عائلی مسائل اور اُن کا حل

فہرست مضامین

حق مہرکی اہمیت

وعدوں کی پاسداری اور حق مہر کی ادائیگی

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےوعدہ پورا کرنے کے حوالہ سے اسلامی تعلیم کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئےایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’عام روزمرہ کے کاموں میں بھی وعدہ خلافیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ہوتے ہوتے بعض دفعہ سخت لڑائی پر یہ چیزیں منتج ہو جاتی ہیں۔ جھگڑوں کے بعد اگر صلح کی کوئی صورت پیدا ہو تو معاہدے ہوتے ہیں اور جب صلح کرانے والے ادارے دو فریقین کی صلح کرواتے ہیں تو وہاں صلح ہو جاتی ہے، وعدہ کرتے ہیں کہ سب ٹھیک رہے گا، بعض دفعہ لکھت پڑھت بھی ہو جاتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صلح کرکے دفتر یا عدالت سے باہر نکلے تو پھر سر پھٹول شروع ہو گئی، کوئی وعدوں اور عہدوں کا پاس نہیں ہوتا۔ پھر نکاح کا عہد ہے فریقین کا معاملہ ہے اس کو پورا نہیں کر رہے ہوتے۔

یہ معاہدہ تو ایک پبلک جگہ میں اللہ کو گواہ بنا کر تقویٰ کی شرائط پر قائم رہنے کی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن بعض ایسی فطرت کے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے ان پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، گھر کے خرچ میں باوجود کشائش ہونے کےتنگی دے رہے ہوتے ہیں، بیویوں کے حق مہر ادا نہیں کر رہے ہوتے، حالانکہ نکاح کے وقت بڑے فخر سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہاں ہمیں اس حق مہر پر نکاح بالکل منظور ہے۔

اب پتہ نہیں ایسے لوگ دنیا دکھاوے کی خاطر حق مہر منظور کرتے ہیں کہ یا دل میں یہ نیت پہلے ہی ہوتی ہے کہ جو بھی حق مہر رکھوایا جا رہا ہے لکھوا لو کو نسا دینا ہے، تو ایسے لوگوں کو یہ حدیث سامنے رکھنی چاہئے کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو اس نیت سے حق مہر رکھواتے ہیں ایسے لوگ زانی ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے اگر ایک فیصد سے کم بھی ہم میں سے ایسے لوگ ہوں، ہزار میں سے بھی ایک ہو تو تب بھی ہمیں فکرکرنی چاہئے۔ کیونکہ پرانے احمدیوں کی تربیت کے معیار اعلیٰ ہوں گے تو نئے آنے والوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہو سکے گی۔ اس لئے بہت گہرائی میں جا کر ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍فروری ۲۰۰۴ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ الفضل انٹرنیشنل مطبوعہ ۱۲؍مارچ ۲۰۰۴ء)

ایک اور جگہ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حق مہر کی ادائیگی کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جس کسی نے قرض اس نیت سے لیا کہ ادا نہ کرے گا تو میں اسے چور شمار کرتا ہوں۔ (مجمع الزوائدجلد4صفحہ131)

اب دیکھیں حق مہر ادا کرنا مرد کے لئے کتناضرور ی ہے۔ اگر نیت میں فتور  ہے تو یہ خیانت ہے، چوری ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ6؍فروری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن) (مطبوعہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 111۔ ایڈیشن 2005ءمطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)

حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزحق مہر کی ادائیگی کے ضمن میں مزید فرماتے ہیں :

’’ بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آ کریا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگادیتے ہیں۔ اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کروں گا تو خود ہی خلع لے لے گی اور میں حق مہر کی ادائیگی سے(اگر نہیں دیا ہوا) تو بچ جاؤں گا تو یہ بھی انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ اول تو قضاکو حق حاصل ہے کہ ایسی صورت میں فیصلہ کرے کہ چاہے خلع ہے حق مہر بھی ادا کرو۔ دوسرے یہاں کے قانون کے تحت، قانونی طور پر بھی پابند ہیں کہ بعض خرچ بھی ادا کرنے ہیں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

عورت کے حقوق بحوالہ حق مہر

حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ جرمنی 2011ء میں احمدی خواتین سےارشاد فرمایا:

’’بعض لڑکوں سے بڑی بڑی رقمیں حق مہر رکھوا لیا جاتا ہے کہ کونسا ہم نے لینا ہے۔ یا یہ کہہ دیتی ہیں ہم نے حق مہر معاف کر دیا۔ اگرلینا نہیں تو یہ بھی جھوٹ ہے۔ حق مہر مقرر ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ عورت لے اور یہ عورت کا حق ہے، اُس کو لینا چاہئے۔

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی نے کہا کہ حق مہر میری بیوی نے واپس کر دیا ہے۔ معاف کر دیا ہے۔ آپ نے کہا کہ جا کے پہلے بیوی کے ہاتھ پر حق مہر رکھو، پھر اگر وہ واپس کرتی ہے تب حق مہر معاف ہوتا ہے۔ نہیں تو نہیں۔ بے چارے کی دو بیویاں تھیں۔ خیر انہوں نے قرض لے کر جا کرجب دونوں کے ہاتھ میں برابر کا حق مہر رکھ دیا اور کہا کہ واپس کر دو، تم معاف کر چکی ہو۔ انہوں نے کہا ہم تو اس لئے معاف کر چکی تھیں کہ ہمارا خیال تھا کہ تمہیں دینے کی طاقت نہیں ہے اور تم نہیں دو گے۔ تو کیونکہ اب تو تم نے دے دیا ہے تو دوڑ جاؤ۔ وہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے تو آپ بڑے ہنسے اور آپ نے کہا ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 24جولائی 1925ء۔ خطبات محمود جلد 9صفحہ 217 مطبوعہ ربوہ)

حق مہر کی اہمیت کے حوالہ سے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’تو حق مہر لینے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور یہ عورت کا حق ہے کہ لے۔ جنہوں نے معاف کرنا ہے وہ پہلے یہ کہیں کہ ہمارے ہاتھ پر رکھ دو۔ پھر اگر اتنا کھلا دل ہے، حوصلہ ہے تو پھر واپس کر دیں۔

بہر حال جب حق مہر زیادہ رکھوائے جاتے ہیں تو جب خلع طلاق کے فیصلے ہوتے ہیں تو قضا کو یہ اختیارہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت نہیں ہے اور ناجائز طور پر حق مہر رکھوایا گیا تھا تو اُس حق مہر کو خود مقرر کر دے اور یہ ہوتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو عدالت میں اپنے مفادات لے لیتے ہیں اور لے لیتی ہیں، لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی، اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں ہمارا شرعی حق یہ بنتا تھا۔ پھر جماعت میں بھی آ جاتے ہیں۔ اگر شرعی حق بنتا تھا تو پھر شرعی حق لو یا قانونی حق لو۔ بعض دفعہ قانونی حق شرعی حق سے زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے بہر حال حق ایک طرف کا ہی لینا چاہئے۔ ظلم جو ہے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایک فریق پر زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ نہ لڑکے پر، نہ لڑکی پر۔ پھر اس کے لئے جھوٹ کا سہارالیا جاتاہے۔ پس یہ ایسے کراہت والے کام ہیں کہ ان کو دیکھ کر ایک شریف شخص کراہت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ 25جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل 2012ء)

طلاق کی صورت میں پیدا ہونے والے جھگڑوں کے ضمن میں حق مہر کی ادائیگی کے بارہ میں حضور ایّدہ اللہ فرماتے ہیں :

’’بعض عائلی جھگڑے ایسے آتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ نہ میں تمہیں چھوڑوں گا یا طلاق دوں گا اور نہ ہی تمہیں بساؤں گا۔ اگر قضاء میں یا عدالت میں مقدمات ہیں تو بلاوجہ مقدمہ کو لمبا لٹکایا جاتا ہے۔ ایسے حیلے اور بہانے تلاش کئے جاتے ہیں کہ معاملہ لٹکتا چلا جائے۔ بعض کو اس لئے طلاق نہیں دی جاتی، پہلے میں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں، کہ یہ خود خلع لے تاکہ حق مہر سے بچت ہو جائے، حق مہر ادا نہ کرنا پڑے۔ تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو تقویٰ سے دُور لے جانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اصلاح کرو، اگر تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم اور بخشش کے طلبگار ہو تو خود بھی رحم کا مظاہرہ کرو اور بیوی کو اس کا حق دے کرگھر میں بساؤ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے وسیع رحم سے حصہ لینا چاہتے ہو تو اپنے رحم کو بھی وسیع کرو‘‘۔

آپ مزید ارشاد فرماتے ہیں :

’’میں نے ابھی طلاق کا ذکر کیا تھا کہ بعض مرد طلاق کے معاملات کو لٹکاتے ہیں اور لمبا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک تو جب شادی ہو جائے کچھ عرصہ مرد اور عورت اکٹھے بھی رہتے ہیں اور اولاد بھی بسا اوقات ہوجاتی ہے۔ پھرطلاق کی نوبت آتی ہے۔ اس کے حقوق تو واضح ہیں جو دینے ہیں اور مرد کے اوپر فرض ہیں، بچوں کے خرچ بھی ہیں۔ حق مہر وغیرہ بھی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں جب ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہوتی یا حق مہر مقرر نہیں ہوا ہوتا تب بھی عورت کے حقوق ادا کرو۔ سورۃ بقرہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ:

لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ (البقرۃ:237)

تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورت کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یا ابھی تم نے ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ۔ صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال۔ یہ معروف کے مطابق کچھ متاع ہو۔ احسان کرنے والوں پر تو یہ فرض ہے۔ اس آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مرد کی طرف سے رشتہ نہ نبھانے کا سوال اٹھے، اس کی جو بھی وجوہات ہوں، مرد کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں کو ختم کرتے وقت عورت سے احسان کا سلوک کرے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کو ادائیگی کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے تو مرد کو حکم ہے کہ اس وسعت کا اظہار کرو۔ جس خد ا نے وسعت دی ہے اگر اس کا اظہار نہیں کرو گے تو وہ اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ کشائش دی ہے اگر حق ادا نہیں کرو گے، احسان نہیں کرو گے تو وہ کشائش کو تنگی میں بدلنے پر بھی قادر ہے۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لینا ہے تو عورت سے احسان کا سلوک کرتے ہوئے اپنے پر اُس وسعت کا اظہار کرو اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت اور وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس لئے فرمایا کہ اگر غریب زیادہ دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی طاقت کے مطابق جو حق بھی ادا کر سکتا ہے کرے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نیکی کرنے والے اور تقویٰ سے کام لینے والے ہو تو پھر تم پر فرض ہے کہ یہ احسان کرو۔

آنحضرتﷺ نے اس کی کس حد تک پابندی فرمائی اس کا اظہار ایک حدیث سے ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ایک انصاری نے شادی کی اور پھر اس عورت کو چھونے سے پہلے سے طلاق دے دی اور اس کا مہر بھی مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ جب آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے احسان کے طور پر اُسے کچھ دیا ہے؟ تو اس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ میں اسے کچھ دے سکوں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کچھ نہیں ہے تو تمہارے سر پر جو ٹوپی پڑی ہوئی ہے وہی دے دو۔ (روح المعانی جلد نمبر 1صفحہ 745,746 تفسیر سورۃ البقرۃ زیر آیت:237)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے حقوق کا کس قدر اظہار فرمایا اور خیال رکھا۔ یہ تو صورتحال بیان ہوئی ہے کہ اگر حق مہر مقرر نہیں بھی ہوا تو کچھ نہ کچھ دواور اگر حق مہر پہلے مقرر ہو چکا ہے تو اس صورت میں کیا کرنا ہے؟ اس کا بھی اگلی آیات میں بڑا واضح حکم ہے کہ پھر جب حق مہر مقرر ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں اس کا نصف ادا کرو‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۱۵؍مئی ۲۰۰۹ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۵؍جون۲۰۰۹ء)