جلسہ سالانہ کے دوران نازل ہونے والی برکات اور روحانی فوائد

خطبہ جمعہ 5؍ ستمبر 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمد للہ! گزشتہ ہفتے جلسہ سالانہ یوکے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے اپنی برکات سے ہمیں مستفیض کرتے ہوئے منعقد ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہونے والوں نے اور دنیا میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے تمامتر برکات دیکھیں اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ ہر ملنے والا اور بے شمار لکھنے والے یہی کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دفعہ نظام میں ہر معاملے میں بہت بہتری تھی۔ مقررین کی تقریریں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اعلیٰ رنگ میں تیار ہوئی ہوئیں تھیں۔ علمی اور روحانی تھیں۔ جلسے کے بعد کے خطبے میں مَیں جلسے کے دوران نازل ہونے والی برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی تائیدات کا ذکر کرتا ہوں۔ لوگوں کے تاثرات بھی بیان کرتا ہوں جو مہمان آئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بعض انتظامی باتیں جن میں کمیاں رہ گئی ہوں ان کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ تو بہرحال آج اسی حوالے سے کچھ کہوں گا۔

جلسے کا ماحول اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ماحول ہوتا ہے کہ ہر سعید فطرت پر یہ نیک اثر ڈالتا ہے۔ بعض غیر از جماعت اور غیر مسلم لوگ صرف اس لئے جلسے میں شامل ہوتے ہیں کہ دیکھیں ان سے تعلق رکھنے والے احمدی ان غیر از جماعت دوستوں کو جلسے کی برکات کے بارے میں جو بتاتے ہیں وہ کس حد تک صحیح ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے۔ اور جب یہ غیر دوست یہاں آ کر جلسے میں شامل ہوتے ہیں تو پھر اکثر یہی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں جلسے کے بارے میں بتایا گیا اس سے بہت زیادہ ہم نے مشاہدہ کیا۔ اور بعض پر اس کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ بیعت کر لیتے ہیں۔ اس دفعہ بھی دو مہمانوں نے جو رشیا سے تھے جلسے کا ماحول دیکھ کر بیعت کی۔ اسی طرح گوئٹے مالا اور چلّی اور کوسٹا ریکا کے امریکن ممالک کے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے جلسے پر عالمی بیعت کے دوران تو بیعت نہیں کی لیکن انتہائی متأثر تھے۔ تمام جلسہ سنا پھر مجھ سے ملاقات کی اور کہنے لگے ہمیں افسوس ہے کہ ہم بیعت نہیں کر سکے۔ ہمارے دل بالکل اس طرف مائل ہیں۔ ہم نے حقیقت کو، سچائی کو پہچان لیا ہے، سمجھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھا ہے کہ کس طرح جماعت پر نازل ہوتے ہیں اور ہم بھی اب بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری بیعت لے لیں۔ چنانچہ کل ایسے چھ افراد، چار مرد اور دو خواتین نے ظہر کی نماز کے بعد بیعت کی۔

بعض لوگ جو شامل ہوتے ہیں ان کے تأثرات تو میں بیان کروں گا لیکن ان بیعت کرنے والوں کے تأثرات مَیں پہلے بیان کرتا ہوں جنہوں نے وہاں بیعت نہیں کی تھی لیکن کل کی۔ ان میں سے ایک دوست سمیع قادر صاحب ہیں جو گوئٹے مالا میں رہتے ہیں۔ اردن سے ان کا تعلق ہے۔ کاروبار کے سلسلے میں وہاں ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اس جلسے میں باہمی اخوت و محبت کی وہ عملی صورت دیکھی جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جلسہ سالانہ کے بہترین انتظامات، نظم و ضبط، احباب کا اخلاص و وفا اور باہمی ہمدردی اور اخوت کے جذبے نے بہت متأثر کیا۔ اور اس حدیث مبارکہ کی عملی تصویر دیکھی کہ مومنین کی باہم محبت و اخوت کی مثال اس جسم کی طرح ہے کہ جس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کارکنان جلسہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

اسی طرح کوسٹا ریکا سے آنے والے وفد میں حیدر سَبِیْلِیَا صاحب شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے جماعت احمدیہ کے اعلیٰ انتظام نے بہت متأثر کیا۔ جماعت احمدیہ کے ہر ممبر کا اپنے ذمہ لگائی گئی ڈیوٹی کو اخلاص کے ساتھ ادا کرنے نے از حد متاثر کیا۔ مَیں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے مل کر، ان سے گفتگو کر کے اور ان کے ساتھ باہمی تبادلہ خیالات کر کے بہت خوش ہوا ہوں۔ جلسے میں شمولیت سے حقیقی اسلام کی طرف میری توجہ مزید بڑھی ہے اور اس حوالے سے اخلاص اور ایمان نے ترقی کی ہے۔ اور خلیفہ وقت کے خطابات، نصائح اور رہنمائی بغیر شیعہ اور سنّی کی تمیز کے تمام مسلمانوں کے لئے ہیں۔ پھر کوسٹا ریکا سے ہی ایک خاتون ڈیانا نعیمہ (Diana Naima) صاحبہ کہتی ہیں۔ جلسے میں شمولیت ایک انوکھا تجربہ تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مختلف اقوام و نسل کے لوگوں کے باہمی پیار و محبت نے میرے دل پر گہرا اثر کیا ہے۔ اس فضا نے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد کروا دیا۔ مجھے یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ترقی کرے گی اور اس کے ذریعے اسلام کا محبت بھرا پیغام بھی پھیلتا چلا جائے گا۔ انہوں نے بھی کل بیعت کی ہے۔

اسی طرح کل بیعت کرنے والوں میں گوئٹے مالا، چلّی، کوسٹا ریکا سے آنے والے جیسا کہ میں نے کہا چار مرد اور خواتین تھیں۔ ان سب نے (جلسہ کا) سارا نظارہ دیکھ کر، عالمی بیعت کا نظارہ دیکھ کر جب ان کو مکمل شرح صدر ہوا تو پھر انہوں نے بیعت کی۔

پس جماعت احمدیہ جو اسلام کا خوبصورت پیغام دیتی ہے اور بغیر دوسروں پر گند اچھالے، بغیر کسی پر تنقید کئے ایک وحدت پر جمع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور پھر اس کا پیار اور محبت کا جو نظارہ ہر آنے والے کو نظر آتا ہے۔ آپس میں سلوک کا، دوسروں سے سلوک کا جو نظارہ ہر آنے والا دیکھتا ہے۔ وہ ہر ایک کو مجبور کرتا ہے کہ حقیقی اسلام کے اس نمونے کو دیکھ کر اس کا حصہ بنیں۔ یا کم از کم یہ ضرور ہوتا ہے کہ اسلام پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا اثر یہاں آ کر ہمیں دیکھنے والوں پر سے زائل ہو جاتا ہے۔ یہ نظارے ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاتا رہا، اب بھی دکھا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ ہی اسلامی تعلیم کبھی پرانی ہوئی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات کا ہاتھ کبھی جماعت احمدیہ پر سے اٹھایا ہے۔

ایک دفعہ ایک خاندان نے پاکستان میں مجھے بتایا کہ ان کی ایک بزرگ خاتون تھیں جو جماعت کی مخالف تھیں لیکن خاندانی نظام وہاں کا ایسا ہوتا ہے کہ اکٹھے رہتے تھے۔ کبھی وہ جلسے پر نہیں آیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ مجبوری ہوئی، ان کو ساتھ ربوہ جانا پڑ گیا اور پھر بہانے سے ان کے رشتے دار اُن کو جلسے پر بھی لے گئے۔ سارا نظام بھی دکھایا۔ وہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ربوہ والے جادو کر دیتے ہیں اس لئے وہاں نہیں جانا۔ بہرحال جلسے کا ماحول دیکھ کر، تقریریں سن کر، لنگر خانوں کا نظام دیکھ کر انہوں نے بیعت کر لی۔ یہ خلافت ثانیہ کا واقعہ ہے جو ایک خاندان نے مجھے بتایا تھا۔ پھر ہر خلافت کے دَور میں ہم نے یہی کچھ دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی کوئی جلسے پر آیا نیک اثر لے کر گیا یا نیک اثر نے اس کو گھائل کیا اور بیعت کر کے اس سلسلے میں شامل ہو گیا۔ پس یہ نشان ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی صداقت کی یہ دلیل ہے۔ یہ خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا نشان ہے۔ جو باتیں ہم دیکھتے ہیں یہ انسانی کوششوں سے تو پیدا نہیں ہو سکتیں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ جلسے کا ماحول ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے اور اس میں شامل ہونے والا ہر احمدی اور ہر کارکن ایک خاموش مبلغ ہوتا ہے۔ تمام غیر مہمان یہ نظام دیکھ کر کہ خاموشی سے سب کام ایک دھارے میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی panic نہیں۔ کوئی افراتفری نہیں ہے۔ کہیں کوئی سختی یا سخت کلامی نظر نہیں آتی بلکہ مسکراتے چہرے نظر آتے ہیں۔ چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے مرد عورتیں خدمت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں۔ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ چیزیں دیکھ کر غیروں پر جماعت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ اور جو احمدی پہلی بار جلسے میں شامل ہوئے ہوتے ہیں ان کے ایمان میں بھی یہ ماحول بے انتہا ترقی کا باعث بنتا ہے بلکہ ہمیشہ شامل ہونے والے بھی نئے سرے سے چارج ہوتے ہیں اور اپنے ایمان و ایقان میں ترقی اور اضافہ کر کے یہاں سے جاتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو نیک نیتی سے اور بعض عادتاً بھی یہ بات کرتے ہیں کہ انہوں نے نقائص تلاش کرنے ہوتے ہیں اور ایسے ناقدین کا بھی اس دفعہ عموماًیہ اظہار رہا ہے کہ کارکنان کی خوش مزاجی کا معیار پہلے سے بہتر تھا۔

