شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

حضرت صاحبزادہ سید محمدعبداللطیف صاحب کا افغانستان کے علماء سے مباحثہ اور علماء کی ناکامی

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’جب چار مہینے قیدکے گز ر گئے تب امیر نے اپنے روبرو شہید مرحوم کو بلاکر پھر اپنی عام کچہری میں توبہ کے لئے فہمائش کی اور بڑے زورسے رغبت دی کہ اگرتم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اس کے اصولوں کی تصدیق سے میرے روبروانکارکرو توتمہاری جان بخشی جائے گی اور تم عزت کے ساتھ چھوڑے جاؤ گے ۔شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیرممکن ہے کہ میں سچائی سے توبہ کروں۔ اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہو جاتاہے لیکن میں اس سے ڈرتاہوں جس کاعذاب کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ہاں چونکہ میں سچ پرہوں اس لئے چاہتاہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدے کے مخالف ہیں میری بحث کرائی جائے ۔اگر میں دلائل کے رو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزا دی جائے ۔

راوی اس قصہ کے کہتے ہیں کہ ہم اس گفتگو کے وقت موجود تھے ۔ امیر نے اس بات کو پسند کیا اور مسجد شاہی میں خان ملاّ خان اور آٹھ مفتی بحث کے لئے منتخب کئے گئے اور ایک لاہوری ڈاکٹر جو خود پنجابی ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا بطور ثالث کے مقررکرکے بھیجا گیا ۔ بحث کے وقت مجمع کثیر تھا اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم ا س بحث کے وقت موجود تھے ۔مباحثہ تحریری تھا ۔ صرف تحریر ہوتی تھی اور کوئی بات حاضر ین کو سنائی نہیں جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔جب شاہزادہ مرحوم کی ان بدقسمت مولویوں سے بحث ہو رہی تھی تب آٹھ آدمی برہنہ تلواریں لے کر شہید مرحوم کے سرپرکھڑے تھے‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۴،۵۵۔ مطبوعہ لندن)

’’میاں احمد نور کہتے ہیں کہ مولوی صاحب موصوف ڈیڑھ ماہ تک قید میں رہے اور پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ چار ماہ تک قید میں رہے یہ اختلاف روایت ہے ۔اصل واقعہ میں سب متفق ہیں‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۲۸۔ مطبوعہ لندن)

جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ یہ مباحثہ جامع مسجد واقعہ بازار کتب فروشی کے مدرسہ سلطانیہ کے احاطے میں طے پایاتھا ۔ آپ کے مقابل پر جوعلماء تھے ان کے سرکردہ قاضی عبدالرزاق خان رئیس مدارس و مُلّائے حضور امیر اور قاضی عبدالرؤوف قندھاری تھے۔ مباحثہ کا سرپنچ اور منصف ایک شخص ڈاکٹرعبدالغنی اہل حدیث باشندہ ٔ جلال پورجٹاں ضلع گجرات مقرر ہوا تھا۔

ان دنوں میں کابل میں تین بھائی ڈاکٹر عبدالغنی ، مولوی نجف علی اور مولوی محمد چراغ موجود تھے۔ یہ تینوں مقربان امیر تھے اور مختلف عہدوں پرمقرر تھے ان کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بوجہ اہل حدیث سے تعلق رکھنے کے خاص بغض تھا کیونکہ حضور کے اول المکفرین اہل حدیث فرقہ کے لیڈرہی تھے ۔انہوں نے اس موقعہ پر بہت سی غلط بیانیاں کرکے امیر کے کان بھرے ۔

چند سال پہلے جلال آبادکے علاقے کاایک مولوی پشاورآیا تھا ۔ دوران گفتگو اس نے بتایا کہ وہ اس مباحثہ میں موجود تھا۔ وہ بتاتاہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے دلائل زیادہ تر قرآن مجید اور سنت اللہ پرمبنی تھے اور مخالف علماء تفسیریں اور اقوال سلف پیش کر سکتے تھے ۔ اس وجہ سے وہ حضرت صاحبزادہ صاحب پر غالب نہ آ سکے۔ علماء کا علم بھی اتنا زیادہ نہ تھا جتناحضرت صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحب کا تھا۔

