جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۶ء کا تجزیہ

خطبہ جمعہ 9؍ ستمبر 2016ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ گزشتہ اتوار اپنے تین دن کے بھرپور پروگراموں کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ جلسہ سالانہ کی تیاری کے سلسلہ میں سارا سال کوششیں اور کام ہوتا ہے۔ سینکڑوں رضا کار کچھ دن پہلے اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور جب جلسہ شروع ہو تو پھر لگتا ہے کہ ایک دم میں اختتام بھی ہو گیا۔ تین دن پلک جھپکنے میں گزر جاتے ہیں۔ شاید باہر رہنے والوں، دوسرے ملکوں کے لوگوں کا خیال ہو کہ جرمنی کا جلسہ تو بڑے بڑے تعمیر شدہ ہالوں میں ہوتا ہے یہاں ان کو سب کچھ بنا بنایا مل گیا۔ یہاں رضاکاروں کا کیا کام ہوتا ہو گا یا کرتے ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود کہ بڑے بڑے ہال ہیں بعض کام ہیں جو کرنے پڑتے ہیں اور بڑی محنت چاہتے ہیں۔ وسیع ہال ہونے کے باوجود رہائش کے لئے، کھانا پکانے کے لئے، کھانا کھلانے کے لئے اور متفرق کاموں کے لئے عارضی انتظام کرنا پڑتا ہے جو اس مین بلڈنگ سے باہر ہوتا ہے۔ مارکیز وغیرہ بھی لگانی پڑتی ہیں۔ پھر ہال کے اندر بیٹھنے کا انتظام کرنا، آواز پہنچانے کا صحیح انتظام کرنا اس قسم کے بہت سے کام ہیں جو وقار عمل کے ذریعہ زیادہ تر خدّام اور لجنہ اور انصار بھی کرتے ہیں۔ پھر جلسہ کے دنوں میں کھانا پکانا، کھانا کھلانا، صفائی کا انتظام کرنا، پارکنگ کا انتظام، سیکیورٹی کا انتظام، چیکنگ وغیرہ، مختلف قسم کی ساؤنڈ سسٹم جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، ایم ٹی اے جو علاوہ جلسہ گاہ سے کارروائی دکھانے کے سٹوڈیوز سے مختلف دلچسپی کے پروگرام بھی دے دیتے ہیں۔ یہ سب کارکن ہیں جن میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں، نوجوان لڑکیاں بھی ہیں، نوجوان لڑکے بھی ہیں، بچے بھی ہیں یہ سب شامل ہیں اور یہ سب لوگ جو ہیں یہ جلسہ میں شامل ہونے والوں کے شکریہ کے مستحق ہیں، خاص طور پر جو یہاں شامل ہو رہے ہیں اور عام طور پر دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کو ان کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خدمت کرنے والوں کے ذریعہ جلسہ کی کارروائی کے سننے اور دیکھنے کا انتظام فرمایا ہوا ہے۔

پس یہ تمام کارکنان ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔ میں بھی ان سب کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور خدمت کرنے کی توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو آئندہ پہلے سے بڑھ کر خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ جلسہ جہاں ہماری تربیت کے سامان کرتا ہے، جلسہ پر شامل ہونے والوں کی خاص طور پر، اور ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا میں یہ پرواگرام دیکھنے والوں کے لئے عام طور پر۔ وہاں غیر احمدی اور غیر مسلم مہمان جو جلسہ پر آتے ہیں اور یا پھر احمدیوں سے رابطے رکھنے والے ہیں اور اس وجہ سے ایم ٹی اے پر ہمارے پروگرام دیکھتے ہیں، بعض مخالفین بھی دیکھتے ہیں۔ اکثر اوقات پھر یہ جلسہ ان لوگوں کے لئے تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے، شامل ہونے والوں کے لئے بھی اور دنیا میں پھیلے ہوئے لوگوں کے لئے بھی۔ کئی احمدی اس کااظہار کرتے ہیں کہ جلسہ کی وجہ سے ان کا تعلق ہمارے ساتھ مزید مضبوط ہوا ہے اور جماعت کو جاننے کی طرف ان کی توجہ پیدا ہوئی ہے۔ بعض غیر مسلم، غیر احمدی لوگ ایسے ہیں جو یہاں جلسے پر آتے ہیں اور یہاں کا ماحول دیکھ کر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پس بیشمار برکتیں ہیں جو جلسہ سالانہ کی ہیں اور اس کا اظہار اب ہر ملک کے جلسہ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جرمنی میں جو جلسے کے دوران غیروں پر اثر ہوا ان میں سے کچھ واقعات مَیں اس وقت پیش کرتا ہوں۔ جلسہ جرمنی پر بھی گزشتہ دو تین سال سے بیعت کرنے کا پروگرام رکھا جاتا ہے۔ اس سال چودہ ممالک سے تعلق رکھنے والے 83عورتوں اور مردوں نے بیعت میں حصہ لیا اور بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ بعض بیعت کرنے والوں کے دل جلسہ کی کارروائی اور احمدیوں کے رویّے اور حسن سلوک دیکھ کر احمدیت کی طرف پھر گئے اور اس وجہ سے انہوں نے بیعت کر لی۔ بوسنیا سے آنے والے ایک مہمان ابراہیموو (Ibrahimov) صاحب کہتے ہیں کہ احمدیت ہی حقیقی سچائی ہے جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہے۔ میرے خطبات کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ مجھ پر سب سے زیادہ اثر ان کے خطبات اور تقریروں کا ہوا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے میرے سوالوں کے تسلی بخش جواب دئیے۔ میرا دل ہر لحاظ سے مطمئن ہوا اور مَیں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اب میں خلیفۃ المسیح کا ہی بن کر رہنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے ان کا قرب حاصل ہو۔ مجھے آپ لوگوں کی تنظیم، محبت اور امن نے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے۔

پھر ایک دوست ریاض صاحب یہاں رہتے ہیں جن کا تعلق عراق سے ہے کہتے ہیں کہ میرا جماعت سے تعارف ایک احمدی کے ذریعہ ہوا۔ اس کے بعد جامعہ احمدیہ میں دو عرب میٹنگز میں فیملی کے ساتھ شامل ہونے کا موقع ملا جن میں آپ کے امام کے ذریعہ، یہاں جو مقامی امام تھے ان کے ذریعہ، جماعتی عقائد کا علم ہوا جو میرے لئے بالکل نئے اور حقائق پر مبنی اور دل میں اثر کر جانے والے تھے۔ پھر مجھے جلسہ سالانہ پر جانے کا موقع ملا۔ میرے لئے یہ منظر انتہائی حیران کن تھا کہ انتہائی تنظیم، خدمت کا جذبہ، انسانی اقدار، مختلف قومیتوں کے لوگ مگر اخوت اور بھائی چارے کی یہ فضا میرے خیال سے دنیا میں احمدیت کے سوا کہیں نظر نہیں آتی۔ کہتے ہیں مجھے ہر طرف محبت ہی محبت نظر آئی اور خلیفہ کے خطابات دلی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں حلفاً کہتا ہوں کہ دنیا میں اسلام کی یہ انتہائی خوبصورت تصویر کسی اور فرقے کے پاس نہیں ہے اس لئے سب کچھ آنکھوں سے دیکھنے کے بعد مجھے اور میرے خاندان کو احمدیت قبول کرنے میں ذرا بھی تردّدنہیں ہوا اور واپس آ کر جب ہم نے اپنے رشتہ داروں کو یہ سب کچھ بتایا کہ ہم نے احمدیت قبول کر لی ہے تو وہ کہنے لگے کہ آپ لوگوں نے ہمیں کیوں نہیں بتایا، ہمیں کیوں نہیں ساتھ لے کر گئے۔ ہم بھی یہ تمام باتیں سن کر جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ پھر ایک اور دوست سلمان صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میرا جماعت سے تعارف ایک احمدی کے ذریعہ سے ہوا۔ ان کے اخلاق سے مَیں بیحد متاثر ہوا ہوں۔ چنانچہ مَیں نے جماعت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ اسی سلسلہ میں جلسہ میں آیا۔ یہاں سب کچھ دیکھ کر میری دنیا بدل گئی۔ جلسہ کے ماحول نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ ایسا منظم اجتماع مَیں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ لوگوں کے اخلاق، ان کا حسن سلوک اور پیار محبت کی فضا یہ تمام چیزیں آجکل دنیا میں سوائے احمدیت کے اور کہیں نظر نہیں آتی اور انہی چیزوں کو دیکھ کر میں آج جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔ پس یہ حُسن اخلاق جو ہے اس کا بھی ایک احمدی کو ایک نمونہ ہونا چاہئے۔ یہ تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے۔