جلسہ کے مہمانوں کے بھی تأثرات پیش کرتا ہوں۔ اس دفعہ کانگو کنشاسا سے سپیکر صوبائی اسمبلی باندوندو بونیفا این تَوَابَوشِیْوا (Boniface Ntwa Boshie Wa) صاحب پہلی بار جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ موصوف نے تینوں دن جلسہ کی مکمل کارروائی دیکھی۔ جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سنی۔ نمازوں کے دوران بھی جلسہ گاہ میں رہتے۔ عالمی بیعت بھی انہوں نے دیکھی۔ یہ کہتے ہیں یہاں ہر کوئی ایسے مل رہا ہے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتا ہو۔ ہر کوئی سلام کر رہا ہے۔ یہی حقیقی محبت ہے۔ یہی حقیقی مذہب اور دین ہے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم نے صوبائی سطح پر ایک پروگرام منعقد کرنا تھا جس میں پہلے دن ہی بدانتظامی کی وجہ سے 26 افراد کی موت ہو گئی۔ چنانچہ پروگرام کینسل کرنا پڑا۔ لیکن مَیں حیران ہوں کہ جلسے میں ہزاروں افراد کے مجمع میں کوئی چھوٹی سی بدنظمی نہیں ہوئی۔ کئی دھکم پیل اور فسادنہیں ہوا۔ کسی کی موت ہونا تو دُور کی بات ہے کسی نے اونچی آواز سے بات تک نہیں کی۔ چھوٹے بچوں کو ڈیوٹی دیتا دیکھ کر بڑے جذباتی تھے۔ کہتے ہیں یہ ننھے بچے پانی یا کوئی اور کھانے کی چیز اس پیار اور محبت سے پیش کرتے ہیں کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود ان بچوں کو انکار کرنے کا دل نہیں کرتا۔ چھوٹی عمر کے بچوں کی عام طور پر یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ چیز خود لینا چاہتے ہیں لیکن جماعت نے ان بچوں کی ایسی تربیت کر دی ہے کہ اس عمر سے ان کو دوسروں کے لئے جذبات قربان کرنے کی عادت پڑ گئی ہے اور انتہائی چھوٹی عمر سے دوسروں کے آرام اور سکون کو اپنے آرام پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ یقینا یہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بنیں گے بلکہ دوسروں کی خدمت کرنے والے ہوں گے۔ اور جلسے کے بعد جب وہ اپنی ایمبیسی میں گئے ہیں تو وہاں انہوں نے اپنے ایمبیسیڈر کے سامنے اس طرح اظہار کیا کہ میں نے کئی ملکی اور غیر ملکی بڑی بڑی کانفرنسز میں شرکت کی ہے لیکن جو حسن انتظام یہاں جلسے میں نظر آیا وہ کہیں اور نہیں دیکھا۔

پھر بینن کے وزیر داخلہ فرانسس ہوسو (Francis Houessou) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن سے میں جلسے کے انتظامات کی تعریف کر سکوں۔ بہت عمدہ اور منظم جلسہ تھا۔ میں نے جماعت کے لوگوں میں رضا کارانہ طور پر دوسروں کی خدمت کرنے کا غیر معمولی جذبہ دیکھاہے۔ یہ جذبہ ہر احمدی کی روح کی غذا بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جماعت احمدیہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے بچوں بڑوں کو حتی کہ بوڑھوں کو دیکھا کہ انہیں اپنے کھانے پینے کی فکر نہیں تھی۔ اگر فکر تھی تو بس ایک چیز کی کہ ہمارا جلسہ کامیاب ہو۔ اپنے مقاصد کے حصول میں اتنی محنت کرنے والے لوگ مَیں نے کبھی نہیں دیکھے۔ کہتے ہیں مَیں نے دنیا دیکھی ہے۔ امریکہ جیسے سپر پاور کے انتظامات بھی دیکھے ہیں مگر بڑی بڑی طاقتوں کو بھی اس طرح کے منظم اور پُر امن انتظام کرتے نہیں دیکھا۔ یہاں تو بالکل چھوٹی عمر کے بچے بھی رضاکارانہ ڈیوٹیاں دیتے ہیں اور جو ہدایات انہیں ملتی ہیں بڑے شوق سے ان کی پابندی کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں جماعت کی عالمی طاقت کا راز یہی ہے کہ جماعت کو ایک خلیفہ ملا ہوا ہے۔ مَیں برملا اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو دنیا میں امن کے قیام کے لئے کام کر رہی ہے۔ آج زمین پر صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو بھائی چارے کی تعلیم دیتی ہے، صبر کی تلقین کرتی ہے اور امن کے قیام کی علمبردار ہے۔

یوگنڈا کے ڈیفنس منسٹر ڈاکٹر کرسپس چیونگا (Dr. Crispus Kiyonga) نے جلسے میں شمولیت کی۔ کہتے ہیں جلسے کی کیفیت کا نظارہ بیان سے باہر ہے۔ باقاعدہ دو دن جلسے کی کارروائی دیکھی اور نمائش بھی دیکھی۔ ان کی مجھ سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ سب کچھ دیکھنے کے بعد یہ کہنے لگے کہ اتنا ڈسپلن تو آرمی پیدا کر سکتی ہے۔ اس پر اُن کو مَیں نے کہا تھا کہ آپ کی آرمی بھی نہیں پیدا کر سکتی۔ تو کہتے ہیں بڑی صحیح بات کہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اس قسم کا ڈسپلن تو دنیا کی کوئی آرمی بھی نہیں پیدا کر سکتی۔

یونان سے آنے والوں مہمانوں میں انٹی گونی (Antigoni) اور پَانَاگی یُوتِس (Panagiotis)، بہرحال جو بھی ان کا نام ہے شامل تھے۔ اس میں پَانَاگی یُوتِس (Panagiotis) صاحب کو جماعتی لٹریچر کا گریک ترجمہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ جلسے سے واپس جا کر انہوں نے ایک ای میل بھجوائی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں اس قدر پُر امن مجمع کو جو ایک دوسرے کو پیار اور محبت دینے کے لئے اور دعائیں کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے، دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو دوسروں کی مدد اور خدمت کے لئے یکجا ہوتے دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جماعت احمدیہ دوسروں کو فقیر سمجھ کر مددنہیں کرتی بلکہ ایسے پروجیکٹ کرتی ہے جس سے غریب لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ ایسی کمیونٹی جو دوسروں کی اتنی مدد بھی کر رہی ہو لیکن اس کے باوجود عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنے والی ہو کوئی عام بات نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ جلسے کے دوران کسی کو ہم نے کسی بھی چیز کی شکایت کرتے نہیں سنا اور نہ ہی ہم نے کوئی ایسا چہرہ دیکھا جس میں مسکراہٹ نہ ہو اور نہ ہی کسی کو اونچی آواز میں بات کرتے دیکھا۔ ہر ایک رضاکار پوری جان لگا رہا تھا اور سخت محنت کے باوجود ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ یہ جامعہ میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں کے کارکنوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ مہمان جامعہ کو اپنا گھر ہی سمجھیں۔ نائیجیریا سے آنے والے وفد میں ایک ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر اسحاق صاحب تھے۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے تھے۔ ائیر پورٹ سے ریسیو کرنے سے لے کر جلسہ کے اختتام تک ہر پہلو سے تمام انتظامات بہترین تھے۔ جلسہ کی تقاریر بہت عمدہ تھیں۔ میں نے پہلی مرتبہ عالمی بیعت کا نظارہ دیکھا۔ بہت ہی جذباتی نظارہ تھا۔ اس نظارے نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ جلسہ سالانہ کے اجلاسات میں جب خلیفۃ المسیح موجود ہوتے تھے تو یہ نظارہ بہت روح پرور اور جذباتی ہوتا یہاں تک کہ میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے کہ کس طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے امام کے سامنے سر تسلیم خم کئے بیٹھے ہیں۔ ایسا نظارہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ جو پیار و محبت احباب جماعت نے اس جلسے کے دوران اور بعد میں دیا وہ مَیں واپس جا کر بتاؤں گا کہ تمام امّت مسلمہ کو اسی بہترین نمونے کو اپنانا چاہئے۔

نائیجیریا سے ایک اخبار نیشنل مرر کی اسسٹنٹ ایڈیٹر سکینہ لوّال صاحبہ آئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ یوکے پر آ کر احساس ہوا کہ جماعت کا ہر فرد ایک دوسرے سے پیار و محبت کا تعلق رکھتا ہے۔ ہر آدمی مسکرا کر ملتا اور ہر وقت ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔ مجھے بطور جرنلسٹ کام کرتے ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے۔ مَیں برملا اس بات کا اظہار کرتی ہوں اور یہ بات کہنے پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ تمام مسلمان تنظیموں میں سے جماعت احمدیہ ہی وہ واحد تنظیم ہے جو اسلامی حکموں پر عمل کرتی ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ ہے۔ جلسہ سالانہ کے انتظامات تمام پہلوؤں سے ہر لحاظ سے مکمل تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ ہر مرد و عورت بوڑھا بچہ بہت پیار اور دوستانہ طریقے سے ملتا تھا۔ کسی اسلامک پروگرام میں ایسا نہیں دیکھا۔

پس یہ جو غیروں کے اثر ہیں یہ صرف سننے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ اپنی حالتوں پہ یہ کیفیت طاری رکھنی چاہئے۔

پھر بیلجیئم کے ایک شہر کستارلی (Kasterlee) کے میئر جو فلیمش پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں، وہ آئے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جلسے میں شامل ہو کر مجھے اسلام کی اصل تعلیم کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔ نیز میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ کس طرح اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ لوگوں کے آپس میں پیار اور محبت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے جماعت کے لوگوں کو صرف لوکل سطح پر دیکھا تھا لیکن جلسہ میں شامل ہو کر عالمی سطح پر بھی جماعت کے لوگوں کو دیکھا ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ جماعت جو کہتی ہے اس پر عمل بھی کرتی ہے۔ جلسے کے اس قدر اعلیٰ انتظامات کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ مَیں یہاں سے اپنے ساتھ پیار اور محبت لے کر واپس جا رہا ہوں۔ آپ لوگوں نے مجھے حقیقی اسلام کی تعلیم بتائی ہے۔ میں ہیومینٹی فرسٹ اور انجینیئرز ایسوسی ایشن کے سٹالوں پر بھی گیا ہوں۔ وہاں جا کر مجھے پتا چلا کہ جماعت انسانیت کی کس قدر خدمت کر رہی ہے۔ میرے لئے یہ سب باتیں حیران کن تھیں۔ میرے دل میں جماعت کی قدر پہلے سے بڑھ گئی ہے۔

بیلجیئم کے شہر ٹرن ہاؤٹ کے وائس میئر اور کونسلر جلسہ میں شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ اسلام کے متعلق جو کچھ ہم نے میڈیا میں دیکھا تھا جلسے میں آکر بالکل اس کے برعکس دیکھا ہے۔ اسلام کا جو نقشہ آپ نے پیش کیا ہے وہی حقیقی اسلام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی تعلیم بہت ہی پیاری ہے۔ کہتے ہیں آپ اسلام کی حقیقی تعلیم بیان کر کے تمام بنی نوع انسان کو جو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرنا چاہتے ہیں وہ یقینا ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ مَیں نے اپنے شہر میں دیکھا تھا کہ جماعت انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں رہتی ہے لیکن جلسے میں آ کر مجھے معلوم ہوا کہ جماعت احمدیہ تو پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہے۔ میری نظر میں اس وقت دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو انسانیت کی اس حد تک خدمت کر رہا ہو اور دنیا میں پیار اور محبت اور امن کی تعلیم پھیلا رہا ہو۔ مَیں نے جلسے پر ڈیوٹیاں دینے والوں کو بھی دیکھا۔ مَیں اس بات سے بہت متاثر ہوا کہ ڈیوٹیاں دینے والے یہ لوگ مہمانوں کی خدمت کر کے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اگر ہمارے ملک میں بھی لوگ اسی طرح اسی جذبے سے کام کرتے تو ہمارا ملک ان مالی مشکلات سے دوچار نہ ہوتا جن سے آج کل ہم گزر رہے ہیں۔ پھر بیلجیم کے شہر ٹرن ہاؤٹ کے وائس میئر کی اہلیہ کہتی ہیں۔ مَیں عورتوں کے جلسے میں بھی گئی۔ وہاں مجھے جو پیار اور محبت ملا اس کی مثال میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ جب خلیفۃ المسیح عورتوں کے جلسہ گاہ میں آئے تو ایک عجیب ماحول تھا۔ اتنی کثیر تعداد میں عورتیں وہاں موجود تھیں لیکن ہر طرف خاموشی تھی۔ پھر جب خلیفۃ المسیح نے خطاب فرمایا تو ہزاروں کی تعداد میں موجود عورتوں نے مکمل خاموشی کے ساتھ خطاب سنا۔ عورتوں کے بارے میں اسلامی تعلیم کے حوالے سے جو سوالات میرے ذہن میں تھے خلیفۃ المسیح کے خطاب سے ان سوالوں کے جوابات مل گئے۔ پھر کہتی ہیں کہ مَیں شروع میں جب عورتوں کے جلسہ گاہ میں گئی تھی تو میرے دل میں ایک خوف سا تھا لیکن جب خلیفۃ المسیح کا خطاب سننا شروع کیا تو میرا سارا خوف دُور ہو گیا۔

بیلجیم سے ایک زیر تبلیغ دوست شوبا م میمد (Chauboum Ahmad) صاحب تھے کہتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے سے احمدیت کا تعارف تھا اور پہلی مرتبہ احمدیوں کے جلسے میں شرکت کی ہے۔ جلسے میں جو تین دن گزارے اور سب کچھ دیکھا مَیں برملا کہتا ہوں کہ احمدیت ہی اسلام کی صحیح تصویر ہے۔ میں نے یہاں پر لوگوں کو سجدے میں روتے دیکھا ہے۔ اس کا گہرا اثر ہے۔

مالٹا سے ایک سوشل ورکر کینتھ کریمونا (Kenneth Cremona) صاحب بھی آئے تھے جو معذور افراد کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جو بات سب سے زیادہ اچھی لگی وہ یہ تھی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور پانی پلانے کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ پھر کہنے لگے کہ مجھے یہ بات بڑی اچھی لگی کہ خلیفۃ المسیح نے جلسے سے متعلق ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ اطاعت کریں اور ہر حکم مانیں خواہ یہ حکم، یہ ہدایت کسی چھوٹے بچے کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ کہنے لگے کہ مَیں نے جلسہ سے متعلق ہدایات پر مشتمل ایک کتابچہ دیکھا جس میں لکھا تھا کہ کھانا اتنا ہی لیں جتنی ضرورت ہے۔ زائد کھانا ڈال کر ضائع نہ کریں۔ یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی بات کا یہ جماعت خیال رکھتی ہے۔ اور یہ باتیں لوگ پھر نوٹ بھی کرتے ہیں۔ مالٹا سے ایک صحافی اِوَان بارتَولو (Ivan Bartolo) صاحب آئے تھے۔ ٹی وی پر ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔ تین سال سے جماعت سے ان کا تعلق ہے۔ انہوں نے میرا انٹرویو بھی لیا۔ خواہش تھی کہ انٹرویو لیں۔ کہتے ہیں کہ میرے لئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ 125 سال میں جماعت نے اس قدر ترقی کی ہے کہ دنیا کے 206 ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے۔ یہ یقینا الٰہی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ جلسے پر ہر چیز منظم اور باقاعدہ ایک ترتیب کے مطابق تھی اور جہاں نظام اور ترتیب ہو وہاں خدا ہوتا ہے۔ یہ عیسائی ہیں اور عیسائیوں کے تأثرات ہیں۔ انہوں نے میرا انٹرویو لیا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک جا کے اپنے ٹی وی کے لئے جماعت کے بارے میں ایک گھنٹے کی ایک ڈاکومنٹری بھی بنائیں گے۔

اس کے علاوہ مالٹا سے مائیکل گریک (Michael Grech) صاحب جلسہ میں شامل ہوئے۔ یہ کالج میں فلاسفی پڑھاتے ہیں۔ اخبارات اور رسائل میں مضامین بھی لکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں جلسہ سالانہ کی کارروائی اور تقاریر پر مشتمل ایک جامع تفصیلی مضمون لکھنا چاہتا ہوں تا کہ دوسرے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں اور اس جلسے میں بیان کئے گئے دینی و دنیوی فلاح و بہبود سے متعلق بیان فرمودہ زرّیں نصائح اور اصولوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ فرنچ گیانا سے بھی احمدی اور غیر احمدی مہمان جلسے میں آئے تھے۔ ان مہمانوں میں ایک غیر احمدی مہمان مسٹر تھیری ایٹی کوٹ (Mr. Thierry Atticot) تھے جو کہ تاریخ کے پروفیسر ہیں اور عقیدے کے لحاظ سے عیسائی ہیں۔ کہتے ہیں جب مجھے جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت ملی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے یہ لوگ کیوں دعوت دے رہے ہیں۔ بعض ویڈیوز بھی مجھے دکھائی گئیں۔ سمجھایا بھی گیا لیکن پھر بھی جلسے کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن اب خود جلسے پر آکر مجھے سمجھ آگئی ہے کہ اس جلسے کی جماعت میں کیا حیثیت ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے یہ جلسہ کتنا اہم ہے۔ دنیا کو ایسے جلسوں کی ضرورت ہے جس میں ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ نعرہ ہو۔ کہتے ہیں کہ جلسے کی کارروائی کے آغاز میں جو تلاوت قرآن کریم ہوتی تھی اس سے بھی میری روح کو ایک عجیب لطف پہنچتا تھا جسے مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اب میں نے ان تلاوتوں کی آڈیو بھی لے لی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ میرے لئے سکون کا موجب ہو گی۔

پھر اس دفعہ یہاں سے بھی اور باہر کے ملکوں سے بھی مختلف پریس کے کافی جرنلسٹس بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک ہندو جرنلسٹ نے کہا کہ میری ماں نے مجھے منع کیا تھا کہ مسلمانوں کے فنکشن پر نہ جاؤ۔ یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں۔ تمہیں مار مُور دیں گے اور پتا بھی نہیں لگے گا کہ کہاں گئی ہو۔ خیر کہتی ہیں لیکن مَیں نے اپنی ماں کی بات نہیں مانی۔ مجھے یہاں جو تجربہ ہوا ہے اب مَیں اپنی ماں کو جا کر کہوں گی کہ احمدی ہم سے زیادہ پُرامن ہیں۔ اور ایسی ان کی باتیں خوبصورت ہیں اور تعلیم خوبصورت ہے کہ تمہیں بھی جا کے دیکھنی چاہئے۔ کہتی ہیں شکر ہے کہ میں اس جلسے سے محروم نہیں رہی۔

پھر Belize جس میں اس دفعہ جماعت قائم ہوئی ہے۔ وہاں کی ایک جرنلسٹ مریم عبدل صاحبہ آئی ہوئی تھیں۔ یہ بلیز کے کرَیم (Krem) ٹی وی کی معروف اینکر بھی ہیں۔ موصوفہ نے جلسے میں شمولیت کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کا تجربہ میری توقعات سے زیادہ خوشگوار رہا۔ ڈیوٹی پر موجود سارے لوگ بہت محبت اور احترام سے پیش آئے۔ پھر کہتی ہیں جماعت کے ماٹو’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ نے مجھ پر بہت اچھا اثر چھوڑا ہے۔ میں نے اس ماٹو پر بہت غور کیا اور گزشتہ چند دنوں میں مجھے ہر طرف سے صرف اور صرف محبت ہی دیکھنے کو ملی۔ اس جماعت نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں اس پر شکر گزار ہوں اور ہمیشہ اسے یاد رکھوں گی۔ اور کہتی ہیں کہ اس کے علاوہ مَیں تمام ڈیوٹیاں دینے والوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کٹر سنّی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں میرا باپ بڑا سخت مسلمان تھا جس کی وجہ سے مجھے ردّعمل ہوا اور میں نے بڑے ہو کر اسلامی احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا کیونکہ پردہ، سکارف اور بہت ساری ایسی باتیں جن کا غلط رنگ میں یا صحیح رنگ میں دوسرے مسلمانوں میں رواج ہے۔ ان میں اتنی سختی تھی کہ میں اسلام کی تعلیم سے دور ہو گئی۔ بڑی ہوئی تو سکارف حجاب سب کچھ اتار کے پھینک دیا۔ لیکن کہتی ہیں خدا تعالیٰ پر مجھے بہرحال یقین ہے۔ لیکن جلسہ سالانہ میں یہاں آ کر مجھے ایک انوکھا تجربہ ہوا ہے۔ یہاں میں نے کسی عورت کو پابند اور جکڑا ہوا نہیں دیکھا۔ ہر لڑکی، ہر عورت آزاد تھی۔ میں نے عورتوں اور بچیوں کو دیکھا۔ وہ آزادانہ طور پر پھر رہی تھیں۔ نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ بازار میں جا رہی تھیں۔ ایک دوسرے کو محبت سے مل رہی تھیں۔ اس نے میرے اندر یہ سوچ پیدا کر دی ہے کہ اگر میں احمدی مسلمان گھر میں پیدا ہوئی ہوتی تو میری روش باغیانہ نہ ہوتی۔ میں نے یہاں بہت سی دوست بنائی ہیں۔ پس احمدی خوش قسمت ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کو احمدی گھروں میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور کچھ کو احمدی ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ان باتوں سے بچا کے رکھا جو باغیانہ روش پیدا کرتی ہیں۔ بعض احمدی بچیوں میں بھی ردّ عمل ہوتا ہے، ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ غیر آ کر ہمارے سے متاثر ہوتے ہیں اس لئے کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے یہ ہر ایک کے لئے ایسی تعلیم ہے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر ایک جرنلسٹ نے کہا کہ مَیں نے کبھی اپنے چرچ میں بھی اتنی عزت نہیں دیکھی جتنی میری یہاں ہوئی ہے۔ کہتی ہیں باقاعدہ چرچ جاتی ہوں اور بڑی مذہبی عورت ہوں۔ نہ میں نے کبھی شراب پی ہے، نہ سگریٹ نوشی کی ہے۔ یہ سب برائیاں ہیں ان کو مَیں برا سمجھتی ہوں۔ لیکن کہتی ہیں کہ جو بھی ہے یہاں میں نے اپنے آپ کو بہت خاص محسوس کیا۔

قزاقستان سے ایک غیر از جماعت دوست آرتی میف صاحب کہتے ہیں کہ مَیں دل کی گہرائیوں سے خلیفۃ المسیح اور جماعت احمدیہ کی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس جلسے پر مدعو کیا اور کچھ کہنے کا موقع دیا۔ جلسہ سالانہ انگلستان میں شمولیت کی سب سے پہلی دعوت مجھے پندرہ سال پہلے دی گئی تھی اور جماعت احمدیہ کے بارے میں میری تحقیق اس وقت سے جاری ہے جب سے قزاقستان میں احمدیت کی ابتدا ہوئی ہے۔ ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے جسے مختلف مذاہب پر تحقیق کرتے نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہو اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ میرا تجربہ ہے۔

پھر کہتے ہیں مجھے سب سے زیادہ پرکشش آپ کی جماعت کا ماٹو ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ لگتا ہے۔ یہ نظریہ بیسویں صدی کے آخر میں رونما ہونے والا ایک انقلاب تھا اور مذہب اسلام کے ایک روشن اور تابندہ باب کا آغاز تھا جس کے بارے میں آج تک کبھی دوسری اسلامی تحریکات نے توجہ نہیں کی۔ کہتے ہیں اس دَور میں ہم سب دنیا میں ہونے والے پریشان کن واقعات و حالات کے گواہ ہیں۔ جہاں انتہا پسندی اپنے عروج پر اور مذہبی برداشت اور رواداری ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو اپنے انسانیت دوست کاموں سے، اس دنیا کو دوبارہ اسی نور سے روشن کرنے کی کوشش کررہی ہے جو مذہب اسلام ابتدا ہی سے اپنے اندر رکھتا ہے۔ کہتے ہیں آج جماعت احمدیہ عالم اسلام میں سب سے زیادہ ترقی کرنے و الی اور سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والی جماعت ہے۔ اور یہ بات منطقی طور پر بھی اس لئے درست ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات اس وقت کروڑوں لوگوں کے دلوں کے قریب ہیں۔ یہ تعلیمات قزاق قوم کے دلوں کے بھی قریب ہیں اور زیادہ قابل فہم ہیں۔ اور یہی بات وہاں موجود اسلام کے نام نہاد علماء کو بھی خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہے جن کی پوری کوشش ہے کہ اسلام احمدیت کو نقصان پہنچائیں۔ وہاں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ قرغیزستان، قازقستان میں احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

سیرالیون سے آنے والے وفد میں ڈاکٹر عثمان فوفا صاحب جو انٹرریلیجس کونسل سیرالیون کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ پھر ایک پروفیسر کریم صاحب یونیورسٹی میں سائنس کے شعبہ کے ہیڈ ہیں اور سیرالیون مسلم کانگرس کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ پھر ایمبو بنگورا صاحب جو ملک کے دارالحکومت فری ٹاؤن میں رولنگ پارٹی کے چیئرمین ہیں شامل تھے۔ یہ جو بنگورا صاحب ہیں انہوں نے اللہ کے فضل سے بیعت بھی کر لی ہے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ جلسہ سالانہ کی کارروائی سیرالیون کے ٹی وی نے لائیو نشر کی ہے اور صدر مملکت سیرالیون نے بھی جلسہ کی کارروائی دیکھی۔ جب ٹومی کالون صاحب نے تقریر ختم کی تو صدر مملکت نے جلسہ گاہ میں اپنے وفد کے ممبران کو فون کر کے جلسے کی مبارکباد دی۔

اس سال ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگوکے منسٹر آف لیگل افیئرز مسٹر پرکاش رمادار (Mr. Prakash Ramadhar) بھی شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ کمیونٹی کے ممبرز کا خلیفۃ المسیح کے لئے جو پیار تھا انسان اس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ جہاں تک جلسے کی بات ہے تو ہر چیز زبردست تھی۔ وہاں کام کرنے والوں کا اخلاص اور جذبہ اس حقیقت پر گواہ تھا کہ یہ جماعت کسی انسان کی بنائی ہوئی جماعت نہیں ہے بلکہ اس جماعت کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ کہتے ہیں مَیں جلسے میں شامل ہو کر اندر سے ہل گیا ہوں۔ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایمانداری، انکساری اور اخلاص کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دے۔

کروشیا سے نو افراد پر مشتمل وفد جلسے میں شامل ہوا۔ ان میں سے پانچ کیتھولک خواتین تھیں جن میں سے چار یونیورسٹی کی طالبات اور ایک خاتون میوزیم ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں۔ اس کے علاوہ چار مرد احباب تھے۔ جن میں ایک زاغرب میں مسلم عربک سینٹر کے ہیڈ تھے اور باقی تین کیتھولک تھے۔ عربک سینٹر کے ڈائریکٹر علی بیگووچ کہنے لگے کہ میں نے دنیا کے مختلف ممالک میں بے شمار ایونٹس (events)میں شمولیت کی ہے لیکن احمدیہ جماعت کے جلسے میں جس اخلاص اور محبت سے بچے خدمت بجا لا رہے تھے یہ منظر مَیں نے کبھی پہلے نہیں دیکھا۔ جامعہ کے جو کارکنان یعنی سٹوڈنٹ بچے، کارکن، والنٹیرز ہماری خدمت کر رہے تھے کہتے ہیں ان کے طریق خدمت نے سب کے دل موہ لئے۔

وفد کی ایک رکن ساندرا صاحبہ جو میوزیم ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں کہنے لگیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کارکنان کب آرام کرتے ہیں۔ جب دیکھو ڈیوٹی پر مستعد ہوتے ہیں۔ کہنے لگیں کہ ایسے فدائی رضاکار مَیں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ پھر عالمی بیعت کی تقریبات خصوصاً سجدہ شکر اور لوگوں کا گریہ و زاری سے دعائیں مانگنا ہم سب کے لئے باعث حیرت تھا۔

پھر ایک رکن مایا صاحبہ جو زاغرب یونیورسٹی میں مذاہب عالم میں سٹڈی کر رہی ہیں اور انہوں نے مجھ سے کئی سوال جواب بھی کئے۔ وہ کہتی ہیں ان جوابوں سے مَیں بڑی مطمئن ہوئی ہوں۔ میری کافی تسلی ہو گئی ہے۔ کہنے لگے دیگر مسلمان اور دنیاوی رہنما بھی خلیفۃ المسیح سے رہنمائی لیں تو بہت سارے مسائل پُر امن طریقے پر حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے سوال یہ کیا تھا کہ لوگ تہذیب یافتہ معاشرے میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پھر تشدد کی طرف مائل کیوں ہیں، جہادی کیوں بن رہے ہیں؟ اس کا مَیں نے ان کو کافی تفصیل سے جواب دیا تھا۔ بہرحال ان کی کافی تسلی ہوئی۔

کروشیا سے انگلش اور فرنچ میں ماسٹرز کی طالبہ روبرٹا نے بھی مختلف مذاہب کے اکابرین اور امن کے حصول کے متعلق سوال کیا تھا۔ پھر کہتی ہیں جواب سے میری بڑی تسلی ہو گئی۔

ہیٹی سے گیری گیتو (Gary Guiteau) جو کہ ہیٹی میں منسٹری آف کلچر کے ڈائریکٹر ہیں، جلسے میں شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک ہیٹی سے پہلی بار کوئی بھی حکومتی نمائندہ جماعت احمدیہ کے اس عظیم الشان جلسہ میں شامل ہوا ہے۔ مجھے اس جلسے میں شرکت کر کے بیحد خوشی محسوس ہوئی ہے۔ آپ کا نظام دیکھ کر مَیں یہ برملا کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ تمام دنیا کے لئے ایک مثالی جماعت ہے۔ جلسے میں تمام رضا کاروں کو ایک خاص جذبے کے ساتھ کام کرتے دیکھ کر بہت حیرانگی ہوتی ہے اور رشک آتا ہے۔ ان رضا کاروں میں سب شامل ہیں۔ چھوٹے بڑے مرد و زن سب شامل ہیں۔ بعد میں ان کو مسجد کا وزٹ بھی کرایا گیا۔ مسجد میں یہ گئے تو بڑے احترام سے اپنے رنگ میں دعائیں کرتے رہے۔ اس کے بعد پھر انہوں نے وہاں لمبا سجدہ بھی کیا۔ پھر بعض نئے شامل ہونے والوں کے تأثرات پیش کرتا ہوں۔ میکسیکو سے ایک خاتون یانا لوپیز ریخون (Yanna Lopez Rejon) کہتی ہیں کہ مجھے اس جلسے نے بہت سی چیزیں سکھائی ہیں۔ مجھ پر نہ صرف اپنی زندگی کی حقیقت آشکار ہوئی ہے بلکہ مسلمان دنیا کی موجودہ حالت کی وجوہات کا بھی علم ہوا ہے۔ مجھے قبل ازیں ایک کمیونٹی کا پتا چلا تھا کہ وہ بڑی متحد ہے اور اس کے مختلف ممالک میں سینٹر ہیں لیکن اب جلسے میں شامل ہو کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ یقینا وہ جماعت احمدیہ کی طرح متحدنہیں ہے اور نہ ہی وہ کمیونٹی جماعت احمدیہ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ پہلے مَیں سمجھتی تھی کہ جس فرقے سے میرا تعلق ہے وہی ٹھیک ہے لیکن جلسہ سالانہ کی تقاریر کے ذریعہ مجھے پتا چلا کہ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل ہوتا ہے۔ میں دعا کیا کرتی تھی کہ اے اللہ! مجھے بہترین لوگوں میں شامل کر اور سچی خلافت کے ذریعے میری رہنمائی کر اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی استعدادیں اسلام کی تبلیغ کے لئے استعمال کر سکوں۔ اور ضرورتمندوں کے کام آسکوں۔ اب میں سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی ہے۔ اب مجھے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

پھر بیلیز سے ایک نو مبائع ایون ورنون (evan Vernon) جن کا اسلامی نام حمزہ رشید ہے کہتے ہیں کہ جلسے کے ان تین دنوں میں مجھے جماعت کی وسعت کے بارے میں پتا چلا۔ اس جلسے کی تنظیم اور ترتیب اپنے اندر ایک جادوئی کیفیت رکھتی ہے۔ میں نے اس جلسے پر اسّی (80) سے زیادہ ممالک سے آنے والے مختلف طبقات کے لوگوں کو دیکھا جن میں غریب بھی تھے اور امیر بھی۔ سیاستدان بھی تھے اور حکومتی حکام بھی۔ اس جلسے کی کامیابی کے لئے لاتعداد رضا کاروں نے کام کیا اور مہمان نوازی بہت اعلیٰ تھی۔

مارشل آئی لینڈ کی صدر لجنہ میری لینتھا جوانی (Mery Lintha Johnny) یہ بھی نئی احمدی ہیں۔ کہتی ہیں الحمد للہ جلسہ سالانہ میرے لئے ایک نعمت عظمیٰ تھا۔ جب سے مَیں یہاں آئی ہوں میں نے اپنے بھائی بہنوں میں پیار اور محبت اور ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس ہی دیکھا۔ ان سے بات کر کے احساس ہوتا تھا جیسے ہم پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کہتی ہیں جماعت کے ماٹو ’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘ کا اظہار ہوتا دیکھا تھا۔

پھر میری تقریروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ ایک عجیب احساس ہوتا تھا اور اس دوران ہر لفظ پر میرے آنسو بہہ پڑتے تھے۔ میں اپنے جذبات بیان نہیں کر سکتی۔ پھر عالمی بیعت کا نظارہ بھی بہت مسحور کن اور ایک اثر رکھنے والا تھا۔ کہتی ہیں بلا شبہ میں جلسے میں شامل ہونے کے بعد پہلے کی نسبت خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوئی ہوں۔ پھر ایک افریقن امریکن لجنہ نے اپنا خواب بھی مجھے بتایا۔ کہتی ہیں میں نے خواب دیکھا کہ ایک خوبصورت مسجد میں نماز ادا کر رہی ہوں اور وہ مسجد بہت وسیع اور کشادہ ہے اور وہاں بہت سے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتی بھی نہیں۔ ہر مرتبہ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اب کسی اور ملک میں ہوں۔ کہتی ہیں اب اس جلسے میں شامل ہو کر مجھے اپنی خواب کی تعبیر ملی۔ یہاں مختلف ممالک کے لوگ اکٹھے ہو کر بڑی تعداد میں نماز پڑھتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے کامل اطاعت کے ساتھ بہترین مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی توفیق دے۔

میکسیکو کے ایک نومبائع بشیر کویاسو صاحب کہتے ہیں کہ دنیا سے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افرادخلیفہ وقف کی محبت اور فدائیت کے جذبے سے معمور تھے جو بے مثال تھا۔ جلسے کے کارکنان مہمانوں کی خدمت رضا کارانہ طور پر انتہائی جذبہ فدائیت سے کر رہے تھے۔ جماعت احمدیہ دنیا میں ایک مثالی جماعت ہے جو حقیقی اسلام کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔

میکسیکو کے نو مبائع امام ابراہیم چیچو صاحب جو اپنے ستّر مقتدیوں کے ساتھ احمدیت میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں میرے دل نے محسوس کیا کہ جلسے کے ایام میں بے شمار افضال و برکات نازل ہو رہے ہیں اور خلافت کے سائے میں دنیا کے مختلف رنگ و نسل کی قومیں باہمی محبت و اخوت سے سرشار ہیں۔ کہتے ہیں، خلیفہ وقت کی تقاریر سے جہاں میرے علم میں اضافہ ہوا وہاں مجھے قلبی سکون بھی نصیب ہوا۔ جلسے میں شامل ہر فرد بزبانِ حال گواہی دے رہا تھا کہ اسلام محبت اور سلامتی کا مذہب ہے جس کی ہر قوم و ملک کو ضرورت ہے۔

پانامہ سے گریگور یو گونزالیز (Gregoria Gonzales) یہ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ یوکے میں مختلف افراد کے اجتماع، تنظیم، محبت اور اخوت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر فرد دوسرے سے دلی محبت کرتا ہے۔ یہ ایک مثالی اجتماع تھا جس نے ہماری روحانی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا اور ہماری ذمہ داری ہے کہ دوسروں کو بھی اس میں شامل کریں اور وہ بھی جماعت کا حصہ بن جائیں اور پانامہ کے افراد جماعت بھی اس سے بھر پور استفادہ کرنے والے بن جائیں۔ فرنچ گیانا سے ایک دوست مسٹر ڈیو ئیو آبدو (Mr. Diavia Abdou) آئے تھے انہوں نے 2008ء میں بیعت کی تھی۔ جلسے میں پہلی دفعہ شامل ہوئے۔ کہتے ہیں مَیں پیدائشی مسلمان تھا۔ مَیں نے فرنچ گیانا میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی تھی۔ لیکن آج جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر مجھے محسوس ہوا ہے کہ اصل حقیقی اسلام کیا ہے۔ مجھے احمدیت کی حقیقت اور خلیفہ وقت کی اہمیت کا اب اندازہ ہوا ہے۔ کہتے ہیں، خلیفہ وقت نے زندگی گزارنے کی راہیں بتائیں اور ہر ایک شخص ان راہوں پر چل کر خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔

بیلجیم سے ایک دوست عبدوفال (Abdou Fall) صاحب آئے تھے۔ یہ سینیگال کے ہیں۔ کہتے ہیں جب مَیں بیلجیم میں احمدیوں کی مسجد میں گیا تو وہاں بہت زیادہ پیار و محبت دیکھی۔ پھر یہاں بھی میں نے احمدیوں میں پیار اور محبت ہی دیکھا۔ اس پیار محبت اور بھائی چارے کے ماحول سے مَیں بہت متأثر ہوا۔ عالمی بیعت میں شامل ہو کر مَیں نے بیعت بھی کی۔ بیعت کے وقت جو میرے جذبات اور کیفیت تھی اس کا بیان ممکن نہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے جلسے کے موقع پر احمدیوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ واقعی احمدی حقیقی مسلمان ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ خلیفہ خدا کا مقرر کردہ ہے۔ اس جلسے میں شامل ہو کر اور خلیفۂ وقت سے ملاقات کر کے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے۔

فلپائن کے ایک دوست یول اولایا (Yul Adelf Olaya) صاحب جو United Nations میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے پچھلے سال بیعت کی ہے۔ کہتے ہیں الحمد للہ جلسے میں شامل ہو کر مجھے جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی۔ انشاء اللہ اب میں اپنی آئندہ زندگی بطور احمدی ہی گزاروں گا۔ جلسے کے دوران رضاکارانہ طور پر کام کرنے والوں نے جس جذبہ پیار اور محبت کے ساتھ کام کیا وہ قابل تحسین ہے۔ کہتے ہیں میں نے ان کو صبح سے لے کر رات تک کام کرتے دیکھا۔ پھر بچوں کو پانی پلاتے ہوئے دیکھا۔ عجیب نظارہ تھا۔ ان کے پیار اور محبت نے میرا دل موہ لیا۔ یہ بھی بڑے جذباتی تھے۔

پھر مالی سے ڈاکٹر کائیتا حَمَأُ اللہ صاحب آئے تھے۔ انہوں نے جلسے پر بیعت کی۔ کہتے ہیں جلسے کے دوران میرے جو احساسات تھے وہ زندگی میں پہلی مرتبہ پیدا ہوئے تھے۔ پہلی مرتبہ یہاں آیا ہوں اور اب یہ ارادہ لے کر جا رہا ہوں کہ ہمیشہ آئندہ جلسوں میں آؤں گا۔ پھر کہتے ہیں کہ اگر دشمن پوری کوشش بھی کر لے تو وہ اس جلسے کا عشر عشیر بھی انتظام نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں تو دنیا کی یونائیٹڈ نیشن جیسی بڑی طاقتیں بھی ایسا انتظام نہیں کر سکتیں۔ جماعت احمدیہ واقعی ایک حقیقت اور سچ ہے۔ اسی وجہ سے میں نے دلی گہرائیوں سے احمدیت کو قبول کیا ہے۔

احمدی جہاں بعض جگہ پابندیوں میں گھرے ہوئے ہیں جیسا کہ مَیں نے قرغیزستان کا اور قزاقستان کا ذکر کیا۔ ان کے بھی عجیب جذبات ہوتے ہیں۔ قزاقستان سے ایک دوست عسکر عمروو صاحب جلسے میں شامل ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے بھی کئی دفعہ جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کر چکا ہوں لیکن جامعہ میں رہائش کا پہلا تجربہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کا ایک ساتھ رہنا بہت ہی اچھا ہے کیونکہ اس سے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کا موقع ملتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑی تعداد میں نمازی نماز ادا کرتے ہیں۔ رہائش کی جگہ میں نماز ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میرے لئے یہ بہت اہم بات تھی کیونکہ اس وقت قزاقستان میں ہم زیادہ تعداد میں جمع ہو کر نمازیں ادا نہیں کر سکتے اور یہاں نمازیں ادا کر کے مجھے احساس ہوا کہ میں باجماعت نماز نہ پڑھنے سے کتنا محروم رہا ہوں۔ اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مرکزی پریس کی ٹیم اور یوکے پریس کی ٹیم نے اچھا کام کیا ہے اور اس سال پہلی دفعہ جلسہ کی بہت بہتر انداز میں کوریج ہوئی ہے۔ پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے۔ اور احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کو پہنچا ہے۔ مرکزی پریس ٹیم کے رابطے سے دوسرے ممالک سے بھی پریس اور میڈیا کے لوگ آئے۔ ان کے بھی اچھے تاثرات تھے جیسا کہ میں تأثرات میں ذکر کر چکا ہوں۔ پریس کے ذریعہ سے تقریباً تیرہ ملین افراد تک یوکے میں ہی پیغام پہنچا ہے اور بعض اَور جو ابھی آرٹیکل لکھ رہے ہیں، جو خبریں دے رہے ہیں ان کی اطلاع نہیں آئی۔ اندازہ ہے کہ اس ذریعہ سے تقریباً بارہ تیرہ ملین تک باہر کی دنیا کو یہ پیغام پہنچا۔ اسلام کا تعارف پہنچا ہے اور تعلیم پہنچی ہے۔

پریس کے ضمن میں یہ بھی کہوں گا کہ پریس میں مختلف مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی مذہب کو ماننے والے ہیں کوئی نہیں ماننے والے۔ کچھ خدا کو ماننے والے ہیں کچھ نہیں ماننے والے جو یہاں آتے ہیں تو اس ماحول کو دیکھ کر پھر متاثر ہوتے ہیں۔ ویسے بھی مختلف قسم کے لوگ آتے ہیں، شامل ہوتے ہیں ان کے اپنے لباس ہوتے ہیں ان کی اپنی روایات ہیں بعض حیا دار لباس تو پہن لیتے ہیں لیکن عورتوں میں سکارف وغیرہ نہیں ہوتا۔ عورتیں عموماً جب ہمارے فنکشن میں آتی ہیں تو سکارف سر پر لے لیتی ہیں لیکن اگر نہ بھی لیں تو کوئی حرج نہیں۔ ہم ان کوپابندنہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارے بعض مرد جو ہیں وہ زبردستی کرنے کے عادی ہیں۔ سختی پر اتر آتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک نمائندہ آئی ہوئی تھیں۔ ان کا سر ننگا تھا۔ ایک مردنے جا کے پیچھے سے ان کے سر پر سکارف رکھ دیا۔ وہ ہمارے احمدی کی واقف ہے۔ جماعت کو جانتی ہے۔ میرا نٹرویو لے چکی ہے اور وہاں بڑے حیا دار لباس میں سکارف لے کر سر ڈھانک کے بیٹھی تھی لیکن اس وقت سکارف سر پہ نہیں تھا۔ بہرحال انہوں نے اس مرد کی اس حرکت کو دیکھ کے ہنس کے ٹال دیا لیکن اپنے احمدی دوست کو کہنے لگیں کہ اگر کوئی اور عورت ہوتی تو غصہ بھی کر سکتی تھی۔ غصہ کر سکتی تھی یا غلط تاثر لے سکتی تھی۔ پس مردوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان کو داروغہ نہیں مقرر کیا گیا۔ ان کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے۔ ان کا کام نہیں ہے کہ غیر عورتوں کے سروں پر اوڑھنیاں ڈالتے پھریں۔ مردوں کو غضِّ بصر کا حکم ہے۔ اپنا جو فرض ہے وہ پورا کریں۔ غیرمسلموں یا اپنوں کو بھی زبردستی سر ڈھانکنے کا حکم کہیں نہیں ہے۔ ایسے ہی شدت پسند مرد ہیں، بعض ایک دو ہمارے میں ہوں گے جو پھر اسلام کو بھی بدنام کرتے ہیں اور دین کو بدنام کرتے ہیں۔ آپ لوگ یا ان جیسے جو لوگ ہیں ان میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ انہوں نے دنیا کی اصلاح کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔

ایسے دو واقعات ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک احمدی جس کے ساتھ ایک دوسری جرنلسٹ تھیں۔ اس احمدی کو ایک احمدی نے کہاکہ اس عورت کو کہو ہمارے ماحول میں سر ڈھانکنا ضروری ہے، اپنا سر ڈھانکے۔ تو ایسے مردوں کو میں کہوں گا کہ آپ لوگ پہلے اپنے گھروں کو سنبھال لیں۔ یہی عمل ہیں جو پھر اسلام سے متنفر کرتے ہیں۔ دنیا کی اصلاح انشاء اللہ خود بخود ہو جائے گی۔ جیسا کہ میں نے مسلمان جرنلسٹ کا یہ واقعہ سنایا ہے کہ بغیر حکمت کے شدت پسندی کے حکم کی وجہ سے، اس کے باپ کے رویے کی وجہ سے وہ اسلام سے متنفر ہو گئی، پرے ہٹ گئی اور باغیانہ رویہ اختیار کر لیا لیکن یہاں آ کر جب اس نے احمدی عورتوں کا رویہ اور ان کی آزادی دیکھی تو اس کو خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں احمدی گھر میں پیدا ہوئی ہوتی۔

پس یہ جو اصلاحیں ہیں، یہ عورت کی اصلاح عورت کے ذریعہ سے ہونی چاہئے اور خاص طور پر یورپ میں جہاں پہلے ہی یہ شور ہے کہ مرد سختی کرتے ہیں اور عورتوں کے ساتھ غیر ضروری ظالمانہ سلوک ہوتا ہے۔ مرد جب اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو ایسے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر کوئی ایسی بات ہو تو یہ عورتوں کا کام ہے کہ وہ پیار سے محبت سے سمجھا دیں کہ یہاں اس ماحول میں ایسا ہے اور لجنہ اپنا کام کرتی ہیں اور اگر کسی نے کچھ نہیں بھی اوڑھا ہوا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے مطابق لباس بہرحال ان کے حیا دار ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے بھی جلسے کے پروگرام اپنوں اور غیروں تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے اور اس سال اس کا بھی ہمیشہ کی طرح بہت بڑا کردار رہا ہے۔ جہاں اس کے ذریعہ سے جلسے کی کارروائی دیکھنے والے احمدیوں نے خوشی کا اور تشکر کا اظہار کیا ہے وہاں غیروں نے بھی اس بارے میں بڑے اچھے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ غیر از جماعت عربوں نے بھی اس دفعہ بڑے اچھے تاثرات بھیجے ہیں بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ حقیقی اسلام یہی ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے جو جماعت احمدیہ پھیلا رہی ہے اور بعضوں نے پھر یہ بھی کہا کہ یہی حقیقی خلافت کا نظام ہے جس کی آج مسلم اُمّہ کو ضرورت ہے۔

پھر اس سال ایم ٹی اے کے جلسے کے جو پروگرام تھے وہ جلسے کے تین دنوں میں روزانہ کچھ گھنٹے کے لئے گھانا کے نیشنل ٹی وی، سیرالیون کے نیشنل ٹی وی اور نائیجیریا کے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل نے بھی دکھائے۔ اس کا بھی ان علاقوں میں اور ملکوں پہ بہت اچھا اثر ہوا۔ اور بڑا اچھا فِیڈ بیک (feedback) ہے کہ یہ پروگرام دیکھ کے ہمیں جماعت احمدیہ کی اور اسلام کی حقیقت کا پتا لگا ہے۔ اس کے بعض تاثرات ہیں۔ گھانا سے جو ایک تاثر موصول ہوا ہے یہ ہے کہ کماسی گھانا سے ایک غیر احمدی دوست نے لکھا ہے کہ میں نے جماعت کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن جب میں نے گھانا ٹی وی پر آپ کے پروگرام دیکھے تو مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ہمارا لوکل امام ہمیں جماعت کے متعلق جو باتیں بتاتا ہے وہ سب جھوٹ ہے اور میں نے پہلی مرتبہ کسی مسلمان جماعت کو اس طرح خوبصورت انداز میں اسلام کی حقیقی تعلیم اور شدت پسندی کی مذمت کرتے دیکھا ہے۔

پھر اسی طرح یہ رپورٹ لکھنے والے ایک احمدی دوست کہتے ہیں کہ مَیں گھانا ٹی وی پر اپنی غیر احمدی بہن کے ساتھ آپ کے پروگرام دیکھ رہا تھا اور جلسے کی کارروائی دیکھ کراس غیر احمدی بہن نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ میں نے عالمی بیعت کی لائیو کوریج دیکھی۔ اور پھر لکھا ہے کہ مجھے اپنے احمدی ہونے پربڑا فخر ہے۔ کہتے ہیں میں نے اپنے بعض عیسائی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ پروگرام دیکھے ہیں اور وہ جماعت کی عظیم الشان ترقی دیکھ کر ششدر رہ گئے۔

گھانا کے ایک دوست کہتے ہیں کہ احمدیت صرف امن اور محبت کی تعلیم کا پیغام ہے۔ مجھے اس جماعت سے محبت ہو گئی ہے۔ عنقریب میں جماعت میں شامل ہو جاؤں گا۔

پھر جلسے کی کارروائی دیکھ کر ایک غیراحمدی صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے اس جماعت کی فلاسفی اور مقاصد کا پتا چلا ہے۔ میں بہت جلد احمدیہ جماعت میں شامل ہو جاؤں گا۔

پھر اسی طرح اور بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تأثرات بھیجے کہ یہ سارے پروگرام ہم نے دیکھے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ جلدی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔

پھر سیرالیون سے عیسائی دوست فرانس فوربی کہتے ہیں کہ آپ کے جلسہ کے پروگرام آج صبح میرے لئے بہت برکت کا باعث ہوئے۔ میں جلسے کی لائیو کوریج سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ شکریہ۔ پھر سیرالیون کے ایک احمدی دوست الحاج علی مامے سیسے صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہمسایوں کو جلسہ کے پروگرام دکھانے کے لئے اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ سیرالیون میں اکثر لوگ جلسے کی لائیو نشریات دیکھ رہے تھے۔ ابوبکر کونتے کہتے ہیں کہ کیا ہی عظیم الشان جلسہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ساری دنیا میں پھیلا دے۔

فری ٹاؤن کے ایک غیر احمدی دوست کہتے ہیں کہ میں نے جلسے کی نشریات دیکھیں جو کہ بہت اچھی ہیں۔ پھر ایک دوست نے لکھا کہ میں نے اپنے غیر احمدی دوستوں کے ساتھ جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھی اور وہ بڑے متاثر ہوئے۔

نائیجیریا کے ٹیلیویژن نے بھی اس دفعہ یہ پروگرام دکھایا اور اس ٹی وی کے دیکھنے والے جو ہیں ان کی بھی بہت بڑی viewershipہے۔ ان کا خیال ہے کہ ملین کی تعداد میں لوگوں نے جلسہ کی تقاریر دیکھیں اور سنیں۔ یہ اس میڈیا کے علاوہ ہے جس کا پریس کے تعلق میں ذکر ہو چکا ہے۔ پھر اس سال ایم ٹی اے کی لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے بھی آخری دن جو انٹرنیٹ پر دیکھا جاتا ہے تین لاکھ تیس ہزار لوگوں نے جلسے کی کارروائی دیکھی۔ اور باقی دنوں میں بھی گزشتہ سالوں کی نسبت کئی ہزار کی تعداد زیادہ تھی۔ اور ایم ٹی اے پر جو دیکھتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے۔

پس یہ تاثرات بھی آپ نے سنے۔ کوریج کا حال بھی سنا۔ لیکن ہمیں یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں ہمارے قدم آگے بڑھانے کے لئے مزید جوش پیدا کرنے والی ہونی چاہئیں نہ کہ اس بات پر خوش ہو کے ہم بیٹھ جائیں کہ بہت کچھ حاصل کر لیا۔ ترقی کرنے والی قومیں خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ہمیں پتا ہے اور اس طرف نظر رکھنی چاہئے کہ ہماری بعض کمزوریاں بھی ہیں۔ بڑے پیمانے پر انتظامات میں کمزوریاں ہو جاتی ہیں اور رہ جاتی ہیں یہ کوئی ایسی بات نہیں لیکن بہرحال ان کو دُور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ ان سب کمزوریوں کو نوٹ کر کے انتظامیہ کو چاہئے کہ اگلے سال ان کا حل کریں، ان کا مداوا کریں اور یہ کمزوریاں صرف کارکنان کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ بعض ضدی شامل ہونے والے جو لوگ ہوتے ہیں اور ان کے رویے جو ہوتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ ایسی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں اس لئے ان کے لئے بھی انتظام ہونا چاہئے۔ ان کو بھی اصلاح کر کے آنا چاہئے۔

مثلاً عورتوں کی طرف سے ایک بات مجھے پہنچی کہ عورتوں کی مین مارکی میں ایک عورت بچے کو لے کے بیٹھی تھی تو کارکنہ نے اسے کہہ دیا کہ یہاں بچوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے تو اس نے کہا ٹھیک ہے۔ مجھے پتا نہیں تھا۔ چلی جاتی ہوں۔ بعد میں اسی کارکنہ کو پتا لگا کہ عورت جو بیٹھی ہوئی ہے یہ احمدی نہیں، غیر از جماعت ہے تو اس نے جاکے اس سے معذرت کی کہ آپ کا بچہ اگر شور نہیں کر رہا تو ٹھیک ہے آپ بیشک بیٹھی رہیں۔ لیکن ساتھ بیٹھی ہوئی ایک احمدی خاتون نے ان سے لڑنا شروع کر دیا کہ ہمیں تکلیف نہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہے اور اس طرح کی باتیں کیں۔ اب شکر ہے کہ کارکنہ کو تو عقل آ گئی کہ اس نے زیادہ بات کو آگے نہیں بڑھایا اور چپ کر کے وہاں سے چلی گئی۔ لیکن پھر وہ خاتون پوچھنے لگی کہ کیا یہ حدیث ہے کہ ضرور یہاں نہیں بیٹھنا۔ اس قسم کی جو ضدی عورتیں ہیں، خاص طور پر عورتوں میں زیادہ ہوتی ہیں، بعض دفعہ مردوں میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں، ان کو اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ جو اتنے اچھے اثرات لوگوں پر پڑ رہے ہیں جن کو لوگوں نے دیکھا وہ شایدنہ ہوتے۔ یہ تو شکر ہے کہ اس صورتحال میں کم از کم یہ لوگ وہاں موجودنہیں تھے جو یہ بات نوٹ کرتے۔ باقی جہاں تک رہا یہ سوال کہ حدیث ہے؟ یہ حدیث بھی ہے اور قرآن بھی ہے کہ جو ہدایت دی جائے چاہے وہ کسی کی طرف سے ہو، اطاعت کرو۔ اطاعتِ امیر کا حکم ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منقّہ کے سر جتنا بھی تمہارا امیر مقرر کیا جائے تو اس کی بھی اطاعت کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب امامۃ العبد والمولیٰ حدیث نمبر 693)

پس ذرا ذرا سی باتوں پے اس قسم کے باغیانہ رویے نہ دکھایا کریں کہ حدیث ہے یا حدیث نہیں۔ حدیث یہی ہے کہ اطاعت کرو۔ اور اس کی پابندی ہر ایک کے لئے ضروری ہے جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے۔ لیکن ان کارکنات کے لئے اور کارکنوں کے لئے بھی یہ ہدایت آئندہ سے نوٹ کر لیں کہ اگر کوئی ایسا رویہ دکھاتا ہے تو اپنے بالا افسر جو ہیں ان کو بتائیں اور وہ اس کا جو بھی AIMS Card ہے اس کو کینسل کر دیں اور پھر اس کو جلسے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔ جماعت احمدیہ کو ایسے باغیانہ رویے رکھنے والوں کی ضرورت نہیں ہے۔

باقی انتظامی لحاظ سے عورتوں کی طرف سے بھی یہ شکایت تھی کہ ٹوائلٹس میں صفائی وغیرہ کا بعض دفعہ انتظام نہیں تھا۔ جو دوسرے انتظامات تھے ان کے متعلق تو مَیں انتظامیہ کو بتا دوں گا۔ کھانے اور روٹی کے معیار کی اس دفعہ عموماً اچھی تعریف کی گئی ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ مزید بہتر بنانے کی توفیق دے۔ پھر یہ بھی شکایت ہے کہ بعض دفعہ اگر کوئی بوڑھا یا کوئی مریض اگر کھانے پر لیٹ ہوگیا تو عورتوں کی طرف سے یہ شکایت آئی تھی کہ اس کو کھانا دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ چاہے کوئی بھی آئے، کسی وقت آئے، خاص طور پر مریض، بچے اور بوڑھے اگر کھانے کے لئے آئیں اور کھانا موجود ہو تو ان کو کھانا دینا چاہئے بلکہ ایسے لوگوں کے لئے انتظام ہونا چاہئے کہ کسی وقت بھی آ جائیں تو کھانا دے دیا جائے۔ آرام سے بٹھا دیا جائے اور یہ بتا دیا جائے کہ آپ کو مریض ہونے یا بچے کی وجہ سے کھانا مل رہا ہے اور آئندہ جو بھی وقت ہو یہ بھی واضح کر کے بتا دیا جائے کہ اگر کسی وجہ سے آج لیٹ ہو گئے ہیں تو کل کھانے کے یہ یہ وقت ہیں اس پر آئیں۔ لیکن رویہ ہمدردانہ اور پیار والا ہونا چاہئے۔

اسی طرح اس دفعہ ٹینٹس میں بڑے پیمانے پر واش روم ٹوائلٹس وغیرہ بنانے کا جو تجربہ انہوں نے کیا تھا اس کی بھی اچھی تعریف کی گئی ہے۔ رشین مہمانوں کی طرف سے ایک شکایت آئی تھی کہ جامعہ میں انتظام اچھا تھا لیکن ٹرانسپورٹ کا انتظام ناکافی تھا جس کی وجہ سے جلسے پر آتے ہوئے دیر ہو جاتی تھی اور ان کی ایک آدھ تقریر یا اس کا کچھ حصہ miss ہو جاتا تھا۔ اسی طرح واپسی پر بھی لیٹ جاتے تھے جس کی وجہ سے تہجد ضائع ہوتی تھی۔ تو اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کے نظام کو اگلے سال مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو اپنی سرخ کتاب (Red Book) میں درج کریں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر جلسہ اچھا گزر گیا۔ مہمانوں نے اچھا اثر لیا۔ جیسا کہ میں نے کہا مقررین کی تقریریں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان نیک اثرات کو ہمیشہ قائم رکھے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اور جس طرح مہمانوں نے تمام کارکنان کا شکریہ ادا کیا ہے، مَیں بھی تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کارکنات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان کی یہ خدمت قبول فرمائے۔ ان کو پہلے سے بڑھ کر آئندہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور صرف ظاہری خدمت نہ ہو بلکہ اسلام کی تعلیم کی حقیقی روح بھی ان میں پیدا کرے اور سب کو، شامل ہونے والوں کو بھی اور ان خدمت کرنے والوں کو بھی حقیقی اور سچا احمدی بنائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 5؍ ستمبر 2014ء شہ سرخیاں

    جلسہ سالانہ یوکے کے دوران نازل ہونے والی برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی تائیدات کا ایمان افروز تذکرہ۔

    جلسے کا ماحول اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ماحول ہوتا ہے کہ ہر سعید فطرت پر یہ نیک اثر ڈالتا ہے۔

    مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کے جلسہ اور اس کے انتظامات کے متعلق نیک تأثرات کا روح پرور بیان۔

    بعض انتظامی کمیوں کو دور کرنے کے لئے اہم ہدایات۔

    فرمودہ مورخہ 05؍ستمبر 2014ء بمطابق05 تبوک 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور