دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا

خطبہ جمعہ 31؍ اکتوبر 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران: 111) یعنی تم وہ لوگ ہو جو دوسروں کی بھلائی اور فائدہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ یہ مسلمانوں کے کاموں میں سے ایک بہت بڑا کام ہے کہ دنیا ان سے فائدہ اٹھائے۔ ان سے دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچے نہ کہ شر۔ لیکن اس وقت دنیا کی جو حالت ہے جس پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان حکومتوں اور گروہوں اور تنظیموں نے دنیا میں اس قدر فساد برپا کیا ہوا ہے کہ ایک دنیا اسلام کے نام اور مسلمان سے خوفزدہ ہے۔ اور اگر خوفزدہ ہونے کی حالت ہو تو پھر کون ہے جو مسلمانوں کی باتوں کو سنے یا یہ خیال کرے کہ ان سے ہمیں خیر اور بھلائی مل سکتی ہے۔ جو لوگ اپنے لوگوں کی ہی گردنیں کاٹ رہے ہوں، معصوموں کو، عورتوں کو، بچوں کو، بوڑھوں کو بلا امتیاز قتل کر رہے ہوں، بغیر کسی وجہ کے ناجائز طور پر اپنے نظریات کی پیروی نہ کرنے والوں کو غلام بنا رہے ہوں، ان سے کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے لئے خیر اور بھلائی چاہنے والے ہوں گے۔

پس اس عمل کا جو یہ لوگ کرتے ہیں لازمی نتیجہ یہی نکلے گا اور نکل رہا ہے کہ دنیا مسلمانوں سے خوفزدہ ہے لیکن ہم احمدیوں کے لئے اس میں شرمندگی کی بات اور غم اور تکلیف کی بات تو ضرور ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃٌ للعالَمین ہیں ان کی طرف منسوب ہو کر ان لوگوں کے یہ عمل ہیں کہ انہوں نے مذہب اسلام کو بھی بدنام کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک اُسوہ کو بھی دنیا کے سامنے غلط رنگ میں پیش کرنے والے بن رہے ہیں۔ لیکن ایک احمدی کی حیثیت سے ہمیں ان کے اس عمل سے مایوسی اور نا امیدی بالکل نہیں ہے۔ جب مَیں اکثر غیر مسلموں کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے یہ عمل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اسلام کے سچا ہونے کی دلیل ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمانوں کی یہ حالت ہو گی بلکہ عرصہ بھی بتا دیا کہ یہ عملی زوال کی حالت اتنے عرصے کے بعد شروع ہو گی اور اتنے عرصے تک یہ اندھیرا زمانہ چلتا چلا جائے گا اور پھر مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہو گا جو اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کو دنیا میں جاری کرے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد6صفحہ285حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت1998ء)

وہ تعلیم جو قرآن کریم میں اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور جس کے حرف حرف پر عمل کا ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے پتا چلتا ہے۔ اور ہم احمدی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس بگڑے ہوئے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق وہ مسیح موعود اور مہدی معہود آ گیا اور صرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آنے کے جو زمینی اور آسمانی نشان بتائے تھے وہ بھی پورے ہوئے۔ اور اس مسیح و مہدی نے ہمیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروایا، ہمارے دلوں کو روشن کیا۔ آج جماعت احمدیہ اس خوبصورت تعلیم پر عمل کر رہی ہے۔ یہ باتیں جب ان کو بتائی جائیں تو ان لوگوں کو قائل کرتی ہیں کہ اسلام غلط نہیں بلکہ ان لوگوں کے عمل غلط ہیں جو اسلام کے نام پر دنیا میں فساد پھیلا رہے ہیں۔ پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اور احسان کرتے ہوئے مسیح موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ صرف امن سے رہنا ہی ہمارا کام نہیں ہے۔ کسی بُرے کام سے رُکنا ہی ہمارا کام نہیں۔ فسادوں سے دور رہنا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ دنیا میں امن کا قیام اور اس کے لئے بھرپور کوشش بھی ہمارا کام ہے۔ دنیا کو برائیوں سے روکنے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے۔ دنیا کو فسادوں سے دور رکھنے اور بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے کیونکہ یہ کام مسیح موعود کے کاموں میں شامل ہے۔ آپ کو بھلائی اور خیر خواہی کے کام کو دوبارہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں جاری کرنے کے لئے بھیجا گیا۔

پس دنیا کی یہ خیر خواہی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اور خدا تعالیٰ کا حکم ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم میدانِ عمل میں آئیں اور دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچانے اور شر کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ ہم مسلمانوں کے بھی خیر خواہ ہیں ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور غیر مسلموں کے بھی خیر خواہ ہیں اور ان کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ہم عیسائیوں کے بھی خیر خواہ ہیں اور یہودیوں کے بھی، ہندوؤں کے بھی اور دوسرے مذاہب والوں کے بھی حتی کہ ہم دہریوں کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم نے ان سب کو وہ راستہ دکھانا ہے جو انہیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہو بلکہ ہم نے ہر قسم کے جرائم میں ملوّث لوگوں چوروں اور ڈاکوؤں، ظالموں سب کی خیر خواہی چاہنی ہے اس لئے کہ یہ لوگ ربّ العالمین کے بندے ہیں اور ہم نے اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کی خیر خواہی چاہنی ہے اور انہیں نیکیوں پر چلنے اور برائیوں سے رکنے کے راستے دکھانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُخْرِجَتْ لِلنَّاس کہہ کر ہمارا میدانِ عمل بہت وسیع کر دیا ہے۔ پس ہم نے دنیا کی بھلائی اور بہتری اور خیر خواہی کے لئے ان کو خدا تک پہنچنے کے صحیح راستے دکھانے ہیں۔ انہیں خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی تلقین کرنی ہے۔ انہیں یہ بتانا ہے کہ اس زندگی کا ایک روز خاتمہ ہونے والا ہے اور پھر ہر ایک نے اپنے عمل کے مطابق جزا سزا حاصل کرنی ہے۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑو تا کہ بہتر انجام ہو۔ لیکن یہ باتیں ہم کسی کو اس وقت تک نہیں سمجھا سکتے جب تک ہم خود اپنے انجام پر نظر رکھنے والے نہ ہوں۔ پس ایک بہت بڑا کام ہے جسے فکر کے ساتھ اور اپنے جائزے لیتے ہوئے ہم نے سرانجام دینا ہے۔ اس کام کی سرانجام دہی کے دوران ہمیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور کرنا پڑتا ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان مشکلات اور دنیا کی مخالفتوں کا ہم ہر قدم پر سامنا کرتے رہے ہیں اور یہ بات کوئی صرف ہمارے ساتھ خاص نہیں بلکہ جتنے بھی نبی آئے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ کیونکہ محدود علاقوں اور قوموں کے لئے تھے اس لئے ان کی مخالفتیں بھی محدود تھیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام دنیا نے مخالفت کی اور مخالفت کر رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں یہی کام اور دائرہ کار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی ہے۔ اس لئے آپ کی مخالفت بھی ہر مذہب اور قوم والے نے کی جب آپ نے دعویٰ کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ کہیں کم ہے کہیں زیادہ ہے اور کریں گے بھی۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، نہ ہو گا۔ دنیا میں بیشک ایسے افراد ہیں جو جماعت احمدیہ کے امن کے کاموں کی تعریف کرتے ہیں لیکن مذہب کے حوالے سے جب غیر معمولی ترقی ملنی شروع ہو جائے تو من حیث القوم مخالفتوں کا سامنا ہمیں مغربی ممالک میں بھی کرنا پڑے گا یا کم از کم یہاں کے جو بھی نام نہاد مذہب پر عمل کرنے والے ہیں ان کی طرف سے مخالفتیں ہوں گی۔ اس لئے یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان پڑھے لکھے ملکوں میں ہمیشہ ہمیں خیر کا جواب خیر سے ملے گا۔ ابھی بھی ایسے چرچ ہیں جہاں پادری ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ ان کی انتظامیہ چرچ کی حیثیت سے جماعت کے ساتھ مل بیٹھنا بھی پسندنہیں کرتی۔ فروری میں جو مذاہب کانفرنس ہوئی ہے اس میں چرچ آف انگلینڈ کو بھی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے جواب تک نہیں دیا اور نہیں آئے۔ دوسرے ممالک میں بھی کئی جگہ ہماری تبلیغی ٹیمیں جاتی ہیں تو چرچ چھوٹی جگہوں پر ایک دو مرتبہ تو اپنے ہاں فنکشن کرنے کی، استعمال کرنے کی انہیں اجازت دے دیتے ہیں کہ لوگوں کو جمع کر کے تم اپنا جو مدّعا اور مقصد بیان کرنا چاہتے ہو کر دو۔ لیکن جب دیکھتے ہیں کہ بار بار ہمارا وہاں جانا ہے اور لوگوں کا رجحان یہ باتیں سننے کی طرف ہو رہا ہے تو پھر مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح لا مذہب یا دہریہ مصنّفین ہیں جو بڑی شدت سے اسلام کی مخالفت میں لکھتے ہیں اور جب جماعت ان کا جواب دے تو ہمیں بھی مخالفانہ جواب آتے ہیں اور جوں جوں جماعت کی تعداد بڑھے گی یہ مخالفت بھی بڑھتی جائے گی۔ لیکن انبیاء کو بھی یہ یقین ہوتا ہے کہ آخر کار غلبہ ان کو ملنا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ یقین ان میں پیدا کیا ہوتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ یقین تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ پر واضح فرمایا تھا کہ غلبہ آپ کا ہے اور اسی بنا پر ہمیں بھی یقین ہے کہ غلبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنا ہے انشاء اللہ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ جھوٹے وعدوں والا نہیں ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے بے شمار فعلی شہادتیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کو کسی بھی طرح تخفیف کی نظر سے دیکھیں یا خدا تعالیٰ پر بدظنی کریں۔ جماعت پر ایسے ایسے ہولناک حالات آئے کہ دشمن سمجھتا تھا کہ اب تو جماعت ختم ہوئی کہ ہوئی مگر نتیجہ کیا نکلا کہ دشمن ان حالات میں اپنی تمام تر طاقتوں کے باوجودناکام ہوا اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حالات سے سرخرو ہو کر نکلی۔

پس دنیا ہمارے سے جو چاہے سلوک کرے یہ اُن کا کام ہے لیکن خدا تعالیٰ کی تائیدات کیونکہ ہمارے ساتھ ہیں اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دئیے ہیں وہ پورے کرنے ہیں اس لئے بہر حال ہم نے ان حکموں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر بھی عمل کرنا ہے اور دنیا کی خیر چاہتے ہوئے اپنے کام کو آگے بڑھاتے چلے جانا ہے۔ ہمارے جذبات تمام دنیا کے لئے نیک جذبات ہونے چاہئیں اور ہمارے جذبات نیک ہیں۔ لیکن اگر اس کے باوجود دنیا ہمیں دکھ پہنچاتی ہے تو تب بھی ہم نے اپنے ذمے کام میں کمی نہیں آنے دینی کیونکہ دنیا کو سنبھالنے کا کام ہمارے سپرد ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام خیرِ اُمّت رکھا ہے تو ہم نے خیر بانٹنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹنا اور یہ خیر اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دنیا کو بلانا ہے۔ اس سے بَڑھیا خیر اور کیا ہو سکتی ہے؟

جتنا شر اور جتنی غلاظت اور جتنی ہوس پرستی اور جتنی خدا تعالیٰ کے احکامات کی تضحیک اس زمانے میں ہو رہی ہے اور حکومتیں اور میڈیا بھی جس طرح اس کی تشہیر کر رہے ہیں دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ آج شیطان جس زور سے حملے کر رہا ہے شاید پہلے کبھی نہ ہوئے ہوں کہ ایک ہی وقت میں دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سیکنڈز کے اندر اندر غلاظت بھری تصویریں کہانیاں اور آوازیں پہنچ جاتی ہیں۔ ہم خیر کی آواز بلند کرتے ہیں تو اکثریت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور جو برائی کی آواز ہے وہ فوراً اپنا اثر دکھا رہی ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی ہماری بات پر توجہ دیتا بھی ہے تو ان میں سے بہت سے ایسے ہیں بلکہ اکثریت ایسی ہے جو ایسا رویہ رکھتے ہیں جیسے بچوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے کہ شاباش تم بڑا اچھا کام کر رہے ہو اور پھر یہ لوگ لاتعلق ہو جاتے ہیں اور ان کاموں میں ملوّث ہو جاتے ہیں جو بھلائی سے دُور لے جانے والے ہیں۔ پس ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ہمارے مقاصد کے حصول کی انتہا نہیں ہے کہ ذرا سی تعریف پر بچوں کی طرح ہم خوش ہو کر بیٹھ جائیں۔ چند آدمیوں کو پیغام پہنچا کر ہم سمجھیں کہ ہم نے بہت بڑا کام کر لیا ہے۔ بلکہ ہم نے دنیا کو خیر پہنچانے کے لئے برائیوں کو دُور کرنے کی کوششوں کو اپنی انتہا تک پہنچانا ہے۔ کوئی دنیاوی مخالفت کوئی دنیاوی روک چاہے وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا غیر مسلموں کی طرف سے یا کسی بھی طرف سے، دہریوں کی طرف سے اس کو ہم نے اس طرح اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرنی ہے جس طرح تیز ہوا ایک تنکے کو اڑا کر لے جاتی ہے۔

پس اس سے ہمیں اندازہ کر لینا چاہئے کہ ہمیں کتنی جامع، ٹھوس اور شدت سے کوشش کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی ہر احمدی کو اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق اس میں حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام تمام دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچانا اور یہ خیر اور بھلائی بانٹنا ہے اور یہی ہمارا کام ہے۔ ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا ہماری آواز پر کان نہیں دھرتی۔ سنتی نہیں، توجہ نہیں دیتی۔ ہم خیر کی طرف بلاتے ہیں اور وہ شر میں اور بھی زیادہ تیز ہو جاتے ہیں اور ہمارے خلاف یہ شر کے جو عمل ہیں یہ ہر طرف سے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت مسلمانوں میں تو جماعت احمدیہ کی مخالفت اتنی زیادہ ہے کہ تمام حدود کو توڑ گئی ہے۔ بیشک ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمارے حق میں اب تھوڑی بہت آواز اٹھانے لگ گئے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو حق کو حق سمجھ کر تمام تر مخالفتوں کے باوجود احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ فتنہ و فساد پیدا کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یا کم از کم ان کے خوف سے شرفاء باہر نہیں نکلتے اور یہ باہر نکل کر جو چاہے کرتے ہیں۔ لیکن کیا اس مخالفت کی وجہ سے ہم اپنے کام بند کر سکتے ہیں۔ کیا دنیا سے ڈر کر خدا تعالیٰ کے اس حکم کہ خیر کو پھیلاؤ اس سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تمام تر مخالفتوں اور شیطانی روکوں کا مقابلہ کرتے ہوئے احمدیت کو قبول کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اپنی احمدیت کی قبولیت کے واقعات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ احمدیت کی مخالفت نے ہی انہیں احمدیت قبول کرنے کا راستہ دکھایا۔ گزشتہ خطبہ میں ہی مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حوالے سے ایک شاعر کا ایک واقعہ بیان کیا تھا کہ انہوں نے اعتراض تلاش کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور خاص طور پر فارسی درثمین پڑھی اور احمدیت قبول کر لی۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر یہ روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہیں آتا۔

پس ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ہم جب شر کے بدلے خیر پہنچائیں گے تو انہی لوگوں میں سے پھر قطرات محبت بھی ٹپکیں گے اور یہ لوگ مسیح محمدی کی غلامی میں آ جائیں گے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ دشمنوں کے لئے بھی دعا کرو اور ان کے لئے خیر چاہو اور انہیں خیر پہنچاؤ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ74۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ واقعہ بھی آپ جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلی درد کی تصویر ہے اور گزشتہ خطبہ میں بھی مَیں نے بیان کیا تھا کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے طاعون کو آپ کے نشان کے طور پر بھیجا تھا لیکن جب لوگ مرنے لگے تو پھر آپ کو فکر پیدا ہوئی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کون کرے گا اور ایمان کون لائے گا؟ اس پر آپ نے اس عذاب کے دُور ہونے کے لئے اس درد سے دعا کی کہ سننے والے کہتے ہیں کہ یوں لگتا تھا جیسے درد زِہ سے کوئی عورت کراہتی ہے اور تڑپتی ہے۔ (ماخوذ از خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لئے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتا ہے، انوار العلوم جلد18صفحہ514)

پس دنیا والوں کے لئے یہ وہ خیر کا نمونہ اور معیار ہے جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ آپ نے دنیا کی تباہی کے بجائے دنیا کی خیر چاہی کہ خدا تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ بغیر تباہی کے بھی تو ان کے دلوں کی حالت بدل سکتا ہے۔ پس ہمارا زور بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اس بات پر ہونا چاہئے کہ لوگ تباہ ہونے سے بچ جائیں تا کہ ہمارے بھائی بن جائیں۔ اس کے لئے ہمیں درد دل سے دعائیں کرنے کی بھی ضرورت ہے اور کوشش کی بھی ضرورت ہے۔ ہم نے دنیا کو صحیح روحانی راستوں کی رہنمائی کر کے ان کی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے۔