پھر بوسنیا کے ایک مہمان تھے بائیرم (Bajram) صاحب انہوں نے بھی بیعت کی۔ کہتے ہیں پہلی بار جلسہ سالانہ میں شمال ہوا ہوں۔ جلسہ کے موقع پر مجھے احمدیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور جماعت کا زیادہ سے زیادہ تعارف حاصل ہوا۔ یہ جماعت سچی جماعت ہے جو صراط مستقیم پر قائم ہے۔ جلسہ پر جب میں نے خلیفۂ وقت کی باتیں سنیں تو میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کا فیصلہ کر لیا اور بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ خلیفہ وقت نے مجھے اپنے الفاظ سے اپنے قریب کر لیا۔ اب میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اس جماعت کا حصہ ہوں۔ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اس پیغام کو آگے پھیلاؤں گا۔

پھر بیلجیم سے آنے والے ایک مہمان گربو صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسا عظیم الشان روحانی اجتماع ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو لمبے عرصے سے جانتے ہیں۔ پہلے میں نے خط کے ذریعہ بیعت کی تھی مگر آج شوق اور ڈر کی وجہ سے میرا دل سینہ میں بڑی تیزی سے دھڑک رہا ہے۔ میں تمام مسلمانوں سے کہوں گا کہ یہی دین اسلام ہے اور اس اسلام احمدیت میں داخل ہو جائیں۔ میرے لئے ناقابل یقین بات ہے کہ آج خلیفہ کے سامنے بیعت کے لئے حاضر ہوں۔ چودہ سال کی عمر سے مجھے یاد ہے کہ میں مولویوں سے احادیث سنتا تھا کہ مہدی منتظر آئیں گے۔ آج میری وہ خواہش پوری ہو گئی۔ میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

پس جلسہ خاموش تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے یا ماحول جو ہے وہ تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ تقریریں جو ہیں وہ تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور لوگوں کے دلوں پہ اثر ڈالتی ہیں۔ اس لئے ہمارا ہر عمل جو ہے، صرف تقریریں نہیں بلکہ ہر احمدی کا ہر عمل جو ہے اس کو اپنے عمل کو اس طرح بنانا چاہئے کہ غیروں پر بہترین اثر کرے۔ صرف دکھانے کے لئے نہیں بلکہ حقیقت میں ہمارا ہر عمل ہمارے دل کی آواز ہو، ہمارے عقیدے کی آواز ہو۔

جلسہ سالانہ پر یورپ کے مختلف ممالک سے غیر مہمان جو آتے ہیں وہ بھی بڑے متاثر ہو کر جاتے ہیں احمدی اگر نہیں بھی ہوتے تو متاثر ضرور ہوتے ہیں بلکہ بعض جماعت احمدیہ کے سفیر بن کر تبلیغ کا بھی کہتے ہیں۔ اس سال جرمنی کے جلسہ پہ جو وفود باہر سے آئے ان میں لتھوینیا، لاٹویہ، میسیڈونیا، بوسنیا، البانیا، رومانیہ، کوسووو، بلغاریہ، قازقستان، مالٹا بیلجیم، کروشیا اور ہنگری سے لوگ آئے تھے۔ ان وفود کی میرے سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ لتھوینیا سے آنے والی ایک مہمان خاتون ماریہ صاحبہ جو لیگل اکاؤنٹنسی سروس میں پراجیکٹ مینیجر ہیں، کہتی ہیں کہ جلسہ میں شامل ہونا میری زندگی کا ایک بہت اچھا تجربہ ہے۔ کام کے حوالے سے اکثر پاکستان، ایران، عراق اور دبئی کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اسلام کو ماننے والے ہیں۔ مجھے میرے دوست اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کے ماننے والے ہیں اور اسلام دہشتگردی کا مذہب ہے۔ لیکن جلسہ میں شمولیت کے بعد مَیں یہ ماننے پر مجبور ہوں کہ مسلمان لوگ بہت اچھے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہیں۔ مجھے ان دنوں کے دوران یوں محسوس ہوا جیسے مَیں اپنے ہی گھر میں رہ رہی ہوں۔ اس لئے میں واپس جا کر اپنے دوستوں کی مسلمانوں کے بارے میں رائے کو تبدیل کروں گی۔

پھر لتھوینیا سے آنے والے ایک مہمان تو مس چیپائتس (Thomas Cepaitis) کہتے ہیں یہ مرد ہیں جو لتھوینیا میں ایک علاقہ اوزوپس (Uzhupis) کے وزیر خارجہ ہیں کہتے ہیں۔ یہ ایک عظیم جلسہ ہے اور اس جلسہ نے اسلام کے بارے میں میرے تصورات کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا ہے۔ مجھے اس سے قبل جماعت کا زیادہ تعارف نہیں تھا۔ جماعت کے لوگ بہت ہی مہمان نواز ہیں اور محبت کرنے والے ہیں۔ نمائش میں مختلف لوگوں کے ہاتھوں سے قرآن مجید لکھنے کا idea مجھے بہت اچھا لگا۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کو اکٹھا ہوتے دیکھ کر بھی بڑا اچھا لگا۔

پھر مراکش کے ایک نوجوان جلیل صاحب ہیں۔ یہ بیلجیم میں رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ میرے والد عبدالقادر نے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر بیعت کی تھی اور وہی انہیں یہاں جرمنی لے کے آئے تھے۔ کہتے ہیں میں پہلی بار کسی بھی جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ ایک نوجوان ہونے کے طور پر میں اپنے نوجوان بھائیوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسے موقعوں پر شامل ہوا کریں کیونکہ اس جلسہ سے میری روحانیت میں اضافہ ہوا ہے اور مجھے اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ جب ہم نوجوان باہر سڑک پر چلتے ہیں تو سڑک پر چلتے لوگ شاذ ہی آپ کو سلام کرتے ہیں مگر یہاں اس جلسہ میں ہر کوئی ایک دوسرے کو سلام کرتا نظر آ رہا تھا اور یہ بات بڑی متاثر کن تھی۔ مَیں خدا تعالیٰ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے ایسا موقع عطا فرمایا اور مجھے اس مبارک جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ کہتے ہیں کہ میں شروع میں جب یہاں آیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں یہاں تین دن کیا کروں گا۔ مگر میں نے اس جلسہ کی تقریبات میں حصہ لیا اور یہاں کا بھائی چارہ اور پیار و محبت دیکھی تو مجھے پتا بھی نہیں لگا کہ یہ تین دن کہاں گئے۔ جلسہ کے تیسرے دن مَیں نے بیعت میں شمولیت کی۔

پھر جیسا کہ مَیں نے بتایا میسیڈونیا وغیرہ سے آئے تھے۔ ایک عیسائی دوست ٹونی (Toni) آئے۔ کہتے ہیں کہ میرا تعلق صحافت سے ہے۔ مَیں قبل از یں جلسہ سالانہ جرمنی اور یوکے میں شامل ہو چکا ہوں۔ پچھلے سال جب پہلی بار میں جلسہ میں شامل ہوا تو بہت متاثر ہوا تھا کہ اتنی تعداد میں لوگ ایک بڑے اجتماع میں شامل ہیں اور سب انتظامات احسن طریق پر ہیں۔ سب لوگ ڈسپلن کے ساتھ تھے۔ ایک دوسرے کے احترام کر رہے تھے۔ پہلے میں یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ by chance ہے یا حقیقت میں سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے مجھے کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کہتے ہیں مجھے لگا جیسے یہ کوئی خواب ہے۔ یہ جلسہ انسانوں کا عظیم اجتماع ہے۔ پھر میں اگست میں انگلینڈ میں یوکے کے جلسہ میں شامل ہوا، اب دوبارہ جرمنی میں ہوں تو مجھے یقین ہوا کہ جلسہ کے انتظامات بڑے پرفیکٹ (perfect) ہیں۔ میری عمر باون سال ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس طرح منظم اجتماع نہیں دیکھا۔ میں نے جلسہ کے انتظامات میں کوئی کمی نہیں دیکھی، نہ یوکے میں نہ یہاں۔ صحافی بڑی تنقید کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن یہ احمدیت کی خوبصورتی ہے کہ ہر جگہ ان کو ایک سی چیز نظر آئی۔

پھر ایک غیر احمدی مسلمان صحافی سیناد (Senad) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ جب میں نے جلسہ میں شامل ہونے کی حامی بھری تو میرا اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح کا جلسہ ہو گا اور اتنا کامیاب ہو گا۔ جلسہ کے دوران بہت سی باتیں ہیں جنہوں نے مجھ پر بہت مثبت اثر چھوڑا۔ زندگی میں پہلی بار میں نے دیکھا کہ ایک جگہ اتنی زیادہ تعداد میں لوگ موجود ہیں، سب تہذیب یافتہ ہیں، کسی کے چہرہ پر غصہ یا نفرت کے آثار نہیں تھے کہ دوسروں کو کمتر سمجھیں۔ تمام لوگوں کا رویّہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔ پھر کہتے ہیں خلیفہ کی تقاریر سے متاثر ہوا۔ بہت طاقتور تھیں جو سب پر اثر ڈال رہی تھیں۔ ان کی تقاریر لوگوں کے دلوں تک پہنچ رہی تھیں۔ میں صفائی کے معیار سے بھی حیران ہوا۔ ٹائلٹ ہر وقت صاف تھے جبکہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ اس بات نے خاص اثر مجھ پر چھوڑا۔ میرے ساتھ ایک دوست بھی آئے ہوئے تھے جو عیسائی ہیں۔ جلسہ کے آغاز سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ بیان کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ کہتے ہیں مَیں بہت متاثر ہوا۔ اب جبکہ میں اپنے تاثرات قلمبند کر رہا ہوں، میرا وہ ساتھی اسلام کے بارے میں کتب کا مطالعہ کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی پڑھ رہا ہے اور میسیڈونیا کی جماعت نے جلسہ پر جو نظم پڑھی تھی وہ سن رہا ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا جلسہ کا ماحول بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔

بوسنیا سے ایک دوست ڈاکٹر عادل تھے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ کے تمام انتظامات اور پروگرام اپنی نوعیت میں منفرد تھے۔ کہتے ہیں مَیں بحیثیت ایک ڈاکٹر گزشتہ پچیس سال سے مختلف پروگراموں میں شمولیت اختیار کرتا رہا لیکن اس قسم کے انتظامات اور نظم و ضبط مجھے کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ کہتے ہیں اسلام کی بنیاد اطاعت اور نظم و ضبط پر ہے اور یہی بات مجھے یہاں جلسہ میں نظر آئی۔

ایک مہمان دانیال صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ جلسہ ہزاروں روحانی مردوں کو زندگی بخشنے والا جلسہ تھا اور ان روحانی مُردوں میں سے ایک مَیں بھی ہوں جسے جلسہ میں شامل ہو کر از سر نو روحانی زندگی عطا ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگرچہ مَیں کئی سالوں سے جماعت میں شامل ہوں مگر اس سے قبل دل نے اس روحانی تپش کو محسوس نہیں کیا تھا جو اس جلسہ نے دی ہے اور اب مجھے اَز سَرِ نَو روحانی زندگی عطا ہوئی ہے۔

پھر بوسنیا سے ایک غیر از جماعت نوریا صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں سے جلسہ کا ذکر سنا کرتا تھا لیکن مجھے خود شامل ہونے کی توفیق نہیں ملی۔ اس سال جلسہ میں شامل ہونے کے بعد میرے دل میں ایک عجیب کیفیت طاری ہے جو کہ خارج از بیان ہے۔ مَیں اندر سے بدل چکا ہوں۔ پھر لوگ کس طرح آزماتے ہیں یہ بھی دیکھیں۔ یہ نہیں کہ لوگ صرف آتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم آزما کے تو دیکھیں احمدی ہیں کیسے؟ کہاں کہاں ان میں نقص ہیں تا کہ اس نقص کو تلاش کیا جائے۔ تو عمار صاحب جو سیرین ہیں اور جرمنی میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں حقیقت میں مَیں جماعت کا مخالف ہوں۔ مَیں اس لئے آیا تھا کہ میں خامیاں دیکھوں گا اور پھر ان کو مشہور کروں گا۔ میں نے تین دن اپنا موبائل میز پر رکھے رکھا لیکن چوری نہیں ہوا۔ مَیں نے ہر لحاظ سے انتظامات اور لوگوں کے رویّوں کا بغور جائزہ لیا مگر مجھے ایک بھی خامی نظر نہیں آئی اور اب میں اس جماعت کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوں۔ گو کہ یہ آزمانا جو ہے یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کو temptetion ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ پتا لگ گیا کہ کس نیت سے بعض لوگ آتے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کو جلسوں میں خاص طور پر بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔

ایک مہمان علی صاحب جن کا تعلق شام سے ہے، کہتے ہیں مجھے جماعت کا تعارف ایک عرب احمدی کے ذریعہ ہوا اور ایک جماعتی تبلیغی میٹنگ میں شامل ہونے کا موقع ملا جس میں جماعت کے تفصیلی عقائد پر بات چیت ہوئی اور کافی حد تک میری تسلی ہو گئی۔ اس کے بعد فیملی کے ساتھ جلسہ جرمنی پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جماعت کی تنظیم اور روحانی ماحول دیکھ کر بہت تعجب ہوا۔ میرے لئے یہ بہت ہی خوبصورت موقع ہے کہ میں آپ کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں۔ میں آپ کی حسن ضیافت اور بھائی چارے اور مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور مہمانوں کے لئے اپنی راتیں قربان کرنے پر شکر گزار ہوں۔ یقینا جماعت احمدیہ ایک مسلم جماعت ہے اور اسلام کی ایک خوبصورت تعلیم پیش کرتی ہے اور اس کا جمال دوسروں پر ظاہر کرتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس چُھپی ہوئی خوبصورتی کو غور و فکر اور research کے ذریعہ سے دوسروں پر ظاہر کریں۔ رومانیہ سے ایک نو مبائع فلوریان (Florian) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ کے جملہ انتظامات سے بیحد متاثر ہوا ہوں۔ ہر انتظام بہت مکمل اور نپا تُلا اور بہترین ہے۔ کسی انتظام کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کوئی کمی ہے یا نقص ہے۔ اتنے بڑے اجتماع کے لئے ایسا وسیع انتظام جو مکمل بھی ہو بیحد محنت اور جانفشانی اور سالوں کی پلاننگ اور تجربے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مسکراتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے پانی پلا کر ایسی خوشی میں جھوم جاتے ہیں جیسے انہوں نے اپنی کوئی گمشدہ چیز کو حاصل کر لیا ہو۔ غرض ہر کارکن اپنی ڈیوٹی میں پورا مگن، محو اور مہمانوں کی محبت سے سرشار ہے۔ مَیں نو احمدی ہوں – پہلی بار جلسہ میں آیا ہوں اور میں نے پہلا سبق ایئر پورٹ سے جلسہ کے اختتام تک یہی سیکھا ہے کہ عملاً خدمت، محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ہے۔ پھر یہ بیعت کی تقریب میں بھی شامل ہوئے اور اس کا تأثر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیعت کے وقت ایک خوشی کی لہر اور ایک عجیب سا احساس تھا، الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک خاص کیفیت کو میرے دل نے محسوس کیا۔ بیعت کے وقت میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یوں لگتا تھا کہ ایک مقناطیسی فیلڈ بن گیا ہے اور سب ایک جذب اور کشش کے گھیرے میں ہیں۔ کہتے ہیں یہ جلسہ میرے لئے ایک خواب سے کم نہ تھا۔ کوسووو کے ایک بائیرم (Bajram) صاحب کہتے ہیں میں نے بہت سے لوگوں سے جلسہ کے بارے میں سنا تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں اب خود شامل ہو کر ان سب باتوں کا عینی شاہد ہوں۔ میں نے یہاں نظم و ضبط اور حسن اخلاق اور جماعت کا ایک مضبوط نظام دیکھا ہے۔ پھر انہوں نے سوال کیا کہ جماعتی قوت کا راز کیا ہے؟ مجھ سے انہوں نے سوال کیا تھا کہ کیا راز ہے۔ ان کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ یہ جماعت کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جس میں کہا گیا تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب مسیح موعود کا ظہور ہو گا اور وہ جماعت بنائے گا۔ پس یہ خدا کی بنائی ہوئی جماعت ہے اس وجہ سے تمہیں یہ چیزیں نظر آتی ہیں۔ یہ جماعت جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بنایا۔ اس نے افراد جماعت اور خلافت احمدیہ کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے اور ایک ایسا نظام قائم کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے سائے میں پَل رہا ہے، بڑھ رہا ہے۔ اگر انسانی نظام ہوتا تو گزشتہ سوا سو سال سے جس طرح مختلف طریقوں سے اس میں رخنے ڈالنے کی کوششیں کی گئی ہیں، کب کا یہ نظام درہم برہم ہو چکا ہوتا۔

بلغاریہ سے بھی کافی بڑی تعداد میں لوگ آئے تھے۔ 76افراد کا وفد تھا۔ 25 احمدی احباب تھے باقی سب غیر از جماعت تھے۔ ڈاکٹر، بزنس مین، فوج کے اعلیٰ ریٹائرڈ افسران بھی تھے۔ ٹیچر بھی تھے۔ پڑھے لکھے لوگ تھے۔ ایک مہمان خاتون میگڈا (Magda)صاحبہ کہنے لگیں کہ یورپ کے ممالک میں بیشمار غیر ملکی مہاجرین آ رہے ہیں اور مقامی لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ اس بارے میں انہوں نے میرا کہا کہ آپ نے جو رہنمائی کی ہے وہ دلوں کو سکون عطا کرنے والی ہے اور تمام بے چینیوں کا حل ہے۔ اسی طرح آپ نے جو عورتوں اور مردوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے مَیں اس سے بڑی متاثر ہوئی ہوں۔ پس غیروں کا متاثر ہونا ہم سے کچھ مطالبہ بھی کرتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مزید اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ہمارے ہر عمل سے اس کا اظہار ہو۔

ایک مہمان رستو یانوف (Rustoyanov) صاحب کہتے ہیں کہ مَیں پہلی مرتبہ اس جلسہ میں شامل ہوا ہوں اور تمام تقاریر سے کچھ نہ کچھ میں نے نیا سیکھا ہے۔ خاص طور پر خلیفہ وقت کی عورتوں کی طرف تقریر نے مجھے بہت متاثر کیا اور انہوں نے اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کی جس کی آج بہت ضرورت ہے۔

پھر مالٹا سے بھی ایک وفد آیا ہوا تھا۔ اس میں ایک ڈاکٹر بھی تھے۔ نائیجیرین اور یجن کے ہیں لیکن مالٹا میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے کئی سال قبل اسلام کو سمجھنے کے لئے چھ ماہ کا کورس کیا تھا۔ اس کورس کے بعد یہ محسوس ہوا کہ اسلام ہی وہ جگہ ہے جہاں میں جا سکتا ہوں مگر بعض مسلمانوں کی غلط حرکات اس خوبصورت امیج کو داغدار کر رہی ہیں اور پھر تشویش بھی ہوئی۔ مگر جماعت احمدیہ وہ واحد مسلمان تنظیم ہے جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بیان کرتی ہے اور اس پر عمل پیرا ہے۔ جہاد کی جو تعریف احمدیہ جماعت کرتی ہے اگر تمام مسلمان اس جہاد کو ماننے لگ جائیں تو دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے اور ہر طرف محبت اور بھائی چارے کا بول بالا ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کو رب العالمین مانتی ہے اور یہ نہیں کہتی کہ اللہ تعالیٰ پر صرف مسلمانوں کا حق ہے اور اس بات نے مجھے جماعت احمدیہ کے اور زیادہ قریب کر دیا ہے۔ کہنے لگے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ پہلے وحی کرتا تھا، بولتا تھا مگر آج نہیں بولتا وہ غلطی پر ہیں اور احمدیت حق ہے کہ خدا تعالیٰ آج بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ مَیں اسلام کے بارے میں سوالات کے جوابات کی تلاش میں جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے آیا تھا اور اس جلسہ میں شرکت اور خلیفہ وقت کے خطابات اور خصوصاً دوسرے روز غیر مسلموں سے خطاب کے بعد مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اپنے سوالوں کے جوابات مل گئے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ جہاد کی جو تفسیر جماعت احمدیہ کرتی ہے اس سے متعلق ایک کتاب شائع کر کے مسلمانوں کو پڑھانی چاہئے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی جہاد کی حقیقت بتانی چاہئے اور غیرمسلموں کو بھی جہاد کی حقیقت بتانی چاہئے۔ کہتے ہیں کہ اب مالٹا کے لوگوں کو احمدیت کی خوب تبلیغ کروں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو احمدیت پیش کر رہی ہے اور یہ اسلام امن و سلامتی کا پیغام ہے۔ اب ہم جماعت احمدیہ کے ساتھ مل کر احمدیت کا پیغام اپنے ملک میں پھیلائیں گے۔

تین عیسائی خواتین بھی مالٹا سے شامل ہوئیں۔ دوسرا دن انہوں نے لجنہ کی مارکی میں گزارا۔ اس کے بعد انہوں نے مبلغ سلسلہ کو کہا کہ آج آپ نے جو ہمیں خواتین کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع فراہم کیا ہے تو ہمیں وہاں زیادہ مزا آیا ہے اور ہم وہاں پر زیادہ آسانی اور آرام محسوس کرتی رہیں۔ خواتین کے ساتھ رہ کر ہمیں زیادہ آزادی اور خود اعتمادی کا احساس ہوا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ جلسہ کا باقی وقت بھی ہم خواتین کے ساتھ ہی گزاریں۔ پس ان احمدی بچیوں کے لئے بھی اس میں سبق ہے جو سمجھتی ہیں یا ان لوگوں کے زیر اثر آ جاتی ہیں جو کہتے ہیں کہ مرد اور عورت میں تفریق نہیں ہونی چاہئے، علیحدہ علیحدہ نہیں بیٹھنا چاہئے اور اس وجہ سے کئی نوجوانوں کے دماغ زہر آلود کر دئیے ہیں۔ لاٹویا سے آنے والے ایک وکیل آروِڈز (Arvids) صاحب کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ میں شرکت کا موقع ملا۔ جلسہ میں شمولیت سے قبل جماعت احمدیہ کے متعلق زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن ان دنوں میں اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں نے اپنی زندگی میں آپ سے زیادہ محبت کرنے والے، مدد کرنے والے اور خدمت کرنے والے لوگ نہیں دیکھے۔ جلسہ سالانہ میں شمولیت میرے لئے فخر کا باعث ہے اور واپس جا کر میں اپنی زندگی کے متعلق دوبارہ غور کروں گا۔

ایک مہمان خاتون ٹینا (Tina) صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ جرمنی میں خواتین کی تقریر میں خواتین کے حقوق اور ان پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کے بارے میں جو خطاب تھا اس نے مجھ پر اسلام میں عورت کے بارے میں بہت عمدہ اثر پیدا کیا اور اب میں کہہ سکتی ہوں کہ عورت کی اسلام میں کس قدر اہمیت ہے۔ کہتی ہیں کہ خواتین کے جلسہ پر خطاب پر میں بہت خوش ہوئی اور حیران تھی کہ اسلام نے کتنی عمدگی سے عورت کے ساتھ مساوات قائم رکھنے کا حکم دیا ہے اور عورت اور مرد کے حقوق کی وضاحت کی ہے۔ اس خطاب کے سننے کے بعد اس موضوع کے بارے میں میرے علم میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

بیلجیم سے آنے والے ایک غیر احمدی مہمان جو سینیگال کے باشندے ہیں۔ (یہ مسلمان ہیں ) کہتے ہیں کہ مجھے بہت سے غیر احمدی اجلاسات اور دیگر اجلاسات اور تقریبات میں شامل ہونے کا موقع ملا لیکن جو نظام یہاں دیکھا اور کہیں نظر نہیں آیا۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلسہ گاہ میں ایک شخص کرسی سے گر گیا تو تمام کارکنان جو اس وقت موجود تھے وہ اس شخص کی مدد کے لئے آگے بڑھے جیسے وہ سب سے اہم شخص ہو۔ میں نے اس نظارے کو دیکھ کر سوچا کہ یہاں پر سب کو اتنی عزت اور احترام دیا جاتا ہے اور سب سے برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ میرے لئے اس محبت اور بھائی چارے کا آج کے دَور میں نظارہ کرنا اس بات پر گواہی دیتا ہے کہ یہی تجدید دین اسلام ہے۔ جماعت احمدیہ ہی آج کے دَور میں اسلام کی تعلیمات پر حقیقی عمل کرتی نظر آتی ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ میں ایک دوسری بات کی بھی گواہی دینا چاہتا ہوں کہ آجکل یورپ کے اکثر ممالک میں پولیس کا پہرہ ہے اور دیگر اجتماعوں میں پولیس اور پہریدار نمایاں ہوتے ہیں مگر ان تین دنوں کے دوران باوجود اس کے کہ اس جگہ پر چالیس ہزار کے قریب لوگ جمع تھے کسی قسم کی بدمزگی اور حادثہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی اس ملک کی پولیس نظر آئی۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہاں کی پولیس کی وردی کا رنگ کیا ہے۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ احمدیت نے اسلام کی تعلیمات کو صحیح سمجھا ہے اور اس پر عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے جلسہ کا ماحول پُر امن ہے۔

لتھوینیا سے آنے والی ایک مہمان خاتون کہتی ہیں کہ میرے ملک لتھوینیا میں ایک کہاوت ہے کہ ہمیشہ سیکھو، سیکھو اور ایک مرتبہ اَور سیکھو۔ کہتی ہیں کہ میں نے ان دنوں میں اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ اندازہ ہوا ہے کہ اسلام حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ دیتا ہے۔ میں واپس جا کر بھی اسلام احمدیت کا پیغام دوسروں تک پہنچاؤں گی۔ نیز میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ اس جلسہ کے بعد سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی محسوس کر رہی ہوں۔ میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ مَیں امید کرتی ہوں دوبارہ بھی جلسہ پر آؤں گی۔

پھر ایک مہمان مسٹر ارالڈو (Mr. Eraldo) جو اکاؤنٹنٹ ہیں کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ نے مسلمانوں کی محبت میرے دل میں پیدا کی ہے۔ مسلمان امن چاہتے ہیں جنگ نہیں۔ ISISاسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کرتی۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس کے ذاتی مفادات ہیں۔ یہ حسن اخلاق کی بات ہے اور میں نے بتایا ہے کہ ہمارے اخلاق جو ہیں وہ ہر احمدی کے اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ صرف غیروں سے یا نومبائعین سے نہیں بلکہ آپس میں بھی ہمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت اور رحم کا سلوک کرنا چاہئے اور رنجشوں کو ختم کرنا چاہئے۔ میں نے جلسہ پر بھی یہ کہا تھا۔ ایک نومبائع دوست ندیم صاحب کہتے ہیں کہ یہ میرا تیسرا جلسہ ہے۔ موصوف نے کہا کہ دو ماہ قبل خاکسار روزگار کی تلاش میں جرمنی آیا ہے۔ ایک روز میں نماز کے لئے بیت السبوح آنا چاہتا تھا۔ ایک ٹیکسی کے ذریعہ وہاں آنے کا موقع ملا اور اتفاقاً وہ ٹیکسی ایک احمدی بھائی کی تھی۔ اس احمدی بھائی نے جس محبت اور پیار سے مجھے گلے لگایا وہ محبت بے نظیر اور بے مثال تھی اور مجھے معلوم ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے متبعین میں جو محبت اور پیار دیکھنا چاہتے ہیں یہ اس کی ایک جھلک ہے۔

یہ تأثرات جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے اَور لوگوں کے بھی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے اور عمومی طور پر لوگوں پر جلسہ کا اچھا اثر ہوتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے بعض کمیوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور ان کی نشاندہی کی ہے۔ بعض مہمانوں نے بتایا کہ اس دفعہ ٹرانسلیشن سننے والی ڈیوائسز (devices) جو تھیں، ان میں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔ پہلے تو نہیں شکایت آئی، شاید اس دفعہ ہو، بعض اوقات ٹرانسلیشن کے دوران کافی شور ہوتا تھا اور دوسری زبانیں بھی اس میں مکس (mix) ہو جاتی تھیں۔ اس کا تجربہ تو مَیں نے خود بھی کیا ہے۔ میں وہاں جرمن تقریب میں جرمنوں کی تقاریر سن رہا تھا تو اس میں اردو ترجمہ کے اوپر دوسری زبانوں کے ترجمے شروع ہو گئے تھے اور بار بار انٹر فیئرنس (interference) ہوتی تھی۔ پس انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ پیسے نہ بچائیں بلکہ اچھا انتظام کریں اور اچھی ڈیوائسز (devices) لے کر آئیں۔ میسیڈونیا کی ایک غیر احمدی خاتون نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بات تو ایسی اہم نہیں ہے کہ میں ذکر کروں لیکن ذکر کر دیتی ہوں۔ ہمیں ایسا کھانا ملا جس کی ہمیں عادت نہیں تھی جس کی وجہ سے بعض کو بعض تکلیفیں بھی ہو گئیں۔ پھر ایک خاتون نے یہ بھی ذکر کیا کہ ہمارے کھانوں میں ایسے مصالحے تھے جس کی وجہ سے ہم کھانا نہیں کھا سکیں۔ ہمارے لئے بڑا مشکل تھا۔

تو غیر ملکیوں کے کھانے کا انتظام تو ہو سکتا ہے۔ یہ انتظامیہ کا کام ہے۔ ابھی اتنی تھوڑی تعداد میں یہ لوگ آتے ہیں کہ یہ انتظام کوئی مشکل نہیں ہے یہ۔ پھر سمجھتے ہیں ہم لوگ کہ پاستا (Pasta) بنا دیا تو سب کھا لیں گے۔ ہر ایک پاستا(Pasta) پسندنہیں کرتا۔ بعض علاقوں کے لوگوں کو شوربا یا اس قسم کے کھانے کی عادت ہے جو پتلا ہو۔ تو وہاں کے احمدی لوگ جو آتے ہیں اور مربیان و مبلغین کے ذریعہ سے ان کی خوراک کے بارے میں پتا کرایا جا سکتا ہے اور ایسا مشکل کام نہیں ہے کہ نہ بنائی جا سکے۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ پھر ایک بات مجھے یہ بھی پتا چلی ہے کہ عورتوں میں مہمانوں کی مارکی میں احمدی عورتوں کا بھی رَش ہو جاتا تھا۔ اس طرف ہماری عورتوں کو بھی توجہ دینی چاہئے اور لجنہ کی انتظامیہ کو خاص طور پر کہ ہماری لڑکیاں اور عورتیں تین دن پرہیزی کھانا نہ کھائیں اور عام لنگر کا کھانا کھائیں تو مہمانوں کو کھانا کھانے اور کھلانے میں زیادہ سہولت ہو گی۔

پھر ایک خاتون نے مجھے براہ راست سوال کے رنگ میں پوچھا لیکن مقصد واضح تھا۔ یہ بتانا چاہتی تھی کہ بعض احمدی عورتوں کا حلیہ نماز کے وقت بھی صحیح نہیں ہوتا۔ عورتوں کے بال نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ سر ننگے ہوتے ہیں۔ پوری طرح ڈھکے نہیں ہوتے۔ اور اس کا اعتراض بالکل ٹھیک تھا۔ سامنے سے اور پیچھے سے بالوں کو ڈھانک کے رکھنا چاہئے۔ اس کی احتیاط کریں۔ بچوں کی ماؤں نے بھی بعضوں نے شکایت کی ہے یا شکوہ کے رنگ میں خط لکھا یا دعائیہ رنگ میں بھی لکھا کہ آئندہ سال یہ انتظام بہتر ہو جائیں کہ زیادہ چھوٹے بچوں اور جو بہت زیادہ شور مچانے والے ہیں اور بہ نسبت بڑے بچوں کی ماؤں کی جگہ علیحدہ ہونی چاہئے کیونکہ بہت زیادہ شور کی وجہ سے تقاریر سنی نہیں جا سکتیں۔ بٹھانے کا تو کوئی مقصدنہیں ہے۔

پھر اس طرف بھی بعض لوگوں نے مجھے توجہ دلائی ہے کہ لڑکیوں کو جب سندات مل رہی تھیں تو اس وقت ایم ٹی اے نے زیادہ قریب سے لڑکیوں کے کلوز اَپ دکھانے شروع کر دئیے حالانکہ میری یہ ہدایت ہے کہ دُور سے دکھایا کریں اور چہرے نظر نہ آئیں۔ اول تو ہر لڑکی کا پردہ بھی صحیح ہونا چاہئے لیکن اگر نہیں بھی ہے تو ایم ٹی اے کو احتیاط کرنی چاہئے۔ نئی کارکنات کو اگر صحیح اندازہ نہیں ہے یا ان کو بریف نہیں کیا گیا تو اس بارے میں آئندہ پابندی کی جائے۔ ایم ٹی اے یا جو بھی انتظامیہ ہے اس کا انتظام کرے۔ اور پردے کے بارے میں بعض باتیں ہیں تو انشاء اللہ میں صدرات لجنہ کو بعد میں بھیج دوں گا۔ اس کا یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جلسہ کے دنوں میں جہاں ہم جلسہ کی برکات سے فیض پاتے ہیں اور اپنی تربیت اور غیروں کو تبلیغ کا باعث بھی بنتے ہیں وہاں ہمیں اپنی خامیوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ مجھے یہ ضرورت نہیں ہے کہ ہر دفعہ بہت ساری کمزوریوں کا مَیں ذکر کروں یا ان کی نشاندہی کروں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ خامیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کوئی نظام بھی کامل کبھی نہیں ہو سکتا۔ جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمائی ہے وہاں ہمیں، انتظامیہ کو اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں۔ خامیوں اور کمیوں کو تنقیدی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ ان کو تلاش کریں کہ کہاں کہاں ہماری کمزوریاں تھیں اور پھر جو کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ لال کتاب بنائیں جس میں غلطیوں کا اندراج ہو۔ اس میں درج کریں اور آئندہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح ہمارے نظام میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔ افسر جلسہ سالانہ کا کام ہے کہ اپنے تمام شعبہ جات کی بعد میں میٹنگ کریں اور انہیں کہیں کہ اپنے اپنے شعبہ کی کمیاں نوٹ کر کے لائیں۔ جہاں جہاں ان کو کوئی سقم نظر آئے وہ نوٹ کر کے لائیں تا کہ آپس کے مشورے سے ان کا بہتر حل نکالا جائے۔ آئندہ سال بہتر انتظام ہو۔ اور اگر لوگوں کی طرف سے کوئی اصلاح طلب یا قابل توجہ امر سامنے آئے تو فوراً کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شکایت کو دور کرنے کے لئے آئندہ مضبوط پلاننگ ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اس کی بھی سب کو توفیق عطافرمائے۔

اس دورے کے دوران مجھے کچھ مسجدوں کے سنگ بنیاد اور افتتاح کرنے کا بھی موقع ملا۔ یہ بھی تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ غیر مہمان آ کر اسلام کے بارے میں جب معلومات لیتے ہیں تو ان کے لئے بڑی حیران کن بات ہوتی ہے کہ اسلام کی تعلیم کا یہ پہلو تو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، نہ ہمیں دکھایا گیا۔ اس وقت اس بارے میں بھی بعض تأثرات پیش کر دیتا ہوں۔ ایک مسجد کے افتتاح میں ایک ہسپانوی عیسائی کہتے ہیں کہ میرا بیٹا کچھ سال قبل احمدی ہو گیا جس سے مجھے بہت پریشانی ہوئی کیونکہ میں ایک کیتھولک عیسائی ہوں اور اپنے مذہب کا بہت پابند ہوں۔ مجھے افسوس تھا کہ میرا بیٹا کس جگہ پر آ پہنچا ہے اور اسلام کو میں مضر جانتا ہوں، نقصان دہ سمجھتا تھا۔ بہرحال آج آپ کے خلیفہ کو میں نے دیکھا اور ان کی باتیں سنیں اور مجھے ایک حقیقی امن کا احساس ہوا۔ اب مجھے اس بات کی تسلی ہے کہ میرا بیٹا اچھی جگہ پر ہے۔

پھر ایک خاتون مہمان تھیں کورالا (Kurala) صاحبہ کہتی ہیں مجھے کچھ برا بھی لگا اور افسوس بھی ہوا۔ کس بات پر؟ کہ آپ کے خلیفہ کو بار بار کہنا پڑا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ لیکن میں سمجھ سکتی ہوں کہ دنیا میں آجکل جو اسلام کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اور اتنی غلط باتیں اسلام کی طرف منسوب کی جاتی ہیں تو لوگوں کو سمجھانے کے لئے بار بار اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے۔ کہتی ہیں کہ بہت باریک بینی سے انہوں نے اس امر کو بیان کیا کہ اسلام امن کا پرچار کرنے والا ہے۔ جس طرح بیان کیا ہے کوئی اس کے مخالف دلیل نہیں دے سکتا۔ کہتی ہیں پیغام بڑا سادہ ہے کہ ہر ایک کو آپس میں گلے لگانا چاہئے اور باہم محبت اور پیار سے رہنا چاہئے۔ پھر کہتی ہیں مجھے احمدیہ مسجد سے کسی قسم کا شکوہ نہیں مگر ایک افسوس ضرور ہے اور اس بات کا افسوس ہے کہ جبکہ مسجد اور گرجے کا مقام ایک ہی ہے۔ مسجد مسلمانوں کی عبادتگاہ ہے، گرجا عیسائیوں کی عبادتگاہ ہے۔ ایک ہی مقام ہے تو پھر بھی گرجوں کو شہر کے مرکز میں بنانے کی اجازت ملتی ہے اور مسجدوں کو شہر سے باہر۔ اور نمازیوں کو دور آنا پڑتا ہے۔ یہ کونسل جو ہے کیوں شہر میں مسجد بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔

اب ان میں سے خود ایسے لوگ کھڑے ہونے شروع ہو گئے ہیں جو پہلے مسجدوں کے مخالف تھے لیکن اب انہی تقریبات کی وجہ سے اور مسجدوں کے افتتاحوں کی وجہ سے مسجدوں کی حمایت کرنے لگ گئے ہیں کہ ہماری مسجدیں بھی شہروں کے اندر بننی چاہئیں۔ ایک جگہ میئر صاحب نے کہا کہ مجھے بڑا گھمنڈ تھا کہ میں آپ کی جماعت کو جانتا ہوں۔ مگر آج مجھے اسلام کے بارے میں اور خاص طور پر آپ کی اسلامی ہمدردی کے جذبات سے بھری دنیا بھر میں امداد کے بارے میں مزید سیکھنے کو ملا۔ اس بارے میں جو مَیں نے کچھ بتایا تھا، کہتے ہیں کہ مجھے بہت خوشی ہوئی جب خلیفہ نے کہا کہ اسلام گرجوں کی حفاظت کی بھی اور دیگر تمام مذاہب کے مقتدیوں کی حفاظت کی بھی تعلیم دیتا ہے۔

پھر ایک مہمان مسٹر سٹیفن (Mr. Stefan) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو میں نے سوچا تھا اس سے یہ ایک انوکھا اور مختلف واقعہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم میں نے کیا امید کی تھی لیکن یہ بالکل بھی ویسا نہیں تھا بلکہ اس کے برعکس بہت ہی پُرامن ماحول تھا جس میں خلیفہ وقت نے دوسروں کے حقوق ادا کرنے، ان کی حفاظت اور ایک دوسرے سے پیار کرنے کی بات کی۔ کہتے ہیں آج مَیں نے اسلام کے بنیادی اصول سیکھے ہیں اور یہ سننا بہت ہی پسندیدہ بات تھی کہ خلیفہ نے کہا کہ ہمیں اپنی اچھی خوبیوں پر مرکوز رہنا چاہئے اور ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مجھے یہ بھی پسند آیا جب انہوں نے اسلامی تاریخ بیان کی اور یہ کہا کہ کس طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر سے ہجرت کرنی پڑی مگر پھر بھی ان پر ظلم ہوتا رہا۔ کہتے ہیں مجھے ایسا لگا جیسے انہوں نے اسلام کے بارے میں رازوں کی ایک کتاب کھول دی ہو جسے اس سے پہلے کوئی نہ جانتا ہو۔

پھر ایک مہمان خاتون کہتی ہیں کہ خلیفہ کا خطاب سنا۔ مَیں نے ہمسایوں کے حوالے سے ایسی اعلیٰ تعلیم پہلے کبھی نہیں سنی۔ اگر ہر ایک اپنے ہمسائے کے حقوق ادا کرنا شروع کر دے جیسا کہ آپ کے خلیفہ نے کہا ہے تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ کہتی ہیں کہ خلیفہ نے کہا کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے دوسروں کے حقوق ادا کرو۔ یقینا یہی امن کی مکمل تعلیم ہو سکتی ہے۔

اس مسجد کی افتتاح کی تقریب پر جو اس علاقے کے ضلع کے سربراہ تھے انہوں نے اپنی تقریر میں ایک یہ بات کہی کہ احمدی جو عورتوں سے مصافحہ نہ کرنے کی بات کرتے ہیں اس سے integration نہیں ہو سکتی۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ لوگ ہم میں جذب نہیں ہو سکتے جب تک ہماری عورتیں آپ کے مردوں سے مصافحہ نہ کریں اور آپ کی عورتیں ہمارے مردوں سے مصافحہ نہ کریں۔ تو میں نے ان کا خطاب ختم ہونے کے بعد جو اپنی مختصر سی تقریر کی اس میں ان کا جواب دیا۔ اس پر انہی خاتون نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ خلیفہ نے ہاتھ ملانے کے حوالے سے بھی بات کی۔ ضروری نہیں کہ اس کمرے میں موجود ہر شخص نے خلیفہ کی باتوں سے اتفاق کیا ہو لیکن مَیں مکمل طور پر ان کی باتوں سے اتفاق کرتی ہوں۔ ہمیں دوسروں کی خوبیوں کو سراہنا چاہئے۔ یہی بات مَیں نے آج آپ کے خلیفہ سے سیکھی ہے کہ integrationکے لئے دونوں طرف سے مفاہمت کا ہونا ضروری امر ہے۔ مجھے پتا ہے کہ مسلمان سؤر کا گوشت نہیں کھاتے اس لئے اگر مَیں مسلمانوں کو اپنے گھر مدعو کروں گی تو ان کے لئے کوئی اور گوشت بناؤں گی۔ یہ تو بنیادی سی بات ہے۔ اسی طرح اگر مسلمان مرد میرے ساتھ ہاتھ ملانا نہیں چاہتے تو میں کیوں زبردستی انہیں ہاتھ ملانے پر مجبور کروں۔ پھر ایک جرمن مردنے کہا کہ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ کے خلیفہ نے عورت اور مرد کے ہاتھ ملانے والے معاملے کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کا خطاب سننا میرے لئے باعث عزت تھا۔ ان کے دلائل کو ردّ نہیں کیا جا سکتا جو انہوں نے دئیے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے لئے کوئی عام بات نہیں کہ مسلمان مرد عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتے لیکن خلیفہ نے بالکل درست کہا ہے کہ ایک امن پسند اور tolerant معاشرے میں ہمیں ایک دوسرے کے عقائد کا خیال رکھنا چاہئے۔

پھر وہ خاتون جو ڈسٹرکٹ ہیڈ کے ساتھ آئی تھیں اور اس وجہ سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کو کہنا پڑا کہ عورتوں کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہئے۔ یہ خاتون ایک سال پہلے مسجد کی بنیاد پر بھی اور پھر افتتاح پر بھی آئی ہوئی تھیں۔ یہ کہتی ہیں ان کو پہلے بڑا غصہ تھا کہ مرد عورت کا کیوں ہاتھ نہیں ملایا جاتا۔ کیونکہ ان کو پہلے بتا دیا گیا تھا کہ مَیں ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ بہرحال یہ کہتی ہیں کہ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ خلیفہ نے مسٹر گیمکے (Mr. Gemke) جو ڈسٹرکٹ ہیڈ تھے ان کی طرف سے اٹھائے گئے تمام سوالات کا جواب دیا۔ گزشتہ سال مجھے جب دعوت نامہ دیا گیا تو اس پر لکھا ہوا تھا کہ احمدی مرد عورتوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ یہ پڑھ کر مجھے شدید دکھ ہوا تھا لیکن آج جس طرح خلیفہ نے ہاتھ ملانے کے حوالے سے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے یہ مجھے خط بھجوانے سے پہلے بتا دیتے تو مجھے اسی وقت سمجھ آ جاتی۔ گو کہ میرا ماننا ہے کہ عورت مرد ہاتھ ملا سکتے ہیں لیکن آپ کے خلیفہ کے خطاب نے میرا نظریہ تبدیل کر دیا ہے کہ ہمیں اپنے رسوم و رواج دوسروں پر زبردستی نہیں ٹھونسنے چاہئیں اور دوسروں کے عقائد اور نظریات کا خیال رکھنا چاہئے۔

پس ایک بات تو ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ دوسروں کے ساتھ بات چیت میں جب اپنے دین اور مذہب اور روایات کی بات کر رہے ہوں تو حکمت سے بات کرنی چاہئے تا کہ آپ کی بات ان کو پہنچ بھی جائے اور دوسروں کے جذبات کو تکلیف بھی نہ ہو۔ اب اس عورت نے جو چرچ کی نمائندہ تھی جس کا مَیں نے ذکر کیا ہے یہ بالکل ٹھیک کہا ہے کہ مجھے خط میں لکھ کر دینے کی کیا ضرورت تھی کہ ہم مصافحہ نہیں کرتے۔ تم آؤ گی تو مصافحہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ ہم تمہیں سنگ بنیاد پر بلا تو رہے ہیں لیکن یاد رکھنا مصافحہ کرنے کے لئے ہاتھ نہ بڑھانا۔ اس کی جرأت نہ کرنا۔ یہ کوئی لکھنے والی بات ہے ہی نہیں۔ اگر ایسا ہی شک ہے کہ وہ اس طرح کرے گی تو پھر نہ بلائیں۔ اور پھر مسجد کے افتتاح پر بھی اس کو بلا لیا۔ لیکن اس لحاظ سے یہ اچھا ہوا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ نے اس معاملے کو دوبارہ اٹھایا اور مجھے کچھ حد تک ان کو تفصیلی جواب دینے کا موقع مل گیا۔ میں نے بھی کوئی ڈر کے بات نہیں کی تھی۔ ان کے سامنے دو ٹوک بات کی تھی۔ لیکن حکمت سے بات کی تھی۔ اور ضلعی ہیڈ کو بھی شاید اس طرح واضح جواب کی امیدنہیں تھی کیونکہ اس کا بھی انہوں نے اظہار کیا لیکن ساتھ خوش بھی تھے کہ میری باتوں کا جواب بھی دے دیا اور یہ بھی کہا کہ بڑے اچھے طریقے سے میری دلیلوں کو انہوں نے ردّ کر دیا۔ پس یاد رکھیں کہ ہم نے زبردستی کسی کو منوانا نہیں ہے لیکن اپنی تعلیم سے پیچھے بھی نہیں ہٹنا۔ ہمیں دین کے کسی معاملے میں شرمانے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی تعلیم ایسی اعلیٰ تعلیم ہے کہ کسی احمدی لڑکے کو، لڑکی کو، عورت اور مرد کو احساس کمتری کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم نے دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانا ہے تو ہمیں ہر معاملے میں اپنے عملی نمونے پیش کرنے ہوں گے اور جرأت بھی دکھانی ہو گی۔ اس خاتون نے جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ مجھے سنگ بنیاد کے دعوت نامے پر یہ پیغام لکھا ہوا ملا، میری باتیں سننے کے بعد اس اظہار کے علاوہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک سال سے میں اس حوالے سے بڑی تکلیف میں تھی۔ لگتا تھا کہ میری بے عزتی کر دی گئی ہے اور سنگ بنیاد کے بعد میں بڑے بھاری دل کے ساتھ گئی تھی اور آج بھی یہاں آ تو گئی تھی لیکن بے چین تھی۔ لیکن آج میں آپ کی باتیں سننے کے بعد مسکراتے چہرے کے ساتھ جا رہی ہوں اور آپ کا حق ہے کہ ہاتھ ملائیں یا نہ ملائیں۔ بہت سے لوگوں نے اس بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے کہ اب حقیقی integration کی ہمیں سمجھ آئی ہے اور ہمیں اب حقیقی خلافت کی سمجھ آئی ہے۔

ایک شخص نے یہ بھی کہا اور یہ ایسی بات ہے جو آپ سب مردوں اور عورتوں کے لئے بڑی اہم ہے۔ (نوجوان مرد تھا) کہنے لگا کہ آپ کے خلیفہ تو بڑی عمر کے ہیں اور خلیفہ بھی ہیں۔ وہ اس حوالے سے شاید اپنی تعلیم پر عمل کرتے ہوں گے۔ اصل تو آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کا جو اسلام کی تعلیم ہے اب پتا لگے گا کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور عورتیں مرد اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ اور اس پر عمل کرتے ہوئے عورتیں مردوں سے اور مرد عورتوں سے ہاتھ ملانے میں اپنے آپ کو بچاتے ہیں یا نہیں بچاتے۔ اب یہ بات کھل کے سامنے آئے گی۔ کہنے لگا کہ اگر دوسرے احمدی نوجوان بھی، لڑکیاں لڑکے بھی اس پر عمل کریں تو پھر میں سمجھوں گا کہ واقعی آپ اپنی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس یہ بہت بڑا چیلنج ہے یہاں رہنے والے ہر احمدی مرد اور عورت کے لئے جو اس شخص نے احمدی مردوں اور عورتوں کو دیا ہے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر اپنی تعلیم کے چھوٹے سے چھوٹے حصہ پر بھی عمل کریں اور ان لوگوں کو بتائیں کہ یورپ میں آ کر بھی ہمیں اسلامی تعلیم کی برتری کے بارے میں ہلکا سا بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اسی طرح لڑکیاں اپنے لباس اور اپنے پردے کا بھی خیال رکھیں اور اپنی حیا اور اپنی تقدس پر کوئی حرف نہ آنے دیں۔ لجنہ کی تنظیم اس طرف خاص توجہ دے۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ کی تنظیم بھی خدام کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں۔ انصار اللہ کو بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ تمام تنظیمیں اور جماعتی نظام افراد جماعت کی عملی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اپنے تربیتی پروگرام بنائیں اور اس کے بہترین نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ دوسرے اب آپ کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے ہیں اور دیکھیں گے کہ آپ کے عمل کس طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ بھی بتا دوں کہ جلسہ اور مساجد کے فنکشنز کی مجموعی طور پر میڈیا میں 80 سے زائد خبریں شائع ہوئی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دیکھنے سننے والوں کی ممکنہ تعداد 72ملین لوگوں تک ہے۔ جلسہ جرمنی پر پانچ ٹی وی چینل نے خبریں دیں۔ جن میں سے ایک ریڈیو چینل نے، تین اخبارات نے، دو نیوز ایجنسیوں نے، اس کے علاوہ بہت سے دوسرے اخبارات بھی ہیں۔ ٹی وی چینل ہیں۔ SWR ٹی وی، Baden ٹی وی، RTL ٹی وی، ZDF ٹی وی اور Albania ٹی وی اور بیشمار اور اخباروں کی خبریں بھی ہیں۔ {حضور نے مقامی انتظامیہ سے استفسار فرمایا: ابھی نماز تو دوسرے ہال میں ہو گی ناں؟}

خطبہ یہاں مَیں نے دیا ہے اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے میں باہر دوسرے ہال میں ریسپشن میں جا کر نماز پڑھاؤں گا۔ آپ لوگ یہیں انتظار کریں۔ جب تک میں وہاں جاتا نہیں اور نماز شروع نہیں ہوتی آرام سے بیٹھیں اور پھر نماز میں شامل ہوں۔ پچھلی دفعہ جب میں یہاں آیا تھا تو جو لجنہ اور انصار اللہ نے جگہ خریدی ہے اور بیت العافیت اس کا نام رکھا ہے وہاں کھلا ہال تھا، جگہ مل گئی تھی لیکن اس دفعہ کونسل کی طرف سے بعض اعتراضات کی وجہ سے جو ابھی تک حل نہیں کئے گئے وہاں نماز پڑھنے کی جگہ ابھی نہیں ملی جس کی وجہ سے آج عورتوں کو بھی یہاں جمعہ پڑھنے آنے کے لئے روکا گیا ہے اور صرف مرد حضرات آئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اتنا عرصہ ہو گیا ہے۔ لجنہ کا اور انصار اللہ کا کام تھا کہ اگر عمارت خریدی تھی تو اس کے جو قانونی تقاضے تھے ان کو بھی پورا کرتے اور جلد سے جلد اس عمارت کو قابل استعمال بناتے۔ پتا نہیں لجنہ اور انصار بھی شاید اسی معاملے میں بیٹھے رہے کہ کونسل ہمارے پاس آئے گی۔ خود ہاتھ جوڑ کر کہے گی کہ اپنے کام کر لو۔ یہ نہیں ہو گا۔ آپ لوگوں کو اپنے کاموں کے لئے فوری طور پر قدم اٹھانا چاہئے۔ اسی طرح اگر امیر صاحب اور جائیداد کا محکمہ اس میں involve ہیں تو ان کو بھی چاہئے کہ فوراً ان کی مدد کریں۔ یہ نہ ہو کہ آئندہ کئی سال اسی بات پہ بیٹھے رہیں کہ خود کونسل ہمیں درخواست کرے کہ ہم اپنی جگہ کو استعمال کر لیں۔ اب ان سستیوں کو چھوڑیں اور جو آپ کے کام کرنے کے تقاضے ہیں ان کو پورا کریں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 9؍ ستمبر 2016ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ گزشتہ اتوار اپنے تین دن کے بھرپور پروگراموں کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ جلسہ سالانہ کی تیاری کے سلسلہ میں سارا سال کوششیں اور کام ہوتا ہے۔ سینکڑوں رضا کار کچھ دن پہلے اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور جب جلسہ شروع ہو تو پھر لگتا ہے کہ ایک دم میں اختتام بھی ہو گیا۔ تین دن پلک جھپکنے میں گزر جاتے ہیں۔ یہ سب کارکن ہیں جن میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں، نوجوان لڑکیاں بھی ہیں، نوجوان لڑکے بھی ہیں، بچے بھی ہیں یہ سب شامل ہیں اور یہ سب لوگ جو ہیں یہ جلسہ میں شامل ہونے والوں کے شکریہ کے مستحق ہیں، خاص طور پر جو یہاں شامل ہو رہے ہیں اور عام طور پر دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کو ان کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خدمت کرنے والوں کے ذریعہ جلسہ کی کارروائی کے سننے اور دیکھنے کا انتظام فرمایا ہوا ہے۔ پس یہ تمام کارکنان ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔ میں بھی ان سب کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور خدمت کرنے کی توفیق پائی۔

    اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو آئندہ پہلے سے بڑھ کر خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔

    بعض غیر مسلم، غیر احمدی لوگ ایسے ہیں جو یہاں جلسے پر آتے ہیں اور یہاں کا ماحول دیکھ کر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پس بیشمار برکتیں ہیں جو جلسہ سالانہ کی ہیں اور اس کا اظہار اب ہر ملک کے جلسہ کے حوالے سے ہوتا ہے۔

    جلسہ جرمنی پر بھی گزشتہ دو تین سال سے بیعت کرنے کا پروگرام رکھا جاتا ہے۔ اس سال چودہ ممالک سے تعلق رکھنے والے 83عورتوں اور مردوں نے بیعت میں حصہ لیا اور بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔

    جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے والے مہمانوں کے جلسہ کے انتظامات، نظم و ضبط اور اس کے پروگراموں سے متعلق نیک تأثرات اور اس کے نتیجہ میں ان کے خیالات میں پیدا ہونے والی پاکیزہ تبدیلیوں کا روح پرور تذکرہ۔

    بعض لوگ جلسوں میں اس لئے آتے ہیں کہ احمدیوں کے اخلاق کو آزمائیں۔ ان کی کمزوریوں کو تلاش کریں۔ اس لئے ہر احمدی کو جلسوں میں خاص طور پر بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔

    یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے اور عمومی طور پر لوگوں پر جلسہ کا اچھا اثر ہوتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے بعض کمیوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور ان کی نشاندہی کی ہے۔

    جلسہ کے دنوں میں جہاں ہم جلسہ کی برکات سے فیض پاتے ہیں اور اپنی تربیت اور غیروں کو تبلیغ کا باعث بھی بنتے ہیں وہاں ہمیں اپنی خامیوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔

    جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمائی ہے وہاں ہمیں، انتظامیہ کو اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں۔ خامیوں اور کمیوں کو تنقیدی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ ان کو تلاش کریں کہ کہاں کہاں ہماری کمزوریاں تھیں اور پھر جو کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ لال کتاب بنائیں۔ اس میں درج کریں اور آئندہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ اس دورہ کے دوران بعض مساجد کے سنگ بنیاد اور بعض کے افتتاح بھی ہوئے۔ ان مواقع پر منعقدہ تقریبات میں شامل ہونے والے مہمانان کے تأثرات کا تذکرہ۔

    جلسہ اور مساجد کے فنکشنز کی میڈیا میں 80سے زائد خبریں شائع ہوئیں۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات میں کوریج۔ اندازاً 72 ملین افراد تک پیغام پہنچا۔

    کسی بھی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہوئے بغیر اپنی تعلیم کے چھوٹے سے چھوٹے حصہ پر بھی عمل کریں اور ان لوگوں کو بتائیں کہ یورپ میں آ کر بھی ہمیں اسلامی تعلیم کی برتری کے بارے میں ہلکا سا بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اسی طرح لڑکیاں اپنے لباس اور اپنے پردے کا بھی خیال رکھیں اور اپنی حیا اور اپنی تقدس پر کوئی حرف نہ آنے دیں۔ جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو افراد جماعت کی عملی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے تربیتی پروگرام بنانے اور ان کے بہترین نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی تاکیدی ہدایات۔

    فرمودہ مورخہ 09؍ستمبر 2016ء بمطابق09تبوک 1395 ہجری شمسی،  بمقام بیت السبوح فرینکفرٹ، جرمنی

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور