عائلی مسائل اور اُن کا حل

فہرست مضامین

نکاح اور شادی کا مقصد

نسلِ انسانی بڑھانے کا ذریعہ

15 مئی 2011ء کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں اعلانِ نکاح کے موقع پردیئے گئے خطبہ میں ارشاد فرمایا:

’’نکاح اور شادی انسانی نسل کے بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ذریعہ بنایا ہے، جس میں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے، دو افراد کا ملاپ ہوتا ہے اور اسلام نے اس کو بڑا مستحسن عمل قرار دیا ہے۔ بعض صحابہ نے کہا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے۔ تجرد کی زندگی گزاریں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو میری سنت پہ عمل نہیں کرتا وہ مجھ میں سے نہیں ہو گا۔ میں تو شادی بھی کرتا ہوں، کاروبار بھی ہے، بچے بھی ہیں۔ کاروبار سے مراد ہے کہ زندگی کی مصروفیات بھی ہیں، ذمہ داریاں بھی ہیں‘‘۔

حضور انور نےمزید فرمایا:

’’نکاح جو ایک بنیادی حکم ہے یہ صرف معاشرہ اور نسل کو چلانے کے لئے نہیں بلکہ بہت ساری برائیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور ایک نیک نسل چلانے کے لئے ہے۔ پس نئے جوڑوں کواس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ شادیاں جو کسی مذہب کو ماننے والوں میں اور خاص طور پر اسلام کو ماننے والوں میں ہوتی ہیں، ایک مسلمان کے گھر میں جو شادی ہے یہ صرف دنیاوی سکون کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے، اس پر عمل کیا جائے اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہوئے نیک نسل پیدا ہونے کا آغاز کیا جائے‘‘۔

نیز حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’پس اس بات کو ہمیشہ ہمارے ہر احمدی جوڑے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اگر سامنے کوئی مقصد ہو گا تو پھر نئے بننے والے جوڑے کاہر قدم جو زندگی میں اٹھے گا، وہ اس سوچ کے ساتھ اٹھے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل کرنے والا ہوں اور کرنے والی ہوں اور جب انسان اللہ تعالیٰ کےحکم پر عمل کرنے والا ہوتو پھر اس کی سوچ کا ہر پہلو اس طرف جانے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا ہو۔ پس اس سے پھر آپس کے تعلقات مزید بہتر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال انسان رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھتا ہے اور اس طرح یہ ایک جو Bond ہے، آپس کا ایک جو معاہدہ ہے وہ دنیاوی معاہدہ نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا معاہدہ بن جاتا ہے اور پھر آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں بھی نیک صالح نسلیں ہوتی ہیں اور یہی ایک احمدی مسلمان کا شادی کا مقصد ہونا چاہئے‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8جون2012ء)

8 جولائی 2012ء کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الاسلام کینیڈا میں دو نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے فرمایا:

’’اس وقت میں چند نکاحوں کے اعلان کروں گا۔ دنیا میں آجکل انسانی نفسیات کے بارہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن جس انسانی نفسیات کو جس طرح آنحضرتﷺ نے جانا، بڑے بڑے ماہرین اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے اور اسی نفسیات کومدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے موقع پہ جن چند آیات کا انتخاب فرمایا ان میں تقویٰ پر خاص طور پر بہت زور دیا، رشتہ داروں، رحمی رشتہ داروں کے تعلقات پر بہت زور دیااور پھر اس بات پر بھی کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا؟پس یہ چیزیں اگر نئے قائم ہونے والے رشتوں میں اور ان نئے قائم ہونے والے رشتوں کے رشتہ داروں میں، جو دونوں طرف کے قریبی رشتہ دار ہیں، ماں، باپ، بہن، بھائی ان میں پیدا ہوجائیں تو کبھی وہ مسائل نہ اٹھیں جو عموماً رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بنتے ہیں جو رشتوں کے ٹوٹنے کا باعث بنتے ہیں، جو دونوں خاندانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور پھر بعض دفعہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جب مقدمات میں ملوث ہو جاتے ہیں تو پھر میرے تک معاملات پہنچتے ہیں اور پھر شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ پس ہمیشہ رشتے قائم کرتے ہوئے، یہ رشتے قائم کرنے والوں کو، لڑکا لڑکی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ صرف دنیاوی مقاصد کے لئے یہ رشتے قائم نہ ہوں۔ صرف اپنی تسکین اور خواہشات پوری کرنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں۔ صرف لڑکی کے جہیز کو دیکھنے کے لئے اور لڑکی کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں۔ نہ لڑکی والے اس بنا پر رشتہ قائم کریں کہ لڑکا بہت کمانے والا ہے، پیسے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا نے رشتہ قائم کرنے کے لئے مختلف معیار رکھے ہوئے ہیں تو تم جس معیار کو دیکھو، وہ یہ ہے کہ دینی حالت کیا ہے۔ پس جب دینی حالت دیکھی جائے گی تو لڑکا بھی اور لڑکی بھی اپنے دینی معیار بلند کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر لڑکے کو یہ کہا دینی معیار دیکھو لڑکی کا، حسن دیکھنے کی بجائے، دولت دیکھنے کی بجائے تو جہاں لڑکیوں میں یہ شوق اور روح پیدا ہوگی کہ ہم اپنے دینی معیار کو بلند کریں، علاوہ دوسری دنیوی نعمتوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، تو خود لڑکے کو بھی پھر اپنا دینی معیار بلند کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔ کیونکہ دینی معیار صرف یکطرفہ نہیں ہوسکتا۔ یہ نہیں کہ لڑکا تو خود بیہودگیوں میں ملوث ہو اور مختلف قسم کی آوارہ گردیوں میں ملوث ہو، دنیاداری میں ملوث ہو اور یہ خواہش رکھے کہ اس کی بیوی جو آنے والی ہے اس کا دینی معیار بلند ہو۔ تو ظاہر ہے کہ جب یہ خواہش ہوگی کہ دینی معیار بلند ہو میری دلہن کا تو خود بھی وہ اس طرف توجہ دے گا۔ اسی لئے نکاح کے خطبہ کے موقعہ پر تقویٰ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ پس یہ قائم ہونے والے رشتے اگر ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ تقویٰ پہ قائم رہنا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا ہے، ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا ہے۔ لڑکی نے لڑکے والوں کا خیال رکھنا ہے اپنے سسرال کا اور لڑکے نے اپنے سسرال کا خیال رکھنا ہے تو کبھی وہ مسائل پیدا نہ ہوں جو رشتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ اہم ہے کہ ہمیشہ اعتماد قائم ہونا چاہئےاور اعتماد اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب سچائی پر بنیاد ہو۔ قول سدید کا مطلب یہ ہے کہ ایسی سچائی جس میں بالکل کسی قسم کا ایچ پیچ نہ ہو، سیدھی اور کھری اور صاف بات ہو۔ یہ نہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ شادی کے بعد، لڑکی کو یا لڑکے کو کہ انٹرنیٹ(Internet) پہ ای میلوں (Emails)کے ذریعہ بعض ایسے رابطے ہیں جن کی وجہ سے پھر بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ پس پہلے دن سے جب رشتے قائم ہوں، سچائی پر بنیاد رکھ کر، اپنا سب کچھ واضح طور پر بتا دینا چاہئے اور پھر رشتے قائم کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں کسی قسم کی بے اعتمادی پیدا نہ ہو۔

پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس دنیا کو سب کچھ نہ سمجھو بلکہ یہ دیکھو کہ اس دنیا میں چند سال کی زندگی گزارنے کے بعد، نوجوانی کی عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے میں ویسے بھی دنیا کی طرف خواہش کم ہوجاتی ہے، یہ نوجوانی کے بھی چند سال ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ دنیا کی خواہشات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بڑھاپے اور نوجوانی کی عمر گزارنے کے بعد بھی 70سال 80سال جو زندہ رہے گا، تو جو اخروی زندگی ہے جو آخری زندگی ہے اور ہمیشہ کی زندگی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا خیال رکھو۔ پس اگر یہ چیزیں ہمارے اندر پیدا ہو جائیں، ہمارے رشتوں میں پیدا ہو جائیں تو کبھی بے اعتمادی نہ ہو، کبھی رشتے نہ ٹوٹیں، کبھی لڑائیاں نہ ہوں، ایک دوسرے کے جذبات کا، احساسات کا خیال رکھنے والے ہوں۔ پس یہ قائم ہونے والے رشتے ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھیں اور جماعت میں خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہئے۔

ایک وقت تھا کہ جب ہم کہا کرتے تھے کہ اس یورپین معاشرہ میں، مغربی معاشرہ میں رشتے بہت ٹوٹتے ہیں اور اس کی وجہ یہی بے اعتمادی ہوتی ہے، لڑکا اور لڑکی میں، میاں اور بیوی میں ایک عمر کے بعد، چند سال گزارنے کے بعد بے اعتمادیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور رشتے ٹوٹتے ہیں ‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21 ستمبر2012ء)

قولِ سدید: پائیدار رشتوں کی بنیاد

عبادالرحمٰن کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے، عائلی مسائل کےضمن میں ایک موقع پر حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

’’پھر دسویں خصوصیت یہ ہے کہ عبادالرحمٰن نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ یہ جھوٹ بھی قوموں کے تنزل اور تباہی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے بندے اور الٰہی جماعتیں جو ہیں انہوں نے تو اونچائی کی طرف جانا ہے اور ان سے تو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ان کے لئے ترقی کی منازل ہیں جو انہوں نے طے کرنی ہیں اور اوپر سے اوپر چلتے چلے جانا ہے۔ اُن میں اگر جھوٹ آ جائے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے نہیں رہتے جن پر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے یا جن سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمانے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ پس احمدیوں کو اپنی گواہیوں میں بھی اور اپنے معاملات میں بھی جب پیش کرتے ہیں تو سو فیصد سچ سے کام لینا چاہئے۔ مثلاً عائلی معاملات ہیں۔ نکاح کے وقت اس گواہی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم قول سدید سے کام لیں گے۔ سچ سے کام لیں گے۔ ایسا سچ بولیں گے جس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ جس سے کوئی اور مطلب بھی اخذ نہ کیا جا سکتا ہو۔ صاف ستھری بات ہو۔ لیکن شادی کے بعد لڑکی لڑکے سے غلط بیانی کرتی ہے اور لڑکا لڑکی سے غلط بیانی کرتا ہے۔ دونوں کے سسرال والے ایک دوسرے سے غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ان رشتوں میں پھر دراڑیں پڑتی چلی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ختم ہو جاتے ہیں۔ صرف ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اگر بچے ہو گئے ہیں تو وہ بھی برباد ہو جاتے ہیں۔ پہلے بھی کئی مرتبہ میں اس بارہ میں کہہ چکا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے بھی اور بندوں کے حق ادا کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ایک مومن کو، ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو عبادالرحمن میں شمار کرتے ہیں ہر قسم کے جھوٹ سے نفرت ہو‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ25ستمبر2009ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16اکتوبر 2009ء)

اِسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا:

’’پس جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو پیش نظر رکھیں، تقویٰ سے کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی۔ آپ جو ناجائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے ناجائز فیصلہ کروا لیتے ہو تو اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو۔ تو تقویٰ سے دورہوں گے تو پھر یقیناً شرک کی جھولی میں جا گریں گے۔ پس استغفار کرتے ہوئے اللہ سے اس کی مغفرت اور رحم مانگیں، ہمیشہ خدا کا خوف پیش نظر رکھیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰ نومبر ۲۰۰۶ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر ۲۰۰۶ء)

قولِ سدید اور تقویٰ کی کمی کے نتیجہ میں سسرال کی زیادتیاں

عائلی مسائل کے حوالے سےقولِ سدید کی اہمیت کے ضمن میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےبچیوں پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کے حوالے سے فرمایا:

’’ایک اور مسئلہ جو آج کل عائلی مسئلہ رہتاہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی اس بارہ میں توجہ دلائی جاتی ہے بچیوں کی طرف سے کہ سسرال یا خاوند کی طرف سے ظلم یا زیادتی برداشت کر رہی ہیں۔ بعض دفعہ لڑکی کو لڑکے کے حالات نہیں بتائے جاتے یا ایسے غیر واضح اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا جاتاہے کہ لڑکی یا لڑکی کے والدین اس کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن جب آپ بیچ میں جائیں تو ایسی بھیانک صورتحال ہوتی ہے کہ خوف آتاہے۔ ایسی صورت میں بعض دفعہ دیکھا گیاہے کہ لڑکا تو شرافت سے ہمدردی سے بچی کو، بیوی کو گھر میں بسانا چاہتاہے لیکن ساس یا نندیں اس قسم کی سختیاں کرتی ہیں اور اپنے بیٹے یا بھائی سے ایسی زیادتیاں کرواتی ہیں کہ لڑکی بیچاری کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ علیحدگی اختیار کر لے یا پھر تمام عمر اس ظلم کی چکی میں پستی رہے اور یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ بعض صورتوں میں جب اس قسم کی زیادتیاں ہوتی ہیں، جب لڑکی کے بحیثیت بہو اختیارات اس کے پاس آتے ہیں تو پھر وہ ساس پر بھی زیادتیاں کرجاتی ہے اور اس پر ظلم شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایسے خاندانوں میں جو تقویٰ سے کام نہیں لیتے جاری رہتاہے۔ حالانکہ نکاح کے وقت جب ایجاب وقبول ہوتاہے، تقویٰ اور قول سدید کے ذکر والی آیات پڑھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ہمیں یہ بتایا جاتاہے کہ ایسا جنت نظیر معاشرہ قائم کرو اور ایسا ماحول پیدا کرو کہ غیر بھی تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں۔ لیکن گو چند مثالیں ہی ہوں گی جماعت میں لیکن بہرحال دکھ دہ اور تکلیف دہ مثالیں ہیں۔ اب یہ جو آیت جس کی تشریح ہو رہی ہے یہ بھی نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں سے ایک آیت ہے۔

جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہر بات سے پہلے، ہر کام سے پہلے سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور جو کام تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ خیال ہوتاہے زیادتی کرنے والوں کاکہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ہم گھر میں بیٹھے کسی کی لڑکی پر جو مرضی ظلم کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ تو پھر اگر یہ خیال دل میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اگر دیکھ رہاہے اور اللہ کو اس کی خبر ہے تو حضور(حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ) فرماتے ہیں کہ ان برائیوں سے بچا جا سکتاہے۔ اللہ کرے کہ ہرا حمدی گھرانہ خاوند ہو یا بیوی، ساس ہو یا بہو، نند ہو یا بھابھی تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والی اور ایک حسین معاشرہ قائم کرنے والی ہوں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ ۳۰ مئی ۲۰۰۳ء، بمقام مسجد فضل لندن، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸ جولائی ۲۰۰۳ء)

اسی موضوع پر حضور انورایّدہ اللہ اپنے ایک اور خطبہ میں فرماتے ہیں :

’’بعض دفعہ گھروں میں چھوٹی موٹی چپقلشیں ہوتی ہیں ان میں عورتیں بحیثیت ساس کیونکہ ان کی طبیعت ایسی ہوتی ہے وہ کہہ دیتی ہیں کہ بہو کو گھر سے نکالو لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب سسر بھی، مرد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہوئی ہے اپنی بیویوں کی باتوں میں آ کر یا خود ہی بہوؤں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ کہ بلاوجہ بہوؤں پہ ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ پھر بیٹوں کو بھی کہتے ہیں کہ مارو اور اگر مر گئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بیوی لے آئیں گے۔ اللہ عقل دے ایسے مردوں کو۔ ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں کہ ایسے مرد بزدل اور نامرد ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ2 جولائی2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16 جولائی 2004ء)

24 جون 2005ء کوٹورانٹو (کینیڈا) میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باہمی رشتوں کے حوالہ سے احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح کرتے ہوئے فرمایا:

’’مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے۔ ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا۔ یالڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ(Understanding) نہ ہو اور ان کا آپس میں اعتما دپیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ پھر بعض مائیں ہیں جو لڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو‘‘۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل08 جولائی 2005ء)