شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

تحصیل علم کے سفر

حضرت صاحبزادہ سیدمحمدعبداللطیف نے ہندوستان میں مندرجہ ذیل مقامات پرعلوم مروجہ کی تعلیم حاصل کی:

امرتسر، لکھنو، دیوبند اور ضلع پشاور۔ ان جگہوں پر ان کامجموعی قیام کئی سال رہا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب عربی، فارسی، پشتو اوراردو زبان جانتے تھے ۔

جب آپ کا حصول علم کے لئے سفر کاارادہ ہواتو پہلے بنوں آئے ۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کیا اس دوران میں علاقہ کے نمبردار آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور آ پ کی خاطر گھڑ سواری اور نیزہ بازی وغیرہ کھیل کھیلاکرتے تھے ۔آپ نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے عرض کی کہ اب برسات کاموسم ہے اسے گزر لینے دیں۔ بارشوں کے بعدہندوستان کاسفرکریں۔ آپ نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا اوراسی موسم میں روانہ ہوگئے۔ آپ کے پاس بہت سا سامان اورنقدی تھی ۔ جب کُرّ م دریا پرپہنچے تو وہ بہت چڑھا ہوا تھا۔ پانی نہایت گدلاتھا۔ آپ نے کپڑے اور سامان گھوڑے پررکھا اور تہہ بند باندھ کر سوارہو گئے اور گھوڑادریا میں ڈال دیا۔ ہم سفروں کے گھوڑے تو دریا عبور کر گئے لیکن آپ کا گھوڑا لہروں کی تاب نہ لاسکااور ڈوبنے لگا ۔ آپ دریا میں کود گئے ۔ آپ کو تیرنا نہ آتاتھا ، غوطے کھانے لگے ۔ اس دوران آپ کے لبوں پریہ الفاظ تھے’’یا رحیم، یا رحیم ، یا رحیم‘‘۔ اللہ نے فضل فرمایا اور آپ دوسرے کنارے تک پہنچ گئے ۔ سامان اور نقدی سب ضائع ہو گئی۔ پاس ہی ایک گاؤں تھا جس میں ایک صاحب مولوی جان گُل رہتے تھے وہ آپ کے واقف تھے ۔ ان کے ہاں چلے گئے ۔ صاحبزادہ صاحب نے ان سے حصول علم کے لئے سفرکرنے کا ذکر کیا۔ مولوی صاحب نے عرض کی کہ میں بھی ساتھ چلتاہوں ۔ آپ نے فرمایا میرے پاس تو اس وقت ایک تہہ بند ہے ۔ فقیرانہ بھیس میں جاؤں گا اگر آپ میرے ساتھ جاناچاہتے ہیں توایسے ہی لباس میں جانا ہوگااور ملنگ بن کر سفر کرناہوگا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کو سینہ ننگا رکھنا پسند نہ تھا اس لئے دوران سفر ایک رومال سے سینہ ڈھانک لیا کرتے تھے ۔

امرتسر میں کشمیری محلہ کے ایک حنفی المذہب مولوی صاحب کے پاس قیام کیا ۔ وہاں ایک بڑی لائبریری تھی اس سے آپ نے بہت استفادہ کیا۔ رات دن مطالعہ میں مصروف رہتے تھے۔ امرتسر میں عام لوگوں سے واقفیت نہیں پیدا کی۔ گمنامی کی حالت میں رہتے تھے ۔کبھی کبھی تارک الدنیا فقراء کے پاس چلے جاتے تھے ۔صاحبزادہ صاحب کو گھرسے خرچ کے لئے روپیہ آیا کرتاتھا اس سے غریبوں کی مدد کردیاکرتے تھے اورخود سادہ زندگی بسرکرتے تھے ۔

امرتسرمیں آپ پرعجیب وغریب حالات گزرتے تھے فرماتے تھے وہاں مجھے آنحضرت ﷺ کے مزار مبارک کی ایسی خوشبوآتی تھی جیسے کسی باریک رومال میں کوئی خوشبو پا س ہی رکھی ہوئی ہو۔

فرمایاکرتے تھے کہ امرتسر کے مولوی صاحب سے میں نے تدریس کے طورپر تعلیم نہیں پائی البتہ ان کی لائبریری سے بہت استفادہ کیااورکبھی کوئی بات پوچھنی ہوتی تو ان سے پوچھ لیاکرتا تھا۔

ایک دفعہ ایک اہل حدیث مسلک کے کسی عالم کی طرف سے دہلی سے ایک رسالہ حنفی مولوی صاحب کے نام آیا۔ انہوں نے صاحبزادہ صاحب سے اس کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایاکہ دہلی سے بعض علماء اختلافی مسائل پربحث کرنے کے لئے امرتسر آ رہے ہیں کیاکرناچاہئے ۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے اپنا وکیل بنا دیں ۔ ان کے آنے پر میں خود ہی انہیں جواب دے لوں گا۔ جب دہلی سے اہل حدیث مولوی صاحبان آئے تو آپ ان سے بحث کرنے کے لئے تیار ہو کر آ گئے ۔ اس موقعہ پر جو سوالات کئے گئے حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کے ایسے جواب دئے کہ آنے والے مولوی حیران رہ گئے اور خاموشی سے دہلی واپس چلے گئے۔

لکھنو میں حضرت صاحبزادہ صاحب مولاناعبدالحی صاحب فرنگی محلی کے شاگرد تھے ۔ مولانا عبدالحی صاحب دوسرے طالبعلموں کی نسبت آپ کی طرف زیادہ توجہ فرماتے تھے ۔ اس کا دوسرے شاگردں نے شکوہ کیا اس پر مولانانے فرمایا:اس کا نام لطیف ، قوم لطیف، زمین لطیف، رنگ لطیف۔جب اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنے لطف جمع کر دئے ہیں تو ایک لطف میرابھی سہی۔تم کیوں برا مانتے ہو۔ اس موقعہ پرضمناً یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مولانا عبدالحی فرنگی محلی کے ممتاز شاگردوں میں دو اور احمدی بزرگ بھی تھے جو کسی زمانہ میں ان سے تعلیم پاتے رہے۔ یعنی حضرت مولاناسیدعبدالواحد صاحب امیر بنگال اور حضرت مولانا سیدعبدالماجد صاحب امیربہار۔

حضرت صاحبزادہ صاحب ایام طالب علمی میں صوبہ سرحدکے ایک مقام بازیدخیل میں بھی مقیم رہے تھے ۔ یہ گاؤں جناب صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب مرحوم کاہے ۔ بازید خیل میں بہت سے بزرگ عالم گزرے ہیں اورتحصیل علم کے لئے دو ر دور سے طالب علم یہاں آتے تھے ۔ جناب صاحبزادہ غلام احمد صاحب نے بتایا کہ حضرت صاحبزادہ سیدمحمدعبداللطیف صاحب سے ان کے خاندان کی جدی رشتہ داری بھی ہے۔

(قلمی مسودہ صفحہ ۷۷ و چشم دید واقعات حصہ دوم صفحہ ۱۸،۱۹۔ تاریخ احمدیہ سرحد مصنفہ قاضی محمد یوسف صاحب صفحہ ۲۳۶)