یہ بھی بتا دوں کہ روحانی رہنمائی کر کے ہم نے دنیا کو صحیح راستوں پر تو چلانا ہی ہے، مادی مدد اور خیر بھی ہمارے ذمہ لگائی ہوئی ہے اور قرآن کریم میں اس کے بارے میں بھی احکامات ہیں۔ صرف اپنوں کے لئے خیر کے انتظامات نہیں کرنے، صرف اپنوں کے بھوک ننگ اور بیماریوں کو ختم کرنے کے لئے کوشش نہیں کرنی بلکہ غیروں اور ہر ضرورتمند کے لئے ہماری کوشش ہونی چاہئے۔ اس وقت مضمون تو گو روحانی خیر کا ہی زیادہ ہے لیکن ایک بات میرے علم میں آئی ہے اس لئے یہاں اس کا بھی بیان کر دیتا ہوں۔ گزشتہ دنوں ہمارے ایک احمدی یہاں سے ترکی اور لبنان وغیرہ میں گئے جو وہاں ہمسایہ عرب ممالک سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کی ضروریات کا جائزہ لینے کے لئے گئے تھے۔ کیونکہ وہاں ان لوگوں کی بھی کافی بری حالت ہے۔ خوراک کی بھی کمی ہے اور دوسری چیزوں کی بھی، ان کے لئے کپڑے وغیرہ کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح بچوں کی تعلیم وغیرہ متاثر ہو رہی ہے۔ تو بہر حال مختلف چیریٹی آرگنائزیشن ہیں جو اُن کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن کمی وہاں بہت زیادہ ہے۔ وہاں کسی احمدی نے یہ اعتراض بھی کیا کہ جماعت احمدیہ یورپ والوں کی مدد کیوں کرتی ہے صرف ہماری مدد کرنی چاہئے۔ غالباً اس شخص کا اشارہ یورپ میں ہم چیریٹیز کو جو رقم دیتے ہیں اس کی طرف تھا۔ تو یہاں بھی اس قرآنی حکم کے مطابق یہی جواب ہے کہ روحانی اور مادی مدد بلا امتیاز ہم نے ہر ایک کی کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ تو یہ نہیں فرمایا کہ احمدی بھوکے کو یا مسلمان بھوکے کو کھانا کھلاؤبلکہ ہر بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔ مسکین کی اور ضرورتمند کی ضرورت پوری کرو۔ تو یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہر مسکین اور ہر ضرورتمند کی ضرورت پوری کریں۔ یہ تمام فرائض ہم نے ادا کرنے ہیں اور ایک مومن کو اس قسم کی باتیں زیب نہیں دیتیں کہ وہ اعتراض کرے کہ فلاں کو کیوں دیا اور فلاں کو نہیں دیا۔ بلکہ مومن کے فرائض میں داخل ہے کہ بلا امتیاز ہر ایک کی خدمت کرے۔ دوسرے ہم یہاں جو چیریٹی واک وغیرہ کرتے ہیں اس میں غیر بھی کافی بڑی تعداد میں حصہ لیتے ہیں۔ اور یہی رقمیں جو چیریٹیز کو دی جاتی ہیں وہ لوگ بھی جب آتے ہیں توہماری چیریٹیز میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہاں کی مقامی چیریٹیز کا بھی حق بنتا ہے کہ خدمت انسانیت کے لئے جو کام وہ کر رہے ہیں ہم بھی ان کے ساتھ اس میں شامل ہو جائیں۔ ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ میں یہ نظر آتا ہے کہ نبوت کا مقام ملنے کے بعد بھی آپؐ نے فرمایا کہ اگر آج بھی مجھے غیروں کی طرف سے ضرورتمندوں کی مدد کے لئے بلایا جائے تو مَیں شامل ہو جاؤں۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام باب حلف الفضول صفحہ نمبر91دارالکتاب العربی بیروت 2008ء)

آپ کا اشارہ حلف الفضول جو معاہدہ تھا اس کی طرف تھاجس میں نبوت سے بہت پہلے مکّہ کے بعض لوگوں نے اکٹھے ہو کر غریبوں کی مدد کے لئے اور ضروریات پوری کرنے کے لئے تنظیم بنائی تھی جس میں آپ بھی شامل تھے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں اپنی خیر کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا چاہئے نہ کہ محدود۔ ہم نہ تو دنیا سے ان کی جو مادی مدد ہم کرتے ہیں اس کے لئے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ روحانی خیر بانٹ کر کوئی بدلہ چاہتے ہیں۔ اگر کوئی درد اور تڑپ ہے تو صرف یہ کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچان لے۔ اور یہ خیر بانٹ کر اور خیر چاہ کر انبیاء ہمیشہ یہی جواب دیتے رہے ہیں جو ہمیشہ انبیاء کا اور ان کی جماعتوں کا شیوہ ہے اور یہی ہمیں سکھایا گیا ہے کہ میرا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ مَیں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔

پس یہی جواب انبیاء کی جماعت کا ہونا چاہئے اور ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ انبیاء جب خیر بانٹ کر پھر یہ کہتے ہیں کہ میرا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے تو پھر بھی ایک بہت بڑی تعدادنبی کی دشمنی میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پس ہمیں بھی یہ سوچ لینا چاہئے کہ اس خیر کا بدلہ ہمیں ہمارے جو بدفطرت مخالفین ہیں ان کی طرف سے نقصان اور دشمنی کی صورت میں مل سکتا ہے اور ملتا بھی ہے۔ بلکہ بعض لوگ تو ہمیں اس طرح دیکھتے ہیں جیسے شیر بکری کو دیکھتا ہے کہ کس طرح شکار میرے قابو آیا۔ ہمارا تو اس شخص جیسا حال ہے جس نے کوئی شیر یا چیتا پالا ہو اور وہ کسی طرح چھوٹ جائے تو مالک کی یہ کوشش ہو گی کہ اسے اس طرح قابو کرے کہ اس جانور کو کوئی نقصان نہ ہو اور پھر بھی وہ اس کے کسی کام آ سکے لیکن چیتے کی کوشش یہی ہو گی کہ مالک کو چیر پھاڑ ڈالے۔

پس پاکستان اور بعض ملکوں میں ایسے لوگ ہیں بلکہ تمام مولوی اور ان کے زیر اثر ایسے لوگ ہیں جو ہماری طرف جھوٹ منسوب کر کے ہمیں چیرنا پھاڑنا چاہتے ہیں لیکن ہماری یہ کوشش ہے کہ یہ کسی طرح بچ جائیں اور خدا تعالیٰ کی گرفت میں نہ آئیں۔ ان لوگوں کی مخالفتیں ہمارے ساتھ کسی ذاتی وجہ سے نہیں ہیں۔ مختلف احمدیوں کو مختلف جگہوں پر آئے دن دھمکیاں ملتی رہتی ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ احمدیت سے توبہ کر کے ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ تو ان کی دشمنیاں احمدیت سے ہیں کسی کی ذات سے نہیں۔ اور احمدیت سے دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ انہیں صاف نظر آ رہا ہے کہ احمدیت کی ترقی اُن کے ذاتی مفادات اور لوگوں کے ان کی طرف رجحان کا زوال ہے۔ جس جس طرح احمدی ترقی کرتے جائیں گے یا احمدیت ترقی کرتی جائے گی ان لوگوں کا زوال ہوتا جائے گا۔ ان لوگوں کو نظر آ رہا ہے کہ جماعت جس طرح ترقی کررہی ہے کل ہم پر قبضہ کر لے گی۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا کہ ان ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں یا ان ممالک میں جو ان کے زیر اثر ہیں جماعت کی ترقی جماعت کے خلاف منصوبہ بندی کی طرف لے جائے گی۔ ان کے خیال میں شاید جماعت احمدیہ حکومتوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے حالانکہ جماعت احمدیہ کا پھیلاؤ ان ملکوں پر قبضہ کر نے والا پھیلاؤ نہیں بلکہ ان میں پہلے سے بڑھ کر امن اور سلامتی کو قائم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ مسلمان ممالک میں بھی ہم مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ساتھ جڑنے کا جو کہتے ہیں تو ان کی دنیاوی تکلیفوں اور فسادوں کو دُور کرنے کے لئے اور ان کے بہتر انجام کے لئے کہتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے باقی مذاہب کے لوگوں کو ہم خدا تعالیٰ کے غضب سے بچانا چاہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا پر اپنا غلبہ دنیا کو اپنے زیر نگین بنانے کے لئے نہیں چاہا تھا، نہ یہ دعا کی تھی کہ یہ غلبہ ہو۔ یا آج خلافت کے ساتھ جڑ کر جماعت احمدیہ دنیا میں غلبے کی باتیں حکومتوں پر قبضہ اور دنیا کو زیر نگین کرنے کے لئے نہیں کرتی بلکہ اس کا مقصد خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے کے لئے ہے۔ ہمیں ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنی چاہئے کہ باوجود آپ کی طرف سے خیر اور بھلائی کے پیغام کے آپؐ کے خلاف، آپؐ کے صحابہ کے خلاف دشمنی کے بازار گرم کئے گئے۔ جنگیں ٹھونسی گئیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کے لئے ہدایت اور رحم ہی مانگا اور حتی الوسع کوشش کی کہ دنیا کو آپ سے خیر ہی ملے۔ اور جنگیں اگر لڑیں تو وہ بھی مجبوری کی صورت میں اور ہر قسم کے ظلموں سے بچتے ہوئے صرف دفاع کے لئے اور اصلاح کے لئے اور یہ بھی ایک طرح سے ان لوگوں کی خیر کے لئے تھا۔ بہرحال جو آخری نتیجہ تھا وہ خیر کو حاصل کرنا ہی تھا۔ باوجود اس کے جب ہم دیکھتے ہیں مثلاً تورات میں حضرت اسماعیل کے خلاف حضرت اسحق کی قوم کی مخالفت کا ذکر ملتا ہے (ماخوذ از پیدائش باب 16آیت 12) اور یہودیوں اور عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی بھی اس وجہ سے کی۔ باوجود اس کے کہ عیسائی اور یہودی آپس میں سخت مخالفت کرنے والے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دونوں اکٹھے ہو جاتے تھے اور اب بھی ہو جاتے ہیں۔ اسی سوچ اور تعلیم کی وجہ سے یہودیوں نے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیفیں پہنچائیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ ان کے لئے خیر خواہی کے جذبے کا اظہار ہوا سوائے اس کے جہاں حکومت کے قانون کو نافذ کرنے کے لئے سزا کی ضرورت تھی اور وہ بھی دوسروں کے لئے خیر خواہی تھی۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کے طور پر اور ایک خاص نسبت کے ساتھ بھیجا گیا ہے تو تکلیفوں اور دشمنیوں کی یہ نسبت آپ کے ساتھ بھی قائم ہونی ضروری تھی اور ہے۔ پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے والے ہیں ہم نے مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا ہے اور کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلتے ہوئے ہم نے دنیا کی خیر اور بھلائی ہی چاہنی ہے۔

یہ باتیں سن کر شاید بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ شاید مخالفتیں ہمیشہ ہی ہمارے ساتھ لگی رہنی ہیں۔ ایسی بات بھی نہیں ہے۔ مَیں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ غلبے کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہیں اور یہ غلبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملنا ہے۔ انشاء اللہ۔ دنیاوی اسباب پر بھروسہ کر کے اور دنیا داروں پر بھروسہ کر کے ہم کسی بھی طرح اپنے کام کو پورا نہیں کر سکتے۔ ہم دنیا داروں پر بھروسہ کر بھی کس طرح سکتے ہیں کیونکہ خیر ِاُمّت تو ہمیں کہا گیا ہے۔ خیر ہم نے بانٹنی ہے، نہ کہ ہم نے خیر لینی ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے یہ غلبہ ملنا ہے تو ان فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہو گی اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ جو کام لگایا ہے اس کو انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ہم نے جو کچھ کرنا ہے اپنی کوشش پر انحصار کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے کرنا ہے۔ دوسروں پر انحصار یا دنیاوی طاقتوں پر کسی بھی قسم کا تکیہ ہمارا زوال ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے الٰہی جماعتیں دنیاوی طاقتوں سے مددنہیں لیا کرتیں۔ ہماری کوششیں کیا ہیں جن سے ہم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ وہ خیر کا پیغام ہے جس کے بارے میں پہلے میں ذکر کر چکا ہوں جو ہر طبقے کے لوگوں کو ہر طبقے کے احمدی نے پھیلانا ہے اور اس کی ضرورت ہے۔ تبلیغ کے کام میں اپنے آپ کو ڈالنا ہے۔ مزدور ہے، تاجر ہے، ڈاکٹر ہے، وکیل ہے، سائنسدان ہے، استاد ہے، دوسرے زمیندار ہیں، ہر ایک کو حکمت سے خیر خواہی کا یہ پیغام اپنے اپنے طبقے میں پہنچانے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا پتا چلے اور اس سے پہلے کہ دنیا میں اور جگہوں پر جہاں ابھی مخالفت نہیں ہے احمدیت کے خلاف مخالفتوں کے بیج بوئے جائیں یا پنپیں ہماری جڑیں وہاں مضبوط ہو جائیں۔ شیطان کے گروہوں کو ہوش آنے سے پہلے خیر اور بھلائی کا اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ان جگہوں پر غلبہ ہو جانا چاہئے۔

پس آج مسیح محمدی کے غلاموں کا یہ کام ہے کہ حکمت اور محنت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے خیر اور بھلائی کی اسلامی تعلیم کو ہر دل میں گاڑ دیں اور اس کے لئے بھرپور کوشش کریں۔ اس کیلئے دنیا میں ہر جگہ داعیانِ الی اللہ کی تعداد کو بڑھانے اور فعّال کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ افرادِ جماعت کو بھی اور جماعتی نظام کو بھی اس طرف توجہ دینے کی بھرپور توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 31؍ اکتوبر 2014ء شہ سرخیاں

    ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اور احسان کرتے ہوئے مسیح موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ صرف امن سے رہنا ہی ہمارا کام نہیں ہے۔ کسی بُرے کام سے رُکنا ہی ہمارا کام نہیں۔ فسادوں سے دور رہنا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ دنیا میں امن کا قیام اور اس کے لئے بھرپور کوشش بھی ہمارا کام ہے۔ دنیا کو برائیوں سے روکنے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے۔ دنیا کو فسادوں سے دور رکھنے اور بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے۔

    ہم مسلمانوں کے بھی خیر خواہ ہیں، ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور غیر مسلموں کے بھی خیر خواہ ہیں اور ان کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کی خیر خواہی چاہنی ہے اور انہیں نیکیوں پر چلنے اور برائیوں سے رکنے کے راستے دکھانے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام تمام دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچانا اور یہ خیر اور بھلائی بانٹنا ہے اور یہی ہمارا کام ہے۔ ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا ہماری آواز پر کان نہیں دھرتی، سنتی نہیں، توجہ نہیں دیتی۔ ہم خیر کی طرف بلاتے ہیں اور وہ شر میں اور بھی زیادہ تیز ہو جاتے ہیں۔ ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ہم جب شر کے بدلے خیر پہنچائیں گے تو انہی لوگوں میں سے پھر قطرات محبت بھی ٹپکیں گے اور یہ لوگ مسیح محمدی کی غلامی میں آ جائیں گے۔ اس کے لئے ہمیں درد دل سے دعائیں کرنے کی بھی ضرورت ہے اور کوشش کی بھی ضرورت ہے۔

    ہمیں اپنی خیر کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا چاہئے نہ کہ محدود۔ ہم نہ تو دنیا سے ان کی جو مادی مدد ہم کرتے ہیں اس کے لئے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ روحانی خیر بانٹ کر کوئی بدلہ چاہتے ہیں۔ اگر کوئی درد اور تڑپ ہے تو صرف یہ کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچان لے۔

    ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے والے ہیں ہم نے مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا ہے اور کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے ہم نے دنیا کی خیر اور بھلائی ہی چاہنی ہے

    آج مسیح محمدی کے غلاموں کا یہ کام ہے کہ حکمت اور محنت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے خیر اور بھلائی کی اسلامی تعلیم کو ہر دل میں گاڑ دیں اور اس کے لئے بھرپور کوشش کریں۔ اس کیلئے دنیا میں ہر جگہ داعیانِ الی اللہ کی تعداد کو بڑھانے اور فعّال کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ افرادِ جماعت کو بھی اور جماعتی نظام کو بھی اس طرف توجہ دینے کی بھرپور توفیق عطا فرمائے۔

    فرمودہ مورخہ 31؍اکتوبر 2014ء بمطابق31اخاء 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور