شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واپس اپنے وطن جانے کی اجازت مانگنا اور حضورعلیہ السلام کے ارشادات

۵؍مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی زبان میں بعض ارشادات فرمائے تھے جن کا اردوترجمہ اخبارالحکم اور البدر میں شائع ہوا ۔ لکھاہے کہ :

’’ایک خادم نے حضرت اقدس سے رخصت طلب کی ان کا وطن یہاں سے دور دراز تھا اور ایک عرصہ سے آکرحضرت اقدس کے قدموں میں موجود تھے۔ ان کے رخصت طلب کرنے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ انسان کی فطرت میں یہ بات ہوتی ہے اور میری فطرت میں بھی ہے کہ جب کوئی دوست جدا ہونے لگتاہے تو میرا دل غمگین ہوتاہے کیونکہ خدا جانے پھرملاقات ہو یا نہ ہو۔ اس عالم کی یہی وضع پڑی ہے ۔ خواہ کوئی ایک سوسال زندہ رہے آخر پھر جدائی ہے ۔ مگر مجھے یہ امر پسند ہے کہ عیدالاضحی نزدیک ہے وہ کرکے آپ جاویں ۔ جب تک سفر کی تیاری کرتے رہیں۔ باقی مشکلات کا خدا حافظ ہے ‘‘۔(البدر ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد ۵ مطبوعہ لندن۔ صفحہ ۱۷۰ حاشیہ )

۶؍مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعہ۔ مجلس قبل از عشاء جس صاحب نے کل حضرت اقدس سے رخصت طلب کی تھی ان سے مخاطب ہو کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ

’’یہی مناسب ہے کہ عیدکی نماز کے بعد روانہ ہوں کیونکہ پھر سخت گرمی کا موسم آنے والاہے ۔ سفر میں بہت تکلیف ہوگی۔ میں نے جیساآپ سے وعدہ کیا ہے دعاکرتا رہوں گا۔ مجھے کسی امیر یا بادشاہ کا خطرہ نہیں۔ میرا کام دعا کرناہے‘‘۔۔۔۔۔۔ اسی طرح فرمایا۔۔۔’’جب آدمی سلوک میں قدم رکھتاہے توہزارہا بلااس پرنازل ہوتی ہیں جیسے جنات اور دیونے حملہ کر دیا ہے مگر جب وہ شخص فیصلہ کر لیتاہے کہ میں اب واپس نہ ہوں گا اور اسی راہ میں جان دے دوں گا توپھر وہ حملہ نہیں ہوتا اور آخرکار وہ بلا ایک باغ میں متبدل ہو جاتی ہے اورجو اس سے ڈرتاہے اس کے لئے وہ دوزخ بن جاتی ہے ۔ اس کا انتہائی مقام بالکل دوزخ کاتمثل ہوتا ہے تاکہ خدا تعالیٰ اسے آزماوے۔ جس نے اس دوزخ کی پروا نہ کی وہ کامیاب ہوا ۔ یہ کام بہت نازک ہے ۔ بجز موت کے چارہ نہیں‘‘۔(البدر ۱۳؍مارچ ۱۹۰۳ء ملفوظا ت جلد سوم طبع جدید صفحہ ۱۴۰ ،۱۴۱)

*۔۔۔*۔۔۔*

سید احمد نور صاحب کا بیان ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب امیر حبیب اللہ خان سے چھ ماہ کی رخصت لے کر آئے تھے ۔ جب انہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے واپسی کی اجازت کی درخواست کی تو حضور نے فرمایا کہ آپ کاارادہ حج پر جانے کاتھااور حج کا وقت تو گزر چکاہے ۔ آپ ایک سال اور قادیان ٹھہر جائیں اور آئندہ سال حج کرکے افغانستان واپس چلے جائیں ۔اس پر صاحبزادہ صاحب نے عرض کی کہ میں وطن واپس جا کر آئندہ سال حج کے لئے آ جاؤں گا ۔ اس پر حضور نے ان کو اجازت دے دی‘‘۔(شہیدمرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۸،۹)

سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدح میں حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کا قصیدہ

اخبار البدر و الحکم سے معلوم ہوتاہے کہ صاحبزادہ صاحب نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدح میں فارسی زبان میں ایک قصیدہ لکھا تھاجویہاں درج کیاجاتاہے ۔ اس قصیدہ میں کتابت کی بے احتیاطی سے بعض غلطیاں رہ گئی ہیں ۔ لاہورکے بعض صحابہ کی روایت ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہ قصیدہ لاہور میں فی البدیہہ سنایا تھا۔ اور ان کی شہادت کے بعد اخبار الحکم و البدر میں شائع ہوا۔ نمونۃً چند اشعار درج ذیل ہیں:

*۔۔۔*۔۔۔*

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونستعینہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم العظیم

نور شمع جمال
نہ جائے حَرف و نہ جائے مقال

دوائے درد اثقال

عجب کہ احمد اطہر بہ ایں گزر آمد

محمدیست بہ گیسوئے معطر آمد

عجب کہ احمد اطہر بہ ایں گزر آمد

ہلال ماہ جبینش بہ ادب باید دید

عجب مبارک اطہر ہماں قمر آمد

محمد یست بہ گیسوئے معطر آمد

زحسن و ورع و جمالش ملک بحیرت ماند

کہ آفتاب شریعت بہ بحر و بر آمد

عجب کہ احمد اطہر بہ ایں گزر آمد

رخش زگلشن رضواں عرق ہمی ریزد

بہ مہ رویان ارم داغ بر جگر آمد

محمد یست بہ گیسوئے معطر آمد

(یہ ایک لمبا قصیدہ ہے جو اخبار البدر نمبر ۹ جلد ۲ ۔۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء میں شائع ہوا)