اس بات کی تصدیق جناب مغل باز خان رئیس بغدارہ نے بھی کی جو ا س وقت مدرسہ سلطانیہ میں بطور طالبعلم موجود تھے۔ وہ بھی حضرت صاحبزادہ صاحب کے تبحر علمی کے قائل تھے اور بتاتے تھے کہ قاضی عبدالرزاق ملا حضور امیر بھی اقرار کرتاتھاکہ ہمیں حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرح نہ تو قرآن مجید پرعبور ہے اور نہ مباحثات کا تجربہ ہے۔

(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۴۴تا ۴۶)

صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مباحثہ کے دوران ایک عالم جن کا نام غالباً مولوی احمد جان قندھاری تھا جب انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے دلائل پر غور کیا تو وہ ان کی قوت اور برتری کے قائل ہو گئے اور احمدیت کی صداقت ان پرظاہر ہو گئی اور انہوں نے فتنہ کے خوف سے کچھ عذرات پیش کرکے اپنے آپ کو مباحثہ سے الگ کر لیا۔(قلمی مسودہ صفحہ ۴۳)

جب بحث کرنے والے علماء پراپنی کمزوری واضح ہو گئی اوروہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے سوالات کے جواب دینے سے عاجز آ گئے اور ان کے دلائل کا رد نہ کر سکے تو انہوں نے سردار نصراللہ خان کو اطلاع دی کہ صاحبزادہ صاحب پرپورے طور پر کوئی الزام لگانامشکل ہے ۔اس ناکامی کو معلوم کر کے سردار نصراللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنے پاس بلوایا ۔ جب آپ وہاں تشریف لے گئے تو سردار نصراللہ خان نے کہا کہ یہ شخص میرے دربار کو پلید کررہا ہے اسے دورکھڑاکرو ۔اس پرسپاہیوں نے آپ کو زنجیروں سے پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا ۔

سردار نصراللہ خان اٹھا اور دربار میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا پھرحاضرین سے مخاطب ہو کر کہنے لگاکہ یہ شخص کہتاہے کہ میں اگلے جہان سے آیاہوں اور بتاتاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پرنہیں ہیں وہ فوت ہو چکے ہیں ۔ اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میں تو آسمان سے نہیں آیا اگرمیں وہاں سے آیاہوتا تو تمہارے باپ کے بارہ میں خبر دیتا کہ وہ کس ہاویہ میں پڑاہے ۔ اس پر سردار نصراللہ خان حضرت صاحبزادہ صاحب سے مخاطب ہوا کہ تم اس طرح مت کہو اور میرزا کی بات چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں مار دوں گا۔ اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی: فَتَمَنَّوُالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن۔ اس پر سردار نصراللہ خان بولاکہ یہ شخص تو ابھی تک قرآن پڑھتاہے اسے میرے دربار سے دور کرو۔

سردار نصراللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب پر کفر کا فتویٰ لگوانے کی بہت کوشش کی اور پراپیگنڈا کیا اور مختلف طریقوں سے امیر حبیب اللہ خان پردباؤڈالتا اور اس کو ڈراتا رہا۔

سردار نے امیر سے کہا کہ یہ شخص جنوبی علاقوں میں بڑا اثر ورسوخ رکھتاہے اگر اسے جلد قتل نہ کیا گیا تو افغانستان میں احمدیت پھیل جائے گی اور بالآخر آپ کو افسوس ہو گا۔ امیر نے کہا کہ میں نے یہ معاملہ میزان التحقیقات میں بھجوا دیاہے وہاں سے کاغذات آجائیں تو پھر فیصلہ کروں گا ۔ اس پر سردار نصراللہ خان نے کہاکہ اگرآپ اس کو ملزم قراردینے کے لئے کاغذات کا انتظارکرتے رہے تویہ سن لیں کہ جو حالات مجھے بتائے گئے ہیں ان کے مطابق نہ اس شخص پر کوئی الزام لگتاہے اور نہ ہی اس پرکفر کا فتویٰ لگایا جا سکتاہے۔

اس پر امیر حبیب اللہ خان نے کہا کہ پھر اب کیا ہوگا ۔ اس پرسردار نصراللہ خان نے کہا کہ اگر سیاسی پہلو کو مدنظررکھتے ہوئے اس کا اب بندوبست نہ کیاگیا تو بڑا نقصان ہوگا۔(قلمی مسودہ صفحہ ۴۴ تا ۴۷)