شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

سیدا حمد نور صاحب کی کابل سے روانگی

سردار عبدالرحمن جان صاحب اور ان کی والدہ محترمہ نے سید احمد نور صاحب کو سفر خرچ کے طورپر کچھ رقم دی انہوں نے بازارجا کر ایک خچر کرایہ پر لی اور خوست روانہ ہوئے جب ایک منزل طے کی تو دیکھاکہ حضرت صاحبزادہ سیدعبداللطیف صاحب کے اہل وعیال اور رشتہ داروں کو قید کر کے کابل لے جایا جارہاہے مستورات اور بچے بھی ساتھ تھے سید احمد نورجب ان کے پاس سے گزرے تو محافظ سپاہیوں نے ان کی خچر چھین لی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کی ضرورت کے لئے استعمال میں لے آئے ان کے متعلق سرکاری حکم یہ تھا کہ جس چیز کی ضرورت ہو راستہ میں بیگار کے طورپر حاصل کر لی جائے

سیداحمد نور نے مصلحتاً حضرت شہید مرحوم کے کسی عزیز یا رشتہ دار سے کوئی بات نہیں کی راستہ میں ایک جگہ بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد انہوں نے مُلاّمیرو صاحب کو دیکھا جو مولوی عبدالستار خان صاحب معرو ف بہ بزرگ صاحب کے بھائی تھے وہ قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ پر آ رہے تھے۔سیداحمد نور نے ان کو اشارہ سے بلایا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت اور ان کی تدفین اور قبر کے متعلق بتایا اور یہ کہا کہ قبر کا مقام سردار عبدالرحمن جان سے دریافت کر لیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کو اس وقت تک آپ کی شہاد ت کا علم نہیں ہوا تھا۔مُلاّ میرو صاحب اپنی محبت اور اخلاص میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے اہل وعیال کے ساتھ ہو لئے تھے ورنہ ان کی گرفتاری کاکوئی حکم نہ تھا۔

سید احمد نور پیدل اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔ شمخیل (ہاشم خیل)میں رات گزاری صبح علی خیل آئے جہاں چھاؤنی تھی اور مقامی حاکم سردار عطا محمد خان رہتا تھا اسے سردار عبدالرحمن جان کا خط دکھایا اور پھر اپنے گاؤں میں آگئے ۔

پندرہ بیس دن کے بعد انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بتایا کہ وہ اب قادیان جائیں گے پھر خدا معلوم کب واپس آئیں یا نہ آ سکیں۔ آپ کی والدہ محترمہ اوربھائی سید صاحب نور صاحب ساتھ جانے کو آمادہ ہو گئے گاؤں کے نمبردارکو پتہ لگا تو اس نے حاکم سردار عطامحمد خان کو اطلاع کردی کہ یہ شخص اپنے رشتہ داروں سمیت قادیان جا رہا ہے اور بے دین ہو جائے گا۔ ظاہر یہ کرتاہے کہ حج کرنے کو جاتاہے یہ ہمارے گاؤں کے معزز لوگوں میں سے ہیں ان لوگوں کے جانے سے ہمارا گاؤں اجڑ جائے گا۔ حاکم نے کچھ سپاہی گرفتاری کے لئے بھجوائے اس وقت سید صاحب نور گھر پر نہیں تھے۔ سپاہی سید احمد نور اوران کے چچا سید نور محمد کو گرفتار کر کے لے گئے۔ سردار عطا محمد خان کو چونکہ سیداحمد نور صاحب سردار عبدالرحمن جان کا خط دکھاچکے تھے اس لئے اس نے ان کو گرفتار تو کر لیا لیکن کوئی سختی ان پرنہیں کی گئی حاکم نے سیدمحمد نور صاحب سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے انہوں نے جواب دیا کہ میر ا ارادہ تو کہیں جانے کانہیں میرے متعلق کسی نے جھوٹی رپورٹ کر دی ہے۔ سید احمد نور صاحب نے بھی حاکم سے کہاکہ میرے چچا کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں رپورٹ تو میرے بارہ میں کی گئی ہے اس لئے میرے چچا کو چھوڑ دیا جائے اس پر حاکم نے سید محمدنور صاحب کو رہاکر دیا

پھر حاکم نے سید احمد نور سے کہا کہ ان کے بارہ میں اسے اطلاع دی گئی ہے کہ وہ حج کو جا رہے ہیں حالانکہ حج کو نہیں بلکہ قادیان جا رہے ہیں اور اس طرح ان کا تمام خاندان قادیانی ہو جائے گا۔حاکم کو یہ بھی خطرہ تھاکہ اگر اس امر کی رپورٹ کسی نے کابل میں کردی تو اس پر بھی سختی ہوگی۔سیداحمد نور نے حاکم سے کہا کہ اگر وہ حج کو جاتے تو جائیداد فروخت کرتے یا روپیہ حاصل کرنے کے لئے کو ئی اور صورت کرتے یہ درست نہیں، وہ حج کو نہیں جا رہے اور نہ ان کے پاس حج کے سفر کے اخراجات کے لئے کوئی رقم ہے اس بات کا حاکم پر اچھا اثرپڑا اور اس نے سیداحمد نور کو بیٹھنے کو کہا اور انہیں چند روز علی خیل میں نظربند رکھا کچھ آدمی آ کر انہیں ملے اورکہا کہ ہم تمہارے ضامن بننے کے لئے تیارہیں تا کہ انہیں رہائی مل جائے سید احمد نور نے انہیں کہا کہ وہ ان کے ضامن نہ بنیں کیونکہ ان کا تو پختہ ارادہ قادیان جانے کا ہے لیکن ان کے جانے کے بعد ان کے ضامنوں کو بلاوجہ تکلیف ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میر ے ارد گرد اگر لوہے کی دیواریں بھی ہوں تو وہ بھی مجھے راستہ دیں گی میں انشاء اللہ چلا جاؤں گا مگراس طرح دھوکہ سے کسی کو ضمانت میں پھنسا کر نہیں جانا چاہتا۔

سید احمد نور صاحب کے یقین کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ جب قادیان سے روانہ ہونے والے تھے تو انہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ عرض کیا تھا کہ وہ قادیان سے باہر نہیں جانا چاہتے تو حضور ؑ نے ان کو فرمایا تھاکہ اس وقت تم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ چلے جاؤ تم بعد میں واپس قادیان آجاؤگے۔

علی خیل میں سیداحمدنور صاحب کے بھائی سید صاحب نور بھی ان کو ملنے آئے انہیں سید احمد نور نے کہا کہ تم پہاڑوں میں سے ہو کر انگریزی علاقہ میں چلے جاؤ۔ میں بعد میں آ جاؤں گا مجھے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔

سیداحمد نور صاحب کی نظر بندی ایسی تھی کہ انہیں ایک کمرہ رہائش کے لئے دیا گیا تھا۔ ہتھکڑی وغیرہ نہیں لگائی گئی تھی۔ایک روز و ہ اپنے کمرے سے باہر نکلے۔ چھاؤنی میں ایک جگہ نمازپڑھی وہاں ایک فوجی جرنیل آیا ا س نے سید احمد نور کو پہچان لیا اور ان سے چھاؤنی میں آنے کی وجہ دریافت کی سید احمد نور نے کہاکہ میں یہاں نظربند ہوں سردار عطامحمد خان نے مجھے یہاں روکا ہواہے۔ اس پر اس جرنیل نے خفگی کا اظہار کیا کہ تمہارے جیسے نیک آدمی کو نظربند رکھنابہت بری بات ہے۔ دونوں نے چھاؤنی کی ایک مسجد میں نماز پڑھی۔ جرنیل نے سیداحمد نور کو تحفۃً چائے وغیرہ دی اور پھروہ چلا گیا۔

سیداحمد نور صاحب عصر کے وقت چھاؤنی علی خیل سے نکلے اور شام کواپنے گھرپہنچ گئے گھروالے ان کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ کس طرح نظربندی سے نکل آیا۔

سید احمد نور نے رشتہ داروں سے مشورہ کیا تو سب نے خوشی سے قادیان جانے کی اجازت دے دی یہ طے پایا کہ اسی رات کو نکل چلیں تا کہ حاکم کی طرف سے روک پیدا کرنے کی نوبت نہ آئے رات کو بارہ بجے کے قریب روانہ ہوئے اس وقت بعض آدمی باہر کام میں مصروف تھے انہوں نے دیکھ لیا اورنمبردارکو اطلاع کردی۔ گاؤں کے لوگ مسلح ہوکر نکل آئے اور ا ن کو جانے سے روک دیا اورکہا کہ جب اس کی خبرحکومت کو ملے گی تو ہم سب گرفتار کر لئے جائیں گے۔ ہم آ پ کو نہیں جانے دیں گے۔

سیدا حمد نور صاحب نے ان سے کہا کہ تم نے حاکم کو رپورٹ کرنی تھی سوہ وہ تم کرچکے ہو۔ اب ہمارے نکلنے سے تم پرکیاالزام آئے گا۔ میں تو اس ملک میں واپس نہیں آؤں گا سید احمد نور نے گاؤں والوں سے کہاکہ میرے باپ نے تمہیں دین سکھایا اورمیں نے بھی تمہاری ضرورت پڑنے پر ہر طرح مدد کی اب اگر تمہارے رپورٹ کرنے پرحکومت حضرت شہید مرحوم کی طرح مجھے بھی مار دے گی تو تمہیں کیافائدہ ہوگا۔ کافی دیر بحث ہوتی رہی لیکن وہ لوگ نہ مانے اور روکنے پراصرارکرتے رہے اسی حالت میں سیداحمد نور صاحب کو کشف ہوا وہ بیان کرتے ہیں کہ :

’’میں نے دیکھا زمین مجھے کہتی ہے کہ تم جاؤ اگر تم کہو تو ان میں سے ایک ایک آدمی کو پکڑ لوں۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرا گھر ، زمین ، سازوسامان اور مال مویشی سب ایک طرف کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ذات تھی پھر سب کچھ غائب ہو گیا اور محض اللہ تعالیٰ کی ذات باقی رہ گئی جب یہ حالت دور ہوئی تو دیکھا کہ گاؤں والے کھڑے ہیں میں نے ان کوپختہ یقین اور دھڑلے سے کہاکہ اب ہم ضرور جائیں گے ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا۔ میری بات کا ان لوگوں پر بہت اثرہوا اور نمبردارمیرے پاؤں پر گر پڑا اور بولا کہ بے شک تم لوگ چلے جاؤ مگر ہمارے خلاف بددعا نہ کرنا۔ میں نے ان سے کہا کہ اب میں تمہیں اس شرط پر معاف کروں گا کہ تم سب مسلح ہو کر ہمارے ساتھ چلو اور اپنی حفاظت میں ہمیں سرحد پار کروا دو اس پرگاؤں والے بندوقیں لے کر ہمارے ساتھ چلے اور ہمیں افغانستان کی سرحد سے گزار دیا وہاں ہم نے ان کو رخصت کر دیا

(قلمی مسودہ صفحہ ۵ تا ۱۰۔ شہید مرحوم کے چشمدید واقعاتحصہ اول صفحہ ۲۱ تا ۲۳)