عائلی مسائل اور اُن کا حل

فہرست مضامین

اسلامی نکاح: ایک عہد

گذشتہ صفحات میں اُن آیاتِ کریمہ کو مع ترجمہ تحریر کیا گیا ہے جنہیں اعلانِ نکاح کے موقع پر تلاوت کرنا مسنون ہے۔ سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان آیات کواعلان نکاح کے وقت تلاوت کئے جانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کےحکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو، تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔ میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے۔ جب تقویٰ پر چلتے ہوئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہو گا تو پھر بھڑکانے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہو اس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خاوند کو جانتا ہوں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، ابھی معاملہ صاف کر لیتے ہیں اور ایسا شخص جوکسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے اگر وہ سچا ہے تو یہ کبھی نہیں کہے گا کہ اپنے خاوند سے یا بیوی سے میرا نام لے کر نہ پوچھنا، میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ تم پوچھنے لگ جاؤ۔ بات کرکے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈالنے والا ہے، اس میں فاصلے پیدا کرنے والا ہے اور جھوٹ سے کام لےرہا ہے۔ اگر کسی کو ہمدردی ہے اور اصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گا جس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو۔

پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کااحترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تاکہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے۔ اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰نومبر۲۰۰۶ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر ۲۰۰۶ء)

اسی طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے کی خوبیوں پرنظر رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو دوسرے میں عیب نظر آتا ہے یا اس کی کوئی اور ادا ناپسند ہے تو کئی باتیں اس کی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی۔ تو وہ پسندیدہ باتیں جو ہیں ان کو مدنظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے۔ آپس میں صلح و صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہئے تو یہ میاں بیوی دونوں کونصیحت ہے کہ اگر دونوں ہی اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں تو چھوٹی چھوٹی جو ہر وقت گھروں میں لڑائیاں، چخ چخ ہوتی رہتی ہیں وہ نہ ہوں اور بچے بھی برباد نہ ہوں۔ ذرا ذرا سی بات پر معاملات بعض دفعہ اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں کہ جو کہنے کو تو انسان ہیں مگر جانوروں سے بھی بدتر‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ2جولائی۲۰۰۴ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶ جولائی ۲۰۰۴ء)

ایک دوسرے موقع پر حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتاہے۔ عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض ادا ہوتے ہیں مثلا ً خاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرہے۔ ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہےاور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا‘‘۔ (خطبہ جمعہ ۱۹دسمبر۲۰۰۳ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳فروری ۲۰۰۴ء)

جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃالنساء کی آیت 2 کی تلاوت کرنے کے بعد اس کےحوالہ سےچند نصائح فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

’’یہ آیت جومیں نے تلاوت کی ہے یہ نکاح کے وقت تلاوت کی جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اے لوگو (مردوعورتو)! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اس سے ڈرو اور اس کے احکامات کی تعمیل کرو۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔ حقوق اللہ ادا کرنے سے تمہارے دل میں اُس کی خشیت قائم رہے گی۔ تمہارا ذہن اِدھر اُدھر نہیں بھٹکے گا، تم دین پر قائم رہو گی، شیطان تم پر غالب نہیں آسکے گا، حقوق العباد ادا کرو گے۔ تم دونوں مردوں اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہے۔

سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ایک دوسرے کےحقوق کا خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھیں۔ اپنے گھروں کو محبت اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اولاد کے حق ادا کریں۔ ان کو وقت دیں ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کریں۔ بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو ما ں باپ دونوں کو بچوں کو سکھانی پڑتی ہیں، بجائے اس کے کہ بچہ باہر سے سیکھ کر آئے۔ ایک دوسرے کے ماں باپ، بہن بھائی سے پیار و محبت کا تعلق رکھیں۔ ان کے حقوق ادا کریں اور یہ صرف عورتوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہےاور اس طرح جو معاشرہ قائم ہوگا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہوگا۔ اس میں لڑ بھڑکر حقوق لینے کا سوال ہی نہیں ہے۔ تو اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہوگی۔ ہر عورت ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی کوشش کر رہا ہوگا‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی 23اگست 2003 خطاب از مستورات۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18نومبر 2005ء)

شادی مرد اورعورت کے درمیان معاہدہ

23 جولائی 2011ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پرحضور انور کے خطاب سے قبل تلاوت قرآن کریم میں جن آیات کریمہ کا انتخاب حضور انور نے فرمایا تھا، وہ وہی آیات تھیں جو اعلان نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں۔ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےبعد ازاں اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا:

’’میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں۔ یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسل چلتی ہے۔ اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو، اس جوڑے میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں، کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے‘‘۔

پھرفرمایا:

’’پس ایک مومن جہاں اپنے خدا سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے وہاں مخلوق کے عہد کو بھی پورا کرنے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کل بھی کہا تھا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیرحقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار حاصل نہیں ہو سکتے۔ اُس میں بھی بال آنے لگ جاتے ہیں، کریک (Crack) آ جاتے ہیں اور جب کسی برتن میں ایک دفعہ کریک (Crack) آ جائے تو پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پس حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہےاور حقوق العبادمیں خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ معاشرے اور اگلی نسل کی بہتری کے لئے ان کی بہت اہمیت ہے اس لئے ان کو بجا لانا ایک حقیقی مومن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس لئے توجہ دلائی ہے اور یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے نکاح کے موقع پر رکھی ہیں کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، تبھی تم خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی بھی صحیح رنگ میں ادائیگی کر سکو گےاور اپنے معاشرے کی امانتوں اور عہدوں کی بھی صحیح طرح ادائیگی کر سکو گے۔ پس ہر مومن اور مومنہ کو یاد رکھنا چاہئے، ہر احمدی عورت اور مرد کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عہد کے دعوے کو تبھی پورا کرنے والے بن سکتے ہیں جب اپنے ہر رشتے کی جو بنیاد ہے اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ (جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۳ جولائی ۲۰۱۱ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍مئی ۲۰۱۲ء)

باہمی رشتوں کےحوالہ سے احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح کرتے ہوئے ایک حدیثِ نبویﷺ کا حوالہ دیتے ہوئےحضورانور ایّدہ اللہ تعالی نےفرمایا:

’’حضرت عامرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تومومنوں کو ان کے آپس کے رہن، محبت اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا۔ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کیلئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والأدب۔ باب تراحم المومنین وتعاطفھم وتعاھدھم)

خدا کرے آپ لوگ اپنے ماحول میں پیدا ہوتی ہوئی برائیوں کو ایک جسم کی طرح دیکھنےاور محسوس کرنے کے قابل ہوجائیں۔ نیز فرمایا:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو۔ میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے۔ اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے۔ یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرارکرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی کوشش کریں گے۔ تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہدو پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں۔ وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی۔ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں۔ ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے۔ جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خداتعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے۔ وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے۔ دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون2005ء بمقام انٹرنیشنل سینٹر۔ ٹورانٹوکینیڈامطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08جولائی2005ء)