شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیفؓ کا وطن ، خاندان اور پیدائش

حضرت صاحبزادہ صاحب افغانستان کے صوبہ پکتیا کے علاقہ خوست کے رہنے والے تھے۔ آپ کے گاؤں کا نام سیّدگاہ ہے جودریائے شمل کے کنارہ پر آبادہے۔

پکتیامیں چند گاؤں آپ کی ملکیت تھے ۔ زرعی اراضی کا رقبہ سولہ ہزارکنال تھا۔ اس میں باغات اور پن چکیاں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ ضلع بنّوں میں بھی بہت سی زمین تھی ۔ آپ کے والد صاحب کا نام سید محمد شریف تھا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمار ا شجرۂ نسب توجل کر ضائع ہو گیا لیکن میں نے اپنے بزرگوں سے سناہے کہ ہم حضرت سید علی ہجویری ؒ المعروف بہ داتاگنج بخش کی اولاد ہیں۔

ہمارے آباء دہلی کے بادشاہوں کے قاضی ہوتے تھے ۔ خاندان کی ایک بڑی لائبریری تھی جس کی قیمت نولاکھ روپیہ بتائی جاتی ہے ۔ جب ہمارے بزرگوں نے حکومت میں عہدے حاصل کر لئے تو ان کی توجہ کتب خانہ کی طرف نہ رہی اور یہ کتابیں ضائع ہو گئیں۔ میرا اپنا یہ حال ہے کہ جائیداد چونکہ مجھے ورثہ میں ملی ہے اس لئے اسے رکھنے پر مجبورہوں ورنہ میرا دل دولت کو پسند نہیں کرتا۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایاہے کہ صاحبزادہ صاحب کی عمر ۵۰سال تھی ۔ حضورؑ فرماتے ہیں:

’’ قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعم اورآرام میں زندگی بسر کی تھی‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۱)

حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت ۱۹۰۳ء میں ہوئی اس طرح ان کا سن پیدائش ۱۸۵۳ء بنتاہے۔

جناب قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحدنے ۱۹۰۲ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو دیکھاتھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’حضرت شہیدمرحوم کا قد درمیانہ تھا۔ ریش مبارک بہت گھنی نہ تھی ۔ بال اکثرسیاہ تھے اور ٹھوڑی پرکچھ کچھ سفید تھے‘‘۔(عاقبۃ المکذّبین حصہ اول صفحہ ۴۰ سن اشاعت ۱۹۳۶ء)

حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگرد سید احمدنور صاحب کابلی نے محرم ۱۳۴۰ھ مطابق۱۹۲۱ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے حالات شائع کئے تھے۔ انہوں نے آپ کی عمر ساٹھ اورستّر سال کے درمیان لکھی ہے۔ میری رائے میں یہ اندازہ کی غلطی ہے ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر شہادت کے وقت جیسا کہ سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تذکرۃ الشہادتین میں( ۱۹۰۳ء میں) تحریرفرمایا ہے پچاس سال ہی تھی۔

(شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۱،۲ ۔ حصہ دوم صفحہ ۵۔عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۴۰)