رہنمائی ملتی رہے۔ اور یقینا صحیح رہنمائی اور صحیح رنگ میں رہنمائی اور نصیحت سے طبیعتوں میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر صرف یہی نہیں کہ کمزوروں یا توجہ نہ دینے والوں کو رہنمائی اور نصیحت کی ضرورت ہے۔ بہت سے نئے شامل ہونے والے ہیں جن کو نظام کا پوری طرح علم نہیں ہوتا ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں خدمت کے جذبے کی حقیقت بتائی جائے۔ گو ان نئے شامل ہونے والوں کی اکثریت دوسروں کے نمونے دیکھ کر اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کرتی ہے لیکن پھر بھی توجہ کی ضرورت رہتی ہے۔ اسی طرح بچے شامل ہو رہے ہیں۔ ان کو بھی ڈیوٹیاں اور خدمت کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ نئے نوجوان خدمت کے لئے توجہ دلانے سے آگے آئے ہیں۔ ان کی صحیح رہنمائی کے لئے اور ان کو مزید فعّال بنانے کے لئے بھی کہ مہمانوں کی خدمت کس طرح کی جانی چاہئے، خدمت کی اہمیت بتانے کے لئے نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(الذّاریَات: 56)۔ یعنی یاد دلاتا رہ کیونکہ یاد دلانا مومنوں کو نفع بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

پس اس یاددہانی کو بھی بلا وجہ کی بات کو دہرانا یا repetitionنہیں سمجھنا چاہئے۔ بہت سے کارکنوں کو اس یاد دہانی سے ہی اپنی اہمیت کا اندازہ اور احساس ہوتا ہے۔ کوئی توجہ طلب بات پہلے سنی ہونے کے باوجود وہ بھول جاتے ہیں یا اتنی توجہ نہیں رہتی اور یاد دہانی سے پھر توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور بعض اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمیں توجہ پیدا ہوئی۔

یہ بات بھی یاد رکھیں کہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جلسے پر آنے والے بہت سے ایسے ہیں جو دُور دُور کا سفر کر کے آتے ہیں اور مسافروں کی خدمت کا حق ادا کرنا بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر فرض قرار دیا اور ان کا شیوہ قرار دیا۔ ہمارے یہاں جلسہ پر آنے والے مہمانوں کا تقریباً چھٹا حصہ جو یوکے میں جلسے میں شامل ہوتے ہیں وہ یورپ کے علاوہ دوسرے ملکوں سے، مشرق بعید سے، پاکستان سے، ہندوستان سے، افریقہ سے، امریکہ سے، ساؤتھ امریکہ سے، جلسے کی برکات سمیٹنے کے لئے آتا ہے۔ تو بہت دُور دُور کے ممالک سے آتے ہیں اور تقریباً باقی میں سے نصف ایسے مہمان ہیں جو یہاں کے دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ تو یہ سب بھی مہمان ہیں، مسافر ہیں بلکہ بعض بوڑھوں اور کمزوروں اور بیماروں کے لئے لندن سے حدیقۃ المہدی جانا بھی ایک سفر ہوتا ہے، تکلیف دِہ سفر ہوتا ہے جو بڑی تکلیف اٹھا کر وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پس ہر ڈیوٹی دینے والے اور ڈیوٹی دینے والی کارکنہ کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے۔ انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہمارے مسافر ہیں، مہمان ہیں ان کی ہم نے خدمت کرنی ہے اور ان سے ہر طرح حسن سلوک کرنا ہے۔ بعض دفعہ بعض مہمانوں کے غلط رویے بھی ہوتے ہیں لیکن پھربھی ہر کارکن کو ہر ڈیوٹی دینے والے کو حوصلے سے کام لینا چاہئے اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر شعبے کے کارکن کو اپنے فرائض ادا کرنا چاہئیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے نبی کی مثال دے کر قرآن شریف میں جو توجہ دلائی ہے کہ مہمان کو کس طرح سنبھالنا ہے۔ مہمان کے سلام کے جواب میں اس سے زیادہ بھرپور طریق پر اسے سلام کا جواب دینا ہے۔ اس کے لئے نیک جذبات کا اظہار کرنا ہے۔ اسے امن اور تحفظ دینا ہے۔ خوشی کا اظہار کرنا ہے۔ حقیقی سلامتی ہوتی ہی اس وقت ہے جب خوشی پہنچے اور مہمان صرف یہی نہیں کہ احمدی ہی مہمان ہیں۔ غیر (احمدی) مہمان، غیر لوگ زیادہ توجہ چاہتے ہیں۔ اس لئے بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ غیر صرف observeکر رہے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ رویے کیسے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان سے کیسا سلوک ہے۔ وہ تو اچھا سلوک ان سے کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ دوسروں سے کیسا سلوک ہے۔

پس ہر وقت اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم نے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اور حقیقی طور پر ایسی خدمت کرنی ہے جو ہمیں حقیقی خوشی پہنچانے والی ہو۔ پس ہمارے ہر آنے والے مہمان سے ہمیں اس طرح خوشی پہنچنی چاہئے جس طرح اپنے عزیز مہمان کو دیکھ کر ہوتی ہے، کسی قریبی کو دیکھ کر ہوتی ہے، اور جب ایسی خوشی ہو تو پھر ہی خدمت کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔ اپنوں کی خدمت اور مہمان نوازی، قریبیوں کی خدمت اور مہمان نوازی یہ تو سب کر لیتے ہیں۔ زیادہ پیارے اگر کسی کے ہوں تو ان کے نخرے بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ اصل جذبۂ خدمت تو اس وقت پتا چلتا ہے جب کوئی خونی رشتہ نہ ہو۔ جب مہمان آتے ہیں تو سلامتی حاصل کرنے اور سمیٹنے کے لئے آتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ جلسے کے مہمان ہیں جن کے کوئی دنیاوی مقاصدنہیں ہوتے۔ پس ایسے مہمانوں کے لئے حتی المقدور سلامتی اور آسانیوں کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں کرنے چاہئیں۔ پھر مہمان نوازی کا یہ معیار ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے تمام تر وسائل کے مطابق اور حالات کے مطابق جو بہترین مہمان نوازی کی سہولت ہم مہیا کرسکتے ہیں وہ کریں۔ انتظامیہ کو اس بارے میں ہمیشہ سوچتے رہنا چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ ہم سے اس قسم کی مہمان نوازی چاہتا ہے کہ بہترین سہولت مہیا ہو۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔ آپؐ نے ہماری اس بارے میں کس طرح رہنمائی فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ مہمان کا تم پر حق ہے اسے ادا کرو۔ (سنن الترمذی ابواب الزہد باب نمبر63/64 حدیث نمبر 2413)

ایسی مثالیں بھی ہیں کہ مہمان زیادہ آ گئے، آپؐ نے صحابہ میں مہمان بانٹنے شروع کر دئیے اور خود بھی، اپنے حصے میں بھی مہمان لئے۔ انہیں اپنے گھر لے گئے۔ گھر جا کر پتا لگا کہ تھوڑا سا کھانا اور مشروب ہے۔ حضرت عائشہؓ سے جب آپؐ نے پوچھا تو انہوں نے عرض کی کہ آپ کی افطاری کے لئے تھوڑا سا رکھا ہوا ہے۔ صرف وہی گھر میں ہے اور تو کچھ نہیں۔ آپ نے اس میں سے تھوڑا سا چکھا اور مہمان کو کہا کہ اب تم کھاؤ۔ یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چکھا بھی اس لئے ہو گاکہ میرے لینے اور کھانے سے اس میں برکت پڑ جائے۔ اور مہمانوں کے لئے وہ برکت والا کھانا ان کے لئے سیری کا باعث بن جائے۔ اور پھر روایت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس تھوڑے سے کھانے سے جو حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف آپ کی افطاری کے لئے تھا مہمان سیر بھی ہو گئے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 794-795حدیث 24015 مسند طخفۃ الغفاریؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی بھی اس رنگ میں تربیت کی تھی کہ صحابہ بھی بے لوث مہمان نوازی کا جذبہ رکھتے تھے۔ ہر قسم کی تکلیف سے آزاد ہو کر کشائش میں اور مددگاروں کی موجودگی میں تو مہمان نوازی سب کر لیتے ہیں۔ اصل مہمان نوازی تو وہ ہے جو اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر کی جائے۔ اور مہمان کا یہی حق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور مومنین کو اس طرف توجہ دلائی کہ اس حق کو ادا کرو۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا ہی اثر تھا اور صحابہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کا شوق تھا جس کی وجہ سے صحابہ میں بھی اس مہمان نوازی کی حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں۔ ایسی مثالیں مہمان نوازی کی ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کو بھی خوش کردیا اور اس خوشی کا اظہار اللہ تعالیٰ نے اسی وقت جب مہمان کی مہمان نوازی ہو رہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کر دیا۔ وہ میاں بیوی اور بچے کس مقام کے میزبان تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے خوشی کا اظہار کیا۔ خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو خراج تحسین ملا۔ اس کی تفصیل ایک روایت میں یوں بیان ہوتی ہے۔

حضرت ابوہریرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کی کہ حضور مَیں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو۔ بیوی نے جواباً کہا کہ آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ ہمارے کھانے کے لئے کچھ نہیں۔ انصاری نے کہا کہ اچھا تم کھانا تیار کرو اور پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپ تھپا کر بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا۔ چراغ جلایا۔ بچوں کو کسی طرح سلادیا۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا اور پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے یہ ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ پس وہ دونوں رات بھوکے ہی رہے۔ صبح جب وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی مسکرا دیا یا فرمایا کہ تم دونوں کے اس فعل کو اس نے پسند فرمایا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اسی موقع پر یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (الحشر: 10) کہ یہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص ہیں۔ ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب قول اللّہ ویؤثرون علی انفسھم … الخ حدیث 3798)

پس یہ ان کی تدبیر تھی جس پر اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوا کہ تھوڑا کھانا دیکھ کر مہمان کہیں جھجھک نہ جائے۔ اپنا ہاتھ کہیں کھانے سے روک نہ لے۔ یہ تدبیر انہوں نے کی کہ چراغ کو بجھا دو تا کہ مہمان جس کے اکرام کے بارے میں حکم ہے اس کو یہ احساس پیدا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے گھر والوں کو کوئی تنگی آ رہی ہے۔ دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہے۔ پس اس کے لئے تو ہمیں خاص طور پر مہمان نوازی کرنی چاہئے۔

پس آج بھی ہمیں اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان دنوں میں آنے والے مہمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے مہمان ہیں۔ دینی مقصد کے لئے سفر کر کے آنے والے مہمان ہیں۔ آج بھی گو مقصد ایک ہے لیکن حالات مختلف ہیں۔ آج جب کارکنوں کو مختلف خدمات اور مہمان نوازی کے لئے بلایا جاتا ہے تو انتظامیہ یہ نہیں کہتی کہ اپنے گھر لے جاکر مہمان نوازی کرو۔ لوگوں کے وہ حالات نہیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے۔ آپ کے صحابہ کے جو حالات تھے کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یا بہت تھوڑا ہے پھر بھی اپنے نفس کو مشقت میں ڈال کر، اپنے بچوں کی بھوک کی قربانی دے کر پھر بھی خدمت کرنی ہے۔ یہاں تو سب کچھ کارکنوں کو دے کر پھر کہا جاتا ہے کہ مختلف انتظامات کے تحت کام کرنے کے لئے صرف اپنے آپ کو پیش کرو۔ نظام جماعت باقی سہولیات مہیا کرے گا۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ سب کارکنان مرد عورتیں بچے خوش قسمت ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت پر مامور کئے گئے ہیں اور بغیر کسی مشقت کے صرف مہمان نوازی کے فرائض ہی ادا کر رہے ہیں۔ کوئی مالی بوجھ نہیں پڑ رہا یا کسی اور قسم کی قربانی نہیں دینی پڑ رہی۔ ربوہ میں جب جلسہ سالانہ ہوتا تھا تو ربوہ کے مکین اپنے گھروں کے آرام کو مہمانوں کے آرام کی خاطر قربان کر دیا کرتے تھے۔ جماعت کو اپنے گھر پیش کر دیتے تھے کہ ان کے مہمان اس میں ٹھہرائے جائیں۔ باوجود یکہ لنگر ہمیشہ جاری رہتا تھا، یہ خاص طور پرجلسے کے آٹھ دس دنوں میں بعض بوجھ اٹھا کر بھی کھانے پینے کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے لیکن بہرحال وہ حالات کہیں بھی نہیں تھے جس کے نمونے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے ہمیں دکھائے۔

اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُسوہ میں ہمیں اپنے آقا کی اتباع میں وہ نمونے نظر آتے ہیں جب آپ نے مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے اپنا آرام بھی قربان کیا اور سردی میں بغیر کسی رضائی کے، بغیر بستر کے رات بسر کی۔ (ماخوذ از اصحابِ احمد جلد چہارم صفحہ 180 روایت نمبر 76مطبوعہ ربوہ)۔ کھانے کے انتظامات کے لئے حضرت امّاں جان کا زیور بھی رقم کے بندوبست کے لئے استعمال کیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ جلد 13 صفحہ 364 روایت حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ)۔ اور یہی قربانی کا جذبہ آپ کے صحابہ نے بھی ہمیں دکھایاجو دوسروں کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دیتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے ضمن میں بھی اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ ہمارے احباب ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیں بلکہ قربانی کرنی چاہئے۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394-395)

ایک واقعہ ہے، سیرت میں لکھا ہے۔ صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب کا بیان ہے کہ میرے لئے جو ایک چارپائی حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دے رکھی تھی۔ جب مہمان آتے تو میری چارپائی پر بعض صاحب لیٹ جاتے اور مَیں مُصلّیٰ زمین پر بچھا کر لیٹ جاتا۔ اور جب میں بستر چارپائی پر بچھا لیتا تو بعض مہمان اس چارپائی بستر شدہ پر لیٹ جاتے۔ میرے دل میں ذرہ بھر بھی رنج یا ملال نہ ہوتا اور میں سمجھتا کہ یہ مہمان ہیں اور ہم یہاں کے رہنے والے ہیں۔ اور بعض صاحب میرا بستر چارپائی کے نیچے زمین پر پھینک دیتے اور اپنا بستر بچھا کر لیٹ جاتے۔ ایک دفعہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک عورت نے خبر دے دی کہ پیر صاحب زمین پر لیٹے پڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا چارپائی کہاں گئی؟ اس نے کہا مجھے معلو م نہیں۔ آپ فوراً باہر تشریف لائے اور گول کمرے کے سامنے مجھے بلایا کہ زمین میں کیوں لیٹ رہے ہو۔ برسات کا موسم ہے اور سانپ بچھو کا خطرہ ہے۔ میں نے سب حال عرض کیا کہ ایسا ہوتا ہے اور مَیں کسی کو کچھ نہیں کہتا۔ آخر ان لوگوں کی تواضع اور خاطر مدارات ہمارے ذمہ ہے۔ یہ سن کر آپ اندر گئے اور ایک چارپائی میرے لئے بھجوا دی۔ ایک دو روز تو وہ چارپائی میرے پاس رہی۔ آخر پھر ایسا ہی معاملہ ہونے لگا جیسا کہ مَیں نے بیان کیا۔ پھر کسی نے آپ سے کہہ دیا۔ پھر آپ نے اور چارپائی بھجوا دی۔ پھر ایک روز کے بعد وہی معاملہ پیش آیا۔ پھر آپ کو کسی نے اطلاع دی اور صبح کی نماز کے بعد آپ نے مجھے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب بات تو یہی ہے جو تم کرتے ہو۔ (یعنی یہ مہمان نوازی کا حق ہے) اور ہمارے احباب کو ایسا ہی کرنا چاہئے لیکن تم ایک کام کرو۔ ہم ایک زنجیر لگا دیتے ہیں۔ چارپائی میں زنجیر باندھ کر چھت میں لٹکا دیا کرو۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم یہ سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ایسے بھی استاد ہیں جو اس کو بھی اتار لیں گے۔ پھر آپ بھی ہنسنے لگے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلد سوم صفحہ 344-345 مطبوعہ ربوہ)

تو مہمان نوازی میں اس طرح کے لطیفے بھی ہو جاتے ہیں۔ مذاق کی باتیں۔ لطیفے کے لفظ سے مجھے یاد آگیا بعض دفعہ میں لطیفہ کہہ کر مزاح کی کوئی بات بیان کرتا ہوں۔ اردو میں لطیفہ کا مطلب ہے کوئی اچھی بات یا کوئی گہری نکتے کی بات اور مزاح کی بات۔ یہ سارے اس کے مطلب ہیں۔ ایک دفعہ میں خطبہ میں سن رہا تھا تو بجائے لطیفہ کو مزاح کی بات کرکے ذکر کرنے کے ترجمہ کرنے والے نے اس کو بڑا نکتہ کر کے بیان کیا تھا جس طرح اس میں کوئی سبق، گہرا نکتہ بیان ہو رہا ہے۔ تو ترجمے میں بعض دفعہ غلطیاں ہو جاتی ہیں لیکن یہاں بہر حال ایک نکتہ ہے کہ اپنی چیز کی حفاظت کرنی چاہئے۔

پھر آپ علیہ السلام کے ایک نمونے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے کام کرنے والے عہدیداروں کے لئے بھی ایک نمونہ ہے اور کارکنان کے لئے بھی ایک سبق ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں کہ جنگ مقدس کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہو گئے تھے۔ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کھانا رکھنا یا پیش کرنا گھر میں بھول گیا۔ میں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی تھی مگر وہ کثرت کاروبار، مشغولیت کی وجہ سے بھول گئی یہاں تک کہ رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا اور حضرت نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایا۔ (کھانے کے متعلق پوچھا) تو سب کو فکر ہوئی۔ بازار بھی بند ہو چکا تھا اور کھانا نہ مل سکا۔ حضرت کے حضور صورتحال کا اظہار کیا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس قدر گھبراہٹ اور تکلیف کی کیا ضرورت ہے۔ دسترخوان میں دیکھ لو۔ کچھ بچا ہوا ہوگا۔ وہی کافی ہے۔ دستر خوان کو دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے۔ آپ نے فرمایا۔ یہی کافی ہیں اور ان میں سے ایک دو ٹکڑے لے کر کھا لئے اور بس۔

پس ہمارے کارکنوں کے لئے یہ سبق ہے کہ بعض دفعہ بعض حالات میں کہیں خوراک کی کمی ہو جائے تو پریشان نہیں ہونا چاہئے بلکہ مہمانوں کی خاطر قربانی کرنی چاہئے۔

شیخ یعقوب علی صاحب یہ لکھتے ہیں کہ بظاہر یہ واقعہ نہایت معمولی معلوم ہو گا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی اور بے تکلفی کا حیرت انگیز اخلاقی معجزہ نمایاں ہیں۔ کھانے کے لئے اس وقت نئے سرے سے انتظام ہو سکتا تھا اور اس میں سب کو خوشی ہوتی مگر آپ نے یہ پسندنہ فرمایا کہ بے وقت تکلیف دی جاوے اور نہ اس بات کی پرواہ کی کہ پُر تکلف کھانا آپ کے لئے نہیں آیا۔ اور نہ اس غفلت اور بے پرواہی پر کسی سے جواب طلب کیا اور نہ خفگی کا اظہار۔ بلکہ نہایت خوشی اور کشادہ پیشانی سے دوسروں کی گھبراہٹ کو دُور کر دیا۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلد سوم صفحہ 333مطبوعہ ربوہ)

پس اگر کبھی ایسا موقع پیدا ہو جائے تو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ اکثریت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کارکنان کی ایسی ہے جو اچھے اخلاق دکھانے والی ہے۔ اس کی پرواہ نہیں کرتی۔ لیکن بعض دفعہ بعض شکوہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں تو ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن ہر شعبے کے افسران اور شعبہ خوراک یا مہمان نوازی کا بھی کام ہے کہ اپنے کارکنان کے لئے پہلے انتظام کر کے رکھا کریں تا کہ جب وہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر آئیں تو ان کو خوراک مہیا کی جا سکے یا کھانا یا کوئی اور انتظام ہو۔

ایک اصولی ہدایت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے اسے کارکنان کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ مہمان نوازی کی نسبت ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:

’’میرا ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمان کو آرام دیا جائے۔ مہمان کا دل مثل آئینے کے نازک ہوتا ہے۔ (شیشے کی طرح نازک ہوتا ہے) اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس سے پیشتر مَیں نے یہ انتظام کیا ہواتھاکہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پرہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا۔ ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لئے بہ مجبوری علیحدگی ہوئی۔ ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے۔ بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہو سکتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 292۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی بھی کسی مہمان کو جذباتی ٹھیس نہیں پہنچانی۔ ہر کارکن کا ہر جگہ اور ہر موقع پر فرض ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا ہمیشہ مظاہرہ کرنا ہے۔ اگر کوئی تکلیف کا اظہار کرے بھی تو بجائے اس کے کہ اس کو رُوکھا سُوکھا جواب دیا جائے اس کی تکلیف دُور کرنے کی کوشش کی جائے۔

آخر میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف شعبہ جات میں اب کارکنان کی کافی تربیت ہو چکی ہے اور اپنے کاموں کو خوب سمجھتے ہیں اور انہیں اس کے کرنے کی اٹکل بھی ہے۔ لیکن بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ اعتماد انتظام میں کمزوریاں پیدا کر دیتا ہے۔ اعتماد تو رکھیں لیکن اس وجہ سے باریکی میں جا کر اس کے تمام جزئیات کی طرف توجہ دینے میں سستی نہ کریں۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ جو سکیورٹی کا شعبہ ہے اسے خاص طور پر بہت زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ جس طرح جماعت دنیا میں متعارف ہو رہی ہے۔ ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں۔ ہر غلط بات کی

جرأت مندانہ طریقے پر جماعت نفی کرتی ہے۔ آجکل بہت سارے شدت پسندوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے بعض باتیں کی ہیں، کر رہے ہیں۔ جماعت ہمیشہ ان کی نفی کرتی ہے۔ تو اس قسم کی جب باتیں ہو رہی ہوں تو اس سے حاسدین اور مخالفین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہوتی ہے اور جماعت کے خلاف تدبیریں کرنے کی ان کی کوششیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس لئے اس شعبہ کو ہر لحاظ سے ابھی سے فعّال ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ اس دن جاکے جائزے لیں گے بلکہ باقاعدہ ڈیوٹیاں شروع ہونی چاہئیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ سکیورٹی کی تمام تر گہرائی اور گہری نظر کے ساتھ ساتھ جیسا کہ میں نے کہا اخلاق کے اظہار میں کمی نہیں آنی چاہئے۔ ہر جگہ جہاں چیکنگ کے پوائنٹس ہیں وہاں ڈیوٹی دینے والے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے والے ہوں اور ہر جگہ صرف بچے نہ ہوں بلکہ بڑے سمجھدار افراد بھی ہر جگہ موجود ہونے چاہئیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے والے اپنے کاموں کے احسن رنگ میں انجام پانے کے لئے دعا کریں۔ ہمارے سب کام کسی کی قابلیت اور کوشش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور مدد کو حاصل کرنے کے لئے دعا بہت اہم ہے جسے ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ اسی طرح ہم سب کو بھی، کارکنوں کے علاوہ بھی ہر ایک کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جلسے کے تمام انتظامات اپنے فضل سے بروقت مکمل فرمائے اور مہمانوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات مہیا ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 22؍ اگست 2014ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے اور اس جلسے کو خالص دینی اغراض کا حامل ٹھہرایا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا حامل ٹھہرایا ہے تو اس سے کس قدر اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ آنے والے کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں آتے۔ کسی دنیاوی رونق میں حصہ لینے کے لئے نہیں آتے۔ اگر کوئی اس غرض کے لئے آتا ہے تو اپنے ثواب کو ضائع کرتا ہے۔ پس یہاں آنے والے مہمان جن کی خدمت کے لئے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کے لئے مخلصین اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں یہ عام مہمان نہیں ہیں بلکہ زمانے کے امام کے قائم کردہ نظام پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والے مہمان ہیں۔ برطانیہ کے جلسے پر تو خاص طور پر بہت لوگ اس لئے آتے ہیں کہ جلسہ کے روحانی ماحول سے بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ علمی تربیتی اور دینی پروگراموں میں بھی شامل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنیں گے اور خلیفہ وقت سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ پس یہاں آنے والے مہمان یا مہمانوں کا مقام ایک خاص مقام ہے اور ان کی اہمیت ہے۔ اور اسی وجہ سے ان مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کی بھی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

    سب کام کرنے والے اپنے کاموں کے احسن رنگ میں انجام پانے کے لئے دعا کریں۔ ہمارے سب کام کسی کی قابلیت اور کوشش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور مدد کو حاصل کرنے کے لئے دعا بہت اہم ہے جسے ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔

    قرآن مجید، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے واقعات اور ارشادات کی روشنی میں جلسہ سالانہ پر خدمت کرنے والے رضاکاروں اور میزبانوں کے لئے اہم ہدایات۔

    فرمودہ مورخہ 22؍اگست 2014ء بمطابق22 ظہور 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور