شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیفؓ کا کابل شہر میں قیام

مولوی عبدالرحمن خان صاحبؓ کی شہادت کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مصلحۃً کابل چلے جائیں اور امیر عبدالرحمن خان کو ملیں۔صاحبزادہ صاحبؓ ابھی سیدگاہ میں ہی تھے کہ ایک روز سردار شیریندل خان حاکم خوست نے ان سے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت فساد پڑا ہوا ہے۔ لوگ شیطان سیرت ہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دشمن مولوی عبدالرحمن خان کی طرح آپ کی رپورٹ بھی امیر کے پاس کر دے اور امیر خود آپ کوتحقیقات کی غرض سے بلوائے۔ آپ بڑی عزت اور پوزیشن والے ہیں جب آپ خود اس کے پاس جائیں گے تو امید ہے کہ وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوگا اور عزت و توقیر سے پیش آئے گا چنانچہ آ پ اپنے بعض شاگردوں کے ساتھ کابل تشریف لے گئے ۔ کابل میں دربار رات کوہوا کرتا تھا ۔ جب آپ دربار میں حاضر ہوئے اور امیر سے ملے تو وہ بہت خوش ہوا اور کہاکہ آپ کے بارہ میں مجھے بعض رپورٹیں ملی تھیں لیکن میں نے انہیں نظر انداز کر دیا اور میں آپ کے یہاں آنے سے بہت خوش ہوں۔

حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے تھے کہ کچھ عرصہ کے بعد میں نے گھرواپس جانے کا ارادہ کیا تودربار کے بعض معزز لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ یہ امیر کسی کے قابو میں نہیں ، ایسا نہ ہو کہ آ پ گھر پہنچیں اور آپ کو واپس کابل لانے کے لئے آدمی بھجوا دئے جائیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ کابل ہی میں قیام کریں۔ تب میں امیرکو ملا اور اسے کہا کہ میں کابل میں ہی آپ کے پاس رہنا چاہتاہوں ۔ امیر نے اس پر بہت خوشی کااظہار کیا اور کہا کہ بہت اچھا آپ کابل ہی میں قیام رکھیں۔بعدمیں آ پ کے اہل وعیال بھی کابل آگئے ۔ کابل میں آپ نے درس وتدریس کا شغل جاری رکھا ۔ آپ امیر عبدالرحمن خان اوراس کے بیٹے سردار حبیب اللہ خان سے ملتے رہتے تھے ۔ ان کے علاوہ حاجی باشی اور بریگیڈئر مرزا محمد حسین کوتوال سے بھی آپ کی ملاقات رہتی تھی۔

(قلمی مسود صفحہ ۱۶ تا ۲۰۔ شہید مرحوم کے چشم دید حالات حصہ دوم صفحہ ۱۴،۱۵)

امیر عبدالرحمن خان کی بیماری اور وفات

امیر عبدالرحمن خان کی صحت پہلے بھی اچھی نہیں تھی لیکن اب اس کامرض شدت اختیار کر گیا۔ وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کوبزرگ سمجھتا تھا اوراس کی خواہش کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب اکثر اس کو ملنے جایا کرتے تھے۔ ایک دن جب آپ امیر کو مل کر آئے تو فرمایا کہ امیر سخت بیمار ہے ۔ اچھا ہے چلا ہی جائے اس طرح لوگ اس کے مظالم سے محفوظ ہو جائیں گے ۔ ان دنوں میں امیر باغ بالامیں مقیم تھا۔ایک دن صبح کے وقت آپ کو بلوا لیا گیا۔ وہاں پہنچے اور اپناگھوڑاسید احمد نور کے حوالے کر کے خود اندر چلے گئے ۔ لوگوں پرخاموشی اور خوف کی حالت طاری تھی ۔ آپ اندر جا کر فوراً باہر آگئے اور سید نور کو بتایاکہ امیر فوت ہوگیا ہے اور یہ کہ نماز جنازہ ظہر کے بعد ہوگی۔ سردار حبیب اللہ خان کی خواہش تھی کہ اس کے باپ کا جنازہ حضرت صاحبزادہ صاحب پڑھائیں ۔ مصلحۃً امیر عبدالرحمن خان کی وفات کو خفیہ رکھا گیا تھا۔

آپ واپس اپنی رہائش گاہ پر آ گئے ۔ رستہ میں سید احمد نورسے فرمایا کہ اگر حبیب اللہ خان نے جنازہ پڑھانے کے لئے پھرکہا تودیکھا جائے گا ورنہ کیا پڑھاناہے۔ ظہرکے وقت حضرت صاحبزادہ صاحب جنازہ کے لئے چلے گئے ۔جنازہ میں محدود تعداد میں لوگ شامل ہوئے ۔ عام لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا۔ جنازہ کی امامت سردار حبیب اللہ خان نے کی۔

امیر عبدالرحمن خان پر ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۱ء کو فالج کاحملہ ہوا تھاجس سے اس کا دایاں پہلو بیکارہو گیا تھا۔ باوجود ہر قسم کے علاج کے حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی گئی آخرکار ۳؍اکتوبر ۱۹۰۱ء کو انتقال کر گیا اور شہر کابل دہِ افغانان کے بازار شاہی کے بستان سرائے میں دفن کیا گیا ۔

(قلمی مسودہ صفحہ ۱۹۔ عاقبۃالمکذبین حصہ اول صفحہ ۳۲،۳۳ ۔ و تاریخ افاغنہ حصہ اول صفحہ ۹۹ مؤلفہ شہاب الدین ثاقب مطبوعہ حمیدیہ پریس لاہور)